ملہ کی فتح ( رمضان المبارک ۸ ہجری) کو آٹھ نو مہینے ہی گزرے تھے کہ شام سے کچھ سوداگر مدینہ آئے اور انہوں نے خبر دی کہ روم کا بادشاہ بڑے لاؤ لشکر کے ساتھ عرب پر حملہ کرنے کا ارادہ کر رہا ہے اور شام کی سرحد پر عیسائی عربوں کے جو قبیلے آباد ہیں، وہ رومی لشکر میں آ کر شامل ہوتے جاتے ہیں۔ یہ خبریں ملتے ہی رسول پاک ﷺ نے فیصلہ کیا کہ رومیوں کو عرب کی سرزمین پر قدم نہ رکھنے دیا جائے اور آگے بڑھ کر شام کی سرحد پر ان کا مقابلہ کیا جائے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے مدینہ کے مسلمانوں کو جہاد کی تیاری کا حکم دیا اور ساتھ ہی عرب کے تمام قبیلوں کو پیغام بھیجا کہ قیصر روم کے مقابلے کے لیے تیار ہو کر فوراً مدینہ پہنچو۔
اس سال (۹ ہجری میں ) بارش نہ ہونے کی وجہ سے سخت گرمی پڑ رہی تھی اور لوگوں کا بُرا حال تھا۔ کھجوروں کی فصل پکنے کے قریب تھی اور ڈر تھا کہ اگر کھجوریں وقت پر نہ اتاری گئیں تو ملک میں قحط پڑ جائے گا۔ رسول پاک صلی ہم نے لوگوں کو یہ بھی بتا دیا کہ ہمیں تقریباً تین سو میل دور شام کی سرحد پر پہنچ کر رومیوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ سخت آزمائش کا وقت تھا، کھجور کی تیار فصل، قہر کی گرمی تپتے ہوئے صحراؤں کا لمبا سفر خوراک پانی اور سواری کے جانوروں کی ناکافی تعداد ہر چیز ان کی نظر کے سامنے تھی لیکن وہ رسولِ پاک ﷺ کا حکم سنتے ہی جہاد کی تیاری میں مشغول ہو گئے۔ چند دن کے اندر اندر باہر کے بہت سے قبیلے بھی مدینہ پہنچ گئے اور بہت بڑا لشکر جمع ہو گیا۔ اتنے بڑے لشکر کے لیے ہتھیاروں، کھانے پینے کی چیزوں اور سواریوں کا انتظام کرنا بڑا مشکل کام تھا اور اس کے لیے بہت زیادہ روپے اور سامان کی ضرورت تھی ۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے رسول پاک ﷺ نے مسلمانوں کو ترغیب دی کہ وہ اللہ کی راہ میں دل کھول کر مال اور سامان دیں۔ اپنے پیارے آقاﷺ کا حکم سن کر سب صحابہ نے اپنی حیثیت کے مطابق بلکہ حیثیت سے بھی بڑھ کر مال اسباب دیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنا آدھا مال اسباب پیش کر دیا ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار دینار اور کئی سو اونٹ پالان سمیت پیش کیئے حضرت طلحہ بن عبید اللہ اور حضرت عبد الرحمن بن عوف نے بہت بڑی رقمیں اللہ کی راہ میں پیش کیں ۔ حضرت عاصم بن عدی نے بیسیوں من کھجوریں پیش کیں۔ خواتین نے اپنے زیور اتار کر اللہ کی راہ میں دے دیے جن صحابیوں کے پاس کچھ نہ تھا انہوں نے مزدوری کی اور جو کچھ ملا وہ رسول پاک ﷺ کے سامنے لا رکھا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ان سب سے بڑھ گئے ۔ ان کے گھر میں جتنا روپیہ پیسہ اور مال اسباب تھا وہ سب اٹھا لائے اور گھر میں جھاڑو پھیر دی۔
حضور ﷺ نے پوچھا ابو بکر ! اپنے بال بچوں کے لیے کیا رکھا؟ انہوں نے عرض کیا: بس ان کے لیے اللہ اور اللہ کا رسول ﷺ باقی ہیں ۔ چند دن کے اندر تیس ہزار فوج شام کی سرحد پر واقع شہر تبوک کی طرف جانے کے لیے تیار ہو گئی۔
اور تو سب مجاہدین کے لیے کئی سو میل لمبے سفر کے لیے سواریوں کا بندوبست ہو گیا لیکن سات غریب صحابہ ایسے تھے جن کے لیے سواریوں کا انتظام نہ ہو سکا۔ وہ رسول پاک ﷺ کے ساتھ جہاد میں شریک ہونے کی بڑی تڑپ رکھتے تھے لیکن ان پکے اور سچے مسلمانوں کا سواریوں کے بغیر اتنا لمبا اور کٹھن سفر کرنا ممکن نہ تھا اس لیے وہ اپنی بے بسی پر رونے لگے۔ ان کے آنسو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اتنے مقبول ہوئے کہ قرآن پاک کی سورہ توبہ کی آیت ۹۲ نازل ہوئی جس کا ترجمہ یہ ہے: اور ان بے سرو سامان لوگوں پر کوئی الزام نہیں جو اے نبی تمہارے پاس اس لیے آئے کہ تم ان کو سواری دو اور تم نے کہا کہ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس پر تم کو سوار کروں تو وہ لوٹ گئے اور اس غم سے کہ ان کے پاس خرچ ( سامان سفر کے لیے ) موجود نہ تھا، ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ گویا جہاد میں شریک نہ ہونے کے غم میں ان صحابہ نے جو آنسو بہائے وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انمول (اتنے قیمتی) قرار پائے کہ جہاد کا فریضہ ادا نہ کر سکنا ان کی ایسی مجبوری سمجھی گئی جس پر ان کو کوئی اختیار نہ تھا اس لیے ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا تھا۔