انسان کی اَنا کو سب سے زیادہ تسکین اس وقت ملتی ہے جب وہ اپنے آپ کو اپنے پسندیدہ ترین روپ میں دیکھتا ہے۔
میں اس وقت پیرس کے ’’ونڈسر ہوٹل‘‘ میں تھا اور کمرے کے آئینے میں خود کو دیکھ رہا تھا۔ آئینے میں اپنا جو عکس میں دیکھ رہا تھا، وہ مجھے بہت پسند تھا۔ یہ عکس ایک صحت مند، دراز قد اور وجیہ آدمی کا تھا جو پائلٹ کی خوبصورت نیلی وردی میں تھا۔ سر سے پائوں تک اس کی شخصیت سے نفاست عیاں تھی اور وہ بلاشبہ بے حد دلکش اور خوبرو دکھائی دے رہا تھا۔
انکساری جیسی اچھی عادت مجھ میں نہیں ہے بلکہ سچ پوچھئے تو کوئی اچھی عادت مجھ میں مشکل سے ہی ملے گی۔ میں آئینے میں اپنے آپ کو جیسا دیکھ رہا تھا، جیسا محسوس کررہا تھا، ویسا ہی بیان کررہا ہوں۔
اپنی ذات کے مشاہدے اور اپنی شخصیت کے نظارے سے مطمئن ہونے کے بعد میں نے اپنا بیگ اٹھایا اور کمرے سے نکل آیا۔ دو منٹ بعد میں ہوٹل کے کیشئر کے بوتھ کے سامنے کھڑا تھا۔
’’گڈ مارننگ کیپٹن!‘‘ کیشئر نے خوش مزاجی اور گرم جوشی سے کہا۔ وہ ایک خاتون تھی۔
میری یونیفارم پر کچھ ایسے نشانات موجود تھے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ میں جہاز کا کیپٹن نہیں بلکہ فرسٹ آفیسر یعنی ’’کوپائلٹ‘‘ تھا لیکن بیچارے فرانسیسی بہت ہی با اخلاق لوگ ہوتے ہیں۔ وہ آپ کا دل رکھنے اور آپ کا حوصلہ بڑھانے کی پوری پوری کوشش کرتے ہیں۔ وہ آپ کو آپ کی اصل حیثیت سے بلند درجہ دے دیتے ہیں۔
اس نے بل میرے سامنے رکھ دیا جس پر میں نے فوراً سائن کردیئے اور روانہ ہونے لگا۔ پھر مجھے کچھ یاد آیا اور میں ایڑیوں کے بل واپس گھوما۔
میں نے اپنے کوٹ کی اندر کی جیب سے اپنی تنخواہ کا چیک نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا اور معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔ ’’کیا تم میری تنخواہ کے اس چیک کے بدلے مجھے کیش دے سکتی ہو؟ تمہارے پیرس کی رنگین راتوں نے میری جیبیں بالکل خالی کرا دی ہیں اور ابھی ایک ہفتے تک مجھے گھر سے باہر ہی رہنا ہے۔‘‘ میں نے اپنے ہونٹوں پر قدرے شرمسارانہ مسکراہٹ لانے کی کوشش کی۔
خاتون نے چیک اٹھا کر ایک نظر اس پر ڈالی۔ وہ پین امریکن ایئرویز کی طرف سے دیا گیا ایک ہفتے کی تنخواہ کا چیک تھا اور 790.73؍ڈالر کا تھا۔ یہ 70ء سے بھی کچھ پہلے کی بات ہے، اس دور کے حساب سے ایک ہفتے کی تنخواہ کی رقم کچھ کم نہیں تھی۔
’’میں یہ چیک کیش تو کردوں گی کیپٹن!‘‘ کیشئر شیریں لہجے میں بولی۔ ’’لیکن رقم چونکہ بڑی ہے اس لیے مجھے اپنے منیجر سے اجازت لینی پڑے گی۔‘‘
وہ اٹھ کر اپنے بوتھ کے عقب میں ایک کمرے میں چلی گئی اور چند سیکنڈ بعد ہی خوشدلی سے مسکراتی ہوئی واپس آگئی۔ اس کی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ اسے اجازت لینے میں ذرا بھی دشواری نہیں ہوئی تھی۔
وہ میرے سائن لینے کے لیے چیک الٹا کرکے میرے سامنے رکھتے ہوئے بولی۔ ’’رقم آپ یقیناً امریکن ڈالرز میں لینا چاہیں گے؟‘‘
جواب کا انتظار کئے بغیر ہی اس نے رقم امریکن ڈالرز کی صورت میں گن کر میرے سامنے رکھ دی۔ نوٹوں کے اوپر اس نے 73؍سینٹ کے سکے بھی رکھ دیئے تھے۔
میں نے رقم اٹھا کر اس میں سے پچاس پچاس ڈالر کے دو نوٹ نکال کر اسے واپس دیتے ہوئے کہا۔ ’’براہ کرم ایک زحمت اور کرنا، میری طرف سے ان ویٹرز کو مناسب ٹپ دے دینا جنہوں نے میرے قیام کے دوران میرا خیال رکھا۔ میں اس قسم کے کام کرنے کے معاملے میں ذرا لاپروا رہا ہوں۔‘‘
خاتون کے چہرے پر روشن سی مسکراہٹ آگئی۔ وہ فوراً بولی۔ ’’ضرور کیپٹن! تمہارا بہت شکریہ۔ میری دعا ہے کہ تمہارا سفر خوشگوار گزرے اور تم دوبارہ بھی ہمارے ہوٹل میں قیام کرنے آئو۔‘‘
اس کے شیریں لہجے اور خوشگوار اندازگفتگو کا اثر اپنے ذہن پر لیے میں باہر آیا اور ٹیکسی میں بیٹھ کر ڈرائیور کو اورلی ایئرپورٹ چلنے کا حکم دیا۔ میں نے اسے یہ بھی ہدایت کی کہ وہ مجھے ٹرانس ویسٹرن ایئر لائنز والے گیٹ پر اتار دے۔ اس ایئرلائن کو مختصراً ٹی ڈبلیو اے بھی کہا جاتا تھا۔
ایئرپورٹ پر ہر ایئرلائن کے لیے کچھ حصہ مخصوص ہوتا ہے۔ ٹی ڈبلیو اے والے حصے میں پہنچ کر میں ٹکٹ کائونٹر کے سامنے سے گزرتا ہوا سیدھا آپریشنز آفیسر کے پاس چلا گیا۔ میں پین امریکن ایئرویز کی وردی میں تو تھا ہی لیکن قاعدے قانون کے تحت میں نے اسے اپنا پائلٹ کا لائسنس اور پین امریکن کا شناختی کارڈ دکھایا۔
آپریشنز آفیسر نے اپنے سامنے رکھے کاغذات پر نظر دوڑائی جن پر شیڈول درج تھے۔ ایک کاغذ دیکھتے ہوئے وہ سر ہلا کر بولا۔ ’’ہاں… فرسٹ آفیسر فرینک ولیم۔ تمہیں روم جانے کے لیے کسی جہاز میں لفٹ چاہئے۔ مل جائے گی۔ تمہاری خوش قسمتی ہے کہ چند منٹ بعد ہماری جو فلائٹ جارہی ہے، اس میں جمپ سیٹ خالی ہے۔ لو یہ فارم بھر دو۔‘‘ اس نے ایک فارم میری طرف کھسکا دیا۔
گلابی رنگ کا یہ فارم میرے لیے جانا پہچانا تھا۔ اسے پر کرنا میرے لیے ذرا بھی مشکل نہیں تھا۔ اس میں بس اپنے ضروری کوائف ہی درج کرنا ہوتے تھے۔
کسی بھی ایئرلائن کا پائلٹ خواہ وہ دنیا کے کسی بھی شہر میں موجود ہو، اسے اس کے مقررہ شیڈول سے ہٹ کر بھی کوئی طیارہ اڑانے کے لیے بلاوا آسکتا ہے اور بعض اوقات اس کی ڈیوٹی کا شیڈول ہی کچھ ایسا بن جاتا ہے کہ اس کے لیے اپنی ایئرلائن کی کوئی پرواز پکڑنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس صورت میں وہ کسی بھی ایئرلائن کی پرواز پکڑ کر مطلوبہ شہر کے ایئرپورٹ پہنچ سکتا ہے۔
’’لفٹ‘‘ لے کر سفر کرنے کے اس عمل کو ایئرلائنز کی اصطلاح میں ’’ڈیڈ ہیڈنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ہر طیارے کے کاک پٹ میں ایک فاضل سیٹ خالی رکھی جاتی ہے۔ اسے ’’جمپ سیٹ‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ ’’پہلے آیئے پہلے پایئے‘‘ کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔ اس سیٹ پر سفر کرنے والے پائلٹ یا کوپائلٹ سے کوئی کرایہ نہیں لیا جاتا۔
میں نے فارم بھر کر آفیسر کو دیا اور اپنا بیگ اٹھا کر کسٹمز کے گیٹ کی طرف چل دیا۔ اس کے دو حصے تھے۔ ایک حصے پر لکھا تھا ’’عملے کے لیے‘‘ میں نے اس حصے سے گزرتے ہوئے اپنا بیگ چیک کرانے کے لیے کائونٹر پر رکھا لیکن کسٹم آفیسر نے مجھے پہچان لیا اور میرا بیگ چیک کئے بغیر ہاتھ ہلا کر مجھے آگے جانے کا اشارہ کردیا۔
میں جب جہاز کی طرف جارہا تھا تو ایک نوعمر لڑکا میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ وہ رشک بھری نظروں سے میری نیلی یونیفارم کو دیکھے جارہا تھا جس پر سنہری پٹیاں، چمکیلے پیتل کا ایک چھوٹا سا پرندہ اور کئی دوسری چیزیں لگی ہوئی تھیں جن کی وجہ سے اس کی شان بڑھ گئی تھی۔
’’آپ پائلٹ ہیں؟‘‘ لڑکے نے سحر زدہ سی آواز میں پوچھا۔ لہجے سے وہ برطانوی معلوم ہوتا تھا۔
’’نہیں… اس وقت تو میں بھی تمہاری ہی طرح ایک مسافر ہوں۔‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا۔ ’’میں پین امریکن کے جہاز اڑاتا ہوں۔‘‘
’’کیا آپ جمبو جیٹ 707 بھی اڑاتے ہیں؟‘‘ لڑکے کے لہجے میں اب بھی رشک تھا۔
میں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’پہلے اڑایا کرتا تھا۔ آج کل میں زیادہ تر ڈی سی8- اڑا رہا ہوں۔‘‘
مجھے نوعمر لڑکوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے الجھن نہیں ہوتی تھی۔ انہیں دیکھ کر مجھے خود اپنی عمر کا چند سال پہلے کا دور یاد آجاتا تھا۔
جہاز کے قریب سنہرے بالوں والی ایک خوبصورت اور پرکشش ایئر ہوسٹس نے میرا استقبال کیا اور میرا بیگ جہاز کے اس حصے میں رکھوایا جس میں عملے کا سامان رکھا جاتا ہے۔
’’یہ جہاز پوری طرح بھر کر جارہا ہے مسٹر ولیم!‘‘ اس نے مجھے بتایا۔ ’’حتیٰ کہ جمپ سیٹ کے بھی دو امیدوار تھے لیکن آپ پہلے پہنچ گئے اس لیے یہ آپ کو مل رہی ہے۔ کیبن پر میری ہی ڈیوٹی
ہے۔‘‘ عملے کے لوگ عام طور پر کاک پٹ کو کیبن کہتے ہیں۔
’’مجھے بس دودھ کا گلاس دے دینا اور کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی لفٹ لینے والوں کا کسی چیز پر حق نہیں بنتا۔ ان کے لیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ وہ مفت میں اپنی منزل تک پہنچ جائیں۔‘‘ میں نے شکر گزارانہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
میں ذرا جھک کر کاک پٹ میں داخل ہوا۔ پائلٹ، کو پائلٹ اور فلائٹ انجینئر معمول کے مطابق پرواز سے پہلے تمام کل پرزوں کو چیک کررہے تھے۔ انہوں نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا تو وضعداری کے تحت اپنے ہاتھ روک لیے۔
’’ہیلو…!‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’میں فرینک ولیم ہوں۔ پین امریکن سے میرا تعلق ہے۔ آپ لوگ اپنا کام جاری رکھیں، میری وجہ سے ہاتھ نہ روکیں۔‘‘
ان تینوں نے بھی اپنا تعارف کرایا اور مجھ سے مصافحہ کیا۔ میں جمپ سیٹ پر بیٹھ چکا تو وہ دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگئے۔
بیس منٹ بعد جہاز فضا میں بلند ہوگیا۔ پائلٹ جس نے اپنا نام گارنر بتایا تھا، طیارے کو تیس ہزار فٹ کی بلندی پر لے آیا۔ وہ 707 طیارہ تھا۔ جب وہ ہموار انداز میں پرواز کرنے لگا تو گارنر اپنی حفاظتی بیلٹ کھول کر سیٹ سے اٹھ کھڑا ہوا اور گہری نظر سے میری طرف دیکھ کر بولا۔ ’’تھوڑی دیر کے لیے اس پرندے کو تم اڑائو ولیم! میں ذرا اس دوران مسافروں سے تھوڑی سی گپ شپ کرکے آتا ہوں۔ وہ بے چارے پیسے خرچ کرکے سفر کررہے ہیں، ذرا ان کا حال چال بھی پوچھ لینا چاہئے۔‘‘
یہ کسی بھی پائلٹ کی طرف سے اپنی حریف کمپنی کے پائلٹ کے لیے ایک طرح سے خوش خلقی کا اظہار ہوتا تھا کہ وہ تھوڑی بہت دیر کے لیے اپنا طیارہ اس کے سپرد کردیتا تھا۔ میں نے اپنی ٹوپی اتار کر فرش پر رکھ دی اور پائلٹ کی خالی کی ہوئی سیٹ سنبھال لی۔ طیارے میں اس وقت عملے سمیت ایک سو چالیس افراد سوار تھے۔ میں بھی ان میں شامل تھا۔ پائلٹ نے ایک سو چالیس جانوں کی حفاظت کی ذمہ داری میرے کاندھوں پر ڈال دی تھی۔
میں نے ہوائی جہاز کا ایک لیور کھینچ دیا جو ’’آٹومیٹک پائلٹ‘‘ کہلاتا ہے۔ طیارہ جس پوزیشن میں بھی چل رہا ہو، اس لیور کو کھینچنے کے بعد خودبخود اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ مجھے بس اسی ایک لیور کے بارے میں علم تھا اس کے سوا مجھے جہاز کی کسی چیز کے بارے میں خاک بھی پتا نہیں تھا۔ مجھے ہوائی جہاز اڑانا تو درکنار پتنگ اڑانا بھی نہیں آتا تھا۔ میں تو لیور کھینچنے کے بعد بھی دعا کررہا تھا کہ خدا کرے میں نے اسے صحیح طرح کھینچا ہو اور طیارہ خیر و عافیت سے اڑتا رہے۔
پین امریکن کو مختصراً پین ایم بھی کہا جاتا ہے۔ میں پین ایم کا پائلٹ ہرگز نہیں تھا۔ میں ایک جعلساز، نوسرباز اور بہروپیا تھا۔ میرا نام اس وقت کے چار براعظموں میں سب سے زیادہ مطلوب مجرموں کی فہرست میں شامل تھا۔ اس وقت بھی میں جعلسازی، نوسربازی اور فراڈ میں ہی مصروف تھا۔ سیکڑوں افراد کی آنکھوں میں دھول جھونکتا ہوا میں یہاں تک پہنچا تھا اور تیس ہزار فٹ کی بلندی پر اڑتے ہوئے ایک جہاز کے پائلٹ کی سیٹ پر بیٹھا تھا۔
میرا اکثر دل چاہتا تھا کہ میرے اس قسم کے ’’کارناموں‘‘ پر کوئی مجھے خوب داد دے لیکن افسوس کہ دنیا والے اس قسم کے کاموں پر داد نہیں دیتے، ملامت کرتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے تو پنجے جھاڑ کر آپ کے پیچھے پڑے رہتے ہیں حالانکہ دنیا کی آنکھوں میں اس دیدہ دلیری سے دھول جھونکنا بھی ایک فن ہے، ایک آرٹ ہے۔
٭…٭…٭
اکیس سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے میں دو مرتبہ تو لکھ پتی بن چکا تھا اور تیسری مرتبہ بنتے بنتے رہ گیا تھا۔ میرا خیال ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ تمام سرمایہ میں نے نوسر بازی اور جعلسازی کے ذریعے حاصل کیا تھا البتہ یہ ضرور بتاتا چلوں کہ اس سرمائے کو میں نے سنبھال کر ہرگز نہیں رکھا تھا بلکہ عیش و عشرت میں اڑا دیا تھا۔
میں نے خوب اپنے دل کی حسرتیں نکالی تھیں۔ دنیا کے بہترین کھانے کھائے تھے، بہترین تفریح گاہوں میں گیا تھا، بہترین ہوٹلوں میں قیام کیا تھا، بہترین شرابیں پی تھیں اور نہایت حسین خواتین کی قربت سے لطف اندوز ہوا تھا۔ بہترین گاڑیاں خریدی اور بیچی تھیں یا ویسے ہی انہیں کہیں چھوڑ کر بھاگنا پڑا تھا۔ سرمایہ جتنی تیزی سے میرے پاس آیا تھا، اتنی ہی تیزی سے چلا بھی گیا تھا۔ ’’مال مفت دل بے رحم‘‘ والا معاملہ تھا۔
میں نے ہر یورپی ملک کے دارالحکومت کے کسی نہ کسی ہوٹل، کلب یا تفریح گاہ میں چھوٹا موٹا جشن ضرور منایا تھا۔ دنیا کے بہترین ساحلی مقامات پر یادگار وقت گزارہ تھا حتیٰ کہ کچھ مشرقی ممالک اور افریقہ کے خوبصورت مقامات بھی میری طبیعت کی جولانیوں کا نظارہ کرنے سے محروم نہیں رہے تھے۔
میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ تمام وقت میں نے نہایت سکون، سرشاری اور بے فکری کے عالم میں گزارہ تاہم میں بوکھلایا ہوا یا بدحواس بھی نہیں رہا۔ بس یہ کہا جاسکتا ہے کہ عیش و عشرت سے بھرپور لمحوں کے دوران بھی ایک دھڑکا سا دل کو لگا رہا۔ ذہن کے کسی تاریک گوشے میں اندیشے سر اٹھاتے رہے اور ایک ہلکی سی بے اطمینانی رگ و پے میں چٹکیاں سی لیتی رہی۔ میں ہر وقت بھاگنے دوڑنے کی سی حالت میں رہا۔
یہ بھاگنا دوڑنا بھی عام انداز میں نہیں تھا۔ کبھی کسی جگہ سے مجھے بغلی دروازے سے نکلنا پڑا۔ کبھی ہنگامی سیڑھیوں کے راستے کھسکنا پڑا اور کبھی کبھی چھت پر جاکر بھی راہ فرار تلاش کرنا پڑی۔ صرف پانچ سال کے عرصے میں، میں کپڑوں کی الماریوں میں جتنے کپڑے چھوڑ کر بھاگا ہوں، اتنے بعض لوگوںکی زندگی بھر میں خریدنے نصیب نہیں ہوتے ہوں گے۔ ہاتھوں سے چکنی مچھلی کے پھسل جانے کی مثال دی جاسکتی ہے لیکن میرا خیال ہے میں اس سے بھی زیادہ تیزی سے ان لوگوں کے ہاتھوں سے پھسل جاتا تھا جو مجھے پکڑنے کی کوشش کرتے تھے۔
عجیب بات یہ ہے کہ میں نے کبھی اپنے آپ کو مجرم محسوس نہیں کیا جبکہ مجھے یہ احساس تھا کہ قانونی اصطلاحوں کے مطابق میں مجرم ہی کہلائوں گا۔ حکام اور رپورٹرز مجھے اس صدی کا شاطر ترین جعلساز، نوسرباز اور فراڈیا قرار دے چکے ہیں۔ بعض رپورٹرز نے تو یہ بھی لکھا کہ اگر جعلسازی اور نوسر بازی پر اکیڈمی ایوارڈ دیئے جانے کا رواج ہوتا تو وہ یقیناً مجھے ملتا۔ بوگس چیک چلانے والوں کا تو مجھے بادشاہ قرار دیا جاتا تھا۔
ہیرا پھیری کی غیر معمولی صلاحیتیں شاید مجھے قدرت ہی کی طرف سے ملی تھیں۔ میں جس شاطرانہ ذہانت کے ساتھ اپنی ذات پر کسی دوسری شخصیت کا لبادہ اوڑھتا تھا، اس پر کبھی کبھی مجھے خود بھی حیرت ہوتی تھی۔ میرے اندر جیسے کوئی پراسرار طاقت چھپی ہوئی تھی جو مجھے نہایت کامیابی سے سب کچھ کر گزرنے کے قابل بناتی تھی اور بعد میں، میںخود بھی حیران ہوتا تھا کہ میں نے یہ سب کچھ کیسے کیا؟ یا واقعی وہ میں ہی ہوں جس نے یہ سب کچھ کیا ہے۔
میرے یہ محسوسات اپنی جگہ سہی لیکن اپنے انجام کے بارے میں بہرحال میں کبھی خوش فہمی کا شکار نہیں رہا۔ مجھے معلوم تھا کہ جب بھی میں پکڑا گیا تو مجھ پر داد و تحسین کے ڈونگرے نہیں برسائے جائیں گے اور نہ ہی مجھے کسی بھی قسم کا کوئی ایوارڈ ملے گا بلکہ میں مجرم کہلائوں گا اور سیدھا جیل جائوں گا۔
میرا یہ اندازہ بالکل درست تھا۔ میں نے فرانس کی جیل میں وقت گزارہ۔ سوئیڈن کے ایک قید خانے کو شرف میزبانی بخشا۔ پھر اپنے گناہوں کی سب سے زیادہ تلافی امریکا کے شہر پیٹرز برگ کی فیڈرل جیل میں رہ کر کی۔
اس آخری جیل میں قیام کے دوران میرے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے جیل کے حکام نے محسوس کیا کہ مجھ جیسے آدمی کا نفسیاتی تجزیہ بھی ہونا چاہئے۔ میری ذات کے مطالعے اور مشاہدے کے نتائ
جرمیات (CRIMNOLOGY) کے طالب علموں کے لیے کافی مفید ثابت ہوسکتے تھے۔ اس سلسلے میں مجھ پر کوئی جبر نہیں کیا گیا۔ مجھ سے درخواست کی گئی اور میں نے رضاکارانہ طور پر اپنے آپ کو نفسیاتی تجزیئے کے لیے پیش کردیا۔
ورجینیا یونیورسٹی کے ایک ماہر نفسیات اور جرمیات نے دو سال تک میرا مطالعہ اور مشاہدہ جاری رکھا۔ اس نے میرے کئی زبانی اور تحریری ٹیسٹ لیے۔ اس نے کئی بار مجھے ایسی دوائوں کے انجکشن بھی لگائے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ انسان سے سچ بلوانے اور اس کے دل کی بات اگلوانے میں مدد دیتی ہیں۔ اس نے کئی بار مجھ پر سچ و جھوٹ کی نشاندہی کرنے والا آلہ بھی استعمال کیا جسے پولی گراف کہا جاتا ہے۔
طویل مطالعے اور مشاہدے کے بعد ماہر نفسیات نے جو رپورٹ مرتب کی، اس میں بے شمار لمبی چوڑی عالمانہ باتوں کے ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ یہ آدمی بنیادی طور پر مجرم نہیں ہے۔ اس میں مجرمانہ رجحانات نہیں ہیں۔ یہ روایتی قسم کے مجرموں والی ذہنیت بالکل نہیں رکھتا۔
نیویارک کے ایک پولیس آفیسر نے مجھے پکڑنے میں سب سے زیادہ محنت اور بھاگ دوڑ کی تھی۔ اس نے جب یہ رپورٹ پڑھی تو غصے سے اس کے نتھنے پھولنے پچکنے لگے۔ وہ رپورٹ کو میز پر پٹختے ہوئے بولا۔ ’’نفسیات کا یہ ڈاکٹر کیا ہمارے ساتھ مذاق کرنے کی کوشش کررہا ہے؟ جس بہروپیئے، جعلساز اور نوسرباز نے کئی سو بینکوں کو چونا لگایا۔ دنیا کے آدھے ہوٹلوں پر اس طرح ہاتھ پھیرا کہ صرف بستروں کی چادریں چرانے کی کسر رہ گئی۔ جس نے دنیا کی تمام ایئر لائنز اور ان کی ایئرہوسٹسوں پر ہاتھ صاف کردیا اور اتنے بوگس چیک کیش کرائے کہ اگر انہیں پینٹاگون کی دیواروں پر چپکا دیا جائے تو اس کی ساری دیواریں چھپ جائیں۔ جو کمبخت کالجوں اور یونیورسٹیوں کا مالک بن کر گھومتا رہا۔ جس نے بیس ملکوں کے آدھے پولیس والوں کو اپنے افسروں کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ جس نے تھوڑے سے عرصے میں دو ملین ڈالر بٹور لیے۔ اس کے بارے میں یہ ماہر نفسیات صاحب فرما رہے ہیں کہ یہ آدمی بنیادی طور پر مجرم نہیں ہے اور اس میں مجرمانہ رجحانات نہیں ہیں۔ اگر اس میں مجرمانہ رجحانات ہوتے تو پھر یہ کیا کرتا؟ کیا فورٹ ناکس میں موجود امریکا کے سارے سونے کے ذخائر لوٹ کر لے جاتا؟‘‘
پھر اس پولیس آفیسر نے ایک نہایت ہی ٹھنڈی سانس لے کر دردناک لہجے میں کہا ’’ان ماہرین نفسیات سے خدا ہی سمجھے گا۔‘‘
پھر وہ سراغرساں پولیس آفیسر وہ رپورٹ لے کر میرے پاس جیل میں آیا اور اسے میرے سامنے لہراتے ہوئے بولا۔ ’’لگتا ہے تم اس ماہر نفسیات کو بھی اُلّو بنانے میں کامیاب ہوگئے ہو۔‘‘
میں نے متانت اور سنجیدگی سے کہا۔ ’’ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اس نے مجھ سے جو سوال کیا، میں نے دیانتداری اور سچائی کے ساتھ اس کا جواب دیا۔ اس نے میرے لیے جو بھی ٹیسٹ تجویز کیا، وہ میں نے ایمانداری اور سعادت مندی سے دیا۔ اب اگر اس نے مجھے مجرم تسلیم نہیں کیا تو میں کیا کرسکتا ہوں؟ میرا اس میں کیا قصور ہے؟‘‘
’’تم چاہے کچھ کہو، میں بہرحال یہی کہوں گا کہ تم نے اس اُلّو کو مزید اُلّو بنایا ہے۔ لیکن تم مجھے اُلّو نہیں بنا سکتے۔‘‘ پولیس آفیسر نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ پھر وہ متاسفانہ انداز میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔ ’’تمہیں اگر موقع ملے تم اپنے باپ کو بھی اُلّو بنانے سے باز نہیں رہو گے۔‘‘
سچی بات یہ ہے کہ اپنے والد کو تو میں برسوں پہلے ہی بے وقوف بنا چکا تھا۔ یوں کہنا چاہئے کہ زندگی میں پہلی بار میں نے جو مالی فائدہ حاصل کیا تھا، وہ والد صاحب کو ہی چکر دے کر حاصل کیا تھا۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ڈیڈی کی ایک خصوصیت کو ان کی خامی کہوں یا خوبی! بہرحال وہ ان میں موجود تھی اور جن لوگوں میں یہ خصوصیت ہوتی ہے، دنیا انہیں مشکل سے ہی جینے دیتی ہے۔ عام طور پر ایسے لوگوں کی زندگی بری ہی گزرتی ہے۔ ڈیڈی تو پھر بھی خوش قسمت تھے کہ بیشتر زندگی اچھی طرح گزار گئے۔
ان کی خوبی یا خامی یہ تھی کہ وہ لوگوں پر آنکھیں بند کرکے بھروسہ کرتے تھے۔ میں بہرحال اسے خامی ہی کہوں گا۔ میں نے ان کی اس عادت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں تین ہزار چار سو ڈالر کا چونا لگایا تھا۔ میں اس وقت صرف پندرہ سال کا تھا اور یہ میری زندگی کی ہیرا پھیری کی پہلی کمائی تھی۔
میں نیویارک کے علاقے برونکس ول میں پیدا ہوا اور میں نے اپنی زندگی کے ابتدائی سولہ سال وہیں گزارے۔ میرا نام ڈیڈی نے اپنے ہی نام پر رکھا تھا۔ یہ خاصا لمبا سا نام تھا۔ فرینک ولیم ایبگ نیل۔ وہ سینئر تھے، میں جونیئر۔ میں نے زندگی میں کتنے ہی نام بدلے لیکن میں بہرحال اپنے اصل نام کا کوئی نہ کوئی حصہ اس میں ضرور شامل رکھتا تھا۔ اس میں ایک مصلحت یہ بھی تھی کہ نام یاد رکھنے میں آسانی رہے۔ اندیشہ رہتا تھا کہ کہیں میں اپنا رکھا ہوا تازہ ترین نام خود ہی نہ بھول جائوں۔
میں اپنے والدین کے چار بچوں میں تیسرے نمبر پر تھا۔ اگر میں اپنی مجرمانہ سی زندگی کے لیے جواز گھڑنا چاہوں اور لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کرنا چاہوں تو کہہ سکتا ہوں کہ میں بکھرے ہوئے گھرانے کی پیداوار ہوں اور میرے والدین کے شکستہ رشتے نے میری نفسیات میں پیچیدگیاں پیدا کردی تھیں جس کی وجہ سے میرے رجحانات متاثر ہوگئے اور میرا جھکائو مجرمانہ سوچوں کی طرف ہوگیا۔
لیکن میں ایسی کوئی بات نہیں کروں گا کیونکہ میرے خیال میں یہ سچ نہیں ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں جب بارہ سال کا تھا تو میرے والدین کے درمیان علیحدگی ہوگئی تھی لیکن میں نہیں سمجھتا کہ میں نے اس بات کو کسی بڑے المیے کے طور پر لیا تھا یا اس سے میرے احساسات مجروح ہوئے تھے۔ مجھے بالکل اچھا نہیں لگے گا کہ میں اس بات کو بنیاد بنا کر لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کروں۔
درحقیقت اس علیحدگی اور اس کے بعد ہونے والی طلاق سے جو شخصیت سب سے زیادہ متاثر ہوئی اور جس کے احساسات سب سے زیادہ مجروح ہوئے، وہ میرے ڈیڈی تھے۔ وہ مما سے بہت محبت کرتے تھے۔ امریکی معاشرے میں اس قسم کی محبت کا تصور ذرا مشکل محسوس ہوتا ہے۔
میرے نانا فرانسیسی اور نانی الجزائر کی تھیں۔ یوں میری والدہ میں مغربی حسن کی چکاچوند اور مشرقی حسن کی ملاحت یکجا ہوگئی تھی۔ وہ مثالی حسن کی مالک اور بے پناہ پرکشش تھیں۔ میرے والد کی ان سے ملاقات ان دنوں ہوئی تھی جب وہ دوسری جنگ عظیم کے دوران فوجی خدمات انجام دے رہے تھے۔
ممی اس وقت صرف پندرہ سال کی تھیں جبکہ ڈیڈی اٹھائیس سال کے تھے۔ اس وقت تو شاید یہی لگا ہو کہ عمروں کا یہ فرق کوئی معنی نہیں رکھتا لیکن میرا خیال ہے بعد میں میرے والدین کے درمیان علیحدگی اور پھر طلاق میں اس فرق کا کچھ نہ کچھ دخل ضرور رہا ہوگا۔
دوسری جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد ڈیڈی فوج سے ڈسچارج ہوکر گھر آگئے تو انہوں نے نیویارک میں اپنا ذاتی کاروبار شروع کرلیا۔ انہوں نے اسٹیشنری کی ایک دکان کھول لی جو بڑی کامیاب رہی۔ ہم ایک بڑے سے پُرتعیش مکان میں رہتے تھے۔ ہم اگر بہت زیادہ دولت مند نہیں تھے تو تنگ دست بھی نہیں تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ اپنے بچپن اور لڑکپن میں، میں میرے دونوں بھائی اور ایک بہن کبھی کسی چیز کے لیے ترسے ہوں۔ ہمارے محدود سے ذہنوں میں اس وقت جو خواہشات سماتی تھیں، وہ پوری ہوجاتی تھیں۔
والدین کے درمیان اگر اختلافات پیدا ہوتے ہیں تو بچوں کو عام طور پر ان کا اندازہ ذرا دیر سے ہی ہوتا ہے۔ اس وقت تک وہ اختلافات سنگین ہوچکے ہوتے ہیں۔ کم ازکم میرے معاملے میں تو ایسا ہی ہوا۔ میرے دونوں بھائیوں اور بہن کو شاید ان اختلافات کا اس
بھی اندازہ نہیں ہوا جب مجھے اندازہ ہونے لگا تھا۔
میرا خیال ہے اختلافات کی بنیاد اس بات سے پڑی ہوگی کہ مما نے کسی نہ کسی طرح خود کو کافی حد تک ایک گھریلو عورت بنا لیا تھا۔ وہ ہماری پرورش اور گھر کے کام کاج خاصی جانفشانی سے کرتی تھیں لیکن ڈیڈی نے اپنی حیثیت صرف ایک کامیاب بزنس مین تک محدود نہیں رکھی تھی۔ انہیں سیاست کا چسکا بھی تھا۔ علاقائی سطح پر وہ ری پبلکن پارٹی کے عہدیدار تھے۔ وہ نیویارک ایتھلیٹک کلب کے ممبر اور سابق صدر بھی تھے۔ وہ اپنے سیاسی اور کاروباری دوستوں کے ساتھ بہت وقت گزارتے تھے۔ رات گئے تک کلب میں بیٹھے رہتے تھے۔
صرف یہی نہیں، وہ مچھلی کے شکار کے بھی دھتی تھے۔ مچھلی کے شکار کے لیے وہ دوردراز کے لمبے سمندری سفر پر بھی جاتے رہتے تھے۔ جہاں سے ان کی واپسی کئی کئی دن بعد ہوتی تھی۔ مما کو وہ ساتھ لے کر نہیں جاتے تھے۔ مما اس وقت سے آزادیٔ نسواں کی زبردست علمبردار تھیں جب کسی نے اس تحریک کی بنیاد بھی نہیں رکھی تھی۔ انہوں نے اپنے آپ کو گھرداری کے لیے وقف کرکے گویا ایک بڑی قربانی دی تھی اور ان کے خیال میں انہیں اس قربانی کا کوئی صلہ نہیں مل رہا تھا۔
ڈیڈی اپنے معمولات بدلنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ چنانچہ ہوا یہ کہ ایک روز وہ مچھلی کے شکار سے واپس آئے تو ان کے اپنے گھر کے تالاب کی مچھلی چھلانگ لگا کر باہر جاچکی تھی۔ مما ہم چاروں بچوں کو ساتھ لے کر ایک کشادہ اپارٹمنٹ میں منتقل ہوگئی تھیں۔ ہم بہن، بھائی حیران پریشان تھے۔ مما نے ہمیں بٹھا کر نہایت سنجیدگی سے بتایا کہ ان کا اور ڈیڈی کا ایک دوسرے کے ساتھ گزارہ بہت مشکل ہوگیا تھا اس لیے دونوں نے باہمی رضامندی سے الگ رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔
درحقیقت یہ فیصلہ صرف مما نے کیا تھا۔ بیچارے ڈیڈی کی رضا اس میں ہرگز شامل نہیں تھی۔ وہ تو اس بارے میں جان کر دم بخود رہ گئے تھے۔ انہیں یقیناً بہت صدمہ پہنچا تھا۔ انہوں نے مما کی منت کی کہ وہ گھر واپس آجائیں۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ آئندہ وہ خود کو زیادہ اچھا شوہر اور باپ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔ مچھلی کا شکار بہت کم کردیں گے اور سیاسی سرگرمیاں بالکل ترک کردیں گے۔
مما نے ان کی باتیں توجہ سے سنیں لیکن کوئی وعدہ نہیں کیا۔ معلوم نہیں ڈیڈی کو اندازہ ہوا یا نہیں لیکن مجھے کمسن ہونے کے باوجود اندازہ ہوگیا کہ ممی کا ڈیڈی کے گھر واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ انہوں نے ڈینٹل کالج میں داخلہ لے لیا اور ڈینٹل ٹیکنیشن بننے کی تربیت حاصل کرنے لگیں۔ اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ ان کا ملازمت کرنے، کیریئر بنانے اور خودمختار زندگی گزارنے کا ارادہ تھا۔
ڈیڈی نے بہرحال ہمت نہیں ہاری۔ انہیں جب بھی موقع ملتا وہ اپارٹمنٹ میں آجاتے اور مما کو منانے کی کوششیں شروع کردیتے۔ وہ کبھی ان کی منت کرتے، کبھی انہیں ہنسانے اور خوش کرنے کی کوشش کرتے، کبھی تعریف و توصیف سے ان کا دل جیتنے کی سعی کرتے۔ یہ سب کوششیں ناکام رہتیں تو کبھی کبھی ان کا ضبط جواب دے جاتا اور وہ گرج اٹھتے۔ ’’بدبخت عورت! کیا تمہیں یہ بھی احساس نہیں کہ میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں؟‘‘
مما پر اس بات کا بھی کوئی اثر نہ ہوتا۔ ڈیڈی کے معاملے میں گویا ان کا دل پتھر ہوگیا تھا۔ اس صورتحال کا ہم لڑکوں پر زیادہ اثر پڑ رہا تھا۔ سب سے زیادہ میں متاثر ہورہا تھا کیونکہ میں اپنے ڈیڈی سے سب سے زیادہ محبت کرتا تھا شاید اسی لیے ڈیڈی، مما کو واپس لانے کی مہم میں مجھے ہی استعمال کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
’’اپنی مما سے بات کرو بیٹا!‘‘ وہ مجھ سے کہتے۔ ’’اسے سمجھائو کہ ہم سب اکٹھے رہیں گے تو زیادہ خوش رہیں گے۔ اسے بتائو کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ وہ خواہ مخواہ اپنی ضد پر نہ اڑی رہے۔ میری خوشی کا نہ سہی کم ازکم بچوں کی خوشی کا ہی خیال کرلے۔‘‘
وہ میرے ہاتھ مما کے لیے تحفے بھجواتے اور مجھے پوری پوری تقریر یاد کراتے کہ میں کس طرح مما کے سامنے ان کی وکالت کروں اور کون سے الفاظ استعمال کروں جن سے ان کا دل موم ہوجائے۔
میں اپنے ڈیڈی کے لیے ایک ناکام قاصد اور پیامبر ثابت ہوا۔ میں نے اپنی دانست میں جتنی بھی ہوشیاری سے ڈیڈی کی وکالت اور پیغام رسانی کی، اتنا ہی اس کا الٹا اثر ہوا۔ میں مما کو متاثر نہیں کرسکا۔ مما کو الٹا اس بات پر غصہ آتا تھا کہ بڑوں کے اختلافات اور کشمکش میں ڈیڈی ایک بچے کو مہرے کے طور پر استعمال کررہے تھے۔ یوں مجھ سے کام لینا ڈیڈی کے حق میں مفید ثابت ہونے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوا۔ مما نے اس وقت ڈیڈی سے طلاق لے لی جب میں چودہ سال کا تھا۔
ڈیڈی اس کے بعد گویا ٹوٹ پھوٹ کر رہ گئے۔ مجھے بھی کافی مایوسی اور صدمہ ہوا کیونکہ میں واقعی دل سے چاہتا تھا کہ وہ دونوں دوبارہ اکٹھے ہوجائیں۔ بہرحال میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ڈیڈی نے زندگی میں جس عورت سے صحیح معنوں میں محبت کی، وہ مما ہی تھیں۔ 1974ء میں جب ڈیڈی کا انتقال ہوا۔ اس وقت تک وہ مما کو منانے اور دوبارہ حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے تھے۔ مما کے معاملے میں انہوں نے واقعی اپنی اَنا بالائے طاق رکھ دی تھی۔
جب عدالت کے ذریعے مما کی طلاق کی کارروائی مکمل ہوگئی تو اس فیصلے کا اختیار مجھے دے دیا گیا کہ میں ڈیڈی کے ساتھ رہوں یا مما کے ساتھ۔ میں نے ڈیڈی کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔ مما کو اس بارے میں کوئی خاص تشویش نہیں تھی کہ میں کیا فیصلہ کرتا ہوں۔ مجھ میں اس وقت جتنی عقل اور سمجھ تھی، اسے استعمال کرتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ گھر کے کم ازکم کسی ایک فرد کو ضرور ڈیڈی کے ساتھ رہنا چاہئے۔ انہیں اکیلا نہیں چھوڑ دینا چاہئے۔ مما نے میرے اس فیصلے پر کسی قسم کی خفگی یا ناگواری کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی انہیں بعد میں کبھی میرے اس فیصلے کی وجہ سے پچھتاوا محسوس ہوا۔ ڈیڈی کو البتہ شاید کبھی پچھتاوا ہوا ہو۔
نوعمری میں اکیلے ڈیڈی کے ساتھ زندگی گزارنا میرے لیے ایک بالکل مختلف تجربہ تھا۔ میرا کافی وقت ان کے ساتھ گزرتا تھا اور ان کا طرززندگی ایک بڑے بزنس مین والا تھا۔ وہ بہت زیادہ لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے تھے اور یہ نشست و برخاست اونچے درجے کے ریسٹورنٹس اور شراب خانوں میں ہوتی تھی۔ نہایت عمدہ قسم کے کھانے کھائے جاتے تھے اور نہایت اعلیٰ قسم کی شراب پی جاتی تھی۔
ڈیڈی کے حلقۂ احباب میں سیاسی لوگ بھی تھے۔ ان کے بھی کم و بیش یہی معمولات تھے۔ میں نے دیکھا ڈیڈی کے زیادہ تر کاروباری معاملات اسی قسم کی محفلوں میں طے ہوتے تھے۔ سیاسی فیصلے بھی انہی محفلوں میں کئے جاتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ جو لوگ مقامی سطح پر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے، پینے پلانے کے بعد ترنگ میں آکر وہ بڑی بڑی باتیں کرنے لگتے تھے۔ بعض لوگوں کی باتوں سے کچھ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے صدر امریکا ان سے مشورہ کئے بغیر کوئی بھی اہم قدم نہیں اٹھاتے۔
ڈیڈی کی محفلیں جاری رہتیں اور میں کچھ دور بیٹھا جوس یا ملک شیک وغیرہ سے ’’شغل‘‘ کرتا رہتا۔ شروع شروع میں، میں ڈیڈی کے پینے پلانے کی رفتار دیکھ کر پریشان ہوگیا۔ وہ بہت زیادہ پیتے تھے لیکن پھر رفتہ رفتہ یہ دیکھ کر مجھے اطمینان ہوا کہ وہ پی کر بہکتے نہیں تھے۔ نشے میں دھت یا بدمست نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی الٹی سیدھی حرکتیں کرتے تھے۔ درحقیقت ان کے حلقۂ احباب میں کوئی بھی الٹی سیدھی حرکتیں نہیں کرتا تھا اور نہ ہی کوئی پی کر آپے سے باہر ہوتا تھا۔ بس وہ سب ذرا ترنگ میں آجاتے تھے۔ شراب ڈیڈی پر زیادہ اثرانداز نہیں ہوتی تھی۔
میں ڈیڈی کا حلقۂ احباب دیکھ کر حیران ہوتا تھا۔ ان میں ہر شعبۂ زندگی کے ممتاز افراد شامل
تھے۔ اسپیشلسٹ، ڈاکٹرز، پولیس آفیسرز، مختلف یونیئنز کے صدر، ٹرانسپورٹرز، ٹھیکیدار، بڑے بڑے بزنس مین، اسٹاک بروکرز اور نہ جانے کون کون لوگ ان کے حلقۂ احباب میں تھے۔ ایک طرف اس طرح کے لوگ تھے، دوسری طرف ان کی دوستی اور شناسائی کلرکوں، ٹرک ڈرائیوروں اور ٹیکسی ڈرائیوروں سے بھی تھی۔
چھ ماہ تک ڈیڈی کے ساتھ رہ کر میں کافی ہوشیار ہوگیا۔ گو کہ میں ان کی محفلوں میں باقاعدہ شریک نہیں ہوتا تھا لیکن بہرحال قریب بیٹھا ہوتا تھا۔ ساری باتیں میرے کانوں میں پڑتی تھیں۔ تمام حرکات و سکنات میں دیکھتا تھا۔ ڈیڈی کو یقیناً احساس نہیں تھا کہ میں ان محفلوں سے کیا سیکھ رہا تھا۔ ان کی آپس کی گفتگو سے کیا کشید کررہا تھا۔ میں درحقیقت وقت سے پہلے عملی زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہ ہورہا تھا۔ لوگ جو کچھ گلی کوچوں، بازاروں اور دفتروں میں برسوں دھکے کھا کر سیکھتے ہیں۔ وہ میں خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھا سیکھ رہا تھا۔ ڈیڈی نے یقیناً ایسا نہیں سوچا ہوگا، ایسا نہیں چاہا ہوگا۔
ادھر میں نے اسکول میں بھی ذرا غیر ذمہ دار قسم کے لڑکوں کے ساتھ زیادہ گھومنا پھرنا شروع کردیا۔ وہ کچھ ایسے خطرناک یا بدمعاش قسم کے لڑکے نہیں تھے اور نہ ہی وہ کسی گینگ کے ممبر تھے۔ بس وہ اس قسم کے لڑکے تھے جن کا دھیان پڑھائی کی طرف کم اور آوارہ گردی کی طرف زیادہ ہوتا ہے۔ عام طور پر ایسے لڑکوں کے گھریلو حالات بھی مناسب نہیں ہوتے۔ فیملی میں مسئلے مسائل چل رہے ہوتے ہیں۔ باہمی رشتے ناتوں کے معاملات نارمل سطح پر نہیں ہوتے۔
شاید میں بھی انہی میں سے ایک تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ ہم جیسے بچے درحقیقت دوسروں کی توجہ چاہتے تھے۔ ان کی شخصیت میں کوئی کمی، کوئی کجی رہ جاتی تھی۔ ان کے ذہنوں میں کوئی پیاس، کوئی تشنگی ہوتی تھی شاید وہ محبت کی پیاس ہوتی تھی۔ توجہ کی تشنگی ہوتی تھی۔ شاید یہی پیاس، یہی تشنگی دور کرنے کے لیے ہم الٹی سیدھی حرکتیں کرتے تھے۔
شاید میرے لاشعور کے کسی بہت ہی تاریک گوشے میں یہ مبہم سا خیال بھی جاگزیں رہا ہو کہ اگر میں ایک ’’بگڑا ہوا بچہ‘‘ کہلانے لگا تو میری ماں کو احساس ہو کہ رشتے ناتوں کی توڑ پھوڑ کا یہ نتیجہ نکل رہا ہے اور اس کے بعد شاید میرے والدین کے درمیان صلح اور ملاپ کی کوئی صورت نکل آئے۔
بہرحال نفسیات کے گورکھ دھندے اپنی جگہ سہی۔ ان کے بارے میں، میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن ایک بات کا مجھے واضح طور پر احساس ہوتا تھا کہ اپنے آوارہ گرد دوستوں کے ساتھ مل کر میں جو حرکتیں کرتا تھا، وہ مجھے نہایت بچکانہ اور احمقانہ لگتی تھیں۔ مثلاً کسی دکان سے چاکلیٹ اڑا لینا۔ کوئی اور چھوٹی موٹی چیز پار کرلینا یا آنکھ بچا کر سنیما ہال میں بغیر ٹکٹ گھس جانا۔
یہ سب حرکتیں مجھے اپنی ذہنی سطح سے کچھ کمتر لگتی تھیں۔ میں خود کو نہ صرف ذہنی طور پر پختہ محسوس کرتا تھا بلکہ جسمانی طور پر بھی اپنی عمر کے مقابلے میں خاصا آگے جارہا تھا۔ پندرہ سال کی عمر میں میرا قد چھ فٹ اور وزن 170؍پونڈ تھا۔ ہمارا ٹولہ بعض الٹی سیدھی حرکتوں پر اس لیے بھی پکڑے جانے سے بچ جاتا تھا کہ لوگ مجھے اپنے دوستوں کے ساتھ دیکھ کر سمجھتے تھے شاید کوئی ٹیچر اپنے شاگردوں کو کسی تفریحی ٹور پر لے کر نکلا ہے یا کوئی نوجوان اپنے چھوٹے بھائیوں کو گھما پھرا رہا ہے۔ چنانچہ ایک ’’بڑے‘‘ کو چھوٹوں کے ساتھ دیکھ کر لوگ ہم پر نظر رکھنے یا ہماری طرف سے زیادہ خبردار رہنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے۔ کبھی کبھی میں خود بھی ایسا ہی محسوس کرتا تھا اور اپنے ساتھیوں کی بچکانہ حرکتوں پر مجھے غصہ آتا تھا۔
اپنے ساتھیوں کی ایک اور بات جو مجھے بہت کھٹکتی تھی۔ وہ یہ تھی کہ ان کا کوئی معیار یا منفرد اسٹائل نہیں تھا۔ مجھے نوعمری میں ہی اس بات کا احساس ہوا تھا کہ کسی بھی معاملے میں اگر آپ کا معیار بلند ہو، آپ کی سوچ اونچی ہو، اس سے دوسروں میں مرعوبیت پیدا ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ برائی، گناہ یا جرم کے معاملے میں بھی اگر آپ کا معیار اونچا، آپ کا اسٹائل منفرد اور آپ کی نظر بلند ہو تو آپ کو ملامت کرنے یا سزا دینے والے لوگوں کے انداز میں نرمی آجاتی ہے جبکہ معمولی درجے کے عام سے مجرم یا گناہگار کے بارے میں لوگوں کا رویہ بہت سخت اور حقارت بھرا ہوتا ہے۔ موقع ملے تو راہ چلتا آدمی بھی اس بے چارے کو ایک آدھ جھانپڑ رسید کردیتا ہے۔
میرے ساتھیوں کو چھوٹے موٹے جرائم کا بھی سلیقہ نہیں تھا۔ وہ ایک کار بھی ڈھنگ سے نہیں چرا سکتے تھے۔ پہلی بار انہوں نے ایک کار چرائی تو اسے لے کر سیدھا میرے گھر آگئے۔ ابھی ہم اس میں بیٹھ کر ایک میل دور بھی نہیں گئے تھے کہ پولیس کی ایک گاڑی نے ہماری گاڑی کے آگے آکر ہمیں روک لیا۔ کچھ دیر بعد مجھے پتا چلا کہ ان گدھوں نے وہ کار ایک مکان کے ڈرائیو وے سے چرائی تھی جبکہ اس کا مالک سامنے ہی اپنے لان میں پودوں کو پانی دے رہا تھا۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ وہ کتنے عقلمند تھے۔ ہم سب کمسن مجرموں کی اصلاحی جیل پہنچ گئے جو شہر کے نواح میں تھی اور ’’جووینائل ہلٹن‘‘ کہلاتی تھی۔
ڈیڈی نے مجھے نہ صرف وہاں سے نکلوایا بلکہ اس واقعے کے سارے ریکارڈ سے میرا نام بھی کسی نہ کسی طرح خارج کرایا۔ انہیں میرے مستقبل کی فکر تھی۔ اس قسم کے واقعات آگے چل کر زندگی کے کسی موڑ پر بڑی شرمساری کا باعث بن جاتے ہیں۔ ڈیڈی سیاست میں ہونے کی وجہ سے ان باتوں کو بہت اہمیت دیتے تھے اور ان معاملات میں بہت ہی محتاط تھے۔ مجھے چھڑانے اور میرا نام ریکارڈ سے حذف کرانے کے لیے انہوں نے جو پاپڑ بیلے، ان کی وجہ سے بہت سے پولیس والوں کی نیندیں کئی راتوں تک حرام رہی ہوں گی۔
تاہم مجھ پر اس سلسلے میں ڈیڈی نے زیادہ لعن طعن نہیں کی اور نہ ہی وہ مجھ پر گرجے برسے۔ انہوں نے نرم لہجے میں صرف اتنا کہا۔ ’’غلطیاں سب سے ہوتی ہیں لیکن کوشش کرنا کہ اس قسم کی غلطی تم سے آئندہ نہ ہونے پائے۔ مجھے معلوم ہے کم عمر لڑکے اس قسم کی حرکتیں کرکے دراصل اپنے ہونے کا احساس دلانا چاہتے ہیں۔ وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اب بڑے ہوگئے ہیں لیکن یہ حرکتیں بڑوں والی نہیں، بچوں والی ہیں اور وہ بھی ایسے بچوں والی جن میں عقل نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہوتی۔ قانون کے حساب سے تم ابھی بچوں میں ہی شامل ہو لیکن جسامت کے لحاظ سے تم پورے مرد ہوگئے ہو، اس لیے اب مردوں ہی کی طرح سوچنے کی کوشش کیا کرو، بچوں کی طرح نہیں۔‘‘
میں نے ڈیڈی کی نصیحت پر کافی حد تک عمل کیا۔ اپنے احمق قسم کے دوستوں کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اسکول باقاعدگی سے جانے لگا اور ایک گودام میں شپنگ کلرک کے طور پر پارٹ ٹائم ملازمت بھی شروع کردی۔ ڈیڈی یہ سب دیکھ کر اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے مجھے ایک سیکنڈ ہینڈ فورڈ کار دلا دی۔ یہ کار تھی تو پرانی لیکن بہت عمدہ حالت میں تھی۔ میں نے اسے اور بھی عمدہ بنا لیا۔ وہ اتنی شاندار ہوگئی کہ لڑکیاں مجھے اس میں بیٹھے دیکھتیں تو فوراً مسکراہٹیں نچھاور کرنے لگتیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ مجھے بگاڑنے میں اس فورڈ نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ وہ گویا میری آئندہ زندگی کی تمامتر بے راہ روی کا نقطۂ آغاز تھی۔ فورڈ نے وہ ماڈل تیار کرکے بڑا ستم کیا تھا۔ اس میں کوئی ایسی بات تھی کہ لڑکیاں اسے دیکھتے ہی تمام تکلفات کو بالائے طاق رکھ دیتی تھیں۔ اس گاڑی کی وجہ سے لڑکیوں سے میری دوستی کا سلسلہ شروع ہوا اور ایسا شروع ہوا کہ مجھے اپنی خبر نہ رہی۔ چھ سال تک میرے حواس ٹھکانے نہیں آئے۔ یہ چھ سال میری زندگی کے انتہائی خوبصورت اور ناقابل فراموش سال تھے۔
اس میں شک
کہ انسان کی جوانی کا دور خاصا طویل ہوتا ہے اور اس دور کے اندر بھی کئی دور ایسے آتے ہیں جب اس کی عقل اور شعور پر خواہشیں غالب رہتی ہیں۔ شباب کا منہ زور گھوڑا ہر دلیل اور منطق کو روندتا ہوا انجانی منزلوں کی طرف سرپٹ دوڑتا ہے لیکن پھر بھی اس دور کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ جب آدمی لڑکپن کی دہلیز پار کرکے جوانی کی حدود میں قدم رکھتا ہے جو اس سے پہلے اس کے لیے ایک پراسرار دنیا ہوتی ہے۔
پندرہ سال کی عمر تک میری لڑکیوں سے دوستی تو شروع ہوگئی تھی اور میں ان میں ایک عجیب اور ناقابل فہم سی کشش بھی محسوس کرتا تھا لیکن بہرحال ان کی حیثیت میرے لیے ایک پراسرار جزیرے کی سی تھی۔ نسوانیت کی دنیا میں مجھے رنگینی محسوس ہوتی تھی لیکن میں اس کے بھید بھائو سے ناآشنا تھا۔
پھر ایک روز میں نے ایک سگنل پر گاڑی روکی تو ایک لڑکی مجھے فٹ پاتھ پر کھڑی نظر آئی۔ وہ سروقد تھی اور اس کی جسمانی ساخت بھرپور تھی۔ اس نے مجھے اپنی طرف متوجہ دیکھا تو کچھ ایسے انداز میں مسکرائی اور کچھ اس طرح حرکت میں آئی کہ میری کھوپڑی بھک سے اڑ گئی۔ وہ میری گاڑی میں آبیٹھی اور پھر برسوں کا سفر لمحوں میں طے ہوگیا۔ سارے معمے حل ہوگئے اور پھر اس دن سے لڑکیوں سے دوستی ہی میری سب سے بڑی برائی اور سب سے بڑی کمزوری بن گئی۔
میرے دماغ میں ہر وقت لڑکیوں ہی کا خیال رہتا۔ ان کی قربت سے میرا کبھی دل نہ بھرتا۔ میں کبھی ان سے بیزار نہ ہوتا۔ رات کو میں ان کے بارے میں سوچتے ہوئے سوتا اور صبح اٹھتے ہی پھر ان کے بارے میں سوچنا شروع کردیتا۔ بعض فلموں میں دکھائے جانے والے پلے بوائے کے کردار میرے سامنے کچھ نہیں تھے۔ لڑکیاں جتنی ذہین، فطین، شاطر، چالاک اور تیز طرار ہوتیں، اتنی ہی مجھے زیادہ اچھی لگتیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ لڑکیوں سے دوستی کوئی سستا مشغلہ نہیں ہے۔ خاص طور پر جب آپ بیک وقت بہت سی لڑکیوں سے دوستی رکھنے کی کوشش کریں۔ وہ لڑکیاں خواہ آپ سے پیسہ نہ ٹھگتی ہوں لیکن آپ انہیں ادھر ادھر گھمانے، سیر و تفریح کرانے اور کھلانے پلانے تو لے جاتے ہیں۔ تھوڑی بہت میزبانی تو کرنی ہی پڑتی ہے۔
جلد ہی مجھے اپنا ہاتھ تنگ محسوس ہونے لگا۔ میرے مالی وسائل میرے مشاغل کا ساتھ نہیں دے سکتے تھے۔ مجھے احساس ہوا کہ کسی طرح مجھے اپنے مالی وسائل میں اضافہ کرنا ہوگا۔ کافی سوچ بچار کے بعد بھی جب کوئی راستہ دکھائی نہ دیا تو میں نے ڈیڈی سے ہی رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ لڑکیوں میں میری دلچسپی اور میری مصروفیات سے اچھی طرح واقف ہوچکے تھے۔
ایک روز میں نے تمہید باندھی۔ ’’ڈیڈ! آپ نے یہ مجھ پر بڑی مہربانی کی تھی کہ مجھے گاڑی خرید دی تھی۔ اب یہ اچھا نہیں لگتا کہ آپ کو مزید زحمت دوں لیکن کیا کروں گاڑی کی وجہ سے میرے اخراجات بہت بڑھ گئے ہیں۔ اسکول میں دوپہر کا کھانا کھانے، مختلف کھیلوں میں حصہ لینے اور دوستوں کے ساتھ سیروتفریح میں کافی پیسے خرچ ہوجاتے ہیں۔ پارٹ ٹائم نوکری سے جو تنخواہ ملتی ہے، وہ مہینہ پورا ہونے سے کافی پہلے ختم ہوجاتی ہے۔‘‘
میں نے ایک لمحے کے لیے خاموش ہوکر گہری سانس لی۔ پھر اصل موضوع کی طرف آیا۔ ’’کبھی کبھی تو میرے پاس گاڑی میں پیٹرول ڈلوانے کے لیے بھی پیسے نہیں ہوتے۔ اگر مجھے گیس کمپنی کا ایک کریڈٹ کارڈ مل جائے تو بہت اچھا ہو۔ میں کوشش کروں گا کہ جب کریڈٹ کارڈ کا بل آئے تو وہ خود ہی ادا کروں اور میں یہ وعدہ بھی کرتا ہوں کہ اگر مجھے یہ سہولت مل گئی تو میں اس کا ناجائز استعمال نہیں کروں گا۔‘‘
میں اس وقت کسی ایسے چالاک دکاندار کی طرح لفاظی کررہا تھا جو اپنی کوئی ناقص چیز بیچنے کی پوری پوری کوشش کررہا ہو لیکن ایسی بھی بات نہیں ہے کہ میرا ارادہ ڈیڈی کو چکر دینے کا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ میں کسی حد تک خلوص نیت سے یہ سب کہہ رہا تھا۔ (جاری ہے)