Ankhien Nam Ho Jate Hain | Teen Auratien Teen Kahaniyan
میں نے متوسط گھرانے میں جنم لیا ،بظاہر دال روٹی… دونوں وقتوں پوری تھی لیکن زمانے کی تیز رفتاری یا پھر ہم پاکستانیوں کی بدنصیبی ہے کہ ہمارے جیسے ہزاروں خاندانوں کو غربت کی لکیر سے بھی نیچے پہنچا دیا۔
زمانہ بدل گیا ،سینکڑوں کی تنخواہیں ہزاروں میں اور ہزاروں کی لاکھوں پر چلی گئیں لیکن والد صاحب کی جو تنخواہ تھی وہ برسوں گزرنے کے بعد بھی اتنی ہی رہی اور اس میں ایک پائی کا بھی اضافہ نہ ہو سکا۔
جب قدریں بدلتی ہیں سب سے زیادہ متوسط طبقہ پستا ہے۔ وہ شریف اور سفید پوش جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے وہی غیرت اور لحاظ و مروت کے مارے …پس جاتے ہیں والدصاحب بھی انہیں لوگوں میں سے تھے۔
انکی وہ معمولی آمدنی جو ہمارے بھرے پرے کنبے کیلئے کافی تھی جب مہنگائی کے عفریت نے معاشرے کو جکڑا تو امت غریب اور آمدنی قلیل ہو گئی۔ گھر کی دال روٹی میں بھی قلت در آئی۔ تبھی میری والدہ کی ہمت کام آئی۔
والدہ نے ایف اے تک تعلیم پائی تھی انہوں نے چھوٹے بچوں کی ذمہ داریوں کے ہوتے بطور پرائیویٹ طالبہ بی اے اور پھر بی ایڈ کیا اور ملازمت کے لئے بھاگ دوڑ کی تو اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور ایک اسکول میں ان کو نوکری مل گئی۔
امی جان اگر ہمت سے کام نہ لیتیں تو اس پُرآشوب دور میں کب کے بھوکے مر گئے ہوتے یا پھر اپنی انا کو مار کر ،رشتہ داروں سے مانگ کر کھاتے مگر رشتہ دار بھی کب زیادہ دن تک ساتھ دیتے ہیں۔ بلا تامل کہتی ہوں کہ آج ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے ہماری ماں کا دیا ہوا ہے۔
والد صاحب نے ہم کو کچھ نہیں دیا ایسی بات نہیں لیکن وہ طبعاً کچھ سست واقع ہوئے تھے عمر بھر ایک معمولی ملازمت پر قناعت کئے رہے اور کسی دوسری اچھی نوکری کے لئے ہاتھ پائوں نہ مار سکے۔اور نہ ہی آمدنی بڑھانے پر توجہ دی۔
امی جان جب ملازمت کو جا رہی تھیں اور ملازمت بھی نئی نئی ملی تھی کہ میں پیدا ہو گئی ۔تینوں بہنیں اسکول جاتی تھیں بھائی چھوٹا تھا، امی اسکو ساتھ لے جاتی تھیں میری پرورش مسئلہ بن گئی اسی آڑے وقت میں نانی اماں کام آئیں ورنہ تو امی جان کو ملازمت چھوڑنی پڑتی۔ انہوں نے مجھے پالنے کا ذمہ لے لیا اور میں ایک ماہ کی بچی نانی کے گھر پہنچا دی گئی۔ پالنے میں پڑے ہوئے بچے کو کیا خبر اسکے ماں باپ کون ہیں اور کون اس کی پرورش کر رہا ہے۔ ننھیال خوشحال، تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے لوگ تھے، گھر میں ماحول پرسکون تھا، مجھے ماموں نانی اور خالائوں کا بے حد پیار ملا، پالنے سے بچپن اور وہ لڑکپن کی عمر کو پہنچ گئی۔ نانی اور خالہ سے ا تنی مانوس ہو گئی تھی کہ پھر ان ہی کے پاس رہ گئی۔
جب باشعور ہو گئی یہ ضرور سوچتی تھی کہ والدین کا گھر اپنا گھر ہوتا ہے۔ آخر کبھی تووہاں جانا ہی ہو گا۔ میں بہت کم والدین کے گھر جاتی تھی۔ کبھی جب امی کو زیادہ چھٹیاں ملتیں وہ نانی کے گھر فون کرتیں تب میں بڑی امی کے ساتھ والدین کے گھر رہنے چلی جاتی تھی۔ نانی کو میں بڑی امی کہا کرتی تھی۔
والدین کے گھر کا ماحول بہت مختلف تھا۔ جبکہ میں ایک پیارے بھرے اور پرسکون ماحول کی پروردہ تھی ۔ وہاں کے گھر کی فضا میں میرے بھائی بہنوں کی لڑائیاں جھگڑے اور چیخ و پکار تھی جس کی میں عادی نہ تھی تبھی میں وہاں جا کر خوف زدہ ہو جاتی تھی۔
میرا بھائی اشعر اکلوتا ہونے کی وجہ سے لاڈلا تھا ماں باپ کے بے حد پیار نے اسے بگاڑ دیا۔ وہ ہٹ دھرم اور ضدی ہو گیا۔ پڑھنے میں دلچسپی نہ لیتا، ہر قسم کی پابندی اسے کھٹکتی تھی ۔والدین اسکی کوئی خواہش پوری نہ کرتے تو چیزیں پٹختا توڑ پھوڑ کرتا تھا۔ غرض اسکی ضدی طبیعت سے خوف آنے لگا کہ وہ جو چاہتا تھا کر گزرتا تھا۔بڑی بہنیں بھی اس سے ڈرتی تھیں۔
والدہ ملازمت کے سبب گھر کی طرف پوری توجہ نہ دے سکتی تھیں۔ بڑی بہن کو اسی وجہ سے اسکول سے ہٹا لیا کہ وہ گھر سنبھالتی تھی۔ والد لاپرواہ مزاج کے مالک میری بہنیں پڑھائی سے زیادہ ٹی وی اور فیشن کی طرف متوجہ ہو گئیں۔ پہلے وہ مجھ سے پیار سے ملتیں پھر ان کا رویہ میرے ساتھ بھی ناقابل فہم اور بہت عجیب ہو گیا۔
بچپن سے جہاں میں رہ رہی تھی مجھے ہر طرح کا آرام تھا۔ نانی نے تمیز اور طریقے کی ہر بات سکھائی جبکہ گالم گلوچ اور لڑنا جھگڑنا بہنوں کی عادت تھی ماں باپ کے گھر جانے کی آرزو ختم ہو گئی کیونکہ ان کے گھریلو ماحول سے مجھے نفرت ہو گئی تھی۔
ماموں کو میری پڑھائی کی فکر رہتی تھی اور میں ان کے پاس دل لگا کر پڑھتی تھی۔ اسکول میں اچھی طالبہ تھی اور امتحان میں شاندار نمبروں سے پاس ہوتی تھی۔ یوں میں نے ایف اے کر لیا۔
ماموں کی شادی کے دو ماہ بعد رضائے الٰہی سے نانی وفات پا گئیں۔ میرے لئے تو وہ ماں کا درجہ رکھتی تھیں ان دنوں بہت ملول تھی کہ ایک روز ممانی نے کسی بات پر ڈانٹ دیا۔ ڈانٹ ڈپٹ کی عادی نہ تھی پس دل بری طرح ٹوٹ گیا۔
جب خودداری پر چوٹ لگی تو والدین کی اہمیت کا احساس ہوا تبھی اصرار کر کے اپنے گھر آ گئی ۔گرچہ یہاں رہن سہن کا فرق تھا اور گھٹے ہوئے ماحول سے وحشت ہوتی لیکن میرے اندر جس کشمکش نے سر اٹھایا تھا وہ ختم ہو گئی۔
ماحول جو بھی تھا اب مجھے اسی گھر میں رہنا تھا ۔سبھی کچھ میرے لئے اجنبی تھا سوائے امی جان کے اور امی جان مجھ سے والہانہ محبت کرتی تھیں مگر میری بہنیں مجھ سے یوں پیش آتیں جیسے میں دوسرے خاندان کی ہوں۔
ددھیال سے واقف نہ تھی بہت کم لوگوں کو پہچانتی تھی ۔میرا واسطہ اب ان سے پڑا تھا کیونکہ وہ کبھی ہماری ننھیال نہ آتے ۔پہلی بار پھوپھی عشرت ملیں تو پیار سے گلے لگا لیا ۔ اچھی لگیں ان کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ اچھی سوچ رکھتی ہیں۔
اب اپنوں نے ہمارے گھر زیادہ آنا جانا شروع کر دیا ان کو مجھ سے دلچسپی ہو گئی ،بار بار میرے سامنے اپنے بیٹے کا تذکرہ کرتیں اور تعریف کرتیں کہ افروز بہت اچھا لڑکا ہے وہ ٹریننگ کر رہا ہے جب ٹریننگ مکمل کر لے گا تو تم سے ملنے آئے گا تم دیکھو گی تو حیران رہ جائو گی، کس قدر شائستہ اور تعلیم یافتہ ہے وہ۔
میں اتنی بچی نہ تھی کہ ان باتوں کا مطلب نہ سمجھتی یقینا وہ مجھے اپنی بہو کے روپ میں دیکھنا چاہتی تھیں۔
افروز واقعی نہایت خوبرو جوان تھا وہ مہذب اور شائستہ بھی تھا اور اس کا مستقبل روشن تھا لیکن ایک کمی اس کی شخصیت میں یہ تھی کہ طبیعت میں جلد بازی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، فیصلے کرنے میں سوچ و بچار سے کام نہ لیتا تھا اسی جلد بازی کی عادت نے بالاخر اسکی خوشیوں کا کام تمام کیا۔
خاندان میں ہر سبھی کی آرزو تھی کہ وہ افروز کو اپنا دامادبنا لیں لیکن پھوپھو کی نظرانتخاب مجھ پر پڑی ،مجھے بھی فخر سا محسوس ہوا۔ اتنی لڑکیاں چھوڑ کر انہوں نے مجھے پسند کر لیا ہے۔ وہ بیٹے کے انتظار میں تھیں کہ افروز آئے تو ابو امی سے میرا رشتہ مانگ لیں۔
جب افروز ٹریننگ مکمل کر کے لوٹا ماں نے میرا نام اس کے سامنے رکھ دیا ۔تبھی وہ بولا۔ امی جان میں نے عالیہ کو کبھی شریک حیات بنانے کا نہیں سوچا کیونکہ وہ ہمارے خاندان سے دور پلی بڑھی ہے ،معلوم نہیں کس مزاج اور کس عادات کی مالک ہے۔
بچپن میں ایک دو بار دیکھا تھا میں اسکے ساتھ شادی کا رسک نہیں لے سکتا۔ آپ میری شادی بڑی خالہ کی بیٹی لائبہ سے کرا دیں۔ لائبہ مجھے پسند ہے۔
بڑی پھوپھو کا گھر چھوٹی پھوپھو کے مکان سے قریب تھا اور ان کا ہر وقت کا آنا جانا رہتا تھا۔ افروز اور لائبہ بچپن میں ساتھ کھیلے تھے اور ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے تھے۔
لائبہ گرچہ پھوپھو کو پسند نہ تھی مگر بھانجی تھی وہ بیٹے کی فرمائش سن کر خاموش ہو گئیں۔ وہ تو بیٹے کی محبت سے مجبور تھیں اور ایسی مجبوری پر بڑی پھوپھو کی باچھیں کھل گئی تھیں۔
افروز کا رشتہ گرچہ لائبہ سے ہو گیا لیکن وہ ہمارے گھر بھی متواتر آنے لگا۔ مجھ سے خوب باتیں کرتا۔میرا زیادہ دھیان پڑھائی کی طرف تھا پھر بھی اسکا دل رکھنے کو افروز سے بات چیت کر لیا کرتی تھی۔ اسکا ہر روز آنا اور ہم سے گھل مل جانا،عجیب سا سلسلہ تھا جو کبھی کبھی مجھے الجھا دیتا تھا۔
میں اسکے بارے میں سوچنے لگی مگر اس کی چاہت کو دل کا روگ نہ بنایا۔ جانتی تھی کہ لائبہ سے اس کا رشتہ طے ہے۔
میرا لہجہ، انداز ،رکھ رکھائو اور بہنوں سے مختلف تھا تبھی خاندان والوں کی نظریں مجھ پر پڑ جاتی تھیں۔ وہ میری بہنوں کے اطوار پسند نہ کرتے تھے ان کے رشتوں کے لئے دلچسپی نہ رکھتے مگر سبھی مجھے پسند کرتے تھے۔بہنوں نے اس فرق کو محسوس کیا ان کے رویوں میں بھی مثبت تبدیلیاں آنے لگیں وہ مجھ سے متاثر ہوئیں۔ خود کو میری طرح ڈھال رہی تھیں۔ اس بات کی مجھے بہت خوشی تھی۔
ایک روز عجیب خبر ملی کہ افروز نے لائبہ سے شادی سے انکار کر دیا ہے۔ اسکی کچھ باتیں نازک مزاج کو ناگوار گزریں تو دونوں میں تو تو میں میں ہو گئی ۔افروز ایک جلد باز گھر آ کر ماں سے منگنی توڑنے کو اصرار کرنے لگا۔
ماں بیٹے کی ضد سے مجبور ہو گئی، سگی بہن کو جواب دینا پڑا جس کی وجہ سے دونوں بہنیں ایک دوسرے سے دور ہو گئیں ۔
افروز نے لائبہ کو جلانے کی خاطر اسکی چچا زاد سے ناتا جوڑ لیا جس کا نام شیریں تھا ۔
شیریں کا گھر بھی لائبہ کے گھر سے قریب تھا۔اب وہ ماں سے مصر ہوا کہ شیریں کے والدین سے رشتہ مانگو۔ماں بیچاری دم بخود کیا کرے جب بیٹے نے کسی طور چین نہ لینے دیا تو ماں ان کے در پر گئی۔
شیریں کے والدین کو علم تھا کہ ان کی بیٹی افروز کو پسند کرتی ہے، انہوں نے رشتہ دینے میں دیر نہ کی یوں سارے خاندان میں ہا ہا کار مچ گئی کہ عجیب ہوا ہے جو لائبہ کے چچا اور چچی نے اسی لڑکے کو داماد قبول کیا ہے جس سے انکی بھتیجی کی منگنی ٹوٹی ہے۔
خیر بیٹی سے پیار کرنے والوں کو تو اپنی بیٹی کی خوشی عزیز تھی۔ ا ن کو کب کسی کی پرواہ تھی یوں بھی لائبہ کی امی سے اسکی چچی کے تعلقات ٹھیک نہ تھے اور کشیدگی میں اضافہ ہو گیا۔
یہ افروز کا ایک وقتی اور جذباتی فیصلہ تھا اس نے جذبات میں آ کر ماں سے کہا تھا کہ وہ لائبہ سے منگنی توڑنا چاہتا ہے جب غصہ ٹھنڈا ہو اپنے کئے پر پچھتاوا ہوا لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔ وہ دل سے شیریں کو نہ چاہتا تھا، لائبہ کو جلانے کو یہ سب کچھ کیا تھا۔
ہماری بڑی پھپھو کو تو اس قدر صدمہ ہوا کہ وہ بیمار ہو کر ہسپتال میں داخل ہو گئیں لیکن چھوٹی پھوپھو بیچاری مجبور تھیں وہ بہن کی دلجوئی بھی نہ کر سکتی تھیں۔
شیریں منگنی کے بعد بہت خوش تھی وہ مستقبل کے سنہرے خواب بننے لگی ۔اسے خوش دیکھ کر افروز کو اپنے اندر شرمندگی اور ملال محسوس ہوتا تھا کہ اس نے کیا کر دیا۔ اب شیریں سے منگنی توڑنے کا اقدام اسے سب کی نظروں میں گرا دیتا ۔لہٰذا کبھی کبھی ماں سے اپنے دلی جذبات کا اظہار کر بیٹھتا تھا کہ شیریں سے منگنی کر کے اس سے بھول ہو گئی ہے۔دراصل تو اسے لائبہ ہی پسند ہے۔
یہ سن کر ماں کا دل دھک سے رہ جاتا جس نے سگی بہن کا دل توڑا تھا ۔خاندان والے افروز کی ماں کو زیادہ منہ نہ لگاتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ جو خاتون سگی بہن کو دھتکار سکتی ہے بھلا وہ کسی اور سے کیا نباہے گی۔اس بات کا بھی پھوپھو کو دکھ لگتا مگر کیا کرتیں ،صبر ہی کرنا تھا۔
صبر تو وہ برسوں سے کر رہی تھیں۔ افروز ابھی پانچ برس کا تھا کہ اسکے والد کا انتقال ہو گیا تب ہی سے پھوپھو نے صبر سے کام لینا شروع کیا ۔بہت محنت کر کے بیٹے کو پڑھا لکھا کر آفیسر بنایا تھا۔
جب برے دن خاندان والے پہچانتے نہ تھے بیٹا افسر لگ گیا، ہر کسی نے رشتہ داری جتلانی شروع کر دی۔ اس باعث اب پھوپھو بھی ان سے بددل ہو گئی تھیں اور افروز ہی ان کے لئے سب کچھ تھا وہ اکثر امی سے کہتی تھیں کہ غربت میں ہم ماں بیٹا غیر تھے۔ اب سب کو ہم اپنے اور اچھے لگنے لگے ہیں، دیکھو تو یہ زمانہ بھی کس قدر عجیب ہے۔
بیوگی کے دکھ سہتے سہتے چھوٹی پھوپھو بہت حساس ہو گئی تھیں۔ وہ لوگوں کے طعنوں، تشنوں سے گھبراتی تھیں۔ افروز کا تبادلہ ہو گیا تو وہ دوسرے شہر چلا گیا اور ماں کو خاندان بھر کی باتیں سننے کے لئے تنہا چھوڑ گیا۔
لائبہ منگنی کے ٹوٹ جانے سے بہت اپ سیٹ تھی اسکی حالت یہ ہو گئی کہ کھانا پینا ترک کیا اور ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گئی ۔ ایک روز کسی تقریب میں لائبہ کی ماں سے سامنا ہو گیا تو اس نے بہن سے بڑے دکھ کے ساتھ شکوہ کیا ،کہ تم کو میری بیٹی کے ساتھ کیا دشمنی تھی ۔پہلے اسکا چاہ سے رشتہ مانگا پھر اسے موت کے منہ میں پہنچا دیا ذرا دیکھو تو سہی اسکی حالت چند دنوں کی مہمان لگتی ہے۔
یہ بات انہوں نے اس طرح بھری تقریب میں کہی کہ چھوٹی بہن پانی پانی ہو گئی، کہ تمام عورتیں جو وہاں تھیں، طرح طرح کی باتیں کرنے لگیں اور چھوٹی پھوپھو کو موردِ الزام ٹھہرانے لگیں۔ عشرت پھوپھو کو پسینہ آ گیا جیسے گھڑوں پانی پڑ گیا ہو۔
تقریب سے لوٹیں تو بہت مضطرب اور مضمحل تھیں۔ اس قدر دکھی ہوئی اچانک دل کا دورہ پڑ گیا اور خالق سے جا ملیں۔
افروز چھٹی لے کر گھر آ رہا تھا کہ رستے میں ایک رشتہ دار ملا اس نے بتایا کہ تمہاری والدہ فوت ہو گئی ہیں۔ایک تقریب میں گئی تھیں،وہاں لائبہ سے تمہاری منگنی ٹوٹنے کے سبب عورتوں نے ان کو خوب پریشان کیا،گھر آئیں تو غم سے دل کا دورہ پڑ گیا اور وفات ہو گئی۔
یہ قصہ سن کر افروز کی حالت غیر ہو گئی کہ سگی بہن نے بھی پریشان کیا اتنا کہ انہوں نے باتیں دل پر لے لیں۔ پس وہ ہراساں افتاں و خیزاں گھر پہنچا مگر جنازہ رہ گیا تھا جس کو روتے سسکتے کندھا دیا اور واپس لوٹا تو گھر بھائیں بھائیں کرتا ملا۔ اب گھر میں کیا باقی رہ گیا تھا۔
بھائی تھا اور نہ کوئی بہن جس کے گلے لگ کر دو آنسو بہاتا ایک پڑوسن تعزیت کو آئی ایک اور تیلی لگا کر گئی کہ افروز بیٹا تم مرتے دم تمہاری ماں نے کہا تھا شیریں سے ہرگز شادی نہ کرنا۔ ورنہ میری روح کو تکلیف پہنچے گی۔
وہ خود شیریں سے اوب چکا تھا اسکے فون آتے تو جی نہ کرتا کہ بات کرے۔ اسے تو جیسے بہانہ مل گیا اس نے مرحومہ ماں کے فرمان کو پورا کرنے کے لئے شیریں سے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا اور یہ فیصلہ ترنت اسکو فون کر کے سنا بھی دیا۔
ان دنوں افروز کی عجیب حالت تھی۔ دفتر سے مزید چھٹی لے لی۔ سارا دن بھوکا پیاسا گھر میں پڑا رہتا کوئی اسکو سمجھانے والا نہ تھا، کوئی سہارا دینے والا نہ تھا امی بھی تعزیت کو گئیں اسکا یہ حال دیکھ کر تو منت سماجت کر کے گھر لے آئیں کہ نند کا بیٹا تھا وہ نند جس نے ہمیشہ ان سے پیار کیا تھا۔
پھر امی نے ابو سے کہا ۔کہ کچھ دن اپنے گھر پر اسے روک لو اگر یہ اکیلا رہا تو دماغ پر اثر ہو جائے گا۔
افروز کی حالت واقعی دیدنی تھی کہ خستہ حال اور بہت بدحال تھا۔ ماں کی وفات کے دکھ سے دیوانہ سالگتا تھا اسکے ذہن میں یہ بات بٹھا دی گئی تھی کہ خاندان والے تمہاری ماں سے نفرت کرتے تھے عورتوں نے طعنے دے کر اسکی جان لے لی۔
شیریں سے منگنی ٹوٹنے کے بعد وہ سب سے دور ہو گیا ۔اسکو جینے سے بھی کوئی دلچسپی نہ رہی۔ جانے اس کی فطرت کیسی تھی جو ہر لمحے بدلتی رہتی تھی ۔پتہ نہیں کہ وہ کیوں اس قدر بدگمان ہو گیا تھا کہ سبھی اسکو اپنے ماں کے قاتل دکھائی دیتے تھے ۔ایک ہمارے گھرانے کے سوا کہ وہ امی پر اعتبار کرتا تھا ۔
میری ماں کی عادت تھی کہ فضول باتوں میں دلچسپی لینے سے کتراتی تھیں اور بے پر کی نہیں اڑاتی تھیں بہرحال زندگی میں کبھی اس سے قبل میں نے افروز کو ایسا اجڑا ہوا نہیں دیکھا تھا۔
جب میں کالج سے آئی، اسے اپنے گھر بیٹھے دیکھا۔ میں نے پھوپھو کے افسوس کے لئے کچھ باتیں کہیں تو وہ رو پڑا۔ تب ہی میرے دل میں اس کے لئے جگہ پیدا ہو گئی اور اسکی دلجوئی کے لئے ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دیں۔
اسکی دلجوئی کی خاطر پھر میں نے کالج سے چھٹیاں لے لیں۔ تاکہ جتنے دن وہ ہمارے گھر رہے اسکا دل لگا رہے وہ میری سب بہنوں سے زیادہ مجھ سے باتیں کرتا تھا۔ ایک دن کہنے لگا عالیہ تم سب سے کتنی مختلف ہو تم واقعی خوبصورت ہو اپنی صورت سے بھی اور اپنی سوچوں سے بھی۔
کاش میں امی کے انتخاب پر اعتبار کر لیتا۔ تم ہی ان کی پسند تھیں وہ تم ہی کو بہو کے روپ میں دیکھنا چاہتی تھیں لیکن میں کم فہم اور نادان ان کا کہا نہیں مانا اور آج میری ماں بھی اس غم میں چلی گئی۔
یہ باتیںاس نے ایسے کہیں جیسے دل سے کہی ہوں مجھے جاتے سمے اپنا ایڈریس بھی دیا کہ خط لکھنا۔
جب وہ چلا گیا میں نے خط نہ لکھا تو اس نے خود ہی لکھ دیا۔ پھر خط پر خط آنے لگ تبھی مجھے جواب دینا ہی پڑا۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔
اس کے خطوط نے میری پسندیدگی کو چاہت میں بدل دیا۔ مگر میں نے اظہار نہ کیا وہ بار بار خطوط میں اپنی چاہت کا اظہار کرتا تھا۔
اسکی باتیں دل میں گھر کرنے لگیں مگر میں محتاط رہی۔ پھر جب وہ چھٹیوں میں آیا تو اس نے باتوں باتوں میں مجھ سے کہا کہ وہ واقعی اپنی پھوپھی کی بیٹی لائبہ ہی کو پسند کرتاہے مگر خود منگنی ختم کر کے اسکو گنوا چکا ہے اب کیسے دوبارہ یہ تعلق جڑ سکتا ہے۔
میں حیران ہو کر اسکی باتیں سنتی تھی ایک روز کہا کہ اگر تم ابھی تک لائبہ کے سحر سے نہیں نکلے تو پھر کیوں اسکی چچا زاد شیریں سے ناتا جوڑ لیا تھا۔ اس کو کسی بات کی سزا دینا چاہتا تھا ۔لیکن اب دوبارہ اسے منانا چاہتا ہوں ۔سمجھ میں نہیں آتا کیسے منائوں؟
تب میں سوچنے لگی کہ یہ کیسا انسان ہے جو فیصلے بدلنے میں دیر نہیں لگاتا اور دوسروں کی زندگی کو کھیل سمجھتا ہے۔
میں اس سے پیار کرنے لگی تھی، اسے دل سے شاد دیکھنا چاہتی تھی لہٰذا کچھ نہ کہا اور اس پر بھی ظاہر نہ ہونے دیا کہ اس کے لئے دل میں چاہت کے جذبات رکھتی ہوں۔
وہ واپس ڈیوٹی پر چلا گیا مجھے خطوط لکھتا اور محبت بھرے اشعار بھی لکھ دیتا تو میں دوست سمجھ کر اسکا مان توڑنا نہ چاہتی تھی مگر میرے ذہن میں یہ بات جم گئی تھی کہ وہ لائبہ کو چاہتا ہے وہ میرا نہیں کسی اور کا ہے۔
ایک روز امی جان نے مجھے یہ کہہ کر حیران کر دیا کہ تمہاری کیا مرضی ہے۔افروز تم کو بہت چاہتا ہے اور مجھ سے تمہارے رشتہ کے لئے منتیں کر رہا ہے۔
وہ اپنا مکان اور سب کچھ تمہارے نام کرنے کو تیار ہے ۔میرا دماغ چکر ا گیا کہ یہ سب کیا ہے ادھر مجھے دوست کہہ کر دل کی باتیں بتا کر جاتا ہے ۔لائبہ سے ابھی تک محبت کے افسانے سناتا ہے اور ادھر… میں نے اپنی سہیلی کو بتایا۔
اس نے کہا کہ اسکی نفسیات یہ ہے کہ دوسری لڑکی سے محبت کا فسانہ سنا کر تمہارے دل میں جلن جگانا چاہتا ہے۔ کچھ آدمی اسی قسم کے ہوتے ہیں جس سے پیار کرتے ہیں اسکو یہی جتلاتے ہیں کہ وہ کسی اور سے پیار کرتے ہیں دراصل وہ تم سے ہی پیار کرتا ہے۔
یہ عجیب سی کہانی تھی جو میری سمجھ سے باہر تھی میں نے ان باتوں پر توجہ نہ دی اور اس بات پر یقین قائم رکھا کہ وہ کسی اور کو چاہتا ہے مجھ کو نہیں۔مجھ سے صرف دل کی باتیں شیئر کرتا ہے۔
اس بار وہ آیا تو میں نے کہا۔ افروز تم کیوں مجھے ایسے خط لکھتے ہو، آخر ان خطوط کے لکھنے کا کیا مقصد ہے جبکہ لائبہ تمہارے دل کی دنیا پر جاگزین ہے ۔
عالیہ درحقیقت میں تم ہی کو پسند کرتا ہوں ،تم ہی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔باقی جو باتیں کرتا رہتا ہوں وہ سب فضول ہیں اوران کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
اب لائبہ اور شیریں دونوں ہی میرے لئے بالکل غیر اہم ہیں ،۔میرا انداز ہی ایسا ہے ،مجھ کو سمجھ جائو۔
وہ یہ باتیں کہہ کر چلا گیا اور میرا سکون لٹ گیا ۔دن رات سوچوں میں غرق رہنے لگی ،اس کے خط پر خط آنے لگے، یہ خط میری بہن جو گھر میں ہوتی تھی وصول کر لیتی تھی۔ لیکن ایک روز افروز کا ایک خط ابو کے ہاتھ لگ گیا ۔
ابو نے میری بہت بے عزتی کی اور جب وہ ہمارے گھر آیا تو ابو نے اسکی بھی بے عزتی کی کہ بھانجے صاحب تم نے ہی ہمارا گھر تاڑ لیا ہے جب سب نے ٹھکرا دیا ہم نے ہمدردی کی، پیار دیا ،اسکا یہ صلہ کہ میری بیٹی کو خطوط لکھتے ہو۔ اگر شادی کرنا چاہتے ہو تو عزت داروں کی طرح سیدھے سبھائو ماں باپ سے رشتہ مانگتے یہ چوری چھپے میری بیٹی کو محبت نامے لکھنا کیا معنی رکھتے ہیں۔ آئندہ ہمارے گھر قدم رکھا تو حشر کر دوں گا۔
ابو کی ڈانٹ ڈپٹ نے اسے اس قدر دل شکستہ کیا کہ وہ دوبارہ ہمارے گھر نہ آیا بلکہ اس نے بڑی پھوپھو کو منا کر لائبہ سے شادی کر لی ۔اور اسے اپنے ساتھ لے گیا۔
جس روز اسکی شادی کا دعوت نامہ ملا ۔ دکھ سے بے حال ہو گئی ،لگتا تھا کہ دل بند ہو جائے گا۔ سوچا اس نے پھر جلد بازی کی ہے۔ ابو کی ڈانٹ سہہ کر امی سے بات کرتا تو یقیناً بات بن جاتی ۔ امی اسکو میرا رشتہ دینا چاہتی تھیں مجھے بار بار سمجھاتی تھیں کہ افروز اچھا لڑکا ہے، تم راضی ہو جائو اس کا کوئی نہیں ہے وہ ہمیشہ ہمارا بن کر رہے گا مگر افروز نے تو مہلت ہی نہ دی، جھٹ پٹ اپنی شادی کا فیصلہ کر لیا۔ کاش یہ اس کا فیصلہ صحیح ہوتا مگر میں جانتی تھی کہ اس کا فیصلہ صحیح نہیں ہے۔وہ لائبہ کے ساتھ خوش نہ رہ سکے گا وہ بڑی تیز مزاج لڑکی تھی۔
وہی ہوا جسکا ڈر تھا وہ لائبہ کے ساتھ خوش نہ رہ سکا، اسے شادی کے بعد بھی میری یاد ستاتی اور تڑپاتی رہی۔ وہ روز ہی لائبہ کو یہ بتاتا تھا کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ وہ مجھے بھلا نہیں سکتا۔ وہ میرے بغیر خود کو ویران اور ادھورا تصور کرتا ہے۔
کوئی بیو ی یہ باتیں کب تک سنتی اور برداشت کرتی ہے۔ آخر لائبہ کے صبر کا پیمانہ لبریزہو گیا ایک دن جھگڑا ہوا اور وہ روٹھ کر میکے آگئی پھر اس نے طلاق مانگ لی اور واپس افروز کے پاس جانے سے انکار کر دیا۔
میری شادی اپنے ابو کے دوست کے بیٹے سے ہو گئی ۔میرے شوہر اچھے انسان ہیں وہ ایک نارمل شخص ہیں، دل لگا کر محنت کرتے ہیں جو کماتے ہیں میری جھولی میں لا ڈالتے ہیں۔لیکن عجیب بات ہے کہ مجھے اب تک وہ ایب نارمل شخص نہیں بھولتا ۔ جب تنہائی میں بیٹھتی ہوں وہ یاد آ جاتا ہے سنا ہے وہ بھی ابھی تک مجھے بھلا نہیں پایا ہے آج بھی جب میری یاد آتی ہے اسکی آنکھیںنم ہو جاتی ہیں۔
(س۔بھاولپور)