Wednesday, October 16, 2024

Andher Nagree

بھائیوں میں کمال بھائی مجھ کو سب سے زیادہ پیارے تھے۔ وہ مجھ سے دو سال چھوٹے تھے لیکن قد کاٹھ میں بڑے لگتے تھے۔ وہ میرا بہت خیال رکھتے تبھی ان کو دل و جان سے چاہتی تھی۔ شروع میں وہ بہت سیدھے سادے اور شریف تھے لیکن میٹرک کے بعد ان کو جس کالج میں داخلہ ملا ، وہ خاصا بد نام زمانہ تھا کہ یہاں طالب علموں کی سیاست عروج پر رہتی تھی۔ اس وجہ سے پڑھائی پر کم توجہ ہوتی تھی۔ شروع میں تو انہوں نے تعلیم پر توجہ رکھی۔ انہیں دنوں مارشل لاء کا دور ختم ہوا اور طالب علموں کی یو نینیں بحال ہو گئیں۔ کمال بھائی نے بھی اپنے کالج کی یونین میں دلچسپی لی۔ اس دوران ان کی دوستی کچھ غلط قسم کے لڑکوں سے ہو گئی۔ انہوں نے ان لڑکوں کے اکسانے پر لیڈر بننے کا عہد کر لیا اور یوں ان کی بربادی کے دن شروع ہو گئے۔ اب وہ مستقبل کے انجینئر ، ڈاکٹر یا ایک اچھا طالب علم بننے کے بجائے کچھ اور بنتے چلے گئے۔ پہلے ان کی جیب میں پچاس روپے بھی نہ ہوتے تھے اور اب ہزاروں میں کھیلنے لگے تھے۔ میرے والدین کو خبر نہ تھی کہ وہ علم کے مہکتے پھول چننے کی بجائے کانٹوں بھرے جنگل کی طرف بڑھ جائیں گے ۔ وہ پہلے طلبہ تنظیم اور پھر کسی سیاسی پارٹی سے منسلک ہو گئے اور پھر ان کے آلہ کار بن کر رہ گئے اور اپنے اصل مقصد یعنی حصول تعلیم کو ہی بھلا دیا۔ بہن بھائیوں میں صرف مجھے کالج اور پارٹی سے متعلق کافی باتیں بتادیا کرتے تھے۔ وہ مجھ پر اعتماد کرتے اور اپنی الجھنوں کے بارے مشورہ بھی لیا کرتے تھے لہٰذا مجھے ان کی سر گرمیوں بارے کچھ نہ کچھ معلومات رہتی تھیں۔ مجھ سے یہ غلطی ہوئی کہ میں نے یہ ساری باتیں والدین کو نہ بتائیں کیونکہ کمال کہتے تھے کہ امی ابو کو مت بتانا، وہ خود تو پریشان ہوں گے ہی مجھ کو بھی پریشان کر دیں گے، لہٰذا ان کے رازوں کو گھر والوں سے پوشیدہ رکھنے لگی۔ شروع میں ان کو ماں باپ کا ڈر تھا لیکن بعد میں اس قدر بے خوف ہو گئے کہ والدین کا ڈر بھی نکل گیا۔ ایک دن میں ان کے کمرے کی صفائی کر رہی تھی، تبھی اچانک میرے ہاتھ ایک کتاب لگی جو ڈبے جیسی تھی۔ وہ اتنی وزنی تھی کہ میرے ہاتھ سے گر گئی۔ اسے اٹھا کر کھولا تو اس کے اندر ایک ریوالور نصب تھا۔ میں حیران رہ گئی۔ اوپر سے تو وہ کتاب ہی لگتی تھی۔ میں نے اس کتاب کو دوبارہ اسی جگہ الماری میں رکھ دیا۔ جب رات کو بھائی گھر آئے تو ان سے اس بارے سوال کیا۔ انہوں نے ٹال مٹول سے کام لیا اور بولے۔ اس کو میں نے حفاظت کے لئے رکھا ہوا ہے۔ ایک دن کمال بھائی گھر آئے تو کچھ پریشان اور گھبرائے ہوئے تھے۔ آتے ہی اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گئے۔ میں کھانے کا پوچھنے گئی تو کہا کہ بھوک نہیں ہے۔ کیا کوئی بات ہو گئی ہے بھیا، کیوں پریشان ہو ؟ پہلے تو کہا کہ کچھ نہیں لیکن بعد میں بتادیا کہ دو گروپوں کے درمیان جھگڑے میں مجھ سے گولی چل گئی جو مخالف گروپ کے لڑکے کو لگی اور وہ موقع پر ہلاک ہو گیا۔ یہ سن کر میں کانپ کر رہ گئی اور خاموشی سے ان کے کمرے سے نکل آئی۔ میں صوفے پر گم صم بیٹھی سوچ رہی تھی کہ اب کیا ہو گا کسی انفرادی لڑائی میں کوئی نہیں مارا گیا تھا۔ یہ تو گروپ کی لڑائی تھی۔ وہ اب کیوں میرے بھائی کو چھوڑنے لگے ضرور کمال کو نقصان پہنچائیں گے کیونکہ جب ایک پورا گروپ دشمن ہو جائے تو ان کی طاقت بڑھ جاتی ہے۔

چونکہ یہ قتل ان کے ہاتھوں گروپ بندی کے باعث ہوا تھا، لہٰذا سیاسی جماعت نے ان کی پشت پناہی کی اور ان کو گرفتاری سے بچا لیا لیکن اس گلو خلاصی کے عیوض اپنی سرگرمیوں میں ان کی خدمات کو اپنے لئے مشروط کر کے ان کی جان چھڑائی گئی۔ اس وقت تو کمال ڈرا ہوا تھا لہٰذا اس نے ان کی ہر شرط مان لی کہ یہ طاقتوروں کی پارٹی تھی لیکن اس کے بعد تو چل سو چل ، جو وہ کام بتاتے ان کو کرنا ہی پڑتا۔ اسی طرح دوبارہ جھگڑوں میں تین کارکنوں کی ہلاکت ہو گئی، ان میں کمال بھائی نے بھی حصہ لیا۔ اس کے بعد تو وہ نامی گرامی بد معاش بن گئے ، کئی ڈکیتیوں اور اغوا کے ارتکاب میں بھی ملوث کئے گئے ، پھر ایک بڑے جھگڑے میں ان کا نام واضح طور پر آگیا تو پولیس نے ان کو گرفتار کرلیا۔ جب کمال بھائی گرفتار ہوئے ، تب صورت حال گھر والوں پر عیاں ہوئی، یوں ان کے سارے پول کھل گئے۔ والد صاحب اور بڑے بھائی تو ششدر رہ گئے۔ وہ ان پر بے حد خفا تھے۔ تبھی ابا جان نے سب کو کہہ دیا کہ خبر دار اس کے پیچھے کوئی گیا تو مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔ اب ہمارا اس سے کچھ واسطہ نہیں۔ ان دنوں میری حالت دیدنی تھی۔ والدہ کا تو براحال ہو چکا تھا کہ نجانے اب کیا ہو گا۔ کافی دن گزر گئے ، بات پرانی ہو گئی اور ان کے پیچھے کوئی بھی نہیں گیا، لیکن بھائی پھر بھائی ہوتا ہے۔ بڑے بھائی کسی کو بتائے بغیر چپکے چپکے کمال سے ملاقاتیں کرتے تھے۔ ایک دن وہ میرے کمرے میں آئے ، دیکھا کہ میں رورہی ہوں تو مجھ سے رونے کی وجہ پوچھی۔ میں نے بتایا کہ میرا دل بہت بے تاب ہے ، کمال بھیا سے ملنے کے لئے۔ انہوں نے کہا کہ کل تیار رہنا، میں تم کو ان سے ملوا دوں گا۔ دوسرے روز ہم بڑے بھائی کے ہمراہ جیل گئے۔ مجھے تو بہت خوف محسوس ہوا۔ جیل کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ایک جانب عام مجرم تھے، لیکن کمال بھائی اسٹوڈنٹ لیڈر والے حصے میں رکھے گئے تھے۔ پولیس والے نے دروازہ کھول دیا۔ میں اور بڑے بھائی اندر چلے گئے۔ کمال بھائی نے چائے اور بسکٹ سے ہماری تواضع کی۔ وہ الگ کمرے میں تھے جو صاف ستھرا تھا۔ کمال بھیا کو جیل میں کچھ سہولتیں حاصل تھیں ، اس وجہ سے وہ پریشان نہ تھے بلکہ صحت مند اور خوش و خرم نظر آرہے تھے۔ ان سے ملنے کے بعد میں اتنی خوش تھی کہ کیا بتائوں۔ انہوں نے بتایا کہ اب میرے سیاسی لیڈروں اور بڑے لوگوں سے تعلقات ہیں۔ وہ جلد میرے لیے کچھ نہ کچھ کریں گے اور میں باہر آجائوں گا۔ میں حیران تھی کہ لوگ ان کو مجرم کہتے تھے اور یہاں ان کو اتنی سہولتیں اور آرام حاصل تھا۔ ان کو مجرموں کے ساتھ بھی نہیں رکھا گیا تھا۔ وہ باہر بھی اتنے زیادہ عیش و آرام میں نہ ہوں گے جتنے اندر تھے۔ ہم تقریباً تین گھنٹے کی ملاقات کے بعد گھر واپس آ گئے۔

کمال بھائی تقریباً چار ماہ بعد رہا ہو گئے۔ جب بھیا گھر آئے ، امی ان کو دیکھ کر رونے لگیں، ابو بھی رو پڑے۔ اب بات کھل چکی تھی۔ جیل سے باہر آنے کے بعد انہوں نے گاڑی رکھ لی جو کسی نے ان کو لے کر دے دی تھی۔ اب وہ رات کو اکثر غیر حاضر رہتے تھے۔ زیادہ تر کالج کے ہوسٹل میں رہتے۔ ایک دن وہ کسی سے فون پر بات کر رہے تھے۔ میں نے کچھ باتیں سن لیں کہ ایک بڑے سیاست دان کا کوئی رشتہ دار ان کی پشت پناہی کر رہا تھا۔ یہ باتیں ایک لڑکے احمد کے بارے میں تھیں ، جو کمال بھیا کے اپنے گروپ کا ہی تھا لیکن پیسے کے لین دین پر ان کا جھگڑا ہو گیا تھا۔ اس طرح بھیا کی مخالف گروپوں کے اسٹوڈنٹ کارکنوں سے بھی دشمنی ہو گئی تھی۔ گویا میرا بھائی چاروں طرف سے خطرات میں گھرا ہوا تھا۔ بھیا کے بارے تمام رپوٹیں مجھے اپنے کزن ابراہیم سے ملتی تھیں جو اسی کالج میں زیر تعلیم تھا۔ وہ مجھے کمال کے بارے سارے قصے بتا دیتا تھا۔ ایک دن ایک سنسنی خیز بات میرے کزن نے بتائی کہ تقریبا دس ماہ قبل کمال نے دو مخالف گروپوں کے چار لڑکوں کو جن کا تعلق لاہور ہی سے تھا، اپنے سر پرستوں کے کہنے پر شدید زخمی کیا تھا۔ بعد میں ان میں سے ایک زخموں کی تاب نہ لاکر ہلاک ہو گیا۔

یوں کمال اب درندوں کی صف میں شامل ہو گیا۔ اپنے کالج کی یونین سے بھی علیحدگی اختیار کر لی کہ یونین والے ان پر نظر رکھے ہوئے تھے اور ان کی سر گرمیوں پر ان کو شکوک و شبہات تھے۔ وہ نجانے کن ہاتھوں میں کھیل رہے تھے کہ ان کا طلب علم ہونا بھی ایک دکھاوا تھا۔ بھیا پر کئی کیس بن گئے ، لیکن ان کی پشت پر کچھ مضبوط ہاتھ تھے۔ وہ دوسری بار اندر گئے لیکن چند ماہ بعد رہا ہو گئے۔ یوں یہ کھیل تھا ان کے لئے۔ گھر والوں نے بہت سمجھایا مگر ان کو تو جیسے کوئی نشہ لگ چکا تھا کہ انسانی خون اب ان کی نظروں میں کوئی وقعت نہ رکھتا تھا۔ یہ پیسہ اور اقتدار حاصل کرنے کا نشہ تھا۔ انہوں نے کسی کی نہ سنی کہ ان کی جیبیں تو نوٹوں سے بھری رہتی تھیں۔ ہم میں سے کبھی کوئی ان نوٹوں کو ہاتھ تک نہ لگاتا تھا۔ ان کی الماری میں کبھی نوٹوں کی گڈی سے میرا ہاتھ چھو جاتا تو میں ہاتھ کھینچ لیتی جیسے کسی بری چیز سے چھو گیا ہو۔ پھر گھر والوں نے بھیا پر توجہ دینی چھوڑ دی۔ والد صاحب کہتے تھے کہ ہماری طرف سے بھاڑ میں جائے۔ بد معاشی کے علاوہ وہ بڑا عیاش بھی ہو گیا تھا۔ میرے ماں جائے کو خراب کرنے والے ہمارے ہی کچھ لوگ تھے ، جن کا مفاد سیاسی لوگوں سے تھا جو طالب علموں اور بے روزگار نوجوانوں کو نوکریاں دلوانے کا وعدہ کرتے تھے۔ یہ لوگ کمال بھائی جیسے لیڈری کے شوقین لڑکوں کو بڑھاوا دیتے اور با رسوخ لوگوں کے لئے کام کروا کر ان کی زندگیاں خراب کر دیتے تھے۔ بھیا کی دو بڑے گروپوں سے انتہائی دشمنی تھی، جن کو مقتدر لوگوں کا تحفظ خاصا تھا۔ بھائی کا ایک مخالف ” ج“ نامی ایک بار اپنے دوست کاشف سے ملنے سمن آباد آیا۔ یہ نوجوان کا شف میرے بھائی کا بھی دوست تھا۔ ج، کا شف سے مل کر واپس جارہا تھا کہ اتفاق سے کمال بھائی کا اس سے ٹکرائو ہو گیا، لیکن بھائی نے اس روز اس پر وار سے گریز کیا کہ کہیں کاشف اس کی زد میں نہ آجائے۔ کا شف ایک خوبصورت نوجوان تھا۔ اس نے کئی دفعہ کوشش کی کہ ان میں صلح ہو جائے اور یہ آپس کی مخالفت کو ختم کر دیں لیکن یہ نہ ہو سکا۔ وہ اکثر کمال بھائی سے ملنے گھر آیا کرتا تھا۔ ایک بار جب وہ بھیا کی غیر موجودگی میں آیا تو میں نے اسے کہا۔ کاشف بھیا، آپ تو پچپن سے کمال بھائی کے دوست ہو۔ آپ ہی کسی طرح یہ دشمنیاں ختم کرا دو۔ ان کو راہ راست پر لے آئو۔ اس نے کہا۔ بہنا، اس کی کسی ایک سے دشمنی ہو تو ختم کرا دوں۔ اس شہر کے ہر سر پھرے سے اس کی دشمنی ہے۔ میں نے پہلے کچھ لوگوں سے تمہارے بھائی کی دشمنی ختم کرائی ہے لیکن سب سے صلح کروانا میرے اختیار میں نہیں ہے۔ میں نے اپنے کزن سے کاشف کے بارے دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ وہ بھی پہلے کچھ عرصہ لیڈری کے شوق میں رہا ہے لیکن جب اس کو آلہ کار بنانے کی کوشش کی تو اس نے دماغ سے کام لیا اور ان کے جال میں نہیں پھنسا کیو نکہ اسے دیگر مشاغل سے اپنی تعلیم اور اپنا مستقبل پیارا ہے۔ وہ جذبات سے نہیں بلکہ عقل سے کام لیتا ہے۔ اس نے سب گروپوں کے ساتھ بنا کر رکھی ہوئی ہے۔ اب مجھے ہر لمحہ اس بات کا ڈر رہتا تھا کہ ہم کہیں اپنے بھیا سے محروم نہ ہو جائیں۔ آخر وہ دن بھی آ گیا۔ بڑی عید کے چند روز بعد بھی ہم سے مل کر گئے۔ جیسے ہی ان لوگوں کی گاڑی چوک میں پہنچی، سگنل بند تھا کہ اچانک ج کی گاڑی ان کے ساتھ آ رکی۔ انہوں نے بھیا کو دیکھتے ہی فائر کر دیئے اور وہ موقع پر ہلاک ہو گئے جب کہ ان کا دوست شدید زخمی ہو گیا۔

جب کمال بھائی کی لاش گھر پہنچی تو میں ان کو دیکھتے ہی بے ہوش ہو گئی۔ والد صاحب اور والدہ کا رو رو کر برا حال ہو گیا۔ ایک دن تو ایسا ہونا ہی تھا۔ کمال بھائی کے ساتھی آئے اور بہت دکھ کے ساتھ ان کی تدفین میں حصہ لیا۔ اس روز مجھے بہت سے لوگ نظر آئے مگر کاشف دکھائی نہ دیا۔ میں نے کزن سے پوچھا۔ بھیا کا جگری دوست نہیں آیا ؟ وہ بولے۔ مجھے اس کا پتا نہیں ہے، کالج جائوں گا تو پتا کروں گا۔ کزن نے کالج سے پتا کیا تو معلوم ہوا کہ وہ اپنے کسی کیس کی وجہ سے نہیں آ پایا۔ اس نے جب اخبار میں بھیا کے افسوس ناک واقعے کی خبر پڑھی تو فورا گھر آیا، بہت رویا، کہنے لگا۔ کاش کمال میرا کہا مان کر اپنے قدم روک لیتا۔ میں اس کو بہت سمجھاتا تھا کہ دشمنی کی فصلیں نہ اگائو کہ ان کو کاٹنا مشکل ہوتا ہے۔ وہ اس روز آخری بار ہمارے گھر آیا تھا۔ بھیا کے قاتل تو جیل چلے گئے لیکن ہم کمال کے دیکھنے کو ترستے رہ گئے۔ جب تک زندگی ہے اس کے دیدار کو تر سنا ہے۔ دعا ہے کہ کبھی کسی کا بھائی کسی بہن سے جدا نہ ہو۔ کاش طالب عمل تعلیم کے لئے خود کو وقف رکھیں۔ سیاست میں اس وقت تک ملوث نہ ہوں جب تک تعلیم کا دورانیہ ختم نہ ہو جائے ، ورنہ بوڑھے ماں باپ سے ان کے جوان سال بیٹے جدا ہوتے رہیں گے۔

Latest Posts

Related POSTS