Thursday, October 10, 2024

Andhe Rasm o Rawaj

ہماری پھوپھو روشن اکثر اپنے شوہر سے کہتی تھی کہ سائیں ! آپ کی جائیداد بہت ہے اور بیٹیاں بھی بہت ہیں۔ آپ یا تو اپنی زندگی میں جائیداد بیٹیوں کے نام کر دیں یا پھر یہ سب بیچ کر روپیہ بچیوں کے نام پر فکس کروا دیں۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔ اب آپ کس بات کا انتظار کر رہے ہیں؟ یہ گائوں کی ایک ان پڑھ عورت کی سوچ تھی مگر اُن کے شوہر تو پڑھے لکھے تھے۔ شاید اُن کا یہ خیال ہو کہ اگر یہ بیوی مزید اولاد پیدا کرنے سے قاصر ہو گئی ہے تو میں اور شادی کر کے وارث کی اُمید باندھ سکتا ہوں، لیکن اپنے دل کی یہ بات وہ بیوی کو نہ بتاتے تھے ، بس ٹال مٹول سے کام لیتے تھے۔ ایک دن روشن پھوپھی کے شوہر شکار کھیلنے گئے۔ اتفاق سے اُن کے شکاری دوست کا نشانہ خطا ہو گیا اور گولی بجائے جانور کے پھوپھا کو جا لگی، یوں وہ اپنے ہی دوست کی گولی سے زخمی ہو گئے۔ بد قسمتی سے شہر کا اسپتال کافی دور تھا۔ وہاں تک پہنچتے پہنچتے ، شاہ صاحب کا خون اتنا بہ گیا کہ وہ جان بحق ہو گئے۔ وفات سے پہلے ہی انہوں نے لکھ کر دے دیا تھا کہ شکار کھیلنے کے دوران مجھے میرے دوست کی بندوق سے گولی اتفاقا لگی ہے، قصور میرا ہے کہ میں اچانک سامنے آگیا۔ منظور کا کوئی دوش نہیں ہے۔ کاغذ پر انہوں نے دستخط بھی کر دیئے اور ساتھی دوستوں سے بھی کہا کہ بطور گواہان دستخط کر دو، شاید میں نہ بچوں۔ دوست زخم سے خون بند کرنے کا جتن کرتے رہے مگر ناکام رہے۔ وہ حادثے کے تھوڑی دیر بعد غنودگی میں چلے گئے اور اسی حالت میں رستے میں دم دے دیا۔ پھوپھا خیر دین کا گھرانہ سکھر سندھ کے علاقے میں آباد تھا، جہاں ان کی بہت بڑی زمینداری تھی۔ شوہر کی حادثاتی موت کا غم روشن پھوپھو کولے بیٹھا۔ وہ خاوند کے بعد صرف چھ برس جی پائیں۔ ماں باپ کے انتقال کے بعد ان کی چاروں بچیاں اپنے باپ کی جائیداد کی وارث رہ گئیں۔ اب رشتہ داروں کو موقع ملا۔ سب سے زیادہ حق دار چاچا تھا، جو اُن کا وارث مقرر ہوا۔ چاروں بہنیں اپنے چاچا کے یہاں، جائیداد سمیت آگئیں۔ لڑکیاں بڑی ہو گئیں ، چچی کا انتقال ہو گیا۔ بیوی کی وفات کے سات ماہ بعد ہی چچانے ایک سترہ اٹھارہ برس کی نو عمر لڑکی سے دوسری شادی کر لی۔ چچا کو بچیوں کی کوئی فکر نہ تھی۔ قریبی بزرگ ہی بچیوں کے بارے بات کر سکتے تھے۔ چچا کی ایک قریبی رشتے کی بہن نے اُن سے کہا۔ بھائی میر دین، اب تمہاری بھتیجیاں بڑی ہو گئی ہیں۔ ان کے لئے اچھے رشتے اگر برادری میں موجود نہیں ہیں تو غیر برادری میں ہی ان کی شادی کر دو مگر میر دین نے جواب دیا۔ کوئی لڑکا میرے کسی بھائی یا بہن کے گھر موجود ہوتا تو میں ضرور ان کے رشتے کے لئے غور کرتا لیکن یہ نہیں ہو گا کہ ان لڑکیوں کے رشتے غیر برادری میں کر کے اپنے باپ دادا کی جائیداد غیروں کے گھروں میں جانے دوں اور وہ ساکھ جو پشتوں سے ہمارے باپ دادا کو ورثے میں ملی تھی، مٹی میں مل جائے۔ یہ ناممکن ہے۔ شاہ سائیں کے تیور کڑے دیکھ کر ان کی چچازاد چپ ہو گئیں۔

لڑکیوں کے لئے پیغام آتے رہے لیکن چاچا نے سب کو یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ ہم اپنی لڑکیوں کے رشتے باہر نہیں کرتے۔ یہ شریفوں کی بچیاں ہیں، تمام عمر شرافت سے گزار دیں گی۔ لڑکیاں یہ باتیں سنتی تھیں اور کڑھتی تھیں۔ نئے زمانے کی روشنی اب ان تک بھی پہنچ چکی تھی۔ وہ چاہتی تھیں کہ لالچی چاچا کو اس کی شرافت کا مزہ چکھا دیں مگر بے بس تھیں۔ چچا کے مقابل آنا کوئی ہنسی کھیل نہیں تھا۔ بڑی لڑکی شمشاد جس قدر حساس تھی، اتنی ہی کم گو اور بزدل تھی۔ وہ چاچا کے سامنے بات تک نہ کرسکتی تھی۔ یہ تو طے تھا کہ اس کو زندگی میں کبھی دولہا کی شکل نصیب نہ ہو گی۔ اس بچاری کو اپنے خوابوں اور ارمانوں کے چکنا چور ہو جانے کا بڑا دکھ تھا۔ اس سے چھوٹی دلشاد کو بھی یہی دُکھ تھا کیونکہ وہی شمشاد کے بعد تھی لیکن اس لڑکی نے تہیہ کر لیا کہ وہ کبھی بھی اپنے چاچا کو اس کے ارادوں میں کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ وہ باغی طبیعت کی نڈر لڑکی تھی۔ کبھی کبھار چچا کو سامنے جواب بھی دے دیتی تھی۔ سر جھکا کر ظلم سہنا اس کی سرشت میں نہیں تھا۔ اس کو جائیداد کی پروانہ تھی۔ وہ کہتی، جائیداد جائے جہنم ہیں مگر زندگی کو خوشی کے ساتھ گزارنا چاہئے۔ اس کو جھومر ٹیکا لگا کر سجنے سنورنے کا ارمان تھا مگر وہ اپنے یہ ارمان کبھی بھی پورے نہ کر سکتی تھی، کہ غیر شادی شدہ تھی اور کنواری لڑکیوں کو سجنے سنورنے کی ممانعت تھی۔ خاندان بھر میں ایسی لڑکیوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا مگر دلشاد اپنی نو عمر چچی کو بنا ٹھنا دیکھتی تو خود بھی سنگھار پٹی کر کے بیٹھ جاتی، پھر جب کبھی اس کے اُدھیڑ عمر چاچا اپنی نو عمر بیوی سے چونچلے کرتے تو اس کے دل سے بھی ہوک اٹھتی اور اس کا جی چاہتا کہ وہ اپنے ملازم وریل سے ہی لگاوٹ والی باتیں کرنا شروع کر دے اور پھر ایک روز اس نے ایسا ہی کیا۔ اب اکثر رات کو جب سب سو جاتے تو وہ دبے پائوں اُٹھتی اور کھلیان میں چھپ چھپ کر وریل سے ملتی۔ ان کی زیادہ تر ملاقاتیں جانوروں کے باڑے میں ہوتی تھیں، جہاں وریل، رات کو مویشیوں کی رکھوالی کے لئے سویا کرتا تھا۔ دلشاد جب وریل سے ملنے آدھی رات کو آتی تو وہ سائیں شاہ جی کے خوف سے لرز جاتا تھا مگر دلشاد کو ذرا بھی ڈر نہیں لگتا تھا۔

تیسری بہن کی عمر ابھی صرف دس سال تھی۔ چچی بھی امید سے تھی، اس لئے چاچا کا خیال تھا کہ لڑکا ہوا تو اس لڑکی کو اپنی بہو بنالوں گا۔ گھر کی لڑکی گھر میں رہے گی اور جائیداد بھی ہاتھ سے نہ جائے گی۔ خُدا نے سُن لی اور چچی کے لڑکا ہو گیا۔ سبھی خوش ہو گئے ، اب سائرہ کو باہر بیاہنے کی ضرورت نہ رہی۔ گھر کا لڑکا گھر کی لڑکی، ایک بوجھ تو کم ہوا۔ آخری فائزہ ابھی آٹھ برس کی تھی، اس کی فکر نہ تھی۔ ہو سکتا تھا کہ اگلے سال پھر چچی کے لڑکا ہو تو یہ بھی چاچا کی بہو بن سکتی تھی۔ یہاں عمروں کا فرق معنی نہیں رکھتا تھا۔ اصل مسئلہ تو یہ تھا کہ لڑکی خاندان سے باہر نہ جائے۔ سہاگن بھی کہلائے اور جائیداد کا بٹوارہ بھی نہ ہو۔ رہ گیا ازدواجی زندگی کا تصور ، اس بات کی کس کو پروا تھی۔ یہ تو بچاری یتیم لڑکیاں تھیں۔ شمشاد سب سے زیادہ سمجھدار تھی۔ وہ چھوٹی بہن کی پُرجوش اور بھرکیلی طبیعت سے بھی واقف تھی۔ حالات کا جائزہ زیادہ حقیقت پسندی سے لے سکتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ چاروں بہنیں مر بھی جائیں تو ان میں سے کوئی ایک ، نہ تو خوشیوں کا منہ کبھی دیکھ سکتی ہے اور نہ چچا کی مطلق العنانی کو شکست دے سکتی ہے۔ اس کی کوئی سہیلی نہ تھی ، نہ چارہ ساز۔ چھوٹی بہنوں کو وہ تسلی تو دے سکتی تھی مگر ان کے ساتھ دُکھ بانٹ کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا نہ کر سکتی تھی۔ غم نے اندر ہی اندر اس کے نازک دل کو پگھلانا شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی پگھلتی چلی گئی۔ یہ دُکھ کا سیسہ بخار بن کر اس کی ہڈیوں میں ایسا اترا کہ وہ ٹی بی کی مرئضہ بن کر رہ گئی، بالآخر سسک سسک کر مر گئی۔ اتنی وسیع جائیداد کی مالک ہوتے ہوئے بھی، کسی نے اُس کا ڈھنگ سے علاج نہ کروایا۔ مرتے دم تک اس کی اتنی سی خواہش بھی پوری نہ ہو سکی کہ کاش میں کبھی ریل گاڑی میں بھی بیٹھوں۔ دلشاد بہن کے انجام سے ایسی باغی ہوئی کہ وہ نوکر کی بانہوں میں جھول گئی۔ انجام وہی ہوا، جو ایسی خطائوں کے بعد ہوتا ہے۔ خوف کے مارے کسی کو نہ بتایا، مگر جب بات کو چھپانا ناممکن ہو گیا، اس وقت چچا کے غیض وغضب کی کوئی حد نہ رہی ۔ یہ بات جنگل کی آگ کی طرح ہر سو پھیل گئی۔ سائیں جی بڑے پریشان ہوئے کہ اب کیا کریں۔ بس چلتا تو اس نابکار بھتیجی کا گلا گھونٹ دیتے۔ بوکھلاہٹ اور خواری کے خوف سے اپنے علاقے سے مولوی صاحب کے پاس گئے جس پر انہوں نے کافی احسانات کئے تھے۔ مولوی صاحب کو سارا حال کہہ سنایا اور مدد کے طالب ہوئے، بولے۔ مولوی صاحب! میری عزت پر بن گئی ہے۔ آپ لڑکی سے نکاح کر کے میری پگڑی زمین پر گرنے سے بچالو۔ مولوی صاحب بچارے حیران رہ گئے۔ اُن کو ان کی جائیداد کا کوئی لالچ نہ تھا مگر خوف خُدا دِل میں تھا، کہنے لگے۔ شاہ جی میں آپ کی عزت رکھنے پر تیار ہوں، شرط یہ ہے کہ آپ ہونے والی معصوم جان کا خون نہ کریں گے اور اس کے جنم لینے تک انتظار کریں گے۔ اس کے بعد میں آپ کی بھیجی سے نکاح کر لوں گا اور بچہ گناہ کا ثمر سہی ، میں خدا کے خوف سے اس کو اپنے پاس رکھوں گا۔ چچانے یہ بات مان لی۔

خُدا کو دلشاد کا سہاگن ہونا منظور نہ تھا۔ بچے کو جنم دینے کے بعد اس کی دماغی کیفیت درست نہ رہی۔ عمر رسیدہ مولوی کے ساتھ عمر گزارنے کی بجائے اس نے بچے سے چھٹکارا پانے کو ترجیح دی۔ چچی کا کہنا تو ہے کہ دلشاد نے جنون کی حالت میں خود ہی بچے کا گلا گھونٹ کر اس کو گھر کے اندر بنے پرانے کنویں میں پھینک دیا تھا، آگے خُدا جانے کہ واقعہ کیا تھا۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ دلشاد کی ذہنی حالت اور زیادہ دگرگوں ہوتی گئی۔ وہ خلائوں میں گھورتی ، اول فول بکتی، چاچا کو بد دعائیں دیتی، کبھی گیلی مٹی کے گڑے گڈیاں بنا کر ان سے کھیلتی اور پھر توڑ کر پھینک دیتی۔ وہ چاچا کی قید میں کئی برس جیتی رہی بالآ خر بیمار پڑگئی، کھانا پینا چھوڑ دیا۔ زندگی کی ڈور بر قرار رکھنے کے لئے زبردستی اس کے منہ میں جوس وغیرہ ڈالتے تو تھوڑا سا ہی لیتی ، پھر سختی سے منہ بند کر لیتی۔ ایک دن گھر والوں سے آنکھ بچا کر کچرے سے باسی تربوز اُٹھا کر کھالیا۔ اسہال ہوئے ، پھر حالت خراب ہو گئی۔ بڑی پھوپھی شہر کے اسپتال لے گئیں مگر اس کی جان نہ بچائی جا سکی۔ تیسری بہن سائرہ چچا کے بیٹے کے جوان ہونے کے انتظار میں اٹھائیس برس کی ہو گئی، تب چچانے بیٹے کو ڈرادھمکا کر اُس کی شادی سائرہ سے ہی کر دی حالانکہ وہ ہر گز سائرہ اس سے شادی نہ کرنا چاہتا تھا۔ وہ ان دنوں ایف ایس سی کر رہا تھا۔ باپ نے اس کو یقین دلایا کہ بس تم نکاح کر لو ، بعد میں جب چاہو گے اور جس سے چاہو گے ہم تمہاری دُوسری شادی اُسی کے ساتھ کر دیں گے۔ چوتھی کا مقدر بھی ایسا ہی ہوا کہ چچا کے دوسرے لڑکے کے جوان ہونے کے انتظار میں بوڑھی ہوتی رہی۔ یہ ہیں اندرون سندھ کے دیہاتوں میں رہنے والوں کے اندھے رسم ورواج کہ جن کے خلاف آج بھی آواز اُٹھانے والا کوئی نہیں ہے۔

Latest Posts

Related POSTS