’’مجھے وہ فائل نہیں مل رہی ہے۔‘‘ سکندر بیگ نے بتایا۔
’’وہ فائل تمہارے پاس ہی تھی۔ دیکھو کہاں رکھی ہے اور جلدی آجائو، ہم انتظار میں بیٹھے ہیں۔‘‘ دوسری طرف سے ریاض احمد نے اتنا کہہ کر فون بند کردیا۔
سکندر بیگ نے ایک بار پھر ہر جگہ دیکھ لی لیکن وہ فائل نہیں ملی۔ اسے فائل کے بغیر ہی آفس کے لئے نکلنا پڑا۔ ابھی سکندر بیگ اپنی کار میں بیٹھا ہی تھا کہ سلمان تیزی سے اس کی کار کی طرف بڑھا اور بولا۔ ’’انکل! مجھے راستے میں ڈراپ کردیں پلیز!‘‘
’’ہاں بیٹھو بیٹا!‘‘ سکندر بیگ کا دماغ گمشدہ فائل میں کھویا ہوا تھا۔ چہرے پر پریشانی عیاں تھی۔ سلمان پچھلی سیٹ پر سکندر بیگ کے برابر بیٹھ گیا۔ ڈرائیور نے کار باہر نکالی اور سڑک پر ڈال دی۔
’’آپ پریشان دکھائی دے رہے ہیں؟‘‘ سلمان نے پوچھا۔
’’نہیں! ایسی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘ سکندر بیگ نے زبردستی مسکرانے کی کوشش کی۔
’’کوئی بات ہے ضرور! لیکن اگر آپ بتانا نہیں چاہتے تو کوئی بات نہیں۔‘‘ سلمان نے کہا۔
سکندر بیگ نے کچھ دیر خاموشی کے بعد کہا۔ ’’ایک اہم فائل نہیں مل رہی۔‘‘
سکندر بیگ کی بات سن کر سلمان نے پوچھا۔ ’’کہاں سے نہیں مل رہی وہ فائل…؟‘‘
’’جہاں میں نے رکھی تھی، وہاں سے نہیں مل رہی۔ اس میں زمین کے کاغذات تھے۔ وہ زمین ہم نے ایک شخص کو بیچ دی تھی اور آج بقایا پیسہ لے کر وہ زمین اس کے نام کروانی تھی۔‘‘ سکندر بیگ نے بتایا۔
’’آپ کو پورا یقین ہے کہ وہ فائل آپ کے پاس تھی؟ دیکھیں آپ کے گھر میں صرف تین افراد رہتے ہیں۔ آپ، آنٹی اور عمارہ…! ملازمین یقینا آپ کے پرانے ہوں گے۔ وہ اس فائل کو اٹھا کر کیا کریں گے۔‘‘ سلمان نے سکندر بیگ کے دل میں نیا شک ڈالنے کی کوشش کی۔
’’یہی تو حیرانی ہے کہ وہ فائل آخر گئی کہاں؟‘‘
’’مجھے لگتا ہے وہ فائل آپ کے پاس نہیں تھی۔ اگر آپ کے پاس ہوتی تو اس فائل کے گم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘ سلمان نے اس انداز میں کہا کہ سکندر بیگ جیسا شخص بھی سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ وہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ جس جگہ وہ اپنے اہم کاغذات رکھتا ہے، وہاں کسی کی رسائی ممکن نہیں ہے۔ پھر سکندر بیگ سوچنے لگا کہ فائل وہی لے کر آیا تھا اور اسی نے اس خفیہ کمرے میں رکھی تھی۔ اس سوچ کے آتے ہی سوالات نے گھیر لیا کہ اگر اس نے فائل خود رکھی تھی تو پھر وہ کہاں چلی گئی؟ سلمان کا خیال ٹھیک ہے۔ اسے غلط فہمی ہوئی ہے، وہ فائل لے کر آیا ہی نہیں تھا۔
سکندر بیگ ان سوچوں میں گم اپنے آفس پہنچ گیا۔ سلمان چپ چاپ بیٹھا رہا تھا۔ سکندر بیگ کو اپنی سوچوں میں خیال نہیں رہا تھا کہ وہ سلمان سے پوچھ سکے کہ اس نے کہاں اترنا ہے۔ سکندر بیگ کار سے باہر نکلنے لگا تو اچانک اس نے سلمان کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ ’’تم نے کہاں جانا ہے؟‘‘
’’میں نے آگے جانا ہے۔‘‘
’’ڈرائیور! سلمان جہاں کہتا ہے، اسے چھوڑ آئو۔‘‘ سکندر بیگ اتنا کہہ کر کار سے باہر نکل گیا اور اپنے آفس کی طرف چلا گیا۔
’’کہاں چلوں صاحب…؟‘‘ ڈرائیور نے پوچھا۔
سلمان نے ایک لمحے کے لئے سوچا پھر بولا۔ ’’میں یہیں اتر جاتا ہوں۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ کار سے باہر نکل گیا۔
٭…٭…٭
وہ تینوں کمرے میں بیٹھے ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے۔ سکندر بیگ کے چہرے کی پریشانی اور وجود میں دوڑتا ہوا اضطراب بتا رہا تھا کہ وہ ان سے زیادہ مضطرب ہے۔
ریاض احمد نے کہا۔ ’’وہ کاغذات تمہارے پاس تھے سکندر…! کہاں چلے گئے جسے ہم نے زمین بیچی تھی، وہ باہر بیٹھا ہمارا انتظار کررہا ہے۔ اگر ہم نے آج زمین اس کے نام منتقل نہ کی تو ہم نے بیعانہ کی صورت میں اس سے جو بیس لاکھ روپے لئے ہیں، وہ ڈبل کرکے دینا پڑیں گے۔‘‘
’’میں خود حیران ہوں کہ وہ کاغذات آخر گئے کہاں! جہاں میں نے رکھے تھے، وہاں تو چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔‘‘ سکندر بیگ پرتشویش لہجے میں بولا۔
اس کی بات سن کر ریاض احمد اور انور حیات نے ایک دوسرے کی طرف ایسی نظروں سے دیکھا جیسے وہ اس بات پر یقین نہ کررہے ہوں۔
’’تم نے اچھی طرح دیکھا ہے؟‘‘ انور حیات نے ایک بار پھر اس سے تصدیق کی۔
’’میں نے فائل کو ہر جگہ دیکھا ہے۔ ویسے کیا وہ کاغذات تم لوگوں نے مجھے دیئے تھے؟‘‘ سکندر بیگ نے دونوں کی طرف دیکھ کر سوال کیا۔
’’تم بھول گئے کیا…؟ یاد کرو جب تم گھر جانے لگے تھے اور ہم دونوں وزٹ کے لئے نکل رہے تھے تو میں نے تمہیں اپنے ہاتھوں سے فائل دی تھی۔‘‘ ریاض احمد نے اپنے غصے کو دباتے ہوئے اسے یاد دلانے کی کوشش کی۔
سکندر بیگ کو اچھی طرح یاد آگیا تھا کہ وہ فائل انہوں نے اسے دی تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ پھر وہ فائل کہاں چلی گئی۔ جس جگہ وہ اپنی چیزیں رکھتا ہے، وہاں تو اس کی بیوی بھی نہیں جاتی۔
’’سکندر ایک بار پھر گھر جائو اور خوب اچھی طرح اس فائل کو تلاش کرو تب تک میں بروکر سے کہتا ہوں کہ آج کی بجائے وہ جگہ ہم کل ان کے نام منتقل کریں گے۔‘‘ انور حیات اٹھتے ہوئے بولا۔
’’ہاں! بہتر یہی ہے۔ تم ان کو جاکر کہہ دو۔‘‘ ریاض احمد نے کہا۔
انور حیات کمرے سے باہر نکل آیا۔ دوسرے کمرے میں پراپرٹی ڈیلر کے ساتھ وہ شخص براجمان تھا جس نے زمین ان سے خریدی تھی۔
’’ہم وہ زمین کل آپ کے نام منتقل کریں گے۔‘‘ انور حیات بولا۔
’’وہ کیوں…؟‘‘ بروکر نے جلدی سے سوال کیا۔
’’دراصل اس زمین کی رجسٹری ہم کہیں رکھ کر بھول گئے ہیں۔ فکر کی کوئی بات نہیں، وہ جلد مل جائے گی۔‘‘ انور نے سچ بولنا مناسب سمجھا۔
’’زمین کی رجسٹری کہیں رکھ کر بھول گئے ہیں؟‘‘ بروکر نے مشکوک نظروں سے انور حیات کی طرف دیکھا۔
’’آپ لوگ بالکل فکر نہ کریں۔ بس ہم کل زمین آپ کے نام منتقل کرا دیں گے، فکر کی کوئی بات نہیں۔‘‘
’’مجھے فکرمند ہونے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔‘‘ زمین کا خریدار بولا۔ ’’بس اتنا خیال رہے کہ میرے پاس فالتو وقت بالکل نہیں ہے۔ اگر کل آپ لوگوں نے زمین میرے نام منتقل نہ کرائی تو میں آپ سے ڈبل پیسے لوں گا۔‘‘
اس کی بات سن کر انور حیات فکرمند ہوا۔ وہ جانتا تھا کہ جس کو انہوں نے زمین فروخت کی ہے، اس کی پہنچ اوپر تک ہے۔ اس نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ ’’کل زمین آپ کے نام ہوجائے گی۔ آپ بالکل نہ گھبرائیں۔‘‘
’’میں پھر کہہ رہا ہوں کہ مجھے گھبرانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ ہم یہاں ڈیڑھ گھنٹے سے بیٹھے ہوئے ہیں، کل ہم ٹھیک نو بجے آئیں گے۔ زمین اسی وقت منتقل ہوگی تو ٹھیک ہے ورنہ میں دوسری بات نہیں سنوں گا اور بیعانے کے ساتھ ڈبل رقم لوں گا۔‘‘ اس شخص نے کہا اور بروکر کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گیا۔
باہر دروازے کے ساتھ ہی سلمان لگا کھڑا تھا۔ اس نے ان کی باتیں سن لی تھیں۔ جونہی وہ دروازے کی طرف بڑھے تھے، سلمان نے وہ جگہ چھوڑ دی تھی اور تیزی سے اس جگہ سے نکل کر سیڑھیوں کی طرف چلا گیا۔ وہ عمارت سے باہر نکل کر ایک طرف کھڑا ہوگیا تھا۔ وہ شخص بروکر کے ساتھ باہر نکلتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ ’’مجھے ان کی نیت پر شک ہے لیکن میں انہیں چھوڑنے والا نہیں ہوں۔‘‘
پھر وہ بڑی سی گاڑی میں بیٹھ کر اس جگہ سے چلا گیا۔
تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ سکندر بیگ پھر بیگ پکڑے باہر نکل آیا۔ ریاض احمد اور انور حیات نے اسے دوبارہ گھر بھیج دیا تھا تاکہ وہ اس زمین کے کاغذات تسلی سے تلاش کرسکے۔
سکندر بیگ کے باہر نکلتے ہی انور حیات نے ریاض احمد سے کہا۔ ’’کہیں سکندر کوئی گڑبڑ تو نہیں کررہا؟ زمین اس کے نام ہے، اکیلا ہضم کرنا چاہتا ہو۔‘‘
’’دیکھتے ہیں کیا کرتا ہے۔ کچھ شک ہے مجھے بھی!‘‘ ریاض احمد نے سوچتے ہوئے کہا۔ یہ باتیں دروازہ بند کرنے کے دوران سکندر بیگ
نے سن لی تھیں اور اس کا دل چاہا کہ وہ واپس جاکر انہیں چیخ کر بتائے کہ اس کی نیت میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن وہ خاموشی سے نیچے آگیا تھا۔
ابھی سکندر بیگ کار میں بیٹھا ہی تھا کہ ایک دم سلمان بھی دروازہ کھول کر سکندر بیگ کے برابر بیٹھ گیا۔
’’تم…؟‘‘ سکندر بیگ اسے دیکھ کر چونکا۔
’’میں دراصل آپ کا آفس دیکھنے اندر چلا گیا تھا۔‘‘ سلمان مسکرایا۔
’’مجھے بتاتے میں آفس کا اچھی طرح سے وزٹ کرا دیتا۔‘‘ سکندر بیگ نے کہا۔
’’کوئی بات نہیں پھر کبھی سہی۔ آپ کہیں جارہے ہیں؟‘‘
’’واپس گھر جارہا ہوں۔ فائل نہیں مل رہی، اسے دوبارہ تلاش کرنا ہے۔‘‘ سکندر بیگ نے جواب دیا۔
’’چلیں میں بھی گھر چلتا ہوں۔‘‘ سلمان نے کہا اور ڈرائیور نے کار آگے بڑھا دی۔
راستے میں سکندر بیگ سوچ میں مبتلا رہا۔ سلمان نے صورتحال دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’آپ بہت پریشان دکھائی دے رہے ہیں؟‘‘
’’پریشانی کے ساتھ میرا خون بھی کھول رہا ہے۔‘‘
’’خون کیوں کھول رہا ہے؟‘‘
’’آج پہلی بار میرے دونوں بزنس پارٹنرز نے مجھ پر شک کیا ہے۔ یہ میری بے عزتی ہے۔‘‘ سکندر بیگ نے اپنی مٹھیاں زور سے بند کرتے ہوئے کہا۔
’’اگر آپ اجازت دیں تو میں ایک بات کہوں؟‘‘ سلمان کچھ سوچنے کے بعد بولا۔
’’تمہیں اجازت کی کیا ضرورت ہے۔ تم میرے ہونے والے داماد ہو، میرے بیٹے ہو۔ جو کہنا چاہو کھل کر کہہ دیا کرو۔‘‘ سکندر بیگ نے کہا۔
’’آپ ان سے فوراً اپنا کاروبار الگ کرلیں۔‘‘ سلمان نے کہا۔
سکندر بیگ نے ایک دم اس کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ ’’بزنس الگ کرلوں؟‘‘
’’میرا تجربہ آپ جتنا نہیں ہے لیکن میں ایک بات جانتا ہوں جب شیشے میں ہلکی سی دراڑ آجائے تو پھر وہ شیشہ جڑتا نہیں ہے۔ جتنا آپ نے ان کے ساتھ کاروبار کرنا تھا، وہ کرلیا۔ اب ان سے الگ ہونے کا مطالبہ کریں۔ ہم ایک بڑا پرائیویٹ اسپتال بنائیں گے۔ وہاں ڈاکٹروں کی ٹیم کام کرے گی۔ دن، رات ہن برسے گا۔‘‘ سلمان نے ساتھ ہی سبز باغ دکھایا۔
’’تم کہتے تو ٹھیک ہو۔ اب دراڑ پڑچکی ہے۔ انہوں نے میری بات پر یقین کرنے کی بجائے مجھ پر شک کیا ہے۔ پرائیویٹ اسپتالوں میں واقعی ہن برستا ہے۔ تم نے اچھا آئیڈیا دیا ہے۔‘‘ سکندر بیگ خوش ہوگیا۔
’’آپ فیصلہ کرلیں، آنٹی سے مشورہ کرلیں۔‘‘ سلمان نے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔
سلمان کی باتوں نے سکندر بیگ کی سوچ میں تغیر پیدا کردیا تھا۔ پرائیویٹ اسپتال کا منصوبہ اور پیسہ کمانے کا خواب سکندر بیگ کو جلد ہی کسی فیصلے پر پہنچے کے لئے اکسا رہا تھا۔ گھر پہنچ کر سلمان اپنے کمرے میں چلا گیا۔ سکندر بیگ نے ساری بات روبینہ کو بتائی۔ اس نے یہ بھی بتا دیا کہ کس طرح انہوں نے اس پر شک کیا ہے۔
روبینہ نے کچھ دیر سوچا پھر کہا۔ ’’سلمان کی بات ٹھیک ہے۔ اب اس شیشے میں دراڑ آگئی ہے۔ انہوں نے سالوں کی ایمانداری کو پس پشت ڈال کر ایک فائل اِدھر اُدھر ہوجانے پر آپ پر بے ایمان ہونے کا شک کیا ہے۔‘‘
سکندر بیگ کو حوصلہ ملا۔ اس نے سلمان کو بلا لیا اور پوچھا۔ ’’اب میں ان سے بات کیا کروں؟‘‘
’’بس ایک بات کریں کہ انہوں نے آپ پر شک کیا ہے اور آپ نے سنا ہے۔ اس بات کو بنیاد بنا کر ڈٹ جائیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ پھر وہ کچھ بھی کریں، کتنی منتیں کریں، آپ اپنی بات سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘‘
’’بالکل پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ میری بیٹی ڈاکٹر ہے، میرا ہونے والا داماد ڈاکٹر ہے، پرائیویٹ اسپتال کی صورت میں تو میری انڈسٹری لگ جائے گی۔ مجھے کیا فکر!‘‘ سکندر بیگ نے فیصلہ کن لہجے میں جواب دیا۔ سلمان دل ہی دل میں مسکرا دیا۔
٭…٭…٭
ریاض احمد اور انور حیات کے چہروں پر حیرت برس رہی تھی۔ دونوں سوالیہ نگاہوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھے جارہے تھے۔ ابھی کچھ دیر قبل سکندر بیگ نے ان کو فون کرکے درشت الفاظ میں واضح کیا تھا کہ وہ اس بزنس سے الگ ہورہا ہے۔ اب وہ ان کے ساتھ کسی صورت کاروبار نہیں کرے گا لہٰذا وہ اس کا حساب کردیں۔
ریاض احمد نے وجہ پوچھی تو سکندر بیگ نے بتایا۔ ’’تم دونوں نے مجھ پر شک کیا ہے۔ میں نے تم دونوں کی باتیں سن لی تھیں۔‘‘ اور پھر جو اس نے ان کی گفتگو سنی تھی، وہ دہرا دی اور فوراً فون بند کردیا۔
’’یہ اچانک کیا ہوگیا؟‘‘ انور حیات نے فکرمند ہوتے ہوئے کہا۔
’’غلطی ہم سے ہوئی ہے۔ ہمیں اتنی جلدی اس کے بارے میں ایسی رائے قائم نہیں کرلینی چاہئے تھی۔‘‘ ریاض احمد کے چہرے پر تاسف تھا۔
’’یہ سب باتیں ایک طرف…! وہ زمین سکندر کے نام ہے۔ اگر اس نے زمین خریدار کے نام نہ کی تو ہمیں اصول کے مطابق چالیس لاکھ روپے ادا کرنے پڑیں گے۔ بیس لاکھ روپے کا نقصان ہوجائے گا۔‘‘
’’اب کیا کریں؟‘‘ ابھی ریاض احمد نے اتنا ہی کہا تھا کہ دروازہ کھلا۔
ملازم اندر آکر بولا۔ ’’سر! کوئی سلمان صاحب آئے ہیں، سکندر صاحب سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’سلمان…؟‘‘ ریاض احمد اور انور حیات نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر نام دہرایا اور پھر ان کے ذہن میں فوراً آگیا کہ سلمان سے وہ رات مل چکے ہیں اور سکندر نے اس کا تعارف بھی کرایا تھا۔
’’سکندر تو چلا گیا ہے۔ سلمان کو درمیان میں ڈال کر سکندر سے صلح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلے بیس لاکھ روپے کے نقصان سے تو بچیں، پھر اگلی بات سوچ لیں گے۔‘‘ انور حیات نے آہستہ سے کہا۔
ریاض احمد نے اس کی بات سن کر ملازم سے کہا کہ وہ سلمان کو اندر بھیج دے۔
سلمان نے جب سکندر سے ریاض احمد کو فون کرا دیا تھا تو وہ کام کا بہانہ کرکے گھر سے نکلا تھا اور بڑی سرعت سے یہاں پہنچ گیا تھا۔ اس دوران اس نے سحر کو فون کرکے کہا تھا کہ وہ برکت صدیقی سے رابطہ کرکے اس سے ریاض احمد اینڈ کمپنی کی کاروباری دستاویز کی ایک فوٹو کاپی کسی بھی طرح حاصل کرلے۔
سلمان کمرے میں جاکر ریاض احمد اور انور حیات سے ملا اور بولا۔ ’’مجھے انکل سکندر سے ملنا تھا۔‘‘
’’وہ کسی کام سے گئے ہیں، آپ بیٹھیں۔‘‘ ریاض احمد نے کہا۔
’’میں چلتا ہوں، ان سے پھر مل لوں گا۔‘‘ سلمان بولا۔
’’آپ بیٹھ جائیں شاید وہ جلدی آجائیں۔‘‘ انور حیات نے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔
سلمان نے اپنی گھڑی کی طرف دیکھا اور بولا۔ ’’شاید ان کو دیر ہوجائے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ انہیں زمین کسی کے نام منتقل کرانے جانا ہے شاید وہ وہاں گئے ہوں۔‘‘ پھر سلمان ان سے مخاطب ہوا۔ ’’میں چلتا ہوں۔‘‘
’’ان کو کون سی زمین کس کے نام منتقل کرانے جانا تھا؟‘‘ ریاض احمد نے چونک کر پوچھا۔
’’سوری…! مجھے علم نہیں ہے۔ کسی زمین کا ذکر کررہے تھے، میں چلتا ہوں۔‘‘ سلمان نے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔
’’کیا ہم آپ سے ایک بات کرسکتے ہیں شاید آپ ہماری کوئی مدد کرسکیں۔‘‘ ریاض احمد نے کہا۔
’’جی حکم کریں؟‘‘ سلمان رک گیا۔
’’سکندر ہم سے ناراض ہوگیا ہے۔ کیا آپ ان سے صلح کرانے میں ہماری مدد کرسکتے ہیں؟‘‘ ریاض احمد کو بے چینی تھی کہ وہ کسی طرح اس پلاٹ کو خریدار کے نام منتقل کرانے میں کامیاب ہوجائیں۔ اب ان دونوں کو اس بات نے بھی مضطرب کردیا تھا کہ سکندر وہ زمین کسی اور کو فروخت کررہا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ اس نے جان بوجھ کر کاغذات نہ ملنے کا جھوٹ بولا تھا۔
سلمان ان کے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا اور بولا۔ ’’آپ لوگوں کی دوستی اور کاروبار تو بہت پرانا ہے پھر یہ ناراضی کیسے ہوگئی؟‘‘
’’بس! وہ کسی بات پر ناراض ہوگیا ہے۔ اگر آپ ہمارے درمیان صلح کرا دیں تو بہت اچھی بات ہوگی، آخر آپ ان کے ہونے والے داماد ہیں۔ وہ آپ کی بات رد نہیں کریں گے۔‘‘ ریاض احمد نے کہا۔
’’یہ کس نے کہہ دیا کہ میں ان کا داماد بننے والا ہوں؟‘‘ سلمان نے ان کی طرف سوالیہ
نگاہوں سے حیرت زدہ انداز میں دیکھا۔
’’یہ بات خود ہمیں سکندر نے بتائی تھی۔‘‘ انور حیات بولا۔
’’میں تو شادی شدہ ہوں۔ چار ماہ قبل میری شادی ہوئی ہے۔ میں تو یہاں اپنے کلینک کے لئے کوئی جگہ دیکھنے آیا ہوں۔‘‘ سلمان نے پراعتماد لہجے میں کہا۔
سلمان کی بات نے ان دونوں کو حیران کردیا۔ سلمان اپنی جگہ سے اٹھا اور بولا۔ ’’اس سلسلے میں، میں آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ میں تین دن سے انکل سکندر کے گھر میں رہ رہا ہوں۔ میں نے یہاں کام کرنے والے کچھ لوگوں کو ان کے گھر آتے جاتے دیکھا ہے۔‘‘
’’کون لوگ تھے وہ…؟‘‘ ریاض احمد نے پوچھا۔
’’یہ آپ تحقیق کرلیں۔ میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔ میں نہیں چاہتا کہ میرا نام آئے اور پھر گڑبڑ ہوجائے۔ میری کی ہوئی نیکی میرے گلے پڑگئی تو نقصان میرا ہی ہوگا۔‘‘ سلمان نے کہا۔
’’آپ کا نام بالکل نہیں آئے گا۔ ہم وعدہ کرتے ہیں، آپ بتائیں کون ہیں جو سکندر سے مل رہے ہیں؟‘‘ انور حیات نے استفسار کیا۔
’’بہتر ہوگا کہ میں آپ لوگوں سے شام کو ملوں۔ مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے۔ میں لیٹ ہورہا ہوں۔‘‘ سلمان نے گھڑی کی طرف دیکھا اور اجازت لے کر چلا گیا۔
سلمان مسکراتا ہوا باہر نکلا اور جیسے ہی لفٹ کی طرف بڑھا، یکدم لفٹ کا دروازہ کھلا اور برکت صدیقی اندر سے نمودار ہوا اور اس کی طرف توجہ دیئے بغیر آفس کی طرف چلا گیا۔
سلمان نیچے پہنچا تو ایک طرف سحر کھڑی تھی۔ اس نے ایک فائل سلمان کو تھما دی۔ سلمان نے فائل کھول کر دیکھی۔ اندر پارٹیوں کے بارے میں معلومات تھیں اور کچھ اہم کاروباری دستاویزات تھیں۔
سلمان نے ان کاغذات کی فوٹو کاپی کرائی اور پھر سحر کو کچھ سمجھاتا ہوا ایک طرف لے گیا۔
٭…٭…٭
انور حیات سگریٹ کے کش پر کش لے رہا تھا۔ اس کے سامنے سحر پرُاطمینان انداز میں براجمان تھی اور کاغذات کا ایک پلندا انور حیات کے سامنے میز پر پڑا تھا، جسے وہ الٹ پلٹ کر اچھی طرح دیکھ چکا تھا۔ دونوں اس وقت ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھے تھے۔ سحر نے فون کرکے انور حیات کو بلایا تھا۔ پہلے تو انور حیات نے آنے سے انکار کردیا تھا لیکن جب سحر نے یہ کہا کہ میں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ آپ کی ناک کے نیچے ریاض احمد کا بیٹا نوید کیا کر رہا ہے تو آپ چونک جائیں گے۔
یہ سن کر انور حیات ملاقات کے لئے تیار ہوگیا تھا۔ سحر نے اسے بتایا۔ ’’نوید کے ساتھ میری دوستی ہے اور ہم جلدی شادی کرنے والے تھے، تب اچانک نوید کی منگنی آپ کی بیٹی کے ساتھ ہوگئی۔ وہ اب بھی مجھے یہ کہتا ہے کہ منگنی اس نے خاندان کے دبائو پر کی ہے لیکن اب مجھے اس پر یقین نہیں رہا۔‘‘
’’اور یہ کاغذات تمہارے پاس کیسے آئے؟‘‘
’’جب میں نے کہا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو، تم منگنی کرکے مجھے چھوڑ چکے ہو تو اس نے یقین دلانے کے لئے مجھے یہ فائل دے دی اور بتایا کہ میں بہت جلد سارے کاروبار پر قبضہ جمانے والا ہوں۔ تم اس کاروبار میں میرے ساتھ شریک ہوگی اور یہ یقین دلانے کے لئے کہ میں جھوٹ نہیں بول رہا ہوں، اپنی کمپنی کا سارا کھاتہ، لین دین تمہیں دے رہا ہوں تاکہ تمہیں یقین آجائے۔ اپنی کمپنی کے سیکرٹ کوئی ایسے ہی کسی کو نہیں دیتا۔‘‘
’’اور تم میرے پاس کیوں لے آئی ہو؟‘‘ انور حیات نے پوچھا۔
’’اس لئے کہ میرے ضمیر نے گوارا نہیں کیا کہ میں نوید کے ساتھ مل کر ایسا کروں اور وہ آپ لوگوں کے کاروبار پر قبضہ کرلے۔ نوید کی ملاقاتیں سکندر بیگ کے ساتھ بھی ہیں۔ میں نے نوید کو چاہا تھا، اس کاروبار کو نہیں چاہا تھا کہ اس کے ساتھ شامل ہوجائوں۔‘‘ سحر نے کہا اور جانے کے لئے کھڑی ہوگئی۔ ’’میں نوید کو چھوڑ رہی ہوں اور آپ کو باخبر کررہی ہوں۔ ایک بات اور سن لیں۔ مجھے شک ہے کہ ریاض احمد بھی سکندر کے ساتھ کوئی ڈیل کرچکا ہے۔ آپ اکیلے بے وقوف بن رہے ہیں۔‘‘ سحر کہہ کر چلی گئی اور انور حیات ہکابکا بیٹھا رہا۔ اس کے سامنے جو کاغذات تھے، وہ بہت اہم تھے۔ کس کے ساتھ کیا لین دین ہے، ان میں سب کچھ واضح تھا۔ کمپنی کے کچھ سیکرٹ بھی تھے جس کی بنیاد پر نیا کاروبار شروع کیا جاسکتا تھا۔ انور حیات کو غصہ آنے لگا تھا۔ وہ سوچنے لگا۔ آہستہ آہستہ یہ واضح ہوتا جارہا تھا کہ سکندر اور ریاض واقعی ملے ہوئے ہیں۔
پھر دو دن پہلے کا وہ واقعہ بھی انور حیات کو یاد آگیا جب وہ اور ریاض احمد فیکٹری جارہے تھے تو ریاض احمد نے انور حیات کو روک دیا تھا اور کہا تھا کہ اس کے ساتھ سکندر بیگ جائے گا۔ اس وقت انور حیات نے اس بات کو نظرانداز کردیا تھا لیکن اب اسے اس بات میں بھی کالا دکھائی دینے لگا تھا۔
جب انسان کسی کے بارے میں منفی انداز میں سوچنا شروع کردے تو پھر اس کی ہر بات اسے مشکوک دکھائی دیتی ہے۔ اس وقت انور حیات کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہورہا تھا۔
٭…٭…٭
ریاض احمد نے وہ کاغذات جو ابھی اس کے سامنے انور حیات نے رکھے تھے، الٹ پلٹ کر دیکھے اور پھر تشویش بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھ کر بولا۔ ’’یہ بڑے اہم کاغذات ہیں، تم کیوں لے کر آئے ہو؟‘‘
’’مجھے یہ دیئے گئے ہیں۔‘‘
’’کس نے دیئے ہیں؟‘‘
’’تمہارے بیٹے کی محبوبہ نے!‘‘ انور حیات کا لہجہ درشت اور تمسخرانہ ہوگیا۔
’’کیا بات کررہے ہو؟‘‘ ریاض احمد یہ سن کر بگڑ گیا۔
’’ابھی نوید کو بلائو اور اس سے پوچھو کہ اس نے یہ کاغذات اپنی محبوبہ کو کیوں دیئے تھے۔ وہ اس کاروبار پر قبضہ جمانے کا سوچ رہا ہے۔ وہ اس لڑکی کو اپنی محبت کے بدلے یہ سب کچھ دے دینا چاہتا ہے اور وہ لڑکی اچھی نکلی کہ مجھے یہ سب واپس کرکے چلی گئی۔‘‘ انور حیات نے کہا۔
’’میری سمجھ میں تمہاری کوئی بات نہیں آرہی ہے۔‘‘
’’تم فوراً نوید کو بلائو اور اس سے پوچھو کہ سحر کون ہے؟‘‘ انور حیات کا غصہ کم نہیں ہوا تھا۔
ریاض احمد نے اسی وقت نوید کو بلا لیا۔ ریاض احمد نے اس سے پوچھا۔ ’’یہ سحر کون ہے؟‘‘
سحر کا نام سن کر نوید کے چہرے پر یکدم تغیر آگیا۔ ’’کیا ہوا؟‘‘
’’جو پوچھا ہے، اس کا جواب دو بیٹا جی! یہ سحر کون ہے جسے تم اپنی محبت میں سارا کاروبار تحفے میں دینا چاہتے ہو اور ہمارے کاروبار کے سارے کھاتے اور سیکرٹ اسے تھما کر یقین دلا رہے ہو کہ تم اس سے کتنی محبت کرتے ہو؟‘‘ انور حیات غصے سے بولا۔
نوید اس کا منہ دیکھنے لگا۔ ’’میں کسی سحر کو نہیں جانتا۔‘‘
’’میں نے اس کے موبائل میں تمہاری تصویریں دیکھی ہیں۔ تم کیسے کہتے ہو کہ تم نہیں جانتے اسے!‘‘ انور حیات کی آواز بلند ہوگئی۔ یہ بات اس نے جان بوجھ کر کہی تھی تاکہ نوید کے لئے انکار کی گنجائش نہ رہے۔
’’انور! تم کو کیا ہوگیا ہے؟ تم بات تو آرام سے کرو۔‘‘ ریاض احمد نے سمجھایا۔
’’کیسے آرام سے کروں؟ تم سب مجھے بے وقوف بنا رہے ہو۔ تم، تمہارا بیٹا اور سکندر اندر سے ایک ہو اور مجھے دھوکا دینا چاہتے ہو۔‘‘ انور حیات پہلے سے بھی اونچی آواز میں بولا۔
’’یہ کیا کہہ رہے ہو تم…؟‘‘ ریاض احمد بھی چیخا۔
’’میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ تمہارا بیٹا سارے کاروباری کاغذات لے گیا اور اس لڑکی کو دے دیئے۔ اس سے پہلے کہ تم سب کچھ سمیٹ کر مجھے سڑک پر پھینک دو، میں اب تم لوگوں کے ساتھ کام نہیں کرسکتا۔ یہ شراکت داری اب تقسیم ہوگی۔‘‘ انور حیات نے چیخ کر فیصلہ کن انداز میں کہا۔
’’تم غصے میں ہو، تم گھر جائو پھر اطمینان سے فیصلہ کرنا۔‘‘ ریاض احمد ایک دم نرم ہوتا ہوا بولا۔
’’میں فیصلہ کرچکا ہوں۔ ابھی یہ کام بند ہوگا، پروڈکشن روک دو۔ پہلے شراکت داری تقسیم ہوگی پھر جس کے ہاتھ میں یہ سارا کاروبار آئے گا، وہی اس کو کرے گا۔‘‘ انور حیات نے فیصلہ سنا دیا۔
’’تم سوچ لو۔‘‘ ریاض احمد نے سمجھانا چاہا۔
’’میں نے سوچ لیا ہے
تمہارے بیٹے کے ساتھ جو میری بیٹی کی منگنی ہوئی تھی، میں اسے بھی ختم کرتا ہوں۔‘‘
’’یہ تم غلط کررہے ہو۔‘‘ ریاض احمد نے کہا۔
’’رہنے دیں پپا! مجھے لڑکیوں کی کمی نہیں ہے۔‘‘ نوید ایک دم بولا۔
’’سن لیا اسے لڑکیوں کی کمی نہیں ہے۔ بس اب سب کچھ ختم!‘‘ انور حیات نے غصے سے کہا اور پھر وہ اس بات پر جم گیا کہ کام بھی بند ہوگا اور اس بلڈنگ کو بھی تالے لگ جائیں گے۔ بہت سمجھانے کے باوجود وہ نہیں سمجھا۔
آخرکار ریاض احمد نے فون کرکے سکندر کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا اور کہا۔ ’’تم فوراً یہاں آجائو۔‘‘
’’انور کا فیصلہ ٹھیک ہے۔ کل کا وقت رکھ لو، اب ہم حساب کتاب کے لئے بیٹھیں گے۔‘‘ سکندر بیگ کے اس فیصلے نے ریاض احمد کو بھی چپ کرا دیا اور پھر اس بلڈنگ میں موجود ان کے دفاتر کو تالے لگ گئے اور انہوں نے فی الحال فیکٹری بھی بند کردی۔
٭…٭…٭
سلمان ساری صورتحال سے باخبر تھا۔ جب تالا لگ چکا تھا تو سحر نے سلمان کے کہنے پر برکت صدیقی سے رابطہ کیا۔ برکت صدیقی نے اسے ساری بات بتا دی۔ وہ بات سلمان تک پہنچی تو رات کے کھانے پر سکندر بیگ نے سلمان سے کہا۔ ’’ہم اپنا کاروبار الگ کررہے ہیں۔ کل دن دس بجے حساب کتاب ہوگا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اپنا سرمایہ لے کر ان سے الگ ہوجائوں۔‘‘
’’بہتر یہ ہے کہ آپ ساری بلڈنگ خود لے لیں۔ جہاں آپ کے دفتر ہیں، وہ شہر کی موزوں ترین جگہ پر ہے۔ ہم اسے اسپتال کی شکل دے دیں گے اور پھر آپ جتنا چاہیں پیسہ کمائیں۔‘‘ سلمان کے اس مشورے نے سکندر بیگ کی سوچوں کو بدل دیا تھا۔ وہ فوری اس پر رضامند ہوگیا کہ وہ اس بلڈنگ کو لے لے گا۔
’’تم بھی میرے ساتھ چلنا، شاید مجھے کسی مشورے کی ضرورت پڑ جائے۔ آخر تم میرے بیٹے ہو۔‘‘ سکندر بیگ مسکرایا۔
’’جیسا آپ چاہیں!‘‘ سلمان نے کہا۔
٭…٭…٭
دوسرے دن وہ تینوں کمرے میں موجود تھے۔ سلمان بھی ایک طرف بیٹھا تھا۔ سب سے پہلے انہیں اس آدمی کا سامنا کرنا پڑا جس کو انہوں نے زمین بیچی تھی۔ سکندر نے کاغذات نہ ملنے کی بات کی تو وہ اس بات پر اڑ گیا کہ پراپرٹی کے اصول کے مطابق آپ مجھے بیس لاکھ روپے بیعانے کے ساتھ بیس لاکھ روپے اور دیں۔ اس کے سخت لہجے نے ان کو مجبور کردیا کہ وہ شام تک چالیس لاکھ روپے ادا کردیں۔
وہ چلا گیا اور تینوں کچھ دیر پریشان رہے۔ سلمان مسکراتا رہا۔ وہ دونوں اس نقصان کا ذمہ دار سکندر بیگ کو ٹھہرا رہے تھے اور سکندر بیگ مان نہیں رہا تھا۔
پھر وہ حساب کرنے لگے۔ ان کے اکائونٹینٹ حساب لکھتے رہے۔ دو گھنٹے کے بعد سب کچھ واضح ہوگیا تھا۔ جس کو جتنا حصہ مل رہا تھا، وہ تینوں نے پڑھ لیا تھا۔ کاغذات کے پلندے ان کے ہاتھوں میں تھے۔
’’مجھے میرا سرمایہ دے دیں، میں الگ ہوجانا چاہتا ہوں۔‘‘ انور حیات نے فوراً فیصلہ سنا دیا۔
’’اور مجھے یہ بلڈنگ دے دیں اور باقی مجھے کیش دے دیں۔‘‘ سکندر بیگ نے کہا۔
’’ٹھیک ہے فیکٹری میں رکھ لیتا ہوں اور جو پیسہ میری طرف نکلتا ہے، وہ میں تم دونوں کو دے دوں گا۔‘‘ ریاض احمد نے کہا۔
’’مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘‘ انور حیات نے کہا۔
پھر ان کے درمیان طے ہونے لگا کہ ایک دوسرے کو ان کے حصے کا سرمایہ کیسے ملے گا۔ وہ ایک لائحہ عمل طے کرنے لگے۔ جب سب کچھ طے ہوگیا اور دستاویز پر ان تینوں نے دستخط کردیئے تو سکندر بیگ نے کہا۔ ’’آپ دونوں کل ہی اس بلڈنگ کو میرے نام کردیں گے، کیونکہ یہ بلڈنگ ہم تینوں کے نام ہے۔‘‘
’’تم وکیل سے کاغذات تیار کرا لو۔ ہم کل دستخط کردیں گے۔‘‘ ریاض احمد اور انور حیات نے کہا اور وہ تینوں معاہدے کی ایک ایک کاپی لے کر چلے گئے۔
باہر نکلتے ہوئے سلمان نے بلڈنگ کو دیکھا اور دل ہی دل میں کہا۔ ’’اب یہ میری ملکیت میں ہوگی کیونکہ یہ میرے باپ کی تھی۔‘‘
٭…٭…٭
شام کو ایک بڑی گاڑی سکندر بیگ کے گھر کے باہر رکی اور اندر سے چار افراد باہر نکلے۔ تین کے ہاتھوں میں فائلیں تھیں۔ چوکیدار نے اندر اطلاع دی اور سکندر بیگ نے انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھانے کو کہا۔
جب سکندر بیگ ان کے پاس گیا تو ان میں سے ایک نے متانت سے کہا۔ ’’ہم انکم ٹیکس کے دفتر سے آئے ہیں۔ آپ کی طرف ٹیکس واجب الادا ہے اور ہمیں آپ کے گھر اور پراپرٹی کی چھان بین کرنی ہے۔ آپ کے بینک اکائونٹس بھی دیکھنے ہوں گے۔‘‘
سکندر بیگ اور اس کے ساتھی شروع سے ہی پورا ٹیکس ادا نہیں کرتے تھے۔ بہت کچھ انہوں نے چھپا کر رکھا تھا اس لئے سکندر بیگ گھبرا گیا اور مصالحت آمیز لہجہ اختیار کرلیا لیکن وہ اس کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھے۔ اسی اثنا میں سلمان اندر آگیا تو اس نے ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’آپ منور حسین ہو نا…؟‘‘
’’اور آپ سلمان ہیں؟‘‘ اس شخص نے مسکرا کر کہا۔ دونوں بغلگیر ہوگئے۔ دونوں کی جان پہچان دیکھ کر سکندر بیگ کی سانس میں سانس آئی۔
سلمان اور منور کی آپس میں باتیں ہونے لگیں۔ سلمان نے بتایا کہ وہ دونوں ایک ساتھ کالج میں پڑھتے رہے ہیں۔
پھر چائے اور کھانے پینے کا سامان آگیا۔ سلمان نے ان کے آنے کی وجہ پوچھی تو منور نے بتایا کہ ہم ان کی انکم ٹیکس کی چھان بین کے لئے آئے ہیں۔
’’اب تم کوئی تفصیل نہیں لو گے۔‘‘ سلمان نے کہا۔
’’تم سے کیسے انکار کرسکتا ہوں۔ ٹھیک ہے، میں دیکھ لوں گا۔‘‘ منور نے سوچتے ہوئے کہا اور پھر وہ چلے گئے۔
’’آپ فکر نہ کریں، سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘ سلمان نے تسلی دی۔
’’مجھے اب کوئی فکر نہیں ہے۔ شکر ہے کہ وہ تمہارا دوست نکل آیا۔‘‘ سکندر بیگ مسکرایا۔
دوسرے دن وہ اس بلڈنگ کی منتقلی کے لئے کچہری چلے گئے۔ سلمان نے سکندر بیگ کو ایک طرف لے جاکر کہا۔ ’’انکل…! ابھی انکم ٹیکس والے آپ کے پیچھے ہیں۔ میرا مشورہ ہے آپ یہ بلڈنگ اپنے نام نہ کرائیں تو بہتر ہوگا۔‘‘
سکندر بیگ اس کی بات سن کر سوچنے لگا۔ ’’ہاں! بات تم ٹھیک کہہ رہے ہو لیکن تمہارے دوست نے کہا تھا کہ وہ معاملہ خود ہینڈل کرلے گا۔‘‘
’’انکل! یہ محکمے کے لوگ ہیں۔ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ کیا پتا وہ میری وجہ سے چلا گیا ہو لیکن اپنی کارروائی سے باز نہ آئے؟‘‘ سلمان نے کہا۔
اس کی بات سن کر سکندر بیگ سوچ میں پڑگیا۔ منور حسین دراصل سلمان کے کہنے پر ہی آیا تھا اور اس کی توجہ دلانے پر اس نے اس کمپنی اور ان تینوں کے انکم ٹیکس کے کاغذات نکالے تھے۔
’’پھر کیا کریں؟‘‘ سکندر نے پوچھا۔
’’آپ آنٹی کو بلا لیں اور یہ بلڈنگ ان کے نام کرا دیں۔‘‘ سلمان نے تجویز دی۔
’’ان کے نام تو پہلے ہی بہت کچھ ہے۔‘‘ سکندر بیگ نے دھیمے سے کہا۔
’’پھر آپ عمارہ کو بلا لیں۔‘‘ سلمان بولا۔
’’ہاں! یہ ٹھیک ہے۔‘‘ سکندر بیگ نے کہا اور اپنا فون نکالا۔
ابھی وہ کال کرنے والا ہی تھا کہ سلمان بولا۔ ’’انکل! عمارہ کے آتے آتے یہ لوگ کہیں کھسک نہ جائیں اور معاملہ کھٹائی میں پڑ جائے۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ انکل ریاض کہہ رہے تھے کہ مجھے کہیں جانا ہے، جلدی کرو۔‘‘
’’ہاں! ان کی نیت میں بھی فتور آسکتا ہے۔ فی الحال میں یہ بلڈنگ تمہارے نام کروا دیتا ہوں۔‘‘ سکندر بیگ نے فوراً فیصلہ کرلیا۔
سکندر بیگ، سلمان کو وکیل کے پاس لے گیا۔ سلمان نے سکندر بیگ سے کہا کہ وہ وکیل سے کاغذات تیار کرواتا ہے، آپ ان دونوں کے پاس بیٹھیں تاکہ وہ کہیں کھسک نہ جائیں۔
سکندر بیگ ان کے پاس چلا گیا اور سلمان کاغذات تیار کرانے لگا۔ اس کے بعد تینوں نے معاہدے پر دستخط کردیئے اور بلڈنگ سلمان کے نام ہوگئی۔ وہ بلڈنگ جو ان تینوں نے دھوکے سے سلمان کے باپ سے لی تھی۔ سلمان خوش تھا۔ اس کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو نکل رہے تھے۔
٭…٭…٭
منور حسین انکم ٹیکس آفیسر تھا اور سلمان کے کہنے پر وہ
سکندر بیگ کے گھر گیا تھا۔ دونوں کلاس فیلو تھے اور اچھے دوست بھی! یہ چال سلمان نے اسی لئے چلی تھی کہ وہ بلڈنگ کو اپنے نام کروا لے۔
جب سلمان کا کام ہوگیا تو منور حسین کو سلمان نے ان کے کاروبار کا تمام ریکارڈ اس کے حوالے کردیا اور منور حسین نے کارروائی شروع کردی۔ ان کو نوٹس ملنے شروع ہوگئے۔ سکندر بیگ نے فوراً سلمان سے کہا۔ ’’تمہارے دوست نے نوٹس بھیج دیئے ہیں۔‘‘
’’میری اس سے بات ہوئی تھی، اس نے بتایا تھا کہ اسے اوپر سے ہدایت ہے جس کی وجہ سے وہ بے بس ہے اور کارروائی کرنے پر مجبور ہے۔‘‘ سلمان نے بتا کر سکندر کو ڈرا دیا۔
’’اب کیا کروں؟‘‘ سکندر بیگ بے بسی سے ہاتھ ملنے لگا۔
’’فیکٹری کو آگ لگا دیں۔‘‘ ایک دم سلمان نے کہا۔
اس کی بات سن کر سکندر بیگ دم بخود ہوکر اس کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ گھبرا کر بولا۔ ’’یہ کیا کہہ رہے ہو تم…؟‘‘
’’فیکٹری کو آگ لگ جائے گی، انشورنس کا پیسہ ملے گا اور یہ کیس دب جائے گا۔ دیوالیہ ہونے کا ڈرامہ رچا دیں۔ میں کہتا ہوں آپ کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بلڈنگ ہمارے نام پر ہے، آپ ان کو زور دے کر اس بات پر مائل کریں اور سمجھائیں کہ اس کا بس یہی حل ہے۔‘‘ سلمان نے کہا۔
’’ہاں! میں تو اپنا حصہ لے چکا ہوں، کچھ پیسہ رہتا ہے۔‘‘ سکندر بیگ بولا۔
’’بس! آپ ان کو کسی طرح اس بات پر راضی کرلیں کہ فیکٹری کو آگ لگا دی جائے تو بچائو ممکن ہے بلکہ آپ ان کو یہ بھی کہہ دیں کہ یہ تجویز خود منور حسین نے دی ہے۔‘‘ سلمان نے کہا۔
سکندر بیگ ہولے سے مسکرا دیا۔
٭…٭…٭
سکندر بیگ کی بات سن کر ریاض احمد اور انور حیات متحیر ہوکر اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔
’’فیکٹری کو آگ لگا دیں؟ اس سے کیا ہوگا…؟‘‘ ریاض احمد نے پوچھا۔
’’ٹیکس والے ہمیں نہیں چھوڑیں گے لیکن انشورنس سے ہمیں بہت کچھ مل جائے گا اور یہ تجویز اسی آفیسر کی ہے۔‘‘ سکندر بیگ نے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’میری سمجھ میں تمہاری بات بالکل نہیں آرہی۔‘‘ ریاض احمد الجھن کا شکار ہوگیا تھا۔
’’پھر ٹھیک ہے۔ تم جانو اور انور جانے! میں طے شدہ پروگرام کے مطابق اپنے پیسے تم سے لینے آجائوں گا اور دبئی چلا جائوں گا۔‘‘ سکندر بیگ نے لاپروائی سے کہا اور چلا گیا۔
ریاض احمد اور انور حیات سوچتے رہے۔ ریاض احمد کے دماغ میں ایک بات آگئی تھی۔ فیکٹری کی انشورنس اس کے نام تھی۔ آگ لگنے کی صورت میں انشورنس کی رقم اسے ہی ملتی۔ اس نے سوچا اب جبکہ معاملہ بہت بگڑ چکا ہے تو کیوں نہ وہ انور حیات کو ایک پیسہ دینے کی بجائے اس کی چھٹی کرا دے۔ یہ سوچ کر اس نے کہا۔ ’’سکندر بیگ ٹھیک کہتا ہے، ہماری بچت اسی میں ہے۔‘‘
’’میں بھی یہی سوچ رہا ہوں۔ یہ مشورہ اسے اسی آفیسر نے دیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں یہ کام کر گزرنا چاہئے۔‘‘ انور حیات نے تائید کرتے ہوئے کہا۔
کچھ دیر کے بعد انور حیات چلا گیا۔ ریاض احمد نے نوید کو بلا کر کہا۔ ’’رات کو اپنے خاص آدمی کی مدد سے شارٹ سرکٹ سے پوری فیکٹری کو آگ لگا دو اور جو مال تیار ہے اور جو خام ہے، اسے نکال کر اپنے گودام میں منتقل کرا دو۔‘‘
اسی رات کو نوید نے فیکٹری سے تیار شدہ مال اور خام مال نکال کر گودام میں منتقل کرانا شروع کرا دیا۔ سلمان کا ایک آدمی مسلسل نگرانی کررہا تھا اور اس کی تصویریں بھی بنا رہا تھا۔
اسی رات کو فیکٹری میں آگ لگ گئی۔ آگ کیونکہ منصوبے کے تحت لگائی گئی تھی، اس لئے وہ پھیلتی گئی اور اطلاع بھی دیر سے دی گئی، جس کی وجہ سے آگ بجھانے کی فوری کارروائی نہیں ہوسکی۔ جب صبح تک آگ بجھائی گئی تو بہت کچھ جل کر خاک ہوچکا تھا۔ ریاض احمد بے ہوش ہونے کی اداکاری کرتا رہا۔
اس سے پہلے کہ وہ اپنا ڈرامہ رو کر بیان کرتے، گودام میں مال منتقل ہونے کی تصویریں پرنٹ میڈیا کو دے دی گئیں۔ اس طرح سے معاملہ پلٹ گیا اور ریاض احمد کے ساتھ انور حیات بھی دم بخود رہ گیا۔
عجیب صورتحال ہوگئی تھی۔ گودام سے مال برآمد ہوگیا تھا۔ تصویروں نے ثابت کردیا تھا کہ انہوں نے انشورنس کی رقم لینے کے لئے ڈرامہ رچانے کی کوشش کی تھی۔ اوپر سے ٹیکس ڈپارٹمنٹ ان کے پیچھے پڑگیا۔ ان کے بینک اکائونٹس منجمد ہوگئے اور وہ تینوں سخت مسائل کا شکار ہوکر اتنے الجھ گئے کہ ان کی سمجھ میں نہ آسکا کہ آخر ان کے ساتھ ہوا کیا ہے۔
ان کے خلاف کئی کیس بن گئے۔ چاروں طرف سے گھیرا تنگ ہوتا جارہا تھا۔ وہ ایک بند گلی میں آگئے تھے جہاں ان کا دم گھٹنے لگا تھا اور تو اور نوید پاگل پن میں منور حسین سے جھگڑ پڑا تھا۔ اس نے اس کا سر پھاڑ دیا جس سے معاملہ اتنا الجھا کہ نوید اس جرم میں جیل چلا گیا۔
٭…٭…٭
سلمان اس بلڈنگ میں موجود تھا۔ اس کے سامنے عمارہ کھڑی تھی۔ اس نے عمارہ کو وہ ساری کہانی سنائی تھی جو اس کے باپ کے ساتھ انہوں نے کیا تھا۔ اس ساری کہانی میں اس نے یہ کہیں نہیں بتایا تھا کہ اس وقت ان تینوں کے ساتھ جو ہوا ہے، اس کے پیچھے اس کا ہاتھ ہے۔ اس نے بس اتنا بتایا کہ ان تینوں کی زیادتی کی وجہ سے اس کا باپ مرگیا اور پھر اس کی ماں بھی چل بسی تھی۔
سلمان نے سب بیان کرنے کے بعد کہا۔ ’’میں تمہیں یہ سب اس وقت ہی بتا دینا چاہتا تھا جب پہلی بار میں تمہارے پپا سے ملا تھا کیونکہ میں انہیں فوراً پہچان گیا تھا لیکن سوچتا تھا کہ کیسے بتائوں اور آج میں نے اس لئے بتایا ہے کہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں سب کچھ چھوڑ کر چلا جائوں اور تم اپنی زندگی جس کے ساتھ گزارنا چاہو گزار لینا۔‘‘
عمارہ اس کی بات سن کر بولی۔ ’’کہاں جائو گے؟‘‘
’’اسی شہر میں جہاں سے آیا ہوں۔‘‘
’’تم اکیلے نہیں جائو گے۔‘‘ عمارہ نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
’’کیا مطلب ہے تمہارا…؟‘‘ سلمان نے اس کی طرف دیکھا۔
’’میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی۔‘‘
’’اپنے والدین کو چھوڑ کر جبکہ وہ اس وقت سخت مشکل میں ہیں؟‘‘ سلمان نے کہا۔
’’انہوں نے جو فصل اگائی تھی، اب اس کی کٹائی کررہے ہیں۔ میں تمہیں نہیں چھوڑ سکتی۔‘‘ عمارہ نے فیصلہ سنایا۔
دوسرے دن جب وہ تینوں اور ان کی بیویاں ایک جگہ بیٹھے ان مسائل کے بارے میں سوچ رہے تھے اور کوئی حل ڈھونڈ رہے تھے تو سلمان اور عمارہ بھی وہاں پہنچ گئے۔
’’پپا! ہم جارہے ہیں۔‘‘ عمارہ نے کہا۔
’’کہاں جارہے ہو؟‘‘ سکندر بیگ نے پوچھا۔
’’اس شہر سے جارہے ہیں اور ہم کل شادی کررہے ہیں۔‘‘ عمارہ بولی۔
’’تم دونوں کی شادی ہم کریں گے لیکن اس وقت ہم بہت مشکل میں ہیں۔ فی الحال تم دونوں گھر جائو۔‘‘ سکندر بیگ نے کہا۔
’’پپا…! آپ سلمان کو جانتے ہیں؟‘‘ عمارہ بولی۔
’’یہ کیسا سوال ہے؟ ہاں! جانتا ہوں۔‘‘ سکندر بیگ بولا۔
’’آپ یہ جانتے ہیں کہ ہم دونوں ایک ساتھ پڑھ رہے ہیں اور شادی کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ یہ شاہد علی کا بیٹا ہے۔ وہی شاہد علی جن سے آپ نے بیس لاکھ روپے میں وہ بلڈنگ دھوکے سے ہتھیا لی تھی۔‘‘ عمارہ کے اس انکشاف نے سب کو دم بخود کردیا۔
سکندر بیگ حیرت سے اسے دیکھے جارہا تھا۔ ایک دم اسے سلمان کی بہت سی باتیں یاد آنے لگیں۔ اس کے مشورے اور فیکٹری کو آگ لگانے کی باتیں…! سکندر بیگ ایک دم چونکا کہ اس نے وہ بلڈنگ بھی اس کے نام کردی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ سلمان نے یہ سب جان بوجھ کر کیا تھا۔
سلمان نے سب کی طرف مسکرا کر دیکھا اور پھر بولا۔ ’’جو میرا تھا، وہ میں نے لے لیا۔ جو آپ لوگوں نے کیا، وہ آپ کو مل گیا اور مل رہا ہے۔‘‘
پھر سلمان نے عمارہ کا ہاتھ پکڑا اور سب کو خاموش چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا۔
(ختم شد)