میرے بیٹھ جانے کے بعد اس وقت تک کوئی کچھ نہ بولا جب تک طیارہ فضا میں بلند نہیں ہوگیا ،پھر کیپٹن، کوپائلٹ اور فلائٹ انجینئر نے اپنا اپنا تعارف کرایا۔
’’تم کب سے پین ایم کیلئے کام کر رہے ہو؟‘‘ تعارف کے بعد کیپٹن نے پوچھا۔ اس کے لہجے سے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ کسی شک کے تحت نہیں بلکہ محض گپ شپ کے طور پر یہ سوال کر رہا تھا۔
’’آٹھ سال ہوگئے ہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ میرے منہ سے فوری طور پر یہ نکل تو گیا لیکن دوسرے ہی لمحے میں نے سوچا کہ اگر میں چھ سال کہتا تو زیادہ مناسب ہوتا۔ بہرحال اس وقت میں نے سکون کی سانس لی جب ان تینوں میں سے کسی نے میرے جواب پر حیرت کا اظہار نہیں کیا۔
’’کون سی مشین چلا رہے ہو؟‘‘ کوپائلٹ نے پوچھا۔
’’سیون او سیون۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’دو مہینے پہلے تک میں ڈی سی 8 چلا رہا تھا۔‘‘
میامی پہنچنے تک مجھے یہی محسوس ہوتا رہا جیسے میں کانٹوں کے بستر پر بیٹھا ہوں، اس کے باوجود سفر ختم ہونے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ مجھ سے کوپائلٹ نے یہ بھی پوچھا تھا کہ میں نے ہوابازی کی تعلیم و تربیت کہاں سے حاصل کی تھی۔ میں نے بتایا کہ میں ’’ایمبری رڈل‘‘ کا تعلیم یافتہ تھا اور فارغ التحصیل ہوتے ہی مجھے پین ایم میں ملازمت مل گئی تھی۔
اس کے بعد وہ تینوں زیادہ تر آپس میں ہی باتیں کرتے رہے۔ باتوں کا رُخ میری طرف نہیں ہوا اس لئے مجھے اس بات کا خطرہ بھی زیادہ محسوس نہیں ہوا کہ میرے بہروپ کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوں گے۔ ریڈیو پر رابطہ رکھنے اور تمام بات چیت کرنے کے فرائض کوپائلٹ انجام دے رہا تھا۔ ایک بار اس نے ایئرفون میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’کیا تم بھی سننا پسند کرو گے؟‘‘
’’نہیں… میں اس وقت صرف موسیقی سننا پسند کروں گا۔‘‘ میں نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ اس پر وہ تینوں ہنس دیئے۔
میں ان تینوں کی گفتگو البتہ نہایت توجہ سے سنتا رہا۔ میں ان کا انداز گفتگو اور اصطلاحیں ذہن نشین کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
کیبن میں جو ایئرہوسٹس کھانے پینے کی چیزیں سرو کر رہی تھی، بھورے بالوں والی اور قدرے مختصر جسامت کی ایک دلکش لڑکی تھی۔ میں جب کیبن سے نکل کر واش روم گیا تو واپسی پر راستے میں وہ مل گئی۔ میں نے موقع سے فائدہ اُٹھانے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کی اور اس کے ساتھ باتوں میں لگ گیا۔ اسے میامی میں اپنی ایک سہیلی کے ہاں قیام کرنا تھا۔ کیبن میں واپس آنے سے پہلے میں اس کے ساتھ میامی میں اسی رات کیلئے ملاقات طے کر چکا تھا۔
جہاز نے جب میامی میں لینڈ کیا تو تینوں فلائنگ آفیسرز نے بڑے اخلاق سے مجھے خدا حافظ کہا اور یہ بھی بتایا کہ ان کے جہاز میں جمپ سیٹ اکثر ہی دستیاب ہوتی ہے۔
میں اس سے پہلے کبھی میامی نہیں آیا تھا۔ مجھے وہاں کا خوشگوار موسم، چمکیلی دھوپ، صاف ہوا، درختوں اور سبزے سے گھری ہوئی سڑکیں بہت اچھی لگیں۔ ایئرپورٹ کے اردگرد ہی پام کے خوبصورت درخت دُور تک قطار دَر قطار موجود تھے۔ یہاں زیادہ اُونچی عمارتوں کی بھرمار نہیں تھی۔ مجھے یوں لگا جیسے میں کسی اور ملک میں آ گیا ہوں۔
میں ان نظاروں میں کھویا ٹرمینل سے باہر نکل گیا تھا۔ جب اچانک مجھے یاد آیا کہ میں نے یہ تو سوچا ہی نہیں کہ مجھے جانا کہاں ہے؟ مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ پین ایم کے لوگوں کو اگر میامی میں ٹھہرنے کی ضرورت پیش آتی تھی تو پین ایم والے کہاں ان کے قیام کا بندوبست کرتے تھے؟ بہرحال! یہ جاننا کچھ زیادہ مشکل نہیں تھا۔
میں واپس پلٹا اور پین ایم کے ٹکٹ کائونٹر پر جا پہنچا۔ میں نے دیکھا کہ کائونٹر کے عقب میں موجود لڑکی مسافروں کے ساتھ الجھی ہوئی تھی۔ میں ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ لڑکی کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ مسافروں کو چھوڑ کر میری طرف آ گئی۔
’’کیا میں آپ کی کچھ مدد کر سکتی ہوں؟‘‘ اس نے ذرا تجسس سے میرا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں۔‘‘ میں نے اطمینان سے کہا۔’’مجھے پہلی بار یہاں اترنا پڑا ہے، مجھے کسی اور کی جگہ لینے کیلئے یہاں بھیجا گیا ہے اور اتنے ہنگامی انداز میں بھیجا گیا ہے کہ کسی نے مجھے یہ بھی نہیں بتایا کہ یہاں ہمارے لوگ ٹھہرتے کہاں ہیں۔‘‘
’’میں بتاتی ہوں۔‘‘ وہ فوراً جذبۂ رہنمائی سے سرشار ہوتے ہوئے بولی۔ ’’اگر قیام چوبیس گھنٹے سے کم ہو تو ہمارے لوگوں کو ’’اسکائی وے موٹیل‘‘ میں ٹھہرایا جاتا ہے۔‘‘
’’میرا قیام چوبیس گھنٹے سے کم ہی کا ہوگا۔‘‘ میں نے جلدی سے کہا۔
’’بس پھر آپ کو وہیں جانا ہوگا ،موٹیل یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے۔ عملے کو لے جانے والی بس میں جانا چاہیں تو تھوڑا سا انتظار کرلیں ورنہ ٹیکسی کر لیں۔‘‘
’’میں ٹیکسی کرلیتا ہوں۔‘‘ میں نے جلدی سے کہا۔ میں ایسی بس میں جانے کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتا تھا جس میں پین ایم کے اصل ملازم بھرے ہوئے ہوں۔
’’تو پھر ایک منٹ ٹھہریں۔‘‘ وہ بولی۔ اس نے کائونٹر کے نیچے سے کوئی دراز کھول کر ایک کارڈ نکالا اور مجھے دیتے ہوئے بولی۔ ’’یہ کسی بھی ٹیکسی ڈرائیور کو دے دیجئے گا۔‘‘
میں نے دیکھا، وہ ایک فری پاس تھا جو کسی بھی کمپنی کی ٹیکسی میں جانے کیلئے کارآمد تھا، یہ میرے لئے ایک نیک شگون تھا۔ جہاز میں تو مفت سفر کیا ہی تھا، اب میں ٹیکسی میں بھی مفت سفر کرسکتا تھا۔ ٹرمینل سے باہر جاتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ ایئرلائنز والوں کے خوب مزے ہیں۔ مزے اڑانے والوں میں اب میں بھی شامل ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔
موٹیل پہنچ کر میں نے کمرہ لینے کے سلسلے میں کارڈ پُر کیا۔ اس پر میں نے اپنا نام فرینک ولیم اور ایڈریس ’’جنرل ڈلیوری نیویارک‘‘ لکھا۔ کارڈ پُر کر کے میں نے کلرک کو دیا تو اس نے اس پر سرخ رنگ کی بڑی سی مہر لگا دی جس میں جلی حروف میں ’’ایئرلائن کریو‘‘ لکھا ہوا تھا۔
کمرے میں جاتے وقت مجھے وہاں پین ایم کا کوئی آدمی کم از کم وردی میں نظر نہیں آیا۔ سامان کمرے میں رکھ کر اور تازہ دم ہو کر میں نے اس ایئرہوسٹس کو فون کیا جس سے رات کی ملاقات طے ہوئی تھی۔ وہ رات کو اپنی دوست کی کار میں مجھے لینے آ گئی۔ہم نے وہاں کے نائٹ کلبوں میں بہت اچھا وقت گزارا، تاہم میں نے اس کے ساتھ گھر جانے کی حد تک بے تکلف ہونے کی کوشش نہیں کی۔ میں اس دوران بھول ہی گیا تھا کہ میں اس کی نظر میں ایک کوپائلٹ ہوں، مجھے اس وقت یاد آیا جب وہ مجھے موٹیل کے سامنے اُتار کر رُخصت ہوگئی۔
صبح میں ساڑھے پانچ بجے ہی موٹیل سے رُخصت ہونے کیلئے نکل آیا۔ کائونٹر پر ایک کلرک بیٹھا اُونگھ رہا تھا میں نے اپنے بل پر دستخط کئے پھر کلرک سے پوچھا۔ ’’میرا ایک چیک کیش ہو سکتا ہے؟‘‘
’’یقیناً…! کیا تمہارے پاس کارڈ موجود ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
میں نے اسے اپنا کارڈ دیا اور سو ڈالر کا چیک بھی لکھ کر دے دیا۔ اس نے چیک کی پشت پر میرا جعلی ’’ملازم نمبر‘‘ لکھا اور سو ڈالر میرے حوالے کر دیئے۔ میرے دماغ پر اپنی کامیابی کا نشہ کچھ اور گہرا ہوگیا۔
میں نے ٹیکسی پکڑی اور دوبارہ ایئرپورٹ جا پہنچا۔ وہاں سے میں برنیف ایئرلائن کی ایک فلائٹ میں ڈلاس روانہ ہوگیا۔ میں ایک بار پھر ’’ڈیڈہیڈنگ‘‘ کر رہا تھا۔ برنیف کی فلائٹ پر کاک پٹ میں جن فلائنگ آفیسرز سے مجھے واسطہ پڑا، انہوں نے مجھ سے زیادہ بات نہیں کی۔ اس کے باوجود چند مشکل لمحات آ گئے۔
مجھے معلوم نہیں تھا کہ ڈلاس سے پین ایم کی پروازیں چلتی ہی نہیں تھیں، تاہم مجھے یہ معلوم تھا کہ جب کوئی پائلٹ ڈیڈہیڈنگ کرتے ہوئے کہیں جا رہا ہو تو اس کا مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ وہ کسی ڈیوٹی کے سلسلے میں
جا رہا ہے۔
’’تم ڈلاس کس لئے جارہے ہو؟‘‘ کوپائلٹ نے معمولی سے تجسس سے میری طرف دیکھتے ہوئے اچانک پوچھ لیا۔میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ کیا جواب دوں کہ اس نے خود ہی مجھے جواب بھی فراہم کر دیا۔ ’’کیا وہاں سے پین ایم کی کوئی چارٹرڈ فلائٹ جا رہی ہے؟‘‘
’’ہاں، فریٹ لے جانا ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ مجھے یہ ضرور معلوم تھا کہ پین ایم کی فریٹ یا کارگو یعنی سامان لے جانے والی فلائٹس بھی دُنیا بھر کیلئے چلتی ہیں۔ یوں بات بن گئی اور یہ موضوع وہیں ختم ہوگیا۔
ڈلاس میں بھی میں نے ایک رات گزاری۔ وہاں کے موٹیل سے بھی سو ڈالر کا چیک کیش کرایا اور صبح ہوتے ہی سان فرانسسکو روانہ ہوگیا۔
آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو کہ اگلے دو سال تک میں اسی طرح جہازوں میں مفت اِدھر سے اُدھر گھومتا رہا۔ ہوٹلوں میں مفت قیام کرتا رہا، اُلٹا ان سے کچھ رقم وصول کر کے رُخصت ہوتا رہا۔ پولیس نے بعد میں میرے اس عمل کو ’’ایک انوکھا طریقۂ واردات‘‘ قرار دیا۔ حالانکہ میرے خیال میں اس میں کوئی زیادہ انوکھی بات نہیں تھی۔ میں تو بیچارے لوگوں کی آسانی سے اعتبار کر لینے کی عادت سے پورا پورا استفادہ کر رہا تھا۔
اس سارے نظام کے پیچھے اکائونٹس کا جو نظام کام کر رہا تھا یا جو آڈٹ ہوتے تھے، ان دنوں وہ سب کچھ بہت سختی یا بہت زیادہ باریک بینی سے نہیں ہوتا تھا اور پھر میرے فراڈ میں ایک خاص بات یہ تھی کہ میں لالچ نہیں کرتا تھا۔ ایک وقت میں زیادہ لمبا ہاتھ نہیں مارتا تھا۔ اس کے علاوہ میرے بہروپ کے اتنے طویل عرصے تک کامیاب رہنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان دنوں عالمی حالات اتنے خراب نہیں تھے۔ آج کے دور جیسی دہشت گردی کی کارروائیاں شروع نہیں ہوئی تھیں۔ وہ معصومیت، امن امان اور سادگی کا دور تھا۔ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ پائلٹ کی وردی میں آنے والا ایک شخص جو سارے طریقۂ کار سے بھی واقف ہو، جعلساز بھی ہو سکتا ہے۔ بعد میں تحقیقات کے دوران پولیس سے بات کرتے ہوئے یہی بات پین ایم کے ایک ملازم نے بھی کہی۔
میں جب اس دھندے میں لگا ہوا تھا تومجھے معلوم نہیں تھا کہ ڈیڈہیڈنگ کیلئے میں جو گلابی فارم پُر کرتا ہوں، اس کی ایک کاپی فیڈرل ایوی ایشن ایجنسی کے ٹاور بھی جاتی ہے۔ میں بس یہی سمجھتا تھا کہ یہ معمولی سی ضابطے کی کارروائی ہے اور فارم کی دونوں کاپیاں آخرکار کہیں جا کر ردی کے ڈھیر میں گم ہو جاتی ہوں گی لیکن ایسا نہیں تھا۔ فیڈرل ایوی ایشن ایجنسی جسے مختصراً ایف اے اے بھی کہا جاتا تھا، ان فارمز کا ریکارڈ رکھتی تھی لیکن ظاہر ہے اس کی تحقیق اور تصدیق کی نوبت جلدی نہیں آ سکتی تھی۔
اس کے علاوہ میں جو چیک کیش کراتا تھا، وہ بھی گھومتا گھامتا کلیئرنگ کی تمام کارروائیوں سے گزرتا اور مختلف شہروں سے ہوتا، اس اطلاع کے ساتھ واپس پہنچتا تھا کہ اس اکائونٹ میں پیسے نہیں ہیں۔ اس وقت تک آٹھ دس دن گزر چکے ہوتے تھے اور میں اس جگہ سے بہت دُور جا چکا ہوتا تھا جہاں سے میں نے چیک کیش کرایا ہوتا تھا۔
ویسے بھی جن جگہوں پر بے شمار چیکوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے اور بیشتر لین دین چیکوں ہی کے ذریعے ہوتا ہے، وہاں اگر کبھی کبھار چھوٹی رقم کا ایک آدھ چیک اس نوٹ کے ساتھ واپس آ جاتا ہے کہ اکائونٹ میں رقم اس چیک کو کیش کرنے کیلئے ناکافی ہے تو اس بات کو بہت زیادہ سنگین نہیں سمجھا جاتا۔ میرا کم از کم ایک باضابطہ اکائونٹ تو موجود تھا اس لئے میرے چیک پر فراڈ ، جعلی یا اس طرح کے کسی دوسرے لفظ کی مہر لگ کر نہیں آتی تھی، اس صورت میں معاملہ زیادہ سنگین ہوتا۔
میرا معاملہ جس قسم کا تھا، اس میں نقصان اٹھانے والی پارٹی عموماً مسئلے کو طول دینا پسند نہیں کرتی تھی اور یہ معاملہ داخل دفتر ہو جاتا تھا۔ دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ متعلقہ پارٹی پولیس کو اطلاع دیتی ہے اگر چیک لکھنے والے شخص نے تواتر سے ایسے بہت سے چیک لکھے ہوتے ہیں تو اسے تلاش کیا جاتا ہے لیکن اس کے مل جانے کے بعد بھی پہلی کوشش یہی کی جاتی ہے کہ اس کے خلاف کوئی سخت کارروائی کرنے کے بجائے متاثرہ فریقوں کی رقمیں دلا دی جائیں اور اس حرکت کے ذمے دار کو تنبیہ کر دی جائے مگر اس صورت میں بھی مسئلہ یہ آن پڑتا ہے کہ بھاگ دوڑ کرنے کیلئے متعلقہ پولیس اسٹیشنز کے پاس ضروری نفری نہیں ہوتی جبکہ ان کے پاس اس قسم کے معاملات کی بھرمار ہوتی ہے۔ وہ رقم کے حساب سے ہر معاملے کو ترجیح دیتے ہیں یعنی جتنی بڑی رقم ہوگی، اتنی جلدی وہ اس کے سلسلے میں بھاگ دوڑ کریں گے۔
میری یہ بھی خوش قسمتی تھی کہ اس زمانے میں مختلف علاقوں اور مختلف شہروں کی پولیس کے درمیان کمپیوٹر کے مؤثر رابطے نہیں تھے۔ ان سب حقائق کی وجہ سے میں کافی عرصے تک اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے ہوئے آزاد پھرتا رہا۔ بہرحال بیچ میں کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی انداز میں اعصابی تنائو میں مبتلا کر دینے والے لمحات آتے رہتے تھے۔
مثلاً ایک بار ایک ایئرلائن کے کیپٹن سے میرا سامنا ہوا جس کے ساتھ میں دو مرتبہ ڈیڈہیڈنگ کر چکا تھا۔ پہلے تو اس نے ایسی نظر سے میری طرف دیکھا کہ میں ڈر گیا۔ میں سمجھا اسے معلوم ہو چکا ہے کہ میں جعلی پائلٹ ہوں لیکن دوسرے لمحے جب وہ گرمجوشی سے مجھ سے ملا تو میرا خوف کچھ کم ہوا۔
پھر گپ شپ کے دوران وہ میرا کندھا تھپکتے ہوئے بولا۔ ’’میں تمہیں ایک بات بتائوں ولیم! ایک ماہ پہلے میری ڈیلٹا ایئرلائنز کی ایک ایئرہوسٹس سے بات ہو رہی تھی۔ وہ تمہارے بارے میں مجھ سے کہہ رہی تھی کہ تم جعلی پائلٹ ہو۔ میں نے اس سے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا، وہ نوجوان میرا جہاز اُڑا چکا ہے۔ میرا خیال ہے تم نے اس بے چاری کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا ہوگا اس لئے وہ ایسی باتیں کر رہی تھی۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ میں نے اس کیپٹن کا جہاز خواب میں بھی نہیں اڑایا تھا۔ میں نے بس اسے ’’آٹومیٹک‘‘ والا لیور کھینچ کرخداکے حوالے کر دیا تھا۔ وہ چونکہ اس وقت باہر چلا گیا تھا اس لئے شاید اس نے یہی سوچا ہوگا کہ اس کی غیرموجودگی میں ، میں طیارہ اڑا رہا تھا۔
میں نے چھوٹی سی ایک نوٹ بک بنا لی تھی جس میں، میں کام کی ہر بات نوٹ کر لیتا تھا۔ نئی اصطلاحیں، نام، ٹیکنیکل معلومات میں اس میں نوٹ کرتا رہتا تھا۔ ہرگزرتے ہوئے دن کے ساتھ اس میں اندراجات بڑھتے جا رہے تھے اور یہ بلاشبہ بڑے کام کی چیز تھی۔
اس میں سب سے پہلے میں نے جو لفظ نوٹ کیا، وہ تھا ’’گلائڈ اسکوپ۔‘‘ بعض لوگ اسے پڑھ کر شاید یہ سمجھیں کہ یہ کسی قسم کی دُوربین کا نام ہوگا لیکن درحقیقت یہ ان لائٹس کا نام ہے جو جہاز کے لینڈ کرنے کیلئے رہنمائی کی غرض سے لگائی جاتی ہیں۔
میری یہ چھوٹی سی نوٹ بک گویا معلومات کا خزانہ تھی۔ میں ڈیڈہیڈنگ کے دوران ملنے والے خاص خاص لوگوں کے نام بھی ان کے شہروں کے نام کے ساتھ اس ڈائری میں لکھ لیتا۔ اس شہر کا کوئی دوسرا آدمی کاک پٹ میں ملتا تو میں بڑی بے تکلفی سے پوچھتا۔ ’’ارے بھئی… وہ لال بالوں والے لیری کا کیا حال ہے؟ وہ بھی تو میامی میں ہی تعینات ہے۔‘‘
یوں اپنی طرح کے دوسرے لوگوں سے میری شناسائی کا خوب رُعب پڑتا۔ کبھی کبھی میں کسی شہر میں دو چار ہفتوں کیلئے رُک جاتا۔ کوئی چھوٹا موٹا اپارٹمنٹ کرائے پر لے لیتا اور ایک نیا اکائونٹ بھی کھلوا لیتا۔ یہ ایڈریس اور یہ اکائونٹ آئندہ کافی عرصے تک میرے کام آتا رہتا۔
مجھے معلوم تھا کہ میری تلاش شروع ہو چکی ہے لیکن یہ صحیح طور پر معلوم نہیں تھا کہ کون مجھے تلاش کررہا ہوگا۔ مستقل طور پر حالت سفر میں رہنے والے ہر فراڈیے کو کبھی نہ کبھی خوف محسوس ہونے لگتا ہے کہ کسی بھی لمحے کوئی اس کی گردن
والاہے۔ مجھے بھی یہ خوف لاحق ہوتا تھا۔ اگر یہ خوف کچھ شدید ہو جاتا تھا تو میں لومڑی کی طرح کچھار میں چھپ جاتا تھا یعنی اپنی سرگرمیاں ترک کر دیتا تھا اور کسی شہر میں چھوٹا موٹا اپارٹمنٹ کرائے پر لے کر آرام کرنے لگتا تھا۔
اس دوران کوئی نہ کوئی مہربان حسینہ میری رفیق ہوتی تھی۔ کبھی کبھی اس کا گھر میری پناہ گاہ ہوتی تھی۔ ان میں سے بعض کو یہ گمان بھی ہونے لگتا تھا کہ شاید میں ان سے شادی کیلئے ذہنی طور پر تیار ہو رہا ہوں۔ وہ مجھے اپنے والدین سے بھی ملوا دیتی تھیں اور ان سے بھی میرے اچھے خاصے مراسم استوار ہو جاتے تھے۔
جب میں محسوس کرتا کہ حالات سازگار ہیں تو میں اس طرح کی امیدیں پالنے والی لڑکی اور اس کے والدین سے اجازت طلب کرتا، میں ان سے وعدہ کرتا کہ جلد ہی میں واپس آئوں گا اور پھر ہم بیٹھ کر مستقبل کی منصوبہ بندی کریں گے۔ ظاہر ہے میں وہاں واپس نہیں جاتا تھا۔ میرا شادی کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے شادی کے تصور سے خوف آتا تھا اور پھرمسئلہ یہ بھی تھا کہ شاید ابھی میری والدہ مجھے شادی کی اجازت نہ دیتیں۔ آخر ابھی میری عمر ہی کیا تھی۔
ابھی میں صرف سترہ سال ہی کا تو تھا۔
٭…٭…٭
وہ نیشنل ایئرلائنز کی پرواز نمبر106 تھی اور نیوآرلینز سے میامی جا رہی تھی۔ میں اس جہاز کے کاک پٹ میں اپنی فرضی ڈیڈہیڈنگ کے سلسلے میں سوار تھا۔ اب میں اپنی ڈیڈہیڈنگ پروازوں کے سلسلے میں بہت ماہر اور پراعتماد ہو چکا تھا۔ مجھے ایسی تقریباً دوسو پروازوں کا تجربہ حاصل ہو چکا تھا اور اب میں جمپ سیٹ پر کچھ ایسے اعتماد سے جا کر بیٹھتا تھا جیسے کوئی دفتری ملازم روزانہ اپنی کرسی پر جا کر بیٹھتا ہے۔
میں اپنی پہلی فرضی ڈیڈہیڈنگ کیلئے بھی میامی گیا تھا اور آج دو سال بعد میں ایک بار پھر میامی جا رہا تھا۔ اس بار بھی میں نے کاک پٹ میں داخل ہونے کے بعد حسب معمول اپنا تعارف کرایا تھا۔ ’’ہیلو…! میں فرینک ولیم ہوں، آپ لوگوں کا بہت شکریہ کہ آپ مجھے لفٹ دے رہے ہیں۔‘‘ کیبن میں تینوں فلائنگ آفیسرز رسمی انداز میں مسکرا دیئے۔
پھر میں نے بڑے پراعتماد انداز میں ان سے ہاتھ ملایا۔ انہوں نے بھی اپنا اپنا تعارف کرایا۔ کیپٹن کا نام رائٹ تھا۔ وہ چالیس سے اُوپر کا تھا۔ فرسٹ آفیسر یعنی کوپائلٹ کا نام ایوانز تھا۔ وہ تیس سے اوپر کا تھا۔ اس کے حلیے میں نفاست تھی جبکہ کیپٹن اپنے حلیے کے سلسلے میں زیادہ پروا کرنے والا آدمی معلوم نہیں ہوتا تھا۔ اس قسم کی بے پروائی انسان میں بہت زیادہ خوداعتمادی کے بعد بھی آ جاتی ہے۔ فلائٹ انجینئر کا نام ہارٹ تھا۔ وہ دُبلا پتلا اور تقریباً تیس کی عمر کا تھا، وہ نوآموز معلوم ہوتا تھا۔
جب طیارہ ٹیکسی کر رہا تھا تو ایئرہوسٹس ہمارے لئے کافی لے آئی۔ میں کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے طیارے کو رن وے کی پٹی پر آگے بڑھتے دیکھتا رہا۔ وہ ایک تاریک رات تھی۔ آسمان پر چاند، تارے نہیں تھے۔ دوسرے طیاروں کی موجودگی کا احساس صرف ان کی اندرونی روشنیوں سے ہو رہا تھا۔ دن ہو یا رات، ہوائی ٹریفک کا نظارہ مجھے ہمیشہ اچھا لگتا تھا۔
کیپٹن رائٹ شاید ریڈیو سے براہ راست پیغامات سننے کا عادی نہیں تھا۔ تینوں ہی آفیسرز ہیڈ فون لگائے بیٹھے تھے اس لئے میں پیغامات نہیں سن رہا تھا، انہوں نے مجھے کوئی فاضل ہیڈسیٹ لینے کی پیشکش بھی نہیں کی تھی۔ اب اگر ہیڈسیٹ میری طرف بڑھایا جاتا تو میں لے لیتا تھا کیونکہ میں ریڈیو پر آنے والے پیغامات اور ان میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کو کافی حد تک سمجھنے لگا تھا۔
کیپٹن رائٹ شاید کاک پٹ میں بہت زیادہ ڈسپلن رکھنے کا عادی تھا اس لئے میں بھی خاموشی اور سنجیدگی سے بیٹھا ان لوگوں کی یکطرفہ گفتگو سن رہا تھا۔ ریڈیو پر موصول ہونے والے پیغامات مجھے سنائی نہیں دے رہے تھے۔
اچانک مجھے ذرا چوکنّا ہونا پڑا۔ پائلٹ اور کوپائلٹ جنہیں کیپٹن اور فرسٹ آفیسر بھی کہا جاتا ہے، عجیب سی نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر بھنویں اُچکا رہے تھے۔ پھر کیپٹن رائٹ نے باقاعدہ گردن گھما کر گہری نظروں سے میری طرف دیکھا۔ میرا دل تیزی سے دھڑک اُٹھا۔
’’کیا تمہارے پاس تمہارا پین ایم کا شناختی کارڈ ہے؟‘‘ اچانک اس نے پوچھا۔
’’ہاں۔‘‘ میں نے کہا اور کارڈ اسے تھما دیا۔ میرے معدے میں گرہیں سی پڑنے لگیں۔
وہ کارڈ پر نظر دوڑاتے ہوئے دوبارہ ٹاور سے بات کرنے لگا۔ ’’ہاں… کارڈ موجود ہے۔‘‘ پھر اس نے کارڈ پر موجود نمبر بتایا۔ چند لمحے خاموشی سے دوسری طرف سے کچھ سننے کے بعد وہ میری طرف دیکھ کر بولا۔ ’’تمہارے پاس ایف اے اے کا لائسنس بھی ہے؟‘‘
’’ہاں… وہ بھی ہے۔‘‘ میں نے لائسنس بھی اس کے حوالے کر دیا اور کچھ ایسی اداکاری کی جیسے میری سمجھ میں نہ آ رہا ہو کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور میں اس سلوک پر شرمندگی اور پریشانی محسوس کر رہا ہوں۔ اس کے علاوہ مجھے یہ کوشش بھی کرنا پڑ رہی تھی کہ خوف کے مارے میرے اعصاب نہ جواب دے جائیں۔
رائٹ میرے لائسنس کا باریک بینی سے جائزہ لے رہا تھا۔ وہ اس وقت ایک ایسا ماہر معلوم ہو رہا تھا جس کے سامنے آرٹ کا کوئی نادر نمونہ شناخت اور پرکھ کیلئے لایا گیا ہو۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کوئی اصلی پائلٹ میرے جعلی لائسنس کا جائزہ لے رہا تھا۔
پھر وہ دوبارہ ٹاور سے بات کرنے لگا اور میرے لائسنس کے مندرجات انہیں بتانے لگا ،جن میں میرا قد، بالوں اور آنکھوں کا رنگ بھی شامل تھا پھر وہ بولا۔ ’’ہاں… مجھے تو ٹھیک ہی لگ رہا ہے… اوکے…!‘‘
پھر اس نے مڑ کر میرا کارڈ اور لائسنس مجھے واپس کر دیا۔ اس کے چہرے پر معذرت خواہانہ سے تاثرات تھے۔
’’معلوم نہیں یہ پوچھ گچھ کس سلسلے میں ہو رہی تھی۔‘‘ اس نے کندھے اُچکا کر کہا۔ اس کا لہجہ بھی معذرت خواہانہ تھا۔ میں نے چہرے پر الجھن آمیز تاثرات برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ دل ہی دل میں، میں نے خود کو تسلی بھی دینے کی کوشش کی کہ کوئی گڑبڑ نہیں تھی۔ شاید ٹاور میں موجود کسی آفیسر نے پہلی بار ضابطے کی کارروائی صحیح طور پر پوری کرنے کی کوشش کی تھی تاہم اپنے آپ کو یہ سمجھانے سے مجھے کوئی خاص اطمینان نہیں ہوا۔
تینوں آفیسرز کے نزدیک گویا بات ختم ہوگئی تھی۔ وہ معمول کی باتیں کرنے لگے تھے۔ جس حد تک مناسب تھا، اس حد تک میں بھی گفتگو میں حصہ لینے لگا تھا لیکن حقیقت یہ تھی کہ میرے اعصاب وائلن کے تاروں کی طرح تنے ہوئے تھے۔
جیسے ہی طیارے کے پہیوں نے میامی کی زمین کو چھوا۔ میرے سر پر لٹکی ہوئی تلوار مجھے کچھ اور ڈرانے لگی۔ ایک بار پھر کیپٹن رائٹ کو کنٹرول ٹاور سے کوئی پیغام ملا۔ مجھے یوں لگا کہ اس کا تعلق بھی میری ذات سے تھا۔ میں دوسری طرف کی بات سن نہیں پا رہا تھا، یہ زیادہ الجھن کی بات تھی۔
رائٹ نے اس پیغام کے جواب میں کہا۔ ’’ہاں… ایسا تو میں کر سکتا ہوں… نہیں… نہیں… کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘‘
پھر وہ ایوانز سے مخاطب ہوا۔ ’’ذرا میری جگہ سنبھالو۔ میں ابھی آیا۔‘‘
وہ اپنی سیٹ سے اُٹھ کھڑا ہوا اور کیبن سے باہر چلاگیا۔ مجھے یقین ہونے لگا کہ میں مصیبت میں پھنس چکا تھا۔ طیارہ جب ٹیکسی کر رہا ہوتا تھا تو کوئی کیپٹن غیرمعمولی حالات میں ہی اپنی سیٹ چھوڑ کر اُٹھتا تھا۔ کیبن کا دروازہ کھلا ہی تھا۔ میں نے کن انکھیوں سے باہر دیکھنے کی کوشش کی۔ کیپٹن، ایئرہوسٹسوں کی انچارج یعنی چیف اسٹیورڈیس سے سرگوشیوں میں باتیں کر رہا تھا۔ میرا دل گواہی دینے لگا کہ ان کی گفتگو کا موضوع میں ہی تھا۔
رائٹ جب واپس آیا تو اس نے کوئی بات نہیں کی۔ میں نے بھی کسی قسم کی پریشانی یا گھبراہٹ کا اظہار نہیں
کیا۔ میری طرف سے ایسا کوئی ردعمل میرے حق میں نقصان دہ ثابت ہو سکتا تھا۔
طیارہ رکنے کے بعد اس وقت مجھے حیرت نہیں ہوئی جب اگلا دروازہ کھلا اور کائونٹی کی پولیس کے دو باوردی آفیسرز اندر آ گئے۔ ایک اس دروازے پر کھڑا ہوگیا جس سے مسافروں کو باہر جانا تھا۔ دوسرا کیبن کے دروازے سے اندر جھانکنے لگا۔
’’فرینک ولیم کون ہے؟‘‘ اس نے باری باری ہم چاروں باوردی افراد کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’میں ہوں۔‘‘ میں نے جمپ سیٹ سے اُٹھتے ہوئے کہا۔
’’مسٹر ولیم! کیا آپ ذرا ہمارے ساتھ چلیں گے؟‘‘ اس نے نرم اور خوشگوار لہجے میں کہا۔
’’ضرور… لیکن مسئلہ کیا ہے؟‘‘ میں نے حیرت اور الجھن کا اظہار کیا۔ یہی سوال یقیناً تینوں فلائٹ آفیسرز اور چیف اسٹیورڈیس کو بھی پریشان کر رہا تھا۔ وہ چاروں ہی الجھن زدہ نظروں سے ہماری طرف دیکھ رہے تھے تاہم کسی نے کوئی سوال نہیں کیا اور شیرف آفس کے پولیس والوں نے کوئی وضاحت بھی نہیں کی۔
’’براہ کرم میرے پیچھے آیئے۔‘‘ آفیسر نے کہا۔
میں اس کے پیچھے چل پڑا۔ دوسرا پولیس آفیسر میرے پیچھے تھا۔ میں ان دونوں کے درمیان تھا لیکن یہ واضح نہیں تھا کہ مجھے حراست میں لیا گیا تھا یا نہیں؟ کسی آفیسر نے مجھے ہاتھ نہیں لگایا تھا اور نہ ہی مجھے ہتھکڑی پہنائی گئی تھی تاہم میں کسی خوش فہمی میں نہیں تھا۔ میرا خیال یہی تھا کہ میرا بھانڈا پھوٹ چکا تھا۔ میرا فراڈ ظاہر ہو چکا تھا۔
ٹرمینل پر ان کی گاڑی کھڑی تھی۔ ایک آفیسر نے میرے لئے دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹھئے مسٹر ولیم! ہمیں حکم ملا ہے کہ آپ کو پولیس اسٹیشن پہنچایا جائے۔‘‘
وہ دونوں شیرف کے ڈپٹی تھے، پولیس اسٹیشن تک کے سفر کے دوران دونوں ہی خاموش رہے۔ میں اپنے تاثرات سے یہ ظاہر کرنے کی پوری کوشش کر رہا تھا کہ مجھے غصہ بھی آ رہا ہے اور میں سخت الجھن میں بھی ہوں۔ میرا اندازہ تھا کہ الجھن تو وہ دونوں ڈپٹی بھی محسوس کررہے تھے۔ شاید انہیں بھی معلوم نہیں تھا کہ مجھے کس سلسلے میں پولیس اسٹیشن بلوایا گیا تھا۔
پولیس اسٹیشن میں مجھے سراغرسانوں کے شعبے میں لے جایا گیا اور ایک چھوٹی سی میز کے سامنے بٹھا دیا گیا۔ وہاں ایک ڈپٹی نے میز کے عقب میں کرسی سنبھال لی اور دوسرا دروازے پر کھڑا ہوگیا۔ ان میں سے کسی نے میری تلاشی نہیں لی تھی اور ان کے رویئے میں ابھی تک میرے لئے شائستگی ہی تھی۔
آخر میز کے عقب میں بیٹھے ڈپٹی نے ذرا گھبراہٹ زدہ سے انداز میں کھنکار کر گلا صاف کیا اور کہا۔ ’’مسٹر ولیم! ہمیں یہ معلوم کرنے کی ذمے داری سونپی گئی ہے کہ آپ پین ایم کیلئے کام کرتے ہیں یا نہیں۔‘‘ اس کا انداز الزام عائد کرنے والا قطعی نہیں تھا۔
’’کیا…؟‘‘ میں نے حیرت سے آنکھیں پھیلاتے ہوئے تقریباً چیخ کر کہا۔ ’’یہ تو عجیب پاگلوں والی بات ہے! یہ میرا شناختی کارڈ ہے… یہ میرا ایف اے اے کا لائسنس ہے اور مجھ سے پوچھا جا رہا ہے میں کس کیلئے کام کرتا ہوں؟‘‘ میں نے دونوں چیزیں اس کے سامنے پٹخ دیں۔ میرا انداز کچھ ایسا تھا جیسے مجھ پر ایٹمی راز روسیوں کے ہاتھ فروخت کرنے کا الزام لگا دیا گیا ہو۔
اس نے توجہ سے دونوں چیزوں کا جائزہ لیا پھر وہ دوسرے ڈپٹی کے حوالے کردیں۔ اس نے بھی دونوں چیزوں کا جائزہ لیا اور معذرت خواہانہ سے انداز میں وہ مجھے واپس کر دیں۔ وہ اب کچھ اس طرح شرمندہ نظر آ رہے تھے جیسے انہوں نے غلطی سے امریکا کے صدر کو آوارہ گردی کے الزام میں پکڑ لیا ہو۔
’’سر! اگر آپ تھوڑی دیر اور اس صورتحال کو برداشت کرلیں تو یہ معاملہ سلجھ جائے گا۔‘‘ کرسی نشین ڈپٹی نے عاجزی سے کہا۔ ’’دراصل یہ ہمارا کیس نہیں ہے، ہمیں جن لوگوں سے اس سلسلے میں ہدایات ملی تھیں وہ یہاں پہنچنے ہی والے ہیں۔ وہ خود ہی اس معاملے کو سنبھالیں گے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے گویا تحمل سے کام لیتے ہوئے کہا۔ ’’لیکن وہ لوگ ہیں کون؟‘‘
میں نے خواہ مخواہ یہ سوال کیا تھا۔ مجھے کافی حد تک اندازہ تھا کہ وہ کون ہو سکتے ہیں۔ مجھے ڈپٹی شیرف سے اس سوال کے جواب کی توقع نہیں تھی اور اس نے واقعی جواب نہیں دیا۔
ایک گھنٹہ اضطراب کے عالم میں گزر گیا۔ دونوں ڈپٹی مجھ سے زیادہ مضطرب معلوم ہو رہے تھے۔ اس دوران ان میں سے ایک باہر جا کر سینڈوچ اور کافی بھی لے آیا۔ یہ چیزیں انہوں نے مجھے بھی دیں۔ عجیب بات تھی کہ میں اب کچھ پرسکون ہوگیا تھا۔ میں اتنا پریشان نہیں تھا، جتنا مجھے ہونا چاہئے تھا۔
میں نے ان سے گپ شپ شروع کر دی، حتیٰ کہ ایک پائلٹ کے طور پر اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں پیش آنے والے کچھ دلچسپ اور فرضی واقعات بھی انہیں سنانے شروع کر دیئے۔ انہوں نے مجھ سے جہازوں کے بارے میں کچھ باتیں بھی پوچھیں جو میں نے بڑے فراٹے سے انہیں بتائیں۔ اس طرح ان کا اضطراب بھی دُور ہوگیا، ماحول اچھا خاصا دوستانہ ہوگیا۔
تب ایک انکشاف یہ بھی ہوا کہ ان دونوں میں سے ایک پرائیویٹ پائلٹ بھی رہ چکا تھا۔ جب وہ مجھ سے کافی باتیں کر چکا تو اس نے اپنے ساتھی کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’بین! مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ جو معاملہ ہمارے سپرد کیا گیا ہے۔ اس میں کسی سے بہت بڑی غلطی سرزد ہوئی ہے یا کسی کو بہت بڑی غلط فہمی ہوئی ہے۔‘‘
جس کا انتظار تھا۔ وہ آدھی رات کے قریب پہنچا، وہ تقریباً تیس کی عمر کا ایک سنجیدہ صورت آدمی تھا جو بہت عمدہ قسم کے سوٹ میں تھا۔ اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی۔
اس نے اپنی شناخت کیلئے بٹوے جیسا چمڑے کا ایک چھوٹا سا فولڈر میرے سامنے کھولا۔ اس میں سنہرے رنگ کی ایک مخصوص شیلڈ چمک رہی تھی۔ اپنا یہ مخصوص نشان مجھے دکھاتے ہوئے وہ بولا۔ ’’مسٹر ولیم! میرا تعلق ایف بی آئی سے ہے۔ براہ کرم میرے ساتھ آیئے۔‘‘
میرا خیال تھا کہ وہ مجھے ایف بی آئی کے آفس لے جائے گا لیکن وہ مجھے برابر والے کمرے میں لے گیا اور اندر پہنچ کر اس نے دروازہ مقفل کرلیا۔
پھر وہ میری طرف دیکھ کر دوستانہ انداز میں مسکراتے ہوئے بولا۔ ’’مسٹر ولیم! بات دراصل یہ ہے کہ مجھ سے مقامی کائونٹی کے حکام نے رابطہ کیا تھا اور ان کے ساتھ نیو آرلینز سے کسی فیڈرل ایجنسی نے رابطہ کیا تھا۔ مقامی کائونٹی کے لوگ اتنے گھامڑ ہیں کہ انہیں یہ بھی یاد نہیں رہا کہ وہ کون سی ایجنسی کا آدمی تھا جس نے ان سے بات کی تھی، یہ بھی ممکن ہے کہ مقامی کائونٹی والوں نے صرف بات سن لی ہو اور یہ پوچھا ہی نہ ہو کہ بات کرنے والے کا تعلق کون سی وفاقی ایجنسی سے ہے۔ ان لوگوں نے خود ہی فرض کر لیا کہ بات کرنے والا ایف بی آئی کا آدمی ہوگا۔ انہوں نے اس کا نام بھی نہیں پوچھا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایف بی آئی نے ان سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ معلوم نہیں کس نے کی تھی۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟ لیکن میں جہاں تک سمجھ سکا ہوں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ کسی کو ایک سوال کا جواب درکار ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ آپ پین ایم میں کام کرتے ہیں یا نہیں؟‘‘
میں نے ایک بار پھر حیرت سے آنکھیں پھیلائیں اور دوسرے ہی لمحے چہرے پر غصے کے تاثرات ابھارنے کی پوری پوری کوشش کی مگر میرے کچھ بولنے سے پہلے ہی ایف بی آئی آفیسر بول اٹھا۔ ’’مسٹر ولیم! حقیقت یہ ہے کہ ہم خود بڑی الجھن میں پڑ گئے ہیں۔ ہم یہ فرض کر کے حرکت میں آئے ہیں کہ مسئلہ کسی ذمے دار ادارے نے اٹھایا ہے اور ہمیں بات صاف کرلینی چاہئے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پین ایم کے ملازمین کا ریکارڈ نیویارک میں ہے اور ویک اینڈ کی وجہ سے وہاں پین ایم کے دفاتر بند ہو چکے ہیں، اب وہ پیر کو کھلیں گے۔‘‘
اس نے خاموش ہو کر ٹھنڈی سانس لی، مجھے اندازہ ہوگیا کہ وہ اس معاملے میں زیادہ پر یقین
ہے کہ حقیقت کیا ہے۔ وہ بس رسمی کارروائی کر کے اپنی ذمے داری پوری کرنا چاہتا ہے۔ اس احساس سے مجھے حوصلہ ہوا قسمت میری مدد کر رہی تھی، میری خوداعتمادی لوٹ آئی۔
میں نے اپنے چہرے پر ناگواری کے تاثرات برقرار رکھتے ہوئے کہا۔ ’’اس بات کی تصدیق تو پیر کو ہو ہی جائے گی کہ میں پین ایم کیلئے کام کرتا ہوں لیکن بیچ میں دو دن ہیں، میں اس دوران کہاں رہوں گا؟ کیا تم مجھے جیل میں رکھو گے؟ اگر تمہارا اس قسم کا کوئی ارادہ ہے تو پھر مجھے اپنے وکیل کو بلانا پڑے گا اور میرا خیال ہے…!‘‘
وہ ہاتھ اٹھا کر میری بات کاٹتے ہوئے بولا۔ ’’دیکھئے مسٹر ولیم! میں آپ پر الزام ہرگز عائد نہیں کر رہا کہ آپ کوئی جعلسازی کر رہے ہیں۔ ذاتی طور پر مجھے یقین ہے کہ آپ پین ایم کے ملازم ہیں لیکن ضابطے کی کارروائی کیلئے کیا آپ کسی مقامی آفیسر یا سپروائزر کا حوالہ دے سکتے ہیں جس سے ہم آپ کے بارے میں تصدیق کر سکیں؟‘‘
میں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’بنیادی طور پر میں لاس اینجلس میں تعینات ہوں۔ میں یہاں صرف ایک لڑکی سے ملنے کیلئے ایک طیارے میں لفٹ لے کر آیا تھا۔ ہماری زبان میں اس طریقے کو ’’ڈیڈہیڈنگ‘‘ کہتے ہیں۔ پیر کو میں ڈیڈ ہیڈنگ ہی کرتے ہوئے واپس چلا جائوں گا۔ یہاں بہت سے پائلٹ میرے جاننے والے ہیں لیکن وہ دوسری ایئرلائنز کے ملازم ہیں۔ اسی طرح یہاں میری جاننے والی کئی ایئرہوسٹسیں بھی موجود ہیں لیکن وہ بھی دوسری ایئرلائنز کی ہیں۔‘‘
’’میں آپ کے شناختی کاغذات دیکھ سکتا ہوں؟‘‘ اس کا لہجہ اب بھی شائستہ اور مؤدبانہ تھا۔
میں نے اپنا شناختی کارڈ اور لائسنس اسے دے دیا۔ اس نے توجہ سے دونوں کا جائزہ لیا پھر اثبات میں سر ہلا کر واپس دیتے ہوئے بولا۔ ’’مسٹر ولیم! آپ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ اپنے جاننے والے کچھ پائلٹوں اور ایئرہوسٹسوں کے نام مجھے بتا دیں جو یہاں مل سکیں اور آپ کی شناخت کی تصدیق کر سکیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اصل مسئلہ کیا ہے اور آپ کی شناخت کا سوال کیوں پیدا ہوا ہے لیکن معاملہ بہرحال کسی فیڈرل ایجنسی کا ہے اس لئے میں چاہ رہا ہوں کہ ضابطے کی کارروائی بہرحال پوری ہو جائے۔‘‘
میں نے اپنی چھوٹی سی خاص نوٹ بک نکالی اور چند پائلٹوں اور ایئرہوسٹسوں کے نام اور ٹیلیفون نمبر اسے نوٹ کرا دیئے۔ ساتھ ہی میں دل ہی دل میں دُعا کر رہا تھا کہ کاش وہ گھروں پر مل جائیں اور میرے بارے میں اچھے الفاظ میں بات کریں۔
ایف بی آئی ایجنٹ وہ نام اور نمبر ایک کاغذ پر نوٹ کر کے باہر چلا گیا اور میں اپنے اضطراب کو چھپائے اس کی واپسی کا انتظار کرنے لگا۔ ابھی تک تو اس معاملے میں قسمت نے میرا بڑا ساتھ دیا تھا۔ میں سمجھ گیا تھا کہ میری شناخت کے بارے میں شک کا آغاز کہاں سے ہوا ہوگا۔
ہوا غالباً یہ تھا کہ جب میں نیوآرلینز سے روانہ ہوا تھا اور فیڈرل ایوی ایشن ایجنسی کے ٹاور کومیرے بارے میں اطلاع دی گئی تھی تو وہاں کے آپریٹر کو میرے بارے میں شک ہوا ہوگا اور اس نے میرے میامی پہنچنے سے پہلے یہاں میرے بارے میں بات کر لی ہوگی، میں البتہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ اس آپریٹر کو میرے بارے میں کیوں شک ہوا؟ مجھے اس سوال کا جواب حاصل کرنے کا کوئی اشتیاق نہیں تھا۔ مجھے فی الحال صرف اس مصیبت سے چھٹکارا پانے سے دلچسپی تھی۔ میری قسمت اچھی تھی کہ شیرف آفس کے لوگ صحیح طور پر سمجھ نہیں پائے تھے کہ میرے بارے میں انہیں خبردار کرنے والا کون تھا۔
مجھے پون گھنٹے تک اعصاب شکن انتظار کی کوفت برداشت کرنا پڑی۔ آخرکار ایف بی آئی ایجنٹ واپس آ گیا، وہ مسکرا رہا تھا۔
’’مسٹر ولیم! آپ جا سکتے ہیں، میں نے کئی افراد سے آپ کے بارے میں تصدیق کر لی ہے۔‘‘ وہ پہلے سے زیادہ شیریں لہجے میں بولا۔ ’’آپ کو زحمت ہوئی، اس کیلئے میں معذرت خواہ ہوں۔‘‘
اس کے پیچھے پیچھے ہی ڈپٹی شیرف بھی اندر آگیا تھا، وہ جلدی سے بولا۔ ’’ہماری طرف سے بھی معذرت قبول کریں۔ دراصل ہمارے پاس ایف بی آئی سے پیغام آیا تھا کہ جب آپ طیارے سے اتریں تو آپ کو روک لیا جائے لیکن یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ کس سلسلے میں روکا جائے اور اس کے بعد کیا کیا جائے۔ میرا خیال ہے یہ سب کسی غلط فہمی کی وجہ سے ہوا ہے۔ ہم نے احتیاطاً مقامی ایف بی آئی کو اطلاع دے دی تھی جس کے لئے میں شیرف کی طرف سے بھی آپ سے معذرت خواہ ہوں۔‘‘
میں خود جلد از جلد بات ختم کرنا چاہتا تھا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ ایف اے اے کی طرف سے کوئی اور کال نہ آ جائے اس لئے میں نے فوراً صلح جویانہ لہجے میں کہا۔ ’’کوئی بات نہیں مجھے خوشی ہے کہ آپ سب لوگ اپنے فرائض ذمے داری اور مستعدی سے ادا کر رہے ہیں۔‘‘
’’شکریہ…!‘‘ ڈپٹی شیرف نے ممنونیت سے کہا۔ ’’آپ کا بیگ باہر میز پر رکھا ہے۔‘‘
غنیمت تھا کہ میرے بیگ کی تلاشی نہیں لی گئی تھی، اس میں کپڑوں کے نیچے سات ہزار ڈالر نقد موجود تھے اور کئی ایسی چیزیں تھیں جو میرے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر سکتی تھیں۔
میں نے اٹھتے ہوئے کہا۔ ’’ایک لڑکی کافی دیر سے میرا انتظار کر رہی ہوگی۔ میں جب اسے بتائوں گا کہ مجھے کیوں تاخیر ہوئی تو شاید وہ یقین نہ کرے۔ اس صورت میں شاید مجھے آپ میں سے کسی کے ساتھ رابطہ کر کے اپنے بیان کی تصدیق کرانی پڑے۔‘‘
ایف بی آئی ایجنٹ نے فوراً اپنا کارڈ مجھے دیتے ہوئے کہا۔ ’’مجھ سے تصدیق کرا لیجئے گا خاص طور پر اگر وہ خاتون خوبصورت ہو تب تو مجھے ضرور فون کر لیجئے گا۔‘‘
پولیس اسٹیشن سے نکلتے ہی میں دُم دبا کر بھاگا۔ ذرا آگے جا کر مجھے ایک ٹیکسی مل گئی۔ میں نے ڈرائیور کو بس اسٹیشن چلنے کیلئے کہا تو اس نے کچھ عجیب سی نظروں سے میری طرف دیکھا۔ میں نے پچھلی سیٹ پر ڈھیر ہوتے ہوئے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ ’’کبھی کبھی پائلٹوں کو بھی بس سے سفر کرنا پڑ جاتا ہے دوست! ویسے بھی کمپنی نے آج کل بچت کی مہم شروع کر رکھی ہے۔‘‘
تب اس کے تاثرات بدل گئے اور اس نے گاڑی آگے بڑھا دی۔ بس اسٹیشن پہنچ کر میں سیدھا واش روم میں چلا گیا۔ وہاں میں نے پائلٹ کی یونیفارم اُتار کر عام لباس پہن لیا۔ اس کے بعد میں نے دوسری ٹیکسی پکڑی اور ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہوگیا۔ وہاں سب سے پہلی دستیاب پرواز آدھے گھنٹے بعد روانہ ہونے والی تھی۔ وہ ڈیلٹا ایئرلائنز کا ایک چھوٹا طیارہ تھا جو اٹلانٹا جا رہا تھا۔
میں نے ٹام لومب کے فرضی نام سے اٹلانٹا کا یکطرفہ ٹکٹ خریدا اور اس کے لئے نقد ادائیگی کی۔ مجھے اس وقت تک سکون کا سانس نہیں آیا جب تک طیارہ فضا میں بلند نہیں ہوگیا۔ مجھے بار بار اس نوجوان ایف بی آئی آفیسر کا خیال آ رہا تھا جس نے کافی حد تک خوش گمانی سے کام لیتے ہوئے مجھے چھوڑ دیا تھا اور کچھ قسمت نے بھی میرا ساتھ دیا تھا کہ بات کافی حد تک الجھی ہی رہی تھی۔ صحیح طور پر کسی کی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ تیسرا اتفاق جو میرے حق میں گیا وہ یہ تھا کہ ویک اینڈ شروع ہو چکا تھا، پین ایم کے نیویارک آفس سے میرے بارے میں کوئی تصدیق نہیں کی جا سکتی تھی۔
مجھے قسمت نے اس ناگہانی آفت سے بچ نکلنے کا موقع فراہم کر دیا تھا لیکن میرا اندازہ تھا کہ اگر اس معاملے کی مزید چھان بین کی نوبت آئی تو اس نوجوان ایف بی آئی ایجنٹ کا ضرور کسی ناپسندیدہ جگہ پر تبادلہ ہو جائے گا۔
اٹلانٹا میں میری ایک شناسا لڑکی رہتی تھی۔ وہ ایسٹرن ایئرلائنز کی ایئرہوسٹس تھی۔ میں جا کر اس سے ملا اور اسے بتایا کہ میری بہت سی چھٹیاں ڈیو تھیں اور میں نے مزید کچھ بیماری کی چھٹیاں بھی لے لی ہیں چنانچہ میں اب چھ ماہ کیلئے فارغ ہوں جن میں سے دو ماہ میں اٹلانٹا میں گزاروں گا۔
’’میرے
ساتھ تو تم ایک ماہ ہی گزار سکو گے۔‘‘ ایئرہوسٹس بولی۔ ’’ایک ماہ بعد میرا تبادلہ نیوآرلینز ہو رہا ہے۔‘‘
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس کے ساتھ اٹلانٹا میں میرا ایک مہینہ نہایت حسین اور خوشگوار انداز میں گزرا۔ اس کے بعد میں نے ایک ٹرک کرائے پر لیا اور اس کا سامان اس میں لدوا کر اسے چھوڑنے نیوآرلینز گیا۔ اس نے مجھے دعوت دی کہ میں چاہوں تو اپنی باقی ’’تعطیلات‘‘ نیو آرلینز میں اس کے ساتھ گزار سکتا ہوں لیکن میں شکریئے کے ساتھ انکار کر کے واپس اٹلانٹا آ گیا۔ میری چھٹی حس مجھے خبردار کر رہی تھی کہ مجھے نیوآرلینز سے دُور ہی رہنا چاہئے۔ اٹلانٹا میں، میں اپنے آپ کو محفوظ محسوس کر رہا تھا۔ یہ شہر مجھے ایک اچھی پناہ گاہ محسوس ہونے لگا تھا۔
اسی دوران ایک بڑی ہائوسنگ اسکیم کا اشتہار میری نظر سے گزرا۔ یہ اکیلے رہنے والے افراد کیلئے چھوٹے مگر نہایت پرتعیش اور مہنگے قسم کے اپارٹمنٹس پر مشتمل پروجیکٹ تھا جس میں سوئمنگ پول، ٹینس کورٹ، جمنازیم، گالف کورس، دیگر کھیلوں کے کمرے، سوانا باتھ کے انتظامات اور نہ جانے کیا کچھ موجود تھا۔ یہ پروجیکٹ تفریحی مقامات پر واقع ان قیام گاہوں سے بھی مشابہ تھا جہاں لوگ اپنی صحت بہتر بنانے کے خیال سے رہنے کیلئے جاتے ہیں۔ اس کا نام ’’ریوربینڈ‘‘ تھا اور یہ اٹلانٹا کے مضافات میں واقع تھا۔ اس زمانے میں ملک میں اس قسم کے رہائشی منصوبوں کا تصور عام نہیں ہوا تھا۔
میں نے ایک مقامی اخبار میں اس کا اشتہار پڑھا تو اس کا جائزہ لینے چلا گیا۔ اس میں شک نہیں تھا کہ رہنے کیلئے وہ ایک عمدہ جگہ تھی لیکن وہاں اپارٹمنٹ خریدنا تو درکنارکرائے پر لینا بھی کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ہر ایرے غیرے کو وہاں اپارٹمنٹ کرائے پر بھی نہیں مل سکتا تھا۔ میں نے جب منیجر کو بتایا کہ میں ایک سال کیلئے کوئی ایک کمرے کا اپارٹمنٹ کرائے پر لینا چاہتاہوں تو اس نے ایک لمبا چوڑا فارم پُر کرنے کیلئے مجھے دے دیا ،جس میں اُمیدوار کے بارے میں اتنی معلومات طلب کی گئی تھیں جتنی کسی لڑکی کا رشتہ دیتے وقت اس کے والدین بھی طلب نہیں کرتے۔
(جاری ہے)