میں نے اپارٹمنٹ کرائے پر لینے کیلئے فارم میں اپنا نام فرینک ولیم ہی لکھنا بہتر سمجھا کیونکہ میرے پاس شناخت کے جو بھی جعلی ثبوت موجود تھے، وہ اسی نام پر تھے۔ پیشے کے خانے میں میرا دل تو یہی چاہ رہا تھا کہ خود کو پین ایم کا پائلٹ لکھ دوں تاکہ کبھی کبھار یہاں بھی یونیفارم میں گھوم پھر سکوں۔ ایک ہینڈسم نوجوان کو پائلٹ کی یونیفارم میں دیکھ کر لڑکیاں کچھ اسی طرح کھنچی آتی تھیں جیسے مقناطیس کی طرف لوہے کے ذرات!
مگر پھر مجھے اندیشہ محسوس ہوا کہ کہیں ہائوسنگ اسکیم کی انتظامیہ کچھ زیادہ ہی احتیاط پسند نہ ہو اور وہ میرے بارے میں پین ایم سے تصدیق کرنے نہ بیٹھ جائے۔ چنانچہ میں نے خود کو پائلٹ لکھنے سے گریز کیا مگر دوسرے ہی لمحے قطعی غیرارادی طور پر میں نے خود کو ’’میڈیکل ڈاکٹر‘‘ لکھ دیا۔
چھ ماہ کا کرایہ نقد ادا کرنے کیلئے میں نے نوٹ اپنے فارم کے ساتھ ہی رکھ دیئے۔ اسسٹنٹ منیجر نے میرا فارم وصول کیا۔ وہ ایک خاتون تھی۔ وہ تھوڑی بہت پوچھ گچھ کرنے سے باز نہ رہ سکی۔
’’آپ کس شعبے کے ڈاکٹر ہیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’میں بچوں کا ڈاکٹر ہوں۔‘‘ میں نے ایک لمحے سوچ کر جواب دیا۔ میرا خیال تھا کہ خود کو بچوں کا ڈاکٹر ظاہر کرنے میں یہ فائدہ رہے گا کہ مجھے کبھی کوئی نہیں بلائے گا کیونکہ یہ تنہا رہنے والے لوگوں کا ہائوسنگ پروجیکٹ تھا، اس لئے یہاں بچوں کے ڈاکٹر کی اچانک اور ہنگامی ضرورت پیش آنے کا امکان نہیں تھا۔
مزید کچھ سوچ کر میں نے جلدی سے کہا۔ ’’لیکن آج کل میں پریکٹس نہیں کررہا ہوں۔ ویسے بھی میرا پریکٹس کا لائسنس ریاست کیلیفورنیا کیلئے ہے۔ یہاں میں ایک سال کی چھٹیاں گزارنے آیا ہوں۔ میں اس دوران صرف آرام کروں گا اور کچھ سرمایہ کاری کے امکانات کا جائزہ لوں گا۔‘‘
’’بہت خوب…!‘‘ اس نے کہا اور نوٹ اٹھا کر لوہے کے ایک باکس میں ڈال دیئے۔ اس کا مطلب یہی تھا کہ میری درخواست منظور ہوگئی ہے۔
میں اسی روز وہاں منتقل ہوگیا۔ ایک کمرے کا اپارٹمنٹ بڑا تو نہیں تھا لیکن نہایت معیاری اور پرآسائش تھا۔
میرا یہاں قیام کافی رنگین اور پرتعیش ثابت ہوا۔ یہاں زندگی خاصی ہنگامہ خیز تھی۔ روز ہی کسی نہ کسی کے اپارٹمنٹ میں رنگارنگ پارٹی ہوتی تھی اور زیادہ تر مجھے بھی مدعو کیا جاتا تھا۔ پاس پڑوس میں رہنے والے بہت جلد میرے دوست بن گئے تھے اور تقریباً ہر ایک ہی مجھے اپنے ہاں مدعو کرنے لگا تھا۔
میری ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کے بارے میں کسی نے مجھے زیادہ کریدنے کی کوشش نہیں کی۔ کبھی کبھار سرسری انداز میں معمولی نوعیت کے سوالات کئے گئے جن کے جواب میں نے آسانی سے دے دیئے۔ سب لوگوں نے مجھے ڈاکٹر کہہ کر پکارنا شروع کردیا تھا۔
لوگوں کو چونکہ یہ بات کم ہی یاد رہتی ہے کہ ہر ڈاکٹر کا کوئی مخصوص شعبہ ہوتا ہے اس لئے کبھی کبھار کوئی پڑوسی اپنے دکھ بیماری کا قصہ لے کر بیٹھ جاتا تھا۔ ایک بار ایک صاحب اپنے پائوں میں درد کے بارے میں بتا کر علاج دریافت کرنے لگے۔ ایک صاحب نے معدے میں عجیب سے درد کی شکایت کی۔ بھورے بالوں والی خاتون درددل کے بارے میں بتانے لگیں۔ یہ سچ مچ کا درد دل تھا، افسانوں اور کہانیوں والا درددل نہیں تھا۔
جن صاحب کے پائوں میں درد تھا، ان سے میں نے کہا۔ ’’میں بچوں کا ڈاکٹر ہوں، آپ کو پیروں کے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے۔‘‘
جنہیں معدے میں درد کی شکایت تھی، انہیں بھی میں نے یہی جواب دینے کے علاوہ مزید کہا۔ ’’مجھے ریاست جارجیا کی حدود میں پریکٹس کی اجازت نہیں ہے۔ میرا لائسنس صرف کیلیفورنیا کیلئے ہے۔‘‘
جس خاتون کو درد دل کا شبہ ہورہا تھا، اسے میں نے ہارٹ اسپیشلسٹ سے رجوع کرنے کا مشورہ دے دیا۔ اس قسم کے مسائل سے میں اسی طرح بچ بچا کر وقت گزارتا رہا اور وہاں کے طرززندگی سے لطف اندوز ہوتا رہا۔
مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی سمندر ہمیشہ پرسکون نہیں رہتا، اس میں کبھی نہ کبھی ہلچل ضرور پیدا ہوتی ہے۔ میرے پرسکون اور پرلطف روز و شب میں بھی ایک روز ہلچل پیدا ہوئی۔ یہ ہلچل اک خوش لباس اور نفیس قسم کے آدمی کی صورت میں میرے دروازے تک پہنچی۔
ایک روز میں نے دستک سن کر دروازہ کھولا تو اس شخص کو سامنے کھڑے پایا۔ اس کے ہونٹوں پر خوشگوار مسکراہٹ اور ایک ہاتھ میں ڈرنک تھی۔
’’ڈاکٹر ولیم…؟‘‘ اس نے تصدیق طلب انداز میں کہا لیکن جواب کا انتظار کئے بغیر بولا۔ ’’میں ڈاکٹر گریگ ہوں۔ میرینا کے علاقے میں واقع جنرل اسپتال میں بچوں کے ڈاکٹروں کا چیف ہوں۔‘‘
میرینا کا علاقہ ہمارے ہائوسنگ پروجیکٹ کے قریب ہی تھا اور جنرل اسپتال کی تو دیوار ہی ہمارے پروجیکٹ کی چار دیواری سے تقریباً ملی ہوئی تھی۔ اتنے قریب واقع ایک اسپتال سے بچوں کے سب سے بڑے ڈاکٹر کا میرے دروازے پر دستک دینا، میرے لئے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں تھا۔ میں خاموشی سے ڈاکٹر گریگ کی طرف دیکھتا رہ گیا۔ فوری طور پر میری سمجھ میں ہی نہ آیا کہ کیا کہوں۔ میرا دل بیٹھ سا گیا تھا۔
وہ اسی طرح گرمجوشی سے بات جاری رکھتے ہوئے بولا۔ ’’میرا فلیٹ آپ کے فلیٹ کے بالکل نیچے ہے۔ اسسٹنٹ منیجر مسز پیل نے مجھے فلیٹ دیتے وقت بتایا کہ اسی بلاک میں بچوں کے ایک اور ڈاکٹر بھی رہتے ہیں۔ مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی اور میں نے سوچا کہ پہلی فرصت میں چل کر اپنے ہم پیشہ پڑوسی سے ملنا چاہئے۔ مجھے امید ہے کہ میں آپ کی مصروفیت میں مخل نہیں ہوا ہوں گا۔‘‘
لفظ ’’مصروفیت‘‘ ادا کرتے وقت وہ معنی خیز سے انداز میں مسکرایا۔
’’نن… نہیں… ہرگز نہیں…!‘‘ میں نے سنبھلنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’آیئے… آیئے اندر تشریف لایئے۔‘‘ میں نے ایک طرف ہٹ کر اسے راستہ دیا۔ دل ہی دل میں، میں دعا کررہا تھا کہ وہ اندر آنے سے انکار کردے لیکن افسوس کہ اس نے ایسا نہیں کیا اور اندر آکر میرے صوفے پر براجمان ہوگیا۔
’’آپ نے کون سے میڈیکل اسکول سے تعلیم حاصل کی؟ یہیں پڑھے ہیں یا کہیں اور…؟‘‘ اس نے دریافت کیا۔
یہ ایک عام سا سوال تھا۔ میرا خیال ہے جب دو ڈاکٹر ملتے ہیں تو اسی طرح بات چیت شروع ہوتی ہے۔ مجھے صرف ایک ہی یونیورسٹی کا پتا تھا جس میں میڈیکل اسکول اور کالج شامل تھے۔ مجھے اس کا نام لینے کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آیا۔
’’کولمبیا یونیورسٹی، نیویارک سے تعلیم حاصل کی ہے میں نے!‘‘ یہ جواب دیتے ہوئے میں نے دل ہی دل میں دعا کی کہ خدا کرے وہ وہاں کا پڑھا ہوا نہ ہو۔
وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔ ’’کولمبیا یونیورسٹی بہت اچھا تعلیمی ادارہ ہے اور آپ نے انٹرن شپ کہاں مکمل کی؟‘‘ اس نے دوسرا سوال داغ دیا۔
مجھے یہ تو معلوم تھا کہ انٹرن شپ یا ہائوس جاب کسی اسپتال میں کی جاتی تھی لیکن سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس اسپتال کا نام لوں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ کسی اسپتال کا نام فوری طور پر ذہن میں ہی نہیں آرہا تھا۔ میں اپنی اس وقت تک کی زندگی میں کبھی کسی اسپتال میں داخل نہیں رہا تھا البتہ کئی اسپتالوں کے سامنے سے گزرنے کا اتفاق ہوا تھا۔
’’لاس اینجلس کے ہاربر چلڈرن اسپتال میں!‘‘ آخر میں نے جواب دیا اور دل ہی دل میں دعا کی کہ وہ ایسا اسپتال نہ ہو جہاں انٹرن شپ ہوتی ہی نہ ہو۔
’’اوہ…! یہ تو بہت اچھی بات ہے۔‘‘ اس نے ایک بار پھر سر ہلایا۔ وہ پرجوش لہجے میں بات کررہا تھا لیکن میرے خیال میں وہ رسم دنیا نبھا رہا تھا۔ دو اجنبی ملتے ہیں تو اسی طرح رسمی گفتگو سے شناسائی کا آغاز کرتے ہیں لیکن اس بیچارے کو نہیں معلوم تھا کہ اس کے رسمی سوالات نے مجھے کتنی بڑی
آزمائش میں ڈال دیا تھا۔
بہرحال غنیمت رہا کہ اس کے بعد اس نے میری تعلیمی پیشہ ورانہ یا نجی زندگی کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا۔ اس کے بجائے وہ اپنے اسپتال کے بارے میں بتانے لگا۔
’’میرینا کا جنرل اسپتال نیا بنا ہے۔ یہ سات منزلہ ہوگا لیکن ابھی صرف چھ منزلیں مکمل ہوئی ہیں اور مریضوں کیلئے کھول دی گئی ہیں۔‘‘ وہ بولا۔ ’’چونکہ نیا اسپتال ہے اور نواحی علاقے میں واقع ہے اس لئے ابھی مریضوں کی آمدورفت زیادہ نہیں ہے۔ تم کسی روز وہاں کا چکر لگائو اور دوپہر کا کھانا میرے ساتھ کھائو۔ میں تمہیں اسپتال کے مختلف شعبے دکھائوں گا۔ میرا خیال ہے یہ تمہارے لئے ایک دلچسپ مصروفیت ہوگی۔‘‘ اس نے سوالیہ انداز میں میری طرف دیکھا۔ اب اس کا اندازگفتگو دوستانہ ہوگیا تھا۔
’’یقیناً … یقیناً!‘‘ میں نے اپنے چہرے سے دلچسپی کا اظہار کرنے کی کوشش کی اور اثبات میں سر ہلایا۔ ’’یہ تو بہت اچھی تجویز ہے، میں جلد ہی چکر لگائوں گا۔‘‘
وہ خوش نظر آنے لگا اور بولا۔ ’’میری یہاں نئی نئی تقرری ہوئی ہے۔ ماحول اجنبی سا لگ رہا تھا، سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں اس لئے چلا آیا۔‘‘
’’بہت اچھا کیا تم نے! پڑوسیوں کے درمیان اور خاص طور پر ہم پیشہ پڑوسیوں کے درمیان میل ملاقات تو رہنی چاہئے۔‘‘ میں نے حوصلہ افزائی کے انداز میں کہا۔
اس کی موجودگی میں، میں نے تمام تر اخلاقی تقاضے عمدگی سے پورے کئے لیکن اس کے جاتے ہی میں بے حد فکرمند اور تشویش زدہ ہوگیا۔ فوری طور پر تو میرا یہی دل چاہ رہا تھا کہ اپنا سامان پیک کروں اور وہاں سے کھسک لوں۔ میرے فلیٹ کے عین نیچے بچوں کے ایک حقیقی اور تجربہ کار ڈاکٹر کی موجودگی، یہاں میرے بہروپ کیلئے ایک زبردست خطرہ تھی۔ کسی بھی وقت میری پول کھل سکتی تھی۔ اگر ڈاکٹر گریگ کو معلوم ہوجاتا کہ میں جعلی طور پر بچوں کا ڈاکٹر بنا ہوا تھا تو وہ خاموش نہیں رہ سکتا تھا۔ مجھے ذرا بھی امید نہیں تھی کہ وہ میری پردہ پوشی کرے گا۔ زیادہ امکان اسی بات کا تھا کہ وہ متعلقہ حکام کو اس بات کی اطلاع دے دے گا۔
مسئلہ یہ تھا کہ ریور بینڈ نامی اس ہائوسنگ پروجیکٹ سے میرا بھاگنے کو بھی دل نہیں چاہ رہا تھا۔ سچی بات یہ تھی کہ میں بھاگتے بھاگتے تھک گیا تھا۔ دو سال سے میں مسلسل بھاگ رہا تھا، اب میرا دل چاہتا تھا کہ میرا بھی ایک گھر، ایک ٹھکانہ ہو جہاں میں آرام سے رہوں اور زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنے روزو شب گزاروں۔ ریور بینڈ میں اب میرا دل لگ گیا تھا۔ مجھے یہاں رہتے ہوئے دو ماہ ہوگئے تھے اور یہ چھوٹا سا فلیٹ مجھے اپنے گھر کی طرح لگنے لگا تھا۔ یوں اچانک اسے چھوڑ کر جانے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ میں یہاں اپنے آپ کو خوش محسوس کرتا تھا۔
کچھ دیر اس موضوع پر غور کرنے کے بعد میرے دل میں خوف اور مایوسی کی جگہ غصہ اور ضد سر اٹھانے لگی۔ غصہ مجھے گریگ پر آرہا تھا۔ وہ منحوس نہ جانے کہاں سے یہاں چلا آیا تھا۔ وہ کون ہوتا تھا میری مسرت بھری زندگی کو تہہ و بالا کرنے والا…!
میں نے فیصلہ کیا کہ میں اسے اپنی موجودہ زندگی پر اثرانداز نہیں ہونے دوں گا۔ میں دوبارہ بوگس چیکوں والا دھندہ شروع کرکے مستقل سفر کی حالت میں نہیں رہنا چاہتا تھا۔ میں نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ میں ڈاکٹر گریگ سے واسطہ ہی نہیں رکھوں گا اور اسے موقع ہی نہیں دوں گا کہ وہ مجھ سے رسم و راہ بڑھائے۔ وہ جب میرے اپارٹمنٹ میں آئے گا تو میں اپنے آپ کو مصروف ظاہر کیا کروں گا اور اس کے ساتھ رکھائی سے پیش آئوں گا۔ اس کے علاوہ میں خبر رکھا کروں گا کہ وہ کس وقت گھر پر ہے، میں اس وقت گھر سے نکل جایا کروں گا۔ یہ سب فیصلے کرنے کے بعد میں نے خود کو کافی پرسکون محسوس کیا۔
تاہم میرے لئے ان فیصلوں پر عملدرآمد کرنا آسان ثابت نہیں ہوا۔ ڈاکٹر گریگ کچھ اس قسم کا آدمی تھا کہ اس سے ملنے والا پہلی ہی ملاقات میں اسے پسند کرنے لگتا تھا۔ وہ بہت جلد وہاں رہنے والوں میں مقبول ہوگیا اور اسے ہر پارٹی میں مدعو کیا جانے لگا۔ پارٹیاں وہاں تقریباً ہر روز ہی ہوتی تھیں اور میں بھی ان میں مدعو ہوتا تھا۔ یوں میرا اس سے ملنا ناگزیر ہوجاتا تھا۔ پارٹی میں اس سے سامنا ہوتا تو وہ جان نہ چھوڑتا اور مختلف اوقات میں گھر پر فون بھی کرتا رہتا یا پھر خود چلا آتا۔
یہ غنیمت تھا کہ وہ پیشہ ورانہ زندگی کے بارے میں بات نہیں کرتا تھا۔ لگتا تھا کہ وہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کو اسپتال میں ہی چھوڑ آتا تھا اور اس کے بعد صرف زندگی کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کرتا تھا اور انہی میں مگن رہتا تھا۔ وہ اس بات پر بہت خوش تھا کہ ریوبینڈ حسین اور زندہ دل خواتین کے معاملے میں بہت زرخیز تھا۔ ڈاکٹر گریگ کو ان سے مراسم استوار کرنے کے مواقع خوب مل رہے تھے اور وہ اس پر خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا۔
’’بات یہ ہے ولیم…!‘‘ اس نے ایک روز مجھ سے گویا اپنے دل کی بات کی۔ ’’کہ مجھے چھڑے نوجوانوں کی طرح رہنے کا تو زندگی میں کبھی موقع ہی نہیں ملا۔ کم عمری میں ہی میں نے شادی کرلی اور میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ کیوں کرلی۔ اس شادی سے نہ میں خوش تھا اور نہ میری بیوی…! اس کے باوجود نہ جانے کس طرح ہم نے کافی سال اکٹھے گزار دیئے اور پھر علیحدگی ہوگئی۔ زندگی کے مزے تو میں اب لے رہا ہوں۔ میں اپنے آپ کو پچیس تیس سال کا بے فکرا نوجوان محسوس کررہا ہوں۔‘‘
زیادہ تر وہ اسی قسم کی باتیں کرتا تھا لیکن ان کے علاوہ بھی وہ دنیا بھر کے موضوعات پر باتیں کرسکتا تھا۔ اسے سیاست، عالمی حالات اور کھیلوں وغیرہ کے بارے میں بہت معلومات حاصل تھیں۔ اس کی اور میری عمروں میں بہت فرق تھا لیکن وہ کبھی بھی اپنی گفتگو سے مجھے بور نہیں ہونے دیتا تھا۔
اس کی رفاقت سے مجھے ابتدا میں جو خوف محسوس ہوا تھا، وہ رفتہ رفتہ دور ہونے لگا بلکہ کچھ دنوں بعد تو مجھے اس کے ساتھ وقت گزاری میں لطف آنے لگا اور پھر یہ نوبت آئی کہ میں خود اسے تلاش کرکے اس سے ملنے اور گپ شپ کرنے لگا تاہم احتیاطاً میں نے کافی وقت مقامی لائبریری میں بھی گزارنا شروع کردیا۔ وہاں میں بچوں کی بیماریوں، علاج معالجے اور دوائوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ کتابیں تلاش کرکے ان کی ورق گردانی کرتا اور خاص خاص باتیں ذہن نشین کرنے کی کوشش کرتا۔ دراصل مجھے امکان نظر آتا تھا کہ اگر میں ڈاکٹر گریگ سے میل ملاقات رکھوں گا تو کبھی نہ کبھی بچوں کے ڈاکٹروں والی گفتگو بھی ضرور ہوگی۔
اگر میں یہ کہوں تو خودپرستی نہیں ہوگی کہ ذہین تو بہرحال میں تھا، یہ دوسری بات تھی کہ میری ذہانت منفی کاموں میں استعمال ہورہی تھی۔ میں نے طبی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا تو بہت جلد اتنی معلومات جمع کرلیں جو بچوں کے ڈاکٹروں کے درمیان ہونے والی عمومی سی گفتگو میں میرے بہت اچھی طرح کام آسکتی تھی۔ چند ہفتوں کی ’’محنت‘‘ اور ’’تیاری‘‘ کے بعد میں نے محسوس کیا کہ میں ڈاکٹر گریگ کے ساتھ اس کے اسپتال میں دوپہر کا کھانا کھانے کی دعوت قبول کرسکتا تھا۔ اب میں اپنی پول کھلنے کا خطرہ محسوس نہیں کررہا تھا۔
چنانچہ ایک روز میں ٹہلتا ہوا اسپتال جا پہنچا۔ ڈاکٹر گریگ مجھے لابی میں ہی مل گیا۔ وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اس نے فوراً ہی مجھے وہاں موجود ریسپشنسٹ لڑکی سے متعارف کرایا۔ ’’یہ میرے دوست ڈاکٹر ولیم ہیں۔ لاس اینجلس سے آئے ہیں اور جب تک وہاں واپس نہیں جاتے، تب تک یہ میرے پڑوسی ہیں۔‘‘
مجھے اندازہ ہوا کہ اس نے ریسپشنسٹ سے مجھے صرف اس لئے متعارف کرایا تھا کہ وہ ایک خوبصورت لڑکی تھی۔ وہ بیچارہ اس طرح ’’حق دوستی‘‘ ادا کرنے کی کوشش کررہا
اس نے مجھے پورے اسپتال کا معائنہ کرایا۔ اس دوران جہاں جہاں بھی اسپتال کے عملے کی کوئی خوبصورت خاتون نظر آتی رہی، وہ مجھے اس سے متعارف کرانے میں ذرا نہیں چوکا۔ اس کے علاوہ اس نے مجھے اسپتال کے ایڈمنسٹریٹر اور ہر شعبے کے سربراہ سے بھی ملوایا۔ میں ایک وی آئی پی کی طرح اس کے ساتھ پورے اسپتال میں گھومتا پھر رہا تھا۔ اسپتال کے کیفے ٹیریا میں ایک بڑی سی میز پر ہم نے لنچ کیا جہاں بہت سے ڈاکٹر اور نرسیں گریگ کے گرد جمع ہوگئیں۔ ان سب نے بھی وہیں لنچ کیا۔ اس دوران مجھے اندازہ ہوا کہ ڈاکٹر گریگ اسپتال میں بھی بے حد مقبول تھا اور اس کے ساتھ کام کرنے والے اسے بہت پسند کرتے تھے۔
اس کے بعد میں اکثر اسپتال جانے لگا۔ اس کی کئی وجوہ تھیں۔ ایک تو وہاں میرا وقت اچھا گزر جاتا تھا دوسرے برینڈا نامی ایک خوبصورت نرس میری دوست بن گئی تھی جس کے ساتھ میری شامیں خوبصورت انداز میں گزرنے لگی تھیں۔ تیسری وجہ یہ تھی کہ اسپتال میں ایک بہت اچھی لائبریری بھی موجود تھی جس میں طبی موضوعات پر دنیا بھر سے تازہ ترین کتابیں، اخبارات اور رسالے آتے تھے۔
میں گھنٹوں اس لائبریری میں ایسی کتابوں اور رسالوں کا مطالعہ کرتا جو مجھے بچوں کا ڈاکٹر ’’بننے‘‘ میں مدد دے سکتے تھے۔ میں خود ہی اپنی تعلیم کا بندوبست کررہا تھا۔ لائبریری میں گھنٹوں گزارنے کی وجہ سے نہ صرف میری معلومات میں بلکہ میری عزت میں بھی اضافہ ہوا۔ لوگوں کے ذہن میں یہ شبہ پیدا نہیں ہوا کہ کیا ڈاکٹر صاحب کو کچھ نہیں آتا جو وہ ہر وقت مطالعے میں لگے رہتے ہیں؟ اس کے بجائے لوگوں نے یہ سوچا کہ ڈاکٹر صاحب جدید ترین تحقیق سے باخبر رہنے کیلئے کتنا مغز کھپاتے ہیں اور اپنے علم میں زیادہ سے زیادہ اضافے کیلئے کتنا وقت صرف کرتے ہیں حالانکہ ان دنوں وہ چھٹیوں پر ہیں۔ اسے کہتے ہیں شوق اور اپنے پیشے سے محبت…!
اس قسم کے تبصرے میرے منہ پر بھی کئے جاتے۔ میں ان کے جواب میں انکساری سے مسکرا دیتا۔ برینڈا بھی میرے بارے میں لوگوں کی رائے سے مجھے آگاہ کرتی رہتی تھی۔ وہ ایک زبردست لڑکی تھی۔ اس میں آگے بڑھنے کی بڑی لگن تھی اور وہ ہر قت گویا جوش اور جذبات سے لبریز رہتی تھی۔ اس کی وجہ سے میرے شب و روز میں بڑی رنگینی آگئی تھی۔
کبھی مجھے خیال آتا کہ اگر برینڈا کو معلوم ہوجائے میں اٹھارہ سال کا ہوں، میری زندگی کی عمارت جھوٹ پر کھڑی ہے اور میں جعلی ڈاکٹر ہوں تو اس کا ردعمل کیا ہوگا۔ میں اس خیال کو فوراً ہی ذہن سے جھٹک دیتا۔ میں خود بھی اب اپنے آپ کو اٹھارہ سال کا نوجوان محسوس نہیں کرتا تھا۔ میں آئینہ دیکھتا تو اس میں مجھے ایک دراز قد آدمی کھڑا نظر آتا جو اٹھائیس تیس سال کا دکھائی دیتا تھا۔
میں نے کاغذات میں تو اپنی عمر ضرورت کے تحت تبدیل کی تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ قدرتی طور پر گویا میرا ذہن بھی آگے بڑھ گیا تھا۔ میرے ہر عمل، خیالات اور حرکات و سکنات میں اٹھائیس تیس سال کے آدمی جیسی بلکہ شاید اس سے بھی کچھ زیادہ پختگی ہوتی تھی۔ عورتوں کے ساتھ بھی میرا یہی معاملہ تھا۔ کوئی عورت مجھے اٹھارہ سال کا لڑکا تو سمجھ ہی نہیں سکتی تھی۔
اسپتال میں کئی بار کی آمدورفت کے بعد میرا خوف بالکل ہی دور ہوگیا اور میں ڈاکٹر کا کردار ادا کرتے ہوئے لطف اندوز ہونے لگا۔ بالکل اسی طرح جیسے مجھے پائلٹ کا بہروپ دھار کر مزا آتا تھا۔ میں اسپتال میں جدھر سے گزرتا، نرسیں مجھے دیکھ کر کچھ مہربان اور کچھ مؤدبانہ انداز میں ’’گڈ مارننگ‘‘ کہتیں۔ ڈاکٹر گرمجوشی سے مجھ سے مصافحہ کرتے اور پوچھتے۔ ’’کیسے ہیں ڈاکٹر ولیم…؟‘‘
یہ سب کچھ بہت عمدہ طریقے سے چل رہا تھا اور میں اپنا ڈاکٹر کا کردار کامیابی سے ادا کررہا تھا مگر ایک دن اچانک مجھے گڑبڑ کے آثار نظر آئے۔ میں اس روز اسپتال کی ایک راہداری سے گزر رہا تھا کہ اچانک سامنے سے جون آتا دکھائی دیا۔ وہ اسپتال کا ایڈمنسٹریٹر تھا۔ مجھے دیکھ کر نہ جانے کیوں وہ ذرا چونکا اور اس نے ہاتھ اٹھا کر مجھے رکنے کا اشارہ کیا۔ پھر وہ مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتے ہوئے اپنے آفس کی طرف مڑ گیا۔
مجھے اس کی حرکات و سکنات میں کچھ اضطراب نظر آیا۔ میں ڈر گیا۔ انسان کے دل میں چور ہوتا ہے تو ہر خلاف معمول بات سے وہ ڈر جاتا ہے۔ مجھے اندیشہ محسوس ہوا کہ کوئی گڑبڑ ہوگئی ہے۔ جون اپنے کمرے میں جا چکا تھا۔ میرا دل چاہا وہیں سے بھاگ جائوں۔ بڑی مشکل سے میں نے اپنے آپ کو اس ارادے پر عمل کرنے سے روکا۔ میں نے اپنے آپ کو تسلی دی کہ جون کے تاثرات خواہ کچھ بھی تھے لیکن ان میں شک و شبے یا ملامت کی جھلک نہیں تھی۔ وہ شاید کسی مسئلے کی وجہ سے پریشان تھا۔
یوں میں اپنے آپ کو سمجھا بجھا کر اور تسلی دے کر اس کے کمرے میں چلا گیا۔
’’بیٹھئے… بیٹھئے ڈاکٹر ولیم!‘‘ وہ بے چینی سے ہاتھ ملتے ہوئے بولا۔ ’’میں آپ سے فرمائش کرنے لگا ہوں کہ مجھ پر ایک بہت بڑا احسان کردیں۔ مجھے احساس ہے کہ آپ سے یہ کہنا بڑی زیادتی ہے۔ میں بڑی مشکل میں پھنس گیا ہوں صرف آپ مجھے اس مشکل سے نکال سکتے ہیں۔ کیا آپ میری مدد کریں گے …؟ پلیز!‘‘ اس نے التجائیہ سی نظروں سے میری طرف دیکھا۔
میں کچھ گڑبڑا سا گیا۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ وہ مجھ سے اس طرح کی بات کرے گا۔ فوری طور پر میری سمجھ میں بھی نہ آیا کہ کیا جواب دوں۔ بہرحال میں نے محتاط سے لہجے میں کہا۔ ’’اگر میں آپ کے کسی کام آسکا تو ضرور آئوں گا۔‘‘
مجھے اس سے بہت اطمینان ہوا تھا کہ وہ مجھے ڈاکٹر ہی کہہ کر مخاطب کررہا تھا۔ اس کا بات کرنے کا انداز بھی عاجزانہ تھا۔
میرا جواب سن کر وہ گویا ذرا مطمئن ہوتے ہوئے بولا۔ ’’مسئلہ یہ ہےڈاکٹر کہ ہماری رات بارہ بجے سے صبح آٹھ بجے تک کی شفٹ میں ایک ریذیڈنٹ ڈاکٹر کی ڈیوٹی ہوتی ہے جو سات زیرتربیت ڈاکٹروں اور چالیس نرسوں کا انچارج ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ مسئلہ یہ ہوگیا کہ آج دوپہر کیلیفورنیا میں اس کی بہن کا انتقال ہوگیا ہے۔ یہ خبر سن کر وہ فوراً ہی وہاں پہنچنے کیلئے روانہ ہوگیا۔ وہ دس دن کی چھٹی لے کر گیا ہے۔ ہمارے پاس کوئی دوسرا ڈاکٹر بھی نہیں ہے جو اس کی جگہ ڈیوٹی دے سکے۔ آپ تو یہاں رہ رہے ہیں، یہاں کے حالات سے اچھی طرح واقف ہوچکے ہیں۔ آپ کو تو معلوم ہی ہوگا کہ اٹلانٹا میں ویسے ہی مجموعی طور پر ڈاکٹروں کی بہت کمی ہے۔ مجھے جوزف کی جگہ تعینات کرنے کیلئے کوئی ڈاکٹر نہیں مل رہا۔ میں خود بھی اس کی جگہ ڈیوٹی نہیں دے سکتا۔ آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ میں میڈیکل ڈاکٹر نہیں ہوں۔‘‘
وہ ایک لمحے کو خاموش ہوا۔ میں دم بخود اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس نے جلدی سے سلسلہ کلام جوڑا۔ ’’میں کسی زیرتربیت ڈاکٹر کو اس کی جگہ تعینات نہیں کرسکتا۔ آپ کو تو معلوم ہی ہوگا کہ قانون کے مطابق ریذیڈنٹ اور نگراں ڈاکٹر کے طور پر صرف پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر یا اسپیشلسٹ کو ہی تعینات کیا جاسکتا ہے۔ جس معیار کا ہمارا اسپتال ہے، اس میں اس قانون کی پابندی لازمی ہے۔ آپ میرا مسئلہ سمجھ رہے ہیں نا…؟‘‘ اس نے پرامید سی نظروں سے میری طرف دیکھا۔
میں نے اثبات میں سر ہلا۔ میں اس کی بات سمجھ رہا تھا لیکن میری اندرونی کیفیت اس گیدڑ جیسی تھی جس کی طرف کوئی شیر منہ پھاڑے چلا آرہا ہو۔
مجھے خاموش دیکھ کر جون نے ذرا پرسکون انداز میں بات آگے بڑھائی۔ ’’مجھے ڈاکٹر گریگ نے بتایا ہے کہ آپ تو فارغ ہی ہوتے ہیں۔‘‘ پھر وہ مسکراتے ہوئے بولا۔ ’’اور یہ دیکھ کر تو مجھے بھی رشک آتا ہے کہ آپ کا زیادہ تر وقت لڑکیوں کے ساتھ گزرتا ہے۔ میں آپ کو اطمینان دلاتا ہوں کہ اگر آپ میری
قبول کرلیں گے تب بھی لڑکیوں سے آپ کے میل ملاقات میں کوئی کمی نہیں آئے گی بلکہ شاید یہ سلسلہ کچھ بڑھ ہی جائے۔‘‘
پھر اس نے گویا مجھے مزید اطمینان دلایا۔ ’’آپ کو کچھ نہیں کرنا ہوگا بس رات بارہ بجے سے آٹھ بجے تک یہاں بیٹھنا ہوگا تاکہ قانون کے تقاضے پورے ہوتے رہیں۔ مجھے آپ کی ضرورت ہے ڈاکٹر! میں آپ کو بہترین معاوضہ دوں گا بلکہ بونس کے طور پر میں نرس برینڈا کی ڈیوٹی بھی اسی شفٹ میں لگا دوں گا۔ مجھے معلوم ہے اس کے ساتھ آپ کی گہری دوستی ہے۔ کم ازکم دس دن کیلئے تو ضرور میں اس کی ڈیوٹی آپ کی شفٹ میں لگا دوں گا۔ دیکھئے انکار نہ کیجئے گا ڈاکٹر صاحب…! میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ اگر آپ نے انکار کردیا تو میں کیا کروں گا۔‘‘
جون کی حالت تقریباً ایسی تھی جیسے میرا انکار سن کر وہ رو دے گا یا پھر میرے پائوں پکڑ لے گا۔ میں حالات کے اس طرح کروٹ لینے اور قسمت کی اس ستم ظریفی پر حیران پریشان تھا۔
’’مسٹر جون! مجھے آپ کی مدد کرکے خوشی ہوتی لیکن یہ ممکن نہیں ہے۔‘‘ آخر میں نے کہا۔
’’لیکن کیوں…؟‘‘ جون نے بے تابی سے پوچھا۔
’’پہلی بات تو یہ کہ میرے پاس ریاست جارجیا کی حدود میں پریکٹس کرنے کا لائسنس نہیں ہے۔‘‘ میں اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ جون نے زور زور سے نفی میں سر ہلانا شروع کردیا۔
پھر وہ بولا۔ ’’آپ ان دس دنوں میں کوئی پریکٹس وغیرہ نہیں کررہے ہوں گے۔ درحقیقت آپ کو کچھ بھی نہیں کرنا ہے بس یہاں موجود رہنا ہے۔ ایک متبادل ڈاکٹر کے طور پر خانہ پری کیلئے آپ کی موجودگی ضروری ہے اور جہاں تک لائسنس کی بات ہے تو آپ کو لائسنس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ آپ کے پاس کیلیفورنیا کیلئے پریکٹس کا معیار شاید ہمارے ہاں کے معیار سے کچھ بہتر ہی ہوگا اور ہماری میڈیکل ایسوسی ایشن آپ کے لائسنس کو بے چون و چراں تسلیم کرلے گی۔‘‘
میں خاموش رہا تو وہ مزید بولا۔ ’’آپ کو بس اتنا کرنا ہے کہ اس ریاست کا لائسنس رکھنے والے اور ہمارے اسپتال سے وابستہ پانچ ڈاکٹروں کے ایک پینل کے سامنے انٹرویو کیلئے پیش ہونا ہوگا۔ وہ آپ کیلئے اس ریاست کی طرف سے ایک سرٹیفکیٹ حاصل کرلیں گے جو آپ کیلئے اس ریاست میں پریکٹس کرنے کا ایک عارضی اجازت نامہ ہوگا۔ ان ڈاکٹروں کی مشترکہ درخواست پر وہ سرٹیفکیٹ ایک منٹ میں مل جائے گا۔ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے میں کل صبح ہی آپ کا انٹرویو رکھوا دیتا ہوں۔ اب آپ کیا کہتے ہیں؟‘‘
عقل کا تقاضا تو یہی تھا کہ میں انکار کردیتا۔ انٹرویو کیلئے پانچ ڈاکٹروں کے پینل کے سامنے پیش ہونے میں سب سے بڑی قباحت یہی تھی کہ کسی بھی سوال پر میری پول کھل سکتی تھی۔ یہ حقیقت سامنے آسکتی تھی کہ میں ایک جعلی ڈاکٹر تھا۔ میں تو شاید اپنے آپ کو وہ اتائی بھی ثابت نہیں کرسکتا تھا جو پرانے وقتوں میں مجمع لگا کر طرح طرح کے تیل فروخت کیا کرتے تھے اور ان کے ایسے خواص بیان کرتے تھے جنہیں سن کر سامعین کی آنکھیں حیرت سے پھیل جاتی تھیں۔
معاملے کا دوسر پہلو یہ تھا کہ اس میں ایک چیلنج پوشیدہ تھا اور جہاں مسئلہ چیلنج کا آجاتا تھا، وہاں میری روح گویا بے چین ہونے لگتی تھی۔ کوئی غیبی طاقت مجھے اس طرح کے چیلنج قبول کرنے پر اکساتی تھی۔ مجھے اپنے آپ پر قابو نہیں رہتا تھا۔
’’دیکھئے اگر یہ معاملہ زیادہ مشکل نہیں ہے تو مجھے آپ کی مدد کرکے خوشی ہوگی۔‘‘ میں نے ہلکی سی ہچکچاہٹ کے ساتھ کہا۔ ’’میرے فرائض کیا ہوں گے؟ دراصل میں تو صرف کلینک چلاتا رہا ہوں جو آفس کی طرح ہی ہوتا ہے۔ بس مریض کا معائنہ کیا اور دوا لکھ کر دے دی یا ٹیسٹ کیلئے لیبارٹری بھیج دیا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ اگر مریض کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو اسے اسپتال میں داخلے کیلئے چٹ لکھ کر دے دی لیکن اسپتال میں ڈیوٹی کس طرح دی جاتی ہے، اس کا مجھے کوئی خاص تجربہ نہیں ہے۔‘‘
جون نے قہقہہ لگایا۔ اب وہ خاصا مطمئن اور خوش نظر آرہا تھا ۔وہ دوستانہ لہجے میں بولا۔ ’’بھئی تمہیں کچھ بھی نہیں کرنا ہے بس یہاں موجود رہو۔ یہاں تمہاری شکل نظر آنی چاہئے۔ تم خواہ زیرتربیت ڈاکٹروں کے ساتھ تاش کھیلو یا نرسوں کے ساتھ ہنسی مذاق کرکے وقت گزارو، بس یہاں موجود رہو۔‘‘
دوسرےروز میں ڈاکٹروں کے سامنے انٹرویو کیلئے پیش ہونے کی غرض سے کانفرنس روم میں داخل ہوا۔ میرے دل میں اس وقت بھی مختلف خدشات سر اٹھا رہے تھے لیکن میں پراعتماد نظر آنے کی پوری پوری کوشش کررہا تھا۔ پینل کا سربراہ ڈاکٹر گریگ تھا جس نے نظر بچا کر شرارت بھرے انداز میں مجھے آنکھ ماری۔ باقی چاروں ڈاکٹروں کو بھی میں پہچانتا تھا۔ اسپتال میں آمدورفت کی وجہ سے ان سے سامنا ہوتا رہتا تھا۔
انٹرویو میری توقعات سے زیادہ آسان ثابت ہوا۔ میری پیشہ ورانہ قابلیت کو جانچنے کیلئے کوئی سوال کیا ہی نہیں گیا۔ اس قسم کے دوچار سوالوں کے جواب تو شاید میں دے ہی دیتا لیکن مجھے اس کی زحمت ہی نہیں دی گئی۔ مجھ سے بس میرے ہی بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنے پر اکتفا کیا گیا۔ مثلاً میں نے کس میڈیکل اسکول میں پڑھا، کہاں انٹرن شپ یا ہائوس جاب کی پریکٹس کرتا رہا، کب سے میں خاص طور پر بچوں کا معالج چلا آرہا ہوں وغیرہ وغیرہ۔
میں کانفرنس روم سے نکلا تو میرے پاس اسپتال میں عارضی انچارج ڈاکٹر کے طور پر کام کرنے کیلئے تقرر نامہ موجود تھا۔ دوسرے روز ڈاکٹر گریگ نے مجھے مقامی ریاست کے میڈیکل بورڈ سے اجازت نامہ بھی لا دیاجس کی رو سے میں ایک سال تک اپنے کیلیفورنیا والے میڈیکل سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر یہاں پریکٹس کرسکتا تھا۔ یہ اس میڈیکل سرٹیفکیٹ کا ذکر تھا جو میرے پاس تھا ہی نہیں۔
اپنی ڈیوٹی کی پہلی رات ہی میں نے اپنے طور پر دل ہی دل میں ایک لائحہ عمل طے کرلیا تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر مجھے سات زیرتربیت ڈاکٹروں، چالیس نرسوں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کے دوسرے بہت سے لوگوں کو بے وقوف بنانا ہے تو مجھے ایک لاابالی، زندہ دل اور بے پروا ڈاکٹر کا کردار ادا کرنا ہوگا جو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتا اور جس کی زیادہ توجہ بس ہنس کھیل کر وقت گزارنے پر رہتی ہے۔
اس رات میں نے ریذیڈنٹ ڈاکٹر کی حیثیت سے اپنے آفس میں داخل ہوتے ہی یہ کردار ادا کرنا شروع کردیا۔ جون کے وعدے کے مطابق برینڈا وہاں موجود تھی اور اس نے ایک دلکش مسکراہٹ کے ساتھ میرا استقبال کیا تھا۔ اس نے جونہی مجھے سفید کوٹ پہنایا اور میرے گلے میں اسٹیتھو اسکوپ لٹکایا، میں نے سب سے پہلے اسی کا معائنہ شروع کردیا اور معائنہ کرنے کا میرا اپنا ایک انداز تھا۔
’’خدا کا شکر ہے کہ تمہارا دل تو بالکل صحیح جگہ پر ہے۔’’ آخر میں نے گہری سانس لے کر کہا۔ ’’ہوسکتا ہے تمہارا دماغ اپنی اصل جگہ کے بجائے ادھر ادھر کہیں ہو۔ یہ بہرحال طے ہے کہ تم میں کوئی نہ کوئی مینوفیکچرنگ فالٹ ہے ضرور…!‘‘
اس نے میری دست درازی کا سلسلہ روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’بہتر ہوگا کہ ان حرکتوں کے بجائے تم فلور کا ایک رائونڈ لگا لو۔‘‘
میں اس وقت چھٹے فلور پر تھا اور یہ پورا فلور بچوں ہی کے وارڈز پر مشتمل تھا۔ ان میں نرسری بھی شامل تھی جس میں نوزائیدہ بچوں کو رکھا جاتا تھا دیگر وارڈز میں زیرعلاج اور کسی قسم کی سرجری کے بعد صحت یابی کا انتظار کرنے والے بچے موجود تھے جن کی عمریں دو سے بارہ سال کے درمیان تھیں۔ وہاں تقریباً تیس بچے موجود تھےلیکن خوش قسمتی سے ہر شعبے کا ایک ڈاکٹر موجود تھا اور وہ اپنے اپنے ڈاکٹر کے زیرعلاج تھے۔ مجھے کسی کا علاج نہیں کرنا تھا، کسی کیلئے دوائیں تجویز نہیں کرنی تھیں۔ میں صرف انچارج تھا تاہم
مجھ سے یہ توقع رکھی جارہی تھی کہ میں ایمرجنسی سے نمٹ لوں گا۔ میں دل ہی دل میں دعا کررہا تھا کہ کوئی ایمرجنسی نہ ہی آئے۔
اگر بدقسمتی سے کوئی ایمرجنسی آبھی جاتی تو اس کیلئے میں نے ایک تدبیر سوچ رکھی تھی۔ میں نے پورے فلور کا اچھی طرح جائزہ لیا تھا اور اندازہ لگایا تھا کہ وہاں موجود زیرتربیت ڈاکٹر ہر طرح کی صورتحال کو سنبھالنے کیلئے کافی حد تک اہل تھے۔ یہ محض میرا اندازہ ہی تھا، یقین سے تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ میرا یقین سے کچھ کہنا ایسا ہی ہوتا جیسے کوئی موٹر میکینک آئن اسٹائن کے نظریہ اضافت کے بارے میں رائے دینے لگے۔
بہرحال میرا مشاہدہ مجھے بتا رہا تھا کہ وہ ڈاکٹر تقریباً سب کچھ سنبھالنے کے اہل تھے لیکن بڑے ڈاکٹر ان بے چاروں کو موقع نہیں دیتے تھے۔ انہیں چھوٹے چھوٹے اور معمولی کاموں پر ہی لگائے رکھتے تھے جبکہ وہ اپنا تجربہ بڑھانا چاہتے تھے۔ وہ بھی آگے آنا چاہتے تھے اور اگر انہیں کام کا موقع دیا جاتا تو یقیناً وہ خوشی سے کرتے۔ میں اسی چیز سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔
مجھے اسی رات کے دوران اندازہ ہوگیا کہ زیرتربیت ڈاکٹر مجھ جیسے انچارج کو پسند کرتے تھے جو ان کے کام میں مداخلت نہیں کرتا تھا، ان پر رعب نہیں ڈالتا تھا، دوسروں کے سامنے ان کی توہین نہیں کرتا تھا اور ذرا ذرا سی بات پر انہیں نااہل قرار نہیں دیتا تھا۔ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ میں تو یہ سب کچھ کرنے کے بجائے گویا ہنستے کھیلتے وقت گزار رہا تھا۔ سب سے مذاق کررہا تھا اور کسی بھی معاملے میں نہ خود خواہ مخواہ پریشانی کا اظہار کررہا تھا اور نہ ہی دوسروں کو پریشان کررہا تھا۔
وہ رات کسی خاص واقعے کے بغیر گزر گئی صرف صبح سات بجے کے قریب مجھے اس وقت پریشانی کا احساس ہوا جب ایک نرس نے مجھے فون کیا اور کہا۔ ’’ڈاکٹر صاحب…! بھولئے گا مت آپ کو مریضوں کے چارٹس لکھنے ہیں، جانے سے پہلے یہ کام کرتے جایئے گا۔‘‘
ظاہر ہے یہ کام کرنے کے بارے میں، میں نے زندگی میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ تھوڑی سی گھبراہٹ ہوئی لیکن پھر میں کمر کس کر اس کمرے میں چلا گیا جو نرسوں اور ڈاکٹروں کا مرکز تھا۔ وہاں نرس نے میرے لئے سب چارٹ میز پر ترتیب سے رکھے ہوئے تھے۔ میں نے سب سے اوپر والا چارٹ اٹھا کر اس کا معائنہ کرتے ہوئے بڑی بردباری سے سر ہلایا اور ہنکارا بھرا۔
چارٹ پر تاریخوں کے حساب سے ترتیب وار بہت سے خانے بنے ہوئے تھے جن میں تمام اندرجات تھے۔ مریض کی کیفیت کیا تھی، کس نرس نے اسے اٹینڈ کیا، کون کون سی دوائیں دی گئیں۔ ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ مریض کو چیک کرنے والے ڈاکٹر کے ریمارکس بھی تھے۔ میں نے ان خانوں کی چھپی ہوئی سرخیاں تو پڑھ لیں لیکن ان کے نیچے مختلف افراد نے خانوں میں کیا لکھا ہوا تھا، یہ سمجھنا میرے بس کی بات نہیں تھی۔
میرے خیال میں تو وہ انگریزی زبان ہی نہیں تھی۔ زیادہ تر ڈاکٹروں اور نرسوں کی لکھائی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ اگر وہ انگریزی میں لکھیں تو آپ آسانی سے اسے جرمن، فرانسیسی یا ہسپانوی بھی قرار دے سکتے ہیں۔
اس موقع پر نرس نے نہ جانے کون سے جذبے سے سرشار ہوکر میری رہنمائی کردی۔ وہ ایک خانے پر انگلی رکھتے ہوئے بولی۔ ’’یہاں آپ کو اپنے ریمارکس لکھنے ہیں۔‘‘
میں نے اس خانے کی سیدھ میں سب سے اوپر نظر ڈالی۔ اس پر یہ الفاظ چھپے ہوئے تھے۔ ’’انچارج ڈاکٹر کے ریمارکس!‘‘
میں نے ایک لمحے سوچا پھر اسی ناقابل فہم انداز میں کچھ ایسے الفاظ اس خانے میں گھسیٹ دیئے جنہیں میں خود بھی نہیں پڑھ سکتا تھا۔ اپنے دستخط بھی میں نے اسی طرزتحریر میں کئے، کوئی نہیں جان سکتا تھا کہ وہ کس کے دستخط تھے۔ میں چاہتا بھی یہی تھا کہ میرے لکھے کو کوئی نہ پڑھ سکے۔
اسی طرح تمام چارٹس کی خانہ پری کرنے کے بعد میں نے قلم رکھ کر انگڑائی لیتے ہوئے کہا۔ ’’لو بھئی میں نے سب بچوں کے پیپرز چیک کرلئے صرف تمہیں میں نے ’’اے‘‘ گریڈ دیا ہے۔‘‘
نرس ہنس دی۔ دوسروں کی طرح وہ بھی یہی رائے قائم کرچکی تھی کہ ڈاکٹر صاحب بڑے زندہ دل آدمی ہیں۔
اسی زندہ دلی کے ساتھ میری ڈیوٹی کی راتیں گزرنے لگیں۔ ایک رات ایک ڈاکٹر درد سے کراہتی ہوئی ایک عورت کو میرے پاس لے کر آیا اور ذرا فکرمندی سے بولا۔ ’’سر…! آپ ذرا ان کا معائنہ کرلیں، ان کے ہاں ایک ساتھ تین بچوں کی پیدائش متوقع ہے۔‘‘
میں نے خوف زدہ انداز میں دونوں ہاتھ بلند کرتے ہوئے کہا۔ ’’ڈاکٹر! تمہیں تو معلوم ہی ہے میں ایک کمزور دل آدمی ہوں۔ میں بھلا ان خاتون کا معائنہ کیسے کرسکتا ہوں؟ انہیں تو تم کسی ایسے ادارے میں لےجائو جہاں سے انہیں بہادری کا کوئی ایوارڈ وغیرہ مل سکے۔‘‘
اس پر ڈاکٹر ہی نہیں وہ خاتون بھی اپنی تکلیف کے باوجود ہنس دی۔
میں نہایت سنجیدہ معاملات کو بھی ہنسی میں اڑا کر وقت تو گزارے جارہا تھا لیکن مجھے احساس تھا کہ میری پوزیشن رسی پر چلنے والے بازیگر جیسی ہے۔ ذرا توازن بگڑا اور دھڑام سے نیچے!
ایک رات تو میرے گرنے کا خطرہ محسوس ہونے ہی لگا۔
اسپتال میں پبلک ایڈریس سسٹم نصب تھا۔ یعنی اگر ہنگامی طور پر کسی کو بلانے کی ضرورت پیش آتی تھی تو چھوٹے لائوڈ اسپیکرز پر اعلان کیا جاتا تھا جو پورے اسپتال میں سنائی دیتا تھا۔ اس رات ڈھائی بجے اچانک مجھے اعلان سنائی دیا۔ ’’ڈاکٹر ولیم…! پلیز فوراً ایمرجنسی وارڈ میں تشریف لایئے… ڈاکٹر ولیم!‘‘
مجھے اسپتال میں ڈیوٹی دیتےایک ہفتہ ہوچکا تھا اور ابھی تک میں ایمرجنسی وارڈ میں جانے سے بچا ہوا تھا۔ ویسے بھی اسپتال کے ایڈمنسٹریٹر جون سے میری بات ہوچکی تھی کہ مجھے کوئی ایمرجنسی کیس نہیں سنبھالنا ہوگا۔ ایمریجنسی وارڈ میں بھی ایک اسٹاف ڈاکٹر موجود رہتا تھا۔ مجھے امید تھی کہ وہ اس وقت بھی موجود ہوگا۔ میں نے دل ہی دل میں فرض کررکھا تھا کہ تمام ایمرجنسی کیسز کو سنبھالنا اسی کی ذمہ داری تھی۔
مجھے ایمرجنسی وارڈ میں جانے کے تصور سے بھی ہول آتا تھا کیونکہ وہاں خون سے واسطہ ضرور پڑتا تھا اور کسی کے زخم وغیرہ سے خون بہتے دیکھنا میرے لئے ناقابل برداشت تھا۔ ایک بار میں ایمرجنسی وارڈ کے قریب سے گزر رہا تھا کہ میں نے دیکھا اسٹریچر پر ایک لڑکے کو وہاں لایا جارہا تھا۔ اس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا اور اس کی ٹانگ سے خون بہہ رہا تھا۔ اس کا زخم اور اس سے بہتا ہوا خون دیکھ کر میری طبیعت خراب ہونے لگی اور میں جلدی سے واش روم میں چلا گیا جہاں مجھے قے آگئی۔
اب اسی ایمرجنسی روم میں مجھےبلایا جارہا تھا جہاں جانے کے تصور سے میری روح فنا ہوتی تھی۔ میں یہ بہانہ بھی نہیں کرسکتا تھا کہ میں نے اعلان نہیں سنا تھا، دو نرسیں اس وقت مجھ سے بات کررہی تھیں جب اچانک لائوڈاسپیکر پر آواز گونجنے لگی تھی۔
مجبوراً مجھے اٹھ کر ایمرجنسی روم کی طرف روانہ ہونا پڑا لیکن میں نے راستے میں وقت ضائع کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ پہلے میں واش روم گیا پھر میں نے مطلوبہ فلور پر جانے کیلئے لفٹ کے بجائے سیڑھیوں کا رخ کیا۔ مجھے معلوم تھا کہ میری تاخیر اس مریض کے حق میں جان لیوا ثابت ہوسکتی تھی جسے ڈاکٹر کی ضرورت تھی لیکن مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ میرا اس کے پاس جلدی پہنچنا بھی اس کے حق میں مہلک ثابت ہوسکتا تھا کیونکہ اسے میری نہیں بلکہ ڈاکٹر کی ضرورت تھی۔ مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ ایمرجنسی وارڈ میں پہنچ کر میں کیا کروں گا خاص طور پر اگر مریض کا خون بہہ رہا ہوگا۔
میری خوش قسمتی تھی کہ مریض کا خون نہیں بہہ رہا تھا۔ ایمرجنسی وارڈ میں پہنچ کر میں نے دیکھا۔ وہ بارہ تیرہ سال کا ایک لڑکا تھا جو معائنے کی میز پر لیٹا تھا اور کہنیوں کے
سہارے ذرا اونچا ہوکر اپنے اردگرد کھڑے زیرتربیت ڈاکٹروں اور نرسوں کو پھیلی پھیلی آنکھوں سے قدرے خوف زدہ سے انداز میں دیکھ رہا تھا۔ اس کی ایک ٹانگ پر کچھ کیچڑ سی لگی ہوئی تھی اور خراشیں بھی نظر آرہی تھیں۔
ایک نرس جو ایک ٹرے میں مختلف چیزیں لئے قریب کھڑی تھی، اس نے جلدی سے رومال کی طرح تہہ شدہ روئی کی ایک پٹی اسٹیل کی چمٹی میں پکڑ کر مجھے تھمائی۔ میں نے بے خیالی کے سے عالم میں اسے تھام لیا اور غیر ارادی طور پر پٹی اپنی ناک پر رگڑنے لگا پھر میں نے رومال ہی کی طرح اسے ناک پر رکھ لیا۔ دراصل مجھے اندیشہ محسوس ہورہا تھا کہ ایمرجنسی میں پھیلی ہوئی دوائوں کی تیز بو سے میرا دل نہ خراب ہونے لگے۔
ڈاکٹروں اور نرسوں نے عجیب سی نظروں سے میری طرف دیکھا۔ اس وقت میری سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیوں اس طرح میری طرف دیکھ رہے تھے۔ مجھے بعد میں اس کی وجہ معلوم ہوئی۔ نرسیں جب اس طرح روئی یا پٹی وغیرہ چمٹی سے پکڑ کر ڈاکٹر یا سرجن کو پکڑاتی ہیں تو اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اگر مریض کا کوئی زخم یا جسم کا کوئی حصہ صاف کرنا ہو تو اس سے صاف کیا جائے اور اس معاملے میں اتنی احتیاط کی جاتی ہے کہ اس روئی یا پٹی کو ہاتھ سے بھی نہیں پکڑا جاتا کہ کہیں اسے جراثیم نہ لگ جائیں۔ ڈاکٹر ہاتھوں پر ربڑ کے باریک دستانے پہن کر ہر چیز کو پکڑتا ہے یا پھر وہ چمٹی سے اسے تھامتا ہے۔
ظاہر ہے میری تو یہ سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ نرس نے مجھے وہ پٹی چمٹی میں دبا کر کیوں تھمائی تھی اور مجھے اس سے کیا کرناچاہئے تھا۔ ڈاکٹر اور نرسیں مجھے اس سے ناک رگڑتے دیکھ کر شاید حیرت سے بے ہوش ہونے کو تھے، پھر غالباً انہوں نے یہی سوچ کر خود کو تسلی دی ہوگی کہ ڈاکٹر صاحب بے خیالی میں ایسا کررہے ہیں۔
’’ہاں بھئی…! کیا ہوا ہے برخوردار کو…؟‘‘ میں نے یوں روانی اور بے پروائی سے پوچھا جیسے مجھے روز ہی اس قسم کے معاملات سے واسطہ پڑتا رہتا تھا۔
’’سادہ فریکچر معلوم ہوتا ہے۔‘‘ سینئر زیرتربیت ڈاکٹر کارٹر نے سنبھل کر جواب دیا۔ ’’گھٹنے سے تقریباً پانچ انچ نیچے ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔‘‘ اس نے طبی زبان میں مجھے ہڈی کا نام بھی بتایا۔ ’’ہم اسے ایکسرے کیلئے لے جانے کی تیاری کررہے تھے۔ اگر کوئی پیچیدگی نہ ہوئی تو ہم ہڈی جوڑ کر پلاسٹر چڑھا کر اسے گھر بھیج دیں گے اور دو دن بعد یہ بیساکھی کے سہارے چلنے لگے گا۔‘‘
’’اور تمہاری کیا رائے ہے سام…؟‘‘ میں نے دوسرے ڈاکٹر سے پوچھا۔
’’میری بھی یہی رائے ہے۔‘‘ ڈاکٹر سام نے تائید میں سر ہلایا۔ ’’بلکہ مجھے تو یہ امکان بھی نظر آرہا ہے کہ شاید ہڈی ٹوٹی ہی نہ ہو۔ بہرحال ایکسرے کے بعد ہی حتمی طور پر کچھ کہا جاسکے گا۔‘‘
’’اور تم کیا کہتے ہو ڈاکٹر ورتھ…؟‘‘ میں نے تیسرے ڈاکٹر سے بھی ازراہ احتیاط پوچھ لیا۔
’’میں اپنے دونوں ساتھیوں سے متفق ہوں۔‘‘ ڈاکٹر ورتھ نے جواب دیا۔
’’بس! تو پھر تم لوگ اپنا کام جاری رکھو، میں تمہارے راستے میں رکاوٹ نہیں بنوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر میں ہاتھ جھاڑ کر وارڈ سے نکل آیا۔
بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ لڑکے کی واقعی ہڈی ہی ٹوٹی تھی بس جگہ کے بارے میں زیرتربیت ڈاکٹروں نے ذرا غلط اندازہ لگایا تھا لیکن معاملہ بہرحال خوش اسلوبی سے نمٹ گیا تھا۔ اگر وہ تینوں ڈاکٹر وہاں موجود نہ ہوتے اور کوئی مجھ سے پوچھتا کہ اس لڑکے کا مسئلہ کیا تھا تو شاید میں کہہ دیتا کہ اسے عینک کی ضرورت تھی کیونکہ جس طرح وہ گول گول آنکھوں سے سب کی طرف دیکھ رہا تھا، اس سے ایسا لگ رہا تھا جیسے اسے صحیح طرح دیکھنے میں دقت پیش آرہی ہے۔
آنے والے دنوں میں بھی مجھے تین چار مرتبہ ایمرجنسی کیسز سے واسطہ پڑا لیکن میں ان سے اسی طرح نمٹ کر آگیا۔ مجھے نرس برینڈا کی زبانی پتا چلا کہ میرے اس انداز کی وجہ سے زیرتربیت ڈاکٹر مجھے اور بھی زیادہ پسند کرنے لگے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ’’بڑے ڈاکٹر صاحب‘‘ بہت فراخ دل اور مہربان ہیں جو انہیں مشکل کیس میں بھی ہاتھ ڈالنے کا موقع دیتے ہیں۔ انہیں امید تھی کہ اس طرح وہ کم وقت میں اچھے ڈاکٹر بن جائیں گے۔ (جاری ہے)