Monday, February 17, 2025

Arman Ansuoon Mein Beh Gaye

لکھ خالہ جبین بمع اہل و عیال اماں نے عینک درست کرتے ہوئے عمار کو کارڈ لکھوانے شروع کر دیے- لکھ دیا اماں اس نے لکھا ہوا کارڈ ایک سائیڈ پر رکھا اور دوسرا کارڈ اٹھایا- اماں تائی سروری کو تو جلدی کارڈ بھیج دینا حیدرآباد سے خانےوال کا سفر بھی لمبا ہے اور کچھ تیاری بھی تو کرنی ہوگی شادی کی- علینہ نے اماں کو یاد دہانی کروائی- دفع کر تائی سروری لے کر کیا ائے گی؟ شادی میں ہمیں ہی بھگتنا پڑے گا اسے- ساتھ میں دو چار پوتا پوتی کو لٹکا لائی تو کونڈا کرا دیں گے، ہاں اماں کہتی تو تم ٹھیک ہی ہو- پلنگ پر پڑی حکم چلائیں گی اور پان کا خرچہ الگ کروائیں گی- ارے بیٹا تم جلدی سے بنارسی تمباکو ڈلوا کر پان لاؤ میرا سر چکرا رہا ہے طبیعت بڑی بوجل ہو رہی ہے گلوری منہ میں رکھوں تو کچھ طبیعت ستھرے پورے 60 پان بنوا کر چلی تھی گھر سے ،ٹرین میں اپنا چاندی کا پاندان کھولا پورے ڈبے میں پان کی دلفریب مہک سب کے ناکوں سے ٹکرائی، اور مہکا گئی- کیا مرد کیا عورت سب نے للچائی نظروں سے ایسے دیکھا کہ میں نے پانچ منہ میں رکھا تو چبانا مشکل ہو گیا- میں نے بھی سارے پان ان ندیدوں میں ہی بانٹ دیے- نظر میں ائے پان کھا کر مجھے اپنی طبیعت تھوڑی خراب کرنی تھی -عمار نے ہو بہو تائی سروری کے پوپلے منہ کے ساتھ نقل اتاری تو سب کی ہنسی سے فضا گونج اٹھی- تمہاری تائی تو ویسے وہ بخیل ہستی ہے -جو کبھی کسی کو اپنا بخار نا دے- 60 پان تو اس نے اپنی زندگی میں بھی نہ کھائے ہوں گے- ایک پان کو چٹکی چٹکی کھاتے ہفتہ نکال دیتی ہے – اماں نے تائی سروری کے مزید گن گنوائے تو سب نے ان کی تائید میں اپنی موٹی گردنیں پورے زور سے ہلائیں -چل اب ماموں اشرف کو بھی کارڈ لکھ سگا نہیں ہے تو کیا ہوا سگوں سے بڑھ کر جاتا ہے – بہن سمجھ کر ہمیشہ ہر موقع پر کھڑا رہا ہے- تو اس موقع پر اسے کیسے بھول جاؤں؟ ماموں ذات کی محبت اماں کے دل میں امڈ آئی تھی- اماں رشتہ داروں کے کارڈ تو مکمل ہو گئے – اب ذرا محلے والوں کی طرف ا جاؤ، ہاں بھئی محلے والوں کا تو پہلا حق ہے ان کو میں کیسے چھوڑ سکتی ہوں- انگلیوں پر محلے داروں کو گننے لگی کہ کس کس کو بلانا ہے- ابھی تک کارڈ لکھنے کا سلسلہ ختم نہیں ہوا یہاں پیٹ میں چوہے دوڑ دوڑ کر بے دم ہو رہے ہیں ،خدا کے لیے کچھ اٹھ کر کھانے پینے کا ساز و سامان کر لو- کاشی اماں کے پاس دم سے گرا تو وہ سپرنگ والے صوفے کی وجہ سے اچھل پڑی اور گھورتے ہوئے کہنے لگی ایک دن پیٹ پوجا نہ کی تو کچھ نہیں ہوگا- اگر پھر بھی اتنی ہی بھوک ستا رہی ہے تو جا کر بیکری والے سے دو کریم رول پکڑ لاؤ اور دودھ کے ساتھ کھا لو- انہوں نے اپنے پاس سے اٹھا کر اسے باہر کی طرف دھکیلا اور پھر کارڈز کی طرف متوجہ ہو گئیں- اماں ذرا جلدی کر لو ایمان سے میرے تو کمر بھی تختہ ہو گئی، لیکن اب تو انگلیاں دکھنے لگی ہیں اتنی دیر تو میں نے کبھی امتحانی کمرے میں بیٹھ کر نہیں لکھا، جتنی دیر سے میں اس کمرے میں بیٹھا یہ کارڈز لکھ رہا ہوں ، اماں کو سارے کارڈز دے دیے اور خود لیٹ گیا – لو تم لکھتے لکھتے تھک گئے اور میں دیکھ رہی ہوں کہ میں تو بیٹھے بیٹھے اکڑ سی گئی ہوں علینہ پر بھی جھنجھلاہٹ سوار تھی کیونکہ اس کے پسندیدہ ڈرامے کا ٹائم ہو چکا تھا مگر اماں کا حکم تھا کہ یہاں سے کوئی نہ ہلے گا-

جب تک کارڈ مکمل نہ لکھ لیے جائیں -کیا پتہ دماغ میں کوئی ضروری نام لکھنے سے رہ جائے -تو ان میں سے کوئی یا تو کروا دے گا -اے زیادہ چلانے کی ضرورت نہیں ڈرامے کی اگ لگ رہی ہے -تو جا دفعہ ہو جا- جا کے دیکھ اپنی اس پر کٹی سفید پاؤڈر میں لتھڑی ہوئی چپٹی کبوتریوں کو – یہ عمار ہے نا میرا بچہ -دماغ کا تیز اس سے پوچھ لوں گی کوئی نام ذہن سے نکل بھی گیا تو- اماں نے اپنی تعریف سنی تو مزید پھیل کر بیٹھ گیا -اور ادھرعلینہ کمرے سے دوڑ لگا گئی -اماں پھر سے عمار کو نام لکھوانے لگی، اکرام کا باڑیے کا نام فیملی کے ساتھ لکھ دے، ہے تو بیچارہ کباڑیا پر دل کا سخی ہے ،جتنا اس کے گھر والے کھا کے جائیں گے اس سے چار گنا زیادہ دے کر جائیں گے – اماں جلدی جلدی بولو اب تو پینسل بھی جواب دینے لگی ہے، پھیکا پھیکا سے لکھ رہی ہے- ہاں بس اب اپنی گلی میں یہ جو لمبا سا لڑکا رہتا ہے- ارے وہی جو دفتر میں کام کرتا ہے، لمبی سی کار جس کے پاس، امی نے نام یاد نہ انے پر عمار کی طرف دیکھا -نور عالم! عمار نے اماں کا جواب انہیں فورا بتا دیا- ہاں وہی نور عالم انہوں نے محبت سے عمار کےلموترے سر پر اپنا سیاہی مائل ہاتھ پھیرا- اماں ان سے تو ہماری سلام دعا نہیں ہے ،ان کو رہنے دو، ویسے بھی وہ اچھے خاصے پڑھے لکھے ہیں- ہمارے گھر میں آ کر عجیب لگیں گے – اور ہمیں دیکھ کر نہ جانے کیا سوچیں ،عمار نے نام لکھنے سے صاف انکار کر دیا – ارے میں کہہ رہی ہوں لکھ اس کی بیوی سے میری سلام دعا ہے -ایک دو مرتبہ گلی سے گزرتے ہوئے اس نے مجھے سلام بھی کیا ہے – اور اپنے گھر انے کی دعوت بھی دی ہے – اتنا بڑا گھر ہے اس کا تو دل بھی بڑا ہوگا نا ، وہ اس کے ٹائلوں والے گھر سے کچھ زیادہ ہی متاثر لگ رہی تھی- لو بھئی اماں میرا کام تو ختم ایمان سے اب تو نیند بھی انکھوں میں بھر گئی ہے- اس نےبڑی سی جمائی لی ،مگر اگلے ہی پل اماں نے صوفہ چھوڑا اور اپنے بھاری بھرکم وجود کو سنبھالتی باہر تخت کی طرف بھاگی ،جہاں منور حسین سر جھکائے شکست خوردہ سے بیٹھے تھے- کیا ہوا منور حسین ٹھیک تو ہو؟ مگر ادھر خاموشی تھی ارے کچھ تو بتاؤ – یوں منہ لٹکا کر بیٹھے ہو، اماں بھی وہیں تخت پر بیٹھ گئی ، علینہ بھی ادھورا ڈرامہ چھوڑ کر منور حسین کے قدموں میں ا کر بیٹھ گئی – اور منور حسین علینہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر بولے، مجھے معاف کر دینا میری بیٹی، تجھے اب چند جوڑوں اور معمولی جہیز سے اس گھر سے جانا ہوگا – کیا بکے جا رہے ہو؟ مجھے سیدھی بات بتاؤ اماں نے ان کے ناتواں کندھوں پر ہاتھ مارا تو ان کی ہڈیوں کے چٹخنے کی اواز واضح سنائی دی- باقی سب بھی منہ کھولے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں دیکھ رہے تھے- منور حسین حقلائے اماں نے کہا ہاں بولو- اور ان کے خصا ب لگے بالوں پر ہاتھ پھیر کر ان کا حوصلہ بڑھایا اور پانی کا گلاس ان کے لبوں سے لگایا – جو عمار ان کے لیے دوڑ کر لے کر ایا تھا پانی پی کر کچھ حالت تو بہتر ہوئی تھی مگر اواز ابھی بھی کانپ رہی تھی- مگر صورتحال سے سب کو اگاہ کرنا بھی بہت ضروری تھا- وہ ہاجرہ بیگم انیسہ سلطانہ نے شادی سے انکار کر دیا ہے- خبر سنا کر وہ چور سے بن گئے -کیا الفاظ تھے یا بم – ہاجرہ بیگم کو غش آ گیا – علیینہ دوپٹے کو منہ میں پھنسا کر دبی اواز سے رونے لگی، عمار کے چہرے پر بھی یہ خبر سن کر مردنی چھا گئی ،مگر اماں کی حالت دیکھتے ہوئے انہیں جلدی سے انہی کے لہسن پیاز کی بسانت والے دوپٹے سے ہوا دینے لگے- چلو بھر پانی ان کے منہ پر ٹپکایا – تو انہوں نے پر سے انکھیں کھول دی اور بھرائی ہوئی اواز میں منور حسین سے مخاطب ہوئی- پر منور حسین انکار کی کوئی وجہ بھی تو بتائی ہو گئی اس نے – ہاں ،منور حسین نے سرد آہ بھری- وجہ سن کر ہی تو میرے پیروں تلے سے زمین سرک گئی -ارے اب پتہ بھی تو چلے انہیں صبر نہیں ہو رہا تھا- دو دن پہلے ہارٹ اٹیک ہوا ہے اسے کل ہی ہسپتال سے گھر ائی ہے- اج اس نے مجھے فون کر کے بلایا کہنے لگی- میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ،میں تمہیں دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتی، میں نہیں چاہتی کہ تم شادی کے چند دن یا چند ماہ بعد ہی رنڈوے ہو جاؤ – میں تمہارے جیسے مخلص شخص کو یہ دکھ ہرگز نہیں دوں گی- منور حسین یہ بات بتاتے ہوئے تقریبا رو دیے- اور اماں ان کا تو حال یہ تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں- ہائے یہ کیا ہوا- لاکھوں کی جائیداد کی اکلوتی وارث انیسہ سلطانہ منور حسین کی دورپرے کی رشتہ دار تھی- بھاری بھرکم ہونے کے باعث رشتہ ہی نہ ہو سکا -جو آتا انکار کر کے چلا جاتا اور شادی کی عمر نکلتی چلی گئی- ماں باپ کی دنیا سے رخصت ہونے کے بعد وہ اس مکان میں تنہا رہ گئی- سرکاری سکول میں نوکری کرتی، ہزاروں کما رہی تھی ابھی ریٹائرمنٹس لے کر لاکھوں روپے کی مالک بنی تھی -سنا تھا ،جوانی نے منور حسین پر بڑی اس لگائے بیٹھی تھی- اور اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہاجرہ بیگم نے اپنے شوہر منور حسین کا رشتہ اسس کے سامنے رکھا ،تو وہ بھی کچھ پس و پیش کے بعد مان گئی – تنہا رہتے رہتے وہ ا وب گئی تھی اور اپنی باقی ماندہ زندگی وہ بھرے پڑے گھر میں گزارنا چاہتی تھی- ہاجرہ بیگم نے ان کو شیشے میں ایسا اتارا کہ منور حسین کی سادگی اور خلوص بھرا رویہ دیکھ کر انے والے دنوں کے تصور سے ہی وہ کھلی کھلی رہنے لگی- مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا – ہاجرہ بیگم کا یہ خواب کہ دو کمروں کے گھر سے انیسہ کے بڑے سے پختہ اور خوبصورت مکان میں شفٹ ہو جائیں گی- بیٹی خوب جہیز لے کر رخصت ہوگی اور انیسہ کی ساری کمائی میرے بیٹوں کے کام ائے گی- ان کے تو دن ہی پھر جائیں گے بڑی دور کی سوچی تھی انہوں نے اپنے شوہر میں بٹوارا بھی اسی بنیاد پر برداشت کرنے کی ٹھان لی تھی – یہ کڑوی گولی نگلنے کا فیصلہ اپنے بچوں کے خواب پورے کرنے کے لیے کیا تھا -مگر سارے خواب چکنا چور ہو گئے – انیسہ کی انکار کی خبر سن کر وہ اس شعر کی تفسیر بنی ہوئی تھی
قسمت کی خوبی دیکھیے ٹوٹی کہاں کمند
دو چار ہاتھ جب لب بام رہ گیا

Latest Posts

Related POSTS