Friday, September 20, 2024

Anjaam | Episode 1 | Part 1

شادی ہال روشنیوں میں جگمگا رہا تھا۔ مہمانوں کے ہجوم میں زرق برق لباس میں موجود خواتین کے قہقہے بڑا خوش کن سماں پیش کر رہے تھے۔ ان کے درمیان ایک ایسا شخص بھی تھا جو اس ہجوم سے بالکل الگ ایک کونے میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کا لباس ملگجا اور داڑھی کے بال بکھرے نظر آتے تھے۔ وہ گرد و پیش سے بے خبر اسٹیج پر بیٹھی ہوئی دُلہن کو گھورے جا رہا تھا۔ عروسی جوڑے میں ملفوف حسین و جمیل فرزانہ اسے وہ ننھی بچی لگ رہی تھی جسے کبھی وہ پیار سے ’’چندا بیٹی‘‘ کہا کرتا تھا۔ اس کا دل بار بار چاہ رہا تھا کہ وہ دوڑ کر اسٹیج پر جائے اور اپنی بیٹی کے ماتھے کو چوم لے، لیکن وہ اپنی محبت پر بیٹی کی خوشیوں کو پامال نہیں کر سکتا تھا۔ وہ ایک قاتل تھا جسے اپنی بیوی کے قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا ہوئی تھی اور چند روز قبل جب وہ جیل سے رہا ہو کر باہر آیا تو فرزانہ کے سامنے نہیں آ سکا۔
جمیل شاہ جس کا کبھی شہر کے معزز افراد میں شمار ہوتا تھا، اب بوڑھا ہو چکا تھا اور وہ معاشرے کی نگاہوں میں ایک مجرم تھا۔ اس شخص کے علاوہ ایک اور آدمی بھی شادی کے ہنگاموں سے لاپروا بیٹھا تھا۔ یہ انسپکٹر رضوی تھا جو ایک لمحے کے لیے بھی جمیل شاہ کو اپنی عقابی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔
فرزانہ کی شادی شہر کے ایک کروڑ پتی بزنس مین کے لڑکے اختر کمال کے ساتھ ہوئی تھی اور یہ تقریب اس سلسلے کی تھی۔ اچانک اختر کمال دُلہن کا ہاتھ تھام کر اُٹھا اور دروازے کی طرف بڑھا۔ فوٹوگرافروں نے کیمرے سنبھال لئے اور فلیش لائٹس کی چکاچوند سے گزر کر دولہا دلہن باہر کھڑی خوبصورت سی کار کے قریب پہنچ گئے۔ ایک ملازم نے بڑھ کر دروازہ کھولا۔ دلہن کو اگلی سیٹ پر بٹھا کر اختر کمال نے اسٹیئرنگ سنبھالا اور کار آگے بڑھ گئی۔
اختر کی ملاقات فرزانہ سے یونیورسٹی میں ہوئی تھی۔ دونوں کی محبت بہت جلد منظرعام پر آ گئی۔ اختر کو معلوم تھا کہ فرزانہ کے والد بیوی کے قتل کے جُرم میں عمرقید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ اس کے باوجود وہ فرزانہ سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔ اسے فرزانہ سے محبت ہی نہیں بلکہ گہری ہمدردی بھی تھی۔ فرزانہ یوں بھی بے حد حسین تھی اور ذہین بھی۔ ماں کی موت کے بعد وہ بالکل تنہا رہ گئی تھی۔ ضعیف پھوپھی جو اس کی نگہداشت کرتی تھیں، وہ بھی زیادہ عرصے تک زندہ نہیں رہ سکیں۔ ان کی موت کے بعد وہ باپ کے چھوڑے ہوئے مختصر سے سرمایے کے سہارے تعلیم حاصل کرتی رہی۔ شادی پر اختر کے اچانک اور شدید اصرار نے فرزانہ کو رضامند ہونے پر مجبور کر دیا۔ اب سوائے اختر کمال کے وہ خود کو دنیا میں بالکل تنہا محسوس کرتی تھی۔
اختر کمال نے شہر سے باہر نکلتے ہی کار کی رفتار بڑھا دی اور محبت پاش لہجے میں بولا۔ ’’کیا بات ہے فری! تم اتنی خاموش کیوں ہو؟‘‘
جواب میں فرزانہ نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔ ’’سوچ رہی تھی کہ کیسی بدقسمت ہوں، مجھے رخصت کرنے کے لیے ماں باپ تھے، نہ بہن بھائی اور نہ ہی سہیلیاں جو شادی میں رخصتی کے گیت گاتی ہیں۔‘‘
’’میں تو ہوں فری!‘‘ اختر پیار سے بولا۔
’’ہاں۔ تمہارے علاوہ اب اس دنیا میں میرا کون ہے؟‘‘
’’ایسی باتیں نہ کرو، کیا تم خوش نہیں ہو؟‘‘
’’اوہ… اختر! تم میری خوشی کا اندازہ نہیں کر سکو گے، زندگی میں پہلی مرتبہ مجھے خوشی نصیب ہوئی جو سمیٹے نہیں سمٹ رہی ہے، لیکن یہ تم کہاں جارہے ہو؟‘‘
’’ایسی جگہ، جہاں صرف ہم دونوں ہوں اور دنیا کی کوئی فکر دامن گیر نہ ہو۔‘‘
’’کیا ایسی بھی کوئی جگہ ہے اختر؟‘‘ وہ مسکرائی۔
’’تم ساتھ ہو تو ہر جگہ ایسی محسوس ہوگی فری۔ لگتا ہے کہ تمہیں پا کر میں نے سب کچھ پا لیا ہے۔‘‘
’’اختر۔‘‘ فرزانہ نے اختر کے شانے پر سر ٹکاتے ہوئے کہا۔ ’’میری تمام تر مسرتوں کا مرکز صرف تم ہو۔‘‘
وہ اب ایک پہاڑی علاقے سے گزر رہے تھے۔ دونوں طرف بلند پہاڑیاں تھیں، جن پر موجود سرسبز درختوں سے ٹھنڈی ہوا کے تھپیڑے ٹکرا رہے تھے۔
اختر نے کار کی رفتار مزید بڑھا دی۔ کچھ دیر بعد وہ پہاڑیوں کے درمیان سے نکل کر کھلے میدانی علاقے میں آ گئے۔ ہر سمت لہلہاتے ہوئے کھیتوں کا دُور تک پھیلا ہوا سلسلہ تھا۔
’’تم خوش ہو نا فری؟‘‘ اختر نے پوچھا۔
’’خوش! میں نے زندگی میں کبھی اتنی خوشی اور طمانیت محسوس نہیں کی۔‘‘ فرزانہ نے جواب دیا۔
لیکن شاید ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ان کی یہ خوشی کتنی عارضی ہوگی۔
اسی لمحے ایک سیاہ کار انتہائی تیز رفتاری سے عقب سے آئی اور ان کے برابر سے ہوتی ہوئی آگے گزر گئی۔ ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک شخص نے اختر کو گھور کر دیکھا تھا۔ کار اتنی تیزی کے ساتھ برابر سے گزری کہ اختر کا پیر غیرارادی طور پر بریک پر چلا گیا اور ان کی کار کو ایک زبردست جھٹکا لگا۔
’’کم بخت! اندھا معلوم ہوتا ہے۔‘‘ فرزانہ نے سنبھلتے ہوئے غصے سے کہا۔ ’’نہ جانے لوگوں کو تیز رفتاری میں کیا مزہ آتا ہے اگر تم…!‘‘ وہ اپنا جملہ پورا نہ کر سکی۔ اختر کے چہرے پر نظر پڑتے ہی سہم گئی۔ اختر یکدم سفید پڑ گیا تھا۔ اس کے چہرے پر خوف طاری تھا۔ فرزانہ نے چاہا کہ اس سے کچھ پوچھے لیکن وہ اختر کی طبیعت سے واقف تھی۔ اُسے یقین تھا کہ وہ خود ہی بتائے گا۔ پوچھنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔
وہ اب ایسی جگہ سے گزر رہے تھے جہاں سڑک کے دونوں جانب گھنے جنگل کا سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ وہ سیاہ کار اب نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی۔
٭…٭…٭
تقریباً ایک گھنٹے کے بعد وہ جنگل کے اس طویل سلسلے سے نکل کر ایک بار پھر میدانی علاقے میں پہنچ گئے۔ دور کسی آبادی کی روشنیاں نظر آ رہی تھیں، راستے میں انہیں وہ سیاہ کار کہیں دکھائی نہیں دی تھی۔ اختر کے چہرے کی تازگی ایک بار پھر لوٹ آئی تھی لیکن فرزانہ کی نگاہوں میں ہنوز اس کا بھیانک چہرہ گھوم رہا تھا۔ اس نے اس آدمی کی صرف ایک جھلک دیکھی تھی۔ مضبوط جسم کے اس شخص کے خد و خال بڑے بدنما تھے۔ موٹے موٹے ہونٹ، سیاہ رنگ، چپٹی ناک اور چھوٹی چھوٹی آنکھیں جو بڑے تیکھے انداز میں انہیں گھورتی ہوئی گزری تھیں۔
’’لو ہم شاہ پور آگئے… پہلے یہاں چائے پئیں گے۔‘‘ اختر کمال نے آبادی میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
یہ ایک مختصر سا قصبہ تھا۔ سڑک کے کنارے ہی پیٹرول پمپ کے قریب ہائی وے موٹل کا نیون سائن نظر آ رہا تھا۔ اختر نے جیسے ہی گاڑی روکی، ایک بیرا بھاگ کر قریب آیا۔
’’چائے لائو…‘‘ اختر نے آرڈر دیا۔
’’اچھا ہوا تم یہاں رک گئے۔ مجھے چائے کی شدید خواہش ہو رہی تھی۔‘‘ فرزانہ نے کہا۔
اُنہوں نے اطمینان سے چائے پی اور پھر روانہ ہوگئے۔ وہ بہ مشکل ابھی چند میل ہی گئے ہوں گے کہ اچانک عقب سے آتی ہوئی تیز رفتار کار کی روشنی ان پر پڑی اور ایک بار پھر وہی سیاہ کار ان کی کار کے برابر سے گزر گئی لیکن اس بار گزرتے وقت اس کی رفتار ایسی تھی کہ چند لمحے وہ ان کے برابر چلتی رہی، سانپ جیسی آنکھوں اور سیاہ رنگت چہرے والے شخص نے اس مرتبہ پھر بڑی نفرت انگیز نظروں سے اختر کو گھورا۔ اس کی آنکھوں میں نہ جانے کیا تھا کہ فرزانہ کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اختر کا چہرہ خوف سے سفید پڑ گیا۔ اس نے گھبرا کر اسٹیئرنگ کاٹا۔ اسی لمحے سیاہ کار میں بیٹھے شخص نے ایک بھیانک قہقہہ لگایا اور کار آگے بڑھ گئی۔
چند فرلانگ جا کر ایک موڑ پر اختر نے کار روک دی اور جیب سے رومال نکال کر ماتھے سے پسینہ پونچھا اور بولا۔ ’’مجھے افسوس ہے فرزانہ! میں نے سوچا تھا کہ کسی مناسب وقت پر یہ راز ظاہر کروں گا لیکن میں تمہارے ذہن پر بار نہیں ہونے دینا چاہتا۔ ماضی کے کچھ
خاندانی معاملات ایسے ہیں جن کی بنا پر میری ایک خطرناک شخص سے دُشمنی چلی آ رہی ہے اور ہمارے تعاقب میں آنے والا یہ میرا بدترین دشمن ہے۔‘‘
’’میں نے پہلے ہی اندازہ کر لیا تھا۔‘‘ فرزانہ نے آہستہ سے کہا۔
’’ہاں، فرزانہ! اور اس کا بس چلے تو وہ اسی لمحے میرے ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔ میں نے اسے عبرتناک شکست دی تھی تب سے وہ میرا بدترین دشمن ہے۔ جب وہ اچانک ہمارے برابر سے گزرا تو ایک لمحے کو میں حیران رہ گیا تھا اور خوف زدہ بھی۔‘‘
’’میں نے فوراً محسوس کر لیا تھا۔‘‘ فرزانہ نے کہا۔ ’’اس آدمی کے چہرے پر شدید نفرت کے آثار تھے۔‘‘
’’اوہ… بڑی تیز نظر ہے تمہاری۔‘‘ اختر نے کہا۔ ’’دراصل اس شخص کو میری وجہ سے ایک زبردست مالی نقصان پہنچا تھا اور اس نے انتقام لینے کی قسم کھائی تھی لیکن اسے ملک چھوڑ کر فرار ہونا پڑا۔ میرا خیال تھا کہ وہ واپس آنے کی جرأت نہیں کرے گا لیکن وہ ایسے وقت میں نمودار ہوا کہ میں سوچ ہی نہیں سکتا تھا۔ ممکن ہے یہ محض اتفاق ہو۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ فرزانہ نے کہا۔ ’’یہ اتفاق نہیں ہو سکتا۔ اس نے دانستہ آپ کو اذیت پہنچانے کے لیے یہ لمحہ منتخب کیا۔ یہ بھی تو انتقام کا ایک طریقہ ہے۔‘‘
’’ممکن ہے ، لیکن اس کو یہ علم ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ہم کہاں جارہے ہیں؟‘‘
’’شاید وہ پہلے سے آپ کی نگرانی کر رہا ہو۔‘‘
’’ہاں، ہو سکتا ہے لیکن اسے مایوسی ہوگی۔ ہم اب سپرہائی وے پر سفر نہیں کریں گے۔‘‘
کچھ دور جا کر اختر نے گاڑی ایک کچی سڑک پر اتار دی۔ اس ناہموار راستے پر کافی دیر سفر کرنے کے بعد وہ ایک پختہ سڑک پر پہنچے اور پھر مخالف سمت میں روانہ ہوگئے۔
بلند و بالا پہاڑوں کی چوٹی سامنے نظر آ رہی تھی۔ وہ اس سڑک پر پہنچ گئے جو ایک گھاٹی کو جاتی تھی۔ یہ پتلی سی ایک پُرخطر سڑک پہاڑی کے گرد بل کھاتی چلی گئی تھی۔ اختر اطمینان کے ساتھ ڈرائیو کر رہا تھا۔ سیاہ کار اب نظر نہیں آ رہی تھی۔
کافی دیر بعد وہ ایک نشیبی سڑک پر آ گئے اور پھر ہموار جگہ پر پہنچ کر جنگلوں کے درمیان جانے والی سڑک پر مڑ گئے۔ جلد ہی ان کو دور سے بلیو مون ہوٹل کی عمارت نظر آنے لگی۔ یہ خوبصورت اور قدیم طرز کی عمارت پہاڑوں کے دامن میں واقع تھی۔ یہاں شکار کے شوقین لوگ قیام کرنے آتے تھے۔ اختر کمال نے شہر سے دور اس ویران جگہ کو ہنی مون کے لیے اس بنا پر منتخب کیا تھا کہ یہاں وہ چند روز مکمل سکون کے ساتھ بسر کر سکے گا۔
ایک باوردی دربان نے بڑھ کر ان کی کار کا دروازہ کھولا۔ اس نے بڑے ادب کے ساتھ اختر کو سلام کیا۔ اختر نے گاڑی کی چابیاں اس کے حوالے کرتے ہوئے سامان اس کے کمرے میں پہنچانے کا حکم دیا۔ ہوٹل کے سامنے ایک کشادہ لان تھا جس کے درمیان سنگِ مرمر کا خوب صورت فوارہ بنا ہوا تھا۔ ہری بھری روش سے گزر کر وہ ہوٹل کی لابی میں پہنچے۔ استقبالیہ کلرک نے کمرے کی چابی اختر کے حوالے کر دی۔
’’پسند آئی یہ جگہ؟‘‘ اختر نے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے فرزانہ سے پوچھا۔
’’بہت خوبصورت ہے۔‘‘ فرزانہ نے جواب دیا۔ ’’میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ تم نے اتنی دور ایسی جگہ کو منتخب کیا ہوگا۔‘‘
’’اپنی پیاری شریکِ حیات کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے ایسی ہی جگہ کی ضرورت تھی جہاں ہمارے علاوہ اور کوئی نہ ہو۔‘‘
وہ ایک شاندار اور سلیقے سے سجے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔ وہاں ہر چیز قیمتی اور آرام دہ تھی۔ ملازم نے ان کا سامان لا کر رکھ دیا۔ چائے کا آرڈر دے کر اختر نے سوٹ کیس کھولا اور بولا۔ ’’میرا خیال ہے تم پہلے غسل کر کے لباس تبدیل کر لو۔‘‘
’’ہاں… میں تھک گئی ہوں۔‘‘ فرزانہ نے انگڑائی لے کر کہا۔ ’’نہانے کے بعد تازہ دم ہو جائوں گی۔‘‘
سوٹ کیس سے لباس نکال کر وہ وارڈ روب کی سمت بڑھی۔ اس نے اطمینان سے وارڈ روب کا دروازہ کھولا اور پھر دوسرے ہی لمحے اس کے لبوں سے ایک بھیانک چیخ بلند ہوئی۔
اختر اُچھل کر اس کے قریب پہنچا اور پھر خود بھی سکتے میں آ گیا۔ خالی وارڈ روب میں ٹنگے ہوئے ہینگر کے ساتھ ایک تصویر لٹک رہی تھی۔ تصویر کو کاٹ کر ایک تختی کے ساتھ چپکایا گیا تھا اور پہلی نظر میں ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی اندر کھڑا ہوا ہے۔ تصویر انتہائی چونکا دینے والی تھی۔ لیکن اختر کو اُس سیاہ چہرے والے شخص کو پہچاننے میں چنداں دیر نہیں لگی تھی۔
اختر نے بڑھ کر فرزانہ کو اپنے بازوئوں میں سمیٹ لیا اور بولا۔ ’’مجھے افسوس ہے فرزانہ ڈارلنگ! مجھے بے حد افسوس ہے، لیکن میرا خیال تھا کہ یہ جگہ بالکل محفوظ ہے۔‘‘
کانپتی ہوئی سراسیمہ سی فرزانہ کے لبوں سے کوئی آواز نہ نکل سکی۔ وہ اختر کے سینے پر اپنا سر رکھ کر سسکیاں لینے لگی۔
’’اوہ! یہ تو بڑا بھیانک انتقام ہے۔‘‘ اختر نے آہستہ سے کہا۔ ’’آج آنسو بہانے کی شب نہیں میری زندگی۔ تم بلاوجہ ڈر گئیں، یہ صرف تصویر ہے۔‘‘
’’اس سیاہ چہرے والے کی تصویر۔‘‘ فرزانہ نے خوف زدہ لہجے میں کہا۔ ’’اسے معلوم تھا کہ ہم یہاں قیام کریں گے۔‘‘
’’ہاں! اور مجھے حیرت ہے کہ اسے کیسے معلوم ہو اکہ جب کہ میں نے کسی سے اس جگہ کا ذکر نہیں کیا تھا؟‘‘
’’وہ یقیناً بہت پہلے سے تمہارا تعاقب کر رہا ہوگا اختر۔‘‘ فرزانہ نے کہا۔
’’بلاشبہ یہی بات ہے۔ مجھے علم ہو چکا تھا کہ وہ شہر میں آ چکا ہے لیکن میرا خیال یہ تھا کہ وہ سامنے آنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ وہ میری ازدواجی مسرتوں کو پامال کر کے انتقام لینا چاہتا ہے۔ میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔‘‘ اختر نے غصے میں کہا۔
’’تم فکر مت کرو اختر! میں بزدل نہیں ہوں۔ بس اچانک تصویر دیکھ کر ذرا ڈر گئی تھی۔ اگر وہ بزدل یہ سمجھا ہے کہ اس طرح وہ ہمیں خوف زدہ کر دے گا تو وہ احمق ہے۔ اب اس کا مقابلہ تم سے تنہا نہیں ہے۔ میں بھی تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘
اپنی محبوب بیوی کی بات سن کر اختر کمال مسکرا دیا۔ وہ بولا۔ ’’فری! تم نے میرے ذہن سے ایک بہت بڑا بوجھ ہٹا دیا۔ میں ڈر رہا تھا کہ تم نجانے کیا سوچو۔ میں شرمندہ بھی تھا کہ آج کے دن بھی تم کو ان حالات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اب میری ہمت دوچند ہوگئی ہے۔‘‘
’’سنو اختر!‘‘ فرزانہ نے متانت سے کہا۔ ’’ہم نے زندگی کے آخری لمحے تک ساتھ رہنے کا عہد کیا ہے۔ میں ان لڑکیوں میں سے نہیں ہوں جو صرف اچھے دنوں کی تمنا کرتی ہیں۔ میں ہر مصیبت اور ہر مشکل میں تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘
’’اوہ… فری۔‘‘ اختر نے فرط محبت سے کہا۔ ’’تم پرستش کے قابل ہو۔ میں کل ہی اس جگہ کو چھوڑ دوں گا۔ ہم کسی اور شہر یا دوسرے ملک جا کر ہنی مون منائیں گے تاکہ کوئی ہماری تنہائیوں میں مخل نہ ہو۔‘‘
’’نہیں ڈیئر۔‘‘ فرزانہ نے جواب دیا۔ ’’ہم یہیں رہیں گے۔ خطرے سے ڈر کر فرار ہونا مردوں کا شیوا نہیں اور نا ہی یہ اس مسئلے کا حل ہے۔ اس طرح وہ سوچے گا کہ تم ڈر گئے۔‘‘
اس کی بات سن کر اختر نے غور کرنے کے انداز میں فرزانہ کے چہرے کی طرف دیکھا۔ پھر پُرجوش انداز میں بولا۔ ’’اگر تم تیار ہو تو میں اس ذلیل شخص کو عبرتناک سبق سکھائوں گا، مجھے صرف تمہارا خیال تھا۔‘‘
’’میں تمہیں ایک بہادر شوہر کے روپ میں دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘ اُس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
کچھ دیر بعد جب وہ تازہ دَم ہو کر نیچے آئے تو لان میں خاصی رونق نظر آ رہی تھی۔ بینڈ کے میوزک سے فضا بڑی رُومان پرور ہو رہی تھی۔ ہلکی روشنی میں سبزہ زار پر بیٹھے ہوئے مہمان موسیقی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
وہ دونوں ایک خالی میز کے گرد بیٹھ کر چائے پینے لگے۔ ہوٹل کے گرد دور تک کیاریاں پھیلی ہوئی تھیں۔ ہوٹل ٹیلے پر واقع تھا اور کیاریوں سے ہو کر کئی پگڈنڈیاں گرد و پیش کی پہاڑیوں تک جاتی تھیں۔ انہوں نے مختلف جوڑوں کو چہل قدمی کے لیے جاتے دیکھا تو
اُسی سمت روانہ ہوگئے۔
ہوٹل سے کچھ فاصلے پر پہنچ کر وہ ایک جگہ کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے۔ سامنے بلند و بالا چوٹیوں سے اُبھرتے ہوئے چاند سے بڑا دلکش سماں پیدا ہوگیا تھا۔ وہ اپنے خیالات میں گم ایک دوسرے کا بازو تھامے کھڑے تھے۔ فرزانہ نے اپنا مہکتا ہوا سر اس کے شانوں پر رکھ دیا۔
’’آپ کے پاس ماچس ہوگی؟‘‘
اس آواز پر اختر اُچھل پڑا۔ آواز اس کی پشت سے آئی تھی۔ وہ پھرتی کے ساتھ پلٹا تو اجنبی شرمندہ سا ہوکر بولا۔ ’’معاف کیجئے گا۔ شاید میں نے آپ کو ڈرا دیا۔‘‘
’’کوئی بات نہیں۔‘‘ اختر نے جیب سے ماچس نکال کر اُسے دی۔
’’بڑا دل فریب منظر ہے۔‘‘ اجنبی نے سگریٹ جلاتے ہوئے کہا۔ ’’میں کچھ دیر پہلے ہی یہاں پہنچا ہوں۔‘‘
’’ہاں! ہم بھی شہر کے ہنگاموں سے نجات حاصل کرنے کے لیے یہاں آئے ہیں۔‘‘ اختر کمال نے جواب دیا۔
’’شکریہ۔‘‘ اجنبی نے ماچس واپس کرتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے رضا کہتے ہیں۔ میں یہاں منظرکشی کے لیے آیا ہوں۔‘‘
’’مجھے اختر کہتے ہیں اور یہ میری شریکِ حیات فرزانہ ہیں۔‘‘
’’آپ آرٹسٹ ہیں؟‘‘ فرزانہ نے اس سے پوچھا۔
’’جی ہاں۔‘‘ رضا نے جواب دیا۔ ’’مجھے یہ سناٹا بڑا خوفناک محسوس ہوتا ہے۔‘‘
’’کمال ہے آپ آرٹسٹ ہو کر ڈرتے ہیں؟‘‘ فرزانہ نے کہا۔
’’ایسی پُرسکون جگہ پر کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟‘‘ اختر نے جواب دیا۔
’’اوہ، آج کل تو ہر جگہ خطرہ ہے۔ زندگی کہیں بھی محفوظ نہیں ہے مسٹر اختر! کیا پتا کس وقت سکون درہم برہم ہو جائے۔‘‘
’’مجھے تو ایسا کوئی خدشہ محسوس نہیں ہوتا۔‘‘ اختر نے پہلی مرتبہ اسے غور سے دیکھا تھا۔
’’شاید آپ کا خیال صحیح ہو لیکن مجھے تو ہر جگہ خطرہ دکھائی دیتا ہے۔‘‘
رضا رخصت ہو کر ہوٹل کی طرف چلا گیا۔ اختر کئی لمحے تک اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔
’’سنکی معلوم ہوتا ہے۔‘‘ فرزانہ نے تبصرہ کیا۔ اختر مسکرا دیا۔
وہ دونوں چہل قدمی کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ ہر سمت مکمل سکوت طاری تھا۔
’’کیا سوچ رہے ہو؟‘‘
’’سوچ رہا ہوں کہ تم نے جانے میرے بارے میں کیا اندازہ کیا ہوگا۔ میرا مطلب آج کے واقعات سے ہے۔‘‘
’’اوں ہوں۔ کبھی اس طرح نہ سوچنا۔ میں نے تم پر اعتماد کیا ہے۔ تم جو بھی ہو جیسے بھی ہو، اب میرے ہو۔ میں جانتی ہوں کہ مناسب وقت پر تم مجھے تمام حالات سے آگاہ کر دو گے۔‘‘
’’اوہ فری! تم کتنی پیاری ہو۔‘‘ اختر نے جذباتی لہجے میں کہا۔ ’’میں تم پر فخرکرتا ہوں۔‘‘
دونوں باتیں کرتے ہوئے کافی دور نکل آئے تھے۔ آگے گھنی جھاڑیاں تھیں۔ وہ رُک گئے۔
’’میرا خیال ہے واپس چلیں۔‘‘ اختر نے کہا۔
اسی لمحے قریب سے آنے والی کسی لڑکی کی بھیانک چیخ سے فضا گونج اُٹھی۔ چیخ اتنی زوردار تھی کہ اختر بھی اُچھل پڑا تھا۔
’’کک… کیا بات ہے… سمن؟‘‘ کسی مرد کی آواز آئی۔ پھر درختوں کی آڑ سے ایک مرد اور عورت نمودار ہوئے۔ مرد بھاگتا ہوا اس جھاڑی کی سمت بڑھا جدھر سے چیخ کی آواز آئی تھی۔
لڑکی دوبارہ چیخی، لیکن اس مرتبہ اس کی آواز گھٹی گھٹی سی تھی۔
’’رمیز ٹھہرو، مجھے اکیلا چھوڑ کر نہ جائو۔‘‘
بھاگتا ہوا رمیز اچانک رک گیا۔ اسی لمحے اختر اور فرزانہ ان کے پاس پہنچ گئے۔
’’کیا ہوا؟‘‘ اختر نے پوچھا۔
’’تم کون ہو؟‘‘ رمیز نے اختر کے سوال کا جواب دینے کی بجائے مشتبہ انداز میں اُلٹا اس سے سوال کر ڈالا۔
’’مجھے اختر کہتے ہیں۔‘‘ اختر نے بتایا۔ پھر پوچھا۔ ’’یہ چیخ کس کی تھی؟‘‘
رمیز نے سامنے جھاڑیوں کی طرف دیکھ کر آواز دی۔ ’’سمن… ماجد تم کہاں ہو؟‘‘
کوئی جواب نہیں ملا۔ دوسرے ہی لمحے کچھ فاصلے پر پہاڑ کی سمت جانے والی پگڈنڈی پر ایک سایہ نمودار ہوا۔ وہ بھاگتا ہوا جا رہا تھا۔ پھر ایک بڑا کتا جھاڑیوں سے نکل کر اس کے ساتھ ساتھ بھاگنے لگا۔ اور وہ جلد ہی درختوں میں گم ہوگئے۔
’’یہ ماجد تو نہیں تھا۔‘‘ رمیز نے کہا۔
’’مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ آخر یہ سمن بولتی کیوں نہیں۔‘‘ لڑکی نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔
’’آپ ذرا ثمینہ کے ساتھ کھڑی رہیں تو ہم دونوں آگے جا کر دیکھتے ہیں۔‘‘
’’ہم سب ساتھ چلیں گے۔ آیئے۔‘‘ فرزانہ نے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔
اختر اور رمیز آگے آگے چل رہے تھے۔ وہ تھوڑی ہی دُور گئے تھے کہ نشیب سے گزرنے والی سڑک پر کسی کار کے اسٹارٹ ہونے کی آواز سنائی دی اور پھر کار کی روشنی اگلے موڑ پر جا کر نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ وہ تیزی سے آگے بڑھتے رہے۔ اچانک رمیز نے اختر کا ہاتھ پکڑ کر اسے روک لیا۔
قریب سے کسی کے کراہنے کی آواز سنائی دی تھی۔ اختر نے اپنا ہاتھ چھڑایا اور لپک کر آگے بڑھا۔ چند قدم بعد ہی جھاڑیوں میں اسے لڑکی کی سفید ساڑھی نظر آئی۔وہ زمین پر پڑی ہوئی تھی اور آہستہ آہستہ کراہ رہی تھی اور اسی کے برابر ایک نوجوان بھی بے حس و حرکت پڑا ہوا تھا۔ اختر پھرتی کے ساتھ پلٹا۔
’’فرزانہ! تم اور ثمینہ وہیں ٹھہرو۔‘‘ اس نے چلّا کر کہا اور لپک کر جھاڑیوں کی سمت بڑھا۔ رمیز بھی اس کے ساتھ ہی تھا۔ لڑکی پھر کراہی۔
’’گھبرائو نہیں سمن! میں آ گیا ہوں۔‘‘ رمیز نے لڑکی پر جھکتے ہوئے کہا۔ اختر نے زمین پر پڑے ہوئے نوجوان کو دیکھا اور لرز کر رہ گیا۔ وہ مر چکا تھا اور اس کے گلے سے بہنے والے خون سے پوری قمیض تر ہو چکی تھی۔ کسی نے اس کے گلے کو بُری طرح چبا ڈالا تھا۔
٭…٭…٭
اس دردناک حادثے نے پورے ہوٹل میں ہلچل مچا دی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد پولیس ایک ڈاکٹر اور انسپکٹر اکرام کے ساتھ ہوٹل پہنچ گئی۔
تفصیلات کے مطابق ماجد اپنی بیوی سمن کے ساتھ چہل قدمی کرتا ہوا دُور نکل گیا تھا۔ رمیز اور ثمینہ پیچھے رہ گئے تھے۔ اچانک جھاڑیوں سے ایک بہت بڑے خوفناک کتے نے ماجد پر چھلانگ لگائی تھی اور اس کے نرخرے کو دبوچ لیا تھا۔ کتا اتنا جسیم اور طاقت ور تھا کہ ماجد جدوجہد کے باوجود خود کو اس کی گرفت سے نہ چھڑا سکا تھا۔ کتے نے چند منٹ میں ہی اس کی گردن کے چیتھڑے اُڑا دیئے تھے۔
فرزانہ پر جیسے سکتہ طاری ہوگیا تھا۔ اس کا چہرہ خوف سے سفید ہو رہا تھا۔ وہ لان میں ایک آرام کرسی پر دراز تھی اور اختر اس کے برابر بیٹھا ہوا تھا۔
’’اسے دانستہ قتل کیا گیا ہے، اختر!‘‘ فرزانہ نے غمزدہ سے لہجے میں کہا۔’’یہ… یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہ تھا۔‘‘
’’ہاں فری! تمہارا خیال صحیح ہے۔‘‘
’’ماجد تمہارے دھوکے میں مارا گیا ہے۔‘‘
’’ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ تاریکی میں وہ اسے پہچان نہ سکے ہوں گے۔‘‘
’’کیا تم پولیس کو یہ بتائو گے؟‘‘
’’ابھی نہیں۔‘‘
فرزانہ خاموش ہوگئی۔ وہ جانتی تھی کہ ماجد بے گناہ مارا گیا ہے۔ اُنہوں نے اسے اختر سمجھ کر نشانہ بنایا تھا۔ یہ سوچ کر ہی وہ کانپ جاتی تھی کہ اگر ماجد کی بجائے وہاں اختر ہوتا تو کیا ہوتا۔ فرزانہ کو یہ اندازہ پہلے نہ تھا کہ اختر کی زندگی خطرے میں ہے۔ وہ لان سے اُٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئے۔ پولیس نے ہدایت کر دی تھی کہ کوئی ہوٹل سے باہر نہ جائے۔ فرزانہ اپنے خیالوں میں گم تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ شاید ہی کسی لڑکی کی شب عروسی اس طرح گزری ہوگی۔
’’فری!‘‘ اختر نے آہستہ سے کہا۔
’’ہاں ، کہو۔‘‘ وہ چونک کر بولی۔
’’تم اپنے ذہن سے تمام شکوک نکال دو۔ میں پولیس کو حقیقت بتا دوں گا اور میں تمہیں بھی سب کچھ بتا دوں گا، کیونکہ اگر آج ماجد کے بجائے میں وہاں ہوتا تو شاید…!‘‘
فرزانہ نے اس کے لبوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور والہانہ انداز میں بولی۔ ’’خدا نہ کرے اختر! خدا نہ کرے… میں تمہارے بغیر زندہ رہ کر کیا کروں گی؟ تم جانتے ہو کہ…‘‘ وہ کہتے کہتے چپ ہوگئی۔
اختر نے بھی اس کی نظروں کو خوف سے پھیلتے ہوئے دیکھ لیا۔ فرزانہ خوف زدہ نگاہوں سے دروازے کو گھور رہی تھی۔ دروازے


ہینڈل آہستہ آہستہ گھوم رہا تھا اور پھر دروازہ تھوڑا سا کھلا۔ اختر اُچھل کر بیٹھ گیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ آگے بڑھتا، دروازے میں رضا کا چہرہ نمودار ہوا۔ وہ بالکل زرد ہو رہا تھا۔
’’یہ کیا بیہودگی ہے؟‘‘ اختر غصے میں گرجا۔
’’میں… معافی چاہتا ہوں لیکن میں آپ سے بہت ضروری بات کرنا چاہتا تھا۔‘‘
’’تم نے اندر آنے سے پہلے دستک کیوں نہیں دی؟‘‘
’’مم… میں اتنا پریشان ہوں کہ کچھ ہوش ہی نہ رہا۔‘‘ رضا نے بات بنائی اور اپنے ماتھے سے پسینہ پونچھا۔ ’’میرا دل شام سے ہی کہہ رہا تھا کہ کچھ ہونے والا ہے، لیکن اتنا بھیانک۔ خدا کی پناہ، میں سوچ بھی نہ سکتا تھا۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’کس بیدردی سے اُسے مارا گیا ہے، اسے کتنی اذیت ہوئی ہوگی۔‘‘
’’کیا تم یہی بتانے آئے تھے؟‘‘
’’نہیں… لیکن ذرا سوچئے اگر اس کے بجائے آپ کا گلا ہوتا تو…‘‘
’’او یو شٹ اَپ۔‘‘ فرزانہ غصے میں چیخی۔
’’مسٹر رضا! کیا آپ تشریف نہیں لے جا سکتے۔ کہیں پولیس آپ کو نہ تلاش کر رہی ہو۔‘‘ اختر نے کہا۔
’’وہ مجھ سے ضروری پوچھ گچھ کر چکے ہیں۔‘‘ رضا نے بتایا۔ ’’پھر کیوں تلاش کریں گے؟‘‘
’’اس لیے کہ حادثے کے وقت جو بھی وہاں موجود تھا، اس پر شبہ کیا جائے گا۔‘‘
’’لیکن میں تو حادثے سے پہلے ہی ہوٹل واپس آ گیا تھا۔‘‘
’’تو پھر میں نے تمہارا بھوت دیکھا ہوگا۔‘‘ اختر نے زچ ہو کر کہا۔
رضا نے خوف زدہ سی نظروں سے اختر کو دیکھ کر کہا۔ ’’آپ نے مجھے وہاں دیکھا تھا؟‘‘
’’ہاں جائے حادثے کے قریب میں نے تمہیں جاتے ہوئے دیکھا تھا۔‘‘
’’یہ جھوٹ ہے، میں اس وقت اپنے کمرے میں تھا۔‘‘ رضا نے احتجاج کیا۔
’’یہ فیصلہ پولیس کرے گی کیونکہ میں اپنے بیان میں یہی کہوں گا کہ تم وہاں موجود تھے۔‘‘
’’یہ جھوٹ ہے۔‘‘ رضا چیخا۔ ’’تم مجھ پر الزام لگا رہے ہو۔‘‘
فرزانہ حیران تھی، کیونکہ اختر جھوٹ بول رہا تھا۔ اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی اور پھر انسپکٹر اکرام اندر داخل ہوا۔
’’مجھے افسوس ہے اختر صاحب۔‘‘ اس نے مسکرا کر کہا۔ ’’ورنہ آج کے دن آپ کی تنہائی میں مخل نہ ہوتا۔ اور آپ یہاں کیا کررہے ہیں۔‘‘ اس نے رضا کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’تشریف رکھئے انسپکٹر صاحب۔‘‘ اختر نے کہا۔ ’’رضا صاحب مجھ پر برہم ہو رہے تھے۔‘‘
’’اوہ… لیکن کیوں؟‘‘
’’یہ اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ واردات کے وقت وہاں موجود تھے۔‘‘ اختر نے کہا۔ ’’حالانکہ میں نے خود انہیں دیکھا تھا۔‘‘
’’یہ قطعی جھوٹ ہے انسپکٹر! مجھے ان سے ایسی شرمناک بات کی اُمید نہ تھی۔‘‘ رضا نے غصے میں کانپتے ہوئے کہا۔
’’اوہ… آپ نے وہ کتا تو دیکھا ہوگا جس نے حملہ کیا تھا؟‘‘ انسپکٹر نے اچانک سوال کیا۔
’’میں نے کوئی کتا نہیں دیکھا، کیونکہ میں وہاں تھا ہی نہیں۔‘‘
’’اوہ۔ مجھے خیال نہیں رہا۔ بہتر ہے آپ اپنے کمرے میں چلئے۔ میں وہیں آتا ہوں۔‘‘
رضا کے جانے کے بعد انسپکٹر اکرام نے اختر سے پوچھا۔ ’’کیا آپ نے واقعی اسے دیکھا تھا؟‘‘
’’جی ہاں! بلکہ واردات سے کچھ دیر قبل اس نے مجھ سے بات بھی کی تھی۔‘‘
’’واردات کے بعد ایک سیاہ کار کو تیز رفتاری کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ اس میں ایک خطرناک کتا بھی بیٹھا ہوا تھا۔‘‘ انسپکٹر نے بتایا۔
’’میرا خیال ہے ہم نے آپ کو بتایا تھا کہ واردات کے فوراً بعد ہم نے ایک شخص کو کتے کے ہمراہ بھاگتے ہوئے دیکھا تھا۔‘‘
’’جی ہاں! میرا خیال ہے کہ کتا شکاری ہے۔ شاید یہ محض ایک حادثہ ہو جس نے کتے کے مالک کو ڈر کر بھاگنے پر مجبور کر دیا ہو۔‘‘ انسپکٹر نے اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
’’نہیں انسپکٹر! یہ اتفاقی حادثہ نہیں تھا بلکہ قتل کی واردات ہے۔‘‘ اختر نے کہا۔ ’’اور میرا خیال ہے کہ اُنہوں نے مجھے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، ماجد اتفاقاً ہم سے پہلے وہاں پہنچ گیا اور غلط فہمی میں مارا گیا۔‘‘
’’شکریہ مسٹر اختر! مجھے ڈر تھا کہ شاید آپ مجھ کو حقیقت نہ بتائیں۔‘‘ انسپکٹر نے کہا۔ ’’اور میں آپ کو سچ بولنے پر مجبور نہیں کر سکتا تھا۔‘‘
’’کیا آپ کو پہلے سے اس بات کا علم تھا انسپکٹر؟‘‘ اس بار فرزانہ نے اس سے براہ راست مخاطب ہو کر کہا۔ ’’لیکن… کیسے؟‘‘
’’اختر صاحب! کوئی گمنام آدمی نہیں ہیں محترمہ۔‘‘ انسپکٹر نے مسکرا کر کہا۔ ’’ہم ایسی اہم شخصیتوں کے بارے میں لاعلم نہیں رہتے، اور شاید آپ کو علم نہ ہو۔ لیکن شادی ہال سے یہاں تک آپ کی نگرانی کی گئی ہے۔‘‘ انسپکٹر نے بتایا۔
’’تو کیا ہمارا تعاقب کیا گیا ہے۔‘‘ اختر نے ناگوار لہجے میں پوچھا۔
’’اوہ… نہیں جناب!‘‘ انسپکٹر نے جلدی سے کہا۔ ’’کرائم برانچ کے انسپکٹر شکیل نے ہمیں فون کر کے ہدایت کی تھی کہ آپ کی حفاظت کا مناسب انتظام کیا جائے۔ کرائم برانچ کو یہ علم ہے کہ راجہ ریاض جب سے شہر میں آیا ہے، مسلسل آپ کی نگرانی کر رہا ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ راجہ ریاض آپ کی جان کے درپے ہے۔ وہ اپنی شکست کا انتقام لینا چاہتا ہے اور اس جیسے خطرناک شخص سے کچھ بعید نہیں۔ میرا خیال ہے کہ راجہ ریاض کی واپسی کا آپ کو بھی علم ہوگا؟‘‘
’’ہاں! لیکن میں نے پہلی بار یہاں آتے ہوئے راستے میں اسے دیکھا تھا۔‘‘ اختر نے اسے بتایا۔ ’’وہ سیاہ رنگ کی کار میں ہمارا تعاقب بھی کرتا رہا تھا، مگر میرا خیال ہے کہ ہم اسے دھوکا دینے میں کامیاب ہوگئے ہیں، اور انسپکٹر! مجھے شک ہے کہ یہ رضا بھی اسی کا آدمی ہے۔‘‘
’’ہم اس کا خیال رکھیں گے۔ کیا آپ کچھ روز یہاں قیام کریں گے؟‘‘ انسپکٹر اکرام نے سوال کیا۔
’’جی ہاں! اب تک ارادہ تو یہی ہے۔‘‘
’’مناسب بھی یہی رہے گا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ دوبارہ کوشش کرے گا اور اس مرتبہ ہم اس کے لیے پوری طرح تیار رہیں گے۔‘‘ انسپکٹر اکرام نے اُٹھتے ہوئے کہا۔ ’’آپ بالکل مطمئن رہیے، ہم نے آپ کی حفاظت کا پورا انتظام کر رکھا ہے۔‘‘
٭…٭…٭
رضا، جب اختر کے کمرے سے باہر نکلا تو غصے اور خوف سے کانپ رہا تھا۔ اس نے جھانک کر باہر دیکھا۔ ہوٹل کے گیٹ پر ایک پولیس کانسٹیبل پہرہ دے رہا تھا۔ باہر جانے کے دوسرے تمام راستوں پر بھی پولیس موجود تھی۔ اسٹیشن پہنچ کر وہ سیدھا فون بوتھ پر گیا۔ دروازہ بند کر کے اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ایک نمبر ڈائل کیا۔ ادھر سے کسی نے غراتے ہوئے لہجے میں کہا۔ ’’ہیلو!‘‘
’’مم… رضا بول رہا ہوں۔‘‘ وہ کانپتی ہوئی آواز میں بولا۔
’’کیا بات ہے تم اتنے بدحواس کیوں ہو؟‘‘
’’وہ … وہ دراصل کھیل بگڑ گیا۔‘‘ رضا نے سرگوشی میں کہا۔
’’کیا بکتے ہو؟‘‘
’’مرنے والے کا نام ماجد ہے، اختر نہیں۔‘‘ رضا نے ڈرتے ڈرتے بتایا۔
’’کیا…؟‘‘ دُوسری سمت سے کوئی دھاڑا۔ ’’یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘
’’میں ابھی اختر کے کمرے سے آ رہا ہوں۔ انسپکٹر اکرام وہاں موجود ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، تم فی الحال وہیں رہو اور دوبارہ فون مت کرنا۔‘‘
’’لیکن… وہ اختر، وہ مجھے پھانسنے کی سازش کر رہا ہے۔‘‘ رضا بولا۔ ’’اس نے انسپکٹر کو بتایا ہے کہ واردات کے وقت میں وہاں موجود تھا۔ حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے، لیکن پولیس…!‘‘
’’تم گدھے ہو… اب تمہارا وہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں۔‘‘ دُوسری طرف سے بولنے والے کا لہجہ اس قدر غضب ناک تھا کہ رضا اندر سے کانپ گیا۔ ’’تم فوراً ہوٹل چھوڑ دو، شہر جانے والی سڑک پر جمشید تمہارا انتظار کرے گا۔ ہوٹل سے تقریباً ایک میل دُور جو پل ہے، تم وہاں پہنچو اور خیال رکھنا کوئی تمہیں آتے ہوئے نہ دیکھے۔‘‘
رضا کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ کئی لمحوں بعد اسے احساس ہوا کہ دُوسری سمت سے سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔ وہ بدحواسی کے عالم میں اپنے کمرے میں پہنچا جس کی کھڑکی عقبی حصے میں

کھلتی تھی۔ چند لمحوں تک وہ بستر پر بے حس بیٹھا رہا۔ پھر اس نے جگ سے ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس بھر کر پیا اور جب کچھ اوسان بحال ہوئے تو اس نے آہستہ سے کھڑکی کھول کر دیکھا۔ یہاں سے ہوٹل کا عقبی حصہ نظر آتا تھا۔ وہاں دور تک کوئی نہ تھا۔
رضا نے احتیاطاً کمرے کے دروازے کو اندر سے بند کیا اور پھر اپنا مختصر سا سامان، اٹیچی کیس میں رکھا۔ خوش قسمتی سے اس کا کمرہ گرائونڈ فلور پر تھا۔ اس لیے کھڑگی سے کود کر وہ بہ آسانی باہر آ گیا۔ جھاڑیوں کی آڑ میں آگے بڑھتا رہا۔ اس نے دانستہ ایک طویل چکر کاٹا اور پھر ہوٹل کی ایک سنسان جگہ سے احاطے کی دیوار پھاند گیا۔ چند لمحے رک کر وہ انتظار کرتا رہا اور جب مطمئن ہو گیا کہ کسی نے تعاقب نہیں کیا ہے تو اونچے نیچے ناہموار ٹیلوں اور گھنی جھاڑیوں کے درمیان سے مقررہ جگہ کی سمت بڑھتا رہا۔
پل کے قریب پہنچ کر وہ درختوں کے درمیان سے نکل کر سڑک پر آ گیا۔ سڑک بالکل سنسان پڑی تھی۔ وہ کچھ دیر وہیں کھڑا ممکنہ آہٹوں کی سن گن لینے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ سڑک کے کنارے آگے بڑھنے لگا۔ تقریباً ایک فرلانگ آگے جانے کے بعد کسی نے آہستہ سے سیٹی بجائی۔
رضا چونک پڑا اور رُک کر دیکھنے لگا۔ پل کی سمت سے ایک دراز قد سایہ اسے اپنی سمت بڑھتا نظر آیا۔ اس نے اطمینان کی سانس لی۔ بلاشبہ وہ جمشید تھا اور پھر اس نے پل کے کنارے کھڑی ہوئی سیاہ کار دیکھ لی۔ اسے یہ سوچ کر اطمینان ہوگیا کہ چند لمحوں بعد وہ انسپکٹر اکرام کی پہنچ سے دُور محفوظ جگہ پر پہنچ جائے گا۔
’’جمی!‘‘ رضا نے آہستہ سے پکارا۔ بڑھتا ہوا سایہ اچانک رُک گیا اور پھر دوسرے ہی لمحہ ٹارچ کی روشنی رضا کے چہرے پر پڑی۔
’’تم آ گئے۔‘‘ جمشید نے ہنس کر کہا۔
’’ہاں۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’انسپکٹر اکرام میرے کمرے کا دروازہ پیٹ رہا ہوگا۔‘‘
جمشید اس کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا۔
’’فکر مت کرو، اب کوئی تمہیں تلاش نہ کر سکے گا۔‘‘ جمشید نے کچھ عجیب سے لہجے میں کہا اور پھر جیسے ہی رضا آگے بڑھا، جمی کا ہاتھ پھرتی کے ساتھ چلا، تیز دھار خنجر رضا کے دل میں اُتر گیا۔ وہ آہستہ سے کراہا اور پھر اس کے بازوئوں میں جھول گیا۔ اس نے خنجر باہر نکالا اور احتیاطاً ایک وار اور کیا۔ اس کے بعد رضا کی لاش سڑک کے کنارے چھوڑ دی۔ اس کی جیبوں کی تلاشی لی اور اٹیچی کیس اُٹھا کر کار کی سمت بڑھ گیا۔
چند منٹ بعد سیاہ کار وہاں سے روانہ ہو رہی تھی۔
٭…٭…٭
کرائم برانچ کے انسپکٹر شکیل کو معلوم تھا کہ راجہ ریاض کیوں اختر کمال کا جانی دشمن بنا ہوا ہے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اختر کے والد کمال عزیز جو شہر کے رئیسوں میں شمار ہوتے تھے، اس دشمنی کا اصل سبب تھے۔ یوں تو ان کا شمار شہر کے ان معزز شہریوں میں ہوتا تھا جن کا ہر حلقے میں بڑا احترام اور اثر و رسوخ تھا، لیکن راجہ ریاض نے ان کی زندگی کا ایسا کوئی اہم راز معلوم کر لیا تھا جو بلیک میلنگ کی بنیاد بن گیا تھا۔
راجہ ریاض کا نام جرائم کی دُنیا میں بڑے خوف کے ساتھ لیا جاتا تھا۔ اس سے بڑے بڑے مجرم تک کانپتے تھے۔ شہر کے تمام خطرناک جرائم پیشہ راجہ ریاض کے اشاروں پر ناچتے تھے کیونکہ وہ ہر مصیبت میں ان کے کام آتا تھا۔ لیکن آج تک پولیس راجہ ریاض پر ہاتھ نہ ڈال سکی تھی، کیونکہ وہ کبھی خود سامنے نہیں آتا تھا۔ حکام جانتے تھے کہ اس کا تعلق بین الاقوامی اسمگلروں کے گروہ سے ہے۔ اسمگلنگ کا سارا کاروبار اس کی زیرِ نگرانی ہوتا تھا، لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ آج تک کبھی اس کی کوئی لانچ یا جہاز اس الزام میں نہیں پکڑا جا سکا تھا اور جب بھی کسی اسمگلر کو گرفتار کیا گیا اس نے راجہ ریاض سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ انسپکٹر شکیل اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود راجہ ریاض پر ہاتھ نہ ڈال سکا تھا۔ لیکن اس نے یہ راز ضرور معلوم کر لیا تھا کہ شہر کے تمام بڑے تاجر کیوں راجہ ریاض کے حکم کی تعمیل کرتے تھے۔
کمال عزیز کے کیس نے انسپکٹر شکیل کے اس شبہ کی تصدیق کر دی تھی کہ راجہ ریاض کا اصل بزنس اعلیٰ پیمانے کی بلیک میلنگ تھا۔ اس نے شہر کے تمام مالدار لوگوں کے ایسے رازوں کے ثبوت جمع کر رکھے تھے جن کی بنا پر وہ انہیں بلیک میل کر کے بڑی بڑی رقمیں وصول کیا کرتا تھا اور یہی سبب تھا کہ اس کے پاس کئی شاندار کوٹھیاں اوربے شمار دولت تھی۔ اس نے تمام جرائم پیشہ افراد کو منظم کر رکھا تھا جو اس کے اشارے پر بڑے سے بڑا جرم کرنے میں بھی پس و پیش نہ کرتے تھے اور راجہ ریاض کے متعلق انسپکٹر شکیل کو یہ بھی علم تھا کہ پولیس کے بہت سے افسران اس کے تنخواہ دار تھے، یہی سبب تھا کہ پولیس کے ہر اقدام کا اسے پہلے سے علم ہو جاتا تھا۔
انسپکٹر شکیل جانتا تھا کہ راجہ ریاض نے کمال عزیز کو بھی بلیک میل کر کے ایک بڑی رقم کا مطالبہ کیا تھا۔ کمال عزیز نے یہ بات اپنے بیٹے اختر کمال پر ظاہر کر دی تھی اور پھر ایک شب راجہ ریاض کے مضافاتی بنگلے پر ایک مسلح گروہ نے حملہ کر کے اس میں آگ لگا دی تھی، بنگلے سے وہ لوگ بہت سے اہم کاغذات اُٹھا لے جانے میں کامیاب ہوگئے تھے اور اس کے بعد اچانک راجہ ریاض ملک چھوڑ کر فرار ہوگیا تھا۔ انسپکٹر کو یقین تھا کہ یہ حملہ اختر کمال نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے کیا تھا اور راجہ ریاض کے پاس سے وہ دستاویزات اُڑا لینے میں کامیاب ہوگیا تھا جن کی بنیاد پر وہ اس کے باپ اور بہت سے دُوسرے مالدار لوگوں کو بلیک میل کیا کرتا تھا۔ راجہ ریاض کو معلوم تھا کہ ان دستاویزی ثبوت کی بنیاد پر اسے لمبی سزا ہو سکتی تھی۔ اس لئے وہ فرار ہوگیا، لیکن کوشش کے باوجود اختر کمال نے یہ تسلیم کیا کہ یہ حملہ اس نے کیا تھا اور نہ وہ ثبوت پولیس کے حوالے کئے جن کے ذریعے راجہ ریاض کے خلاف کارروائی کی جا سکتی تھی۔ یہ راجہ ریاض کی پہلی زبردست شکست تھی۔ اسی لیے اختر کمال سے اس کی دُشمنی چلی آ رہی تھی۔
تمام حقائق جاننے کے باوجود انسپکٹر شکیل مجبور تھا، کیونکہ اختر نے اس سلسلے میں پولیس سے تعاون کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
انسپکٹر شکیل کو فرزانہ کے والد جمیل شاہ کے متعلق بھی حقائق کا علم تھا۔ اختر سے اس کی محبت، شادی اور اس کے بعد کے تمام واقعات اس کے علم میں تھے، کیونکہ اس نے اختر اور اس کے باپ کی مکمل نگرانی کرائی تھی۔ اسے یقین تھا کہ ایک دن وہ راجہ ریاض پر ہاتھ ڈالنے میں انہی کے ذریعے کامیاب ہوگا۔
فرزانہ کے باپ کو جب سے جیل سے رہائی ملی تھی، شکیل کے آدمی ہر لمحہ سائے کی طرح اس کی نقل و حرکت پر نظر رکھ رہے تھے لیکن اب تک انسپکٹر شکیل کو کوئی کارآمد بات معلوم نہ ہو سکی تھی اور پھر جب اسے ماجد اور رضا کے قتل کی اطلاع ملی تو وہ حیران نہیں ہوا۔ اس نے محسوس کرلیا تھا کہ اب اسے راجہ ریاض پر ہاتھ ڈالنے کا موقع ضرور ملے گا۔ (جاری ہے)

Latest Posts

Do Humsafar

Related POSTS