Thursday, October 10, 2024

Andhi Muhabbat

کہاوت ہے کہ خالی ذہن شیطان کا گھر ہوتا ہے۔ اُن دنوں مجھے بھی فراغت تھی۔ گھر کے کام کو ہاتھ نہ لگاتی۔ بس ہاتھ پر ہاتھ دھرے سارا دن بیٹھی بور ہوتی رہتی۔ رومانی ناول پڑھنے کا بھی شوق تھا۔ انہیں دنوں موبائل فون آگیا اور میں اس میں جت گئی۔ دن رات موبائل فون دیکھنے سے کام تھا۔ والدہ منع کرتیں کہ اتنا مت دیکھا کرو۔ شاید انہی چیزوں کا اثر ہوا کہ مجھے اپنے ہمسایے سے محبت ہو گئی جو پانچ بچوں کا باپ تھا۔ میرا تعلق پنجاب کے ایک معزز گھرانے سے تھا، جب کہ وہ غیر برادری کا تھا اور ہمارے برابر والا مکان اُس نے کرایے پر لیا ہوا تھا۔ یہ محبت اتنی اچانک اور اندھی ہوئی کہ جیسے آندھی اُٹھی ہو اور مجھے کچھ بھی سجھائی نہ دیا۔ ایک ماہ کے اندر ہی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ کر لیا۔ یہ تو ثابت تھا کہ والدین کی نظروں میں یہ رشتہ غیر موزوں ہے اور وہ کسی صورت ماجد سے میری شادی نہ کریں گے۔ عمروں کا اتنا فرق اور اوپر سے سوتن اور اس کے پانچ بچے ، اس کا تو گھر بھی کرایے کا تھا۔ ان حالات میں کوئی عقل کی اندھی بھی ہو تو ایسے آدمی سے شادی نہ کرے لیکن میری عقل کے تو سارے چراغ بجھ گئے تھے۔ میں صرف اس وجہ سے ماجد سے مرعوب ہو گئی کہ وہ میرے حُسن کی بہت تعریف کرتا تھا۔ قصہ یہ تھا کہ اس کی سب سے بڑی بیٹی علیقہ نے اسی اسکول میں داخلہ لے لیا جس میں ، میں پڑھتی تھی ، اس طرح ہم ساتھ آنے جانے لگے۔ علیقہ کو ماجد اسکول چھوڑنے اور لینے آتا تھا۔ پہلے مجھے ہمارے والد اور کبھی ملازمہ چھوڑنے جاتی تھی۔ جب علیقہ کا ساتھ ملا تو اسی کے ساتھ آنے جانے لگی۔ اس طرح میں اس کے گھر بھی جایا کرتی۔ وہاں ماجد مجھ سے باتیں کرنے لگتا اور میری بہت تعریف کرتا۔ ایک روز اس کی بیوی بیمار ہو کر میکے چلی گئی۔ دراصل وہ اپنے پانچویں بچے کو جنم دینے گئی تھی۔ گھر میں اس کے چاروں بچے بوڑھی دادی کے پاس تھے۔ ماجد کو مجھے گھیرنے کا موقع مل گیا۔ وہ ایک خوبصورت شخص تھا، قد کاٹھ سے ، صورت شکل اور شخصیت سے بھی وجیہ تھا۔ چرب زبان کمال کا اور میں ٹین ایج تھی۔ اُسے اپنا آئیڈیل بنا لیا اور اُس کی میٹھی زبان کے گھیرے میں آگئی۔ اس کی بیوی میکے میں ہی تھی۔ ایک روز اسکول جانے کے بہانے ماجد کے ساتھ اکیلی چلی گئی اور اس سے نکاح کر لیا۔ نکاح کے بعد مجھ پر گھر والوں کا ایسا خوف غالب آیا کہ گھر سے ہی نکل گئی۔ جوان بیٹی اچانک گھر سے نکل بھاگے، یہ تو والدین کے لئے مرنے کا مقام تھا۔ بہر حال ایک ہفتہ کی تگ ودو کے بعد گھر والوں نے مجھے تلاش کر لیا۔ والد صاحب زار و قطار روتے ہوئے مجھے گھر لے آئے۔ آنسوئوں سے ان کی سفید داڑھی بھیگ گئی تھی۔ ماں بھی دیوانی سی ہو رہی تھی۔ گھر لا کر والد نے مجھ کو مارا پیٹا اور نہ بے عزتی کی بلکہ تحمل سے سمجھایا کہ بیٹی تم کم سن اور نادان ہو۔ ماجد سے نکاح کرنا، تمہارا جذباتی فیصلہ ہے۔ وہ پانچ بچوں اور بیوی والا ایک شادی شدہ مرد ہے۔ تم فوراً اس سے رشتہ ختم کر لو۔ یہ سراسر غلط فیصلہ ہے، تمہیں چند دنوں بعد ہی اس پر پچھتانا پڑے گا۔

میرے سر پر تو عشق کا بُھوت سوار تھا اور عقل پر پردے پڑے ہوئے تھے۔ میں کوئی ساہوکار کی بیٹی نہ تھی۔ بس ہم عزت دار لوگ تھے۔ آنکھوں پر محبت کا ایسا گہرا رنگ چڑھا کہ میں نے والد کی بات سے صاف انکار کر دیا اور ماجد کے ساتھ زندگی گزارنے کا پختہ ارادہ ظاہر کیا۔ گھر کا جو فرد بھی مجھے سمجھاتا، میں اس کی بات سمجھنے کی بجائے رورو کر ہلکان ہو جاتی تھی، یہاں تک کہ خود کشی کرنے تک نوبت پہنچ گئی۔ تب وہ مجبور ہو گئے اور عزت کے ساتھ برادری والوں کے سامنے میری رخصتی کر دی کیونکہ ابھی تک میرے نکاح اور گھر سے غائب رہنے کا علم کسی کو نہ ہوا تھا۔ باپ نے اپنی عزت بچائی اور میں شادی ہو کر باقاعدہ دُلہن بن کر سسرال آگئی۔ جب ماجد کی پہلی بیوی میکے سے آئی تو حیران رہ گئی کہ اس کی بیٹی کی ہم جماعت اس کی سوتن بن کر گھر آچکی ہے۔ اس وقت میری نندوں اور ساس نے میرا ساتھ دیا، کیونکہ وہ ماجد سے محبت کرتی تھیں۔ اُسے ہی اپنا سربراہ، دُکھ سکھ کا سہارا سمجھتی تھیں۔ انہوں نے ماجد کی خوشی کی خاطر نہ صرف مجھے قبول کیا بلکہ میرے لئے ڈھال بھی بن گئیں۔ اب میں نے شرط رکھی کہ وہ مجھے علیحدہ گھر میں رکھیں گے۔ میں سوتن کے ساتھ نہ رہوں گی۔ انہوں نے یہ شرط مان لی اور پہلی بیوی کو دوسرے کرایےکے مکان میں بچوں سمیت منتقل کر دیا اور میں نندوں، دیور اور ساس کے ہمراہ رہنے لگی۔ ماجد ادھر بھی رہتے اور پہلی بیوی بچوں کو بھی وقت دیتے تھے۔ اُن کی زندگی دو حصوں میں بٹ گئی اور میں یہی سمجھ رہی تھی کہ وہ بس میرے ہیں، صرف مجھ ہی سے محبت کرتے ہیں۔ پہلی بیوی کے پاس تو صرف رسم دنیا نباہنے کو جاتے ہیں۔ چھ ماہ بعد ہی پتا چل گیا کہ ایسی شادی کا کیا انجام ہوتا ہے اور گھر سے بھاگ کر آنے والی کی سسرال میں کیا عزت ہوتی ہے۔ بات بات پر گھر سے بھاگی ہوئی کے طعنے ملتے۔ ”بھاگی ہوئی“ کہہ کہہ کر سسرالیوں نے میرا جینا حرام کر ڈالا۔ میں گھر کا کھانا بنانے میں تو ساس کا ہاتھ بٹاتی تھی مگر مجھ سے ناشتے کے وقت اُٹھا نہیں جاتا تھا کیونکہ والدین کے گھر رات میں دیر تک موبائل دیکھتی تب صبح بھی دیر سے اٹھتی۔ سویرے جلد اٹھنے کی میری عادت ہی نہیں تھی ، جب کہ ساس کہتی کہ تم جلد اٹھا کرو اور ناشتہ سب کے لئے تم ہی بنایا کرو۔ ماجد اور میرے دیور صبح سات بجے گھر سے چلے جاتے تھے۔ ساس فجر کے وقت اُٹھ جاتی تھیں لیکن میرے لئے اتنی جلدی اُٹھنا آسان امرنہ تھا۔ اُٹھ بھی جاتی تو تھوڑی دیر جاگنے کے بعد پھر سو جاتی اور گیارہ بجے تک سوتی رہتی۔

اس بات پر ساس مجھ سے خفا رہنے لگیں۔ ایک روز انہوں نے مجھے صبح پانچ بجے جگایا اور کہا کہ آج تم سب کا ناشتہ تیار کرو گی کیونکہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ یہ کہہ کر وہ فجر کی نماز پڑھ کر سو گئیں۔ میں اُٹھی، چائے بنا کر پی تا کہ آنکھیں پوری طرح کھل جائیں، نیند کا خمار دُور ہو۔ دُودھ کا پتیلا نکال کر چولھے پر رکھا اور صوفے پر لیٹ گئی کہ یہ ذرا گرم ہو تو چائے بناتی ہوں۔ صوفے پر لیٹتے ہی گہری نیند نے آلیا۔ خبر نہ ہوئی کب دُودھ ابل ابل کر چولہے میں گرا، چولہا بھر گیا۔ جلے دُودھ کی بو سارے گھر میں پھیلی اور گیس بھی لیک ہوتی رہی کیونکہ چولہا بجھ گیا مگر بٹن تو آن تھا۔ سبھی کے نتھنوں میں یہ ناگوار بو پہنچی اور ہر کوئی کھانستا ہوا اپنے کمرے سے نکلا۔ ساس بھی اُٹھ گئیں۔ کچن میں جا کر دیکھا تو عجب بربادی کا سماں تھا۔ وہ غصے میں آپے سے باہر ہو رہی تھیں۔ اس روز ماجد بھی گھر پر نہ تھے۔ وہ پہلی بیوی کے پاس گئے ہوئے تھے۔ بس ساس نے مجھے جب کائوچ پر بے خبر سوتے ہوئے پایا تو غصے سے بھوکی شیرنی کی طرح جھپٹ پڑیں اور مجھ نیند کے خمار سے بھری آنکھوں والی کو دھکے دے کر گھر سے نکال دیا۔ اتنی صبح کہاں جاتی۔ ساتھ میں اماں باوا کا گھر تھا، جس کا دروازہ اس وقت کھلا ہوا تھا اور والد فجر کی نماز پڑھنے مسجد گئے ہوئے تھے۔ سر پر اوڑھنی، نہ پیر میں جوتی، ماجد کے گھر سے نکل میں اپنے والد کے مکان میں چلی گئی۔ لڑکھڑاتے قدموں سے ، ڈرتے اور روتے ہوئے اس گھر کی دہلیز پار کی، جہاں سے ایک روز بغیر والدین کی عزت کا خیال کئے نکل پڑی تھی۔ روتے کانپتے دیکھ کر محبت سے مجبور ممتا کی ماری نے مجھے پناہ دی اور اپنی بانہوں میں لے لیا۔ یہ وہی گھر تھا، جس کو میں نے محبت کی چکا چوند میں ٹھوکر مار دی تھی، پیار کرنے والے ماں باپ کو دھوکا دیا تھا۔ اسی چھت نے مجھے پناہ دی ورنہ کہاں جاتی۔ میں اکلوتی اولاد، والد بھی اپنے دل سے میری محبت نہیں نکال سکے تھے۔ انہوں نے ماجد کو بلا کر جواب طلب کیا۔ اُس نے معافی مانگی کہا کہ جب زیب کے ساتھ میرے گھر والوں نے ایسا سلوک کیا، میں گھر پر نہیں تھا۔ میرے والد کے قدموں کو ہاتھ لگایا اور میرا خیال رکھنے کا وعدہ کیا۔ تب وہ بولے کہ اب اگر میری بیٹی سے ناتا رکھنا ہے تو اسے اپنے گھر والوں کے ساتھ نہیں رکھو گے۔ میں اُسے اکیلا بھی تو نہیں رکھ سکتا۔ مجھے کاروبار دیکھنا ہوتا ہے ، کام کے لئے جانا ہوتا ہے۔ آپ کا بھی کوئی اور بیٹا بیٹی نہیں ہے۔ آپ بڑھاپے میں اکیلے ہو۔ اگر میری بات کا برا نہ مانیں تو اپنے مکان کا اوپر والا حصہ کرایے پر دے دیں۔ آپ کی بیٹی آپ کے پاس رہے گی۔ گویا ماجد نے اس طرح ان سے گھر داماد بننے کی درخواست کی تھی، بھلا ابو نے ہم سے کرایہ کیا لینا تھا۔ انہوں نے ماجد کی درخواست کو مان لیا۔ انہوں نے سوچا، اس طرح کم از کم ہماری بیٹی ہماری آنکھوں کے سامنے تو رہے گی۔

اب میں اور ماجد ، والد صاحب کے گھر رہنے لگے۔ وہ ایک دن میرے ساتھ رہتے اور ایک دن دوسرے گھر میں ، جہاں اُن کے بہن بھائی اور ماں رہتے تھے۔ اپنی پہلی بیوی اور بچوں کو بھی اُن کے ہمراہ دوبارہ سے رکھ لیا کہ وہ بھی اکیلے نہ رہیں اور دو گھروں کا کرایہ بھی نہ دینا پڑے۔ میرے والدین کے گھر میں ماجد میرا ہرطرح سے خیال رکھتے تھے اور میرے ماں باپ کے ساتھ بھی عزت و احترام کے ساتھ پیش آتے تھے لیکن گھر کا خرچہ نہ دیتے۔ ہمارا تمام خرچہ میرے والد ہی اٹھاتے ، اس پر بھی ابو چپ ہو رہے کہ ان کی کمائی کھانے والا دوسرا کون تھا۔ میں ہی تو ان کا سب کچھ تھی، پہلے یا بعد میں ان کے سب اثاثے میرے ہی تو تھے۔ زندگی آرام و سکون سے گزر رہی تھی۔ ماجد روزانہ ابو کی گاڑی پر مجھ کو سیر کے لئے لے جاتے۔ اپنی گاڑی انہوں نے دوسرے گھر اور بچوں کے لئے رکھی ہوئی تھی۔ ہمیں جہاں کہیں جانا ہوتا، میں ابو سے کہتی ، وہ مجھے اپنی گاڑی دے دیتے۔ وہ بہت ٹھنڈے دل و دماغ کے انسان تھے۔ چاہتے تھے کہ بیٹی اور داماد میں جھگڑا نہ ہو۔ لوگ نہ سنیں اور کوئی ہم پر نہ ہنسے۔ بے شک روپیہ پیسا خرچ ہو لیکن عزت خراب نہ ہو۔ میکے میں میرا ڈیڑھ سال عافیت سے گزر گیا۔ ایک دن اچانک پانچ مرد ہمارے دروازے پر آئے۔ والد صاحب نے در کھول کر سوال کیا۔ آپ کون لوگ ہیں اور کس سے ملنے آئے ہیں ؟ وہ کہنے لگے کہ آپ ہی سے ملنے آئے ہیں۔ ہم ماجد کے دوست ہیں اور اس کے بارے بات کرنے آئے ہیں۔ والد صاحب گھبراگئے بولے۔ وہ گھر پر نہیں ہیں۔ آنے والے لوگ کہنے لگے۔ ٹھیک ہے وہ گھر نہیں ہے لیکن رہتا تو یہاں ہی ہے۔ اس نے آپ کی طرف بھیجا ہے۔ آپ ہماری بات سن لیں۔ ابو گھبرائے ہوئے تھے کہ ماجد کے اتنے دوست کیوں آگئے۔ میرے داماد کو تو کچھ نہیں ہو گیا۔ خیر انہوں نے کچھ سوچ کر ان لوگوں سے کہا۔ ذرا ٹھہریئے ، میں ماجد کو فون ملا کر آپ کی بات کرواتا ہوں۔ والد صاحب جیب سے فون نکالنے لگے تو یہ غنڈے ان کو دھکا دے کر گھر کے اندر داخل ہو گئے۔ یہ رات آٹھ بجے کا وقت تھا، وہ رقم کا مطالبہ کرنے لگے۔ آپ کے داماد پر ہمارا چالیس لاکھ کا قرض ہے۔ وہ آپ کے پاس رہتا ہے۔ آپ اس کے سربراہ ہیں تو اس کے قرض کی ادائیگی کے بھی آپ ذمے دار ہیں یا تو اس رشتے سے انکار کر دیں کہ وہ آپ کا داماد نہیں ہے اور اس گھر میں نہیں رہتا یا پھر اس کا قرضہ چکتا کریں۔ اب ہم زیادہ صبر نہیں کر سکتے۔ میرے والد صاحب نے بہت کہا کہ اُس کو آنے دیں۔ روبرو بات ہو تو اس مسئلے کا حل نکالتے ہیں مگر انہوں نے ایک نہ سنی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ بیوقوف بوڑھے اس نے تو ہم کو تمہارے گھر کا راستہ دکھایا ہے کہ جائو میرے سسر سے رقم لے لو۔ وہی میرے سرپرست ہیں۔ میرے والد نے کہا کہ میں ایسے کیسے آپ لوگوں کورقم دے دوں۔ مجھے اس کے کاروبار کے بارے میں کچھ معلوم نہیں اور نہ آپ لوگوں کو جانتا پہچانتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہم خود تمہاری اُس سے بات کروا دیتے ہیں۔ انہوں نے فون ملا کر ماجد سے بات کی اور کہا کہ تم ہمارا تعارف کرا دو اور فون میرے والد کے کان پر رکھ دیا۔ ماجد نے ابو سے کہا۔ یہ لوگ میرے کاروباری شریک ہیں۔ جتنی رقم دے سکتے ہیں ، اس وقت ان کو دے دیں۔ میں گھر آکر آپ کو دے دوں گا۔ اس وقت میں نہیں آسکتا کہ کسی مشکل میں پھنسا ہوا ہوں۔ یہ کہہ کر فون بند کر دیا۔

میرے ابو بیچارے پسینہ پسینہ ہو گئے۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن ، آخر کار وہ غنڈے گھر سے سارا ز یور اور قیمتی چیزیں لے گئے اور جب ابو نے مزاحمت کی تو میرے والد کو خوب مارا۔ بولے رقم کا فوری بندوبست کر دیں ورنہ ہم تمہارے داماد کو ختم کر دیں گے۔ اب ہم اس کو بخشیں گے نہیں۔ تھوڑا بہت روپیہ جو والد صاحب نے گھر میں رکھا ہوا تھا وہ تو دے دیا مگر وہ مکان کے کاغذات مانگنے لگے کہ ہم اس طرح اپنا قرضہ چکتا کر کے جائیں گے۔ کاغذات میرے والد نے نہ دیئے۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ ہم غیر لوگوں میں پھنس گئے ہیں، تبھی ابو جان کے سمجھانے پر میں نے ماجد سے طلاق لے لی کیونکہ یہ ایسا واقعہ ہوا تھا کہ خود میں بھی ڈر گئی تھی۔ ماجد نے بتایا کہ میں نے ان لوگوں کا قرض ضرور دینا تھا لیکن انہوں نے مجھے قرض کی وصولی کی خاطر ایک جگہ بند کر دیا تھا۔ اگر میں فون پر جیسے وہ کہلوانا چاہ رہے تھے ویسا نہ کہتا تو ممکن تھا، وہ آپ کو زیادہ نقصان پہنچا دیتے۔ وہ اسلحہ بھی رکھتے تھے ، اسی وجہ سے میں نے ایسا کہا۔ میں اس وقت بے بس تھا۔ میں نے تو ماجد کی بات پر یقین کر لیا لیکن والد صاحب نے نہ کیا۔ کہا کہ جو شخص برا وقت پڑنے پر غنڈے ہمارے گھر بھیج سکتا ہے ، وہ کل کوئی اس سے زیادہ بے ہودہ حرکت بھی کر سکتا ہے۔ اگر قرض خواہ ایسا ہی تنگ کر رہے تھے تو مجھ سے کہتا- شروع دنوں میں طلاق لینے کا مجھے دُکھ تھا۔ دل پر بہت چوٹ لگتی تھی، زندگی بے معنی لگتی تھی۔ طلاق لینے کے باوجود میرے دل ہیں اس کی محبت تھی۔ سوچتی تھی ایسا شخص مجھے نہیں مل سکتا جو ہر وقت میری تعریفیں کرتا رہتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ خُدا نے مجھے صبر دے دیا۔ آہستہ آہستہ میرے دل کو سکون ملا۔ میں تعلیم یافتہ تھی گرچہ مجھے خرچے کی ضرورت نہ تھی، پھر بھی خود کو بہلانے کی خاطر اپنے پائوں پر کھڑا ہونا چاہتی تھی۔ میں نے ایک اسکول میں ملازمت کر لی۔ وہاں اپنی ہم عمر ٹیچروں اور لڑکیوں کے ساتھ میرا دل لگ گیا۔ سوچا بھی نہ تھا کہ دوبارہ شادی کروں گی میں- ایک شخص کا تلخ تجربہ بہت تھا لیکن میری قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔ دو سال بعد میرا رشتہ طے ہو گیا۔ جب میں سولہ سترہ سال کی ایک دوشیزہ تھی تو مجھے اندھی محبت نے ایک شادی شدہ مرد سے باندھ دیا، جس کے پیچھے میں نے اپنے خاندان کی عزت برباد کر لی۔

آج سوچتی ہوں تو زندگی کے رنگ نظر آتے ہیں۔ میری دوسری شادی ایک غیر شادی شدہ لڑکے سے ہو گئی جس کا نام ارسلان تھا۔ یہ رشتہ میرے والد صاحب نے ڈھونڈا اور کروایا تھا۔ ارسلان ان کے مرحوم دوست کا بیٹا تھا۔ وہ والد کے پاس کاروبار کے بارے میں مشورہ لینے آیا تو باتوں باتوں میں والد نے پوچھ لیا۔ بیٹے تم نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی ؟ تم تو اچھا کما رہے ہو اور اپنے مرحوم باپ کا کاروبار بھی خوب سنبھال لیا ہے۔ انکل میری والدہ بیمار رہتی ہیں۔ والد حیات ہوتے تو میری شادی کرواتے ۔ اب کون کروائے گا بھلا۔ اس پر ابو نے اُسے میرے بارے میں بتایا اور پوچھا کہ اگر تم راضی ہو تو میں اپنی لڑکی کا نکاح تم سے کرنے پر تیار ہوں۔ تمہارا باپ میرے بچپن کا دوست تھا، تمہاری ساری فیملی میری دیکھی بھالی ہے۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد ارسلان نے ہاں کہہ دی شاید اسے اپنی بیمار ماں کے لئے بھی گھر میں ایک سہارے کی ضرورت تھی۔ چند دن بعد وہ اپنی والدہ کو لے آیا۔ اُن کی والدہ میری والدہ کے پاس کئی بار آچکی تھیں۔ خواتین کی بھی رضا مندی ہو گئی تو میری شادی ارسلان سے کر دی گئی۔ اس بار میں نے اپنے والد صاحب کی خوشی کو مد نظر رکھتے ہوئے اُن کا کہنا مان لیا اور میرے والد کی پسند میرے لئے مبارک ثابت ہوئی۔ ارسلان ان کی قدر کرتے اور میری بھی، وہ بہت اچھے انسان ثابت ہوئے۔ اب مجھے دوسری شادی کر کے کوئی پچھتاوا نہ تھا، سوائے اس کے کہ اگر میں ماجد کے ساتھ گھر سے بھاگ کر شادی نہ کرتی تو یہ میری پہلی شادی ہوتی۔ ارسلان کے گھر میں پہلی بار ماں بنی۔ میرے گلشن میں وہ خوبصورت پھول کھلے جن کی مہک نے گھر کو معطر بنادیا۔ پہلی غلطی کے بارے میں اب سوچنا تک نہ چاہتی تھی۔ ماجد کے ساتھ محبت دراصل میرے لئے یادوں کا ناسور تھی، وہ محبت نہیں میرے دماغ کا فتور تھا۔

کاش ہم لڑکیاں جو اپنے خوبصورت سپنوں میں ڈوبی رہتی ہیں، عقل سے کام لیا کریں۔ میں تو کہتی ہوں کسی لڑکی کو اس کم عمری میں اپنی مرضی سے شادی نہ کرنا چاہئے کیونکہ وہ اس وقت ناپختہ ذہن کی مالک ہوتی ہے۔ تعلیم یافتہ اور کم از کم بائیس سال کی عمر کے بعد کوئی دانا لڑکی اپنی قسمت کا فیصلہ صحیح کر سکتی ہو گی تا ہم اپنے بزرگوں کا ساتھ ہو تو وہ شادی شدہ بیٹی پر چھپر چھائوں کی طرح رہتے ہیں۔ دُکھ سکھ میں اُس کا ساتھ بھی دیتے ہیں اور سسرال والوں کو بھی علم ہوتا ہے لڑکی لاوارث نہیں، اس کے وارث ہیں۔ ہم سے اگر زیادتی ہو گی تو وہ پوچھ گچھ کرنے آئیں گے۔ یوں بھی عورت کی راہ کانٹوں سے بھری ہوتی ہے اور لڑکیاں اس چکر میں برباد ہو جاتی ہیں۔ میں خوش قسمت تھی کہ ٹھوکر کھا کر والدین کی طرف مڑی تو انہوں نے گلے سے لگا لیا مگر میری اسکول کی ساتھی استانی جس سے میری دوستی ہو گئی تھی، اُس کا نصیب میرے جیسا نہ تھا۔ اُس کے محبوب نے شادی کا وعدہ کر کے اُسے بیچ منجدھار میں چھوڑ دیا۔ وہ مصیبت کا وقت تو کسی طرح سے مل گیا۔ اس کے بعد اُس کی پھر شادی نہ ہو سکی اور وہ بھی دوسری زخم خوردہ لڑکیوں کی طرح راہ عشق کی کٹھن مسافت میں کام آگئی۔ اس راہ عشق میں کوئی فنا ہو جاتا ہے اور کوئی ٹھوکر کھا کر سنبھل جاتا ہے۔ جب والدین نے اسے قبول نہ کیا تو ایک نیک طبیعت لیڈی ڈاکٹر نے اسے پناہ دی اور پھر اسے اپنی سہیلی کے سپرد کر دیا جو اسکول کی پرنسپل تھی۔ ندا ایف اے پاس تھی۔ خاتون پر نسپل نے نہ صرف اسے بیٹی بنا کر اپنے گھر میں رکھ لیا بلکہ اپنے اسکول میں ٹیچر لگایا۔ اس طرح وہ اپنے پائوں پر کھڑی ہو گئی اور تعلیم بھی جاری رکھی۔ اس کے کئی رشتے آئے۔ پرنسپل نے ندا کو سمجھایا کہ تم گھر بسالو، میں تمہاری شادی کروادیتی ہوں اور ایک ماں کی طرح تم کو رخصت کر دوں گی، مگر نداراضی نہ ہوئی۔ ایک بار شادی کے خواب میں کھو کر اپنی پاکیزگی گنوا چکی تھی۔ پس یہ خیال ہی اُس کے لئے سوہان روح تھا کہ شادی کرے گی تو بربادی ہو گی۔ وہ جس گھر رہتی تھی وہاں اُسے عزت اور دولت اور محبت مل گئی تھی، تحفظ بھی ملا تھا تو شادی اس کے لئے ایک بے مقصد چیز ہو کر رہ گئی۔ میں نے کئی بار اس کو سمجھایا کہ ندا ! ماضی تو گزر چکا، اسے بھلا کر اپنا گھر بساؤ کیوں کر عمر بھر ایسے ہی زندگی بتا پائو گی ؟ اس کا جواب ہوتا کہ میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔ کبھی ضرورت محسوس کی تو سوچوں گی، مگر ابھی میرا دل اس امر پر آمادہ ہی نہیں ہوتا۔ لگتا ہے کہ میرا دل، میری خواہشات مرچکی ہیں۔ میں تو بچوں میں مصروف ہو گئی۔ شادی کے بعد اسکول کی جاب بھی چھوڑ دی۔ شروع میں ندا سے ملاقات رہی بعد میں ملاقات بھی نہ ہو پاتی تھی۔ ایک دن وہ اچانک مل گئی۔ میں نے پوچھا کیا شادی کی ہے یا ابھی تک اپنی ضد پر قائم ہو ؟ بولی۔ پہلے دل آمادہ نہ ہوتا تھا۔ جب دل کو آمادہ کیا، تنہائی مٹانے کے لئے شادی کی ضرورت محسوس ہوئی تو عمر بہت آگے سرک چکی تھی۔ اب رشتے تو نہ آتے تھے۔ پرنسپل امی نے خود بھی کوششیں کیں لیکن بات نہ بنی۔ پرنسپل امی بوڑھی ہیں ، ان کو میری ضرورت ہے۔ اُن کو چھوڑ کر کیسے چلی جاتی۔ ان کی خدمت میں وقت کٹتا رہا اور اب پینتالیس سال کی ہو گئی ہوں۔ پرنسپل امی بھی فوت ہو گئی ہیں، ان کے بیٹے اور بہو کے ساتھ رہتی ہوں۔ وہ مجھ کو اسی طرح عزت اور محبت سے رکھے ہوئے ہیں، جیسے اُن کی امی رکھتی تھیں۔ ان کا اسکول بھی میں سنبھالتی ہوں، ان کی جگہ پر نسپل ہوں۔ آئینہ دیکھتی ہوں تو آئینہ بھی کہتا ہے کہ دو چار سال میں اور بوڑھی ہو جائو گی ، تو اس عمر میں شادی کی کیا ضرورت ہے ؟ ندا کا جواب سن کر میں لاجواب ہو گئی۔

Latest Posts

Related POSTS