Friday, September 20, 2024

Andhyer – Complete Story

چاولوں کی کٹی ہوئی فصل کو سیمنٹ کے ایک بڑے سے پتھر پر پیٹا جارہا تھا۔ اس عمل سے اناج اور پھونس علیحدہ کیا جارہا تھا۔ اطراف میں دور تک پھیلے ہوئے چاولوں کے اس کھیت میں متعدد مدقوق سے ہاری جن میں عورتیں اور جوان لڑکیاں بھی شامل تھیں، ٹولیوں کی صورت میں بڑی تندہی کے ساتھ کام میں مصروف تھیں۔ حالانکہ اکتوبر کا مہینہ ختم ہونے والا تھا لیکن ان محنت کشوں کے چہرے پسینے میں تر تھے۔ ویسے بھی اندرون سندھ کے دیہی علاقوں میں قیامت خیز گرمیاں مشکل سے جان چھوڑتی تھیں۔ اس وقت سورج سروں پر مسلط آگ برسا رہا تھا۔ کھیتوں میں کام کرنے والے یہ سب لوگ گوٹھ کے ایک با اثر زمیندار رئیس جابر خان کے مزدور تھے۔ یہ گوٹھ رئیس جابر خان کے پردادا وسند خان کے نام سے موسوم تھا جو لاڑکانہ کے نواح میں واقع تھا۔ اس کے جنوب میں رائس کینال کا سبک رو پانی چھوٹی چھوٹی کاریزوں کے ذریعے آس پاس کی زمینوں کو سیراب کرتا تھا۔ یہ گوٹھ تین چار سو نفوس پر مشتمل تھا۔ وہاں بابا اللہ یار کی آٹا پیسنے کی چکی کے علاوہ ایک گورنمنٹ ڈسپنسری، پرائمری اسکول اور مڈل اسکول تھا۔ آبادی کے وسط میں ایک مسجد تھی۔ اس وقت کھیتوں میں کام کرنے والے ان جفاکش ہاریوں میں ایک غریب ہاری حسین بخش کا بھی خاندان تھا اور حسین بخش خود، اس کی بیوی مائی مختاراں اور جوان بیٹا محمدپنل بھی کام میں مصروف تھے۔ ان کا تعلق تھر کے ایک ریگستانی علاقے مٹھی سے تھا۔ وہاں قحط اور خشک سالی کی وجہ سے دیگر باشندوں کی طرح یہ خاندان بھی وہاں سے ہجرت کرکے یہاں آن بسا تھا۔ ہاری حسین بخش کی اپنے خاندان کے ساتھ یہاں آباد ہونے کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ گوٹھ وسند خان میں ایک عرصے سے اس کا بڑا بھائی سکھیو، اپنی بیوی عنایتاں اور بیٹے سرمد کے ساتھ رہتا تھا۔ درحقیقت اپنے بڑے بھائی سکھیو کے ایما پر ہی حسین بخش نے اپنے پورے کنبے سمیت یہاں منتقل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ حسین بخش کی ایک اٹھارہ سالہ بیٹی سوہنی تھی۔ وہ اپنے بھائی پنل سے دو سال چھوٹی تھی۔ عموماً وہ گھر پر ہی رہتی تھی، اپنی بھابھی ریشماں کے ساتھ… پنل سے اس کی شادی کو تین سال ہوچکے تھے مگر اس کے کوئی اولاد نہیں تھی۔ آغاز میں حسین بخش اپنے کنبے سمیت دو تنگ و تاریک کوٹھری نما گھر میں رہتا تھا لیکن پھر رفتہ رفتہ اس نے وڈیرے جابر خان سے اجازت لینے کے بعد ایک چھوٹے سے قطعہ زمین پر کچی اینٹوں پر مٹی کا لیپ کرکے اپنا الگ سے گھر بنا لیا تھا۔ اس میں بھی اس کے بڑے بھائی سکھیو کی کوششوں اور محنت کا دخل تھا۔ معاش کا مسئلہ بھی سکھیو نے حسین بخش کو وڈیرے کی زمینوں پر مزدوری دلا کر حل کروا دیا تھا۔ حسب دستور فصل اترنے پر انہیں آدھا حصہ مل جایا کرتا تھا جس میں یہ لوگ کچھ حصہ اپنے لیے محفوظ کرلیتے تھے اور بقیہ حصہ شہر کی منڈی میں لے جاکر فروخت کر آتے تھے۔ فصل کا آدھا حصہ تو بس نام کا تھا وگرنہ ان بے چارے غریب ہاریوں کو آدھا حصہ بھی کب ملتا تھا۔ بیج، یوریا حتیٰ کہ ڈھل (ٹیکس) بھی ان ہاریوں کو بھرنا پڑتا تھا۔ اس پر بالائے ستم کہ کمیشن کی صورت میں دو تین من اناج وڈیرے جابر خان کا حریص منشی میرو پہلے ہی کاٹ لیتا تھا۔ کسی کی کیا مجال جو ذرا بھی صدائے احتجاج بلند کرے۔ وہ جانتے تھے اس طرح انہیں نہ صرف مزدوری سے ہاتھ دھونے پڑیں گے بلکہ بے گھر بھی ہونا ہوگا مگر حسین بخش کے بیٹے پنل کو یہ بات گراں گزرتی تھی لیکن وہ باپ کی تنبیہ کی وجہ سے خاموشی اختیار کئے رکھتا تھا۔ اس بار جب فصل اچھی اتری تو پنل نے کہہ دیا تھا کہ وہ منشی میرو کو ایک بوری سے زیادہ کمیشن ہرگز نہیں دے گا۔ جست کے ایک ٹیڑھے میڑھے گلاس میں صراحی سے پانی انڈیل کر وہ پینے لگا اور اس کی گمبھیر نظریں دور ایک منحنی سے شخص پر مرکوز تھیں۔ اسے دیکھ کر پنل کی آنکھوں میں نفرت کے سائے لہرا گئے۔ یہ منشی میرو تھا۔ رجسٹر بغل میں دبائے اپنے چند مسلح حواریوں کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنے والے ہاریوں پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ اس کی گول عدسوں والی عینک کے عقب سے حریصانہ چمک صاف عیاں ہوتی تھی۔ گلاس صراحی کے اوپر رکھ کر پنل دانت پیسنے لگا۔ اسے معلوم تھا کہ ان ہاریوں میں بے چارے وہ افراد بھی تھے جو وڈیرے کی نجی جیل کے قیدی تھے۔ ان کو خود ساختہ قرضوں اور سود در سود کی زنجیروں سے جکڑا گیا تھا۔ اس دوران اس کا باپ حسین بخش بھی آگیا۔ اس کے بدن پر صرف ایک میلی لاک (تہبند) تھی۔ ’’پیو! اس بار ہم منشی کو صرف ایک بوری گندم کی دیں گے بس…!‘‘ پنل نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ حسین بخش پانی پیتے پیتے چونک کر اپنے کڑیل بیٹے کے پرجوش چہرے کو تکنے لگا۔ اسے اپنے بیٹے کی بات سے انجانا سا خوف محسوس ہونے لگا تھا۔ ’’ناں پٹ! ایسا مت بول۔ منشی میرو بڑا کمینہ آدمی ہے۔‘‘ وہ دور کھڑے منشی میرو کی طرف دیکھتے ہوئے سرگوشی کے انداز میں بولا۔ ’’اس نے اگر وڈے سائیں سے شکایت کردی تو مزدوری سے بھی جائیں گے۔‘‘ ’’بابا! ہم محنت کرتے ہیں، ہم حق رکھتے ہیں کہ اپنی مرضی سے جو دیں، وہ اسے قبول کرنا ہے نا کہ ہمیں…‘‘ پنل نے قدرے جوش بھرے لہجے میں کہا۔ اس کا باپ ہاتھ جوڑ کر عاجزی سے بولا۔ ’’دیکھ پٹ اور نہیں تو میرے بڑھاپے کا ہی خیال کر۔ مت لگ اس مردود کے منہ، مجھے تو اب تیرے سے بھی ڈر لگنے لگا ہے۔‘‘ باپ کی بات سن کر ہمیشہ کی طرح پنل بے بسی اور غصے سے اپنے دانت پیس کر خاموش ہونے پر مجبور ہوگیا۔ ٭…٭…٭ دور مشرقی افق پر شام کے سرخی مائل سناٹے اترے ہوئے تھے۔ بلند و بالا نہنگ اور کھجوروں کے درختوں کے جھنڈ کے اوپر دن بھر کے تھکے ماندے پرندوں کی ترتیب وار ڈاریں بڑی بھلی معلوم ہورہی تھیں۔ فضا میں آمدِ سرما کی ہلکی ہلکی یخ بستگی اترنے لگی تھی۔ مٹر اور چنوں کے کھیتوں کے درمیان سانپ کی طرح بل کھاتی پگڈنڈی پر نازک اندام سوہنی پانی سے بھرے دو گھڑے اٹھائے چلی آرہی تھی۔ ایک گھڑا اس کے سر پر دھرا تھا جبکہ دوسرا اس نے اپنی لچکیلی کمر پر ٹکا رکھا تھا۔ اس نے مخصوص تھری لباس پہن رکھا تھا۔ تانبے جیسی رنگت پر پیلی چنری، چمکتا ہوا گیروا گھاگھرا اور شوخ رنگ کی کڑھائی والی چولی جس پر ننھی منی سیپیوں کا دلکش کام کیا گیا تھا، نے اس کے حسن کی سادگی کو ایک عجیب کشش بخش دی تھی۔ کانوں میں چاندی کے بالے اور کندنی کہنیوں تک پلاسٹک کے سفید کڑے، ستواں ناک میں دمکتے ہوئے بلاق نے اسے ثقافتی نمونہ بنا دیا تھا۔ اس کی رنگت شہابی تھی البتہ اس کی بڑی بڑی کجراری آنکھوں میں موئن جودڑو کی سی اداسی تھی۔ وہ قدرے تیز تیز قدم اٹھاتی چلی جارہی تھی کہ اچانک ایک بدہیت شخص اس کے سامنے آن کھڑا ہوا۔ سوہنی اس بدرو شخص کو دیکھ کر رک گئی۔ تاہم اس شخص پر نگاہ پڑتے ہی سوہنی کے معصوم چہرے پر لخت بھر خوف اور پھر دوسرے ہی لمحے انتہائی نفرت کے تاثرات ابھر آئے۔ وہ شخص بھی ڈھٹائی کے ساتھ اپنے بھدے چہرے پر مکروہ مسکراہٹ لیے اس کی جانب گھورے جارہا تھا۔ ’’میرا راستہ کیوں روکا ہے…؟ ہٹ پرے…!‘‘ سوہنی نے تڑخ کر اور قدرے حقارت سے اسے گھورتے ہوئے کہا۔ ’’اڑی چھوکری! غصہ کیوں کرتی ہے؟ ایک بار ذرا میری بات سن لے پھر نہیں آئوں گا تیرے آگے۔‘‘ اس نے معنی خیز خباثت سے کہا۔ یہ دادن تھا۔ دبی ہوئی قامت مگر جثے کے لحاظ سے بیل معلوم ہوتا تھا۔ رنگت اس کی الٹے توے جیسی سیاہ تھی۔ وہ ایک بدخصلت اور اوباش شخص تھا۔ شادی شدہ اور دو بچوں کا باپ تھا۔ سوہنی کو اس کی اس ڈھٹائی پر غصہ آگیا۔ غصے کی تپش اور اوپر سے دو پانی سے لبالب بھرے ہوئے گھڑوں کے بوجھ نے اس کی سانس پھلا دی تھی۔ وہ غصے سے ہانپتے ہوئے بولی۔ ’’میں کہتی ہوں ہٹ جا میرے رستے سے ورنہ… ورنہ میں تیری شکایت اپنے بھائی پنل سے کردوں گی۔ وہ کلہاڑی سے تیرے ٹوٹے کر ڈالے گا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے ایک قدم آگے بڑھایا مگر دادن پر اس کی دھمکی کا مطلق اثر نہ ہوا۔ وہ بدستور اپنی جگہ کھڑا ڈھٹائی کے ساتھ بُری نظروں سے سوہنی کے حسین سراپے کو گھورتے ہوئے بولا۔ ’’اڑی او… چھوکری! تیرا بھائی میرے کیا ٹوٹے کرے گا۔ ٹوٹے تو تیری حسین جوانی نے پہلے ہی میرے کر ڈالے ہیں۔‘‘ ’’شکل دیکھی ہے کبھی تو نے اپنی آئینے میں… میں کہتی ہوں ہٹ آگے سے میرے۔‘‘ سوہنی تلملا کر بولی۔ ’’نہیں ہٹوں گا۔‘‘ وہ ہٹیلے پن سے بولا۔ ’’تجھے آج میری بات سننا ہوگی۔‘‘ مگر سوہنی اس کی بات تو کجا، اس کی صورت دیکھنے کی بھی روادار نہ تھی مگر اس نے کڑے دل سے سوچا کہ روز روز کی اس ذہنی اذیت سے آج چھٹکارا پا لینا چاہئے۔ چنانچہ وہ چپکی کھڑی رہی مگر اس کے چہرے پر ہنوز نفرت بھری پرچھائیاں موجود تھیں۔ دادن اسے خاموش کھڑا دیکھ کر دل ہی دل میں خوش فہمی میں مبتلا ہوکر بولا۔ ’’بس… یہ کہنا تھا تم سے سوہنی کہ مجھ میں کیا بُرائی ہے۔ اچھا کھاتا پیتا ہوں، خاصی زمینوں کا مالک ہوں۔ تو اگر مجھ سے شادی کرلے تو رانی بنا کر رکھوں گا تجھے۔‘‘ ’’بس… یا اور کچھ؟‘‘ ’’اور… اور… یہ کہ… میں تیرا جواب سننا چاہتا ہوں۔ تو پیسے کی ذرا فکر نہ کر، تیرے ماں، پیو کو اتنا روپیہ دوں گا کہ ساری زندگی آرام سے گزاریں گے۔‘‘ سوہنی کی فطرت دوسری سیدھی سادی لڑکیوں سے مختلف تھی۔ وہ کوئی چھوئی موئی سی رہنے والی شرمیلی سی لڑکیوں میں سے نہیں تھی۔ اس نے آٹھ جماعتیں پڑھ رکھی تھیں، تعلیم نے اسے سنوارا تھا، شعور عطا کیا تھا، وہ اپنا بُرا بھلا بہتر طور پر سمجھتی تھی۔ اس نے آج دادن کو آڑے ہاتھوں لینے کا فیصلہ کرلیا تھا، چنانچہ اس نے خاموشی سے پانی کا مٹکا زمین پر رکھا۔ دادن کھڑا امید بھری نظروں سے اس کی طرف تکے جارہا تھا۔ اس کے بعد سوہنی جلتی سلگتی نظروں سے دادن کے سیاہ رو چہرے کی طرف گھور کر نفرت بلاخیز لہجے میں بولی۔ ’’میں نے تیری بکواس سن لی اور اب تو بھی آخری بار میری بات کان کھول کر سن لے۔ اپنے گھر جا اور اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ انسانوں والی زندگی بسر کر، بڑھاپے میں تجھے یہ چونچلے اچھے نہیں لگتے۔ رہی بات میری تجھ جیسے کے ساتھ شادی کرنے کی تو میں زہر کھا کر مرجانا بہتر سمجھوں گی مگر تیرے سے شادی ہرگز نہیں کروں گی۔ اب دوبارہ میرے راستے میں آنے کی جرأت نہ کرنا۔ ورنہ تیرے جیسے بدمعاش کی بے عزتی کرنے میں ایک لمحے کی بھی دیر نہیں لگائوں گی۔‘‘ یہ کہہ کر سوہنی نے غصے سے بھناتے ہوئے مٹکے اٹھا کر دادن کے قدموں کے قریب دے مارے اور پائوں پٹختی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ احساسِ ذلت تلے دادن کے مکروہ چہرے پر وحشتیں سی اُمڈ آئیں اور وہ بڑی معاندانہ نظروں سے سوہنی کو جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ پھر وہ غصے میں بڑبڑایا۔ ’’تیرا غرور جلد توڑوں گا چھوکری…!‘‘ ٭…٭…٭ سرمد کھیتوں میں کام کرکے تھکا ہارا گھر پہنچا۔ وہ اپنے چچا زاد پنل کا ہم عمر تھا اور اس جیسا کڑیل اور گبرو جوان تھا مگر پنل کے برعکس وہ ٹھنڈے مزاج کا ایک سیدھا سادا نوجوان تھا۔ جھگڑے فساد سے دور بھاگتا تھا اور اپنے بڑوں کی لکیر والی فقیری اختیار کئے ہوئے تھا۔ گھر خالی تھا۔ ابھی اس کے ماں، باپ کھیتوں سے نہیں لوٹے تھے البتہ سرمد اپنا کام معمول سے ذرا جلد نمٹا کر واپس آگیا تھا۔ گھر گارے مٹی کی کچی دیواروں پر مشتمل تھا، جس میں دو کمروں کے نام پر کچی کوٹھریاں بنی ہوئی تھیں۔ کچا صحن البتہ خاصا کشادہ تھا جہاں ایک طرف چارہ کاٹنے کی مشین اور وہیں قریب ہی ناند کے پاس ایک بدنما چھپر تلے کھرلی تھی جہاں ایک بھینس بھی بندھی ہوئی تھی۔ ایک مرغی چوزوں کی فوج ظفر موج کے ساتھ کڑکڑاتی پھر رہی تھی۔ سرمد نے ایک کونے میں لگے ہینڈ پمپ سے منہ، ہاتھ دھویا پھر اپنے کاندھے پر دھرے انگوچھے سے منہ صاف کرنے لگا۔ اس کے بعد اس نے داہنی جانب والی دیوار پر بنی ایک چھوٹی سی کھڑکی کی طرف دیکھا جو اس کے چاچے ہاری حسین بخش کے گھر کے صحن میں کھلتی تھی۔ کھڑکی بند تھی۔ معاً کھڑکی کے دونوں پٹ وا ہوئے اور سوہنی کا من موہنا چہرہ ابھرا۔ وہ سرمد کو پیار بھری نگاہوں سے دیکھنے لگی۔ اسے دیکھ کر سرمد کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگیں۔ وہ شرمیلے انداز میں اسے دیکھ کر مسکرایا اور پھر صحن میں بچھی چارپائی پر بیٹھ گیا۔ ’’اے سرمو! وہاں کیوں بیٹھ گیا؟ ادھر آ نا…!‘‘ سوہنی نے بڑے دلارے سے اس سے کہا۔ سرمد کچھ گھبرایا۔ سوہنی کھنکتی ہوئی آواز میں ہنسی پھر جیسے اس کی گھبراہٹ کی وجہ بھانپ کر بولی۔ ’’آجا ادھر… میرے گھر میں بھی کوئی نہیں ہے۔‘‘ یہ سن کر سرمد کو ذرا تسلی ہوئی اور وہ چارپائی سے اٹھ کر کھڑکی کی طرف آگیا۔ ’’سرمو…! اتنا ڈرتا کیوں ہے رے…! آخر کو ہم دونوں…‘‘ سوہنی نے ایک ادائے دلربائی سے اس کی طرف دیکھ کر کہا اور ذرا شرمیلے انداز میں دانستہ اپنا جملہ ادھورا چھوڑا۔ مگر سرمو اس کی ادھوری بات کا مطلب جان کر بولا۔ ’’وہ تو ٹھیک ہے… پر… یہ اچھا نہیں لگتا۔‘‘ ’’کیا اچھا نہیں لگتا؟‘‘ وہ اٹھلا کر بولی۔ پھر اک ادا سے اس نے اپنی چمکیلے پراندے والی چھن چھن کرتی چوٹی کو پشت سے سینے پر پھینکا اور یونہی اس سے کھیلتے ہوئے بولی۔ ’’ہم کیا کرتے ہیں؟ کیا تھوڑی سی باتیں بھی نہیں کرسکتے ایک دوسرے کے ساتھ…؟‘‘ ’’کیا بات کریں…؟‘‘ سرمو ہونقوں کی طرح اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر بولا۔ سوہنی کو اس کے بھول پن پر بے اختیار ہنسی آگئی۔ بولی۔ ’’تو تو بالکل بھولا ہے۔ اچھا سن! یہ بتا تجھے میں اچھی لگتی ہوں؟‘‘ سرمد نے اس پر ایک نظر ڈالی، پھر ہلکی سی مسکراہٹ سے فوراً اپنا سر ہلا دیا۔ ’’یہ کیا…؟ زبان نہیں ہے تیرے منہ میں جو یوں سر ہلا دیا۔‘‘ ’’تو اور کیا کروں…؟ تو نے پوچھا میں اچھی لگتی ہوں، میں نے ہاں کہہ دی۔‘‘ سرمد نے ہولے سے کہا۔ سوہنی بولی۔ ’’تو بھی پورا دھچر ہے! زبان سے بول کتنی اچھی لگتی ہوں میں تجھے؟‘‘ سوہنی اسے چھوڑنے والی کہاں تھی۔ وہ اب گویا اس کے شرمیلے پن سے حظ اٹھا رہی تھی۔ وہ جان چھڑانے والے انداز میں بولا۔ ’’اچھا بابا! تو مجھے بہت اچھی لگتی ہے بس؟‘‘ ’’سرمو! تجھ سے ایک بات کہوں؟‘‘ سوہنی نے اچانک سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔ ’’کون سی بات؟‘‘ اس نے پوچھا۔ ’’بس رہنے دے۔‘‘ کچھ سوچ کر سوہنی چپ ہورہی۔ اچانک دروازے پر آہٹ ابھری۔ ’’چل بند کر کھڑکی، لگتا ہے بابا اور اماں آگئے ہیں۔ میں چلا۔‘‘ سرمو نے جلدی سے کہا اور پھر واپس چارپائی کی طرف آگیا۔ سوہنی نے بھی جلدی سے بے آواز کھڑکی بند کردی۔ ٭…٭…٭ دو مرغے آپس میں لڑ لڑ کر لہولہان ہورہے تھے اور ان کے گرد جمگھٹا بنائے لوگ انہیں بآواز بلند شہ دے رہے تھے مگر ان میں دو افراد زیادہ پرجوش اور سرگرم دکھائی دے رہے تھے۔ ایک تھا کادو موالی اور دوسرا دادن۔ ’’واہ رے… میرے راکٹ! بھگا دے دشمن کو… آگے بڑھ… ہوڑ… ہوڑ… ہوڑ… بھگا دشمن۔‘‘ دادن نے جوش سے بپھرے ہوئے اپنے مرغے کو ’’ہلا‘‘ دیا۔ اس کے مرغ کا ’’میدانی‘‘ نام راکٹ تھا۔ مخالف سمت میں کھڑے اپنے ساتھیوں کے آگے کھڑے منحنی سے لمبوترے چہرے والے کادو موالی نے بھی اپنے مرغے کا جوش بڑھاتے ہوئے چلا کر کہا۔ ’’شاباش! میرے لانچر! اڑا دے دشمن کو… بھگا دے دشمن کو… آگے بڑھ۔‘‘ دونوں مرغے شاید اپنے اپنے مالکوں کی زبان خوب سمجھتے تھے۔ چنانچہ ایک بار پھر دونوں نے پَر پھیلائے۔ اچھل اچھل کر اپنے نوکیلے پنجوں سے ایک دوسرے پر حملہ کرنا شروع کردیا۔ میدان میں ایک بار پھر لوگوں کا شور ابھرا۔ پھر اچانک دادن کے راکٹ کو کادو موالی کے لانچر پر حملہ کرنے کا موقع مل گیا اور اس کے انگوٹھے پر چڑھے ہوئے فولادی نیش نے لانچر کی ایک آنکھ پھوڑ ڈالی۔ بس پھر کیا تھا، کادو موالی کا مرغا میدان چھوڑ بھاگا۔ دادن کے حواریوں نے بآواز بلند اس کے راکٹ کے حق میں نعرے بلند کرنا شروع کردیئے اور پھر دونوں نے ایک دم آگے بڑھ کر اپنے اپنے مرغوں کو پکڑ لیا۔ ’’چل رے کادو! نکال دو ہزار روپے۔‘‘ دادن نے پژمردہ کھڑے کادو موالی سے کہا۔ کادو موالی نے اپنی میلی صدری سے ہزار کا ایک میلا نوٹ اس کی طرف بڑھا دیا اور شکست خوردہ لہجے میں بولا۔ ’’یہ ہزار لے لے، باقی بھی دے دوں گا۔‘‘ ’’نہیں، مجھے ابھی دے شرط کے پورے پیسے۔ میں تجھے ایسے میدان سے نہیں جانے دوں گا۔‘‘ دادن فوراً لڑنے مرنے پر اتر آیا۔ ناچار کادو موالی نے اپنی لاک (تہبند) کی ڈب سے پانچ پانچ سو کے دو نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیئے اور بُرا سا منہ بنا کر اپنے راستے پر ہولیا۔ وہاں موجود دادن کے ساتھیوں نے اسے گھیر لیا اور بابل خان کے چھپر ہوٹل میں دودھ پتی چائے اور بسکٹ کھلانے پر اصرار کرنے لگے۔ دادن خوش تھا۔ وہ اپنے راکٹ (مرغ) کو اپنی بغل میں دبائے پیار کررہا تھا۔ بولا۔ ’’اڑے بابا، تم سب بابل خان کے ہوٹل میں چلو، میں بھی اپنے راکٹ کو ذرا مرہم لگا کر اور دوا دے کر آتا ہوں۔‘‘ اس کے حمایتی نعرے لگاتے ہوئے بابل خان کے ہوٹل چل دیئے۔ دادن اپنے گھر پہنچا۔ گھر اگرچہ کچی دیواروں پر مشتمل تھا مگر کافی کشادہ تھا۔ دو بڑے کمرے اور ایک کمرہ چھوٹا کوٹھری نما تھا۔ یہ اس راکٹ کے لیے مخصوص تھا۔ صحن کے وسط میں ایک رلی بچھی چارپائی پر ایک فربہ اندام عورت بیٹھی تھی، جو چارپائی پر دراز ایک دس بارہ سال کے بچے کے سر پر برف کی پٹیاں رکھ رہی تھی۔ بچہ بخار سے پھنک رہا تھا اور عورت جو اس کی ماں تھی، عالم پریشانی اور غم سے نڈھال زیرلب بدبدا رہی تھی۔ وہ خدا سے اپنے بچے کی صحت یابی کی دعائیں مانگ رہی تھی۔ یہ زلیخاں تھی، دادن کی بیوی۔ وہ اپنے حلیے سے دکھوں کی پوٹ نظر آرہی تھی۔ اس کی آنکھوں کے گرد حلقے پڑے ہوئے تھے۔ بچے کی تیمارداری اور بے آرامی کے باعث وہ بے چاری خود بھی نڈھال ہورہی تھی۔ وہ تیس پینتیس کے پیٹے میں تھی۔ ’’اڑے رمضو کے پیو! تجھے ہماری پروا بھی ہے کہ نہیں…؟‘‘ وہ اپنے شوہر دادن کو دیکھ کر جلدی سے چارپائی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’تجھے اللہ سائیں کا واسطہ میرے بچڑے (بچے) کو حکیم سائیں کے پاس لے جا۔ اس کا تاپ (بخار) نہیں ٹوٹ رہا۔‘‘ دادن نے خشمگیں نظروں سے اسے گھورا پھر جیب میں ہاتھ ڈال کر پستوں کی ڈھیری نکال کر مرغ کے سامنے رکھ دی۔ مرغا جلدی جلدی اس کی پھیلی ہوئی ہتھیلی پر چونچیں مار مار کر پستے ٹونگنے لگا۔ دادن اسے مصروف کرنے کے بعد اپنی بیوی سے بولا۔ ’’موسمی بخار ہے، اتر جائے گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اندر کوٹھری میں آگیا۔ مرغے کو آہستگی سے نیچے اتارا۔ پھر ایک چھوٹے سے بکسے سے مرہم پٹی کا سامان نکال کر مرغے کو مرہم لگانے میں مصروف ہوگیا۔ اس کام سے فارغ ہونے کے بعد وہ صحن سے گزرتا ہوا بیرونی دروازے کی طرف بڑھا۔ اس کی بیوی زلیخاں ہاتھ جوڑتے ہوئے اس کے سامنے آگئی اور روہانسے لہجے میں التجا کرکے بولی۔ ’’تھوڑے پیسے تو دے دے رمضو کو حکیم کے پاس لے جائوں۔ کتنے دنوں سے گریب بخار میں تڑپ رہا ہے۔‘‘ دادن نے اسے کرخت نظروں سے گھورا پھر جیب سے دس کا مڑا تڑا نوٹ نکال کر اسے دے دیا اور باہر نکل گیا۔ بے چاری زلیخاں کبھی اپنے ہاتھ میں موجود دس کے میلے نوٹ کو دیکھتی، کبھی مرغے کی کوٹھری کی طرف…! ٭…٭…٭ دادن، بابل خان کے چھپر نما ہوٹل پہنچا تو اس کے حمایتی اس کے کھاتے میں دودھ پتی پینے میں مشغول تھے۔ دادن نے ایک پیش گار چھوکرے کو جیب سے سو کا کرارا نوٹ نکال کر تھما دیا اور پھر وہاں سے سیدھا منشی میرو کے پاس پہنچا۔ دادن کو یقین تھا کہ منشی میرو اس وقت اپنے گھر میں ہوگا۔ منشی میرو سے اس کے پرانے مراسم تھے۔ اس نے دادن کو اوطاق میں بٹھا دیا۔ ’’چائے پانی کا بندوبست کرتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر منشی اوطاق کے ایک قدرے کشادہ صحن میں کھلنے والے دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔ دادن نے اسے منع کرتے ہوئے کہا۔ ’’اڑے بابا رہنے دے۔ میں چائے پی کر آرہا ہوں۔ ادھر آ… ذرا بیٹھ میرے ساتھ آج تجھ سے ضروری بات کرنی ہے۔‘‘ منشی میرو خاموشی سے اس کے سامنے والی ایک کھرّی چارپائی پر بیٹھ گیا اور سوالیہ نظروں سے دادن کے چہرے کی طرف تکنے لگا۔ تب دادن بولا۔ ’’یار منشی میرو! تو میرے مسئلے کا حل بتا کر میری مدد کر یار…!‘‘ ’’اڑے بابا! بتا تو سہی مسئلہ کیا ہے؟‘‘ منشی نے پوچھا۔ ’’ارے یار! وہ ہاری حسین بخش ہے نا… اس کی دھی سوہنی پر میرا دل آگیا ہے۔ میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ اس نے بتایا۔ منشی کے چہرے پر خباثت بھری مسکراہٹ ابھری پھر ہنستے ہوئے بولا۔ ’’پہلے یہ بتا کہ گوٹھ کی ایسی کون سی چھوکری یا عورت ہے جس پر تیرا دل نہ آیا ہو؟‘‘ ’’اڑے یار مذاق چھوڑ… مدد کرتا ہے تو بول۔ ورنہ میں چلا۔!‘‘ دادن خفگی سے بولا۔ منشی میرو نے دوستانہ انداز میں اس کا کاندھا تھپتھپایا۔ ’’خفا نہ ہو… لیکن میں نے ایسا کچھ غلط بھی تو نہیں کہا تُو تو شادی شدہ عورتوں کو بھی…‘‘ دادن جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا تو منشی میرو نے اس کا ہاتھ پکڑ کر زبردستی دوبارہ بٹھا دیا۔ ’’میرا ایک مشورہ سن…‘‘ ’’ہاں… بتا!‘‘ ’’تو سیدھے طریقے سے حسین بخش کے ہاں جاکر اس کی دھی… کیا نام بتایا…؟‘‘ ’’سوہنی۔‘‘ ’’ہاں! سوہنی کا سنگ (رشتہ) مانگ لے اس کے باپ سے!‘‘ ’’سوچ تو میں بھی یہی رہا ہوں۔‘‘ دادن بولا۔ ’’لیکن میں جائوں کیسے؟ یہ کام تُو کردے نا۔ بھرجائی (منشی کی بیوی) کو ساتھ لے جانا، میرا کام ہوجائے گا تو دونوں کے سوٹ پکے۔ شہر سے لے کر آئوں گا مٹھائی بھی ڈھیروں تیرے لیے۔‘‘ دادن نے اسے لالچ دیا۔ منشی بھی ایک کائیاں تھا۔ وہ جانتا تھا کہ دادن نے اس مشکل کام کے لیے آخر اسے ہی کیوں چنا ہے۔ رئیس کا منشی ہونے کی وجہ سے تاکہ ہاری حسین بخش پر ذرا رعب پڑے لہٰذا وہ بھی بڑی مکاری سے بولا۔ ’’یار دادن! اتنے بڑے کام کے بس صرف دو سوٹ اور مٹھائی؟ آخر کو سوہنی جیسی پری کے لیے تجھے اپنی جیب بھی ڈھیلی کرنی پڑے گی۔‘‘ ’’اچھا۔اچھا! سمجھ گیا تیرا مطلب تُو تو میرا پکا یار ہے، فکر کیوں کرتا ہے… نوٹ بھی دوں گا اور حکم؟‘‘ دادن نے معنی خیز انداز میں اس کا ہاتھ دباتے ہوئے کہا۔ ’’اچھا! یہ بتا عیوضہ کتنا طے کروں؟‘‘ منشی نے دادن سے پوچھا۔ ’’یہی پچاس ہزار۔‘‘ ’’یہ تو بہت تھوڑا ہے۔‘‘ منشی میرو نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’ایک لاکھ کی بات کرے تو کام کی کچھ آس امید بنے۔‘‘ دادن، منشی کی تجویز پر کچھ دیر سوچنے کے بعد راضی ہوگیا۔ ’’اور… میرے بیس ہزار بھی تیار رکھنا۔‘‘ منشی بولا۔ ’’مجھے منظور ہے۔ بس تو میرا کام کردے۔‘‘ ’’بے فکر رہ… میں آج ہی اپنی زال (بیوی) کے ساتھ حسین بخش کے گھر جاتا ہوں۔‘‘ منشی نے اسے تسلی دی۔ دادن خوش ہوگیا۔ ٭…٭…٭ منشی میرو اور اس کی بیوی کو اپنے پیوند زدہ دروازے پر دیکھ کر بے چارہ ہاری حسین بخش آنکھیں پھاڑے غیر یقینی نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔ ’’سس… سائیں۔ آپ نے تو ہمارے گریب خانے کو رونق بخش دی۔ اس گریب کی بڑی عزت افزائی ہوگئی۔ آئو… آئو بھلی کرے آیو۔‘‘ صحن میں دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ موسم خوشگوار تھا۔ گھر میں اتفاق سے سب ہی موجود تھے سوائے پنل کے۔ حسین بخش نے منشی اور اس کی بیوی کے لیے فوراً صحن میں چارپائی بچھائی اور پھر صاف ستھری رلی ڈال دی اور اپنی بیوی مختاراں سے چائے، پانی کا کہا۔ منشی منع کرتے ہوئے بولا۔ ’’کسی شے کی ضرورت نہیں… ادھر بیٹھ۔ تیرے سے مجھے ایک ضروری بات کرنا تھی حسین بخش!‘‘ حسین بخش بے چارہ حیران و پریشان ایک ٹک منشی میرو کا چہرہ تکنے لگا۔ اسے حیرت سے زیادہ پریشانی ہورہی تھی کہ آخر رئیس جابر خان کا منشی میرو اس غریب کے ہاں چل کر ایسی کون سی اہم بات کرنے آیا تھا جو اسے اپنی اوطاق میں بلانے کی بجائے خود اس کے غریب خانے پر آگیا تھا۔ ’’منشی صیب! مجھے بلا لیا ہوتا آپڑیں اوطاق میں… تم نے کیوں تکلیف کی؟‘‘ حسین بخش عاجزی سے بولا۔ ’’اڑے بابا۔ ایک ہی بات ہے… پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ سن ذرا…‘‘ میرو نے مکارانہ انسیت سے کہا اور آگے بولا۔ ’’تو بھی کیا یاد کرے گا کہ تیری دھی سوہنی کے نصیب کھولنے آگیا ہوں میں۔‘‘ اس کی بات سن کر بے چارہ حسین بخش
کبھی منشی کا منہ تکتا تو کبھی مختاراں کا چہرہ دیکھنے لگتا۔ ’’مم… میں سمجھا نہیں منشی صیب!‘‘ وہ منشی سے الجھے ہوئے لہجے میں بولا۔ منشی میرو نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔ ’’سیدھی بات ہے… اچھا سن! دادن کو تو تُو جانتا ہی ہوگا۔ بڑا سیدھا سادا اور شریف آدمی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ وہ میرا پکا یار ہے اس کے لیے میں تیری دھی سوہنی کا رشتہ لینے آیا ہوں۔ بول… اب کیا کہتا ہے تُو؟‘‘ اس کی بات سن کر بے چارے حسین بخش پر یکدم سکتہ طاری ہوگیا۔ خاصی دیر تک اس کے منہ سے کوئی لفظ نہ نکلا۔ ’’دادن پورے ایک لاکھ دے گا تجھے… تیری دھی عیش کرے گی اور سکھی رہے گی اس کے پاس۔‘‘ منشی میرو بولا۔ حسین بخش سے ابھی کوئی جواب نہ بن پڑا تھا۔ وہ اسے کیا جواب دیتا۔ وہ یہ دعا مانگ رہا تھا کہ کہیں اس کا جوان بیٹا پنل نہ آجائے۔ وہ پہلے ہی منشی پر خار کھائے بیٹھا تھا۔ اسے اگر یہ پتا چل جاتا کہ منشی خود بہ نفس نفیس چل کر کیا کرنے آیا تھا تو کوئی بعید نہ تھا کہ وہ ہنگامہ کھڑا کردیتا۔ کیونکہ وہ ہی کیا پورا گوٹھ دادن کے کالے کرتوتوں سے اچھی طرح واقف تھا۔ ’’مم… میں… کیا جواب دوں… دراصل سائیں۔ وہ… میں نے اپڑیں دھی سوہنی کی بات اپڑیں وڈھے بھا سکھیو کے بیٹے سرمد سے طے کررکھی ہے۔‘‘ اسے بالآخر یہی جواب سوجھا تاکہ یہ نازک معاملہ ادھر ہی ختم ہوجائے۔ اب بھلا بے چارے ہاری حسین بخش کو کیا معلوم تھا کہ معاملے کی اصل شروعات یہاں سے ہونے والی تھی۔ ’’بات طے کردینے سے کیا ہوتا ہے… میں تو سیدھے نکاح کی بات کررہا ہوں تم سے بابا۔‘‘ منشی نے کہا۔ حسین بخش کے چہرے پر پرچھائیاں سمٹ آئی تھیں۔ آخرکار وہ اپنے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے منت بھرے لہجے میں بولا۔ ’’منشی صاب۔ ہم گریب لوگ ہیں… ہمارا دادن جیسے زمیندار سے بھلا کیا جوڑ؟ میرے بڑھاپے پر رحم کرو۔ ہمیں اپنے حال میں مست رہنے دو۔‘‘ ’’اڑے یار۔ تو تُو ایسے ڈر رہا ہے جیسے…‘‘ منشی میرو نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ اچانک دروازے پر کھٹکا ہوا۔ حسین بخش نے پریشان نظروں سے اُدھر دیکھا اور سن ہوکر رہ گیا۔ اس کا بیٹا پنل اندر داخل ہورہا تھا۔ پھر جیسے ہی اس کی نگاہ منشی میرو پر پڑی، وہ ایک لمحے کو اپنی جگہ ساکت ہوگیا۔ ’’اچھا اب میں چلتا ہوں۔ پر تیرے جواب کا انتظار کروں گا۔‘‘ منشی میرو یہ کہہ کر وہاں سے کھسکنے کے انداز میں چلا گیا۔ ’’بابا! یہ خبیث یہاں کیا کرنے آیا تھا؟‘‘ پنل نے خاصی ناگواری کے ساتھ پوچھا۔ حسین بخش ایک دم گھبرائے ہوئے انداز میں بولا۔ ’’ایسے ہی آیا تھا۔ فصلوں کی کٹائی کا پوچھ رہا تھا کہ کتنے جریب تک ہوگئی ہے اور ڈھل وغیرہ کی بات کررہا تھا۔‘‘ وہ اپنے جوان اور غیرت مند بیٹے سے جھوٹ بولنے پر مجبور تھا۔ مگر رسوئی میں ماں کے ساتھ دم بخود بیٹھی سوہنی نے باپ کا جھوٹ پکڑ لیا اور فوراً رسوئی سے باہر نکل آئی۔ پھر باپ سے بولی۔ ’’بابا۔ جھوٹ کیوں بولتا ہے ادا پنل سے… صاف صاف کیوں نہیں بتاتا ادا کو وہ خبیث بڈھا تجھ سے کیا کہہ رہا تھا؟‘‘ باپ نے غصے سے بیٹی کو گھورا پھر اسی لہجے میں جھڑک کر بولا۔ ’’چل اندر… ہر بات پر کان لگائے رکھتی ہے۔‘‘ پھر وہ بیٹے سے جبراً مسکرا کر بولا۔ ’’چل پٹ! تو مانی ٹکر کھا لے… تھکا ہوا آیا ہے۔‘‘ ’’نہیں بابا۔ کوئی بات تو ہے جو تو مجھ سے چھپانے کی کوشش کررہا ہے۔ پہلے بتا مجھے وہ مردود منشی میرو یہاں کیوں آیا تھا۔ اس سے پہلے تو وہ ہمارے دروازے کے قریب سے بھی نہیں گزرتا تھا۔‘‘ پنل تشویش سے بولا۔ حسین بخش نے ایک درشت نگاہ قریب کھڑی اپنی بیٹی سوہنی پر ڈالی اور سوہنی خاموشی کے ساتھ وہاں سے کھسک گئی۔ وہ اب مطمئن تھی کہ اس کا باپ اب اپنے غیرت مند بیٹے کے سامنے کچھ چھپا نہ سکے گا۔ حسین بخش کو بھی بخوبی علم تھا۔ وہ بولا۔ ’’اچھا… اچھا بتاتا ہوں، پہلے تو مانی ٹکر (روٹی) تو کھا لے۔‘‘ ’’اصل بات سنے بغیر میں روٹی کو ہاتھ بھی نہیں لگائوں گا۔‘‘ پنل حسبِ عادت اڑ گیا۔ حسین بخش پریشان ہوگیا۔ پنل باپ کو متذبذب پا کر اس کے قریب آگیا۔ بالآخر باپ کو اصل بات بتانا پڑی جسے سن کر پنل کا چہرہ مارے طیش کے سرخ ہوگیا۔ باپ نے اپنے جوان گبرو بیٹے کو غیرت و غصے کی آگ میں جلتا دیکھا تو فوراً اپنی ٹوپی اتار کر بولا۔ ’’غصہ نہ کر۔‘‘ ’’نہیں بابا! بہت ہوگیا۔ میں ابھی آتا ہوں۔‘‘ پنل نے قہرآلود لہجے میں کہا پھر کلہاڑی اٹھا لی۔ بوڑھا باپ اس کے آگے آگیا اور گڑگڑا کر ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا۔ ’’میرے بڑھاپے کا واسطہ… یوں غصہ نہ کر… اڑی او پنل کی ماں… روک اسے… یہ ہم پر قیامت لانے والا ہے۔‘‘ مختاراں بھی اپنے گبرو بیٹے کو غیرت کی آگ میں سلگتا دیکھ کر اسے روکنے کو دوڑی مگر پنل ان کی پروا کئے بغیر آندھی طوفان کی طرح گھر سے نکل گیا اور سیدھا رئیس جابر خان کی اوطاق میں جا پہنچا۔ وہاں منشی میرو ابھی ابھی پہنچا تھا اور ایک سرکنڈوں کے مونڈھے پر رجسٹر سنبھالے زمین پر بیٹھے چند مدقوق ہاریوں سے کرخت لہجے میں مخاطب تھا۔ پنل کو دیکھ کر وہ مکارانہ مسکراہٹ سے بولا۔ ’’اڑے چھوکرا۔ کیسے آنا ہوا؟‘‘ ’’منشی۔ تو نے جرأت کیسے کی اس جواری کی اولاد دادن کے لیے میری بہن کا سنگ (رشتہ) مانگنے کی؟‘‘ پنل دروازے پر ہی نہنگ کے درخت کی طرح کھڑے کھڑے غصے سے غرا کر بولا۔ منشی میرو کا دماغ بھی الٹ گیا اور وہ اپنی گود میں کھلے ہوئے رجسٹر کو بند کرکے یکدم غصے سے بھناتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ پھر عینک اتار کر اپنی چندی مکارانہ آنکھوں سے پنل کو گھورتے ہوئے بولا۔ ’’اڑے چھوکرا۔ زبان سنبھال کر بات کر… یہ آپڑیں وڈے سائیں کی اوطاق ہے، تیرا ویڑھا نہیں ہے یہ ۔‘‘ ’’منشی با غیرت لوگوں کے لیے ایک غریب ہاری کے گھر کا ویڑھا اور وڈے سائیں کی اوطاق میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔‘‘ پنل اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شعلہ فشاں لہجے میں بولا۔ منشی میرو اس کی سخت جوابی کارروائی پر یکدم مارے طیش کے مونڈھے سے اٹھ کھڑا ہوا اور غصیلے لہجے میں دانت پیس کر بولا۔ ’’اڑے چھوکرا۔ تو جس عزت کی بات کررہا ہے۔ وہ بھی ہمارے رئیس کی دی ہوئی ہے اور تو اس کی اوطاق میں آکر مجھے للکار رہا ہے، مطلب رئیس کو للکار رہا ہے۔ اپنی اوقات میں رہ۔‘‘ ’’منشی۔ یہ عزت ہمیں کسی انسان نے نہیں اللہ سائیں نے دی ہے ہمیں اور مجھے رئیس کا ہی لحاظ آتا ہے جو اب تک خاموش ہوں۔‘‘ پنل نے غیظ آلود لہجے میں کہا۔ ’’اور کان کھول کر سن لے اب تُو۔ اگر دوبارہ کبھی میری بہن کا نام تیری زبان پر آیا تو میں رئیس کا بھی لحاظ نہیں کروں گا۔‘‘ یہ کہہ کر پنل وہاں سے چلا گیا۔ منشی میرو کے چہرے پر چھائی سناٹے دار خاموشی کسی بڑے طوفان کا پتا دیتی محسوس ہورہی تھی۔ ادھر پنل زخمی شیر کی طرح بپھرتا ہوا وہاں سے سیدھا دادن کے گھر کی طرف چلا۔ راستے میں چاچا اللہ یار نے اسے بتایا کہ دادن، بابل خان کے چھپر ہوٹل میں موجود ہے تو پنل نے وہاں پہنچ کر ہی دم لیا۔ دادن اس وقت اپنے مرغ بازوں کے ایک مختصر ٹولے کے درمیان بینچ پر بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ اس کی بائیں ہاتھ کی مٹھی میں بیڑی دبی ہوئی تھی۔ وہ پنل کو ہوٹل کے چھپر احاطے میں حالت غیظ سے داخل ہوتے دیکھ کر ٹھٹھکا۔ ادھر پنل نے بھی دادن کو بیٹھے دیکھ لیا تھا۔ اس نے قریب ہوتے ہی اپنی کلہاڑی دونوں ہاتھوں میں تھام لی۔ دادن ایک لمحے کو بُری طرح گھبرا گیا۔ اگر بر وقت اس کے ساتھی اور ہوٹل میں بیٹھے دوسرے گاہکوں نے پنل کو پکڑ نہ لیا ہوتا تو اس کی کلہاڑی دادن کا آج قصہ پاک کرچکی ہوتی۔ ’’چچھ… چھوڑ دو مجھے، میں اس ذلیل کتے کو آج زندہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ پنل غیظ و غضب کے عالم میں غرایا اور چنگھاڑتی آنکھوں سے دادن کو گھورنے لگا۔ ’’اڑے چھوکرا ہوش کر… بس بابا بس… بات کیا ہے، اس کا فیصلہ ہم کریں گے۔‘‘ وہاں موجود لوگوں نے بپھرے ہوئے پنل کو پکڑے ہوئے یک زبان ہوکر کہا۔ وہ اپنے تئیں اس جھگڑے کو کاروباری سمجھے تھے جبکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ ’’دادن… میری ایک بات کان کھول کر سن لے۔ دوبارہ میری بہن کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو کلہاڑی سے تیرے ٹوٹے کرکے رکھ دوں گا۔ آج قسمت اچھی تھی تیری جو بچ گیا، ہر بار ایسا نہیں ہوگا۔‘‘ پنل نے دھاڑتے ہوئے اسے سرزنش کی۔ یہ معاملہ ہی ایسا تھا کہ دادن سمیت وہاں موجود اس کے ساتھی بھی دم بخود کھڑے رہ گئے تھے۔ پھر پنل قہرآلود نظروں سے دادن کو گھورتا ہوا پائوں پٹخ کر وہاں سے واپس چلا گیا۔ ذرا دیر بعد بابل خان کا چھپر ہوٹل لوگوں کی چہ میگوئیوں سے گونج رہا تھا۔ ٭…٭…٭ محمد پنل کی رئیس جابر خان کے منشی میرو اور دادن کے ساتھ گرما گرمی کے بعد یہ معاملہ سرد پڑتا محسوس ہورہا تھا لیکن جانے کیوں سکھیو اور بالخصوص پنل کے باپ حسین بخش کو یہ اسرار بھری خاموشی کسی نادیدہ طوفان کا پیش خیمہ محسوس ہورہی تھی۔ سکھیو اور حسین بخش نے اپنی ساری عمر ان ارضی ناخدائوں کے آگے ہاتھ جوڑے ’’حاضر سائیں وڈا‘‘ اور ’’برابر سائیں وڈا‘‘ کرکے گزاری تھی لہٰذا وہ ایسے لوگوں کی کینہ پرور عادات و خصلت سے بخوبی واقف تھے۔ دونوں جہاندیدہ بھائی اب اندر سے ڈرے ہوئے تھے۔ اب کسی وقت بھی ان پر کوئی بڑا عتاب رئیس کی ناراضی کی صورت میں نازل ہونے والا تھا کیونکہ وہ دونوں اچھی طرح جانتے تھے کہ خبیث دادن نے میرو کا دامن پکڑ رکھا تھا اور منشی رئیس کا دم چھلا اور چہیتا ملازم تھا جو ان کے خلاف گل کھلانے کے لیے بظاہر خاموشی کی بکل مارے بیٹھا تھا۔ پنل نے اپنے باپ حسین بخش کو سوہنی کی سرمد سے شادی کے لیے دبائو ڈالنا شروع کردیا تھا۔ موجودہ حالات میں دونوں گھرانوں کے افراد نے یہی بہتر سمجھا کہ سوہنی اور سرمد کی جلد ازجلد شادی کردی جائے۔ دونوں گھرانے درون خانہ شادی کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔ تب پھر ایک دن جب شادی کے تمام مراحل فیصلہ کن موڑ میں داخل ہوئے تو اچانک ایک روز ہاری حسین بخش کے بڑے بھائی سکھیو نے اپنے بیٹے کی شادی سے صاف انکار کردیا۔ حسین بخش اور اس کا بیٹا پنل بھونچکا رہ گئے۔ ایک لمحے کو تو انہیں یقین ہی نہیں آیا کہ سکھیو اس رشتے سے یوں انکار بھی کرسکتا ہے۔ ’’ادا سکھیو۔ یہ تو کیا کہہ رہا ہے؟ ہوش میں تو ہے تو؟‘‘ حسین بخش نے حیران و پریشان ہوکر کہا۔ اس وقت دونوں باپ، بیٹا اور حسین بخش کی بیوی مائی مختاراں، سکھیو کے ہاں آخری بات طے کرنے آئے تھے کہ سکھیو نے یہ دھماکا کر ڈالا۔ سکھیو کا چہرہ کسی اندرونی کرب کی غمازی کرتا نظر آرہا تھا۔ پاس ہی اس کی بیوی عنایتاں بھی موجود تھی۔ ان کا بیٹا سرمد البتہ باہر تھا۔ سکھیو نے اپنے بھائی کی بات پر ایک آزردہ سی سانس بھری، پھر سر جھکاتے ہوئے نحیف آواز میں بولا۔ ’’ہاں ادا…! میں سوہنی کا سنگ (رشتہ) اپنے بیٹے سرمد کے لیے لینے سے صاف انکار کرتا ہوں۔‘‘ ’’مگر چاچا۔ یہ تجھے اچانک کیا ہوگیا ہے؟ تو نے تو زبان دے رکھی تھی؟‘‘ اس بار پنل نے لب کشائی کی۔ اس پر گم صم بیٹھے سکھیو کی بیوی عنایتاں نے گہری سنجیدگی سے کہا۔ ’’پٹ پنل۔ بس ہمیں سوہنی کا رشتہ منظور نہیں ہے۔‘‘ ’’ادی! یہ کیا بات ہوئی؟ ہماری تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔ کچھ تم ہی بات کھولو، آخر راز کیا ہے یہ؟‘‘ پنل کی ماں مختاراں نے غمناک لہجے میں پوچھا۔ سکھیو پریشان کن لہجے میں بولا۔ ’’سمجھ میں تو ہماری بھی نہیں آرہا بھاجائی!‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنے بھائی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر منت بھرے لہجے میں بولا۔ ’’بھا۔ تو مجھ سے کچھ نہ پوچھ۔ میں تیرا بڑا بھائی ہوں نا…! پر میں تیرے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں تو سمجھدار آدمی ہے۔ میری مجبوری سمجھ گیا ہوگا… بس اس بات کو ادھر ہی ختم کردے۔ ہم نے بھی آخر زندہ رہنا ہے۔‘‘ اس کے ذومعنی دکھڑے کو جہاندیدہ حسین بخش فوراً سمجھ گیا۔ پھر وہ اپنی بیوی اور بیٹے سے بولا۔ ’’چلو واپس گھر۔‘‘ یہ کہہ کر خاموشی سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ ٭…٭…٭ یہ اس سے اگلے دن کا ذکر تھا۔ حسین بخش کو کھیتوں میں کام کرنے کے دوران رئیس جابر خان کے چند مسلح حواریوں نے فی الفور رئیس کی اوطاق میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔ وہ اسی وقت اپنے دل میں سو قسم کے اندیشوں اور وسوسوں کے ساتھ لرزتا کانپتا ہوا رئیس جابر خان کی اوطاق میں حاضری دینے جا پہنچا۔ اوطاق خالی تھی صرف چند مسلح حواری وہاں بیٹھے سگریٹ، بیڑی پینے میں مصروف تھے۔ حسین بخش پر انہوں نے ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈالی۔ وہ بے چارہ ایک کونے میں سمٹ کر کھڑا ہوگیا۔ خاصی دیر بعد ایک بھاری بھرکم اور لحیم شحیم شخص اوطاق میں داخل ہوا۔ یہ گوٹھ کا بااثر وڈیرا جابر خان تھا۔ وہ ایک ساٹھا پاٹھا شخص تھا۔ دراز قد، بیش قیمت کاٹن کی مکلّف کڑکڑاتی بے داغ شلوار قمیض پر واسکٹ اور ہالا کی اجلی اجرک اوڑھی ہوئی تھی۔ اس کے چہرے پر رعونت جیسے ثبت ہوکر رہ گئی تھی۔ خضاب لگی گھنی داڑھی، مونچھیں اور بھنوئوں نے اس کے مزاج کی کرختگی کو خاصا ابھار دیا تھا۔ پائوں میں چمڑے کے پشاوری جوتے کو پختہ فرش پر مارتا وہ ایک نسبتاً اونچے اور کشادہ پشتے والے سرکنڈوں کے بنے مونڈھے پر براجمان ہوگیا۔ اس کے عقب میں منشی میرو بھی رجسٹر تھامے اندر داخل ہوا تھا۔ اوطاق میں ایک دم سناٹا طاری ہوگیا۔ کونے میں دبکا کھڑا حسین بخش اندر ہی اندر ہول رہا تھا۔ رئیس جابر خان نے مونڈھے پر براجمان ہوتے ہی ایک خشمگیں نظر ہاری حسین بخش پر ڈالی اور پھر دوسرے ہی لمحے اوطاق پر طاری اسرار بھری خاموشی کو ایک پاٹ دار آواز نے چاک کردیا۔ ’’اڑے حسین بخش ادھر آڑے…!‘‘ جابر خان کی گونجیلی اور تحکمانہ آواز پر وہ ہاتھ جوڑے لرزیدہ انداز میں چلتا ہوا اس کے قریب آن کھڑا ہوا۔ ’’سوہنی تیری دھی ہے نا…؟‘‘ ’’ہائو… سائیں وڈا…!‘‘ ہاری حسین بخش نے جلدی سے جواب دیا۔ ’’میں نے سنا ہے تو اپنی دھی سوہنی کا بیاہ آپڑیں بھائی سکھیو کے بیٹے سرمد سے کرنا چاہتا ہے؟‘‘ رئیس نے نخوت بھرے لہجے میں پوچھا۔ حسین بخش مرتعش سی آواز میں بولا۔ ’’سس… سائیں وڈا۔ کرنا تو چاہتا تھا پر… بھا سکھیو نے اپنے بیٹے کی شادی میری دھی سے کرنے سے انکار کردیا ہے۔‘‘ اس کی بات سن کر رئیس کے بھاری بھرکم چہرے پر بڑی سنگین اور اسرار بھری مسکراہٹ ابھری تھی۔  )
’ہوں!‘‘ معاً رئیس جابر خان نے ایک گہری سانس خارج کی اور ہاری حسین بخش کے چہرے پر اپنی برماتی نظریں مرکوز کرتے ہوئے بولا۔ ’’تمہارے بھائی سکھیو نے کافی عقلمندی دکھائی ہے اور اب تو بھی ذرا عقل سے کام لے۔‘‘ ’’برابر سائیں بھوتار برابر… جیسا حکم ہو آپ کا۔‘‘ ہاری حسین بخش نے مودبانہ لہجے میں کہا۔ ’’سن میری بات۔‘‘ جابر خان بولا۔ ’’جی سائیں حاضر… میں آپ کی بات سن رہا ہوں۔‘‘ ’’آپڑیں دھی سوہنی کا بیاہ دادن سے کردے۔ وہ بہت پیسے والا آدمی ہے، تیری دھی سکھی رہے گی۔ ہاں۔ بابا کیا بولتا ہے اب تو؟‘‘ جابر خان نے مشورہ دینے کے انداز میں اسے حکم دیا۔ انداز ایسا ہی تھا جیسے وہ اس کی زبان سے صرف ’’ہاں‘‘ کے سوا کچھ اور نہ سننا چاہتا ہو۔ جبکہ بے چارہ حسین بخش ایک طویل اور الجھن آمیز خاموشی میں مبتلا ہوکر رہ گیا۔ رئیس جابر خان کی سنسناتی نظریں اس کے متذبذب چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ اسے سوچتا پا کر وہ کھرکھراتے لہجے میں دوبارہ بولا۔ ’’اڑے بابا تو کس سوچ میں پڑ گیا؟‘‘ ’’سس… سائیں وڈا۔ دادن تو پہلے ہی شادی شدہ ہے اور اس کی عمر بھی دگنی ہے۔ آخر میری دھی اس کے ساتھ کیسے سکھی رہ سکتی ہے؟‘‘ بالآخر حسین بخش نے ہمت کرکے کہا۔ ’’اڑے بابا۔ مرد اور گھوڑے کی عمر بھی بھلا دیکھی جاتی ہے۔‘‘ رئیس جابرخان سخت لہجے میں بولا۔ بے چارہ حسین بخش کیا جواب دیتا، چپ ہورہا۔ پھر رئیس جابر خان اس کی خاموشی کو اپنے تئیں اس کی رضا مندی پر محمول کرتے ہوئے بولا۔ ’’ہاں بابا۔ ہمارا منشی اور اس کی رن (بیوی) کل تیری دھی سوہنی کو انگوٹھی پہنانے آرہے ہیں اور اس کے چند روز بعد نکاح ہوجائے گا۔‘‘ حسین بخش اس کا حکم سن کر لرز کر رہ گیا۔ اس کی آنکھوں میں اپنے جوان اور غیرت مند بیٹے کا سلگتا ہوا چہرہ گھومنے لگا۔ وہ ہاتھ جوڑ کر بولا۔ ’’سس… سائیں وڈا …وہ…‘‘ ’’حسین بخش…!‘‘ رئیس جابر خان اس کی بات کاٹتے ہوئے تیز آواز میں بولا۔ ’’انکار کرنے سے پہلے سوچ لینا کہ تو ہماری اوطاق میں ہی نہیں، ہماری جاگیر میں کھڑا ہے اور ہمیں انکار سننے کی عادت نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تیرا انکار تیرے پورے خاندان کے لیے جنجال بن جائے۔‘‘ رئیس جابر خان کے گونج دار لہجے میں چھپی تہدید کو ہاری حسین بخش محسوس کرکے بری طرح کانپ گیا۔ وہ جلدی سے لرزیدہ آواز میں بولا۔ ’’برابر سائیں! جیسا آپ کا حکم۔‘‘ یہ کہہ کر وہ منہ لٹکائے واپس چلا گیا۔ ’’سائیں بھوتار کے سر کی خیر ہو وے۔‘‘ ہاری حسین بخش کے جاتے ہی رئیس جابر خان کے قریب بیٹھے منشی میرو نے مکارانہ چاپلوسی سے کہا۔ ’’حسین بخش اپنے بیٹے پنل سے بہت خائف ہے۔ پنل ضرور اس کام میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کرے گا۔ میں نے ابھی آپ کو بتایا تھا نا یہ دو ٹکے کا چھوکرا غصے میں لال پیلا ہوکر یہاں آیا تھا۔ ویسے بھی اس چھوکرے کا بڑا دماغ خراب ہے۔ جب بھی فصلوں کی بٹائی کا وقت آتا ہے، وہ ہمارے دوسرے رھاکوں (مزدوروں) کا دماغ خراب کرتا ہے۔ کہتا ہے کہ محنت ہم کریں اور آدھی سے زیادہ فصل رئیس لے جائے، ڈھل (ٹیکس) بھی پورا ہم دیں۔ لیڈر بننے کا بھوت سوار ہو گیا ہے اس چھوکرے پر سائیں!‘‘ منشی میرو نے بڑی چالاکی سے جابر خان کے کان بھرے۔ ’’ہوں!‘‘ اس کی بات سن کر جابر خان نے غصے سے ہنکاری بھری۔ پھر سنسناتے لہجے میں بولا۔ ’’اس چھوکرے کی یہ مجال۔ اس کا بندوبست کرنا پڑے گا۔‘‘ اس کے لہجے میں یکدم سفاکی در آئی تھی۔ اسی دوران دادن اوطاق میں داخل ہوا۔ ’’سائیں وڈا قہر (غضب) ہوگیا۔ آج اس چھوکرے پنل نے بابل کے ہوٹل میں میری سخت بے عزتی کی ہے۔ کہہ رہا تھا کہ منشی میرو نے میری بہن کا رشتہ لانے کی جرأت کیسے کی… وہ… وہ آپ کو بھی بُرا بھلا کہہ رہا تھا۔‘‘ دادن نے رئیس کو بھی ورغلایا۔ جابر خان ایک دم غصے سے اٹھ کھڑا ہوا اور دھاڑا۔ ’’منشی۔‘‘ ’’حاضر سائیں بھوتار!‘‘ ’’اب سب سے پہلے اس چھوکرے کا بندوبست کرنا پڑے گا۔‘‘ ’’برابر سائیں برابر… میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا خیر… میں ایسا کام کروں گا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ بس۔ آپ کا حکم چاہئے۔‘‘ منشی مکاری سے بولا۔ رئیس جابر خان نے غصے سے دانت پیستے ہوئے اثبات میں سر ہلا کر کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔‘‘ ’’سائیں ایک عرض ہے۔ آپ تھانے کے حوالدار حکم داد کو ذرا اپنی اوطاق میں بلا لیں، اس طرح کام آسان ہوجائے گا۔‘‘ ’’حوالدار کو فوراً ہمارا پیغام دو کہ وہ ہماری اوطاق میں حاضر ہو۔‘‘ رئیس جابر خان دانت کچکچا کر بولا۔ منشی سینے پر ہاتھ رکھے مکاری سے بولا۔ ’’برابر سائیں برابر۔‘‘ اس کے ساتھ ہی وہ سامنے کھڑے دادن کی طرف مکروہ مسکراہٹ سے دیکھنے لگا۔ دادن، منشی میرو کی سازش بھانپ کر شاطرانہ انداز میں مسکرایا تھا۔ ٭…٭…٭ سوہنی کو اس سارے معاملے کی بھنک پڑ چکی تھی۔ آخر کو وہ بھی اس گھر کی ایک فرد تھی، پھر وہ کیسے بے خبر رہ سکتی تھی کہ اس کے چاچا سکھیو نے اپنے بیٹے سرمد کے لیے اچانک اس کا رشتہ لینے سے انکار کردیا ہے مگر سوہنی کو سب سے زیادہ دکھ سرمد کی طرف سے تھا کہ کم ازکم اسے اس کی بے لوث محبت کا ساتھ دینا چاہئے تھا۔ وہ کیوں بزدلوں کی طرح اپنا منہ چھپائے خاموش بیٹھا تھا۔ اسے سرمد پر غصہ آرہا تھا۔ ایک روز اس نے سرمد کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔ ہوا یوں کہ اس وقت سوہنی کی ماں مختاراں گھر پر نہ تھی۔ سرمد اپنے گھر میں اکیلا تھا۔ سوہنی نے اپنی چادر سنبھالی اور بے دھڑک سرمد کے گھر جا پہنچی۔ سرمد اسے تنہا دیکھ کر ایک لمحے کو چونک پڑا۔ ’’سرمو! کیسا مرد ہے ڑے تُو… تو نے رئیس جابر خان اور اس مردود دادن کے دبائو میں آکر مجھ سے شادی سے انکار کردیا کیوں؟ کیا میری محبت اتنی سستی تھی؟‘‘ سوہنی نے غصے اور دکھ بھرے لہجے میں کہا۔ سرمد نے حسب عادت کھسیائے لہجے میں گول مول جواب دیا۔ ’’میں نے تھوڑا شادی سے انکار کیا ہے۔ وہ تو بابا نے انکار کیا ہے۔‘‘ ’’شادی تو نے مجھ سے کرنی ہے یا تیرے بابا نے۔‘‘ سوہنی نے بھنا کر کہا تو سرمد بے چارہ اپنی بغلیں جھانکنے گا۔ ’’دیکھ سرمو مرد بن، میں تجھے چاہتی ہوں۔ میری محبت کی قدر کر، لوگ تو اپنی محبت کے لیے سر تک کٹا دیتے ہیں مگر تو کیسا مرد ہے؟ بزدل ہے تو جو دادن کے سامنے اپنا منہ چھپا کر بیٹھ گیا۔‘‘ اس کی بات سن کر سرمد نے عجیب سی نظروں سے سوہنی کی طرف دیکھا۔ پھر حتمی لہجے میں بولا۔ ’’سوہنی میں اپنے ماں، باپ کی بات رد نہیں کرسکتا۔ تو چلی جا یہاں سے۔‘‘ اس کی بے اعتنائی پر سوہنی کی سرمگیں آنکھوں میں بے اختیار کرب و اندوہ کے آنسو امڈ آئے جسے وہ فوراً پیتے ہوئے ہونٹ چبا کر استہزائیہ لہجے میں بولی۔ ’’ہاں! مجھے واقعی کہیں چلے جانا چاہئے۔ مجھے آج پتا چلا کہ میں اب تک کسی مرد سے نہیں بلکہ ایک بزدل سے محبت کررہی تھی۔ تُو تو محبت کے قابل ہی نہیں ہے۔ یہ میری غلطی تھی جو تجھے اپنا دل دے بیٹھی، ہُنہ۔‘‘ حقارت آمیز انداز میں سوہنی پائوں پٹختی ہوئی چلی گئی۔ ٭…٭…٭ ’’سائیں وڈا۔ آپ بے فکر رہیں۔ جیسا آپ چاہیں گے، ویسا ہی ہوگا۔‘‘ رئیس جابرخان کی اوطاق میں بیٹھے ایک پختہ عمر حوالدار حکم داد نے ایک سالم بھنے پٹھور کو دانتوں سے بھنبھوڑتے ہوئے فدویانہ لہجے میں کہا۔ اس کے سامنے کشادہ مونڈھے پر براجمان جابر خان کی گھنی مونچھوں پر سفاکانہ مسکراہٹ رقصاں ہوگئی۔ اس کے قریب ہی دو مونڈھوں پر بیٹھے منشی میرو اور دادن بھی دانت نکالنے لگے۔ ان کے وسط میں ایک شیشے والی میز پر ولایتی شراب اور آئس کیوب کے علاوہ بڑی سی ٹرے میں بھنے ہوئے سالم تیتر رکھے ہوئے تھے اور حوالدار حکم داد ندیدے پن سے اپنے سامنے دھرے ان لوازمات پر ہاتھ صاف کئے جارہا تھا۔ ٭…٭…٭ بظاہر حالات معمول پر آگئے تھے مگر معمول کے ان خاموش حالات میں کیسا طوفان چھپا ہوا تھا، اس کا اندازہ سکھیو اور حسین بخش کو اچھی طرح تھا۔ سوہنی کا دل البتہ اب سرمد سے سخت خراب ہوگیا تھا۔ پنل اپنے تئیں دادن کو مزہ چکھا چکا تھا اور رئیس جابر خان کے لاڈلے منشی میرو کو بھی دھمکا چکا تھا۔ وہ اب مطمئن تھا کہ اتنی بے عزتی کے بعد یہ دونوں خبیث پھر کبھی اس کی معصوم اور پھول سی بہن سوہنی کا رشتہ مانگنے کی کوشش نہیں کریں گے مگر وہ ارضی ناخدائوں سے واقف نہ تھا جو جبرو استبداد کے زور پر جیتے تھے اور ناانصافی کی چکی تلے غریبوں کو پیس کر اپنے خودساختہ فیصلوں کو اثبات میں بدلنے کے عادی تھے۔ ایک دن بڑی عجیب بات ہوئی۔ چاچا سکھیو غصے اور طیش میں بھرا ہوا اپنے بھائی ہاری حسین بخش کے گھر میں داخل ہوا۔ سب گھر میں موجود تھے۔ سکھیو نے بھائی کے گھر میں داخل ہوتے ہی پنل کا گریبان پکڑ لیا اور ساتھ ہی ایک عدد تھپڑ بھی جڑ دیا۔ پنل حیرت سے گنگ رہ گیا۔ اس کا باپ اسے روکنے کے لیے آگے بڑھا۔ ’’اڑے ادا سکھیو۔ خیر تو ہے، تو پاگل تو نہیں ہوگیا جو میرے جوان پٹ (بیٹے) پر ہاتھ اٹھا رہا ہے؟ میں نے کبھی اس پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔‘‘ ’’تیرے اس جوان پٹ نے میرے سیدھے سادے پٹ سرمد کے ساتھ بدمعاشی کی ہے۔‘‘ سکھیو نے غصیلے لہجے میں اپنے بھائی سے کہا اور پھر اپنے بھتیجے پنل سے بولا۔ ’’بتا رے چھوکرا۔ تو نے کیوں میرے پٹ کو اپنے اوباش دوستوں سے پٹوایا ہے۔ بول… کیا اسے لاوارث سمجھا تھا تو؟‘‘ ’’چاچا آرام سے بات کر اور اب ہاتھ مت اٹھانا مجھ پر۔ میں بھلا سرمد کو دوستوں سے کیوں پٹوائوں گا۔‘‘ پنل کو بھی غصہ آگیا تھا۔ اس نے ایک جھٹکے سے اپنا گریبان سکھیو کے ہاتھ سے چھڑایا۔ سب پریشان ہوگئے۔ ’’میں خوب جانتا ہوں، میرے فرمانبردار بیٹے سرمو نے تیری بہن سے شادی سے انکار کردیا ہے اس لیے تو نے اسے اپنے بدمعاش دوستوں سے پٹوایا ہے۔ میں ابھی تھانے میں جاکر تیرے بدمعاش ساتھیوں کے خلاف رپورٹ درج کرواتا ہوں۔‘‘ سکھیو مارے غصے کے بکتا جھکتا چلا گیا۔ وہ سب ہکاّبکاّ رہ گئے۔ پھر جلد ہی انہیں لوگوں سے پتا چلا کہ چند کلہاڑی بردار ڈھاٹا پوش چھوکروں نے سرمد کو خوب مارا تھا اور انہی لوگوں نے ان میں سے ایک کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا تھا کہ میرے دوست پنل کی بہن سے منگنی توڑنے کا انجام دیکھ لیا تو نے… زندگی چاہتا ہے تو اپنا فیصلہ واپس لے لے اور سوہنی کا سنگ (رشتہ) قبول کرلے۔ وہ بدمعاش چھوکرے زخمی سرمد کو دھمکیاں دے کر چلے گئے۔ پنل کو گرفتار کرلیا گیا۔ حسین بخش روتا ہوا اپنے بھائی سکھیو کے پاس پہنچا اور پہلے قسمیں کھا کھا کر اپنے بیٹے محمد پنل کی بے گناہی کا یقین دلانے کی کوشش کرتا رہا پھر جب سکھیو نہ مانا تو اسے سمجھاتے ہوئے بولا۔ ’’دیکھ مینڈا بھرا۔ مجھے تو یہ کوئی سازش لگتی ہے۔ تو نے میری دھی سوہنی سے آپڑیں پٹ سرمد کی منگنی توڑ دی، میں نے بُرا نہیں منایا کیونکہ میں تیری مجبوری اچھی طرح سمجھتا تھا کہ تو نے ایسا رئیس جابر خان کے خوف سے کیا ہے۔ پھر دیکھ۔ میں اپنے پٹ کو چنگی طرح جانتا ہوں بلکہ تو بھی تو اسے اچھی طرح جانتا ہے، وہ بھلا کبھی آپڑیں بھائی کے ساتھ ایسا سلوک کرسکتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ عقل کو ہتھ پا ادا۔ یہ ضرور کسی کی سازش ہے۔‘‘ اس کی بات سکھیو کے دل کو لگی اور یوں یہ بات آئی گئی ہوگئی۔ پنل جیل سے چھوٹ کر آگیا۔ بات ختم ہوگئی مگر وہ سادہ لوح نہیں جانتے تھے کہ ارضی ناخدائوں کے لیے تو ابھی بات شروع ہوئی تھی۔ انہوں نے محمد پنل کو اس کی غیرت اور حمیت کی سزا دینے کے لیے جس سازش کا تارِ عنکبوت تیار کیا تھا، اسے اب پھیلانے کا وقت آچکا تھا۔ ٭…٭…٭ پنل کو جیل سے چھوٹے آج دوسرا دن تھا کہ کسی نامعلوم شخص نے سرمد کو بندوق کا نشانہ بنا کر قتل کردیا۔ سرمد کے قتل پر پورا گوٹھ تھرا اٹھا۔ سکھیو کے ہی نہیں بلکہ حسین بخش کے گھر میں بھی کہرام مچ گیا۔ گوٹھ میں تیزی سے یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ یہ قتل پنل کے سوا کسی نے نہیں کیا کیونکہ سرمد کے قتل سے چند دن پہلے پنل نے اپنی بہن سوہنی کی منگنی توڑنے کی سزا دینے کے لیے سرمد کو اپنے بدمعاش دوستوں سے بری طرح پٹوایا تھا۔ ان افواہوں کو ارضی ناخدائوں کے کارپردازوں نے مزید ہوا دی تھی۔ نتیجتاً پنل کو آناً فاناً سرمد کے قتل کے شبے میں پولیس گرفتار کرکے لے گئی۔ اس کے بوڑھے غریب ماں، باپ اور بیوی ریشماں، جوان بہن سوہنی روتے پیٹتے رہ گئے۔ تھانیدار حکم داد جو اب رئیس جابر خان کا نمک خوار بن چکا تھا۔ اس نے پنل کا چالان کرکے فوراً لاک اَپ کردیا۔ دونوں گھرانوں میں کہرام مچ گیا تھا۔ سکھیو اور اس کی بیوی عنایتاں اپنے اکلوتے بیٹے سرمد کے قتل پر پچھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ سرمد ان کے بڑھاپے کا واحد سہارا تھا۔ ادھر ہاری حسین بخش اور اس کی بیوی مائی مختاراں اپنے کڑیل اور غیرت مند بیٹے پنل کی گرفتاری پر ماتم کناں تھے۔ پنل کی جوان بیوی ریشماں نے رو رو کر اپنا برا حال کرلیا تھا۔ اس کی بہن سوہنی بھی آزردہ تھی۔ ارضی ناخدائوں کی سازش کامیاب ہوچکی تھی۔ ہاری بخش روتا پیٹتا ہوا رئیس جابر خان کی اوطاق میں پہنچا اور اس کے قدموں میں گر کر بولا۔ ’’سس… سائیں وڈا۔ میرے بچڑے کو بچا لو۔ وہ بے گناہ ہے۔ وہ غصے والا جوان ضرور ہے مگر میں جانتا ہوں کہ وہ کسی کا خون کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘ اس کی فریاد پر رئیس جابر خان نے غصیلے انداز میں اس سے کہا۔ ’’تیرا بیٹا خونی ہے۔ اس سے پہلے دادن کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ بابل خان ہوٹل میں موجود لوگوں نے اگر پنل کو پکڑ نہ لیا ہوتا تو وہ سرمد کی طرح دادن کو بھی جان سے مار ڈالتا۔ پھر اس نے ہماری اوطاق میں آکر ہمارے منشی میرو کو بھی دھمکیاں دیں۔ اس کا یہی انجام ہونا چاہئے۔ اب اسے پھانسی کے پھندے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔‘‘ بوڑھا حسین بخش بے چارہ کانپ اٹھا۔ لرزیدہ لہجے میں ہاتھ جوڑ کر بولا۔ ’’سس… سس… سائیں وڈا رحم۔‘‘ ’’اڑے بابا یہ قانونی معاملہ ہے، ہم کچھ نہیں کرسکتے۔‘‘ ’’نہیں سائیں۔ آپ یہاں کے وڈے بھوتار ہو، تھانیدار حکم داد آپ کا دوست ہے۔ میرے بچے کو چھڑا دو سائیں۔ وہ قاتل نہیں ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ غریب رونے لگا۔ رئیس جابر خان نے اپنے قریب بیٹھے منشی میرو کے چہرے کی طرف دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ ابھری اور پھر ہولے سے اپنا سر ہلاتے ہوئے بولا۔ ’’سن، حسین بخش۔ ہم تمہاری مدد کر تو سکتے ہیں مگر اس کے لیے تمہیں ہماری ایک شرط ماننا پڑے گی۔‘‘ ’’جی جی سائیں حکم… حکم!‘‘ حسین بخش جلدی سے بولا۔ اس کی بوڑھی آنکھوں میں یکایک امید کے چراغ جل اُٹھے تھے۔ رئیس جابر خان نے کھرکھراتے لہجے میں کہا۔ ’’اگر تو اپنی دھی سوہنی کا بیاہ دادن سے کردے تو تیرا پنل جیل سے چھوٹ سکتا ہے۔‘‘ اس کی بات سن کر بے چارہ حسین بخش دَم بخود رہ گیا۔ وہ بے بس اور مجبور تھا۔ پنل اس کے بڑھاپے کا سہارا تھا۔ وہ بولا۔ ’’سائیں وڈا! مجھے یہ شرط منظور ہے۔‘‘ ’’جا پھر سوہنی کی دادن سے بیاہ کی تیاریاں کر۔ تیرا بیٹا پنل چھوٹ جائے گا، مگر اس سے پہلے تجھے سوہنی کو دادن کے ساتھ رخصت کرنا ہوگا، ورنہ تیرا جوشیلا بیٹا پھر رنڈک (رخنہ) ڈالنے کی کوشش کرے گا۔‘‘ ’’برابر سائیں۔ میں ابھی جاتا ہوں۔‘‘ ہاری حسین بخش نے کہا۔ وہ سیدھا اپنے گھر پہنچا اور اپنی بیوی مائی مختاراں کو ساری بات بتائی لیکن جب سوہنی نے یہ سنا تو کانپ گئی۔ دادن جیسے رذیل اور بدرو بوڑھے شخص سے شادی کا مطلب اس کے لیے زندہ درگور ہونے کے مترادف تھا۔ اسے اپنے باپ سے بھی نفرت ہونے لگی۔ اس نے تڑپ کر سوچا کہ آخر ہمارے سماج میں ہر قربانی عورت کے حصے میں ہی کیوں آتی ہے۔ قصور مرد کرتے ہیں اور ان کی سزا بے گناہ عورتوں کو بھگتنا پڑتی ہے لیکن میں قربانی کا بکرا نہیں بنوں گی۔ اس نے بھی انتہائی فیصلہ کر ڈالا۔ یہ اسی رات کا ذکر تھا۔ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سوہنی نے گھر سے بھاگنے کا مصمم ارادہ کرلیا تھا۔ نصف رات کے سناٹے میں سوہنی نے گھر سے قدم باہر نکالا اور رات کی اس سفاک تاریکیوں کی گمنام راہی بن گئی۔ دور آوارہ کتوں کے بھونکنے کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ وہ لڑکی ہونے کے باوجود ایک مضبوط اعصاب اور آہنی عزائم والی سرکش لڑکی تھی۔ اسے اپنے گوٹھ، بلکہ اپنے لوگوں کی خود ساختہ جاہلانہ رسم و رواج سے شدید نفرت ہوگئی تھی۔ فطرت میں بغاوت اس کی طبیعت کا خاصا تھی۔ وہ ان سے پیچھا چھڑا کر نکل بھاگی تھی۔ اس نے سب سے پہلے پاس کے گوٹھ میں اپنی دور کے رشتے کی خالہ کے ہاں جانے کا قصد کیا۔ وہ بوڑھی عورت تھی، اس کا نام زلیخاں تھا، وہ بے اولاد تھی۔ شوہر کا پچھلے دنوں کالے یرقان میں انتقال ہوچکا تھا۔ سوہنی کو پورا یقین تھا کہ وہاں اسے پناہ مل جائے گی۔ اس کی خالہ زلیخاں کا گوٹھ زیادہ دور نہیں تھا مگر راستے میں ایک مختصر سا قدِآدم جھاڑیوں والا گنجان جنگل آتا تھا۔ وہ بدستور تیز تیز قدموں سے آگے بڑھتی رہی۔ آبادی پیچھے رہ گئی، کھیتوں کا ویران اور تاریک سلسلہ شروع ہوگیا۔ پھر وہ بھی پار ہوا۔ سوہنی نے آوارہ کتوں کو مارنے کے لیے ایک مضبوط سی ٹہنی توڑ کر اپنے ہاتھ میں پکڑ لی تھی۔ اب سامنے قدِآدم جھاڑیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ وہ ایک لمحے کو رکی اور سامنے تاریک جھنڈ کو گھورتی رہی۔ پھر دوسرے ہی لمحے وہ بے دھڑک اندر داخل ہوگئی۔ سامنے جھنگر تھا، وہ اس طرف بڑھی۔ بائیں جانب ڈھینگر تھے۔ اس طرف بہت سے گھوڑوں کی ہنہنانے کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ ڈر گئی۔ پھر آئو دیکھا نہ تائو اس نے دوڑ لگا دی۔ دفعتاً اسے یوں لگا جیسے اس کے عقب میں بہت سے گھوڑے سرپٹ دوڑے آرہے ہوں، مگر سوہنی نے اپنے دوڑنے کی رفتار کم نہ کی۔ جوش میں وہ گھر سے نکل تو آئی تھی مگر اب اس کے دل و دماغ پر خوف سا طاری ہونے لگا تھا۔ آگے خاصی مسطح قطعہ اراضی پر وہ بے دم سی ہوکر گر پڑی۔ گھڑ سواروں نے شاید شفاف آسمان پر چاند کی روشنی میں اس ویران جنگل میں ایک جوان لڑکی کو دیکھ لیا تھا۔ سوہنی بھربھری زمین پر لیٹی بری طرح ہانپ رہی تھی۔ پھر اس کی متوحش آنکھوں نے ذرا فاصلے پر دس بارہ خوف ناک چہروں والے گھڑ سواروں کو دیکھا۔ وہ سب مسلح تھے۔ ان کی بڑی بڑی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔ یہ بدنام ڈاکو بگن کا گروہ تھا جو خود بھی اس وقت اپنے ساتھیوں میں موجود تھا اور زمین پر نڈھال گری ہوئی سوہنی کو ہوس ناک نظروں سے گھور رہا تھا۔ ’’اڑے… خیرل۔ آج تو بڑا پکا پھل ہمارے ہاتھ لگا ہے۔ چلو اٹھائو اسے اور لے چلو آپڑیں جنگل ڈیرے پر…‘‘ بگن ڈاکو نے اپنے ساتھی خیرل سے کہا۔ بس پھر کیا تھا۔ خیرل نے آگے بڑھ کر سوہنی کو اٹھا کر اپنے گھوڑے پر بٹھا لیا۔ سوہنی نے خوف سے چیخ ماری اور بے ہوش ہوگئی۔ شیطانوں کا یہ گروہ طاغوتی قہقہے لگاتا ہوا اپنے جنگل ڈیرے کی طرف روانہ ہوگیا۔ سوہنی کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو خوفناک چہروں والے خطرناک ڈاکوئوں کے درمیان پایا۔ یہ جنگل کا درمیان کا علاقہ تھا جو خطرناک ڈاکو بگن کی خفیہ کمین گاہ تھی۔ یہ سرکنڈوں کی ایک بڑی چھولداری تھی، جہاں سردار بگن اپنے نائب خیرل اور دو تین قریبی ساتھیوں کے ساتھ فرش پر نیم دائرے کی صورت میں بیٹھا تھا۔ وسط میں تھوڑے فاصلے پر سوہنی بے سدھ لیٹی ہوئی تھی۔ ہوش میں آتے ہی وہ اٹھ بیٹھی تھی اور اب متوحش نگاہوں سے ان سب کو دیکھ رہی تھی۔ ’’اڑے خیرل! یہ چھوکری تو ڈاڈھی سونہڑیں ہے… کیا خیال ہے پھر؟‘‘ معاً بگن ڈاکو نے پُر ہوس لہجے میں سوہنی کو گھورتے ہوئے کہا۔ بے چاری سوہنی اس کی معنی خیز ادھوری بات کا مطلب سمجھ کر پورے جی جان سے لرز اٹھی۔ وہ فوراً اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر روہانسے لہجے میں بولی۔ ’’مم… مجھے چھوڑ دو، میں ایک غریب اور بے سہارا لڑکی ہوں۔‘‘ ’’ہاہاہا… ٹھیک ہے پھر ہم جو ہیں تمہارا سہارا بننے کے لیے۔‘‘ بگن بھنویں اچکاتے ہوئے بولا۔ اس کے ساتھیوں نے اپنے سردار کی بات پر ایک زبردست قہقہہ لگایا تھا، البتہ بگن کا نائب خیرل جس کا پورا نام خیرل سندھو تھا، چپ بیٹھا ڈری سہمی سوہنی کو تکے جارہا تھا۔ ’’نن… نہیں، مم مجھے جانے دو۔‘‘ یہ کہہ کر سوہنی ایک دم اٹھ کھڑی ہوئی۔ باہر رات اپنے آخری پہر میں داخل ہوچکی تھی۔ اندر ایک کونے میں بد ہیئت بانس کے ساتھ لالٹین جھول رہی تھی۔ سوہنی کے اٹھتے ہی بگن نے درشت لہجے میں غراتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹھ جائو… چھوکری۔ایسا نہ ہو وقت سے پہلے ہی ہم تیری مٹی پلید کردیں۔ تجھے آج رات ہماری ملکہ بننا پڑے گا۔ ہا… ہاہا۔‘‘ اس کی دیکھا دیکھی اس کے ساتھیوں نے بھی شیطانی قہقہے لگانا شروع کردیئے۔ تب سوہنی نے سردار بگن کی آنکھوں میں ناچتی ہوئی ہوس کو بھانپ لیا اور پھر اس کی فطری سرکشی بیدار ہونے لگی۔ اس نے دوسرے ہی لمحے ڈر و خوف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بگن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ ’’او شیطان! اللہ سائیں کے عذاب سے ڈر… ایک بے بس اور مجبور لڑکی کے ساتھ ایسا کرتے ہوئے تجھے شرم آنی چاہئے۔ لعنت ہے تجھ پر اور تیرے لمبے چوڑے وجود پر۔‘‘ گوٹھ کی ایک بہ ظاہر سیدھی سادی، ان پڑھ دیہاتی لڑکی کے اس طرح للکارنے پر ایک لمحے کو تو بگن جیسا سفاک ڈاکو بھی دم بخود رہ گیا۔ پھر دوسرے ہی لمحے اس کی خوفناک آنکھوں میں درندگی کی چمک عود کر آئی اور وہ غرا کر اٹھا۔ سوہنی کو بالوں سے پکڑا، اس کی نازک گردن کو جھٹکا دیا تو سوہنی کے حلق سے گھٹی گھٹی چیخ سی نکل گئی۔ ’’سور کی بچی۔ ابھی تجھے اپنی مردانگی دکھاتا ہوں۔‘‘ بگن نے خونخوار لہجے میں کہا اور وہاں موجود سوائے اپنے نائب خیرل سندھو کے سب کو باہر جانے کا اشارہ کیا۔ خیرل سندھو بہ ظاہر خاموش کھڑا تھا مگر اس کے اندر زبردست ہلچل مچی ہوئی تھی۔ سوہنی نے بے بس اور رحم طلب نگاہوں سے بگن کے خونخوار چہرے کی طرف دیکھا اور پھر اپنے دونوں کپکپاتے ہاتھ جوڑتے ہوئے اس کی منت سماجت کرنے لگی۔ ’’تیرے کو اللہ سائیں کا واسطہ! مجھ غریب ناری پر یہ ظلم نہ کر!‘‘مگر بگن پر اس وقت شیطان سوار تھا۔ اس نے اپنی کلاشنکوف ایک طرف پھینکی اور اس کی طرف بڑھا ہی تھا کہ اچانک اس کے نائب خیرل سندھو نے گونج دار آواز میں سردار بگن سے کہا۔ ’’سائیں وڈا اس چھوکری کو چھوڑ دے۔‘‘ اس کی آنکھوں میں غیرت و جوش کی چمک کو سوہنی نے بھی پڑھ لیا تھا۔ بگن کا بڑھتا ہوا قدم یکلخت رک گیا۔ وہ ایک لمحے کو بت بن گیا۔ اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کا نائب اسے روکنے کی جرأت بھی کرسکتا ہے۔ اس نے سوہنی کو چھوڑ کر اپنے نائب خیرل سندھو کی طرف سنسناتی نظروں سے دیکھا۔ پھر سخت لہجے میں بولا۔ ’’خیرل! تیری یہ جرأت… تو کب سے بزدل بن گیا ہے ڑے!‘‘ ’’سردار سائیں! ایک مجبور اور بے بس لڑکی کی عزت برباد کرنا کہاں کی مردانگی ہے؟‘‘ خیرل سندھو نے غیرت بھرے لہجے میں سردار بگن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا۔ بگن ڈاکو غصے سے پھنکارتی آواز میں بولا۔ ’’یہ کیا بکواس کررہا ہے ڑے تو خیرل؟ جانتا نہیں، میں گروہ کا سردار ہوں۔‘‘ ’’مگر میں تجھے ایک بے بس لڑکی کے ساتھ ایسا شرمناک کھیل نہیں کھیلنے دوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر خیرل سندھو آگے بڑھا اور زمین پر پڑی اجرک اٹھا کر سوہنی کے سر پر ڈال دی۔ ’’اسے جانے دے سردار سائیں! اسے جانے دے۔‘‘ اس کے لہجے میں عجیب سا دبدبہ عود کر آیا تھا۔ بگن دھاڑ کر بولا۔ ’’ہرگز نہیں! یہ میرا شکار ہے اور اب میں تجھے حکم دیتا ہوں کہ اسی وقت میرے گروہ سے ہی نہیں بلکہ اس ڈیرے سے بھی دفع ہوجا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے سوہنی کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ خیرل سندھو ایک دم سوہنی کے آگے ڈھال بن کر کھڑا ہوگیا۔ دونوں ڈاکو آمنے سامنے تھے۔ دونوں ہی لمبے تڑنگے اور لحیم شحیم تھے۔ تب بگن نے ایک زوردار گھونسا خیرل سندھو کے جبڑے پر جڑ دیا۔ خیرل نے تکلیف کی پروا کئے بغیر اپنی لات چلائی، بگن لڑکھڑا گیا۔ پھر جیسے ہی اس نے زمین پر پڑی اپنی کلاشنکوف اٹھانے کے لیے پیش قدمی کرنی چاہی تو خیرل نے اس پر چھلانگ لگا دی۔ اگلے ہی لمحے دونوں گتھم گتھا ہوگئے تھے۔ سوہنی سراسیمہ انداز میں ایک کونے میں جاکھڑی ہوئی تھی اور دل ہی دل میں اس بھلے مانس خیرل سندھو کی فتح کے لیے دعائیں مانگ رہی

Latest Posts

Do Humsafar

Related POSTS