ان دنوں مجھے گھر یلو کام کاج کے لیے ایک معاون خاتون کی اشد ضرورت تھی۔ عید قریب تھی، گھر کے کاموں کے لیے خاص طور پر ملازمه درکار تھی۔ اسی پریشانی میں بیٹھی ایک دن دعا کر رہی تھی کہ دروازے پر بیل بجی۔ در کھولا تو سامنے ایک بوڑھی عورت کو پایا۔ وہ اتنی تھکی ہوئی اور خستہ حال تھی کہ بے ساختہ میرے منہ سے نکلا۔ بڑی بی، اندر آ جائو۔ میرا مطلب تھا کہ اسے کھانا دے دوں اور کچھ رقم بھی، کیونکہ وہ فاقہ زدہ اور کمزور لگ رہی تھی، کپڑے بھی میلے اور بوسیدہ تھے۔ جب میں نے اسے برآمدے میں بیٹھنے کا اشارہ کیا توہ سمجھ گئی اور بولی۔ دھی رانی! مجھ کو خیرات نہ چاہیے، کام چاہیے۔ اماں ، اس عمر میں تم کون سا کام کرو گی ؟ جو کہو گی کر دوں گی، مجھے سب کام آتا ہے۔ کہیں پہلے کام کیا ہے ؟ نہیں، گائوں سے سیدھی آرہی ہوں۔ پہلا در تمہارا کھٹکھٹایا ہے۔ میرا گھر دیکھ رہی ہو ، کتنا بڑا ہے ، جھاڑو پونچھے کے علاوہ گھر کے اور بھی کام کروانے ہیں، برتن اور کپڑے دھونے ہوں گے ، کھانا بنانا، یہ کوئی نوجوان عورت ہی کر سکتی ہے۔ بیٹی، میں یہ سب کام کر سکتی ہوں۔ دیہاتی عورت ہوں، میں نے بہت سخت کام کیے ہیں بی بی ہم سخت جان لوگ پیدا ہی کام کے لیے ہوتے ہیں۔ اس کے اصرار پر جان لیا کہ یہ بے حد ضرورت مند ہے ، تب ہی کہا۔ اماں ٹھیک ہے۔ تم کھانا کھا لو اور کچھ دیر آرام کر لو، پھر دیکھ لیتے ہیں۔ ویسے کیا کوئی بیٹا، بیٹی نہیں ہیں جو اس عمر میں کام کو نکلی ہو۔ سب ہیں مگر یہ بڑی لمبی کہانی ہے، کبھی بتائو گی۔ خیر اس کی خستہ حالت کو دیکھتے ہوئے مزید سوالات نہ کیے ، اسے کھانا دیا۔ اتنے میں فون کی گھنٹی بجی۔ یہ میری نند شکیلہ کا فون تھا۔ اس نے کہا۔ بھابھی آپ کو ملازمہ کی ضرورت تھی۔ وزیراں کو میں نے آپ کی طرف بھیجا ہے۔ اچھی عورت ہے، سگھڑ ہے اور کام بھی بہت کرتی ہے۔ اپنا باقی کا حال یہ تم کو خود بتادے گی۔ میں نے ماں جی سے پوچھا۔ کون سے گائوں کی ہو اور حیدر آباد کیسے پہنچیں ؟ وہاں ، کہاں قیام تھا؟ وہ بتانے لگی۔ میں پنجاب کے ایک گائوں منڈی سے ہوں اور حیدر آباد میں ایک صاحب کے گھر قیام تھا، ان کی بیوی کا نام شکیلہ ہے۔ شکیلہ بی بی نے ہی آپ کا پتا لکھ کر مجھے دیا تھا کیونکہ وہاں میری جان کو خطرہ تھا۔ میں نے آپ کا گھر بڑی مشکل سے ڈھونڈا ہے۔ میری نند کے گھر رہنے سے تمہاری جان کو کیا خطرہ تھا؟ مجھے بھی تو بتائو ۔ تب ہی اس نے اپنی داستان غم سنائی۔منڈی نامی دیہات میں وزیراں کے شوہر تمیزے کی چند بیگھے زمین تھی۔ اسی باعث ، دن رات کی محنت کے بعد دو وقت کی روٹی پیٹ بھر ، میسر آجاتی تھی۔ تمیزے کا کام کھیتی باڑی کرنا اور مویشی پالنا تھا۔ وہ بھی اس کام میں اپنے خاوند کی مدد کرتی تھی۔ پہلے ان کے پاس صرف تین بیگھے زمین تھی۔ محنت ، مشقت کر کے اور مویشیوں کے کارن، پائی پائی جوڑ کر تین بیگھے اور خرید لی۔ جب سے یہ کنبہ چھ بیگھے کا مالک بنا تھا، وزیراں بڑی بھاگوان کہلانے لگی تھی۔ وہ اب کھیتوں میں کام کرنے کی بجائے اپنے گھر کی چار دیواری میں بیٹھ کے بیٹی کے جہیز کی چادر کاڑھتی رہتی تھی۔ تمیز دار نے بھی اپنی مدد کے لیے ایک چاکر بیلی رکھ لیا تھا۔ یہ غریب ایک یتیم اور بی با سا لڑ کا تھا۔ نحیف و کمزور ، دو وقت کی روٹی اور سالانہ دو بوری گندم کے عوض ، تمام دن ان کے کھیتوں میں کام پر جتا رہتا تھا۔وزیراں کے دولڑ کے اور دولڑکیاں تھیں۔ دیہات میں ریت رواجوں کے باعث شادی کرنا اور گھر بسانا ایک دشوار امر ہوتا ہے۔ بڑے لڑکے کی شادی اس نے بڑی بیٹی کے بدلے میں کر دی اور چھوٹے لڑکے شاکر کے بدلے میں چھوٹی لڑکی شاہانہ کا رشتہ پکا کر دیا۔ سبھی دیہاتی جانتے ہیں کہ بچوں کے رشتوں کی خاطر بدلے کی اس رسم کو وٹہ سٹہ کہتے ہیں۔ جس وقت تمیز دار نے اپنی چھوٹی لڑکی کا رشتہ اس کے ماموں زاد سے پکا کیا وہ چوبیس برس کا اور شاہانہ محض دس برس کی تھی۔ شاکر البتہ جوان تھا، لہذا باپ نے دو بیگھے زمین اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔ بیٹا یہ تیری ملکیت ہے ، اب تم اس میں بوائی کرو اور فصل کاٹو، یہ محنت تم نے اس وجہ سے کرنا ہے کہ تمہارا گھر بسانا ہے۔ دو بیگھے اس نے بڑے لڑکے مشکور کو بھی دیے اور باقی کے دو اپنے پاس رکھ لیے۔ اس طرح تمیزے نے اپنا کام بھی ہلکا کر لیا
اور بیٹوں کا بھی دل جیت لیا۔ وزیراں نے دیکھا کہ اس کا چھوٹا لڑکا شاکر کھیتی کے کام میں جی نہیں لگاتا اور سستی کرتا ہے ، تب ہی وہ اپنے بھائی سے اصرار کرنے لگی کہ وہ بیٹی کی رخصتی دے دے تاکہ شاکر کام میں دل لگائے۔ اب شاکر بائیس سال کا نوجوان تھا، جب بھاری قدموں کے ساتھ زمین پر چلتا تو ماں کے ساتھ دھرتی کا دل بھی دہلتا تھا۔ وزیراں کا خیال تھا کہ شاکر کی عمراب ایسی ہے جب تک اس کے لیے عورت گھر میں نہ لائے گی، وہ کمانے میں جی نہ لگائے گا۔ وہ شوہر کے پیچھے پڑ گئی کہ جلد اس بے تکمیل کو کھونٹے سے باند ھو۔ ایسا نہ ہو کہ یہ بے لگام عمر کے تقاضوں سے بے قابو ہو جائے۔ ادھر شاکر کے حصے کے دو بیگھے اجاڑ پڑے تھے۔ وہ بے دلی سے کام کرتا۔ زمین کو وقت پر پانی نہ ملے تو کیا فصل دے گی ؟ تمیز دار بھی بیٹے کی شادی کرنے کا آرزومند تھا مگر مشکل یہ تھی کہ شاہانہ ابھی چھوٹی تھی اور جب تک وہ سن بلوغت کو نہ پہنچ جاتی، اس کے سسرال والے اسے کیسے بیاہ کر لے جا سکتے تھے۔ بیوی کے کہنے سے تمیز دار شاکر کے ہونے والے سسر کے پاس گیا۔ اس سے استدعا کی کہ وہ اپنی لڑکی زبیدہ کو شاکر سے ابھی بیاہ دے اور ان کو مہلت دے دے کہ جب شاہانہ شادی کے لائق ہو جائے تو وہ ان کی امانت ان کے حوالے کر دے گا۔ تھوڑی سی کشمکش کے بعد زبیدہ کا باپ مان گیا کیونکہ وزیراں اس کی سگی بہن بھی تھی۔ اس نے شادی کی تاریخ دے دی۔ طے یہ پایا کہ تین سال بعد وہ شاہانہ کو بہو بنا کر لے آئے گا مگر اپنی بیٹی زبیدہ کا بیاہ ابھی شاکر سے کر دے گا۔ شاکر کی شادی زبیدہ سے ہو گئی ، اس کا گھر بس گیا اور دل بھی آباد ہو گیا۔ وہ پورے ذوق و شوق کے ساتھ زمین کی آب یاری میں مصروف ہو گیا۔ فصل اتنی اچھی ہوئی کہ تمیزے کی بانچھیں خوشی سے کھل گئیں۔ تین سال میں ہی انہوں نے دو بیگھے اور خرید لیے۔ اب تمیزے اور وزیراں کی خوشی کا کیا ٹھکانہ تھا۔ جہاں حالات کے دبائو میں عورت ، وقت سے پہلے بوڑھی ہو جاتی ہے۔ اولاد کی خوشیاں اور خوش حالی مرد کو پھر سے جوان کر دیتی ہیں۔ اب تمیز بھی اپنے اندر تبدیلی محسوس کرنے لگا تھا۔ جب وہ جوان بہوئوں اور بیٹیوں کو سر خوشی کے احساس سے مدہوش پاتا، اس کا جی چاہتا کہ وزیراں کی جگہ کسی کم عمر عورت سے شادی کر لے تو زندگی کا مزہ آجائے۔ جوانی تو غربت کے بوجھ تلے کراہتے گزری۔ دیہاتیوں میں بھی غربت کے باوجود اکثر دوسری شادی کا رواج ہوتا ہے۔ اس طرح کہ اگر لڑکیاں زیادہ ہوں تو ان کو بدلے میں دے کر باپ یا بھائی اپنے لیے دوسری بیوی لے آتے ہیں مگر تمیز دار کے تو دو ہی لڑکیاں تھیں اور دونوں اپنی بھابھیوں کے بدلے میں جانی تھیں۔ اب تمیزا بغیر وٹے کے دوسری عورت کیسے گھر لا سکتا تھا۔ اس نے اپنی الجھن کا وزیراں سے ذکر کیا تو وہ گم صم رہ گئی۔ سوتن کے آنے کا اسے اتنا غم نہ ہوتا، جتنا ڈر اس بات کا تھا کہ اگر اس کے شوہر نے دوسری شادی کا پکا ارادہ کر لیا تو کہیں سمدھی سے کیے معاہدے سے نہ مکر جائے۔ وہ شاکر کی بیوی کو گھر لے آیا تھا مگر بدلے کے رشتے کے طور پر شاہانہ ابھی تک اس کے بھائی کے گھر بہو بن کر نہیں گئی تھی۔ اب اگر تمیزے دوسری بیٹی کو اپنے بدلے میں دے کر نئی بیوی لے آیا تو شاکر کا گھر اجڑ جاتا۔ اس عورت کو اپنا تو اپنا، ساتھ ساتھ بیٹے کا گھر بھی اجڑتا نظر آرہا تھا۔ اس نے سوچا، تمیزے کی نیت بدلتی دکھائی دیتی ہے۔ اگر وعدے کے مطابق شاہانہ کا ہاتھ زبیدہ کے بھائی کے ہاتھ میں نہ دیا گیا تو یقیناً شاکر کا سسر بھی اپنی بیٹی کو واپس لے جائے گا جبکہ اب تو شاکر اور زبیدہ کے تین پیارے پیارے بچے بھی ہو چکے تھے۔ یہ ظلم تھا، جو تمیز دار سب پر ڈھانا چاہتا تھا۔ وزیراں نے اپنے دونوں بیٹوں اور بہوئوں کو شوہر کے ارادے سے آگاہ کیا اور بھائی کو کہلا بھیجا کہ جلد تم برادری کے مردوں کو لے کر آؤ اور شاہانہ کی رخصتی کی تاریخ لے لو ، ورنہ سمجھ لو کہ لڑکی ہاتھ سے گئی۔ بہن کا پیغام ملتے ہی شاکر کا سسر بھاگا بھاگا آیا اور شاہانہ کو بہو بنا کر لے جانے کی تاریخ مانگی۔ تمیز دار آنا کانی کرنے لگا، تب ہی بیٹیوں، بہوئوں اور بیوی نے مل کر شوہر سمجھایا کہ جب ماموں نے زبیدہ کو دے دیا ہے اور بدلے میں تم شاہانہ کو دینا قبول کر چکے ہو ، تواب دیر کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ وزیراں کا شوہر اس وقت تو مجبور ہو گیا اور تاریخ دے دی مگر سالے کے جاتے ہی بیوی پر برس پڑا کہ تم نے اپنے بھائی کو سندیسہ کیوں بھجوایا۔ میں نے تین برس بعد شاہانہ کو بیاہ دینے کی مہلت لی تھی، یہ پہلے ہی تاریخ لینے کیسے آگیا۔ میں یہ شادی نہ ہونے دوں گا۔ بیوی بولی۔ شاہانہ کے بھائی جوان ہو چکے ہیں اور اب میں اتنی کمزور نہیں رہی۔ تم زبان سے نہیں پھر سکتے ، اگر تجھ کو نوراں جٹی سے دوسری شادی کی اتنی جلدی ہے تو بے شک اس کو بیاہ کر لے آ، اس کے بدلے اپنی زمین اس کے وارثوں کو دے یا بیل دے، مجھے کوئی اعتراض نہیں مگر شاہانہ میرے بھتیجے کی منگیتر ہے۔ تو بد دیانتی کر کے میرے بیٹے کا گھر نہیں اجاڑ سکتا اور نہ میں کبھی اپنی بیٹی کو تیرے بیاہ کے بدلے میں دوں گی۔ بیوی کی بات سن کر وہ غصے سے پھنکارتا ہوا گھر سے نکل گیا۔ مقررہ تاریخ پر بارات آگئی۔ شاہانہ کو ماں اور بھابھیوں نے دلہن بنادیا۔ بھائی مہمانوں کا سواگت کرنے لگے۔ زبیدہ نے شکرانے کے نفل پڑھے کہ اس کے بدلے کی لڑکی اس کے بھائی کے حوالے کی جارہی تھی، سو اس کا گھر بھی اجڑنے سے بچ گیا تھا۔ باراتیوں نے کھانا کھا لیا اور جب شادی کی رسموں کے لیے دلہا نے اس کمرے کی دہلیز پر قدم رکھا جہاں دلہن بیٹھی ہوئی تھی تو اچانک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ تمیزا چلارہا تھا، گالیاں بک رہا تھا کہ تم لوگ نکلومیرے گھر سے، میں اپنی بیٹی تم لوگوں کے حوالے نہ کروں گا۔ سب ہکا بکا رہ گئے ، سمجھے کہ لڑکی کے والد کا دماغ چل گیا ہے۔ رنگ میں بھنگ پڑ گیا۔ باراتی اپنا سا منہ لے کر رخصت ہو گئے۔ شاہانہ کے بھائی بھی دم بخودرہ گئے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ باپ کو کیا ہو گیا ہے۔ چند روز تمیزے گھر والوں سے ناراض رہا، انہوں نے بھی اسے گھاس نہ ڈالی۔ آخر ایک دن شاہانہ کو روتے دیکھ کر اس کے دل نے اسے مجرم قرار دیا۔ ضمیر نے شرمندہ کیا۔ اس نے بیٹے سے کہا۔ ٹھیک ہے، اپنے ماموں سے کہو آکر بہو بیاہ لے جائے۔ میں مگر شادی میں نہ بیٹھوں گا، تم لوگ اپنی خوشیاں پوری کرو، میری خوشی کی کوئی بات نہیں۔ دوسری بار شادی کی تیاریاں ہونے لگیں، لڑکے کو دولہا بنایا گیا۔ مولوی صاحب ساتھ چلے ، پھر سے شاہانہ کو دلہن بنایا گیا۔ بارات آگئی۔ بہن، بھائی کا معاملہ تھا، وزیراں بہن تھی اور دولہا کا باپ اس کا سگا بھائی اس لیے خفگی کا کسی نے خیال نہ کیا۔ عین نکاح کے وقت دلہن کا باپ آگیا۔ اس نے آتے ہی شور مچادیا۔ یہ شادی بغیر ولی کے کیسے ہو سکتی ہے جبکہ میں دلہن کا باپ زندہ ہوں، لڑکی کی میں رخصتی ہر گزنہ دوں گا، جب تک کہ میری شرط پوری نہ ہو گی۔ شرط بتائو۔ دولہا کے باپ نے آگے بڑھ کر کہا۔ اگر تم شاہانہ کو بہو بنا کر لے جانا چاہتے ہو تو میری شادی نوراں جٹی سے کرانی ہو گی۔ وہ بدلے میں لڑکی مانگتے ہیں، نوراں کے بھائی کا گھر بسانے کے لیے تم اپنی بیٹی کا رشتہ ان کو دے کر میری خوشی پوری کر دو۔ میں نے شاہانہ کے بدلے زبیدہ دی۔ اب میں اپنی بہن کے اوپر سوتن لانے کو اپنی دوسری بیٹی نوراں کے بھائی کے نکاح میں دے دوں، یہ کیسی شرط رکھی ہے تم نے ؟ کیا تمہارا دماغ خراب ہے۔ سالے نے بہنوئی سے ترش لہجے میں کہا۔ ٹھیک ہے ، اگر میری شرط پوری نہیں کر سکتے تو بارات واپس لے جائو۔ میں شاہانہ کا رشتہ تم کو دینے سے انکاری ہوں۔ شاہانہ گھونگھٹ میں اپنی قسمت کو روتی رہ گئی اور بارات واپس چلی گئی۔ دولہا جاتے ہوئے کہہ گیا کہ پھوپھا تمیز دار ! سن لو۔ تم نے دو بار ہماری بے عزتی کی ہے۔ اب ہم تم کو دیکھ لیں گے۔ میرا نام بھی حمید نہیں۔ چند دن تک گھر میں موت کا سا سکوت رہا۔ شاہانہ تو پتھر کی مورت بن گئی مگر پتھر کے اندر جو آتش فشاں دہک اٹھا تھا، اس کا لاوا اب امنڈنے کو تھا۔ حمید نے شاہانہ کے پاس اپنی چھوٹی بہن کے ذریعے پیغام بھیجا کہ بتا تیری کیا مرضی ہے۔ اگر تو تیار ہے تورات کو میں نہر کے ادھر تمہارا منتظر رہوں گا۔ نہیں آئو گی تو پھر ہم جانیں اور تیرا باپ جانے۔ میں ضرور آئوں گی۔ شاہانہ نے جواب بھجوایا۔ تمہاری دلہن ہوں ، تمہاری دلہن رہوں گی۔
آدھی رات کو جب سارے گھر والے لحافوں میں دبکے ہوئے تھے ، شاہانہ دبے قدموں گھر سے باہر نکل آئی۔ وہ سردی سے تھر تھر کانپ رہی تھی، مگر سر پر عشق کی گرمی سوار تھی۔ وہ ایک اچھی تیراک تھی ، ندی کے ٹھنڈے پانی میں کود گئی اور تیرتی ہوئی اس پار اتر گئی ، جہاں کنارے پر حمید اس کا منتظر تھا۔ صبح کی پہلی کرن کے ساتھ ہی تمیز دار کی آنکھ کھل گئی۔ شاہانہ کی چار پائی خالی دیکھے اس کا ماتھا ٹھنک گیا۔ قدموں کے نشان باہر گھر کی دہلیز پار کر چکے تھے۔ یہ نقوش ندی کے کنارے ختم ہوئے ، وہ سمجھ گیا کہ ندی کے اس پار آنے والا حمید ہی ہو سکتا ہے۔ وہ غصے میں بھنا گیا۔ جب بھائیوں کو یہ معلوم ہوا کہ رات کی تاریکی میں ان کی بہن اپنے منگیتر کے ساتھ نکل بھاگی ہے تو وہ بھی باپ کے ہم نوا ہو گئے۔ انہیں بہن سے یہ امید نہ تھی کہ وہ ان کو یوں بد نام رسوا کر جائے گی۔ اسی وقت شاکر نے قسم کھائی کہ حمید سے اس حرکت کا ضرور بدلہ لوں گا اور باپ کی بے عزتی کا قرض چکا دوں گا۔ اس نے بچے زبیدہ سے چھین کر اپنی ماں کے حوالے کیے اور بیوی کو یہ کہہ کر میکے روانہ کر دیا کہ باپ سے کہنا ! اپنی لڑکی کو سنبھال، ہم اپنی لڑکی سنبھالنے آرہے ہیں۔ ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ کسی باعث حمید کو پولیس لے گئی اور اسے جیل ہو گئی۔ شاہانہ اپنے بوڑھے ساس، سسر کے پاس تھی۔ یہ رات کا وقت تھا، جب شاکر اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ حمید کے گھر میں داخل ہوا۔ شاہانہ کی آنکھ کھل گئی۔ وہ برآمدے میں نکلی اور کھڑکی سے پکارنے لگی۔ ماموں مجھے بچانا۔ یہ ظالم مجھے اجاڑنے آگئے ہیں۔ ماموں نے بھانجے کو للکارا۔ شاکر وہاں ہی ٹھہر جا، خبردار میری بہو کی طرف قدم نہ بڑھانا۔ تم مر د لوگ ہو تو اسے اٹھا لے جانے کی بجائے میری طرف آئو۔ ماموں کمزور اور بوڑھا تھا۔ نہتا اور اکیلا بھی، بھانجا جوان تھا۔ اس کے ہاتھ میں چھرا اور مدد کو ساتھی بھی ہم رکاب تھے۔ مزاحمت جو ہوئی پل بھر میں ہی شاہانہ کے سسر کا کام تمام ہو گیا۔ وہ چیختی چلاتی رہی مگر بھائی نے بہن کا منہ باندھا اور اس کو گھوڑے پر ڈال کر واپس گھر لے گیا۔
حمید بے چارا جیل کی سلاخوں کے پیچھے ضمانت کا منتظر تھا۔ اس پر نمبر دار کے بکرے چرانے کا الزام تھا۔ اس کو خبر نہ تھی کہ اس کی دنیا لٹ چکی ہے۔ شاہانہ کو تو یہ واپس لے آئے تھے ، اب باپ اور بھائیوں کو دو مسئلے درپیش تھے۔ ایک شاہانہ کی حمید سے محبت جو اس کو گھر واپس جانے پر مجبور کیے ہوئے تھی۔ دوئم حمید کے باپ کا قتل ، جس کی لازمی سزا موت تھی۔ تمیزے نے بیٹے سے کہا۔ لڑکی کو لے کر سندھ کی طرف نکل جا۔ یہاں اگر شاہانہ نے پولیس میں ہمارے خلاف بیان دے دیا تو ہم مارے جائیں گے۔ بھائی، بہن اور ماں کو لے کر حیدر آباد آ گیا۔ اس کے پاس علاقے کے نمبر دار کی چٹھی تھی جو شکیلہ کے شوہر کے نام تھی، یہ وسوں صاحب تھے جو نمبر دار کے دوست تھے۔ اب شاہانہ کی رکھوالی شاکر کے لیے سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ وہ وسوں صاحب کی پناہ میں چند دن ہی رہ سکتے تھے۔ بظاہر شاہانہ کہتی تھی کہ شاکر میں تمہاری بہن ہوں، مجھ سے غلطی ہوئی ہے۔ میں واپس سسرال نہ جائوں گی اور نہ ہی تمہارے خلاف پولیس کو بیان دوں گی مگر شاکر کو یقین تھا کہ یہ خوف سے ایسا کہتی ہے۔ جب موقع ملا یہ ضرور واپس حمید کے گھر جائے گی اور اس کا واپس جانا گویا موت کا آنا ہے۔ ماں شاکر سے سخت ناراض تھی کیونکہ اس نے باپ کے ساتھ مل کر اسی کی بھتیجی، تین بچوں کی ماں زبیدہ کو میکے بھیجا تھا، اس کے بھائی کا بھی خون کر دیا تھا اور شاہانہ کا گھر اجاڑنے کے درپہ تھا۔ اس نے کہا۔ شاکر تو، تو اپنے باپ سے بڑھ کر ظالم نکلا۔ تو شاہانہ سے نہ ڈر۔ وہ تیرے خلاف گواہی نہ دے گی۔ اگر گواہی کی نوبت آئی تو میں دوں گی گواہی، تیری ماں ، اگر تو نے شاہانہ پر مزید کوئی ظلم ڈھایا، تب میں تم کو معاف نہ کروں گی۔ بقول وزیراں گرچہ یہ میرے بیٹے کو محض میری دھمکی تھی تا کہ وہ شاہانہ کو کہیں نقصان نہ پہنچائے مگر شاکر ڈر گیا کہ کہیں ماں اپنے مقتول بھائی کی وجہ سے غصے میں آکر کوئی بیان نہ دے، دے۔ تب ہی وہ ماں سے خطرہ محسوس کرنے لگا تھا۔ بہت سوچنے کے بعد اس نے ماں اور بہن کی وفاداری کو آزمانا چاہا۔ ایک اجنبی عورت کو شاہانہ کے پاس بھیجا اور اس کو سکھا پڑھا دیا۔ عورت نے آکر شاہانہ سے کہا کہ تیرے دیور مریدے نے مجھے تیرے پاس بھیجا ہے۔ وہ کھیتوں سے ادھر بیل گاڑی میں بیٹھا ہو گا، تو رات کو وہاں پہنچ جانا، وہ تجھ کو یہاں سے نکال لے جائے گا۔ خبردار شاکر کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ شاہانہ جو بہت دلگرفتہ تھی، اس نے عورت کے بیان کو سچ جانا اور آدھی رات کو ہی کھیت پار کر کے بیل گاڑی میں جا بیٹھی۔ اندھیرے میں بھی گاڑی بان نے سر اور منہ کو اچھی طرح پگڑ سے لپیٹ رکھا تھا۔ شاہانہ قریب پہنچ کر بولی۔ مریدے میں آگئی ہوں۔ جواب میں صرف ہوں سنائی دی اور ہاتھ کا اشارہ کیا گیا۔ یعنی بیل گاڑی میں بیٹھ جا۔ شاہانہ نے بھی جلدی کی کہ کہیں شاکر کو خبر ہو جائے اور وہ سر پر آپہنچے، وہ جلد از جلد اس علاقے سے نکلنے کی دعا کرنے لگی۔ بیل گاڑی چل دی اور کافی آگے جا کر بیابان میں رک گئی۔ گاڑی بان اتر گیا اور بولا۔ شاہانہ اتر آ، اب سفر ممکن نہیں۔ صبح چلیں گے۔ شاہانہ نے آواز سنی تو لرز اٹھی۔ یہ آواز تو اس کے بھائی شاکر کی تھی۔ وہ بیل گاڑی سے اتر نہ رہی تھی کیونکہ اسے اس کے انجام کا اچھی طرح پتا تھا۔ شاکر نے اسے موت کے گھاٹ اتار نے کی مناسب جگہ منتخب کی تھی۔ وہ خوشامد کرنے لگی۔ میرے بھائی ، مجھے مت مارنا۔ مجھ کو ایک بار مہلت دے دے۔ میں تیرے خلاف کبھی بیان نہ دوں گی۔ تو نہیں، تو ماں میرے خلاف بیان دے گی، جس نے بھاگنے میں آج بھی تیری مدد کی ہے۔ تو غلط سوچ رہا ہے ، ماں کبھی تیرے خلاف بیان نہیں دے گی۔ وہ بیل گاڑی سے اتری تو دیکھا کہ شاکر کے ہاتھ میں چھرا ہے۔ اس نے بہن پر پہلا وار کیا۔ شاہانہ نے ماں کا واسطہ دیا۔ سنگدل بھائی نے دوسرا وار کیا، یہاں تک کہ وہ تڑپ تڑپ کر ٹھنڈی ہو گئی۔ اس کے بعد وہ واپس وسوں صاحب کے گھر نہیں آیا بلکہ نمبر دار کے پاس چلا گیا۔ وہاں سے ماں کو فون کیا کہ شاہانہ کا انتظار مت کرنا، وہ واپس نہیں آئے گی۔ میں نے اس طرح سے تیری دغا باز بیٹی کو ٹھکانے لگادیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ تو میرے خلاف بیان نہیں دے گی، پھر بھی مجھے تجھ پر اعتبار نہیں آرہا۔ اب تو وسوں صاحب کے گھر سے گاؤں چلی جا، کب تک یہاں غیروں کے در پر پڑی رہے گی۔ اتنی کہانی سنا کے وزیراں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ یہ تھی اماں وزیراں کی کہانی جو محض دو سال میرے پاس رہ کر بالآخر ایک روز بیمار ہو کر یہ دنیا چھوڑ کر چلی گئی۔ اس نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ اس کے جیتے جی میں اس کی زندگی داستان غم کو کسی پر افشاں نہ کروں گی ، اس کا راز راز ہی رکھوں گی اور میں نے وعدہ کر لیا تھا۔ بے شک اس کے بیٹے نے سنگین جرم کا ار نقاب کیا تھا۔ وہ بعد میں حمید کے رہا ہو جانے پر اپنے انجام کو پہنچا بھی مگر ماں اسے بچانے کی خاطر مہر بلب رہنا چاہتی ہو گی۔ سچ ہے ماں کا دل سمندر سے بھی گہرا اور وسیع ہوتا ہے ، اس ہستی کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔