جب ہماری شادی ہوئی، میرے شوہر کافی زرعی اراضی اور کئی مکانات کے مالک تھے۔ سوچا نہ تھا کہ کبھی ہم پر برے دن بھی آئیں گے۔ زندگی ایک خوبصورت خواب تھی۔ بے فکری اور رزق کی فراوانی نے مجھے ہر شے سے بے نیاز کر دیا تھا۔ مجھے شہاب سے اور ان کو مجھ سے بے پناہ محبت تھی، تبھی دن پر لگا کر اڑنے لگے۔ ہماری زرعی زمین میں کئی ایکڑ رقبے پر پھولوں کا باغ لگا ہوا تھا۔ اس پر میرے جیون ساتھی نے محنت کر کے ، مثالی باغ بنا دیا تھا۔ دوسرے زمیندار جب اس باغ کو دیکھتے ، تو جنت کے گوشے سے تعبیر کرتے تھے۔ اس میں ہر قسم کے پھل اور پھول وافر مقدار میں لگائے گئے تھے۔ اس باغ کا آم اس قدر عمدہ ہوتا تھا کہ دور دور تک اس کی مہک جاتی تھی اور لوگ نمونے کے لئے لے جاتے تھے ، ہماری خوشحالی کا ذریعہ دراصل یہی باغ تھا۔
ایک روز میرے شوہر درخت پر چڑھے پھل توڑ رہے تھے کہ پیر پھسلا اور گر گئے۔ ریڑھ کی ہڈی میں سخت چوٹ آئی کہ اٹھ کر چلنے کے قابل نہ رہے۔ فوراً ان کو بیل گاڑی میں شہر لایا گیا۔ کافی عرصہ اسپتال میں داخل رہے۔ ڈاکٹر نے کہا۔ بالکل سیدھے لیٹے رہنے سے ان کو گردوں میں پتھری کا مرض لاحق ہو سکتا ہے ، اس لئے کافی احتیاط کی ضرورت ہے۔ ریڑھ کی ہڈی کا علاج عرصے تک جاری رہا۔ وہ چلنے پھرنے کے قابل تو ہو گئے لیکن گردوں میں پتھری کا مرض بھی ہو گیا اور چند دنوں بعد جب یہ صحت یاب ہو کر گھر آئے تو انکشاف ہوا کہ اب وہ کوئی محنت طلب کام کرنے کے قابل نہیں رہے، حتی کہ زیادہ چلنے پھرنے سے بھی گردوں میں درد شروع ہو جاتا تھا۔ دردا گر ایک ہی گردے میں ہوتا تو شاید کام چل جاتا، لیکن یہاں تو دونوں گردے متاثر تھے۔ شہاب دن رات کراہتے تھے اور میں ان کی کراہیں سن کر تڑپتی رہتی تھی۔ اب نوکر چاکر فصل کو کھانے لگے۔ میں پردہ نشین عورت ، کیا زمین کی دیکھ بھال کرتی۔ تقریب یہ 1970ء کا زمانہ تھا، آج کل کی بات نہیں۔ آج تو عورت کافی خود اعتماد ہو چکی ہے لیکن گزرے دور میں اس پر رسم ورواج کی بڑی سخت پابندیاں ہوا کرتی تھیں۔ علاقے کے لوگ ہی نہیں، اپنے رشتہ دار بھی اس کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ وہ اپنی منشا و مرضی سے کچھ بھی نہ کر سکتی تھی۔ اسے ہر حال اپنے قریبی عزیزوں کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ شہاب خود تو ایک قدم نہ چل سکتے تھے۔اب ہمیں اپنے لٹنے کا تماشہ اپنی آنکھوں سے دیکھنا تھا۔ شہاب نے سوچا کیوں نہ بڑی بہن کے پاس جا کر تمام مسائل سے آگاہ کریں۔ شاید وہ ہی کچھ مدد کریں۔ فرح باجی شہر میں رہتی تھیں، جہاں اسپتال میں داخلے اور علاج کی سہولت بھی تھی۔ میں دونوں بچوں اور شہاب کو لے کر بڑی نند کے گھر چلی گئی۔ میری نند نے دل سوزی سے ہمارے دکھ سنے اور اپنے شوہر کو ہماری بپتا سے آگاہ کیا۔ میرے نندوئی کامران صاحب نے تسلی دی کہا۔ گھبرائو نہیں، برے دنوں میں اپنے ہی اپنوں کی مدد کیا کرتے ہیں۔ میں شہاب کو اسپتال داخل کرادیتا ہوں۔ جب تک یہ ٹھیک نہیں ہو جاتے ، میں آپ لوگوں کی زمین اور فصلوں کی دیکھ بھال کروں گا۔ میں خوش ہو گئی کہ چلو اتنا سہارا بہت ہے۔ شہاب کا علاج ہو جائے گا، وہ ٹھیک ہو جائیں گے تو ہم پہلے کی طرح پھر سے پر مسرت زندگی کے دن گزار نے لگیں گے۔
کامران بھائی نے ملازمت سے چند ماہ کی چھٹی لے لی، کیونکہ فصل کا موسم تھا اور ان کا زمینوں پر موجود رہنا ضروری تھا۔ گائوں جاتے ہوئے وہ شہاب کو اسپتال میں داخل کرا گئے تھے۔ امید تھی کہ آپریشن کے بعد وہ ٹھیک ٹھاک ہو کر گھر آجائیں گے اور ہم پھر سے اپنے گائوں چلے جائیں گے۔ اسپتال میں طبی معائنوں کے بعد ڈاکٹرز نے یہ کہہ کر آپریشن سے انکار کر دیا کہ ایک گردہ ختم ہو چکا ہے اور دوسرے کا آپریشن اس لئے خطرے سے باہر نہیں ہے کہ اگر کامیاب نہ ہوا تو مریض کی زندگی کی ضمانت نہیں ہے۔ چھوٹا شہر ہونے کی وجہ سے وہ جدید مشین بھی اسپتال موجود نہ تھی، جو دوران آپریشن مریض کی جان بچا سکتی تھیں۔ یہ مشین دوران آپریشن مریض کے گردے فعال نہ ہونے کی صورت میں گردے کے فعل کو سر انجام دیتی رہتی ہے۔ اسی خطرے کے پیش نظر ڈاکٹر نے رسک نہ لیا اور شہاب کو ہمیں بغیر آپریشن گھر لانا پڑا۔ کامران بھائی جب زمین سے واپس آئے تو بہت خوش تھے کہ اتنی اچھی زمین ہے ، فصل بھی خوب دیتی ہے۔ آدمی اس پر محنت کرے تو چند دنوں میں وارے نیارے ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا۔ میاں شہاب ! نوکری میں کیا رکھا ہے ؟ اصل خوشحالی تو زمین سے ہے۔ میں نے اپنی زندگی کے کتنے ہی سال نوکری اور معمولی تنخواہ میں ضائع کر دیئے۔ تمہاری زمین دیکھ کر احساس ہوا ہے کہ سونے کی کان تمہارے پاس ہے مگر تم بیماری کی وجہ سے اب اس سے فائدہ حاصل نہیں کر سکتے۔ بھائی کامران ! آپ ہی بتائیے ، میں کیا کر سکتا ہوں ؟ اگر تم مجھے زمین کا تمام کام اور مختار نامہ سونپ دو تو میں نوکری چھوڑ کر تمہاری زمین کی دیکھ بھال بہت محنت سے کروں گا، اس طرح نہ صرف تمہاری بہن کا گھر خوشحالی سے بھر جائے گا بلکہ تمہیں بھی فائدہ ہو گا۔ زمین غیر آباد نہ پڑی رہے گی۔ نوکر فصل نہ کھائیں گے۔ میں تمہارا علاج معالجہ بھی کرواتا رہوں گا۔ تمہیں لاہور کے کسی بڑے اسپتال میں داخل کروا دوں گا، جہاں تمہارا آپریشن ہو جائے گا۔ بھائی جان ! جیسا چاہیں کریں۔ فصل کی آمدنی جس طرح چاہیں خرچ کریں۔ آپ میرے اپنے ہیں، آپ سے دھوکے کا ڈر نہیں۔ مجھے آپ پر پورا بھروسہ ہے۔ شہاب نے جواب دیا۔ اس کے بعد کامران بھائی نے زمینوں کا انتظام سنبھال لیا۔ وہاں ٹیوب ویل لگایا، ٹریکٹر سے زمین پر ہل چلوایا اور مستقل زمین پر رہنے لگے۔ ادھر ان پر بھروسہ کر کے شہاب مطمئن ہو گئے۔ ہم ابھی تک کامران بھائی کے گھر میں قیام پذیر تھے اور ان کے آسرے پر اچھے دنوں کے لوٹ آنے کا انتظار کر رہے تھے۔ میں نند کو خوش رکھنے کے لئے ہر طرح سے ان کا ساتھ دے رہی تھی۔ ان کے گھر کا سارا کام کاج سنبھال لیا تھا۔ جس قدر ممکن ہو سکتا تھا، فرح باجی کو سکھ پہنچانے کی کوشش کرتی تھی تا کہ وہ ہمیں گھر میں رہنے دیں۔ میرے شوہر کا کسی طور علاج ہو اور ان کی زندگی بچ جائے، تاکہ میرے معصوم بچوں کا مستقبل سنور جائے۔
میرے شوہر کا چھوٹا موٹا علاج معالجہ ہوتا رہا، وہ کئی بار اسپتال میں داخل ہوئے اور پھر ان کی چھٹی کر دی گئی۔ عارضی افاقہ ہو جاتا، پھر تکلیف شروع ہو جاتی۔ ہوتے ہوتے بیماری نے جڑ پکڑ لی اور ان کے مثانے میں پس پڑ گئی۔ وہ چلنے پھرنے کے قابل نہ رہے۔ادھر ہماری زمینوں کو مناسب دیکھ بھال ملی تو وہ سونا اگلنے لگیں۔ کامران بھائی سے میں نے التجا کی کہ اب میرے شوہر کا علاج کسی بڑے شہر کے اچھے اسپتال سے کرائیں ورنہ کسی دن ان کی زندگی کا چراغ گل نہ ہو جائے۔ ایسی صورت میں میرے بچوں اور میرے مستقبل کا کیا ہو گا؟ خدا نہ کرے کہ ہم آپ لوگوں پر مستقل بوجھ بن کر رہ جائیں۔ بہن! فی الحال میں بے حد مصروف ہوں۔ تمہارے شوہر کو لاہور لے جاکر علاج نہیں کرا سکتا۔ وہاں ان کے ساتھ مجھے بھی اسپتال میں رہنا ہو گا۔ زمینوں کے سارے کام چوپٹ ہو جائیں گے۔ ابھی جہاں علاج ہو رہا ہے ،اس سے بھی کچھ نہ کچھ افاقہ ہو جائے گا۔ جلد ہم کسی بڑے اسپتال جا کر کسی بڑے اور ماہر سرجن سے آپریشن بھی کروادیں گے۔ اس وقت میں زمینوں کے معاملات چھوڑ کر گیا تو میرے پیچھے باغ اور ٹیوب ویل تباہ ہو جائیں گے۔ اسی دوران کامران بھائی کا ساتھ والی زمین کے زمیندار سے کسی مسئلے پر تنازع ہو گیا۔ وہ اس تنازعے میں الجھ کر رہ گئے، ادھر میرے شوہر کی تکلیف بڑھتی گئی، یہاں تک کہ وہ موت کے دھانے پر پہنچ گئے۔ جس شہر میں ہم رہ رہے تھے ، وہاں کے اسپتال لے گئے۔ ڈاکٹر نے بتادیا کہ آپ تاخیر کر رہے ہیں۔ اب اگر جلد از جلد علاج نہ کروایا تو پھر زندگی کی امید نہ رہے گی۔ آپ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ تاخیر اب ان کے لئے زہر قاتل ہے۔ میں نے ایک بار پھر کامران بھائی سے منت کی کہ آپ جلد کچھ کریں۔ زمینوں کا نقصان ہوتا ہے ، تو ہونے دیں۔ ان کی زندگی سے بڑھ کر تو زمینیں نہیں ہیں۔ وہ پھر بھی آج کل آج کل پر ٹالتے رہے۔ جب میں نے ایک روز بہت زیادہ اصرار کیا تو وہ بگڑ گئے۔ بولے۔ تم عورتوں کی عقل جانے اتنی ناقص کیوں ہوتی ہے ؟ آپ لوگ کسی بات کو سمجھتی ہی نہیں۔ پھر انہوں نے گزشتہ چند سالوں کے اخراجات گنوادیئے جو شہاب کے علاج معالجہ اور ہماری ضروریات پر خرچ ہوئے تھے۔ کہنے لگے۔ میں نے اخراجات کی پائی پائی کا حساب لکھ رکھا ہے۔ میں تم لوگوں پر مکانات کی مالیت اور زرعی زمین کی قیمت سے زیادہ اخراجات کر چکا ہوں۔ اب مجھ میں سکت نہیں کہ شہاب کو لاہور لے جاکر وہاں ان کا علاج و آپریشن کروائوں۔ شہاب اپنی زندگی سے مایوس ہو چکے تھے۔ ان کو دن رات ، رونے سے کام تھا۔ مجبور ہو کر انہوں نے میری اور بچوں کی خاطر اپنی زمینیں اور مکانات کامران بھائی کے نام کر دیئے تاکہ وہ ان کا آپریشن کرادیں، شاید کہ زندگی بچ جائے۔ کہتے ہیں کہ جب تک سانس تب تک آس۔ انسان تو آخری دم تک زندگی کے لئے تگ و دو چاہتا ہے۔ اگر وقت پر علاج نہ ہو سکا، تب بھی تو برے حالات میں گھر اور زمینوں کو اونے پونے بیچنا ہی پڑے گا۔ میں یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ میرا دل خون کے آنسو رو رہا تھا اور کامران بھائی اپنے کاروبار اور زمینداری ہیں مصروف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ذرا فرصت نکال لوں تو تمہارے شوہر کے ساتھ چلتا ہوں۔
بیماری اس حد تک پہنچ جائے تو وقت کا ایک ایک لمحہ زندگی کی رمق گھٹاتا جاتا ہے ، پھر موت کسی فرصت کا انتظار نہیں کرتی۔ میں جانتی تھی کہ کامران بھائی کو فرصت نہیں ملے گی، وہ کبھی بھی وقت نہ نکال سکیں گے۔ اب تو ان کے نئے مکان کی تعمیر بھی شروع ہو چکی تھی۔ بھلا ان کے پاس اتنا وقت کہاں ؟ میں حالات اور اپنے شوہر کی زندگی سے قطعی مایوس ہو چکی تھی۔ ساس فوت ہو گئی تھیں کہ کسی رشتہ دار پر دبائو ڈالتیں۔ میرے والدین بہ قید حیات تھے اور نہ بھائی، کون مجھے سہارا دیتا۔ بس اسی ایک نند کا سہارا تھا جس کے گھر آ بیٹھی تھی۔ ایک چچا تھے ، جن سے چھوٹی نند بیاہی ہوئی تھی۔ وہ ایک دور کے شہر میں معمولی ملازم تھے، کیا میری مدد کر سکتے تھے۔ کون اس عورت کی بے بسی کا اندازہ کر سکتا ہے، جس کا سہاگ اس کی نظروں کے سامنے دم توڑ رہا ہو اور قریبی عزیز بے اعتنائی برت رہے ہوں۔ وہ زمینوں کا مالک ہو، لیکن یہ جائیداد بھی برے وقت میں اس کے کام نہ آسکتی ہو۔ ایک روز جبکہ شہاب کی حالت زیادہ نازک ہو گئی تو میں نے دعا کی۔ خدایا! یا تو میرے سرتاج کو زندگی دینے کی کوئی سبیل پیدا کر دے یا پھر مجھے ان سے پہلے موت دے دے۔ ان کی زندگی میں ہی لوگ مجھے ضرورت مند جان کر حقیر سمجھنے لگے ہیں، تو بعد میں میرا کیا ہو گا۔ یہ بڑا کٹھن دن تھا۔ دل پر بھاری بوجھ رکھا تھا۔ امید کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا۔ رو کر بیٹھی تھی کہ میرے چاچا آ گئے۔ انہوں نے مجھے اس حال میں دیکھا تو خون نے جوش مارا۔ وہ ہمیں فوراً لاہور لے آئے اور ایک پرائیویٹ اسپتال میں شہاب کو داخل کروا دیا۔ مجھے بالکل امید نہ رہی تھی کہ اللہ تعالی اچانک چچا کے دل کی کایا پلٹ دے گا اور ان کا دل ہمارے لئے اس طرح رحم سے بھر جائے گا۔ وہ معمولی ملازم تھے ، تھوڑی سی تنخواہ تھی، جس میں ان کا اپنا گزارہ بمشکل ہوتا تھا۔ بال بچے دار تھے ، پھر بھی اپنے دوستوں سے قرض لیا، ذاتی گھر بنوانے کے لئے تھوڑا سا سرمایہ پس انداز کر رکھا تھا، وہ بھی اس کڑے وقت میں میرے دکھوں پر نچھاور کر دیا۔ میرے شوہر کا آپریشن ہو گیا۔ گردے کی ضرورت تھی، چاچا نے اپنا گردہ دان کر دیا۔ امید تھی کہ شہاب کو نئی زندگی مل جائے گی لیکن آپریشن کامیاب نہ ہوا۔ چند دن بعد وہ خالق حقیقی سے جاملے۔ میری دنیا اندھیر ہو گئی۔ شوہر بھی گیا اور زمینیں جائیداد بھی نندوئی صاحب کے قبضے میں چلی گئی۔ وہ اب صرف ہم کو دو وقت کی روٹی دینے کے ذمہ دار تھے۔ جب آپریشن ہو رہا تھا، چاچا بیڈ پر لیٹے ہوئے تسلیاں دے رہے تھے کہ فکر نہ کرو۔ ہم خدا کی مدد سے موت سے بھی لڑ جائیں گے ، اپنے شہاب کو مرنے نہ دیں گے لیکن موت پر کس کا بس ہے۔ چچا گردہ دینے کے بعد تین ماہ بستر پر رہے۔ اگر شہاب کو نئی زندگی مل جاتی تو ان کو بھی نئی زندگی مل جاتی لیکن اب ان کے چہرے پر تھکن رہتی تھی۔ دوبارہ صحت یاب ہونے میں ان کو اتنے دن لگ گئے مگر صحت یاب ہو گئے۔ صد شکر کہ پھر سے ملازمت پر جانے لگے۔ میں عدت میں تھی۔ ابھی کامران بھائی کے گھر تھی کہ اچانک یہ حادثہ ہوا۔ میری بڑی نند بھینس کو چارہ ڈالنے باڑے میں گئیں۔ وہاں بھوسے کے ڈھیر میں کہیں زہریلا ناگ چھپا بیٹا تھا، جس نے ان کے پیر پر ڈس لیا۔ زہر نے آناً فاناً اثر دکھایا اور فرح باجی اسپتال تک پہنچنے سے پہلے دم توڑ گئیں۔ گھر میں کہرام مچ گیا۔ ایک نہیں، دو سانحے تھوڑے وقفے سے ہو کر گزرے۔ ہم سبھی نڈھال تھے۔ فرح باجی کے دو چھوٹے بچے تھے اور دو ہی میرے تھے۔ اب ایک گھر میں چار یتیم بالک اکٹھے ہو گئے تھے اور ان کو دیکھنے والی خدا کی ذات کے بعد چاچا ہی باقی بچے تھے ، جن کا گردہ بھی ایک رہ گیا تھا۔ دوسرا توانہوں نے شہاب پر قربان کر دیا تھا۔ انہوں نے اپنے اعلیٰ افسر کو حالات سے آگاہ کیا تو اس نے از راہ مہربانی ان کا تبادلہ اسی شہر میں کر دیا جہاں ہم قیام پذیر تھے۔ اب وہ ایک ہی کام کر سکتے تھے یا تو نوکری کرتے یا پھر نوکری چھوڑ کر زمینداری سنبھالتے تاکہ پیداوار کا کچھ حصہ میرے بچوں کو بھی مل پائے، کیونکہ کامران میرے چچا سے دبتے تھے۔
جب فرح باجی کی وفات کو چالیس دن گزر گئے تو ان کے شوہر اور بچوں کی دیکھ بھال کا مسئلہ مد نظر آیا، جن کو فی الحال میں سنبھال رہی تھی۔ میں ہی ان کے گھر کو چلارہی تھی۔ نند حیات تھیں، تو نندوئی کے گھر میرا رہنا بنتا تھا لیکن ان کی بیوی اب بہ قید حیات نہ رہی تھیں۔ اب میرا وہاں رہنا معیوب ہی نہیں ناممکن سی بات ہو گئی۔ تبھی چچا نے ہم دونوں کو علیحدہ علیحدہ سمجھایا کہ رضائے الہی سے ایک کی بیوی اور دوسری کا شوہر دنیا سے چلے گئے ہیں۔ کامران کو اپنے بچوں کے لئے ماں جیسی محبت کرنے والی عورت چاہئے تھی اور میرے بچوں کے اخراجات اٹھانے کے لئے کوئی باپ جیسی شفقت بھری ہستی، اس بندھن کا ایک سبب ہماری وہ زمین اور جائیداد بھی تھی، جو تھی تو ہماری مگر اب کامران کے نام لکھی جاچکی تھی۔ تاہم اس کی آمدنی سے وہ کم از کم میرے بچوں کے اخراجات کا ذمہ اٹھائے ہوئے تھے۔ چچا نے پہلے کامران کو اور بعد میں مجھے سمجھایا کہ دونوں کے بچوں کی بہتری اسی میں ہے کہ ہمارا آپس میں نکاح ہو جائے اور ہم اس امر پر راضی ہو جائیں تاکہ دو گھر جو ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گئے ہیں ، آباد گھر کی صورت میں پھر سے چار یتیم بچوں کے لئے سکون کا گہوارہ بن جائیں۔ بے شک میں نے دوبارہ شادی نہ کرنے کی قسم کھائی ہوئی تھی کیونکہ مجھے اپنے مرحوم شوہر سے بہت محبت تھی لیکن اب چچا کا دبائو تھا اور چار بچوں کی پرورش اور ان کی یتیمی کا خیال تھا۔ مجبوریاں بعض اوقات انسان سے بڑے عجیب و غریب اور انہونے فیصلے کرا دیتی ہیں۔ جو کبھی سوچا نہیں ہوتا، جو وہم و گمان میں نہیں ہوتا، وہی انہونیاں ہو جاتی ہیں۔ نہ تو کامران نے ایسا سوچا تھا کہ مجھ سے نکاح کریں گے اور نہ ہی میں نے تصور کیا تھا کہ میں ان کی شریک حیات بن جائوں گی، مگر یہ ہوا اور یہ تقدیر سے ہوا، حالات سے ہوا۔ وہ حالات جن پر نہ تو میرا بس تھا اور نہ کامران کا۔ چچا کی کوشش بر آئی اور ہمارا نکاح ہوا۔ ہمارے ذہنوں نے کافی عرصے بعد جا کر ایک دوسرے کو قبول کیا تھا، لیکن ہمارے بچے ضرور محفوظ اور پرسکون ہو گئے تھے۔ انہوں نے خوشحالی میں زندگی گزاری، اچھی تعلیم پائی۔ ایک گردہ دان دینے کے بعد چچا کی صحت بھی پہلے جیسی نہ رہی تھی۔ انہوں نے ملازمت چھوڑ دی اور کامران کے بنائے ہوئے جنرل اسٹور پر بیٹھ گئے۔ اس طرح میری چھوٹی نند کے بچے بھی سہولت سے پلے بڑھے اور چچا نوکری کی مشقت سے بچ گئے۔ چچا کی زندگی تھوڑی تھی۔ آپریشن کے بعد وہ دس برس جی پائے اور اللہ کو پیارے ہو گئے۔ تب ان کے بچے ابھی پڑھ رہے تھے ، ان بچوں کو بھی کامران نے سنبھالا۔ دوسرے لفظوں میں اپنی سالی کے بچوں کو سنبھالا۔ ان کی ملازمتیں لگوائیں ، شادیاں کیں۔ شاید اللہ نے ان سے یہ سارے کام لینے تھے، تبھی ان کو لمبی عمر عطا کی۔ آج وہ اس دنیا میں نہیں ہیں مگر انہوں نے اپنوں کو سنبھالا اور جو نیکیاں یتیم بچوں کے ساتھ کیں ، ان کو پڑھا لکھا کر کسی قابل بنایا، اس کے لئے ضرور ان کو آخرت میں اجر ملے گا۔ جب بھی نماز پڑھتی ہوں، اپنے دونوں شوہروں کی مغفرت کی دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالی ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔