سلمان سب کچھ کھو کر غم کی تصویر بنا ہوا تھا، جبکہ وہ تینوں اپنے خاندان، رشتے داروں اور شہر کے بڑے لوگوں کے ساتھ خوب جھوم رہے تھے۔ اس تقریب میں ان تینوں شراکت داروں کی بیویاں اور بچے بھی شامل تھے۔ تینوں کے چہرے مسرت سے نہال تھے اور ان کے مردہ ضمیر میں اس زیادتی کا ذرّہ بھر بھی ملال نہیں تھا جو انہوں نے شاہد علی کے ساتھ کی تھی اور اس کی زیادتی کی وجہ سے سلمان کو اپنے والدین کی جدائی کا غم سہنا پڑا تھا۔
٭ … ٭ … ٭
معراج دین نے سلمان کی پرورش میں کوئی کمی نہیں اٹھا رکھی تھی۔ دونوں میاں بیوی بے اولاد تھے۔ انہیں سلمان کی صورت ایک بیٹا مل گیا تھا اور وہ بھی ایسا بیٹا ثابت ہوا کہ جس نے دونوں کی عزت اپنے والدین کی طرح کی تھی۔
معراج دین کی بیوی جلد ہی اللہ کو پیاری ہوگئی۔ بیوی کے انتقال کے بعد معراج دین اندر سے ٹوٹ گیا تھا لیکن اس نے سلمان کی پڑھائی اور دیکھ بھال میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی۔
سلمان اپنی ماں کی خواہش کے مطابق ڈاکٹر بن رہا تھا۔ یونیورسٹی میں سلمان ہردل عزیز نوجوان تھا۔ وہ یونیورسٹی میں ہونے والے ڈراموں میں بھی حصہ لیتا تھا اور اپنے دوستوں کے ساتھ خوب لطف اندوز بھی ہوتا تھا۔ اسی یونیورسٹی میں ایک لڑکی عمارہ پڑھتی تھی، جس کی سلمان سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب سلمان کی ڈرامہ کمپنی کو ایک نئی لڑکی کی ضرورت تھی اور پھر اچانک انہیں عمارہ مل گئی تھی۔
عمارہ کے ساتھ سلمان نے کامیاب ڈرامہ کیا۔ پھر اس ڈرامے کی وجہ سے دونوں میں اچھی دوستی ہوگئی تھی اور دوستی اتنی گہری ہوگئی کہ دونوں نے مستقبل کے سہانے خواب دیکھنے شروع کردیئے تھے۔
پھر یونیورسٹی کا دور ختم ہوگیا۔ دونوں کے ہاتھوں میں ڈاکٹری کی ڈگری آگئی اور سلمان اسی شہر میں ہائوس جاب کرنے لگا، جبکہ سلمان کے کئی دوست اپنے اپنے شہروں میں واپس چلے گئے، ان میں عمارہ بھی شامل تھی، لیکن دونوں کا رابطہ برقرار تھا۔
سلمان نے ابھی ہائوس جاب مکمل کی تھی کہ معراج دین کا انتقال ہوگیا۔ ایک بار پھر سلمان تنہا رہ گیا تھا۔
معراج دین نے اپنا گھر اپنی زندگی میں ہی سلمان کے نام کردیا تھا۔ سلمان نے سوچا کہ وہ واپس اپنے شہر میں چلا جائے۔ اب اس شہر میں اس کے لئے کچھ نہیں رہا تھا۔ اس کے جتنے قریبی دوست تھے وہ بھی اپنے اپنے شہروں میں چلے گئے تھے اور معراج دین بھی نہیں رہا تھا۔ سلمان نے سوچا کہ وہ واپس اپنے شہر جا کر اپنا کلینک کھول لے اور کلینک کھولنے سے پہلے ان سے حساب بھی لینا چاہتا تھا، جنہوں نے اس کے باپ شاہد علی کو دھوکا دے کر بلڈنگ ہتھیا لی تھی۔
یہ سوچ کر سلمان نے جانے کی تیاری شروع کردی اور وہ گھر جو معراج دین نے اس کے نام کردیا تھا اسے کرایہ پر دے دیا اور واپس اپنے شہرچلا گیا۔
سلمان گیارہ سال کے بعد اپنے شہر واپس آیا تھا۔ ٹرین سے اتر کر جب اس نے پلیٹ فارم پر قدم رکھا تو اسے عجیب سا محسوس ہوا۔ ایسا لگا جیسے ابھی اس کے والدین کہیں سے نکل کر اس کی طرف لپکیں گے اور خوشی سے اسے اپنے گلے سے لگا لیں گے۔ اس نے متلاشی نگاہوں سے دائیں بائیں دیکھا اور اپنی آنکھوں میں اترا ہوا پانی صاف کرتے ہوئے وہ ریلوے اسٹیشن سے باہر نکل گیا۔
سلمان نے سوچا کہ کہاں جائے؟ اس نے اپنا گھر کرائے پر دے رکھا تھا۔ اب رہائش کے لئے اس کے پاس کوئی انتظام نہیں تھا۔
سلمان نے فیصلہ کیا کہ وہ فی الحال کسی ہوٹل میں رہے گا۔ اس کے بعد وہ سوچے گا کہ اسے کیا کرنا ہے۔ چنانچہ وہ ٹیکسی میں بیٹھا اور ہوٹل کی طرف روانہ ہوگیا۔ ٹیکسی میں بیٹھ کر وہ دائیں بائیں بھی دیکھ رہا تھا۔ گزشتہ سالوں میں شہر بہت بدل گیا تھا۔
اچانک سلمان چلایا۔ ’’ٹیکسی روکو۔‘‘
ٹیکسی ڈرائیور نے ایک دم بریک لگادیا۔ ٹیکسی رک گئی۔ شکر تھا کہ پیچھے کوئی گاڑی نہیں آ رہی تھی، جس طرح ڈرائیور نے سلمان کے چلانے پر اچانک بریک لگایا تھا، اگر اس کے پیچھے کوئی گاڑی ہوتی تو وہ یقینا اس سے ٹکرا جاتی۔
’’ٹیکسی پیچھے کرو!‘‘ سلمان نے کہا۔
ڈرائیور نے آہستہ آہستہ ٹیکسی پیچھے کرنا شروع کردی۔ بائیں طرف ایک سڑک نکلتی تھی۔ سلمان نے ٹیکسی اس سڑک کے سامنے روکنے کے لئے کہا۔ ٹیکسی رک گئی۔
سلمان کی نظریں اس عمارت پر تھیں جو اب دو منزلہ ہوگئی تھی اور وہ عمارت کبھی اس کے باپ کی تھی اور اس کے باپ نے وہ بلڈنگ کرائے دار کی حیثیت سے رہنے والے انور حیات، سکندر بیگ اور ریاض احمد کو بیچی تھی اور جب وہ اپنے باپ کے ساتھ بقیہ رقم لینے گیا تھا تو انہوں نے پیسہ نہیں دیا تھا۔ اس کے باپ کو دھکے مارے تھے اور کہا تھا کہ تمہارے باپ کا دماغ ٹھیک نہیں ہے۔ اس غم میں اس کا باپ اور پھر اس کی ماں اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔
سلمان اس عمارت کو دیکھتا رہا۔ اسے سب کچھ یاد آگیا۔ اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ جس زخم کو وہ اپنا مستقبل سنوارنے کی مصروفیت میں پس پشت ڈال چکا تھا، اب وہ اسے یاد آگیا تھا۔ زخم تازہ ہوگیا تھا۔ ان تینوں کے چہرے اور گفتگو جب انہوں نے ان کے کمرے سے باہر جانے پر کی تھی، وہ کسی بڑی پارٹی کا پروگرام بنا رہے تھے، سب کچھ اسے یاد آگیا تھا۔
’’چلیں…؟‘‘ ڈرائیور نے پوچھا۔
’’مجھے یہیں اتار دو۔‘‘ سلمان نے کہا اور ٹیکسی سے باہر نکلا۔ اس نے کرایہ دیا اور اپنا ٹرالی بیگ کھینچتا ہوا اس عمارت کے قریب چلا گیا۔
ایک بار پھر ماضی اس کے سامنے آگیا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ اپنے باپ کے ساتھ اس عمارت کے اندر جا رہا ہے اور پھر ان کے ساتھ جو سلوک ہوا تھا اسے برداشت کرتے ہوئے وہ اپنے باپ کو سہارا دیے باہر نکل رہا ہے۔ وہ اس جگہ کھڑا ہوگیا جہاں اس کے باپ نے اپنی بائیک کھڑی کی تھی۔ سلمان بڑی مشکل سے اپنے باپ کو سہارا دے کر بائیک تک لایا تھا اور پھر اپنے باپ کو پیچھے بٹھا کر گھر چلا گیا تھا۔ سارے راستے اس کا باپ نیم بے ہوش اس کی کمر کے ساتھ لگا رہا تھا۔
سلمان کو بہت کچھ یاد آگیا تھا۔ وہ کربناک لمحات اس کی نظروں کے سامنے یوں گزر رہے تھے جیسے فلم اسکرین پر فلم چل رہی ہو۔ سلمان نے اپنے دانت بھینچ لئے۔ اس کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔ وہ اپنا بیگ کھینچتا ہوا واپس سڑک کی طرف چلا گیا۔ ایک ٹیکسی رُکی اور وہ ٹیکسی میں بیٹھ گیا۔ ٹیکسی اس کے بتائے ہوئے ہوٹل کی طرف دوڑنے لگی تھی۔
سلمان نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اب اس شہر میں ذاتی کلینک نہیں بنائے گا بلکہ وہ اپنے والد پر ہونے والی زیادتی کا حساب لے گا۔
٭ … ٭ … ٭
وہ شہر کا ایک اچھا ہوٹل تھا۔ سلمان نے کمرے میں جا کر پہلے باتھ لیا اور سوچا کہ وہ ڈائننگ ہال میں جا کر کچھ کھائے۔ یہ سوچ کر اس نے جیسے ہی دروازہ کھولا اس کی سماعت میں مردانہ آواز پڑی۔ اس کا لہجہ غصیلہ مگر دھیما تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ اس کے دروازے کے پاس ہی تھا کیونکہ اس نے ابھی تھوڑا سا دروازہ کھولا تھا، وہ باہر نہیں نکلا تھا اس لئے اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ باہر کہاں کھڑا ہے۔
مردانہ آواز آئی۔ ’’میں اس لئے ہوٹل میں آگیا کہ تم کو صاف الفاظ میں بتا دوں، اگر آئندہ تم نے میرے ساتھ کوئی رابطہ کرنے کی کوشش کی تو یاد رکھو جان سے مار کر کہیں پھینک دوں گا۔‘‘
پھر لڑکی کی آواز سنائی دی۔ ’’تم مجھے جان سے مارو گے؟ میرے ساتھ محبت کا کھیل رچا کر اب کہتے ہو مجھ سے رابطہ مت کرو۔ تمہاری وجہ سے میں نے گھر میں فساد کھڑا کر کے اپنی منگنی تڑوا دی… اور اب کہتے ہو میں تمہارا پیچھا چھوڑ دوں۔‘‘
’’تم جیسی جانے کتنی لڑکیاں میرے آگے پیچھے گھومتی ہیں۔‘‘ لڑکے کے لہجے میں نفرت تھی۔
’’تم نے ہی کہا تھا کہ ملنا ہے تو
ہوٹل میں کمرہ لو میں آ جائوں گا۔ دراصل تمہارا مقصد کچھ اور تھا۔‘‘ لڑکی فوراً بولی۔
’’اچھا اب بند کرو اپنی بکواس۔ ایک گھنٹے سے تمہیں سمجھا رہا ہوں کہ تمہارا اور میرا ساتھ یہیں تک تھا۔ پھر بھی تم میرے پیچھے کمرے سے باہر نکل کر اپنی بکواس کرنے لگی ہو۔‘‘
’’تم میری زندگی برباد کرنا چاہتے تھے۔ اپنے مقصد میں ناکامی پر تم مجھے زندگی سے نکال رہے ہو۔ میں نے تمہارے لئے بہت کچھ چھوڑا ہے لیکن تمہیں نہیں چھوڑوں گی۔‘‘ لڑکی بولی۔
’’تم میرا کیا بگاڑ سکتی ہو؟ جانتی ہو میں کون ہوں۔ ریاض احمد کا بیٹا ہوں۔ کسی معمولی ایرے غیرے کی اولاد نہیں ہوں۔ جائو جو کرسکتی ہو کرلو۔‘‘لڑکے کے لہجے میں زعم تھا۔
اس کی بات نے سلمان کو چونکا دیا تھا۔ وہ سوچنے لگا کہیں یہ اسی ریاض احمد کا بیٹا تو نہیں ہے جس نے دھوکے سے ان کی بلڈنگ اپنے نام کروا لی تھی۔
’’میری بات سنو!‘‘ لڑکی کی آواز آئی۔
’’چھوڑو میرا ہاتھ۔‘‘ لڑکا بولا اور پھر سلمان کو ایسا لگا جیسے اس نے لڑکی کو دھکا دیا ہو۔ پھر سلمان کے سامنے سے ایک نوجوان تیزی سے گزرا۔ سلمان نے اس کا چہرہ دیکھ لیا تھا۔
سلمان کمرے سے باہر نکل آیا۔ اس کی نظر ایک خوبصورت لڑکی پر پڑی جو فرش سے اٹھ رہی تھی۔ جب لڑکے نے اسے دھکا دیا تھا تو اسے چوٹ لگی تھی۔ لڑکی نے اٹھتے ہوئے سلمان کی طرف دیکھا اور کھڑے ہو کر اپنا سر سہلانے لگی۔
’’آپ ٹھیک تو ہیں؟‘‘ سلمان نے پوچھا۔
’’جی!‘‘ لڑکی نے مختصراً جواب دیا۔
’’میں آپ کی مدد کرسکتا ہوں؟‘‘
’’شکریہ۔‘‘ لڑکی کہہ کر دوسری طرف چل پڑی۔
’’ایکسکیوزمی!‘‘ سلمان نے عقب سے مخاطب کیا۔ لڑکی رک گئی اور اس نے گھوم کر سلمان کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
’’مجھے لگتا ہے کہ لڑکے نے آپ کو دھوکا دیا ہے۔‘‘
’’یہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔‘‘ لڑکی یہ کہہ کر تیزی سے کمرے کے اندر چلی گئی۔
سلمان اسی جگہ کھڑا رہا۔ اسے لڑکی پر ترس آنے لگا تھا۔ پھر وہ نیچے چلا گیا۔ اس نے ڈائننگ ہال میں بیٹھ کر کھانا کھایا اور باہر نکل کر اوپر جانے لگا تو اس کی نظر استقبالیہ پر کھڑی لڑکی پر پڑی۔ اس کے چہرے سے پریشانی عیاں تھی۔ وہ مضطرب کھڑی تھی۔ اچانک اس لڑکی نے بھی سلمان کی طرف دیکھا۔
سلمان اس کے پاس چلا گیا۔ ’’آپ پریشان ہیں؟‘‘
’’کیا آپ میری مدد کرسکتے ہیں؟‘‘ لڑکی نے آہستہ سے پوچھا۔
’’کیا مدد چاہئے۔‘‘
’’بل دینے کے لئے میرے پاس پندرہ سو روپے کم ہیں۔‘‘ لڑکی گھبرائے ہوئے انداز میں بولی۔ ’’پلیز مجھے دے دیں میں واپس کردوں گی۔‘‘
سلمان نے اپنا پرس نکال کر اس کی طرف پانچ ہزار کا نوٹ بڑھا دیا۔ ’’سارے رکھ لیں۔ آپ کو کہیں جانے کے لئے بھی پیسے چاہئے ہوں گے۔‘‘
لڑکی نے نوٹ لے کر اپنا بل ادا کیا اور بقایا پیسے سلمان کی طرف بڑھا دیئے۔ سلمان نے پیسوں کی طرف دیکھا اور بولا۔ ’’کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ یہ نوجوان اسی ریاض احمد کا بیٹا ہے جن کی گارمنٹس کی بڑی فیکٹری ہے؟‘‘
’’جی اسی کا بیٹا ہے۔‘‘ لڑکی نے جواب دیا اور جلدی سے بولی۔ ’’اپنا بقایا لے لیں، مجھے جانا ہے۔‘‘
’’میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ صرف پندرہ منٹ لوں گا۔ میرے ساتھ ڈائننگ ہال میں آ جائیں۔ چائے پیتے ہیں۔‘‘ سلمان نے کہا۔
لڑکی سوچنے لگی اور پھر اس کے ساتھ ڈائننگ ہال کی طرف بڑھ گئی۔
سلمان نے چائے کا آرڈر دیا اور بولا۔ ’’فی الحال یہ پیسے رکھ لو۔‘‘
’’میں کوئی عام لڑکی نہیں ہوں۔ میرا باپ بھی اس شہر کا بڑا بزنس مین ہے۔ دراصل اس نے مجھے کہا تھا کہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں بات کرنی ہے۔ اس کے کہنے پر میں نے ہوٹل میں کمرہ لیا لیکن مجھے یہ خیال نہیں رہا کہ میرے پرس میں کتنے پیسے ہیں۔‘‘ لڑکی نے کہتے ہوئے پیسے میز پر رکھ دیئے۔
سلمان نے پیسے اٹھا کر اپنے پرس میں رکھ لئے۔ اس دوران چائے کے ساتھ کچھ بسکٹ وغیرہ آگئے۔
’’آپ کا نام پوچھ سکتا ہوں؟‘‘ سلمان نے ویٹر کے جانے کے بعد کہا۔
’’اب آپ میرے ساتھ کوئی چکر چلانا چاہتے ہیں؟‘‘ لڑکی نے آنکھیں نکال کر سلمان کی طرف دیکھا۔
’’میں صرف اس ریاض کے بچے کو مزہ چکھانا چاہتا ہوں۔‘‘ سلمان کے لہجے میں نفرت عیاں ہو گئی تھی۔
’’آپ کیوں اسے مزہ چکھانا چاہتے ہیں؟ میرے سامنے ہیرو بننا چاہتے ہیں؟ یہ میرا ذاتی معاملہ ہے اور میں خود اسے بتائوں گی کہ کسی کو محبت میں فریب کیسے دیا جاتا ہے۔‘‘ لڑکی نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
’’میں اپنا حساب چکتا کرنا چاہتا ہوں۔ اگر آپ بھی اسے سبق سکھانا چاہتی ہیں تو ہم یہ کام ایک ساتھ کرسکتے ہیں۔‘‘
’’آپ کا کیا حساب ہے؟‘‘
’’آپ نے اپنا نام تک نہیں بتایا اور مجھ سے پوچھ رہی ہیں کہ میرا کیا حساب ہے۔‘‘ سلمان نے اطمینان سے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔
لڑکی نے ایک لمحے کے لئے سوچا۔ چائے کا کپ اپنی طرف کھسکایا اور بولی۔ ’’میرا نام سحر ہے۔‘‘
’’اور مجھے سلمان کہتے ہیں۔‘‘ سلمان نے فوراً اپنا نام بتایا۔‘‘ اس لڑکے نے آپ کو دھوکا دیا ہے۔ بڑا غرور تھا اس کے لہجے میں۔ اس لڑکے کا کیا نام ہے۔‘‘
’’اس کا نام نوید ہے۔ اس نے مجھے اپنی محبت کے جال میں کچھ ایسا پھنسایا کہ میں نے گھر والوں سے لڑ کر اپنی منگنی توڑ دی لیکن وہ کسی اور ہی ارادے سے مجھ سے محبت کا کھیل، کھیل رہا تھا۔‘‘ سحر نے کہا۔ اس کے لہجے سے صاف عیاں تھا کہ اسے نوید پر بہت غصہ ہے۔
’’اگر آپ میرا ساتھ دیں تو ہم اسے اچھا سبق سکھا سکتے ہیں۔ میرا کچھ حساب اس کی طرف نکلتا ہے۔ ایک ساتھ چکتا کرلیں گے۔‘‘ سلمان نے اس کی طرف دیکھا۔ سحر پہلے ہی زخم خوردہ تھی۔ اس نے فوراً ہامی بھر لی۔
دونوں نے چائے پی۔ سلمان نے باتوں باتوں میں اس کے خاندان کے بارے میں بھی پوچھ لیا۔ سحر نے بات سے بات نکلی تو یہ بھی بتا دیا کہ اس کمپنی کا ایک عمر رسیدہ منیجر بھی اس سے عشق کرنے کی کوشش میں تھا۔ وہ منیجر دو بار نوید کے ساتھ ہی سحر سے ملا تھا اور اس عاشق مزاج اور دل پھینک منیجر نے اس بات کی بھی پروا نہیں کی تھی کہ نوید کی اس لڑکی کے ساتھ دوستی ہے، اس نے سحر سے اپنی راہ ہموار کرنے کی کوشش شروع کردی تھی۔
اس ملاقات کے بعد دونوں ایک دوسرے کا نمبر لے کر چلے گئے تھے۔
٭ … ٭ … ٭
سلمان ابھی ہوٹل کے کمرے میں پہنچا ہی تھا کہ عمارہ کا فون آگیا۔ جب سلمان نے اسے بتایا کہ وہ اس کے شہر کے ایک ہوٹل میں مقیم ہے تو عمارہ بولی۔ ’’تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا اور ہوٹل میں کیوں ہو، ہمارا اتنا بڑا گھر ہے کیا تم یہاں نہیں رہ سکتے تھے۔‘‘
’’میں نہیں چاہتا کہ کسی کو تکلیف دوں۔‘‘
’’میں ابھی تمہارے پاس پہنچ رہی ہوں۔‘‘ عمارہ نے اتنا کہہ کر فون بند کردیا۔ سلمان نے موبائل فون ایک طرف رکھ دیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ سحر کا ملنا اس کی ایک بڑی مدد ہے۔ اس کے ساتھ مل کر وہ ان سب سے اچھے طریقے سے حساب چکتا کرسکے گا۔ سلمان کا دماغ بڑی تیزی سے تانا بانا بن رہا تھا۔
سلمان کو عمارہ کے آنے کی اطلاع ملی تو وہ نیچے لابی میں چلا گیا۔
عمارہ نے کہا۔ ’’تم ابھی سامان پیک کرو اور میرے ساتھ چلو۔‘‘
’’تم تکلف مت کرو۔ میں یہاں ٹھیک ہوں۔‘‘ سلمان بولا۔
’’کوئی تکلف نہیں ہے۔ ویسے بھی میں نے مما اور پپا سے تمہارا ذکر کر رکھا ہے۔ وہ تم سے ملنا بھی چاہتے ہیں۔‘‘ عمارہ نے بتایا۔
’’عمارہ میں فی الحال یہاں ٹھیک ہوں۔ میں اس لئے یہاں آیا ہوں کہ یہاں اپنا کلینک کھول سکوں۔‘‘
’’تم کلینک کی بات کر رہے ہو؟‘‘ عمارہ مسکرائی۔ ’’پپا ایک پرائیویٹ اسپتال بنا کر دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ تم دونوں مل کر کام کرنا۔‘‘
’’مجھ سے ملے بغیر انہوں نے تمہیں میرے ساتھ کام کرنے کی اجازت دے دی۔‘‘
سلمان مسکرایا۔
’’میں نے ان کو سب بتا دیا ہے۔ وہ خوش ہیں۔ تم ابھی میرے ساتھ چلو اپنا سامان پیک کرو۔‘‘ عمارہ نے پھر کہا۔
’’اچھا ایسا کرتا ہوں کہ میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں اور تمہارے پپا مما سے مل لیتا ہوں۔‘‘ سلمان نے کہا لیکن عمارہ بضد تھی کہ وہ اپنا سامان بھی ساتھ لے کر چلے لیکن سلمان نے اسے سمجھایا کہ ابھی وہ ملنے کے لئے جائے گا، بعد میں سامان بھی لے جائے گا۔
٭ … ٭ … ٭
شہر کے پوش علاقے میں ایک بڑی کوٹھی میں جب عمارہ کی کار اندر گئی تو سلمان وسیع و عریض گیراج اور پھر اس سے ملحق لان کو دیکھتا رہا۔ عمارہ اسے اندر لے گئی۔ ڈرائنگ روم میں سلمان کو بٹھانے کے بعد عمارہ اندر چلی گئی اور سلمان خوبصورت اور قیمتی سامان سے مزین ڈرائنگ روم کو دیکھنے لگا۔ اچانک اس کی سماعت میں عمارہ کی آواز پڑی۔ ’’سلمان… میرے پپا اور مما سے ملو۔‘‘
سلمان نے جونہی ان کی جانب دیکھا تو اس کی آنکھیں ساکت ہوگئیں۔ وہ متحیر دیکھتا رہ گیا۔ اس پر یہ حقیقت آج منکشف ہوئی تھی کہ عمارہ کا باپ سکندر بیگ ہے۔ وہ سکندر بیگ جس نے اپنے دونوں کاروباری شراکت داروں سے مل کر اس کے باپ کو فریب دیا تھا۔
’’پپا ان سے ملیں، یہ سلمان ہیں۔‘‘ عمارہ نے کہا۔
’’ہماری بیٹی آپ کی بہت تعریف کرتی ہے۔ آج آپ سے ملاقات بھی ہوگئی۔‘‘ سکندر بیگ نے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ سکندر بیگ کو دیکھتے ہوئے اسے وہ سب یاد آنے لگا جب ان کے سامنے اس کا باپ گڑگڑا رہا تھا کہ انہوں نے اسے صرف بیس لاکھ روپیہ دیا ہے اور وہ تینوں اسے پاگل کہہ رہے تھے۔
سلمان نے سکندر بیگ کا ہاتھ تھام لیا۔ ’’آپ سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔‘‘
’’لیکن جتنی خوشی ہمیں ہوئی ہے اتنی آپ کو نہیں ہوئی ہوگی۔‘‘ سکندر بیگ ہنسا۔ اس کی بیوی روبینہ بھی ہنس رہی تھی۔ عمارہ بھی خوش تھی۔
چائے کے دوران سکندر بیگ نے کہا۔ ’’عمارہ نے بتایا تھا کہ آپ بالکل اکیلے ہیں۔‘‘
’’جی ہاں! سوچ رہا ہوں کہ اس شہر میں کلینک کھول لوں۔‘‘ سلمان نے کہا۔
’’آپ کو کلینک کھولنے کی کیا ضرورت ہے۔ میں نے اپنی بیٹی کے لئے ایک بہترین کلینک کھولا ہے۔ بہترین عمارت تیار ہے۔ آپ دونوں وہاں اپنا کام شروع کریں۔ خوب پیسہ کمائو۔ بھاری فیس لو۔ لوگوں کی جیبوں سے پیسہ نکلوائو۔‘‘ سکندر بیگ نے کہہ کر قہقہہ لگایا اور سلمان اس کا منہ دیکھتا رہ گیا۔
کچھ دیر بعد سلمان نے ہاتھ میں پکڑے چائے کے کپ کو میز پر رکھا اور بولا۔ ’’اب میں اجازت چاہوں گا۔‘‘
’’کہاں جا رہے ہو؟‘‘ عمارہ نے پوچھا۔
’’ہوٹل!‘‘ سلمان نے جواب دیا۔
’’ارے تم ہوٹل نہیں جائو گے، اسی گھر میں رہو گے۔ یہ گھر تمہارا ہے۔‘‘ سکندر بیگ نے زور دے کر کہا۔
سلمان اپنی جگہ بیٹھا رہا اور دل ہی دل میں بولا۔ ’’یہ گھر میرا ہی ہے۔‘‘
٭ … ٭ … ٭
سلمان کا سامان ہوٹل سے اس گھر کے ایک کشادہ کمرے میں منتقل ہوگیا تھا۔ اس کا کمرہ اوپر کی منزل پر تھا۔ عمارہ ان کی اکلوتی بیٹی تھی۔ ان تین افراد کے علاوہ اس گھر میں ایک چوکیدار اور میاں بیوی ملازم تھے۔
سلمان نے اپنا سامان الماری میں رکھنے کے بعد ٹیرس میں کھڑے ہو کر دور تک جائزہ لیا اور سحر کا نمبر ملا کر فون کان کو لگا لیا۔ تھوڑی دیر کے بعد دوسری طرف سے سحر کی آواز آئی۔
’’نوید سے انتقام لینا چاہتی ہو یا اسے معاف کردیا ہے؟‘‘
’’جب تک اس سے بدلہ نہیں لوں گی چین سے نہیں بیٹھوں گی۔ مجھے اب پتا چلا ہے کہ اس نے کئی لڑکیوں کی زندگی برباد کی ہے۔‘‘
’’کیسے پتا چلا؟‘‘
’’اچانک مجھے میری دوست ملی تو اس نے باتوں باتوں میں اپنا غم بتاتے ہوئے نوید کے کرتوت بتا دیئے۔ وہ بھی اس کا شکار ہوئی ہے۔‘‘
’’تم تیار رہنا جلدی اس سے انتقام لو گی۔ ایک کام کرو اس کے منیجر سے رابطہ کرکے اسے یقین دلا دو کہ تم نوید کو چھوڑ کر اس سے دوستی کرنا چاہتی ہو اور اس پر ظاہر کرو کہ تمہارے پاس بہت پیسہ ہے اور تم اس کے ساتھ مل کر کاروبار کرنا چاہتی ہو۔‘‘
’’اس گھٹیا انسان کا کل فون آیا تھا۔ رانگ نمبر کے بہانے مجھ سے بات کرنے لگا اور پھر جب میں نے بتایاکہ میں کون ہوں تو ہنسنے لگا اور بولا کہ کمال ہے آپ سے نمبر مل گیا۔ پھر وہ مجھ سے بات کرنے کی کوشش کرنے لگا۔‘‘
’’اب تم خود اس سے بات کرو اور اسے کسی جگہ بلائو آگے میں بتاتا ہوں کہ کیا کرنا ہے۔‘‘ سلمان نے اتنا کہہ کر فون بند کردیا۔
شام کو سکندر بیگ اور عمارہ، سلمان کو وہ جگہ دکھانے کے لئے لے گئے جو سکندر بیگ نے اپنی بیٹی کے لئے تعمیر کرائی تھی تاکہ وہ اسے پرائیویٹ اسپتال یا کلینک کے طور پر استعمال کرسکے۔
سکندر بیگ اور اس کی بیوی چاہتے تھے کہ انہیں ایسا داماد ملے جو ان کے گھر میں رہے۔ وہ اپنی بیٹی عمارہ کو رخصت کرنے کی بجائے داماد کو اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے اور جب عمارہ نے سلمان کے بارے میں بتایا تھا تو دونوں خوش ہوگئے تھے۔
سلمان کے آگے پیچھے کوئی نہیں تھا۔ پھر وہ ڈاکٹر بھی تھا۔ سکندر بیگ اور اس کی بیوی کو اور کیا چاہئے تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ فوراً دونوں کی شادی ہو جائے۔ وہ کسی طرح بھی سلمان کو کھونا نہیں چاہتے تھے، اس لئے وہ اس کے ساتھ جلدی گھل مل گئے تھے۔
سلمان نے وہ عمارت اچھی طرح دیکھی اور خوب تعریف کی۔
وہاں سے سلمان کو عمارہ ڈنر پر باہر کسی اچھے سے ہوٹل میں لے گئی۔ کھانے کے دوران سلمان نے پوچھا۔ ’’تمہارے چچا، تایا، ماموں بھی ہیں کہ بس میری طرح تم لوگوں کی فیملی بھی اکیلی ہی ہے؟‘‘
’’سارا خاندان ہے لیکن میرے پپا کا میل جول اپنے بزنس پارٹنرز کے ساتھ زیادہ ہے، بلکہ میل جول ہے ہی ان کے ساتھ۔‘‘ عمارہ نے بتایا۔
’’اچھا… کبھی مجھے بھی ان سے ملوائو؟‘‘ سلمان مسکرایا۔
’’اب تم ہمارے گھر آگئے ہو تو سب سے مل لو گے۔‘‘
’’وہ تو ملوں گا ہی… ان کی تصویریں دکھا کر ان کا تعارف کرا دو۔‘‘ سلمان نے کہا۔
’’کل انکل انور کی بیٹی کی انکل ریاض کے بیٹے نوید کے ساتھ منگنی ہے۔ ہم سب جا رہے ہیں۔ تم بھی ساتھ چلنا۔ سب سے ملوا دوں گی۔‘‘ عمارہ نے کہا۔
’’میں وہاں کیا کروں گا۔ میرا کس طرح تعارف کرائو گی۔‘‘ سلمان ہنسا۔
’’یہ کہوں گی کہ یہ ہے میرا ہونے والا جیون ساتھی۔‘‘ عمارہ نے شرارت سے مسکرا کر کہا۔
’’ابھی ایسی کوئی بات مت کرنا۔ بس اتنا تعارف کرانا کہ ہم ایک ساتھ پڑھتے ہیں اور یہاں آیا تھا تو تم لوگ مجھے بھی ساتھ لے آئے۔ تم یہ بات مما اور پپا کو بھی بتا دینا۔‘‘ سلمان بولا۔
’’ٹھیک بتا دینے میں کیا حرج ہے؟‘‘
’’وقت پر بتائیں گے تو اچھا لگے گا، ورنہ سب کی نظریں مجھے دیکھتی رہیں گی۔‘‘ سلمان نے کہا۔
’’ہاں یہ بات تو ہے۔ ٹھیک ہے میں مما اور پپا کو بھی سمجھا دوں گی۔‘‘ عمارہ نے کہا اور دونوں کھانا کھانے لگے۔
٭ … ٭ … ٭
دوسرے دن سحر نے کمپنی منیجر برکت صدیقی کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا اور کچھ کلوز تصویریں بنا کر سلمان کو بھیج دیں۔ سلمان نے ان تصویروں کو دیکھا اور اپنے موبائل فون میں محفوظ کرلیں۔
سکندر بیگ نے سلمان کو خود تاکید کی تھی کہ وہ رات کو منگنی پر جانے کے لئے تیار رہے۔ پہلے تو سلمان نے انکار کیا، کچھ حیل و حجت سے کام لیا لیکن سکندر بیگ کا جب تقاضا بڑھا تو سلمان جانے کے لئے رضامند ہوگیا۔
سکندر بیگ اپنے آفس چلا گیا اور دوپہر کے بعد عمارہ اپنی ماں کے ساتھ شاپنگ کے لئے نکل گئی۔ اب اس گھر میں گیٹ پر چوکیدار اور دونوں میاں بیوی ملازم موجود تھے۔ گھر کا کام ختم کرنے کے بعد وہ دونوں میاں بیوی بھی چوکیدار کے پاس جا کر بیٹھ گئے اور باتوں میں مشغول ہوگئے۔
سلمان نے سوچا کہ وہ سکندر بیگ کے بیڈ روم کی تلاشی لے۔ شاید کوئی کام کی چیز ہاتھ لگ جائے۔ سلمان اپنے کمرے سے
اور سکندر بیگ کے بیڈ روم میں چلا گیا۔ اس نے احتیاط سے کمرے کی تلاشی لی۔ وہ کوئی ایسی خفیہ جگہ تلاش کرنے لگا جہاں سکندر بیگ کی اہم دستاویزات رکھی ہوں۔ اچھی طرح تلاش کرنے کے بعد بھی اسے کوئی ایسی جگہ نہیں ملی۔
وہ دوبارہ کمرے سے ملحق ڈریسنگ روم میں چلا گیا۔ وہاں پوری دیوار کے ساتھ لکڑی کی الماری بنی ہوئی تھی اور اس الماری کے سامنے دیوار پر قدآدم آئینہ لگا ہوا تھا جس کے ساتھ میک اَپ کا سامان قرینے سے رکھا ہوا تھا۔
سلمان اس آئینے کو غور سے دیکھنے لگا۔ پھر اس نے آئینے کو درمیان سے دبایا تو اسے لگا کہ جیسے وہ کھل گیا ہے۔ پھر سلمان نے اسے الماری کی طرح کھول لیا۔
سامنے لکڑی کی دیوار تھی۔ سلمان نے اسے بھی دبایا تو وہ بھی کھل گیا۔ سامنے چھوٹا سا کمرہ تھا جہاں اندھیرا تھا۔ اس راستے سے وہ چھوٹے کمرے میں جا سکتا تھا۔
سلمان سب کچھ اسی طرح چھوڑ کر بیڈ روم سے باہر نکلا اور کھڑکی سے باہر جھانکا۔ باہر گیٹ کے پاس وہ تینوں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔
سلمان تیزی سے بیڈ روم میں گیا اور اس راستے سے اس چھوٹے کمرے میں داخل ہوگیا۔ اس نے دیوار پر سوئچ بورڈ تلاش کیا اور جونہی بٹن دبانے لگا وہ یکدم رک گیا۔
اچانک اس کے دماغ میں خیال آیا کہ کہیں بٹن کے آن کرتے ہی الارم بجنا نہ شروع ہوجائے۔ سکندر بیگ نے کوئی تو حفاظتی نظام رکھا ہوگا۔ پھر اس نے اپنے موبائل فون کی روشنی سے پورے کمرے کا جائزہ لیا۔ سامنے لوہے کی الماری تھی جو مقفل تھی۔ سلمان نے اچھی طرح تلاشی لی لیکن اسے کہیں کوئی چابی نظر نہیں آئی۔
سلمان کو یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں کوئی اندر نہ آ جائے۔ چنانچہ اس نے سب کچھ اسی طرح بند کیا اور بیڈ روم سے باہر نکل کر سیدھا اوپر چلا گیا۔
اوپر جا کر اس نے ایک بار پھر باہر کا جائزہ لیا۔ وہ تینوں چائے پی چکے تھے اور اطمینان سے بیٹھے باتوں میں مشغول تھے۔ سلمان کی بے چینی نے اسے مجبور کیا کہ وہ واپس جائے اور اس الماری کو کھولنے کی کوشش کرے۔ اسے امید تھی کہ اسے وہاں سے ضرور کوئی کام کی چیز مل جائے گی۔ ایسا موقع شاید اسے دوبارہ نہ ملے۔
سلمان تیزی سے نیچے آیا اور بیڈروم میں چلا گیا۔ اب اسے چابیوں کی تلاش تھی۔ اس نے کمرے کی ایک ایک چیز دیکھنی شروع کردی لیکن اس احتیاط سے کہ کوئی چیز اپنی جگہ سے ہٹی ہوئی دکھائی نہ دے۔ جس سے شک ہو کہ کوئی اس کمرے میں آیا تھا۔
سب دیکھنے کے بعد اس نے الماری کا نیچے والا پٹ کھولا تو اندر جوتے رکھے ہوئے تھے۔ ایک نظر ڈال کر اس نے پٹ بند کیا اور جونہی وہ اس جگہ سے اٹھنے لگا اس نے دوبارہ پٹ کھولا اور سامنے پڑے لونگ شوز کو اٹھا لیا۔
سلمان نے پہلے ایک جوتے میں ہاتھ ڈالا اور پھر دوسرے میں… وہ چونکا، جب اس نے ہاتھ باہر نکالا تو اس کے ہاتھ میں چابیوں کا گچھا تھا۔ اس نے جوتے اسی جگہ رکھے اور تیزی سے ڈرائنگ روم میں چلا گیا اور آئینے کو ایک طرف ہٹا کر وہ اندر واپس آگیا۔ پھر ایک ایک کر کے چابی سیف کو لگا کر دیکھنے لگا۔ ایک چابی لگ گئی اور پٹ کھل گیا۔ اندر خانوں میں بہت سے کاغذات رکھے ہوئے تھے۔ اپنے موبائل فون کی روشنی میں وہ ایک ایک فائل دیکھنے لگا۔ پھر اس کی نظر ایک فائل پر پڑی۔ وہ کسی زمین کے کاغذات تھے۔ دوسری فائل میں اس گھر کے کاغذات دکھائی دیئے تو اس نے دونوں فائلیں نکال کر ایک طرف رکھ لیں۔ ان کے علاوہ اور کوئی فائل اس کے کام کی نہیں تھی۔
اس الماری میں جیولری بکس تھے اور کچھ نقدی کے علاوہ پرائز بانڈ بھی رکھے ہوئے تھے۔ اس نے الماری کا دروازہ لاک کیا اور دونوں فائلیں لے کر باہر آگیا۔ ابھی وہ چابیوں کا گچھا جوتے میں رکھ رہا تھا کہ اس کا موبائل فون بج اٹھا۔ سلمان نے دیکھا کہ عمارہ کا نمبر تھا۔ اس نے فون کان کو لگا لیا۔
’’کہاں ہو سلمان… میں تمہارے کمرے کے دروازے کو مسلسل نوک کر رہی ہوں۔ کیا سوئے ہوئے ہو۔‘‘
عمارہ کی بات سنتے ہی سلمان بولا۔ ’’تم میرے کمرے کے باہر کھڑی ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ عمارہ کی آواز آئی۔
سلمان نے سوچا کہ اس کا مطلب ہے وہ واپس آگئے۔ اس کمرے سے نکل کر اپنے کمرے تک جانا مشکل ہوسکتا تھا۔
’’میں تمہارے پاس آتا ہوں۔‘‘ سلمان نے جلدی سے دونوں فائلیں اپنی شرٹ کے نیچے لے کر اس کا آدھا حصہ پینٹ میں ٹھونس لیا اور کوٹ ٹھیک کرنے کے بعد اپنے فون کی بیل بند کی اور دروازے کے پاس جا کر تھوڑا سا دروازہ کھول کر باہر دیکھا۔ لائونج میں عمارہ کی مما اپنا فون کان سے لگائے کسی سے بات کرتے ہوئے ٹہل رہی تھی۔
اچانک عمارہ کی مما نے فون بند کیا اور تیزی سے کمرے کی طرف بڑھی۔ سلمان دروازے سے ہٹ گیا اور بیڈ کے نیچے چلا گیا۔ دروازہ کھلا اور سلمان نے عمارہ کی مما کے پائوں دیکھے، ان کا رخ باتھ روم کی طرف تھا۔ پھر باتھ روم کا دروازہ کھلا اور اندر جاتے ہی اس نے دروازہ بند کردیا۔
سلمان تیزی سے باہر نکلا اس نے تھوڑا سا دروازہ کھول کر باہر جھانکا، اسے کوئی دکھائی نہ دیا۔ وہ تیزی سے باہر نکلا اور ابھی چند قدم ہی آگے بڑھائے تھے کہ اچانک سامنے والے کمرے کا دروازہ کھلا اور عمارہ نمودار ہوئی۔ وہ سلمان کو دیکھتے ہی رک گئی اور حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’تم… یہاں…؟‘‘
’’میں تمہیں دیکھ رہا تھا۔‘‘ سلمان نے کہا۔
عمارہ نے ایک حیران نظر اس پر ڈالی اور بولی۔ ’’اچھا رکو میں تمہارے لئے شرٹ لے کر آئی تھی، وہ دکھاتی ہوں۔‘‘
عمارہ واپس کمرے میں چلی گئی۔ سلمان ایک طرف بیٹھ گیا۔ اس کی شرٹ کے نیچے فائلیں تھیں اس لئے بیٹھنا آسان نہیں تھا وہ اٹھ کر پھر کھڑا ہوگیا۔ اسی اثنا میں عمارہ ہاتھ میں شاپنگ بیگ لئے باہر آگئی۔
’’یہ لو تمہارے لئے لائی ہوں، رات کو پہن کر جانا۔‘‘
’’تم نے کیوں تکلف کیا۔‘‘
’’جب کوئی تحفہ دے تو ایسا نہیں کہتے بلکہ شکریہ ادا کرتے ہیں۔‘‘
’’اوکے… تمہارا بہت شکریہ۔‘‘ سلمان مسکرایا۔ ’’اگر مجھے اجازت ہو تو میں اپنے کمرے میں جائوں۔‘‘
’’جیسی تمہاری مرضی۔‘‘ عمارہ نے کہا۔
سلمان سیڑھیوں کی طرف چلا گیا۔ ابھی وہ آدھی سیڑھیاں چڑھا تھا کہ اچانک اسے عقب میں عمارہ کی ماں روبینہ کی آواز سنائی دی۔ ’’مجھے لگتا ہے کہ جیسے کوئی میرے کمرے میں آیا تھا۔ کئی چیزیں اپنی جگہ پر نہیں تھیں۔‘‘ روبینہ کی آواز میں تشویش تھی۔ سلمان کے قدم آہستہ ہوگئے تھے۔
عمارہ بولی۔ ’’آپ کے کمرے میں کون جا سکتا ہے آپ کو ایسے ہی لگ رہا ہوگا۔‘‘
’’تم جانتی ہو کہ ہر چیز کو اپنی جگہ رکھنے کا میرا اپنا انداز ہے۔ مجھے کئی چیزیں اپنی جگہ سے ہٹی ہوئی دکھائی دی ہیں۔‘‘
’’بشیراں نے صفائی کرتے ہوئے ایسا کردیا ہوگا۔‘‘ عمارہ لاپروائی سے کہہ کر اپنے کمرے میں چلی گئی لیکن روبینہ کی تشویش اپنی جگہ قائم تھی۔ وہ جانتی تھی کہ بشیراں اس کی چیزوں کو بڑی احتیاط سے رکھتی ہے۔
٭ … ٭ … ٭
سلمان نے اپنے کمرے میں جا کر فائلیں نکال کر دیکھیں۔ ایک فائل میں اس گھر کی رجسٹری تھی، جبکہ دوسری فائل کسی زمین کی تھی اور وہ رجسٹری سکندر بیگ کے نام پر تھی۔ سلمان نے دونوں فائلوں کو کمرے میں ایسی جگہ پر چھپا دیا جہاں کوئی آسانی سے تلاش نہ کرسکے۔
رات کو وہ سب انور حیات کی عالیشان کوٹھی میں چلے گئے۔ اس کی بیٹی ردا کی منگنی ریاض احمد کے آوارہ بیٹے نوید کے ساتھ ہو رہی تھی۔ سب وہاں موجود تھے۔ سلمان نے دیکھا کہ نوید بھی وہاں موجود ہے۔ اس کے چہرے پر عجیب تمکنت سی تھی۔ اس کی نظریں وہاں موجود لڑکیوں کی طرف بار بار اٹھ رہی تھیں۔
پھر سلمان کی نظر برکت صدیقی پر چلی گئی۔ وہ گول مول سا شخص تھا، اس نے بہترین سوٹ زیب تن کر رکھا تھا۔ صاف پتا چلتا تھا کہ اس نے سر پر وگ رکھی ہوئی ہے۔
کسی بہانے خواتین کے پاس جا کر باتیں کرنے کی کوشش میں مصروف تھا۔
ریاض احمد اور انور حیات کے علاوہ ان کی بیویوں کی نظریں بھی سلمان پر تھیں۔ ان کے ذہنوں میں ایک سوال گردش کر رہا تھا۔
’’یہ نوجوان کون ہے جو سکندر حیات کی فیملی کے ساتھ آیا ہے۔‘‘
سکندر حیات نے سب سے سلمان کا تعارف یہ کہہ کر کرایا تھا۔ ’’یہ سلمان ہے۔ عمارہ کے ساتھ پڑھتا تھا اور ڈاکٹر ہے۔ اپنا کلینک اس شہر میں کھولنا چاہتا تھا اس لئے یہاں آیا ہوا ہے۔ یہ ہمارے گھر ٹھہرا ہوا تھا اس لئے ہم اسے اپنے ساتھ لے آئے۔‘‘
’’یہ تو بہت اچھا کیا۔‘‘ تقریباً سبھی نے خوشی کا اظہار کیا۔
پھر جیسے ہی سلمان اور عمارہ اِدھر اُدھر ہوئے سکندر بیگ نے سب کو رازداری سے بتا دیا۔ ’’دراصل سلمان اور عمارہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔ ہمیں بھی لڑکا پسند ہے۔ نہ کوئی آگے نہ پیچھے، پھر ڈاکٹر بھی ہے۔ دونوں ساری زندگی کمائیں گے۔‘‘ سکندر بیگ یہ کہہ کر ہنسا۔
اس کا ساتھ سب نے دیا، سبھی خوش ہوئے کہ عمارہ کو اچھا لڑکا مل گیا ہے۔
اس کے بعد منگنی کی تقریب شروع ہوگئی۔ سب کی توجہ لڑکی اور لڑکے کی طرف چلی گئی۔ سلمان کے کہنے پر سحر نے برکت صدیقی کو فون کیا اور اسے بتایا کہ وہ قریب ہی موجود ہے اس لئے اس سے ملنا چاہتی ہے۔
برکت صدیقی نے بھی دیکھا کہ وہ آسانی سے یہاں سے نکل سکتا ہے، چنانچہ وہ اپنی بیگم سے نظر بچا کر فوراً کھسک گیا۔
سحر زیادہ دور نہیں تھی۔ برکت صدیقی فوراً مطلوبہ جگہ پہنچ گیا۔ وہ اتنا خوش تھا کہ جیسے اس کی لاٹری نکل آئی ہو۔
’’مجھے پتا تھا کہ آج نوید کی منگنی ہو رہی ہے۔ مجھے یقین تھا کہ آپ یہاں ضرور موجود ہوں گے۔ نوید نے مجھے دھوکا دیا ہے۔ اسی لئے میں نے فیصلہ کیا ہے میں تم کو اپنا لوں۔‘‘
’’مجھے!‘‘ ایک دم سے برکت صدیقی چونکا۔ ’’تم واقعی مجھے اپنانا چاہتی ہو؟‘‘
’’کیا تم ایسا نہیں چاہتے؟‘‘ سحر نے پوچھا۔
’’میں بالکل ایسا چاہتا ہوں لیکن شادی کی بجائے اگر ہم دوستی رکھیں تو کیسا ہے؟‘‘ برکت صدیقی اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔
’’تم بھی مجھ سے شادی نہیں کرو گے؟‘‘ سحر نے سوال کیا۔
’’میرا مطلب ہے کہ چند ماہ کے بعد ہم شادی کرلیں گے۔‘‘ برکت صدیقی نے تسلی دینے کی کوشش کی۔
’’کیوں نہ ہم ابھی شادی کر لیں۔ میرے باپ نے ساری جائداد اپنی اولاد میں تقسیم کردی ہے۔ میرے حصے میں تقریباً ساڑھے تین کروڑ روپے کی پراپرٹی اور کیش آیا ہے۔ میں بزنس کرنا چاہتی ہوں۔ میرے پاس پیسہ ہے، آپ کے پاس تجربہ ہے۔ ہم دونوں مل کر بزنس کرتے ہیں۔ میں ایک دن نوید کو یہ بتادوں گی کہ میری کیا حیثیت ہے۔‘‘
ساڑھے تین کروڑ روپے کا سن کر برکت صدیقی سحرزدہ رہ گیا۔ ریاض احمد، انور حیات اور سکندر بیگ جیسے جیسے پیسے والے ہوتے گئے ان کے اندر تکبر اور غرور بڑھتا گیا تھا۔ ریاض احمد اور انور حیات کے بیٹے کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے اور کئی بار وہ اس کی بے عزتی کر چکے تھے۔
برکت صدیقی ان کے ساتھ کام تو کر رہا تھا لیکن اس مجبوری کے تحت کہ اس کی تنخواہ اچھی تھی اور پھر اس آفس میں کام کرنے والی لڑکیوں کے ساتھ وہ آسانی سے عشق بھی جھاڑ لیتا تھا۔
اب اس کے سامنے ایک سنہری موقع تھا۔ سحر اس سے شادی کرنا چاہتی تھی اور کاروبار کے لئے سرمایہ بھی مہیا کر رہی تھی۔ اس نے سوچا کہ اگر وہ سحر سے خفیہ شادی کرلے تو وہ اس کے پیسے سے کاروبار کر کے وقت آنے پر اسے طلاق دے کر جان بھی چھڑا سکتا ہے۔
’’میرے پاس کاروبار کے لئے ایک بہترین پلان ہے۔ ہم چھوٹے پیمانے پر گارمنٹس کا کاروبار کرکے کم ریٹس پر ان کی پارٹیوں کو مال دے سکتے ہیں۔‘‘ برکت صدیقی نے کہا۔
سحر خوش ہوگئی۔ ’’یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ تو کیا ہم کل شادی کرلیں؟‘‘
’’شادی کی اتنی کیا جلدی ہے۔‘‘
’’پھر آپ ایسا کریں کمپنی کے تمام اہم ڈاکومنٹس اپنے قبضے میں کرلیں تاکہ ہم جلد از جلد اپنا کاروبار شروع کرسکیں۔‘‘ سحر نے کہا۔
’’کمپنی کے تمام راز میں چٹکی بجا کر اپنی جیب میں ڈال سکتا ہوں۔ تم کاروبار کی تیاری کرو بس۔‘‘ برکت صدیقی نے خوش ہو کر کہا۔
’’میری تو تیاری ہے۔ پیسہ میرے اکائونٹ میں موجود ہے۔ جتنی دیر کرو گے تم ہی کرو گے۔‘‘ سحر نے کہا۔
’’میری طرف سے بھی کوئی دیر نہیں ہے۔‘‘ برکت صدیقی نے کہتے ہوئے سحر کا ہاتھ پکڑ لیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی سحر مسکراتی رہی۔
٭ … ٭ … ٭
رات گئے منگنی کی تقریب ختم ہوئی۔ رخصت ہوتے ہوئے ریاض احمد نے سکندر بیگ سے کہا۔ ’’کل اس زمین کے کاغذات لیتے آنا۔ یاد ہے نا، کل ہم نے بقایا پیسے لے کر وہ زمین خریدار کے نام کروانی ہے۔‘‘ ریاض احمد بولا۔
’’مجھے یاد ہے۔‘‘ سکندر بیگ نے کہا اور وہ سب گاڑی میں بیٹھ گئے۔
سلمان دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ کس زمین کی بات کر رہے ہیں۔ اس نے سوچا کہ اس کا مطلب ہے کہ اس نے بروقت کام کیا تھا۔ اس نے تو کچھ اور سوچا تھا لیکن اب اسے کچھ اور سوچنے کی ضرورت نہیں تھی۔
وہ سب گھر پہنچ گئے اور سلمان اپنے کمرے میں چلا گیا۔
٭ … ٭ … ٭
ناشتے سے فارغ ہو کر سکندر بیگ اپنے اس خفیہ چھوٹے کمرے میں چلا گیا جہاں اس نے اپنے اہم کاغذات رکھے ہوئے تھے۔ سلمان کا خیال بالکل ٹھیک تھا۔ لائٹ کے بٹن کے ساتھ الارم لگا ہوا تھا۔ ادھر لائٹ کا بٹن دبتا اور ادھر کمرہ روشن ہونے کے ساتھ الارم بھی بج جاتا۔ سکندر بیگ نے ایک طرف لگا بٹن دبا کر کمرہ روشن کیا تھا۔
وہ آدھے گھنٹے سے کاغذات الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا لیکن اسے زمین کے کاغذات نہیں مل رہے تھے۔ اس کا دھیان کیوں کہ زمین کے کاغذات پر تھا اس لئے اس کی توجہ اس جانب نہیں گئی تھی کہ اس کے گھر کے کاغذات بھی غائب ہیں۔
اس نے پوری تسلی سے ایک ایک فائل دیکھی، ایک ایک خانہ چھانا، پورا کمرہ دیکھ لیا لیکن وہ فائل کہیں موجود نہیں تھی۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ فائل اس نے خود یہاں رکھی تھی۔
وہ اس کمرے سے باہر آگیا۔ روبینہ ابھی کمرے میں آئی تھی۔ سکندر حیات کا افسردہ چہرہ دیکھ کر اس نے پوچھا۔ ’’کیا ہوا؟‘‘
’’ایک اہم فائل نہیں مل رہی ہے۔‘‘
’’کون سی فائل؟‘‘
’’اس زمین کی فائل جس کا ہم نے ایک ماہ پہلے سودا کیا تھا اور آج ہم نے وہ زمین خریدار کے نام منتقل کرانی ہے۔‘‘ سکندر بیگ سوچ میں مستغرق تھا۔
’’آپ کو یقین ہے کہ وہ فائل آپ کے پاس ہی تھی۔‘‘ روبینہ نے اس کی طرف دیکھا۔
’’وہ فائل میرے پاس ہی تھی۔ پتا نہیں کہاں چلی گئی۔ اس خفیہ جگہ کا تو عمارہ کو بھی نہیں پتا۔‘‘ سکندر بیگ کی تشویش بڑھتی جا رہی تھی۔ روبینہ بھی سوچ میں پڑ گئی تھی۔ کل اسے شک ہوا تھا کہ کوئی اس کے کمرے میں آیا ہے۔ روبینہ نے اس کا تذکرہ فی الحال سکندر بیگ سے نہیں کیا۔
اسی وقت ریاض احمد کا فون آگیا۔ ’’کہاں رہ گئے ہو۔ ابھی تک نہیں آئے۔ ہم تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ (جاری ہے)