ڈپازٹ سلپ کو ذرا غور سے دیکھنے کے بعد میں اس خوبصورت کیشیئر لڑکی کو دیکھنا بھول گیا جس کی خاطر میں آج بلاضرورت بینک آیا تھا۔ دراصل میں نے آج غور کیا تھا کہ مجھ سمیت جو لوگ بھی ڈپازٹ سلپ پرُ کرتے تھے، وہ اس میں اپنا نام تو لکھ دیتے تھے لیکن اپنا اکائونٹ نمبر نہیں لکھتے تھے حالانکہ اس کے لئے بھی سلپ میں خانہ بنا ہوا تھا۔ دراصل دونوں میں سے ایک چیز لکھنا ضروری ہوتا تھا گو کہ دونوں چیزیں لکھنا بہتر ہوتا تھا لیکن تن آسانی کی وجہ سے زیادہ تر لوگ صرف نام ہی لکھ دینا کافی سمجھتے تھے۔
یہ سلپ ایک کمپیوٹرائزڈ مشین میں جاتی تھی، وہ مشین پہلے اس پر اکائونٹ نمبر ’’دیکھتی‘‘ تھی اگر نمبر موجود ہوتا تو فوراً رقم اسی اکائونٹ نمبر میں جمع ہو جاتی لیکن اگر نمبر موجود نہیں ہوتا تو مشین پھر نام ’’پڑھتی‘‘ تھی، اس نام کی مناسبت سے مشین خودبخود اس شخص کا اکائونٹ نمبر تلاش کر لیتی تھی چنانچہ نمبر بہت زیادہ ضروری نہیں تھا، اس کے بغیر بھی مشین سے ہی مہر لگ کر رسید مل جاتی تھی۔
میں نے اپنے قریب ہی کھڑے ایک شخص کو ڈپازٹ سلپ پر کرتے دیکھا، اس نے بھی اپنا اکائونٹ نمبر نہیں لکھا تھا۔ اس کے بعد میں تقریباً ایک گھنٹہ بینک میں موجود رہا اور کن انکھیوں سے ہر اس شخص کا جائزہ لیتا رہا جو اپنے اکائونٹ میں کچھ رقم جمع کرانے کے لئے ڈپازٹ سلپ بھر رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ کوئی بھی اپنا اکائونٹ نمبر نہیں لکھتا تھا، شاید کسی کو اپنا اکائونٹ نمبر یاد بھی نہ ہوتا ہو۔
میرے ذہن میں ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح لپکا اور میں خوبصورت کیشیئر لڑکی کو بالکل بھول گیا۔ میں نے ڈپازٹ سلپوں کی ایک گڈی اٹھا کر جیب میں رکھی اور گھر واپس آ گیا۔ میرے پاس وہ مہر تھی جس میں کئی طرح کے ٹائپ میں ہندسے اور حروف سیٹ کئے جا سکتے تھے اور اسے دبا کر چھاپنے کے سے انداز میں کاغذ پر نمبر یا الفاظ منتقل کئے جا سکتے تھے۔
میں نے ڈپازٹ سلپ کا جائزہ لیا اور اسی سے ملتا جلتا ٹائپ منتخب کر کے اکائونٹ نمبر والے خانے میں اپنے اکائونٹ کا نمبر پرنٹ کر دیا۔ میں نے سلپ کا دوبارہ جائزہ لیا۔ سرسری نظر میں اندازہ ہی نہیں ہو رہا تھا کہ ڈپازٹ سلپ میں کوئی خانہ پر کیا گیا تھا، وہ اب بھی سادہ ڈپازٹ سلپ ہی لگ رہی تھی۔ اس نمونے سے مطمئن ہونے کے بعد میں نے تمام سلپوں پر اپنا اکائونٹ نمبر پرنٹ کر دیا۔
دوسرے روز میں ایک بار پھر بینک پہنچا اور نظر بچا کر ڈپازٹ سلپوں کی وہ مخصوص گڈی اسی خانے میں سب سے اوپر رکھ دی جہاں اور بھی ڈپازٹ سلپیں رکھی ہوئی تھیں، ابھی میں یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ میرا منصوبہ کامیاب ہو گا یا نہیں لیکن کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔
چار دن بعد میں ایک بار پھر بینک پہنچا، میں نے اپنے اکائونٹ میں ڈھائی سو ڈالر جمع کرائے اور سرسری سے لہجے میں کہا۔ ’’ذرا میرا بیلنس بھی بتا دینا۔‘‘
کیشیئر نے اکائونٹینٹ سے پوچھ کر بتایا۔ ’’آپ نے یہ ڈھائی سو ڈالر جمع کرائے ہیں، ان سمیت آپ کے اکائونٹ میں باسٹھ ہزار آٹھ سو چھبیس ڈالر ہو گئے مسٹر ولیم!‘‘
درحقیقت میں نے اس اکائونٹ میں صرف ساڑھے سات سو ڈالر جمع کرائے تھے، باسٹھ ہزار ڈالر سے زائد رقم اس اکائونٹ میں موجود ہونے کا مطلب یہ تھا کہ میرا تجربہ کامیاب رہا تھا، نہ جانے کتنے لوگ اپنی دانست میں اپنے اکائونٹ میں رقم جمع کرا کے گئے ہوں گے لیکن وہ میری ترکیب کی بدولت میرے اکائونٹ میں پہنچ گئی تھی۔ میرا دل خوشی سے جھوم اٹھا تھا لیکن میں نے اپنے تاثرات میں کوئی تبدیلی نہ آنے دی اور صرف سر کو ہلکی سی جنبش دے کر بینک سے نکل آیا۔
شام کو بینک بند ہونے سے پہلے میں ایک بار پھر وہاں پہنچا اور اپنے اکائونٹ سے ساٹھ ہزار ڈالر نکلوا لئے۔ رقم ذرا بڑی تھی اس لئے میں نے کسی کے تجسس میں مبتلا ہونے سے پہلے خود ہی گویا صفائی پیش کر دی۔ ’’میں ایک مکان خرید رہا ہوں۔‘‘ میں نے رقم لیتے وقت مسکراتے ہوئے کیشیئر کو بتایا۔ اس بیچاری نے میرے لئے نیک تمنائوں کا اظہار کیا۔
ظاہر ہے مجھے کوئی گھر نہیں خریدنا تھا، الٹا میں نے تو اپنا کرائے کا گھر بھی چھوڑ دیا اور دوسرے ہی روز ہوائی روانہ ہو گیا۔ جب میں کوئی بڑا ہاتھ مارنے میں کامیاب ہو جاتا تھا تو چند دن نہایت عیش و آرام سے گزارنا اپنا حق سمجھتا تھا۔ جزائر ہوائی کی لڑکیوں نے کھلے بازوئوں کے ساتھ میرا والہانہ استقبال کیا۔ وہ مجھ جیسے نوجوانوں کی بے تابی سے منتظر رہتی تھیں جن کی جیب میں رقم اور جذبوں میں حرارت ہوتی تھی اور جو یادگار وقت گزارنے کے ارادے سے ان جزائر کا رخ کرتے تھے۔
میں نے ہوائی کے علاوہ جزائر موائی اور کوائی میں بھی وقت گزارا لیکن میں ایک ’’فرض شناس‘‘ جعل ساز تھا۔ عیش و آرام کے دنوں میں بھی اپنے کام سے غفلت نہیں برتتا تھا، ان جزائر پر سنہرے لمحات گزارتے ہوئے بھی میں یہاں کے ہوٹلوں اور بینکوں سے اپنا خراج وصول کرنا نہیں بھولا۔ ان سب جگہوں سے میں نے اپنے جعلی چیکوں کے ذریعے تقریباً ساٹھ ہزار ڈالر بٹور لئے، اس کے بعد میں نیویارک کی طرف پرواز کر گیا۔
گھر سے بھاگنے کے بعد میں پہلی مرتبہ نیویارک آیا تھا۔ میرا دل چاہا کہ ممی اور ڈیڈی سے ملوں یا کم از کم انہیں فون کر لوں لیکن پھر میں نے اپنی اس جذباتی خواہش پر قابو پا لیا۔ یہ درست تھا کہ میں کافی دولت جمع کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا لیکن مجھے معلوم تھا کہ میری ممی اور ڈیڈی میری یہ خوشحالی دیکھ کر ہرگز خوش نہیں ہوں گے کیونکہ یہ سب ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی دولت تھی۔ ممی اور ڈیڈی دونوں ہی کی نظر میں کامیابی کے معیار اس قسم کے ہرگز نہیں تھے، نہ جانے وہ مجھ سے کس طرح پیش آتے۔
میں نے نیویارک میں زیادہ دنوں قیام نہیں کیا اور ایک بینک میں اکائونٹ کھلوا کر بہت سے چیک وصول کرنے کے بعد فلاڈلفیا کی طرف پرواز کر گیا۔ یہ اکائونٹ میں نے فرینک ایڈم کے نام سے کھلوایا تھا۔ میرے ذہن میں لمبا ہاتھ مارنے کا ایک اور منصوبہ آیا تھا، میں اب ذرا مختلف انداز میں قسمت آزمائی کرنا چاہتا تھا۔
فلاڈلفیا میں، میں نے ایک بینک تاڑا جس کی بیرونی دیوار کا بیشتر حصہ شیشے کا تھا۔ بینک کے کئی آفیسرز کی میزیں شیشے کی دیوار کے ساتھ لگی ہوئی تھیں اور وہ بینک میں آنے والے زیادہ تر لوگوں کو باہر سے ہی دیکھ لیتے تھے۔
دوسرے روز میں نہایت شاندار سوٹ اور قیمتی جوتے پہن کر ہاتھ میں ایک نفیس بریف کیس تھام کر رولز رائس میں وہاں پہنچا جسے ایک باوردی ڈرائیور چلا رہا تھا۔ یہ دوسری بات تھی کہ رولز رائس کرائے کی تھی اور ڈرائیور کی خدمات عارضی طور پر حاصل کی گئی تھیں۔ میں نے گاڑی سے اترتے وقت دیکھ لیا کہ بینک کے اندر بیٹھا ہوا ایک افسر میری طرف متوجہ ہو چکا تھا۔ اس نے شان و شوکت سے بھرپور میری آمد کا نظارہ دیکھ لیا تھا۔ میں بینک میں داخل ہو کر سیدھا اسی کے پاس پہنچا۔
’’گڈ مارننگ…!‘‘ میں نے اس کے مقابل کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے مستعدی سے کہا۔ ’’میرا نام فرینک ایڈم ہے، نیویارک میں ’’ایڈمز کنسٹرکشن کمپنی‘‘ کے نام سے میرا کاروبار ہے، مجھے یہاں تین پراجیکٹس تعمیر کرنے کا کام ملا ہے جو مجھے اسی سال مکمل کرنے ہیں، اس مقصد کے لئے مجھے کچھ سرمایہ نیویارک سے یہاں منتقل کرنا پڑے گا اس لئے میں آپ کے بینک میں اکائونٹ کھولنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ضرور… ضرور مسٹر ایڈم!‘‘ آفیسر نے اپنی میز سے کچھ فارم اٹھاتے ہوئے پرجوش لہجے میں کہا۔ ’’آپ کیا اپنا تمام سرمایہ یہاں
منتقل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟‘‘
’’میں اپنی ذاتی رقم تو ساری کی ساری یہاں منتقل کرنا چاہتا ہوں البتہ کمپنی کے سرمائے کے بارے میں فیصلہ بعد میں ہو گا اس کے لئے میں پہلے تینوں پراجیکٹس کا اچھی طرح جائزہ لوں گا، فی الحال میں اسی مقصد کے لئے یہاں آیا ہوں۔ ویسے ہمیں ہر صورت میں کافی سرمایہ یہاں منتقل کرنا ہے۔‘‘
’’دیکھئے… اپنی ذاتی رقم یہاں منتقل کرنے کے لئے آپ کو صرف یہ کرنا ہو گا کہ آپ کے نیویارک والے اکائونٹ میں جتنی رقم موجود ہے، اتنی رقم کا چیک لکھ کر مجھے دے دیں اس سے آپ کا نیویارک والا اکائونٹ بند ہو جائے گا۔‘‘
’’اچھا…؟‘‘ میں نے قدرے حیرت کا اظہار کیا۔ ’’مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ اتنا آسان کام ہے۔‘‘
میں نے اپنی چیک بک نکالی اور اسے اس طرح کھولا کہ وہ اوپری چیک یا اس کے ساتھ جڑے ہوئے حصے کو نہ دیکھ سکے۔ میں چیک بک کو دیکھتے ہوئے انگلیوں پر حساب کرنے لگا اور کچھ بڑبڑانے لگا پھر میں نے بینک آفیسر کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’ذرا دیر کے لئے مجھے کوئی کیلکولیٹر مل جائے گا؟ دراصل میں نے اپنے اکائونٹ میں کچھ چیک جمع کرائے تھے جن کا اندراج اس چیک بک میں نہیں ہے اور زبانی حساب کتاب کرنے میں، میں ذرا کمزور ہوں۔‘‘
’’ضرور… ضرور…!‘‘ اس نے ایک بار پھر خوش خلقی سے باچھیں پھیلاتے ہوئے کہا اور کیلکولیٹر کا رخ میری طرف موڑ دیا۔ اس زمانے میں ذرا بڑے بڑے کیلکولیٹر آتے تھے۔
میں نے کیلکولیٹر پر چند لمحے حساب کیا پھر تفہیمی انداز میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں… ٹھیک ہے… یہ چونتیس ہزار آٹھ سو پچھتر ڈالر بنتے ہیں، میں تیس ہزار ڈالر کا چیک لکھ دیتا ہوں، میرا خیال ہے نیویارک والا اکائونٹ ختم نہ کیا جائے تو بہتر ہے، میرا وہاں آنا جانا تو رہے گا، تھوڑی بہت رقم وہاں کے اکائونٹ میں بھی ہونی چاہئے، کبھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔‘‘
بینک آفیسر نے فوراً میری تائید میں سر ہلایا۔ میں نے تیس ہزار ڈالر کا چیک لکھ دیا اور اکائونٹ کھولنے کے لئے جو ضروری معلومات درکار تھیں، وہ میں نے زبانی دے دیں۔ اس نے خود ہی میرا فارم پرُ کیا۔ ایڈریس میں نے اس ہوٹل کا دیا جہاں میں ٹھہرا ہوا تھا۔
’’اب میں کسی اچھے اپارٹمنٹ یا مکان کی تلاش شروع کروں گا۔ جب تک نہیں ملتا تب تک میں ہوٹل میں رہوں گا۔‘‘ میں نے ساتھ ہی وضاحت کی۔
نوجوان بینک آفیسر تفہیمی انداز میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔ ’’مسٹر ایڈم! میرا خیال ہے مجھے آپ کو یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ آپ اس وقت تک یہاں کے بینک اکائونٹ کا چیک کاٹ کر کسی کو نہیں دے سکتے جب تک آپ کا یہ چیک نیویارک سے کلیئر ہو کر نہ آ جائے، اس میں چار پانچ دن لگیں گے اس دوران اگر آپ کو کچھ رقم کی ضرورت پڑ جائے تو میرے پاس آ جایئے گا میں کوئی نہ کوئی بندوبست کر دوں گا۔ ایسے موقع کے لئے میں آپ کو چند عارضی چیک دے دیتا ہوں۔‘‘
میں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’ان کی ضرورت نہیں، مجھے اندازہ تھا کہ رقم کی منتقلی میں اتنے دن تو لگ ہی جائیں گے، میرے پاس اپنی ضروریات کے لئے معقول رقم موجود ہے۔‘‘
میں نے اس کا شکریہ ادا کیا، اس سے ہاتھ ملایا اور باہر آ گیا۔
اسی رات میں میامی کی طرف پرواز کر گیا۔ دوسرے روز شام کے وقت میں وہاں بھی ایک ایسے بینک کے سامنے رولز رائس میں پہنچا جس کی بیرونی دیوار شیشے کی تھی فرق صرف یہ تھا کہ اس بار گاڑی میں خود چلا رہا تھا۔ گزشتہ روز کی طرح آج بھی میں نہایت شاندار اور قیمتی لباس میں تھا۔
بینک میں داخل ہوتے وقت میں نے گھڑی دیکھی۔ مجھے اندازہ ہوا کہ فلاڈلفیا کے جس بینک میں ،میں نے اکائونٹ کھلوایا تھا وہ ابھی آدھے گھنٹے تک کھلا رہے گا۔ لابی میں ایک نہایت خوش لباس، خوبصورت اور پرکشش عورت نے آگے بڑھ کر میرا استقبال کیا۔ میں باہر سے دیکھ چکا تھا کہ اس نے مجھے آتے ہوئے اور گاڑی سے اترتے ہوئے دیکھا تھا۔
’’کیا میں آپ کی کچھ مدد کر سکتی ہوں؟‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ قریب سے دیکھنے پر اندازہ ہوا کہ وہ اس سے زیادہ عمر کی تھی جتنی میں اسے باہر سے دیکھ کر سمجھا تھا لیکن بہرحال وہ جاذب نظر شخصیت کی مالک تھی۔
’’ہاں… میرا خیال ہے کہ کر تو سکتی ہیں۔‘‘ میں نے بھی جواباً مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ منیجر سے ملوں تو بہتر ہوگا۔‘‘
اس کی آنکھوں میں شرارت آمیز سی چمک ابھری اور مسکراہٹ گہری ہو گئی۔
’’میں ہی منیجر ہوں۔‘‘ وہ اسی شیریں لہجے میں بولی۔ ’’فرمایئے کیا کام ہے؟ مجھے یقین ہے آپ بینک سے قرضہ لینے نہیں آئے ہوں گے۔‘‘
’’نہیں… نہیں… ہرگز نہیں…!‘‘ میں نے جلدی سے یوں ہاتھ اٹھایا جیسے میرے لئے یہ تصور بھی شرمناک ہو۔ ’’میرا مسئلہ کچھ اور ہے۔ میرا نام فرینک ایڈم ہے اور میں فلاڈلفیا کا رہنے والا ہوں۔ برسوں سے میں میامی میں کوئی ایسا مکان تلاش کر رہا تھا جس میں تعطیلات گزاری جا سکیں۔ آج اتفاق سے ایک بوٹ پر بنا ہوا اور کھاڑی میں تیرتا ہوا ایک چھوٹا سا خوبصورت مکان برائے فروخت نظر آیا جس کی قیمت بھی معقول ہے۔ میرے ذہن میں جس قسم کے مکان کا تصور تھا، وہ بالکل ویسا ہی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ فوری فروخت والی چیز ہے، اس کی قیمت تیس ہزار ڈالر ہے اور مالک نقد رقم مانگ رہا ہے۔ وہ میرا ذاتی چیک لینے کے لئے تیار نہیں ہے اور یہاں کسی بینک میں میرا اکائونٹ نہیں ہے، اگر میں آج شام پانچ بجے تک ادائیگی کر دوں تو مکان مجھے مل جائے گا اور میں اسے کھونا نہیں چاہتا۔‘‘
میں نے اپنے چہرے پر التجائیہ سے تاثرات لانے کی کوشش کرتے ہوئے بات جاری رکھی۔ ’’میں سوچ رہا تھا شاید یہ ممکن ہو سکے کہ میں آپ کو اپنے فلاڈلفیا والے اکائونٹ کا تیس ہزار ڈالر کا چیک لکھ دوں اور آپ مجھے اتنی رقم کا ٹریولرز چیک بنا دیں جو مالک مکان کے لئے کیش ہی کی طرح ہو گا۔‘‘ پھر ایک لمحے کے توقف سے میں نے کہا۔ ’’مجھے معلوم ہے آپ فلاڈلفیا میں میرے بینک سے تصدیق کرنا چاہیں گی کہ میرے اکائونٹ میں رقم موجود ہے یا نہیں… وہ آپ ضرور کر لیں اس کے لئے فون کال کے اخراجات میں ادا کروں گا اور کسی بھی قسم کی کوئی دوسری فیس ہو گی تو وہ بھی میرے ذمے ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ میں اس مکان کو حاصل کرنے کے لئے مرا جا رہا ہوں۔ وہ ہر لحاظ سے میرا آئیڈیل مکان ہے۔ اگر میں اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تو سال میں چھ مہینے میں یہیں گزارہ کروں گا۔‘‘ میں نے اپنے چہرے پر التجائیہ تاثرات کچھ اور گہرے کرنے کی کوشش کی۔
عورت نے پرُخیال انداز میں اپنا نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا لیا جس سے وہ کچھ اور خوبصورت معلوم ہونے لگی۔ چند سیکنڈ کی خاموشی کے بعد وہ گویا کسی فیصلے پر پہنچتے ہوئے بولی۔ ’’آپ کا فلاڈلفیا میں اکائونٹ کس بینک میں ہے اور اس کا نمبر کیا ہے؟‘‘
میں نے اسے بینک کا نام، اپنا اکائونٹ نمبر اور بینک کا فون نمبر دیا۔ وہ ایک میز پر گئی اور آپریٹر سے کہہ کر نمبر ملوانے لگی۔ بینک کا نمبر مل گیا تو اس نے اکائونٹس کے شعبے سے رابطہ کرانے کے لئے کہا۔
چند لمحے بعد وہ کسی سے مخاطب ہوئی۔ ’’مجھے یہاں مسٹرفرینک ایڈم کے اکائونٹ نمبر506 کا تیس ہزار ڈالر کا چیک دیا گیا ہے، میں تصدیق کرنا چاہتی ہوں کہ کیا اس اکائونٹ میں اتنی رقم کا چیک قبول کیا جا سکتا ہے؟‘‘
میں نے اپنی سانس روک لی۔ یہ بڑے صبرآزما اور فیصلہ کن لمحات تھے۔ اپنے تجربے کی بناپر مجھے معلوم تھا کہ بینکوں کے منیجر عموماً ہر اکائونٹ کا ایک درجہ یا اس کی ایک ’’حیثیت‘‘ مقرر کر دیتے ہیں۔ یوں سمجھیں کہ یہ اکائونٹ کی نہیں بلکہ اکائونٹ ہولڈر کی حیثیت ہوتی ہے۔ عملے کے لوگ ایک مخصوص خانے پر\
ڈال کر ہی معلوم کر لیتے ہیں کہ یہ اکائونٹ رکھنے والے کی ’’اوقات‘‘ کیا ہے۔ اسی درجہ بندی کی بنا پر فیصلہ ہوتا ہے کہ کس وقت، کس اکائونٹ کا تقریباً کتنی رقم کا چیک کیش ہو سکتا ہے۔
مجھے کافی حد تک امید تھی کہ فلاڈلفیا میں میرا کائونٹ اچھے خاصے صاحبِ حیثیت لوگوں کے درجے میں رکھا گیا ہو گا۔ میں نے اس میں تیس ہزار ڈالر کا چیک بھی جمع کرایا تھا۔ جب تک وہ کلیئر ہو کر یا پھر بائونس ہو کر واپس نہ آ جاتا، تب تک وہ بھی بہرحال میرے اکائونٹ کی ایک حیثیت متعین کر رہا تھا۔
اگر میرے یہ اندازے غلط ثابت ہوتے، میری یہ توقعات پوری نہ ہوتیں تو اچھی خاصی بے عزتی ہو سکتی تھی۔ میں نے کن انکھیوں سے دروازے کے قریب اندر کی طرف کھڑے لحیم شحیم گارڈ کا جائزہ لیا اور دل ہی دل میں دعا کی کہ وہ زیادہ خردماغ آدمی نہ ہو۔
بینک منیجر چند لمحے خاموشی سے فون پر دوسری طرف سے کچھ سنتی رہی پھر اس نے شکریہ ادا کر کے فون بند کر دیا۔ یہ دیکھ کر میرے دل کو کچھ اطمینان ہوا کہ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔
وہ اب ذرا بے تکلفانہ لہجے میں بولی۔ ’’فرینک ایڈم! میں تمہارا چیک تو قبول کر لوں گی لیکن اس کے لئے ایک شرط ہے۔‘‘
’’وہ کیا…؟‘‘ میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا۔
’’آج رات میں اپنے گھر پر ایک پارٹی دے رہی ہوں، میرے ہاں جو مہمان آئیں گے ان میں ہینڈسم اور دلکش نوجوان نہ ہونے کے برابر ہوں گے۔ میں چاہتی ہوں کہ تم اس پارٹی میں شرکت کرو تاکہ ماحول کی بے کیفی کچھ کم ہو سکے، کیا خیال ہے؟‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا۔
’’مجھے منظور ہے۔‘‘ میں نے بھی مسکراتے ہوئے فوراً جواب دیا۔ یوں گویا ایک قسم کا سودا طے پا گیا۔
میں نے اسے اپنے فلاڈلفیا والے اکائونٹ کا تیس ہزار ڈالر کا چیک لکھ دیا اور اس نے مجھے اتنی ہی مالیت کا ٹریولرز چیک دے دیا جو کیش کی طرح تھا۔ اسے کسی بھی وقت، کہیں سے بھی کیش کرایا جا سکتا تھا۔
میں نے اس رات اس خاتون کی پارٹی میں بھی شرکت کی جو ایک پرلطف تجربہ ثابت ہوا، میری زندگی کی رنگین یادوں میں کچھ اضافہ ہوگیا۔
دوسرے روز بینکوں کے کھلتے ہی میں نے ٹریولر چیک کیش کرایا۔ کرائے کی جیگویر واپس کی اور سان ڈیگو کی طرف پرواز کر گیا۔ سفر کے دوران مجھے گزشتہ رات کی پارٹی یاد آتی رہی اور میں سوچتا رہا کہ جب اس عورت کو معلوم ہو گا کہ وہ کس کس پہلو سے بے وقوف بنی ہے تو اس کا کیا حال ہو گا؟
٭ …٭ … ٭
میں ہر موقع کے لئے بینک فراڈ اور جعل سازی کا کوئی نہ کوئی منصوبہ تیار کر لیتا تھا بلکہ بعض اوقات تو میں موقعے کا بھی انتظار نہیں کرتا تھا۔ میں بس فراڈ کا ارادہ کرتا اور موقع خود بخود نکل آتا تھا۔
1967ء کے اواخر میں جب میں نے میکسیکو کی سرحد عبور کی تو میرے پاس کم و بیش ایک ملین ڈالر نقد موجود تھے۔ میں نے بینکوں کو خوب نچوڑا تھا۔ میری وجہ سے نہ جانے کتنے بینک ملازموں کی نوکریاں خطرے میں پڑی ہوں گی۔ عین ممکن ہے کچھ لوگ ملازمتوں سے نکالے بھی گئے ہوں۔
اس دور میں دراصل بینکاری کا نظام بہت سادہ تھا اور لوگوں کے لئے اسے زیادہ سے زیادہ باسہولت بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ بینک میں آنے والے ہر شخص پر گویا آنکھیں بند کر کے اعتماد کیا جاتا تھا۔ میں نے اس اعتماد اور بینکنگ کے نظام میں جو تھوڑی بہت خامیاں یا رعایتیں موجود تھیں، ان سے بھرپور فائدہ اٹھایا تھا۔ آج کے دور میں شاید میں بھی اتنے فراڈ نہ کر پاتا کیونکہ ٹیکنالوجی نے بہت ترقی کر لی ہے۔ زمانہ بہت آگے آ گیا ہے۔ رابطے کے ذرائع بہت بڑھ گئے ہیں اور بینکوں نے آنکھیں بند کر کے اپنے کلائنٹ پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا ہے۔
امریکا میں جب میں ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھاگتے بھاگتے تھک گیا اور مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ میں نے بہت سے بینکوں سے خراج وصول کر لیا ہے تو میں نے ذرا رک کر سوچا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہئے؟ مجھے یہ بھی احساس تھا کہ میں کسی وقت بھی پکڑا جا سکتا ہوں۔ میں اس حقیقت سے آنکھیں چرانا نہیں چاہتا تھا۔
ان سب باتوں کا احساس ہونے کے بعد میں نے میکسیکو کا رخ کیا۔ میری نگاہ انتخاب میکسیکو پر اس لئے پڑی تھی کہ وہاں جانے کے لئے مجھے پاسپورٹ کی ضرورت نہیں تھی، صرف ویزا درکار تھا۔ پاسپورٹ میرے پاس نہیں تھا۔ میکسیکو کا ویزا حاصل کرنا نہایت آسان تھا، وہ میں نے سان انٹونیو میں واقع میکسیکو کے قونصل خانے سے حاصل کر لیا۔ وہاں میں نے اپنا نام فرینک ولیم بتایا اور پین ایم کے پائلٹ کی حیثیت سے ہی پیش ہوا صرف یہی نہیں بلکہ میں ’’ایرو میکسیکو‘‘ کی ایک پرواز میں اپنا وہی پرانا ’’ڈیڈ ہیڈنگ‘‘ والا طریقہ استعمال کرتے ہوئے مفت میں میکسیکو سٹی پہنچا۔
تاہم میں اپنی ساری جمع پونجی ساتھ نہیں لایا۔ میں نے اپنی بیشتر رقم بہت سے حصوں میں تقسیم کر کے امریکا کے کئی ساحلی شہروں میں بینکوں ہی میں لاکرز لے کر ان میں رکھ دی تھی۔ اپنے ساتھ میں صرف ایک لاکھ ڈالر میکسیکو لایا تھا جو میرے سوٹ کیسوں اور میرے کوٹ کے استر میں پوشیدہ تھے۔ شاید کوئی کسٹم آفیسر آسانی سے یہ رقم برآمد کر لیتا لیکن پین ایم کا باوردی پائلٹ ہونے کی وجہ سے مجھے کسٹم والوں کے سامنے سے گزرنا نہیں پڑا۔
میں میکسیکو سٹی میں صرف ایک ہفتہ رہا پھر میری ملاقات پین ایم ہی کی ایک ایئرہوسٹس سے ہو گئی جو ایک ہفتے کی چھٹیاں گزارنے میکسیکو آئی ہوئی تھی۔ اس نے مجھے ویک اینڈ گزارنے کے لئے اپنے ساتھ اکاپلکو چلنے کی دعوت دی جو میں نے فوراً قبول کر لی۔ ہم ہوائی جہاز کے ذریعے اکاپلکو روانہ ہوئے۔ طیارہ ابھی فضا میں بلند ہی ہوا تھا کہ اسے جیسے کچھ یاد آیا اور وہ خود کو کوسنے لگی۔
’’کیا ہوا؟‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’مجھے ایئرپورٹ پر اپنی ہفتہ وار تنخواہ کا چیک کیش کرانا تھا مگر میں بھول گئی۔ میرے پرس میں اس وقت صرف چھ پیسو ہیں۔‘‘ پھر وہ کچھ سوچ کر پرُامید لہجے میں بولی۔ ’’میرا خیال ہے ہم اکاپلکو میں جس ہوٹل میں ٹھہریں گے وہاں بھی میرا چیک کیش ہو جائے گا۔‘‘
’’اگر وہ زیادہ بڑی رقم کا نہیں ہے تو میں اسے کیش کردوں گا۔‘‘میں نے فوراََ کہا۔
حقیقت یہ تھی کہ وہ زیادہ رقم کا ہوتا تب بھی مجھے پروا نہ ہوتی۔ اصلی پین ایم کا چیک حاصل کرنے کے لئے تو مجھے جتنی بھی رقم خرچ کرنا پڑتی اس میں کوئی نقصان نہیں تھا۔ اسے کیش کرا کے نہ صرف وہ رقم واپس مل سکتی تھی بلکہ میں اس کی مدد سے پین ایم کے مزید کتنے ہی بے عیب قسم کے چیک تیار کر کے اس سے پچاس گنا زیادہ رقم حاصل کر سکتا تھا۔
اس کا چیک صرف چار سو اٹھاسی ڈالر کا تھا۔ میں نے یہ رقم اسے دی لیکن اس چیک کو کبھی کیش نہیں کرایا۔ اس کے باوجود اس کی وجہ سے میری خوشحالی میں کافی اضافہ ہوا۔
اکاپلکو میں ہمارا ویک اینڈ نہایت اچھا گزرا۔ اکاپلکو میں چھٹیاں گزارنے دنیابھر کے دولت مند، حسین اور مشہور لوگ آتے ہیں۔ بعض میں یہ تینوں خصوصیات یکجا ہوتی ہیں ۔ان میں سے اکثر کسی نہ کسی چکر میں ہوتے ہیں یا ان کا کوئی منصوبہ زیرعمل ہوتا ہے یا پھر وہ کسی شاندار منصوبے کی تکمیل کے بعد سستا رہے ہوتے ہیں۔ ہم جس ہوٹل میں ٹھہرے وہاں ایئرلائنز کے کافی لوگوں کی آمدورفت تھی لیکن میں نے وہاں کوئی خطرہ محسوس نہیں کیا۔ اکاپلکو کچھ ایسی جگہ ہے کہ وہاں کوئی اپنے پیشے یا کاروبار کے بارے میں بات نہیں کرتا۔
ایئرہوسٹس ویک اینڈ ختم ہونے کے بعد اپنی ڈیوٹی جوائن کرنے اکاپلکو سے میامی واپس چلی گئی لیکن میں وہیں ٹھہرا رہا۔ ہوٹل میں قیام کے دوران منیجر سے میری اس حد تک دوستی ہو گئی کہ میں نے اس سے اپنے مسئلے کے بارے میں تبادلہ خیال کرنے کا فیصلہ کر
رات وہ میرے ساتھ کھانا کھانے بیٹھ گیا تو میں نے بات چھیڑ دی۔
’’میں ایک بہت بڑی مشکل میں پھنس گیا ہوں پیٹر!‘‘ میں نے کہا۔
’’چھوڑو یار! تم مشکل میں پھنسنے والے آدمی نہیں ہو۔‘‘ وہ بے پروائی سے بولا۔
’’نہیں یار…!میں واقعی ایک بڑے مسئلے سے دوچار ہوں۔ میں سنجیدگی سے بات کر رہا ہوں۔‘‘ میں نے اپنے لہجے سے فکرمندی ظاہر کرنے کی کوشش کی۔
’’اچھا…؟ کیا مسئلہ ہے؟‘‘ اب پیٹر کچھ سنجیدہ ہوا۔
’’نیویارک سے میرے سپروائزر نے مجھے فون کیا ہے کہ میں میکسیکو سٹی سے کل دوپہر کی پرواز پکڑ کے لندن پہنچوں۔ وہاں سے مجھے ایک فلائٹ لے کر جانی ہے جو کسی دوسرے پائلٹ کو لے کر جانی تھی لیکن وہ بیمار ہو گیا ہے۔‘‘ میں نے بتایا۔
’’یہ مسئلہ ہے؟ ایسے مسئلے تو اللہ سب کو دے۔‘‘ پیٹر منہ بنا کر بولا۔
’’پوری بات تو سن لو۔‘‘ میں نے کراہنے کے سے انداز میں کہا۔ ’’اصل مسئلہ یہ ہے کہ میرے پاس اس وقت اپنا پاسپورٹ موجود نہیں ہے۔ پاسپورٹ میں نیویارک میں بھول آیا ہوں جب کہ ہم پائلٹوں کو سختی سے یہ تاکید کی جاتی ہے کہ ہم اپنا پاسپورٹ ہر وقت اپنے پاس رکھیں۔ میں اس وقت گویا ایک اہم ضابطے کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہوں۔ اب میں یہ بھی نہیں کر سکتا کہ پہلے نیویارک جائوں اور پاسپورٹ لے کر لندن پہنچوں۔ اس صورت میں مجھے بہت دیر ہو جائے گی اور میں بروقت جہاز اڑانے کے لئے لندن نہیں پہنچ سکوں گا۔ اگر میرے سپروائزر کو معلوم ہو گیا کہ میں یہاں بغیر پاسپورٹ کے آیا ہوا ہوں تو وہ مجھے فوراً ملازمت سے نکال دے گا۔ یہ ہے اصل مسئلہ…! اب بتائو میں کیا کروں؟‘‘
’’ہاں… یہ تو واقعی مسئلہ ہے۔‘‘ اس نے تسلیم کیا اور سوچ میں پڑ گیا۔ اس کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ سنجیدگی سے میرے مسئلے پر غور کر رہا تھا۔ چند لمحے بعد وہ بولا۔ ’’تم نے ایک عورت کٹی کاربٹ کا نام سنا ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ میں نے نفی میں سر ہلایا۔
’’وہ ایک صحافی اور رائٹر ہے۔ میکسیکو کے معاشی، سیاسی اور سماجی حالات پر لکھتی ہے۔ بوڑھی سی عورت ہے، یہاں اس کی بڑی عزت ہے اور بڑے اونچے حلقوں میں اس کے تعلقات ہیں۔ سنا ہے میکسیکو کے صدارتی محل سے لے کر واشنگٹن کے وائٹ ہائوس تک اس کے رابطے ہیں اور میرے خیال میں یہ حقیقت بھی ہے تاہم اپنے تمام تر اثرورسوخ کے باوجود بہت ہی بااخلاق، سادہ دل اور ہر ایک کے کام آنے والی خاتون ہے۔ خاص طور پر ہر چرب زبان امریکی کے کام آنا تو وہ گویا اپنا اخلاقی فرض سمجھتی ہے۔ ان کے لئے تو وہ ایک ماں جیسا کردار ادا کرتی ہے۔‘‘
پھر وہ کچھ شریر سے انداز میں مسکرایا اور آنکھیں نچا کر ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔ ’’اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس وقت وہ وہاں کھڑکی کے قریب والی میز پر اکیلی بیٹھی ہے۔ اس کے پاس جائو، ذرا درد بھرے لہجے میں اپنی داستان غم سنائو بلکہ ہو سکے تو دو چار آنسو بھی بہائو شاید وہ تمہارا مسئلہ حل کر دے۔‘‘
’’تم بھی میرے ساتھ چلو۔‘‘ میں نے فوراً پیٹر کا ہاتھ تھام کر اس کی منت کی۔
میں نے اصرار کیا تو آخرکار وہ ایک ٹھنڈی سانس لے کر اٹھ کھڑا ہوا اور مجھے ساتھ لے کر کٹی کاربٹ کی میز پر آن پہنچا۔ اس نے میرا تعارف کرایا۔ ہم دونوں اس کی اجازت پا کر بیٹھ گئے اور ادھر ادھر کی باتیں ہونے لگیں۔ کٹی ایک نفیس قسم کی عمر رسیدہ خاتون تھی۔ اس کی شخصیت بڑی باوقار تھی اور اس کے چہرے پر گویا سب ہی کے لئے ایک شفقت تھی تاہم وہ کچھ ایسی سیدھی بھی نہیں تھی، جہاں دیدہ اور زمانہ شناس معلوم ہوتی تھی۔
چند لمحے بعد وہ پیٹر کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولی۔ ’’ہوٹل والے! مطلب کی بات کرو، مجھے معلوم ہے تم اسی وقت میرے پاس آ کر بیٹھتے ہو جب تمہیں مجھ سے کوئی کام ہوتا ہے۔ بتائو مسئلہ کیا ہے؟‘‘
پیٹر قدرے شرمندگی سے ہنستے ہوئے بولا۔ ’’مسئلہ میرا نہیں، میرے اس دوست کا ہے۔‘‘ اس نے میری طرف اشارہ کیا پھر کہنی سے مجھے ٹہوکا دیا۔ ’’چلو ولیم…! اپنا مسئلہ بیان کرو۔‘‘
میں نے وہی داستان کٹی کو سنائی جو پیٹر کو سنا چکا تھا لیکن اس بار میں نے اپنے لہجے میں زیادہ تشویش اور درد سمونے کی کوشش کی۔
جب میں خاموش ہوا تو وہ گہری نظر سے میرا جائزہ لیتے ہوئے بولی۔ ’’تمہارا مطلب یہ ہے کہ تمہیں ایک پاسپورٹ کی ضرورت ہے۔ تمہارے پاس پاسپورٹ موجود تو ہے لیکن اس وقت وہ تمہاری دسترس سے دور ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک وقت میں دو پاسپورٹ رکھنا جرم ہے۔‘‘
’’وہ مجھے بھی معلوم ہے اسی لئے میں پریشان ہوں۔‘‘ میں نے غمزدہ لہجے میں کہا۔ ’’لیکن میں اس ملازمت کو ہاتھ سے کھونے کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا۔ عین ممکن ہے برسوں تک کسی دوسری ایئرلائن میں میرے لئے جگہ نہ نکلے۔ پین ایم میں بھی درخواست دینے کے دو سال بعد مجھے بلایا گیا تھا۔‘‘ پھر میں نے مزید جذباتی لہجے میں کہا۔ ’’جہاز اڑانے کے سوا مجھے کوئی کام بھی نہیں آتا اور نہ ہی میں کوئی اور کام کرنا چاہتا ہوں، پائلٹ بننا میرا بچپن کا خواب تھا۔‘‘
کٹی نے ہمدردانہ انداز میں سر ہلایا اور کچھ سوچنے لگی۔ چند لمحے بعد وہ پیٹر سے مخاطب ہوئی۔ ‘‘ذرا فون میری میز پر منگوائو۔‘‘
پیٹر نے ایک ویٹر کو اشارہ کیا۔ فوراً ہی فون آ گیا اور ویٹر نے اس کا پلگ قریب ہی دیوار میں موجود ساکٹ میں لگا دیا۔ کٹی نے ریسیور اٹھایا اور آپریٹر سے ہسپانوی میں بات کرنے لگی۔ وہ کسی سے رابطہ کرانے کے لئے کہہ رہی تھی۔رابطہ ہونے میں کئی منٹ لگ گئے۔
’’سونجا…؟‘‘ آخر اس نے کسی کو مخاطب کیا۔
’’میں کٹی کاربٹ بول رہی ہوں۔مجھے ایک مسئلے میں تمہاری مدد کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ مجھ پر ایک احسان کرو گی؟‘‘
پھر وہ میرے مسئلے کی تفصیل بتانے لگی۔ میں صرف یکطرفہ بات ہی سن رہا تھا۔ پھر وہ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولی۔’’ وہ تو مجھے بھی معلوم ہے سونجا! میں پہلے ہی یہ کہہ رہی تھی۔ تم صرف یہ کرو کہ اسے ایک عارضی پاسپورٹ جاری کر دو ۔جب کسی کا پاسپورٹ گم یا چوری ہو جاتا ہے تو اسے عارضی پاسپورٹ جاری کیا جاتا ہے نا…! جب وہ نیویارک واپس پہنچے گا، پاسپورٹ پھاڑ دے گا اور عارضی پاسپورٹ کی بنیاد پر نیا پاسپورٹ بنوا لے گا۔‘‘
پھر وہ چند لمحے دوسری طرف سے کچھ سنتی رہی۔ اچانک اس نے ریسیور پر ہاتھ رکھ کر نیچی آواز میں مجھ سے پوچھا۔ ’’تمہارے پاس اپنا برتھ سرٹیفکیٹ تو ہے نا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ میں نے فوراً جواب دیا۔’’ وہ میرے بٹوے میں ہے۔ میں وہ ہمیشہ ساتھ رکھتا ہوں۔ ذرا پرانا ہو گیا ہے لیکن اب بھی آسانی سے پڑھا جا سکتا ہے۔‘‘
کٹی نے اثبات میں سر ہلایا اور مائوتھ پیس سے ہاتھ ہٹا کر دوبارہ سونجا سے بات کرنے لگی۔ ’’ہاں اس کے پاس برتھ سرٹیفکیٹ موجود ہے۔اچھا…؟ تو تم یہ کام کر دو گی؟ بہت شکریہ۔ تم کتنی اچھی ہو، تمہاری مہربانیوں کا صلہ تو میں دے ہی نہیں سکتی… اگلے ہفتے تم سے ملاقات ہوگی۔‘‘
اس نے ریسیور رکھ دیا اور میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولی۔ ’’اگر تم کل صبح دس بجے تک میکسیکو سٹی میں واقع امریکی قونصل خانے پہنچ سکو تو سونجا تمہیں ایک عارضی پاسپورٹ جاری کر دے گی۔ وہ قونصل خانے کی اسسٹنٹ ہے۔ وہاں تم یہی کہو گے کہ تمہارا پاسپورٹ کھو گیا ہے۔ اگر تم نے کسی کو اصل بات بتائی تو میں تمہیں جان سے مار دوں گی۔‘‘
میں نے عقیدت سے اس کا ہاتھ چوما اور اس کے لئے شیمپئن کی ایک بوتل کا آرڈر دیا۔ میں نے سب سے اعلیٰ اور مہنگی شیمپئن منتخب کی تھی پھر میں نے ایئرپورٹ فون کر کے معلومات کی۔ ایک گھنٹے بعد میکسیکو سٹی کے لئے ایک فلائٹ روانہ ہو رہی تھی۔ میں نے فون پر ہی اس میں ایک سیٹ ریزرو کرا لی اور پیٹر سے کہا۔ ’’میں اپنا کافی سامان یہاں چھوڑے جا
رہا ہوں۔میرے پاس سامان پیک کرنے کا وقت نہیں ہے۔ تم کسی سے میرا سامان پیک کروا کے اپنے آفس میں رکھ لینا۔ ایک دو ہفتے بعد یا جب بھی میری واپسی ہوئی میں آ کر لے لوں گا۔ میں صرف ضروری چیزیں لے کر جا رہا ہوں۔‘‘
میں نے ایک سوٹ کیس میں اپنی پین ایم کی یونیفارم، ایک سوٹ اور نقد رقم رکھ لی۔ جب میں نیچے آیا تو پیٹر میرے لئے ٹیکسی منگوا چکا تھا۔ وہ واقعی بہت اچھا آدمی تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ مجھے کسی طرح اس کی مہربانیوں کا صلہ دینا چاہئے لیکن یہ سوچتے سوچتے بھی میں نے اس سے ایک بوگس چیک کیش کرا لیا۔ میں نےدل ہی دل میں خود کو یہ کہہ کر تسلی دے لی کہ یہ رقم اس کی اپنی جیب سے نہیں جائے گی، نقصان ہوٹل کو ہو گا۔
ایئرپورٹ پر جہاز میں بیٹھنے سے پہلے میں نے ایک اور بوگس چیک کیش کرا لیا۔ میکسیکو سٹی پہنچ کر میں نے اپنی پین ایم والی وردی پہن لی اور سوٹ کیس ایک لاکر میں رکھوا کر پونے دس بجے مس سونجا کے آفس جا پہنچا۔ وہ ایک مستعد اور چاق و چوبند لڑکی تھی اور اس کے بال سنہرے اور چہرہ میدے کی طرح سفید تھا۔
اس نے رسمی باتوں میں وقت ضائع نہیں کیا اور فوراً ہی بولی۔ ’’اپنا برتھ سرٹیفکیٹ نکالو۔‘‘
اپنی پاسپورٹ سائز تصویریں بھی میں کھنچوا کر ساتھ لے گیا تھا، وہ بھی میں نے مس سونجا کو دے دیں۔ صرف پندرہ منٹ بعد میں قونصلیٹ بلڈنگ سے نکلا تو میری جیب میں ایک عارضی پاسپورٹ موجود تھا۔ میں ایئرپورٹ واپس پہنچا، وردی اتار کر سوٹ پہنا اور برٹش ایئرویز کے کائونٹر سے نقد ادائیگی کر کے ٹکٹ خرید کر لندن روانہ ہونے کے لئے تیار ہو گیا مگر مجھے پتا چلا کہ فلائٹ لیٹ روانہ ہو گی۔ مجھے شام سات بجے تک انتظار کرنا ہوگا۔
میں نے وقت ضائع کرنا مناسب نہیں سمجھا اور تھوڑی سی زحمت کر کے ایک واش روم میں جا کر دوبارہ سوٹ سے یونیفارم میں آ گیا، اس کے بعد میں نے انتظار کے چند گھنٹے میکسیکو سٹی کے مختلف مقامات سے چند چھوٹے چھوٹے چیک کیش کرانے میں صرف کئے۔ شام کو جب میں لندن روانہ ہوا تو میرے سرمائے میں تیرہ ہزار ڈالر کا اضافہ ہو چکا تھا اور مجھے معلوم تھا کہ چند دن بعد میکسیکو کی پولیس بھی مجھے تلاش کرنے کی کوشش کرے گی۔
لندن پہنچ کر میں نے رائل گارڈن ہوٹل میں قیام کیا اور اپنا نام فرینک ایڈم لکھوایا۔ پیشے کے اعتبار سے میں نے خود کو ڈبلیو ٹی اے کا پائلٹ ظاہر کیا جسے فی الحال کچھ عرصے کے لئے اس کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیا گیا تھا۔ اپنا یہ دوسرا نام میں نے اس اندیشے کے تحت استعمال کیا تھا کہ شاید جلد ہی لندن کی پولیس کو بھی فرینک ولیم کو تلاش کرنے کی ضرورت پیش آ جائے جو خود کو پین ایم کا پائلٹ بتاتا تھا۔
میں لندن میں ایک ہفتہ بھی نہیں رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک بار پھر مجھ پر اضطراب سا طاری ہونے لگا تھا۔ وہی پکڑے جانے کا خوف مجھے پھر ستانے لگا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ پولیس خواہ امریکا کی ہو، انگلینڈ کی یا میکسیکو کی، ہر ملک کی پولیس کا کام مجرموں کو پکڑنا تھا اور میں بہرحال ایک مجرم تھا۔
میرے حق میں بہتر یہی تھا کہ میں اپنی دولت سمیٹ کر کسی دوردراز چھوٹے سے ملک میں سکون سے گمنامی کی زندگی بسر کرتا لیکن شاید یہ بھی میرے بس کی بات نہیں تھی۔ نچلا بیٹھنا اور گمنام رہنا بھی مجھ سے برداشت نہیں ہوتا تھا، شاید میں ایک طرح کا نفسیاتی مریض تھا جسے مدد کی اور نفسیاتی علاج کی ضرورت تھی۔
میری حالت شاید اس بچے کی طرح تھی جو تیزی سے گھومنے والے جھولے پر بیٹھ کر خوف سے چیخیں بھی مارتا ہے، اسے کچھ مزا بھی آ رہا ہوتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس مزے، اس ہیجان سے محروم نہ ہو۔ دوسری طرف وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ کوئی اسے اس جھولے سے اتار لے۔ میں جرم کے تیز گھومتے ہوئے جھولے سے اترنا تو چاہتا تھا لیکن یہ بھی چاہتا تھا کہ مجھے اس جھولے سے اتارنے والی کسی ملک کی پولیس نہ ہو۔
بہرحال اپنی نفسیاتی کیفیت سے قطع نظر میں لندن سے پیرس پرواز کر گیا تاہم جانے سے پہلے میں لندن میں بھی اپنے کچھ بوگس چیک کیش کرانے سے باز نہیں رہا۔
پیرس پہنچے مجھے تین گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے کہ میری ملاقات مونیکا لیوال سے ہو گئی جس نے میری زندگی میں ایک ہلچل برپا کر دی۔ مونیکا ’’ایئر فرانس‘‘ کی ایئرہوسٹس تھی۔ میری اس سے ملاقات ونڈسر ہوٹل کے بار میں ہوئی تھی جہاں وہ اور ایئر فرانس کے عملے کے دس بارہ دوسرے افراد ریٹائر ہونے والے ایک کیپٹن کو الوداعی پارٹی دے رہے تھے۔
جس شخص کے اعزاز میں پارٹی دی جا رہی تھی شاید اس سے بھی میری ملاقات ہوئی ہو لیکن مجھے صحیح طرح یاد نہیں کیونکہ مونیکا سے ملنے کے بعد میں شاید مکمل طور پر اپنے حواس میں نہیں رہا تھا۔ وہ لڑکی نہیں، دنیا کی اعلیٰ ترین شیمپئن کی بوتل تھی۔
دراصل میں اس وقت ہوٹل کے کائونٹر پر اپنی پین ایم کی یونیفارم میں کھڑا تھا اور کمرہ لینے کی کارروائی سے فارغ ہوا تھا۔ جب اس پارٹی میں شریک ایک آفیسر کی نظر مجھ پر پڑ گئی اور وہ ایک دوسری ایئرلائن کے پائلٹ کو ہوٹل میں پا کر ایک قسم کے ہمدردانہ محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر پارٹی میں لے گیا۔ اسی نے مجھے مونیکا سے متعارف کرایا اور اس کے بعد میں گویا سب کچھ بھول گیا۔
گو کہ اس سے مل کر مجھے روزی کی یاد بھی آئی لیکن اس میں روزی سے بھی زیادہ خوبیاں اور اس سے زیادہ کشش تھی شاید اس نے بھی کچھ ایسا ہی محسوس کیا تھا کیونکہ اس کے بعد ہم جتنی دیر بھی پارٹی میں رہے، ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوئے۔
اس کے بعد بھی اس سے ملاقاتیں رہیں۔ اگر اس کے دل میں مجھ سے شادی کا خیال پرورش پانے لگا تھا تو اس نے مجھ سے اس کا ذکر نہیں کیا لیکن پہلی ملاقات کے تین روز بعد وہ مجھے اپنے والدین سے ملوانے کے لئے گھر ضرور لے گئی۔ اس کے والدین بہت اچھے لوگ تھے۔ مجھے ان سے مل کر بہت خوشی ہوئی خاص طور پر اس کے پاپا سے مل کر تو بہت ہی خوشی ہوئی۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ نہ صرف ایک اچھے اور سیدھے آدمی تھے بلکہ پرنٹر بھی تھے۔ ایک چھوٹے مگر معیاری پریس کے مالک تھے۔ یہ پریس انہوں نے پیرس کے نواح میں لگا رکھا تھا اور وہی ان کا ذریعۂ معاش تھا۔ یہ سنتے ہی مجھے خیال آیا تھا کہ ان کی مدد سے میری جعل سازی کے کاموں کا ’’معیار‘‘ بہتر ہو سکتا تھا۔ پین ایم کے اپنے چیکوں کے علاوہ اس کے وائوچر بھی چھاپے جا سکتے تھے۔ وہ بھی آسانی سے کیش حاصل کرنے کا ایک ذریعہ تھے۔
دوپہر کے کھانے کے دوران میں نے سرسری سے لہجے میں کہا۔ ’’پین ایم میں بڑے افسروں کی سطح پر میرے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ ہو سکتا ہے میں آپ کو پین ایم کا کچھ پرنٹنگ کا کام دلوا سکوں۔‘‘
’’ضرور… ضرور…!‘‘ پاپا لیوال کی باچھیں کھل گئیں۔ ’’تم جو کہو گے، وہ ہم زیادہ سے زیادہ اچھے معیار کے ساتھ چھاپ کر دینے کی کوشش کریں گے اور تمہارے شکرگزار بھی ہوں گے۔‘‘
مونیکا ہماری گفتگو کے دوران ترجمان کے فرائض انجام دے رہی تھی کیونکہ اس کے والدین کو انگریزی بالکل نہیں آتی تھی البتہ مونیکا روانی سے انگریزی بولتی تھی۔
’’تم انگریزی میں بھی جو کچھ کہو گے میرے پاپا بہترین چھاپ کر دیں گے۔ میرے پاپا پیرس کے بہترین پرنٹر ہیں۔‘‘ مونیکا نے جذباتی ہو کر اپنے پاپا کی شان کچھ زیادہ ہی بڑھا دی۔ مجھے ابھی پاپا لیوال کی پرنٹنگ کے معیار کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا لیکن میں نے متانت سے مونیکا کی تائید میں سر ہلا دیا۔
کھانے کے بعد مونیکا کے پاپا مجھے اپنا پریس دکھانے لے گئے جسے وہ اپنے دو بیٹوں کے ساتھ مل کر چلاتے تھے۔ انہوں نے ایک ملازم بھی رکھا ہوا تھا، وہ انگریزی لکھنا، پڑھنا اور بولنا جانتا تھا۔
میرے پاس ابھی تک پین ایم
ایئرہوسٹس کا دیا ہوا تنخواہ کا اصل چیک موجود تھا جس کے بدلے میں نے اسے نقد رقم دے دی تھی۔ اس چیک کو میں نے ابھی تک کیش نہیں کرایا تھا۔ میں نے جب اس کا موازنہ اپنے تیار کردہ جعلی چیکوں سے کر کے دیکھا تو مجھے ان میں خاصا فرق نظر آیا۔ میری قسمت اچھی تھی کہ میں پین ایم کے جعلی چیک چلانے میں کامیاب رہا تھا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ میں نے جن جن لوگوں کے سامنے وہ چیک کیش کرانے کے لئے پیش کئے تھے، انہوں نے اس سے پہلے کبھی کبھار ہی پین ایم کے چیک دیکھے تھے۔
مجھے اندیشہ تھا کہ امریکا سے باہر خاص طور پر یورپی ممالک کے بینک پین ایم کے چیکوں سے بہت اچھی طرح آشنا ہوں گے کیونکہ پین ایم کی سروس سب سے زیادہ یورپ ہی کا احاطہ کرتی تھی شاید اسی لئے مجھے ایک تجربہ ہوا تھا، اس تجربے نے مجھے کچھ چوکنا کر دیا تھا۔ لندن کے ایک بینک میں ،میں نے پین ایم کا چیک بینک کے کیشیئر کو دیا تو وہ کچھ دیر اس کو دیکھتا رہا تھا۔ اس نے چیک کیش تو کر دیا تھا لیکن اس کے انداز میں کچھ ہچکچاہٹ تھی۔ اس کے انداز نے میرے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔
مونیکا سے ملاقات کی خوشی اپنی جگہ تھی لیکن اس کے توسط سے اس کے پاپا سے ملاقات نے میری خوشی دوبالا کر دی تھی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ چیکوں کی تیاری کا کام ایک پرانے پیشہ ور اور تجربہ کار پرنٹر سے ہی کرا لینا بہتر تھا۔ اس کے لئے میرے ذہن میں منصوبہ بھی تشکیل پا چکا تھا۔
چنانچہ جونہی مونیکا دو دن کے لئے اپنی ڈیوٹی پر ایک غیرملکی فلائٹ کے ساتھ روانہ ہوئی میں فوراً اس کے پاپا کے پریس جا پہنچا۔ وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ مجھے ان کے ساتھ گفتگو کرنے کے سلسلے میں ترجمان کی کچھ اتنی زیادہ ضرورت نہیں پڑتی تھی کیونکہ مجھے گزارے لائق فرانسیسی آتی تھی جو میں نے اپنی والدہ سے سیکھی تھی تاہم مدد کے لئے ان کا ملازم بھی موجود تھا۔
’’میں نے اپنے ہیڈ آفس بات کی تھی۔‘‘ میں نے پاپا لیوال سے گفتگو شروع کی۔ ’’ہمارے چیکوں اور وائوچرز کی پرنٹنگ امریکا ہی میں ہو رہی ہے اور میرا اندازہ ہے کہ وہاں بہت مہنگی ہو رہی ہے۔کوئی پرنٹر شاید پین ایم جیسی موٹی اسامی دیکھ کر اس کی خوب کھال اتار رہا ہے۔ میں نے افسرانِ بالا سے کہا ہے کہ میں اس سے کم ریٹ میں فرانس سے پرنٹنگ کرا دوں گا۔ وہ تقریباً مان گئے ہیں۔‘‘
پاپا لیوال خوشی سے مسکرانے لگے۔
میں نے ایئرہوسٹس والا تنخواہ کا چیک نکالا اور ان کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔ ’’یہ نمونے کا چیک ہے، بالکل ایسے ہی چیک آپ کس حساب سے چھاپ دیں گے؟‘‘
انہوں نے چیک لے کر الٹ پلٹ کر اور ٹٹول کر اس کا اچھی طرح جائزہ لیا پھر پوچھا۔ ’’نیویارک والے کس حساب سے چھاپ کر دیتے ہیں؟‘‘
مجھے خاک معلوم نہیں تھا کہ نیویارک والے وہ چیک کس حساب سے چھاپ رہے تھے لیکن میں نے اپنے اندازے سے رقم بڑھا کر کہا۔ ’’چار سو ڈالر فی ہزار کے حساب سے۔‘‘
پاپا لیوال نے کچھ دیر سوچا اور غالباً دل ہی دل میں حساب بھی لگایا پھر وہ گویا ڈرتے ڈرتے بولے۔ ’’میں ڈھائی سو ڈالر فی ہزار کے حساب سے چھاپ دوں گا اور کام معیاری ہونے کی گارنٹی ہوگی۔‘‘ (جاری ہے)