Friday, September 20, 2024

Anokha Chaal Baaz | Episode 2

ڈیڈی نے میری پوری بات نہایت تحمل سے سنی۔ چند لمحے سوچا پھر اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولے۔ ’’ٹھیک ہے ولیم! مجھے تم پر بھروسہ ہے۔‘‘ پھر انہوں نے جیب سے اپنا کریڈٹ کارڈ نکالا۔
یہ موبل گیس کمپنی کا کارڈ تھا اور گاڑی میں جن چیزوں کی ضرورت پڑتی تھی، ان میں سے جو گیس اسٹیشن پر دستیاب ہوتی تھیں، وہ اس کارڈ کے ذریعے حاصل کی جا سکتی تھیں۔ ایک ماہ بعد بل آتا تھا جس کی ادائیگی کے لئے چند دن کی مہلت بھی ملتی تھی۔
ڈیڈی نے کارڈ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’یہ تم رکھ لو، اسے اب تم ہی استعمال کرنا۔ میں استعمال نہیں کروں گا۔ یوں سمجھو کہ یہ اب تمہارا ہی کارڈ ہے اور اس کا جو بھی بل آئے گا اس کی ادائیگی تمہاری ذمہ داری ہو گی۔ مجھے امید ہے کہ اس کارڈ کو تم اس طرح استعمال کرو گے کہ یہ میرے لئے پریشانی کا باعث نہ بنے۔‘‘
ڈیڈی بے چارے ہمیشہ مجھ سے اچھی ہی امیدیں رکھتے تھے۔ پہلا مہینہ بڑی اچھی طرح گزرا۔ میں کارڈ کے ذریعے گاڑی میں پیٹرول ڈلواتا رہا اور جب بل آیا تو میں نے اتنی رقم کا ایک پوسٹل آرڈر خرید کر کمپنی کو بھیج دیا۔ حساب تو بے باق ہو گیا لیکن آنے والے دنوں میں اپنے مشاغل کی وجہ سے میرا ہاتھ تنگ ہو گیا۔ مجھے پریشانی محسوس ہونے لگی اور ساتھ ساتھ غصہ بھی آنے لگا۔ میں ان امریکی نوجوانوں میں سے تھا جو یہ سمجھتے ہیں کہ عیاشی ان کا بنیادی حق ہے اور جب انہیں عیاشی میں دشواریاں پیش آنے لگتی ہیں تو وہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں ان کے آئینی حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔
کسی نے کہا تھا کہ دنیا میں دیانتدار آدمی کا کوئی وجود نہیں۔ شاید یہ کسی جعل ساز اور نوسر باز ہی کا مقولہ ہو۔ میرا اپنا بھی یہی خیال ہے کہ لمبا ہاتھ تو سبھی مارنا چاہتے ہیں لیکن زیادہ لوگوں میں اس کے لئے ہمت نہیں ہوتی اس لئے وہ بیچارے خیالوں ہی خیالوں میں اپنے ارمان پورے کرتے رہتے ہیں۔ اگر پکڑے جانے کا خوف نہ ہو تو لاتعداد لوگ نہ جانے کیا کچھ کر گزریں۔ گویا وہ ضمیر یا اخلاقیات کے تحت شریف نہیں ہوتے، مجبور ہوتے ہیں۔ وہ محض خواہشوں کے ریلے میں نہیں بہتے بلکہ عقل سے کام لیتے ہیں۔
ان کے مقابلے میں بعض لوگوں پر خواہشوں کا غلبہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ وہ عقل اور دلیل کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ کوئی غلط اور غیر قانونی کام کرنا بھی انہیں اسی طرح ایک چیلنج محسوس ہونے لگتا ہے جیسے کسی کوہ پیما کو کوئی اونچی چوٹی دیکھ کر فوراً اسے سر کرنے کا خیال آتا ہے۔ وہ اپنے ذہن کو صحیح اور غلط کی بحث میں زیادہ نہیں الجھاتے۔ ان کے لئے جرم بھی کرکٹ یا فٹ بال کے کھیل کی طرح ہوتا ہے جس میں رن بنانے ہوتے ہیں یا گول کرنا ہوتا ہے۔ جرم کی راہ میں ہر کامیابی ان کے لئے رن بنانے یا گول کرنے کی طرح ہوتی ہے۔ اصل اہم چیز کامیابی کی تسکین ہی ہوتی ہے لیکن اگر اس کے ساتھ ساتھ مالی فائدہ بھی ہو رہا ہو تو کیا ہی بات ہے۔
جرائم کی دنیا گویا ان کے لئے شطرنج کی بساط ہوتی ہے اور یہ اس شطرنج کے کھلاڑی ہوتے ہیں۔ یہ بھی اپنی جگہ جینئس ہوتے ہیں فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ ان کی ذہانت منفی کاموں میں استعمال ہو رہی ہوتی ہے۔ پکڑے جانے کا اندیشہ انہیں بہت ہی کم ہوتا ہے چنانچہ جب اوسط درجے کا ذہن رکھنے والا ایک عام سا پولیس والا کسی طرح انہیں پکڑ لیتا ہے تو انہیں بڑی حیرت ہوتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنی زندگی کی پہلی ہیرا پھیری ایک قسم کے چیلنج کے احساس کے تحت ہی کی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ مجھے رقم کی بھی ضرورت تھی۔ میں نے ان دنوں جو مشاغل اپنا رکھے تھے ان میں آدمی کو ہر وقت پیسے کی ضرورت رہتی ہے لیکن اس ضرورت سے زیادہ مجھے دل میں ابھرنے والی خواہش نے مجبور کیا تھا۔
دراصل ایک روز میں گیس اسٹیشن گیا تو میں نے وہاں ایک بورڈ لگا دیکھا۔ اس پر لکھا تھا۔’’اپنے موبل کارڈ کے ذریعے آپ گاڑی کے ٹائر بھی بدلوا سکتے ہیں۔‘‘
اس روز مجھے پہلی بار خیال آیا کہ موبل کارڈ صرف پیٹرول یا آئل ڈلوانے کے لئے ہی کارآمد نہیں تھا۔ مجھے ٹائروں کی ضرورت نہیں تھی۔ میری فورڈ کے ٹائر تقریباً نئے تھے لیکن فوراً ہی میرے ذہن میں ایک اسکیم آئی۔ ساتھ ہی میرے دل نے گواہی دی کہ یہ اسکیم کامیاب رہے گی۔
میں گاڑی سے اترا اور گیس اسٹیشن کے مالک کے پاس پہنچا۔ وہ خود ہی وہاں کام بھی کرتا تھا اور میرا صورت آشنا تھا۔ اس گیس اسٹیشن پر زیادہ لوگ نہیں آتے تھے اس لئے مالک بے چارہ اکثر فارغ ہی نظر آتا تھا۔
ایک بار تو اس نے مجھ سے باتوں باتوں میں شکوہ بھی کیا تھا۔ ’’اگر میں یہ گیس اسٹیشن چلانے کے بجائے گیس اسٹیشنوں کو لوٹنا شروع کر دیتا تو زیادہ فائدے میں رہتا۔‘‘
میں نے اس کے قریب پہنچ کر پوچھا۔ ’’اگر میں اپنی گاڑی میں چاروں ٹائر سفید پٹی والے ڈلوانا چاہوں تو کتنی رقم خرچ ہوگی؟‘‘
’’اس گاڑی کے چاروں ٹائر ایک سو ساٹھ ڈالر میں آئیں گے۔‘‘ اس نے جواب دیا لیکن دوسرے ہی لمحے الجھن آمیز لہجے میں بولا۔ ’’مگر تمہاری گاڑی کے ٹائر تو بہت اچھی حالت میں ہیں۔‘‘
اس نے میری طرف دیکھا اور اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے میں نے اندازہ لگایا کہ اس کے سامنے تجویز پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔
میں نے اطمینان سے کہا۔ ’’ہاں۔ یہ درست ہے کہ مجھے ٹائروں کی کوئی ضرورت نہیں۔ دراصل مجھے انجن میں ایک اور کام کرانا ہے اور میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ میں ایک تجویز تمہارے سامنے رکھنے لگا ہوں جس میں ہم دونوں کا فائدہ ہے۔ تم اس کارڈ پر چار ٹائروں کی رقم یعنی ایک سو ساٹھ ڈالر چارج کر لو۔ اس کا بل بھی بن جائے گا کہ میں نے یہاں سے چار ٹائر خریدے ہیں۔ فرق صرف یہ ہو گا کہ میں ٹائر تم سے نہیں لوں گا۔ ان کے بجائے تم مجھے سو ڈالر نقد دے دینا۔ ٹائر تمہارے ہی پاس رہیں گے۔ میرے ڈیڈی جب کریڈٹ کارڈ کا ماہانہ بل ادا کریں گے تو تمہارے ٹائروں کے ایک سو ساٹھ ڈالر تمہارے پاس آ جائیں گے یعنی ساٹھ ڈالر تو تم ویسے ہی فائدے میں رہو گے اور پھر ٹائروں کی فروخت پر تمہیں جو منافع ہوتا ہے وہ بھی تمہیں ملے گا۔ اس کے بعد یہی ٹائر جب تم دوبارہ ایک سو ساٹھ ڈالر میں بیچو گے تب بھی تمہیں منافع ہو گا۔ گویا اس میں تمہارا تہرا فائدہ ہے۔ کیا خیال ہے؟‘‘
اس نے خاموشی سے میرے چہرے کا جائزہ لیا۔ مجھے اس کی آنکھوں میں لالچ کی پرچھائیاں نمودار ہوتی دکھائی دیں تاہم وہ ذرا شک زدہ سے لہجے میں بولا۔ ’’تمہارے ڈیڈی کی طرف سے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا؟‘‘
’’وہ میرا کریڈٹ کارڈ یا اس کے بل دیکھتے ہی نہیں۔ بس خاموشی سے ادائیگی کر دیتے ہیں۔ ویسے بھی میں انہیں بتا چکا ہوں کہ مجھے اپنی گاڑی کے ٹائر بدلوانے ہیں، انہوں نے کہہ دیا تھا کہ بدلوا لینا۔‘‘
اس نے مجھ سے تھوڑا بہت شناسا ہونے کے باوجود مزید احتیاط پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا۔ ’’ذرا مجھے اپنا ڈرائیونگ لائسنس دکھا دو۔ میں تصدیق کر لوں، تم اپنے ڈیڈی ہی کا کریڈٹ کارڈ استعمال کر رہے ہو اور یہ تم نے چرایا نہیں ہے۔‘‘
میں نے اسے اپنا ڈرائیونگ لائسنس دکھا دیا۔ اس پر میرا اور ڈیڈی کا فیملی نیم ایک ہی تھا۔ میرا تو نام بھی ویسے ہی پورا کا پورا ڈیڈی کے نام پر تھا۔ جب میں اپنے نام کے ساتھ ’’جونیئر‘‘ لکھ دیتا تھا تبھی امتیاز ہوتا تھا۔
لائسنس دیکھ کر وہ حیرت سے بولا۔ ’’تم صرف پندرہ سال کے ہو لیکن تم اپنی عمر سے دس سال بڑے لگتے ہو۔‘‘
’’ہاں۔ میں نے زندگی کا تجربہ بھی اپنی عمر سے دس سال زیادہ کا حاصل کر لیا ہے۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اس نے میرا ڈرائیونگ لائسنس مجھے واپس کر دیا۔
چند منٹ بعد میں اس کے ہاں سے رخصت ہوا تو میرے بٹوے میں بیس بیس ڈالر کے پانچ نوٹوں کا اضافہ ہو چکا تھا جو مجھے گیس اسٹیشن کے مالک سے ملے تھے۔
یہ میری پہلی کامیاب واردات تھی۔ کامیابی کا خمار میرے دماغ کو چڑھا جا رہا تھا۔ اس وقت تک میں نے شراب نہیں چکھی تھی۔ اس لئے مجھے صحیح طور پر معلوم نہیں تھا کہ نشہ کیا ہوتا ہے لیکن مجھے محسوس یہی ہو رہا تھا جیسے میں نشے میں ہوں۔ میں نے اس سے پہلے کبھی کار کی اگلی سیٹ پر بیٹھ کر خود کو اتنا خوش محسوس نہیں کیا تھا۔ میں اچھی خاصی ترنگ میں تھا۔
اپنی ذہانت پر میں خود ہی اپنے آپ کو داد دے رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اگر یہ طریقہ ایک بار کامیاب ہو سکتا ہے تو آئندہ بھی ہو سکتا ہے اور ایسا ہی ہوا۔
آنے والے چند ہفتوں میں، میں نے مختلف گیس اسٹیشنز پر یہ طریقہ اتنی مرتبہ استعمال کیا کہ مجھے تعداد بھی یاد نہیں رہی۔ مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ اسی طریقۂ واردات کے تحت میں نے کریڈٹ کارڈ پر کتنے ٹائر، کتنی بیٹریاں اور گاڑی میں کام آنے والی کتنی دوسری چیزیں خریدیں۔ ظاہر ہے یہ چیزیں میں نے صرف کریڈٹ کارڈ کی حد تک ہی خریدیں، عملی طور پر تو میں نے انہیں ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ ہر چیز کی قیمت سے کچھ کم نقد رقم لے کر میں واپس آتا رہا۔
برونکس کے علاقے میں، میں نے موبل کمپنی کے ہر گیس اسٹیشن سے استفادہ کر لیا۔ کسی جگہ تو میں گیس اسٹیشن والے سے صرف دس ڈالر لے لیتا اور بیس ڈالر کے پیٹرول کی پرچی پر دستخط کر دیتا۔ میں نے اس موبل کارڈ کو اس کے ادھار کی آخری حد تک استعمال کر ڈالا۔
میرا خیال ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ سارا چکر چلا کر میں نے جتنی بھی رقم حاصل کی وہ ساری کی ساری لڑکیوں پر خرچ کر ڈالی اور پھر آخر وہ دھماکا ہو گیا جسے ہونا ہی تھا یعنی کریڈٹ کارڈ کا مہینے بھر کا بل آ گیا۔ اس کے ساتھ میری سائن کی ہوئی اتنی پرچیاں نتھی تھیں کہ لفافہ پھول کر کُپّا ہو گیا تھا۔ میں نے وہ کل رقم دیکھی جو واجب الادا تھی۔ اس وقت مجھے صحیح طور پر احساس نہیں تھا کہ ہوتے ہوتے مجموعی طور پر رقم کہاں جا پہنچے گی۔ اب سارا حساب جمع ہو کر یکدم آنکھوں کے سامنے آیا تھا تو دماغ گھومنے لگا تھا۔ اصولی طور پر موبل کمپنی کو یہ ساری رقم ڈیڈی سے وصول کرنی تھی۔ اس نکتے پر بھی میں نے پہلے زیادہ توجہ نہیں دی تھی کہ جو کچھ میں کر رہا تھا، اس میں آخرکار سارا ملبہ آ کر ڈیڈی پر گرے گا۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے وہ کریڈٹ کارڈ مجھے استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔
میں نے بہت سوچا کہ کیا کرنا چاہئے لیکن میری کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ آخرکار میں نے بل اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ دو ہفتے کے بعد اس بل کے سلسلے میں کمپنی کی طرف سے یاد دہانی کا خط آیا۔ میں نے اسے بھی ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا۔ ایک بار میں نے یہ بھی سوچا کہ ڈیڈی کے سامنے پیش ہو جائوں اور جو کچھ میں نے کیا ہے۔ اس کا اعتراف کر لوں لیکن اس کی ہمت نہیں پڑی حالانکہ مجھے یہ احساس تھا کہ جلد یا بدیر انہیں معلوم ہو جائے گا مگر میں سوچ رہا تھا کہ یہ بات کوئی اور ہی انہیں بتائے یا کسی اور طرح انہیں معلوم ہو تو بہتر ہے۔
دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس درمیانی عرصے میں بھی میں اپنی حرکتوں سے باز نہیں آیا۔ میں بدستور کریڈٹ کارڈ کو استعمال کرتا رہا۔ ہر ایک ماہ کے لئے کریڈٹ کارڈ پر خریداری کی ایک حد ہوتی ہے۔ پچھلے ماہ بھی میں اس حد تک اسے استعمال کر چکا تھا۔ اس ماہ بھی آثار یہی تھے کہ اگر کسی نے میرا ہاتھ نہ روکا تو میں وہی کچھ کروں گا۔ حاصل ہونے والی رقمیں بدستور لڑکیوں پر خرچ ہو رہی تھیں۔ میرے ذہن کے کسی گوشے میں یہ احساس تو موجود تھا کہ ان حرکتوں کا خمیازہ میرے ڈیڈی کو بھگتنا پڑے گا مگر میں ان حرکتوں سے باز نہیں رہ پاتا تھا۔ میرا خیال ہے جب آدمی عورتوں کے چکر میں پڑ جاتا ہے تو اس کا ضمیر بھی خراٹے لینے لگتا ہے۔
آخرکار موبل کمپنی کا ایک تفتیشی قسم کا نمائندہ ڈیڈی سے ملنے ان کے اسٹور پر آن پہنچا۔ بیشتر بڑی کاروباری کمپنیاں بیچاری بہت اچھی ہوتی ہیں۔ لوگوں کو ادھار کی سہولت بھی فراہم کرتی ہیں اور اپنا پیسہ مانگنے کے سلسلے میں ان کا رویہ بھی کافی عرصے تک شائستہ اور معذرت خواہانہ ہی رہتا ہے۔ جب تک آپ حد سے نہیں گزر جاتے تب تک کمپنی والے آپ کے گریبان پر ہاتھ نہیں ڈالتے۔ ڈیڈی سے جو نمائندہ ملنے آیا اس کا رویہ بھی معذرت خواہانہ تھا۔
’’مسٹر ولیم…!‘‘ اس نے نہایت شائستگی سے ڈیڈی کے ساتھ گفتگو کا آغاز کیا۔ ’’آپ پندرہ سال سے ہماری کمپنی کا کارڈ استعمال کر رہے ہیں اور ہم آپ کو اپنے قابل فخر گاہکوں میں شمار کرتے ہیں۔ آپ نے کبھی اپنے بل کی ادائیگی میں ذرا سی بھی تاخیر نہیں کی اور اس وقت بھی میں ادائیگی کے سلسلے میں آپ کو کوئی دھمکی دینے یا آپ پر دبائو ڈالنے نہیں آیا۔‘‘
ڈیڈی قدرے پریشانی اور الجھن سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ یقیناً ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ تمہید کس سلسلے میں باندھی جا رہی ہے۔
کمپنی کا نمائندہ بات جاری رکھتے ہوئے بولا۔ ’’میں صرف تجسس کے تحت آپ کے پاس آیا ہوں۔ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر آپ نے تین ماہ کے عرصے میں کس طرح 52ء ماڈل کی فورڈ میں تین ہزار چار سو ڈالر کا پیٹرول، آئل اور بیٹریاں ڈلوا لیں؟ آپ نے دو ماہ کے عرصے میں چودہ مرتبہ اس گاڑی کے چاروں ٹائر تبدیل کرائے۔ تین ماہ میں اپنی اس گاڑی کے لئے بائیس بیٹریاں خریدیں اور جس حساب سے آپ نے اس میں پیٹرول ڈلوایا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کی گاڑی ایک گیلن میں صرف دو میل چلتی ہے اور ایک وقت میں آپ اس میں جتنا آئل ڈلواتے رہے ہیں، اتنی بڑی تو اس گاڑی کی ٹنکی بھی نہیں، اگر اس گاڑی پر آپ کا اتنا خرچ آتا ہے تو آپ کو فوراً نئی گاڑی خریدنے کے بارے میں سوچنا چاہئے۔‘‘
وہ 60ء سے بھی پہلے کا زمانہ تھا۔ ہر چیز بہت سستی تھی۔ پیٹرول تو بہت ہی سستا تھا۔ اس زمانے میں تین ماہ میں کسی گاڑی پر 3400 ڈالر خرچ ہو جانا ناقابل یقین بات تھی۔
ڈیڈی یہ سب کچھ سن کر دم بخود رہ گئے۔ چند لمحوں تک ان کے منہ سے کوئی لفظ نہیں نکلا۔ جب وہ بولنے کے قابل ہوئے تو انہوں نے ہکلاتے ہوئے کہا۔ ’’لیکن میں تو وہ کارڈ استعمال ہی نہیں کرتا، میرا بیٹا کرتا ہے، اس معاملے میں کہیں کوئی غلطی تو نہیں ہو رہی ہے؟‘‘
موبل کمپنی کے نمائندے نے مختلف جگہوں کے پچاسوں بل ان کے سامنے رکھ دیئے، ان سب گیس اسٹیشنوں پر میں نے خریداری کی تھی اور ان بلوں پر ڈیڈی نے سائن کئے تھے۔
’’یہ ٹھیک ہے کہ میں نے اسے کارڈ استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی تھی لیکن اس نے یہ اندھادھند خریداری کیوں کی ہے؟ اور پھر تین ماہ سے کوئی ادائیگی بھی نہیں کی۔ آخر اس نے ایسا کیوں کیا؟‘‘
’’کیوں نہ ہم اسی سے پوچھیں؟‘‘ نمائندے نے نرمی سے کہا۔
ظاہر ہے اس کے بعد مجھ سے پوچھا گیا۔ میں بالکل انجان بن گیا۔ میں نے کہا مجھے اس فراڈ کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ میری اس بات پر ان دونوں میں سے کسی کو بھی یقین نہ آیا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ کم از کم اب تو ڈیڈی بہت زیادہ غصے میں آ جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دراصل وہ اتنے زیادہ الجھن زدہ تھے کہ ان کے ناراض ہونے کی نوبت ہی نہیں آ رہی تھی۔
’’دیکھو بیٹا!‘‘ آخر ڈیڈی نے ملائمت سے کہا۔ ’’اگر تم سچ سچ بتا دو کہ تم نے یہ سارا چکر کیسے اور کیوں چلایا تو ہم بات یہیں ختم کر دیں گے۔ تمہیں کوئی سزا نہیں ملے گی اور میں یہ بل ادا کر دوں گا۔‘‘
میرے والد بہت اچھے آدمی تھے۔ بہت کم بچوں کو ایسے باپ نصیب ہوتے ہیں۔ سخت گیری ان میں ذرا بھی
نہیں تھی۔ بڑے سے بڑا قصور معاف کر دیتے تھے۔ غصہ انہیں بہت کم آتا تھا۔ اگر آتا بھی تھا تو کسی انتہا درجے کی بات پر ہی آتا تھا۔ دوسری بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ انہوں نے مجھ سے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور کبھی کوئی جھوٹا وعدہ نہیں کیا۔
مجھے معلوم تھا کہ وہ جو وعدہ کر رہے ہیں، اس پر قائم رہیں گے۔ میں نے سوچا اب خطرے کی کوئی بات نہیں۔ آج ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میں بھی کیوں نہ سچ بول ڈالوں۔
’’ڈیڈی! یہ سب کچھ دراصل لڑکیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ ان کے چکر میں پڑ کر میرے اخراجات بہت بڑھ گئے۔ پتا نہیں کیا بات ہے ان کے ساتھ رہ کر میں ہاتھ روک نہیں پاتا۔ مجھے اپنی کسی حرکت پر اختیار نہیں رہتا۔‘‘ آخرکار میں نے حقیقت کا اعتراف کر لیا۔
ڈیڈی اور موبل کمپنی کے نمائندے دونوں نے تفہیمی انداز میں سر ہلایا۔ بات گویا ان کی سمجھ میں آ گئی تھی۔ ڈیڈی نے ہمدردانہ انداز میں میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’ٹھیک ہے بیٹا…! مجھے خوشی ہے کہ تم نے سچ بول دیا۔ لڑکیوں کے چکر میں پڑ کر انسان کیا کچھ کر سکتا ہے، ان باتوں کی وضاحت تو آئن اسٹائن بھی نہیں کر سکتا تھا۔‘‘
ڈیڈی نے مجھے معاف کر دیا لیکن مما نے نہیں کیا۔ وہ میری بدمعاشیوں کا ذمہ دار ڈیڈی کو ہی سمجھتی تھیں۔ قانونی طور پر مجھے اپنی تحویل میں رکھنے کا حق بھی انہی کے پاس تھا۔ انہوں نے اب اس حق کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا خیال تھا کہ میں ڈیڈی کے زیر سایہ رہ کر بگڑ رہا ہوں، لہٰذا انہوں نے مجھے اپنے پاس رہنے کے لئے بلا لیا۔ صرف یہی نہیں انہوں نے مجھے کیتھولک چرچ کے زیرانتظام چلنے والے ایک ایسے اسکول میں بھی داخل کرادیا جہاں بگڑے ہوئے بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ اصلاح کی غرض سے داخل کرایا جاتا تھا۔
اصلاح تو یہاں خیر کوئی خاص نہیں ہو سکتی تھی لیکن یہ ایک خاصا اونچے درجے کا تعلیمی ادارہ تھا۔ اس کا رہائشی حصہ جسے آپ ایک طرح کا ہاسٹل کہہ سکتے ہیں، بہت سے کاٹجز پر مشتمل تھا۔ میں یہاں ایک صاف ستھرے اور بڑے باسہولت قسم کے کاٹج میں چھ دوسرے لڑکوں کے ساتھ رہنے لگا۔ یہاں پابندی بس یہی تھی کہ آپ کو کیمپس کی حدود میں ہی رہنا پڑتا تھا، آپ باہر نہیں جا سکتے تھے۔ اس کے علاوہ آپ کے معمولات کی مستقل نگرانی ہوتی تھی۔ ان دو باتوں سے قطع نظر یہاں کوئی خاص سختی نہیں تھی۔
چرچ کے جو لوگ اس درس گاہ کو چلا رہے تھے اور ٹیچرز کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے وہ خاصے زندہ دل لوگ تھے۔ خشک اور کٹر مذہبی قسم کے نہیں تھے۔ وہ بھی کم و بیش ہم لڑکوں ہی کے انداز میں رہتے تھے۔ ہم سب ایک ہی مشترکہ ڈائننگ ہال میں کھانا کھاتے تھے۔ کیمپس کی حدود میں ایک سینما ہائوس، ایک ٹی وی روم، تفریحات کا ایک خصوصی ہال، سوئمنگ پول اور جمنازیم بھی تھا۔ تمام کھیلوں کے لئے وسائل اور سہولتیں مہیا تھیں لیکن میں نے کبھی ان سے استفادہ نہیں کیا۔
صبح آٹھ بجے سے لے کر تین بجے تک ہم کلاسیں اٹینڈ کرتے تھے۔ ہفتہ، اتوار کی چھٹی ہوتی تھی۔ کلاسوں کے اوقات کو چھوڑ کر باقی تمام وقت ہم کیمپس کی حدود میں اپنی مرضی سے جس طرح چاہتے، گزار سکتے تھے۔ اس معاملے میں کوئی سختی نہیں تھی۔ ہمارے پادری نما ٹیچرز ہمارے کان نہیں کھاتے تھے، وہ اصلاح یا تبلیغ کے لئے ہمیں لمبے لمبے لیکچر نہیں دیتے تھے اور نہ ہی لمبی چوڑی نصیحتیں کرتے تھے۔
آپس میں لڑائی جھگڑا کرنے یا کیمپس کی حدود میں کوئی ہنگامہ کرنے پر سزا ملتی تھی لیکن وہ بھی صرف اتنی کہ آپ کو دو چار دن کے لئے آپ کے کاٹج تک محدود کر دیا جاتا تھا۔
اس اسکول جیسی جگہ سے مجھے آئندہ زندگی میں صرف اس وقت واسطہ پڑا جب میں جیل گیا۔ جیل بھی کافی حد تک ویسی ہی تھی۔ مجھے یہ دیکھ کر خاصا اطمینان ہوا تھا کہ امریکی جیلیں بہت سے امریکیوں کے گھروں سے کہیں بہتر تھیں اور ان میں انسان اس سے کہیں بہتر زندگی گزار سکتا تھا جیسی بہت سے امریکی گزار رہے تھے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ جیل پہنچ کر آپ ایک چار دیواری کے اندر محدود ہو جاتے ہیں اور ایک امریکی کے لئے شاید یہی بہت بڑی سزا ہے۔ امریکی جیلوں کو دیکھ کر ایک خیال مجھے یہ آیا کہ کہیں خفیہ طور پر ان کا انتظام بھی کیتھولک چرچ کے لوگ تو نہیں چلا رہے؟
بہرحال اسکول کے صاف ستھرے اور قدرے مذہبی ماحول نے مجھے بیزار کر دیا۔ مجھے وہاں رہنا واقعی ایک سزا محسوس ہونے لگی اور سزا بھی ایسی جس کا میں خود کو مستحق نہیں سمجھتا تھا۔ میں سوچتا تھاکہ میرا جرم جو کچھ بھی تھا، اس کے متاثرہ فرد تو صرف ڈیڈی تھے اور ڈیڈی نے مجھے معاف کر دیا تھا تو پھر مجھے سزا کیوں مل رہی تھی؟ یہ سوال میں اکثر خود سے کرتا تھا۔
اس ماحول کی جو بات مجھے سب سے زیادہ گراں گزر رہی تھی۔ وہ یہ تھی کہ یہاں لڑکی کی پرچھائیں بھی دیکھنے کو نہیں ملتی تھی۔ خالص مردانہ ماحول تھا۔ حتیٰ کہ وہاں کوئی نن بھی نہیں تھی۔ میرا خیال ہے اگر وہاں مجھے کبھی کوئی نن بھی نظر آ جاتی تو میری رگ و پے میں سنسنی دوڑ جاتی۔ شاید ایک راہبہ کی شخصیت بھی اس ماحول میں مجھے کچھ رنگین معلوم ہوتی۔
اچھا ہی ہوا کہ اس اسکول کے قیام کے دوران مجھے یہ پتا نہیں چلا کہ باہر میرے ڈیڈی پر کیا گزری ورنہ شاید میں اور زیادہ دلبرداشتہ اور مایوس ہو جاتا۔ مجھ پر ڈپریشن طاری ہو جاتی۔
مجھے بعد میں پتا چلا کہ میں جس دوران اسکول میں قیام پذیر تھا۔ میرے والد کو نہ جانے کیوں اور کس طرح پے در پے مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کاروبار تباہ ہو گیا۔ بعد میں بھی انہوں نے مجھے تفصیلات نہیں بتائیں لیکن یہ معلوم ہو گیا کہ وہ تقریباً قلاش ہو گئے تھے۔ انہیں اسٹور چھوڑنا پڑا۔ ان کا بڑا سا مکان اور دو کیڈلک کاریں بھی اونے پونے داموں بک گئیں۔ درحقیقت ان کی ہر قابل ذکر چیز بک گئی۔ وہ کروڑ پتیوں کی طرح رہا کرتے تھے۔ چند ہی مہینوں میں ان کا رہن سہن ڈاک خانے کے کلرک جیسا ہو گیا۔
یہ میں محض مثال نہیں دے رہا ہوں بلکہ اسکول میں میرے ایک سال کے قیام کے بعد جب وہ مجھے لینے آئے تو سچ مچ ایک پوسٹ آفس میں کلرک کے طور پر ملازمت کر رہے تھے۔
مما نے اب مجھے دوبارہ ڈیڈی کے ساتھ رہنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ یہ سن کر مجھے خوشی ہوئی لیکن ڈیڈی کے مالی حالات کا سن کر میں ششدر رہ گیا۔ مجھے کچھ احساس جرم بھی ہوا کہ شاید میری بے راہ روی اور غیر ذمہ داری کا بھی اس میں کچھ دخل تھا لیکن ڈیڈی نے مجھے تسلی دی کہ مجھے اپنے آپ کو الزام دینے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔ انہوں نے مجھے یقین دلایا کہ میں نے کریڈٹ کارڈ کے ذریعے انہیں جو تین ہزار چار سو ڈالر کا نقصان پہنچایا تھا، اس کا ان کے زوال سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
’’ایسی کوئی بات ہرگز ذہن میں مت لانا میرے بچے!‘‘ ڈیڈی نے مجھے تسلی دی۔ ’’یہ بڑے کاروباری معاملات ہیں۔ ان میں چونتیس سو ڈالر کی کیا حیثیت ہے۔‘‘
ان کی خوش مزاجی اور زندہ دلی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ کاروباری زوال ان پر ذرا بھی اثرانداز نہیں ہوا تھا۔ وہ افسردہ یا پریشان نہیں تھے لیکن میں ان کے مالی نقصانات کے بارے میں سن کر پریشان ہو گیا تھا۔
میں اپنے لئے نہیں، انہی کے لئے پریشان تھا۔ وہ شاہانہ قسم کی شخصیت کے مالک تھے اور انہوں نے زندگی بھی شاہانہ انداز میں گزاری تھی۔ ان کے تمام طور طریقے شاہانہ تھے۔ مجھے یہ سوچ کر عجیب سا محسوس ہو رہا تھا کہ اب وہ معمولی تنخواہ کے لئے کام کر رہے تھے جو مہینہ بھر سر جھکا کر کام کرنے کے بعد انہیں ملتی تھی جبکہ اس سے پہلے ان کے اسٹور پر خود انہوں نے کئی ملازم رکھے ہوئے تھے۔
ان کی تمام تر بے فکری کے باوجود میرا تجسس


برقرار تھا۔ میں ان کے حالات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا۔ ’’ان حالات کے بارے میں آپ کے دوستوں کا رویہ کیسا رہا؟ مجھے یاد ہے آپ ہر مشکل وقت میں اپنے دوستوں کی مدد کے لئے دوڑے جاتے تھے۔ آپ کی پریشانیوں کے بارے میں جاننے کے بعد کوئی آپ کی مدد کے لئے بھی آیا یا نہیں؟‘‘
ڈیڈی تلخ انداز میں مسکرا دیئے مگر خوش مزاجی سے بولے۔ ’’بہت سی باتیں صرف وقت ہی سکھاتا ہے۔ میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سیکھ رہا ہوں، تم بھی سیکھو گے۔ جب انسان عروج پر ہوتا ہے تو بہت سے لوگ اپنے آپ کو اس کا دوست کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں لیکن جب اس پر زوال آتا ہے تو وہی لوگ اسے سر راہ دیکھ کر آنکھ بچا کر گزر جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی اسے کسی سستے سے کیفے میں بٹھا کر ایک کپ کافی پلانے کا بھی روادار نہیں ہوتا۔‘‘ پھر انہوں نے بے پروائی سے کندھے اچکائے اور بولے۔ ’’اگر مجھے دوبارہ زندگی ملی تو میں اپنے دوست ذرا احتیاط اور سمجھداری سے منتخب کروں گا۔ بہرحال اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب تک میرا کوئی اچھا دوست تھا ہی نہیں۔ دو آدمی ان حالات میں بھی میرے اچھے دوست ثابت ہوئے۔ خاص بات بس یہ ہے کہ وہ دونوں خوشحال تھے اور نہ ہی اس قسم کے لوگوں میں سے تھے جنہیں معاشرے میں ’’بڑے لوگ‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ وہ دونوں بیچارے معمولی حیثیت کے حامل ہیں۔ انہی میں سے ایک نے مجھے پوسٹ آفس میں کلرک کی ملازمت دلائی ہے۔‘‘
وہ اپنے حالات کے بارے میں زیادہ بات کرنے یا اپنی بدنصیبی کا رونا رونے کے لئے تیار نہیں تھے لیکن میں مسلسل اسی انقلاب کے بارے میں سوچ کر پریشان تھا۔ خاص طور پر جب میں ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھا تو میری پریشانی اور تاسف بڑھ گیا۔ وہ ایک خاصی پرانی اور سستی سی کار تھی۔ انہوں نے مجھے جو فورڈ دلوائی تھی وہ اس سے لاکھ درجے بہتر تھی۔ اب وہ میری فورڈ بھی بیچ چکے تھے لیکن ان کی اصول پسندی دیکھئے کہ حالات کی تمام تر خرابی کے باوجود انہوں نے فورڈ کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم خرچ نہیں کی تھی بلکہ میرے نام سے اکائونٹ کھلوا کر اس میں جمع کرا دی تھی۔ وہ رقم اکائونٹ میں محفوظ پڑی تھی۔
بعد میں ایک روز میں نے ڈیڈی سے کہا۔ ’’آپ ہمیشہ شاندار کیڈلک میں سفر کرنے کے عادی رہے ہیں۔ آپ کو اس پرانی کھٹارا کار میں سفر کرتے ہوئے الجھن نہیں ہوتی؟‘‘
وہ اپنے مخصوص زندہ دلانہ انداز میں ہنس دیئے اور بولے۔ ’’بیٹا! اہم بات یہ نہیں ہوتی ہے کہ انسان کے پاس کیا ہے اور کیا نہیں۔ اہم بات یہ ہوتی ہے کہ انسان خود کیا ہے؟ کیسا ہے؟ مجھے اس کار میں سفر کرتے ہوئے کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ مجھے جہاں جانا ہوتا ہے یہ مجھے وہاں پہنچا دیتی ہے۔ مجھے خود اپنے بارے میں معلوم ہے کہ میں کون ہوں۔ کیا ہوں۔ کیسا ہوں۔ مجھے اس بات کی پروا نہیں کہ دوسرے میرے بارے میں کیا سوچتے ہیں یا مجھے پرانی کار میں سفر کرتے دیکھ کر میرے بارے میں کیا رائے قائم کرتے ہیں۔‘‘ پھر وہ میری طرف دیکھ کر مشفقانہ انداز میں مسکرائے اور بات جاری رکھتے ہوئے بولے۔ ’’میں کسی خوش فہمی یا خود پرستی کے تحت یہ بات نہیں کر رہا بلکہ بارہا اپنا دیانتدارانہ تجزیہ کرنے کے بعد کہہ رہا ہوں۔ میں نے کبھی کسی کو دھوکا نہیں دیا۔ اگر میرے پاس بڑا سا گھر یا اچھی سی کار نہیں رہی تو مجھے اس پر کوئی افسوس یا پریشانی نہیں ہے اور جب یہ چیزیں میرے پاس تھیں تو میں نے کبھی ان پر فخر نہیں کیا تھا۔ بس آدمی کو صحیح طور پر اپنے بارے میں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ کیا ہے اور کیسا ہے۔ پھر وہ آرام سے زندگی گزار لیتا ہے۔‘‘
مسئلہ یہ تھا کہ اس وقت تک مجھے اپنے بارے میں معلوم نہیں ہوا تھا کہ میں کیا ہوں؟ کیسا ہوں البتہ تین سال بعد مجھے ان سوالوں کے جواب مل چکے تھے۔ میں اس وقت میامی کے خوبصورت ساحل پر لیٹا ہوا تھا۔ بھورے بالوں والی ایک حسینہ میرے پاس موجود تھی اور اس نے مجھ سے پوچھا تھا۔ ’’تم کون ہو؟‘‘
’’میں جو چاہتا ہوں وہ بن جاتا ہوں۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور یہ جھوٹ نہیں تھا۔
٭ … ٭ … ٭
سولہ سال کی عمر میں، میں نے گھر چھوڑ دیا۔ اس کے لئے مجھے کسی نے مجبور نہیں کیا تھا اور نہ ہی مجھ پر حالات کا دبائو تھا۔ ہاں اتنا ضرور تھا کہ میں کسی حد تک ناخوش تھا۔ میرے گویا دو گھر تھے اور میں دونوں کے درمیان کشمکش میں پھنسا ہوا تھا۔ ڈیڈی نے ابھی تک مما کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا اور ان کا دل جیتنے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے جب کہ مما ان کے پاس واپس جانے کے لئے تیار نہیں تھیں۔
ڈیڈی نے انہیں منانے کے سلسلے میں مجھے استعمال کرنا نہیں چھوڑا تھا اور مما کو یہ بات اب بھی ناپسند تھی۔ خود مجھے بھی ان دونوں کے درمیان یہ کردار ادا کرنا اچھا نہیں لگتا تھا۔ ان کے درمیان صلح ہونے اور دوبارہ ان کی شادی ہونے کے مجھے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے تھے۔ مما نے ڈینٹل کالج سے ٹیکنیشن کا کورس کر لیا تھا اور انہیں ایک ڈینٹسٹ کے ہاں ملازمت مل گئی تھی۔ وہ اپنی نئی زندگی سے خوش اور مطمئن تھیں۔ اس میں انہیں آزادی اور خودمختاری حاصل تھی۔
میرا گھر سے چلے جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن میں وہاں بے دلی سے رہ رہا تھا۔ خاص طور پر جب میں روزانہ صبح ڈیڈی کو ڈاک خانے کی وردی پہنے پرانی سی کار میں ڈیوٹی پر جاتے دیکھتا تو میرا دل برا ہوتا۔ مجھے یہ بات بھلائے نہیں بھولتی تھی کہ یہ شخص ہمیشہ نہایت اعلیٰ برانڈ کے سوٹ پہنا کرتا تھا اور اس کے پاس ہمیشہ کوئی بڑی سی شاندار گاڑی ہوتی تھی۔ یہ بات مجھے بار بار یاد آتی تو ڈپریشن سا ہونے لگتا۔
جون64ء کی ایک صبح میں سو کر اٹھا تو اچانک اس فیصلے پر پہنچ چکا تھا کہ مجھے کہیں جانا ہے۔ مجھے گویا خود اپنی تلاش میں نکلنا تھا۔ دنیا کا کوئی دور افتادہ گوشہ مجھے اپنی طرف بلا رہا تھا۔ اس کی آواز سرگوشی کے سے انداز میں مجھ تک پہنچ رہی تھی۔ ’’یہاں آئو میرے پاس!‘‘
چنانچہ میں نکل کھڑا ہوا۔ میں نے کسی کو خدا حافظ نہیں کہا۔ کسی کے لئے اپنے پیچھے کوئی خط نہیں چھوڑا۔ کسی کو نہیں بتایا کہ میرا ارادہ یا پروگرام کیا تھا۔ مجھے خود نہیں معلوم تھا، کسی کو کیا بتاتا۔
میرے اس اکائونٹ میں دو سو ڈالر پڑے تھے جو ڈیڈی نے میرے لئے کھولا تھا۔ میں نے اس کی چیک بک ساتھ لی اور نیویارک سٹی جانے والی ٹرین میں سوار ہو گیا۔ میں نے سوچا تھا وہاں جا کر فیصلہ کروں گا کہ اصل میں مجھے کہاں جانا ہے۔
اگر میں نبراسکا یا کنساس کے کسی چھوٹے شہر یا قصبے سے اپنے گھر سے بھاگا ہوا لڑکا ہوتا تو شاید نیویارک سٹی کی اونچی اونچی عمارتیں، ٹریفک کا اژدھام اور لوگوں کے ہجوم دیکھ کر مرعوب ہو جاتا یا ڈر جاتا۔ لیکن میرا تعلق تو نیویارک ہی کے ایک نواحی علاقے سے تھا، اس لئے میں اصل نیویارک شہر کو دیکھ کر مرعوب یا خوفزدہ نہیں ہوا۔ بلکہ مجھے یوں لگا جیسے یہ بڑا شہر درحقیقت میری جولان گاہ تھی۔
مجھے ٹرین سے اترے ایک گھنٹہ بھی نہیں ہوا تھا کہ میں نے تقریباً اپنی ہی عمر کے ایک لڑکے کو شیشے میں اتار لیا کہ وہ مجھے اپنے ساتھ اپنے گھر لے چلے۔ میں نے اس کے والدین کو اپنی فوری طور پر گھڑی ہوئی کہانی خاصے درد بھرے لہجے میں سنائی کہ میرا تعلق نیویارک اسٹیٹ کے بالائی علاقے سے تھا۔ میرے والدین کا انتقال ہو چکا تھا اور میں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی جدوجہد شروع کرنے کے لئے گھر سے نکلا تھا۔ مجھے اس وقت تک قیام کے لئے کسی جگہ کی ضرورت تھی جب تک مجھے ملازمت نہیں مل جاتی۔ ان بیچاروں نے فوراً مجھے پیشکش کر دی کہ میں جب تک چاہوں، ان کے ہاں رہ سکتا ہوں۔ یوں میرا ایک مسئلہ فوراً ہی حل
گیا۔
میرا ان کی فراخدلی سے کوئی ناجائز فائدہ اٹھانے کا قطعی ارادہ نہیں تھا۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ یہاں سے کچھ رقم کمالوں تو فوراً آگے نکل جائوں۔ تاہم یہ میرے ذہن میں بالکل واضح نہیں تھا کہ مجھے کہاں جانا ہے اور کیا کرنا ہے؟ بہرحال یہ میں نے دل میں ٹھان رکھی تھی کہ کسی میدان میں مجھے زبردست کامیابی حاصل کرنی ہے۔
میرے ذہن میں بس ایک دھندلا اور غیرواضح سا خیال تھا جیسے میرے سامنے کوئی اونچا پہاڑ ہے۔ مجھے اس پر چڑھنا ہے اور بس پھر اس کی چوٹی پر ہی رہنا ہے، وہاں سے واپس نہیں اترنا ہے۔ مجھے اپنے ڈیڈی والی غلطی نہیں دہرانی۔ ایک بار بلندی پر جانا ہے تو دوبارہ پستی میں نہیں آنا ہے۔
نیویارک میں میرا کچھ زیادہ دل نہیں لگ رہا تھا گو کہ مجھے یہاں ملازمت تلاش کرنے میں زیادہ دشواری نہیں ہوئی۔ اسٹیشنری کے کاروبار کی مجھے خاصی سمجھ بوجھ تھی کیونکہ میں ڈیڈی کے اسٹور پر اسٹاک کلرک اور ڈلیوری بوائے کی حیثیت سے کام کر چکا تھا اور وہ بہت بڑا اسٹور تھا۔ میں نے اسٹیشنری کی تین چار بڑی کمپنیوں کے دفاتر کے چکر لگائے۔
وہاں میں نے تقریباً سچ ہی بولا۔ منیجر کو میں نے بتایا کہ میری عمر سولہ سال ہے۔ حالات کی خرابی کی وجہ سے میں تعلیم مکمل نہیں کر سکا۔ اب میں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اسٹیشنری کے کام کا مجھے تجربہ تھا۔ آخر ایک فرم نے مجھے ڈیڑھ ڈالر فی گھنٹہ معاوضے پر ملازم رکھ لیا۔
میرے خیال میں یہ مناسب معاوضہ تھا لیکن ایک ہی ہفتے میں مجھے اندازہ ہوا کہ یہ میری خوش فہمی تھی۔ مجھے پتا چلا کہ ساٹھ ڈالر فی ہفتہ میں، میں نیویارک میں نہیں رہ سکتا تھا خواہ میں گھٹیا ترین ہوٹل میں کمرہ کرائے پر لیتا اور زیادہ تر برگر کھا کر گزارہ کرتا۔
برگر مجھے ویسے بھی پسند نہیں تھا۔ برگر کھا کر مجھے بدہضمی محسوس ہونے لگتی تھی اور کھٹی ڈکاریں آنے لگتی تھیں۔ کم آمدنی کا ایک اور منفی پہلو یہ تھا کہ لڑکیوں سے آپ کی دوستی نہیں ہو سکتی تھی۔ اس بات پر لڑکیاں بھلا کہاں خوش ہو سکتی ہیں کہ آپ کھانے کے نام پر انہیں محض ایک سستا سا برگر کھلائیں اور تفریح کے نام پر سینٹرل پارک میں ٹہلا کر پیدل ہی گھر چھوڑنے چل دیں؟ اس سے بھلا انہیں اپنی زندگی میں کون سی رنگینی کا احساس ہو سکتا تھا؟ خود میرے اپنے لئے یہ کوئی جاں افزا تصور نہیں تھا۔ یہ بھی بھلا کوئی زندگی تھی!
میں نے نہایت سنجیدگی سے اپنے حالات کا تجزیہ کیا۔ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ مجھے کم تنخواہ اس لئے نہیں مل رہی کہ میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل نہیں کر سکا تھا۔ مجھے کم تنخواہ اس لئے مل رہی تھی کہ میری عمر صرف سولہ سال تھی۔ سولہ سال کی عمر میں آپ لڑکے شمار ہوتے ہیں اور لڑکوں کو پورے مردوں والی تنخواہ نہیں ملتی۔ سمجھا یہی جاتا ہے کہ لڑکوں پر کوئی خاص ذمہ داریاں نہیں ہوتیں، انہیں بس جیب خرچ کی ضرورت ہوتی ہے۔
چنانچہ میں نے راتوں رات اپنی عمر میں دس سال کا اضافہ کر لیا۔ قدرت کی طرف سے مجھے یہ مدد میسر تھی کہ عمر کی مناسبت سے میرا قد کاٹھ غیر معمولی تھا۔ اصل عمر سے دس سال بڑا ہونے کا دعویٰ میں آسانی سے کر سکتا تھا۔ عورتیں تو ویسے ہی میری اصل عمر سن کر حیران رہ جاتی تھیں۔ میں نے فیصلہ کیا کہ جب دیکھنے میں میری عمر زیادہ لگتی ہے تو کاغذات میں بھی اسے زیادہ ہی ہونا چاہئے۔
اسکول میں ’’گرافک آرٹس‘‘ کے مضمون میں میری کارکردگی بہت اچھی رہی تھی۔ ڈرائنگ کے معاملے میں میرا ہاتھ صاف تھا چنانچہ میں نے اپنے ڈرائیونگ لائسنس پر بھی ہاتھ کی صفائی دکھا دی۔ اس پر میری تاریخ پیدائش 1948ء درج تھی۔ میں نے اسے1938ء کر دیا۔ لائسنس ذرا بھی خراب نہیں ہوا۔ یہ کام نہایت عمدگی سے ہو گیا۔ جب تک ان معاملات کا کوئی ماہر نہایت باریک بینی سے معائنہ نہ کرتا تب تک اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تھا کہ4 کے ہندسے کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ ہوئی ہے۔ ایک ہی رات میں سولہ سے چھبیس سال کا ہو گیا۔
اپنی نئی تاریخ پیدائش کا ثبوت بٹوے میں رکھ کر میں نئے سرے سے ملازمت کی تلاش میں نکلا۔ میری اس کوشش سے بہت زیادہ فرق تو نہیں پڑا۔ مجھے احساس ہوا کہ تعلیم اور ہنر کی بھی بہرحال اپنی جگہ کافی اہمیت تھی تاہم پہلے کی نسبت کچھ بہتری نظر آئی۔ مجھے اب جو زیادہ سے زیادہ پیشکش کی گئی وہ پونے تین ڈالر فی گھنٹہ کی تھی اور اس کے لئے مجھے ایک ٹرک ڈرائیور کے معاون کے طور پر کام کرنا تھا۔
میں جن لوگوں کے سامنے ملازمت کے لئے پیش ہوا۔ ان میں سے بعض نے کھردرے انداز میں مجھ پر واضح کر دیا کہ عمر سے زیادہ تعلیم اہم تھی۔ اگر میرے پاس اسکول کا ڈپلومہ ہوتا تو مجھے بہتر تنخواہ مل سکتی تھی۔ میں نے چونکہ ہائی اسکول کی تعلیم بھی مکمل نہیں کی تھی اس لئے میری حیثیت معاشرے میں کچھ ایسی تھی جیسی بھیڑیوں کے غول میں لنگڑے بھیڑیئے کی ہوتی ہے جو تین ٹانگوں پر چلتا ہے۔ وہ دوسرے بھیڑیوں کے پیچھے پیچھے گھسٹتا ہے، کھانے کو اسے بھی مل جاتا ہے لیکن کم ملتا ہے۔ زندہ وہ بھی رہتا ہے مگر شکم سیر ہو کر نہیں۔ بہت بعد میں جا کر مجھے خیال آیا کہ جس طرح تاریخ پیدائش بدلی جا سکتی ہے اسی طرح جعلی سرٹیفکیٹ اور ڈپلومہ بھی تیار کئے جا سکتے ہیں۔
اب میری آمدنی ایک سو دس ڈالر فی ہفتہ تھی۔ اس آمدنی میں آدمی گزارہ تو کر سکتا تھا لیکن میرے ذہن میں زندگی گزارنے کا جو تصور تھا اس طرح کی زندگی نہیں گزار سکتا تھا۔ لڑکیوں کی رفاقت کے بغیر میری نظر میں زندگی کوئی زندگی نہیں تھی اور جب لڑکیوں کی رفاقت کا سلسلہ شروع ہوتا تو اخراجات بے تحاشا بڑھ جاتے تھے، ہاتھ تنگ ہونے لگتا تھا۔
اس بار مجھ پر تنگدستی آئی تو میں نے ایک نیا کام شروع کر دیا۔ میں ادائیگی کے لئے اپنے اس اکائونٹ کے چیک لکھ لکھ کر دینے لگا جس میں دو سو ڈالر پڑے ہوئے تھے۔ یہ اکائونٹ مین ہٹن کے ایک بینک میں تھا۔ بہرحال ابتدا میں، میں نے دس دس، بیس بیس ڈالر کے چیک ہی لکھے تاکہ وہ کیش ہوتے رہیں اور دو سو ڈالر کا ’’محفوظ سرمایہ‘‘ کچھ عرصہ کام آ جائے۔
پھر مجھے پتا چلا کہ زیادہ تر بڑے اسٹور، سپر مارکیٹس ا ور ہوٹل آپ کے ذاتی چیک کیش بھی کر دیتے تھے بشرطیکہ وہ زیادہ بڑی رقم کے نہ ہوں اور آپ اپنی شناخت کا کوئی معقول ثبوت پیش کریں۔
میرے پاس میرا ڈرائیونگ لائسنس میری شناخت کا بہترین ذریعہ تھا۔ چنانچہ اب میں نے اکثر ہوٹلوں اور ڈپارٹمنٹل اسٹورز پر بیس پچیس ڈالر کے چیک کیش کرانے شروع کر دیئے۔ یہ کام بہت آسان تھا بس میں شناخت کے لئے اپنا ڈرائیونگ لائسنس چیک کے ساتھ ہی پیش کر دیتا تھا اس کے بعد کوئی کچھ پوچھتا ہی نہیں تھا۔ کیش کے ساتھ ہی ڈرائیونگ لائسنس مجھے واپس کیا جاتا۔
جلد ہی مجھے یہ احساس ہو گیا کہ میرے اکائونٹ میں رقم ختم ہو چکی ہو گی اور اب میرے چیک کیش نہیں ہو رہے ہوں گے لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ جن دکانوں، ہوٹلوں اور دوسری جگہوں پر میں چیک دیتا تھا وہ اس سلسلے میں کیا کر رہے تھے، چنانچہ میں نے چیک دینے اور ان کے بدلے کیش لینے کا سلسلہ جاری رکھا۔
پیسوں کی ضرورت مجھے ہمیشہ رہتی تھی۔ تنخواہ کا چیک میرے لئے قطعی ناکافی رہتا تھا کیونکہ نیویارک آتے ہی میں زور و شور سے اپنے پسندیدہ مشغلے میں لگ گیا تھا یعنی لڑکیوں سے دوستیاں شروع ہو گئی تھیں۔ نیویارک میں لڑکیاں اس طرح بھری پڑی تھیں جیسے پولٹری فارم میں مرغیاں۔ میں تو پاگل ہو گیا تھا۔ نیویارک آئے کافی دن ہو گئے تھے مگر ہوش و حواس کہاں قابو میں رہ سکتے تھے۔ اب تو یہ نوبت آ گئی تھی کہ میں ایک ایک دن میں دو دو، تین تین چیک کیش کرانے لگا تھا۔ حالانکہ مجھے
تھا کہ وہ سب بائونس ہو رہے ہوں گے۔
کبھی کبھی میں دل کو تسلی دیتا کہ جس بینک میں میرا اکائونٹ تھا۔ وہاں سے بات ڈیڈی تک پہنچ گئی ہو گی اور انہوں نے میرے اکائونٹ میں پیسے ڈال دیئے ہوں گے تاکہ کاٹے ہوئے چیک بائونس نہ ہوں۔ کبھی کبھی میں اس نظریئے کا سہارا لینے کی بھی کوشش کرتا جو ہر نوسر باز اور جعل ساز کو بہت پسند ہے اور شاید کسی نوسر باز ہی کی تخلیق ہے یعنی اگر لوگ مستقل طور پر بے وقوف بننے کے لئے تیار رہتے ہیں تو پھر وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ آپ انہیں بے وقوف بناتے رہیں۔
اس کے علاوہ میں یہ سوچ کر بھی خود کو تسلی دیتا رہتا کہ ابھی میرا شمار کم عمروں میں ہی ہوتا تھا۔ اگر میں کبھی پکڑا بھی گیا تو کوئی سخت سزا نہیں ملے گی۔ نیویارک کے قوانین کم عمر لڑکوں اور نوجوانوں کے جرائم کے سلسلے میں خاصے نرم تھے اور ان کے مقدمات کی سماعت کرنے والی مخصوص عدالتوں کے ججوں کا رویہ کسی حد تک مشفقانہ ہوتا تھا۔ میرا چونکہ یہ پہلا جرم ہو گا اس لئے مجھے شاید صرف تنبیہ کرتے ہی میرے والدین کے سپرد کر دیا جائے، مجھے تو شاید ’’تابرخاست عدالت‘‘ رکنے کی سزا بھی نہ ملے۔
انہی خیالات سے خود کو تسلیاں دیتے ہوئے میں اپنے رستے پر چلتا رہا بلکہ پھر میرا حوصلہ اتنا بڑھا کہ میں نے نوکری چھوڑ دی اور اسی طرح چیک کیش کرا کر گزارہ کرنے لگا۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے اس دور میں کتنے چیک کیش کرائے ہوں گے، تاہم یہ یاد ہے کہ میرا رہن سہن پہلے سے بہتر ہو گیا تھا اور لڑکیوں کے ساتھ دوستیوں کا سلسلہ کچھ اور دراز ہو گیا تھا۔
دو ماہ تک اسی طرح بوگس چیکوں کے سہارے عیش کرنے کے بعد مجھے دل ہی دل میں اس تلخ اور ناگوار حقیقت کا اعتراف کرنا پڑا کہ میں باقاعدہ ایک نوسر باز اور فراڈیا بن چکا تھا۔ میں نے گویا بوگس چیک کاٹنے کو اپنا پیشہ بنا لیا تھا۔ دل ہی دل میں اس حقیقت کا اعتراف کرنے کے باوجود مجھے کسی قسم کی پشیمانی یا ضمیر کی خلش کا احساس نہیں ہوا۔ غالب احساس یہی تھا کہ میں اس میدان میں ابھی تک کامیاب چلا آ رہا تھا اور شاید وہ عمر ہی کچھ ایسی تھی کہ بس کامیابی کا احساس ہی سب سے زیادہ تسلی بخش تھا خواہ کامیابی کسی بھی قسم کی ہوتی!
البتہ کبھی کبھی مجھے ان خطرات کا احساس ذرا پریشان کرتا تھا جو اس قسم کے کاموں میں بہرحال درپیش ہوتے ہیں۔ مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ میرے ڈیڈی نے میرے غائب ہونے کے بارے میں پولیس میں رپورٹ درج کرا دی تھی۔ پولیس عام طور پر سولہ سال کی عمر کے لڑکوں کے اپنے گھر سے غائب ہونے کے معاملے میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں لیتی اور تندہی سے انہیں تلاش نہیں کرتی جب تک کہ کسی قسم کی گڑبڑ کا امکان نظر نہ آ رہا ہو۔
میرے معاملے میں بہرحال خاصی گڑبڑ موجود تھی۔ میں نے اتنی تعداد میں بوگس چیک چلائے تھے کہ مجھے یقین تھا کہ پولیس مجھے گھر سے بھاگ جانے والے لڑکے کے طور پر نہ سہی ایک فراڈیئے اور نوسر باز کی حیثیت سے ضرور ڈھونڈ رہی ہو گی۔ اس کے علاوہ اب کچھ ہوٹلوں اور بڑی دکان والوں نے بھی میری تلاش شروع کر دی ہو گی یا وہ اس انتظار میں بیٹھے ہوں گے کہ میں آئندہ کبھی ان کے سامنے آئوں۔
مختصر انداز میں یہ کہا جا سکتا تھا کہ اس وقت میری حیثیت ایک مفرور مجرم کی سی تھی۔ مجھے یہ امید تھی کہ ابھی میں کچھ عرصہ اور پولیس کے ہتھے چڑھنے سے بچا رہوں گا لیکن یہ طے تھا کہ اگر میں اسی طرح تواتر سے بوگس چیک کاٹتا رہوں گا اور کیش کراتا رہوں گا تو ایک نہ ایک روز ضرور پکڑا جائوں گا۔
(جاری ہے)

Latest Posts

Do Humsafar

Related POSTS