Monday, October 7, 2024

Anokha Chaal Baaz | Episode 9

Anokha Chaal Baaz | Episode 9
مجھے بہت بعد میں پتا چلا کہ بینک سے میرے نکلنے کے صرف پانچ منٹ بعد ہی اصل ایف بی آئی ایجنٹ وہاں آن پہنچا تھا۔ وہ یوریکا میں تعینات اکلوتا ایف بی آئی ایجنٹ تھا۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ جب وہاں پہنچ کر اسے معلوم ہوا کہ وہی شخص جس نے پائلٹ کے روپ میں جعلی چیک کیش کرایا تھا، ایف بی آئی ایجنٹ بن کر چیک واپس بھی لے جا چکا ہے تو اس کا کیا حال ہوا ہوگا۔ مس اسٹیلا کے بارے میں بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی کیا حالت ہوئی ہوگی جبکہ وہ کیشیئر لڑکی کی بے وقوفی کے بارے میں بھی نہایت ناگواری سے اظہارخیال کرچکی تھی۔
تاہم اس وقت مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ دوسرے روپ دھارنے کے ساتھ ساتھ جب کوئی جعلساز ایف بی آئی ایجنٹ کا روپ بھی دھارتا ہے تو ایف بی آئی والے بہت برا مناتے ہیں اور مجرم کی تلاش میں زیادہ سرگرم ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس وقت مجھے یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ یہ حرکت کرکے میں نے ایف بی آئی ایجنٹ ریلے کو اپنا تازہ ترین سراغ بھی فراہم کردیا تھا۔ میری تلاش پر اصل میں ریلے ہی مامور تھا۔ میرا کیس اس کے ہاتھ میں تھا۔ بہرحال میں ان تمام حقائق سے بے خبر خاصی بے خوفی اور خود اعتمادی سے اپنے راستے پر گامزن تھا۔
میں کوئی باقاعدہ اور پیشہ ور مجرم نہیں تھا اور نہ ہی اپنے جیسے دوسرے جعلسازوں اور عادی مجرموں سے میرے رابطے تھے۔ اس لئے پولیس اور ایف بی آئی کو میرا سراغ پانے اور مجھ تک پہنچنے میں اور بھی زیادہ دشواری پیش آرہی تھی۔ میرا سراغ وہی ہوتا تھا جو میں اپنی حرکتوں سے خود ہی چھوڑ جاتا تھا۔ پولیس یا ایف بی آئی جب اس سراغ تک پہنچتی تھی، تب تک میں بہت دور نکل چکا ہوتا تھا۔
اس وقت تک مجھے یہ احساس ہوچکا تھا کہ اب میرے پاس واپسی کا راستہ نہیں ہے۔ بوگس چیک کیش کرانا گویا میرا پیشہ بن چکا تھا۔ میں سوچتا تھا کہ اب مجھے اسی لائن میں کمال حاصل کرنا چاہئے چنانچہ آنے والے دنوں میں، میں نے اس مقصد کیلئے بہت محنت کی۔ میں بینک ملازمین کا مشاہدہ کرتا، لائبریری جاکر بینکنگ اور معیشت کے بارے میں کتابیں، رسالے اور اخبار نہایت توجہ سے پڑھتا۔ اس ساری محنت سے مجھے اپنی جعلسازی کی صلاحیتوں کو ’’نکھارنے‘‘ میں بڑی مدد مل رہی تھی۔
مالیات کے شعبے میں جو لوگ کامیاب جعلساز ثابت ہوتے ہیں، ان میں عموماً تین نمایاں خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک یا دو خصوصیات بھی موجود ہوں، تب بھی کسی حد تک کام چل جاتا ہے لیکن اگر تینوں خصوصیات بیک وقت کسی جعلساز میں موجود ہوں، تب تو وہ غضب ہی ڈھا دیتا ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ مالی فراڈ کرنے والے عموماً نہایت خوش لباس اور اچھی شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ آسودہ حال طبقے کے فرد دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی شخصیت اور انداز و اطوار سے خود اعتمادی جھلکتی ہے، ان کا انداز گفتگو متاثر کن ہوتا ہے، ان میں سے بعض چرب زبان بھی ہوتے ہیں۔ وہ سیاستدانوں کی طرح لوگوں کو متاثر کرنے کا فن جانتے ہیں۔ ان میں سے بعض کے انداز و اطوار ارب پتی سرمایہ داروں والے بھی ہوتے ہیں۔
ان کی دوسری بڑی خصوصیت ان کی قوت مشاہدہ ہوتی ہے۔ وہ جزئیات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ان کی تیسری خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ جس میدان میں اپنی صلاحیتیں آزمانے جارہے ہوتے ہیں، ان کے بارے میں خوب تحقیق کرکے زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرتے ہیں۔
چور، ڈاکو بندوق پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ وہ کسی واردات کے سلسلے میں زیادہ دماغ سوزی نہیں کرتے۔ زیادہ تر تو ان میں دماغ سوزی کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی۔ جعلساز کے پاس کوئی پستول یا بندوق نہیں ہوتی۔ وہ انہی تین خصوصیات پر انحصار کرتے ہوئے اپنی منصوبہ بندی کرتا ہے جن کا میں نے ذکر کیا ہے۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے مجھ میں یہ تینوں خصوصیات گویا پیدائشی طور پر موجود تھیں اور وقت کے ساتھ ساتھ میں نے انہیں مزید ’’نکھار‘‘ لیا۔ میں چیکوں اور بینکوں کے نظام کے بارے میں جتنا کچھ جان چکا تھا، اتنا شاید بینکوں کے بہت سے ملازمین بھی نہیں جانتے ہوں گے۔
یوریکا سے نکل کر میں سان فرانسسکو پہنچا۔ یہاں پین ایم کی بیس موجود تھی یعنی یہاں سے پین ایم کی پروازوں کی آمدورفت ہوتی تھی۔ یہاں بھی میں اپنی وردی پہن کر ایئرپورٹ پر پین ایم کے بیسیوں اصلی ملازموں کے سامنے سے ہوتا ہوا ان کے اسٹاک ہوم میں جاکر اصلی اسٹیشنری بھی اٹھا لایا تھا۔
یہ اسٹیشنری حاصل کرنے کے بعد میرا کام اور بھی آسان ہوگیا۔ میں نے سان فرانسسکو میں بھی دولت سمیٹنا شروع کردی۔ میرے پاس اب اتنی رقم جمع ہوگئی تھی کہ میرے دونوں سوٹ کیس تقریباً بھر گئے تھے اور ان میں کپڑے رکھنے کی جگہ نہیں رہی تھی۔ تمام تر عیاشیوں اور فراخدلی سے خرچ کرنے کے باوجود میرے پاس رقم تیزی سے بڑھ رہی تھی۔
میں نے دو بینکوں میں سیف ڈپازٹ باکس تین سال کیلئے کرائے پر لے کر اور کرایہ پیشگی ادا کرکے پچیس پچیس ہزار ڈالر احتیاطاً ان میں رکھ دیئے اور پھر میں سان فرانسسکو ہی میں ایک لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوگیا۔
اس کا نام روزی تھا اور وہ امریکن ایئرلائن میں ایئرہوسٹس تھی۔ وہ کرایے کے ایک پرانے سے مکان میں پانچ دوسری ایئرہوسٹسوں کے ساتھ رہتی تھی۔ میں نے انہیں ایئرپورٹ سے واپس آتی ہوئی ایک بس سے اترتے دیکھا تھا۔ ان چھ لڑکیوں میں سے صرف روزی ایسی تھی جسے دیکھ کر میرا دل گویا دھڑکنا بھول گیا تھا۔ اسی رات سے ہماری ملاقاتیں شروع ہوگئیں۔
میرا اس وقت بھی یہی حال تھا اور اب بھی میں یہی محسوس کرتا ہوں کہ روزی میری زندگی میں آنے والی سب سے پیاری لڑکی تھی مگر ایک عجیب بات یہ تھی کہ وہ مجھے ایک خاص حد سے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے اس سے پہلے بھی کسی مرد کو وہ حد پھلانگنے کا موقع نہیں دیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ صرف اپنے شوہر کو ہی وہ حد پھلانگنے کا موقع دے گی۔ اس معاملے میں وہ بڑی سخت تھی اور اسے اپنے اوپر بڑا کنٹرول تھا۔ میں اپنی سی کوشش کرتا رہتا لیکن وہ کبھی موم نہ ہوئی تاہم وہ بہت اچھی ساتھی تھی۔ اس کے ساتھ گفتگو اور سیرو تفریح میں بہت لطف آتا تھا۔ ہر معاملے میں اس کا ذوق نہایت اعلیٰ تھا۔ وہ بے پناہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد ذہین بھی تھی۔ باقاعدگی سے چرچ جاتی تھی تاہم اس نے مجھے کبھی مجبور نہیں کیا کہ اس کے ساتھ چرچ چلوں حالانکہ وہ میری ہی ہم عقیدہ یعنی کیتھولک تھی۔
ایک روز میں گاڑی لے کر اسے چرچ سے لینے گیا تو واپسی پر میں نے اس سے کہا۔ ’’تم مجھے نصیحتیں کیوں نہیں کرتیں؟ برائیوں سے تائب ہونے کیلئے کیوں نہیں کہتیں؟‘‘
وہ ہنسنے لگی اور بولی۔ ’’مجھے تو معلوم ہی نہیں ہے کہ تم میں کوئی برائی بھی ہے اور اگر ہے بھی تو تم مجھے اس سمیت قبول ہو۔ تم جیسے بھی ہو، مجھے پسند ہو۔ ابھی تک مجھے تم میں کوئی برائی نظر نہیں آئی۔‘‘
ہر گزرتے دن کے ساتھ میں اپنے آپ کو روزی کے زیادہ قریب محسوس کرتا۔ وہ اس قسم کی لڑکی تھی جس سے ملنے اور جسے اچھی طرح جاننے کے بعد اسے پانے کیلئے دل بے قرار ہوجاتا ہے۔ اس میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جو بیشتر نوجوان اپنی ہونے والی بیوی میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
’’روزی! مجھے تم سے شدید محبت ہے۔‘‘ ایک رات میں نے اس سے کہا۔
’’مجھے بھی ہے۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے بولی۔’’کیوں نہ تم میرے ساتھ میرے گھر چلو اور میرے والدین سے ملو۔‘‘
اس کے والدین لاس اینجلس کے جنوب میں واقع ایک چھوٹے سے شہر ڈائونی میں رہتے تھے۔ ہم کار میں سڑک کے راستے وہاں
کیلئے روانہ ہوئے۔ یہ ایک لمبا سفر تھا مگر روزی کا اصرار تھا کہ ہم سڑک کے راستے چلیں۔ یہ بھی ایک ایڈونچر ہوگا۔
راستے میں ہم رات گزارنے کیلئے ایک موٹیل میں رکے اور پھر ہمارے سفر کے ایڈونچر میں ایک اور ہی موڑ آگیا۔ موٹیل میں قیام کے دوران وہ ہوگیا جس کے میں صرف خواب ہی دیکھا کرتا تھا تاہم دوسری صبح جب ہم دوبارہ سفر پر روانہ ہوئے تو مجھے اس پر بڑا پچھتاوا اور پشیمانی تھی۔ میں باربار معذرت کئے جارہا تھا۔ ندامت سے میرا عجیب حال تھا۔
تب روزی میرے کندھے پر سر رکھتے ہوئے بولی۔ ’’بس! اب معذرتیں کرنا بند کردو، میں بھی اس میں برابر کی شریک ہوں۔ اگر میری رضا شامل نہ ہوتی تو ایسا نہیں ہوسکتا تھا۔ بہرحال میں اب پریشان نہیں ہوں، ہماری شادی تو اب ہونی ہی ہے نا…؟‘‘
تب میرا احساسِ جرم ختم ہوا۔
اس کے والدین نے گرمجوشی سے ہمارا استقبال کیا۔ وہ بہت اچھے اور سادہ سے لوگ معلوم ہوتے تھے۔ روزی نے جب انہیں بتایا کہ ہم شادی کرنے والے ہیں تو وہ بہت ہی خوش اور پرجوش نظر آنے لگے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ابھی تک میں نے روزی سے شادی کی درخواست نہیں کی تھی لیکن سب نے ازخود ہی فرض کرلیا تھا کہ میں اس کے ساتھ شادی کے ارادے سے آیا ہوں۔ اس کے بعد دو دن تک گھر میں مجھے شادی کے تذکرے کے سوا کچھ سنائی نہ دیا۔ سارا پروگرام ترتیب دیا جارہا تھا، تفصیلات طے ہورہی تھیں۔ اس کا مطلب تھا کہ روزی کے والدین نے بھی مجھے پسند کرلیا تھا اور انہیں اس شادی پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔
میں کچھ غیر ارادی سے انداز میں حالات کے بہائو کے ساتھ اس موڑ تک آن پہنچا تھا لیکن اب میرے سامنے ایک بہت بڑی الجھن سر اٹھائے کھڑی تھی۔ روزی کو تو یہی معلوم تھا کہ میرا نام فرینک ولیم ہے اور میں پین ایم میں پائلٹ ہوں، میرا مستقبل روشن ہے۔ اگر ہماری شادی ہوجاتی تو میں اپنا یہ بہروپ برقرار نہیں رکھ سکتا تھا۔ شادی کے بعد میری اصل شخصیت سے پردہ اٹھنے اور میری جعلسازی کا راز کھلنے میں زیادہ عرصہ نہیں لگنا تھا۔ میرے لئے یہ تصور بھی تکلیف دہ تھا کہ روزی جیسی لڑکی میری اصلیت اور میرے جرائم سے آگاہ ہو۔
میں نے اس مسئلے پر بہت غور کیا۔ میرے لئے اس وقت سب سے بڑا سوال یہی تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے؟ میرے پاس تقریباً دو لاکھ ڈالر موجود تھے۔ شادی کے بعد میں کافی عرصہ کوئی کام کئے بغیر آرام سے گزار سکتا تھا اور روزی سے کہہ سکتا تھا کہ میں پائلٹ کے طور پر اپنا کیریئر جاری رکھنا نہیں چاہتا بلکہ ایک اسٹیشنری اسٹور کھولنا چاہتا ہوں اور یہ میری ہمیشہ سے خواہش تھی۔ پائلٹ تو میں بس یونہی عارضی شوق کے تحت بن گیا تھا۔
حقیقت میں تو مجھے اسٹیشنری اسٹور چلانے کا کوئی شوق نہیں تھا لیکن یہی ایک کام تھا جس کی مجھے تھوڑی بہت سمجھ بوجھ تھی مگر پھر مجھے اس خیال کو بھی رد کرنا پڑا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسٹور بھی مجھے فرینک ولیم کے نام سے ہی کھولنا پڑتا اور فرینک ولیم بہرحال ایک مفرور مجرم تھا، قانون اس کے تعاقب میں تھا اور جب تک وہ ہاتھ نہ آجاتا، قانون اس کا تعاقب ترک نہیں کرسکتا تھا۔
اس الجھن اور مخمصے نے میرے دماغ کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ روزی سے میری شناسائی میرے لئے زندگی کا حسین ترین تجربہ تھی اور میں اس کے ساتھ سفر پر روانہ ہوتے وقت بے پناہ خوش تھا مگر اب ساری خوشی ایک اذیت ناک کشمکش میں ڈھل گئی تھی۔ میں محسوس کرتا تھا کہ مجھے سچے دل سے روزی سے محبت ہوچکی تھی اور میں اس سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ میں اپنے ماضی سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتا تھا اور میرا ماضی جو کچھ تھا، اس کے ہوتے ہوئے میں روزی سے شادی نہیں کرسکتا تھا۔ اس مسئلے کا حل کیا ہو، یہ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا۔
روزی اور اس کے گھر والوں کے خیال میں تو بہرحال یہ بات طے ہوچکی تھی کہ میں اس سے شادی کرنے کیلئے ہی اس کے ساتھ اس کے گھر آیا تھا۔ انہوں نے اگلے ماہ میں شادی کی تاریخ طے بھی کرلی تھی اور جوش و خروش سے تیاریوں میں لگے ہوئے تھے۔ مہمانوں کی فہرست بن رہی تھی، کھانے کی تفصیلات طے ہورہی تھیں اور وہ تمام کام ہورہے تھے جو ان گھروں میں ہوتے ہیں، جہاں لڑکی کی شادی ہونے والی ہوتی ہے۔
ستم ظریفی یہ تھی کہ بیشتر تیاریوں میں، میں خود بھی حصہ لے رہا تھا، مشورے دے رہا تھا اور ظاہری طور پر اشتیاق اور خوشی بھی ظاہر کررہا تھا لیکن اندر ہی اندر میں بدستور ایک اذیت اور کشمکش میں مبتلا تھا۔ مجھے اپنے آپ پر شرم آرہی تھی اور میری اندرونی کیفیت قابل رحم تھی۔
میں نے اپنے والدین کے بارے میں روزی کے والدین کو بتایا تھا کہ وہ چھٹیاں گزارنے یورپ گئے ہوئے ہیں اور دس بارہ روز بعد واپس آنے والے ہیں۔ روزی کے والدین نے فوراً ہی کہہ دیا تھا کہ وہ ان کے آنے کے بعد ہی تمام انتظامات کو حتمی شکل دیں گے۔
’’مجھے یقین ہے تمہاری والدہ بھی ان تیاریوں میں حصہ لینا چاہیں گی ولیم…!‘‘ روزی کی والدہ نے مجھ سے کہا۔ وہ ان دنوں اسی طرح خوش نظر آرہی تھیں جس طرح کوئی بھی ایسی ماں نظر آتی ہے جس کی بیٹی کی شادی ہونے والی ہو۔
’’یقیناً … یقیناً…!‘‘ میں نے اپنے ہونٹوں پر ایک مصنوعی مسکراہٹ سجاتے ہوئے جھوٹ بولا۔ مجھے یقین تھا کہ میرا سامنا میری والدہ سے ہوجاتا تو وہ میری شادی کی تیاریوں میں حصہ لینے کے بجائے میرا گلا دبانا پسند کرتیں۔
میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں۔ میں روزی کے گھر میںگیسٹ روم میں ٹھہرا ہوا تھا۔ رات کو میں اپنے بیڈ پر لیٹا ہوتا تو مجھے ہال کے دوسری طرف کے ایک کمرے سے روزی کے والدین کی مدھم آوازیں سنائی دیتیں۔ مجھے اندازہ ہوتا کہ وہ شادی ہی کے بارے میں باتیں کررہےہوتے تھے۔ وہ بیچارے بہت خوش تھے کہ ان کی بیٹی کی شادی ایک اتنے اچھے نوجوان سے ہورہی تھی جو ہر اعتبار سے کسی بھی لڑکی کا آئیڈیل ہوسکتا تھا۔ ان کی باتیں سن کر اور ان کی کیفیت دیکھ کر اندر ہی اندر احساس ندامت اور شرمندگی سے میرا برا حال رہتا۔
ایک شام میں اور روزی الگ الگ بائیسکل پر سیر کیلئے نکلے اور کافی دیر گھومنے پھرنے کے بعد ایک پارک میں جا بیٹھے۔ روزی حسبِ معمول چہک رہی تھی۔ وہ مستقبل کے منصوبے بنا رہی تھی۔ شادی کے بعد ہم کہاں رہیں گے، ہنی مون منانے کہاں جائیں گے، ہمارے کتنے بچے ہوں گے۔
ہم ایک گھنے درخت کی چھائوں میں بیٹھے تھے۔ وہ مسلسل باتیں کئے جارہی تھی اور میں خاموشی سے اس کے چہرے کی طرف دیکھے جارہا تھا جو ایک خاص قسم کی اندرونی مسرت اور جوش سے تمتما رہا تھا۔
تب اچانک ہی میں دل ہی دل میں ایک فیصلے پر پہنچ گیا۔ میں نے سوچا کہ روزی مجھ سے اتنی محبت کرتی ہے تو وہ ضرور میرے بارے میں سچائی کو بھی برداشت کرلے گی، وہ میری مجبوریوں کو سمجھ لے گی اور مجھے معاف کردے گی۔ میرا اس کو سب کچھ سچ سچ بتا دینا ہی بہتر تھا۔ اس کے بعد ہم سر جوڑ کر بیٹھ سکتے تھے اور اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرسکتے تھے۔ مجھے اس کی جن خصوصیات کی بنا پر اس سے محبت تھی، ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اس میں بے پناہ تحمل اور قوت برداشت موجود تھی۔
وہ بدستور باتیں کئے جارہی تھی، اپنے خوابوں کو لفظوں میں ڈھالے جارہی تھی۔ اضطراری سے انداز میں اچانک میں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ جب میں بولا تو یہ محسوس کرکے مجھے خود بھی حیرت ہوئی کہ میرا لہجہ بالکل پرسکون تھا شاید اس لئے کہ ایک طویل اور تکلیف دہ کشمکش کے بعد آخرکار میں ایک فیصلے پر پہنچ گیا تھا۔
’’روزی…!‘‘ میں نے کہا۔ ’’میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں اور میری خواہش ہے کہ تم میری اندرونی کیفیات کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ اگ


تم سے بے پناہ محبت نہ ہوتی تو میں تمہیں یہ سب باتیں ہرگز نہ بتاتا جو اس وقت بتانے جارہا ہوں۔ اس سے پہلے میں نے یہ باتیں کسی کو نہیں بتائیں۔ میری شدید ترین تمنا ہے کہ ہماری شادی ہوجائے لیکن میں تم سے حقائق چھپانا نہیں چاہتا۔ میرے دل پر بہت بڑا بوجھ ہے جو میں اتار دینا چاہتا ہوں اس کے بعد فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہوگا۔‘‘
وہ قدرے حیرت سے میری طرف دیکھ رہی تھی شاید اسے ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ میں کس بات کیلئے اتنی تمہید باندھ رہا ہوں۔
آخر میں نے گویا حلق میں پھنسا ہوا کوئی گولا سا نگلا اور کہا۔ ’’روزی! میں پین ایم کا پائلٹ نہیں ہوں بلکہ میں سرےسے پائلٹ ہی نہیں ہوں۔ میری عمر بھی اٹھائیس سال نہیں ہے، میں انیس سال کا ہوں۔ میرا نام فرینک ولیم نہیں فرینک ایبگ نیل ہے۔ میں ایک جعلساز اور نوسرباز ہوں۔ میرا ذریعۂ معاش فراڈ ہے۔ میں بوگس چیک چلاتا ہوں اور پورے ملک میں پولیس کو مطلوب ہوں۔‘‘
وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ میں خاموش ہوا تو وہ بے یقینی سے بولی۔ ’’کیا تم سنجیدہ ہو؟ میری تم سے پہلی ملاقات ایئرپورٹ پر ہوئی تھی۔ تم پین ایم کےپائلٹ کی وردی میں تھے، تمہارے پاس پین ایم کا شناختی کارڈ اور ایف اے اے کا لائسنس بھی تھا۔ میں نے خود دیکھا تھا۔ پھر تم ایسی باتیں کیوں کررہے ہو ولیم…؟ تمہیں کیا ہوگیا ہے؟‘‘
پھر اس نے گویا خود ہی میری باتوں کا جواز تلاش کرلیا۔ وہ نروس سے انداز میں ہنس کر بولی۔ ’’تم یقیناً مجھ سے مذاق کررہے ہو… مجھے بے وقوف بنا رہے ہو۔‘‘
میں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔ ’’نہیں روزی! میں مذاق ہرگز نہیں کررہا اور نہ ہی تمہیں بے وقوف بنانے کی کوشش کررہا ہوں۔ میں نے جو کچھ کہا ہے، اس کا ایک ایک لفظ سچ ہے۔‘‘
پھر میں نے اسے تفصیل سے اپنی آپ بیتی سنا دی، سب کچھ سچ سچ بتا دیا۔ وہ توجہ سے سنتی رہی اور اس دوران اس کے تاثرات بدلتے رہے۔ میں تقریباً ایک گھنٹے بولتا رہا۔ کبھی اس کی آنکھیں خوف زدہ انداز میں پھیل جاتیں، کبھی اس کے چہرے پر بے یقینی نظر آنے لگتی اور کبھی وہ ترحم آمیز سی نظروں سے میری طرف دیکھنے لگتی۔
جب میں خاموش ہوا، اس وقت تک اس کی آنکھیں آنسوئوں سے دھندلا چکی تھیں۔ پھر اس نے دونوں ہاتھوں میں منہ چھپا لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اس کے پورے جسم کو جھٹکے لگ رہے تھے۔ نہ جانے کتنی دیر تک وہ روتی رہی۔ مجھے وہ لمحے بہت طویل محسوس ہوئے۔
آخرکار اس نے مجھ سے میرا رومال لیا، اپنی آنکھیں خشک کیں، چہرہ پونچھا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’آئو ولیم…! گھر چلیں۔‘‘ اس کی آواز بھرائی ہوئی مگر لہجہ سپاٹ تھا۔
’’تم چلو روزی! میں تھوڑی دیر میں آئوں گا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’میں کچھ دیر تنہا رہنا چاہتا ہوں۔ میں نے جو کچھ کہا ہے، ابھی ان میں سے کوئی بات کسی کو نہ بتانا۔ میں خود آکر تمہارے والدین کو بتائوں گا۔ مجھ سے وعدہ کرو روزی! اس وقت تک تم کسی کو کچھ نہیں بتائو گی؟‘‘
’’ٹھیک ہے… میرا وعدہ ہے۔ میں تمہارا انتظار کروں گی۔‘‘ اس نے دھیمے لہجے میں کہا اور اپنی سائیکل پر بیٹھ کر چل دی۔
وہ ایک خوبصورت، سروقد اور دلکش لڑکی تھی۔ اس کے خدوخال دور سے بھی منفرد نظر آتے تھے لیکن اس وقت جیسے اس کا وجود سکڑ سا گیا تھا اور بے شناخت ہوکر رہ گیا تھا۔
میں بہت دیر تک وہیں بیٹھا سوچتا رہا، روزی کے ردعمل پر غور کرتا رہا۔ روزی نے میرے انکشافات کے بعد زیادہ بات نہیں کی تھی۔ اس نے مجھے کوئی تسلی نہیں دی تھی، کوئی وعد نہیں کیا تھا۔ اس نے اس طرح کے مکالمے نہیں بولے تھے۔ ’’کوئی بات نہیں ولیم…! تم گھبرائو مت، سب ٹھیک ہوجائے گا… سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ ہم شادی ضرور کریں گے۔‘‘
درحقیقت مجھے اب قطعی اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا سوچ رہی تھی، اس کا ذہن کس نہج پر کام کررہا تھا۔ مجھے یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ اب میں گھر پہنچوں گا تو اس کا ردعمل کیا ہوگا؟ وہ میرے ساتھ کس طرح پیش آئے گی؟
پھر میں سوچ میں پڑ گیا کہ اس کے گھر واپس جائوں یا نہیں…! اس کے گھر پر میرے صرف چند کپڑے، شیونگ کا سامان اور ٹوتھ برش پڑا تھا۔ میں نے سان فرانسسکو میں ایک موٹیل میں کمرہ لیا ہوا تھا۔ میری پائلٹ والی وردی اور کچھ دوسری چیزیں وہیں موجود تھیں۔ میرا پائلٹ کا جعلی شناختی کارڈ اور لائسنس میری جیب میں تھا۔ روزی کو معلوم نہیں تھا کہ میں درحقیقت کہاں رہتا تھا۔ ہمیشہ میں ہی اسے فون کرتا تھا اور خود ہی اس سے ملنے جاتا تھا۔ میں نے اسے تاثر دے رکھا تھا کہ میں چند بے ہودہ قسم کے چھڑے پائلٹوں کے ساتھ رہتا ہوں اس لئے میرے ٹھکانے پر آنا یا فون کرنا مناسب نہیں تھا۔
وہ اس جواز سے مطمئن ہوگئی تھی۔ بنیادی طور پر وہ ایک سیدھی اور سچی لڑکی تھی اور دوسروں کو بھی ایسا ہی سمجھتی تھی۔ کبھی کبھی تو اس کی باتوں سے ایسا لگتا تھا جیسے اس کے خیال میں دنیا میں کوئی بھی جھوٹ نہیں بولتا خاص طور پر مجھ سے تو وہ جیسے جھوٹ کی توقع ہی نہیں رکھتی تھی۔ وہ کبھی کسی کو کریدنے کی بھی کوشش نہیں کرتی تھی۔ میں اس خصوصیت کی وجہ سے بھی اسے زیادہ پسند کرنے لگا تھا۔ اس کی موجودگی میں، میں اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرتا تھا۔ مجھے یہ خطرہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ اس کے سامنے میرا کوئی راز کھل جائے گا لیکن اس وقت میں خود کو محفوظ محسوس نہیں کررہا تھا۔ مجھے اندیشہ محسوس ہورہا تھا کہ شاید اسے اس بات کی اہمیت کا اندازہ نہ ہو کہ میں نے اسے کتنی اہمیت دی تھی اور میرے دل میں اس کی کتنی محبت موجود تھی کہ میں نے اسے اپنی زندگی کے سب سے بڑے راز سے آگاہ کردیا تھا۔ میں اس کے ساتھ مخلص تھا، اسی لئے میں نے کچھ چھپایا نہیں تھا۔
پھر میں نے اپنے ان اندیشوں کو ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کی اور خود کو اطمینان دلایا کہ روزی مجھے دھوکا نہیں دے گی، میرا ساتھ نہیں چھوڑے گی۔ میں اچھا ہوں یا برا، اس کیلئے ہر حال میں قابل قبول رہوں گا۔
پہلے میں نے سوچا کہ اسے فون کرکے جاننے کی کوشش کروں کہ جذباتی دھچکے سے گزر چکنے کے بعد وہ میرے بارے میں کیا محسوس کررہی ہے اور آئندہ زندگی کے سلسلے میں اس نے کیا سوچا ہے لیکن پھر میں نے فیصلہ کیا کہ میں ذاتی طور پر اس کے سامنے جاکر ہی اس کا فیصلہ معلوم کرنے کی کوشش کروں گا۔
میں سائیکل پر واپس روانہ ہوا اور ایک دوسری گلی سے روزی کے گھر کے قریب پہنچا۔ سائیکل میں نے کونے میں ایک دیوار کے سہارے کھڑی کردی اور آگے بڑھ کر احتیاطاً لان کی حد بندی کرنے والی باڑھ کے عقب سے روزی کے گھر کے لان اور بیرونی حصے کا جائزہ لیا۔ دوسرے ہی لمحے میرا دل ڈوب سا گیا۔
روزی کے گھر کے بیرونی حصے میں پولیس کی مخصوص رنگ کی ایک گاڑی کھڑی تھی۔ ڈرائیو وے میں ایک اور گاڑی کھڑی تھی جس پر کوئی نشان نہیں تھا اور نہ ہی اس کے رنگ مخصوص تھے مگر میرے لئے اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا کہ وہ پولیس کے سادہ لباس والے سراغرسانوں کی گاڑی تھی۔
میں نے یہ بھی دیکھ لیا کہ ایک باوردی پولیس والا ایک ستون کی آڑ میں کھڑا گلی کا جائزہ لے رہا تھا۔ میری خوش قسمتی تھی کہ میں اس طرف سے گلی میں نہیں آیا تھا جس طرف سے عام طور پر اس گلی میں رہنے والے آتے تھے ورنہ فوراً ہی اس کی نظر میں آجاتا۔
ایک لمحے کیلئے میرے دل کو جیسے کسی نے مٹھی میں لے کر بھینچ دیا۔ میری پیاری روزی نے میرا بھانڈا پھوڑ دیا تھا۔ میں نے خواہ مخواہ اس سے نہ جانے کیا کیا توقعات باندھ رکھی تھیں۔
میں باڑھ کی آڑ میں رہتے ہوئے ذرا جھک کر واپس ہوا اور سائیکل پر بیٹھ کر تیزی سے دوسری گلی کے راستے وہاں سے روانہ ہوگیا۔ سڑک پر
پہنچ کر سائیکل میں نے ایک جگہ چھوڑ دی اور ٹیکسی پکڑ کر لاس اینجلس ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہوگیا۔ آدھے گھنٹے بعد میں طیارے میں بیٹھا تھا اور سان فرانسسکو کی طرف پرواز کررہا تھا۔
پورے سفر کے دوران میرا دل ایک عجیب سے ملال کی گرفت میں رہا۔ میری کیفیت کچھ ایسی تھی جیسے میری عزیز ترین ہستی مجھے بیچ راستے میں اس وقت چھوڑ کر چلی گئی ہو جب طوفان کے آثار نمودار ہوئے ہوں یا میرے کسی عزیز ترین دوست نے سیلاب امڈتے دیکھ کر منجدھار میں میرا ساتھ چھوڑ دیا ہو۔
میری یہ کیفیت اس وقت بھی برقرار تھی۔ جب میں نے سان فرانسسکو پہنچ کر موٹیل میں اپنے کمرے سے اپنا سامان سمیٹا اور بل ادا کیا۔ اپنی کار میں بیٹھ کر میں ایک بار پھر ایئرپورٹ پہنچا اور لاس ویگاس کا ٹکٹ خرید لیا۔ اپنی کار میں نے ایئرپورٹ کی پارکنگ میں ہی چھوڑ دی، چابیاں اسی میں لگی ہوئی تھیں۔ یہ میری پہلی ایسی کار تھی جو میں نے اپنے پیسوں سے خریدی تھی اور اسے میں لاوارث چھوڑ کر جارہا تھا۔ اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ مستقبل میں، میں یہ تجربہ کئی بار دہرائوں گا۔
لاس ویگاس کی طرف سفر کے دوران میری کیفیت عجیب سی رہی۔ میں یہ فیصلہ کرنے سے قاصر تھا کہ اس کیفیت کو کیا نام دوں۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ غصہ تھا، افسردگی تھی، احساس زیاں تھا یا احساس جرم…!
لیکن جب میں لاس ویگاس کے ایئرپورٹ پر اترا تو اس نامعلوم سی کیفیت کے حصار سے نکل آیا۔ اب مجھ پر ایک اور ہی احساس کا غلبہ تھا جسے میں آسانی سے پہچان سکتا تھا۔ یہ طمانیت کا احساس تھا۔ میں کچھ ایسا محسوس کررہا تھا جیسے میرے سر سے کوئی بوجھ اتر گیا ہو۔
میں لاس ویگاس پہلی بار آیا تھا۔ اس سے پہلے میں نے اس کے صرف قصے ہی سنے تھے لیکن ان قصوں کی مدد سے میں نے اپنے ذہن میں لاس ویگاس کا جو تصور قائم کیا تھا، وہ حقیقت میں اس سے بھی بڑھ کر تھا۔
لاس ویگاس واقعی ایک عجیب اور غیر معمولی شہر تھا۔ اس شہر کی ہوا میں بجلی دوڑتی تھی۔ سچ مچ ایسا لگتا تھا جیسے اس شہر کی فضا میں برقی رو موجود ہے جو وہاں موجود انسانوں کی رگ و پے میں سرایت کرجاتی تھی۔ ہر شخص ایک عجیب ہیجان اور اضطراب میں مبتلا تھا۔
شہر میں مستقل رہنے والے اور باہر سے آنے والے سبھی، کچھ اس طرح پرجوش اور ہیجان زدہ نظر آتے تھے جیسے انہیں کسی انجانی، انہونی سی بات کی توقع ہو۔ سب لوگ تیزی سے ادھر ادھر آتے جاتے اور تیزی سے بات کرتے دکھائی دیتے تھے جیسے بہت عجلت میں ہوں، جیسے انہیں جلدی کہیں پہنچنا ہو۔ نیویارک اس کے مقابلے میں کافی پرسکون شہر دکھائی دیتا تھا۔
میں نے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے اس بارے میں بات کی تو وہ بولا۔ ’’یہ اصل میں جوئے کا بخار ہے۔ یہاں موجود ہر شخص کو جوئے کا بخار چڑھا رہتا ہے ۔خاص طور پر باہر سے آنے والے تو اسی بخار میں مبتلا ہوتے ہیں۔ وہی زیادہ ہیجان زدہ دکھائی دیتے ہیں۔ وہ بڑے بڑے جہازوں میں بیٹھ کر جیبیں بھر کر اپنا سرمایہ دگنا، چار گنا کرنے کے ارادے سے یہاں آتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کے پاس واپسی کا کرایہ بھی نہیں بچتا۔ وہ لفٹ لے لے کر بڑی مشکلوں سے گھر واپس پہنچتے ہیں۔ فائدے میں صرف وہ نائب کلب اور کیسینوز رہتے ہیں جو اپنے ہاں جوا کھلاتے ہیں، باقی سب نقصان میں رہتے ہیں۔ اگر تم بھی یہاں جوا کھیلنے کے ارادے سے آئے ہو تو میرا دوستانہ مشورہ ہے کہ یہ خیال دل سے نکال دو اور صرف لڑکیوں سے دل بہلائو، لڑکیاں تمہیں یہاں بہت بھوکی ملیں گی۔‘‘
میں نے ایک موٹیل میں سوئٹ لیا اور دو ہفتے کا کرایہ پیشگی ادا کیا۔ کرایہ ادا کرنے کیلئے میں نے سو ڈالر کے نوٹوں کی گڈی نکالی تب بھی استقبالیہ کلرک مرعوب نہیں ہوا۔ جلد ہی مجھے اندازہ ہوگیا کہ لاس ویگاس میں سو ڈالر کی گڈی کی وہی حیثیت تھی جو کسی افریقی شہر میں ریزگاری کی۔
میرا ارادہ لاس ویگاس میں صرف آرام کرنے اور مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کا تھا۔ میں نے ٹیکسی ڈرائیور کی نصیحت گرہ میں باندھ لی تھی اور صرف لڑکیوں کی طرف توجہ دی تھی۔ اس نے جب کہا تھا کہ لڑکیاں یہاں بہت بھوکی ملیں گی تو میں اس کا مطلب کچھ اور سمجھا تھا لیکن جب مجھے لڑکیوں سے واسطہ پڑا تو پتا چلا کہ وہ سچ مچ بھوکی ہوتی تھیں۔ کھانے کی بھوکی…!
بعض تو واقعی فاقہ زدہ ہوتی تھیں۔ ایک ہفتہ اس قسم کی لڑکیوں کے ساتھ گزارنے کے بعد میں خود کو کسی رفاہی ادارے کا کارکن محسوس کرنے لگا جس کا کام شہر بھر کی بھوکی لڑکیوں کا پیٹ بھرنا تھا تاہم اس کام میں، میں نقصان میں ہرگز نہیں رہا۔ دنیا کے بیشتر مذاہب بھوکوں کو کھانا کھلانے پر زور دیتے ہیں۔ اب خواہ کوئی مذہب کی روشنی میں سوچتا ہو یا مجھ جیسا گناہگار دنیادار ہو لیکن میرا خیال ہے بھوکوں کو کھانا کھلا کر کوئی بھی نقصان میں نہیں رہتا۔
ایک روز میں سوئمنگ پول کے کنارے ایک فاقہ زدہ لڑکی کو کھانا کھلا رہا تھا۔ لاس ویگاس میں اکثر قمار خانوں میں دوپہر کا کھانا مفت ملتا ہے۔ تین دن سے وہ لڑکی اسی پر گزارہ کررہی تھی۔ اس دوران وہ اپنے بھائی سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتی رہی تھی تاکہ وہ اسے گھر واپس آنے کیلئے بس کا کرایہ بھیج سکے۔ اس کا بھائی فینکس میں رہتا تھا مگر وہ اس سے رابطہ نہیں کر پا رہی تھی۔
’’میں نے سب کچھ جوئے میں ہار دیا۔‘‘ وہ ایک بڑی سی چانپ چباتے ہوئے بولی۔ ’’پہلے میں نے وہ ساری رقم ہاری جو میں ساتھ لے کر آئی تھی پھر میں نے اپنے اکائونٹ میں موجود رقم یہاں ٹرانسفر کرائی، وہ بھی میں ہار گئی۔ پھر میں نے وہ دوچار زیور بھی اونے پونے داموں بیچ دیئے جو میرے پاس موجود تھے۔ ان سے حاصل ہونے والی رقم بھی میں ہار گئی حتیٰ کہ میں نے اپنا واپسی کا ہوائی جہاز کا ٹکٹ بھی کچھ رقم کٹوا کر واپس کرکے باقی رقم لے لی اور وہ بھی جوئے میں ہار دی۔ شکر ہے میں نے موٹیل کے کمرے کا کرایہ پیشگی ادا کردیا تھا ورنہ شاید آج کل میں بعض عمارتوں کی لابی میں کائوچ پر سو رہی ہوتی۔‘‘
’’مسلسل ہارنے کے باوجود تم کیوں کھیلتی رہیں؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’جیتنے کی امید پر…!‘‘ اس نے ٹھنڈی سانس لے کر جواب دیا۔ ’’ہر جواری ہر نیا دائو جیتنے ہی کی امید پر لگاتا ہے اور جتنا وہ ہارتا جاتا ہے، اتنا ہی اس دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ ہارنے کے بعد تو یہ احساس اور بھی زیادہ شدت کے ساتھ ذہن سے چمٹ جاتا ہے کہ شاید اگلے دائو میں پچھلا نقصان بھی پورا ہوجائے اور اسی ’’شاید‘‘ کے سہارے انسان تباہی کے کنویں میں گہرائی کی طرف سفر کرتا چلا جاتا ہے۔‘‘ پھر وہ دانت پیس کر بولی۔ ’’خیر…! میرے ساتھ جو ہوا، ٹھیک ہی ہوا۔ میرے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔ ذرا دیکھو تو سہی مجھے جوا کھیلنا آتا بھی نہیں تھا اور نہ ہی میں یہاں جوا کھیلنے کے ارادے سے آئی تھی مگر اس شہر کی فضا میں کوئی بات ہے۔ جوئے کا شوق یہاں کسی بیماری کے جراثیم کی طرح انسان پر حملہ آور ہوتا ہے اور اسے بے بس کردیتا ہے۔‘‘ پھر اس نے ٹٹولنے والی نظروں سے میری طرف دیکھا اور بولی۔ ’’امید ہے تم مجھے یہ کھانا صرف جذبۂ ہمدردی کے تحت کھلا رہے ہوگے ورنہ تمہیں معلوم ہی ہوگا کہ ایک لڑکی اگر چاہے تو اس طرح کے شہروں میں سب کچھ حاصل کرسکتی ہے لیکن میں تمہیں بتا دوں کہ میں اس قسم کی لڑکی نہیں ہوں۔‘‘
میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’اطمینان رکھو، میں بھی لڑکیوں کی مجبوریوںسے فائدہ اٹھانے والا آدمی نہیں ہوں۔ کیا تم فینکس واپس پہنچ کر کوئی ملازمت کرو گی؟‘‘
’’ملازمت تو میں پہلے ہی کررہی ہوں۔ ڈیوٹی پر پہنچنے کیلئے ہی تو میں اپنے بھائی سے رابطہ کرنے کی کوشش کررہی ہوں۔ اگر پیر تک میں ملازمت پر


پہنچی تو میری ملازمت ختم ہوجائے گی۔‘‘ اس نے بتایا۔
’’تم کیا کرتی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔ میرا اندازہ تھا کہ وہ کسی دفتر میں سیکرٹری ہوگی۔
’’میں کمرشل آرٹسٹ ہوں، ایک فرم میں ڈیزائنر ہوں جو بینکوں کیلئے چیک وغیرہ چھاپتی ہے۔ چھوٹی سی فرم ہے لیکن اس کے پاس دو بڑے بینکوں اور کئی کمپنیوں کا کام ہے۔‘‘
اب تو میرے کان کھڑے ہوگئے۔ میں نے معصوم بن کر اس سے معلومات حاصل کرنا شروع کیں کہ چیک کس طرح چھاپے جاتے ہیں؟ اس نے نہایت اطمینان سے مجھے تفصیل سے سب کچھ سمجھانا شروع کردیا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ یہ کوئی اتنا مشکل کام نہیں تھا۔ اس کیلئے صرف ایک ’’آئی ٹیک‘‘ کیمرہ اور چھوٹا سا ایک پریس درکار تھا جو درمیانے سائز کی ایک میز جتنی جگہ میں فٹ ہوجاتا تھا۔ چھوٹی موٹی چند دوسری چیزوں کی ضرورت پڑتی تھی۔ مجھے اندازہ ہوا کہ یہ سب چیزیں اگر تھوڑی سی استعمال شدہ خریدی جائیں تو کچھ زیادہ مہنگی نہیں آئیں گی۔
اس لڑکی کا نام پکسی تھا۔ جب میں اس سے اچھی طرح تمام معلومات حاصل کرچکا تو اس معاملے میں اپنے آپ کو اچھا خاصا تربیت یافتہ محسوس کررہا تھا۔
میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا۔ ’’پکسی! اگر میں تمہیں آج رات ہی ہوائی جہاز کے ذریعے گھر بھجوا دوں تو کیسا رہے گا؟‘‘
’’تم مذاق کررہے ہو!‘‘ اس نے شک زدہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔
’’ہرگز نہیں!‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’’میں پین ایم کا پائلٹ ہوں لیکن یہاں ہماری ایئرلائن کی سروس دستیاب نہیں ہے ورنہ میں تمہیں مفت میں ہی بھجوا دیتا۔ بہرحال دوسری ایئرلائنز میں بھی ہمیں کچھ مراعات حاصل ہوتی ہیں۔ تم فکر مت کرو، میں تمہیں بھجوا دوں گا۔ تم اپنا سامان پیک کرو۔‘‘
وہ اسی موٹیل میں ٹھہری ہوئی تھی۔ جب وہ اپنا سامان پیک کررہی تھی تو میں نے اسے سو ڈالر بھی تھما دیئے۔ وہ کچھ ہچکچائی تو میں نے کہا۔ ’’یہ سب میں قرض کے طور پر دے رہا ہوں۔ زندگی میں کبھی دوبارہ ملاقات ہوئی تو لوٹا دینا۔‘‘
تب وہ مطمئن ہوگئی۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ اس نے مجھے ایک خزانے کا راستہ دکھا دیا تھا۔ اگر میں اس پر تھوڑا بہت خرچ کردیتا تو کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ میں نے اس کیلئے نقد ادائیگی کرکے ٹکٹ خریدا اور اسے فینکس جانے والے جہاز میں بٹھا دیا۔ وہ بے پناہ خوش تھی، باربار میرا شکریہ ادا کرہی تھی۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ میں اس سے زیادہ خوش تھا۔
دوسرے روز میں نے پرنٹنگ کا ایک چھوٹا سا سیٹ اَپ لگانے کے سلسلے میں مختصر سی ایک کہانی گھڑی اور اپنی مطلوبہ چیزوں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔
دونوں چیزوں کیلئے مجھے کچھ تلاش اور بھاگ دوڑ تو کرنا پڑی لیکن یہ کوشش بہت سودمند رہی۔ دونوں چیزیں نہایت معمولی استعمال شدہ حالت میں نہایت مناسب قیمت پر مل گئیں۔ دونوں بڑی چیزیں تقریباً نئی تھیں اور بیچنے والا ضرورت مند تھا۔ باتوں باتوں میں اس نے میری اچھی خاصی تربیت بھی کردی۔ کل آٹھ ہزار ڈالر میں مجھے اپنی ضرورت کا سارا سامان مل گیا۔
اس سامان سے جو کچھ میں کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، اس کے مقابلے میں یہ قیمت کچھ بھی نہیں تھی۔ کیمرہ اور پریس کی مشین زیادہ بڑی نہیں تھی لیکن ایسی بھی نہیں تھی کہ میں اسے سامان کے ساتھ ملک بھر میں اٹھائے پھرتا مگر میں اس لئے مطمئن تھا کہ میرا ان دونوں چیزوں کو زیادہ عرصے اپنے پاس رکھنے کا ارادہ نہیں تھا۔
میں نے ایک بڑے گودام میں چھوٹا سا ایک کیبن ایک ماہ کیلئےکرائے پر لے لیا۔ روشنی کا وہاں معقول انتظام تھا۔ کوئی مشین استعمال کرنے کیلئے بجلی کا بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
دوسرے روز سے میں اپنے کام میں جت گیا ۔میں نے اب وہ چیک تیار کرنے کیلئے کمر باندھی تھی جو پین ایم اپنے ملازموں کو اخراجات کیلئے دیتی تھی۔ ان پر پین ایم کا اپنا مونوگرام ہوتا تھا اور انہیں کہیں بھی کیش کرایا جاسکتا تھا۔ ان چیکوں کی تیاری کے سلسلے میں، میں نے بہت محنت کی لیکن نتیجہ دیکھ کر میری ساری تھکن دور ہوگئی۔ اپنی کاریگری پر میں خود کو داد دیئے بغیر نہ رہ سکا۔
تیسرے روز میں ان چیکوں کی ایک گڈی جیب میں رکھ کر اپنے موٹیل کے کمرے سے نکلا۔ میں اپنی پین ایم والی یونیفارم میں تھا۔ میں لاس ویگاس سے اپنا خراج وصول کرنے کی مہم پر روانہ ہوگیا۔
یہ مہم نہایت آسان ثابت ہوئی۔ کوئی گوالا اپنی گائے کا دودھ بھی اتنی آسانی سے نہیں دوہتا ہوگا، جتنی آسانی سے میں نے لاس ویگاس کے قمار خانوں، نائٹ کلبوں، ہوٹلوں اور شراب خانوں کو نچوڑ ڈالا۔ کسی بھی جگہ کیشیئر نے میرا چیک کیش کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔
اپنے آپ کو صحیح گاہک ظاہر کرنے کیلئے میں جوا خانوں میں پورا کیش نہیں مانگتا تھا بلکہ سو پچاس ڈالر کے چپس مانگ لیتا تھا جو جوئے میں رقم کی جگہ استعمال ہوتے ہیں، باقی رقم میں نقد طلب کرتا تھا۔ دکھاوے کیلئے میں پندرہ بیس منٹ اس کیسینو یا کلب میں رک بھی جاتا، ایک آدھ بازی کھیل بھی لیتا۔ اکثر میں وہ جیت بھی جاتا۔ جاتے وقت میں دوسری کھڑکی سے اپنے چپس بھی کیش کرا لیتا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ میں سوچے سمجھے بغیر کھیلنے کے باوجود جوئے میں بھی مجموعی طور پر اکیس سو ڈالر جیت گیا۔ مجموعی طور پر میں نے لاس ویگاس سے خراج کے طور پر پون لاکھ ڈالر وصول کئے۔ وہاں گروسری اسٹورز میں بھی جوئے کی مشینیں لگی ہوئی تھیں۔ میں نے ان سے بھی استفادہ کیا۔ اچھی طرح شہر کی حجامت بنانے کے بعد میں نے ایک کار کرائے پر لی، موٹیل کا کمرہ چھوڑا اور آگے روانہ ہوگیا۔ اپنا کیمرہ اور چھوٹا سا پرنٹنگ پریس بھی میں نے وہیں چھوڑ دیا۔
اس کے بعد میرے دو تین ماہ مسلسل آوارہ گردی میں گزرے۔ کبھی دوچار دن کیلئے کہیں رک جاتا، کہیں ہاتھ مارتا اور آگے روانہ ہوجاتا۔ میں کوشش کررہا تھا کہ اپنے تعاقب میں آنے والوں کیلئے زیادہ واضح سراغ نہ چھوڑوں۔ اس آوارہ گردی کے دوران بھی میں نے خاصی رقم سمیٹ لی۔
آخرکار میں شکاگو جا پہنچا لیکن وہاں پہنچنے سے پہلے میں نے کرائے کی کیڈلک ایک جگہ چھوڑ دی تھی۔ میں کچھ عرصہ شکاگو میں روپوش رہ کر اپنے مستقبل کے بارے میں غوروخوض کرنا چاہتا تھا۔ میں فیصلہ کرنا چاہ رہا تھا کہ مستقبل میں زیادہ عرصہ کہاں گزاروں۔ ایک بار پھر میں ملک سے فرار کے بارے میں بھی سوچ رہا تھا۔
مجھے فوری طور پر پکڑے جانے کا خطرہ محسوس نہیں ہورہا تھا لیکن یہ اندازہ ضرور تھا کہ اگر میں امریکا ہی میں رہتے ہوئے اپنی ڈگر پر چلتا رہا تو جلد یا بدیر بہرحال پکڑا جائوں گا۔ دوسری طرف میں جب بھی ملک سے فرار کے بارے میں سوچتا تو پاسپورٹ کا مسئلہ میرے سامنے آن کھڑا ہوتا تھا۔
میرے لئے پاسپورٹ حاصل کرنا آسان نہیں تھا۔ میں اپنے نام سے پاسپورٹ کیلئے درخواست نہیں دے سکتا تھا خصوصاً روزی کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھنے اور اپنی ساری رام کہانی سنانے کے بعد میرے لئے یہ کام تقریباً ناممکن ہوگیا تھا۔ اب تک پولیس یقیناً یہ نتیجہ اخذ کرچکی تھی کہ فرینک ولیم، فرینک ایڈم اور فرینک ایبگ نیل درحقیقت ایک ہی شخص کے تین نام ہیں۔ شکاگو میں اپنا ٹھکانہ بنانے کے دوران میں اسی مسئلے پر سوچ بچار کرتا رہا۔ جلد ہی مجھے معلوم ہوا کہ میرے پاس سوچ بچار کیلئے زیادہ وقت نہیں تھا۔
میں نے ساحلی علاقے میں ایک اچھا اپارٹمنٹ کرائے پر لیا تھا، اس مقصد کیلئے میں نے اپنا نام فرینک ولیم ہی استعمال کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے پاس ذاتی چیکوں کا ذخیرہ ختم ہوگیا تھا اور نئے ذاتی چیک حاصل کرنے کیلئے میرا یہاں بینک اکائونٹ کھلوانے کا ارادہ تھا۔
مجھے تجربہ ہوا تھا کہ
اور موٹیل اپنے بل کی ادائیگی کے سلسلے میں یا ویسے بھی سودو سو ڈالر تک کے ذاتی چیک تو کیش کردیتے تھے لیکن کمپنی کے چیک کیش نہیں کرتے تھے جبکہ میں کوشش کرتا تھا کہ چھوٹی موٹی ادائیگیاں بھی چیک سے ہی ہوتی رہیں اور کیش کو ہر ممکن حد تک بچا کر رکھا جائے۔
یہاں میں نے فرینک ولیم کے نام سے اکائونٹ کھلوایا اور اپنے آپ کو پین ایم کا پائلٹ ہی ظاہر کیا۔ اپنے چیک منگوانے کیلئے میں نے نیویارک کی ایک فرم کا ایڈریس دیا جو آپ کی ڈاک وصول کرکے آپ کو وہاں روانہ کرتی تھی جہاں آپ اس وقت موجود ہوتے تھے۔ یوں میں نے اپنے سراغ کو ذرا پیچیدہ بنانے کی ایک کوشش کی۔ بینک والوں نے فوری اور عارضی استعمال کیلئے مجھے چند چیک دے دیئے اور بتایا کہ ایک ہفتے کے اندر اندر مجھے دو سو چیک ڈاک کے ذریعے مل جائیں گے۔
میں بتا چکا ہوں کہ قوت ِمشاہدہ ایک جعلساز اور نوسرباز کا اہم سرمایہ ہوتی ہے۔ میں بینک گیا تھا تو میری قوتِ مشاہدہ نے خاص طور پر مجھے ایک نہایت خوبصورت کیشیئر لڑکی کی طرف متوجہ کردیا تھا۔
جب اگلے دو تین دنوں کے دوران باربار اس لڑکی کی تصویر میرے ذہن کے پردے پر نمودار ہوتی رہی تو میں ایک بار پھر بینک چلا گیا۔ میں ایک کائونٹر سے یونہی ایک ڈپازٹ سلپ اٹھا کر اسے پرُ کرنےلگا۔ کائونٹر پر ایسی اور دوسری کئی طرح کی سلیپس اور فارم کافی تعداد میں رکھے ہوئے تھے۔ میں جب یہ سلپ پرُ کررہا تھا تو میری قوتِ مشاہدہ نے مجھے ایک اور چیز کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور کردیا جو میرے خیال میں زیادہ اہم تھی۔
میں نے دیکھا، اس سلپ میں چھوٹا سا ایک مستطیل خانہ اکائونٹ نمبر کیلئے بھی بنا ہوا تھا۔ (جاری ہے)

Latest Posts

Related POSTS