والد اور چچا کی شادی ایک ہی دن دو سگی بہنوں سے ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ابو امی کو شادی کے تین برس بعد دو جڑواں بیٹیوں سے نواز دیا لیکن چچا اور خالہ اس نعمت سے محروم رہے۔ ایک ہی گھر میں رہنے کی وجہ سے خالہ نے میری جڑواں بہن کو گود لے لیا کیونکہ امی جان کا دو بچیوں کو بہ یک وقت سنبھالنا محال تھا۔ یوں میں امی اور مائرہ خالہ کی بیٹی کہلانے لگی۔
جب ہم بڑی ہوگئیں تو یہی بتایا گیا کہ مائرہ میری چچازاد ہے۔ وہ میری حقیقی بہن نہیں ہے لیکن ہم میں پیار حقیقی بہنوں جیسا تھا۔ ہماری صورتیں ایک دوسرے سے اس قدر ملتی تھیں کہ اسکول میں ٹیچر کے لیے یہ پہچاننا مشکل ہوجاتا کہ ہم میں سے کون سی مائرہ ہے اور کون سی سائرہ ۔ یونی فارم بھی ایک جیسا تھا اور کلاس بھی ایک تھی لہٰذا پہچان کے لیے میں بالوں میں سرخ اور مائرہ سبز ربن باندھتی تھی تاکہ شناخت میں آسانی ہو۔
خالہ کو مکان چھوٹا پڑنے لگا تو چچا نے نیا گھر خرید لیا اور وہ نئے گھر میں منتقل ہوگئے۔ امی ابو کے پانچ بچے ہوگئے تھے لیکن خالہ ابھی تک اولاد کی نعمت سے محروم تھیں۔ وہ مائرہ کو ہی اپنی زندگی کا سرمایہ سمجھتی تھیں لہٰذا جب وہ نئے مکان میں شفٹ ہونے لگے تو مائرہ وہاں جانے پر راضی نہ تھی۔ اس نے رو رو کر برا حال کرلیا۔ حالانکہ ان کی رہائش گاہ ہمارے گھر سے زیادہ دور نہ تھی۔ مجھے یاد ہے کہ جب مائرہ نئے مکان میں چلی گئی تو وہ وہاں اداس رہنے لگی۔ اس کا دل گھر میں نہ لگتا۔ اسے ہم بہنوں کے درمیان رہنے کی عادت تھی۔
اب ہم علیحدہ گھروں سے اسکول پہنچتے لیکن چھٹی کے بعد وہ میرے ساتھ ہمارے گھر آجاتی، شام تک رہتی۔ پھر چچا جان آکر لے جاتے۔ نئے گھر میں جاکر مائرہ کو ہمارے بنا چین نہ ملا۔ اس کا آنا جانا لگا رہا۔ ایک دن اتوار کو اس نے صبح ہی میرے پاس آنے کی ٹھان لی۔ خالہ سے کہا امی ہم نے اکٹھے ہوم ورک کرنا ہے مجھے سائرہ کے گھر جانے دیجئے۔ وہ بولیں تمہارے ابو حیدرآباد گئے ہوئے ہیں، تم اکیلی کیسے جائو گی۔ میری کمر میں درد ہے۔ میں بھی نہیں جاسکتی۔ وہ بولی آپ نہیں جاسکتیں تو میں اکیلی چلی جاتی ہوں۔ قریب ہی تو تایا ابو کا مکان ہے۔ آپ کھڑکی سے دیکھتی رہیے گا۔ زچ آکر خالہ نے اجازت دے دی۔ یوں پہلی بار وہ اکیلی ہمارے گھر آگئی۔
اس کے بعد اس کا معمول ہوگیا۔ جب جی چاہتا میدان پار کرکے ہمارے گھر آجاتی۔ اس کے گھر سے تھوڑا سا آگے چھوٹی سی اسٹیشنری کی دکان تھی جہاں سے وہ رسالے، کاپیاں، پینسلیں وغیرہ لیا کرتی۔ کبھی مجھے کوئی رسالہ منگوانا ہوتا تو ایک دن پہلے اسے بتادیتی تھی کہ جب آئو لیتی آنا۔
یہ دکان راستے میں پڑتی تھی۔ آئے دن ضرورت کی چیزیں لینے وہاں پہنچ جاتی۔ اس طرح وہ ایک لڑکے کی نظروں میں آگئی جو اکثر وہاں بیٹھا ہوتا تھا۔ ان دنوں ہم نویں میں پڑھتی تھیں۔ ایک روز وہ آئی تو بولی… سائرہ ایک بات کہنی ہے۔ اگر مجھے کچھ ہو جائے تو میری ماں کی بیٹی بن جانا۔ انہی کے پاس رہنا۔ کیا بکواس ہے۔ میں نے کہا۔ تمہیں کچھ نہیں ہونے لگا۔ پھر مجھے ایسا وعدہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ وعدہ کرو نا۔ وہ مجھے کچھ اداس سی لگی اور میں سوچ میں پڑگئی۔ نجانے اسے ایسا خیال کیوں آیا ہے۔ میں نے اس کا دل رکھنے کے لیے وعدہ کرلیا۔ اس واقعے کے ایک ماہ بعد ایسا ہوا کہ جس کا کسی کو گمان بھی نہیں تھا۔
یہ جمعہ کا دن تھا۔ چچا دکان پر تھے اور خالہ جی گھر میں کام کاج میں مصروف تھیں۔ مائرہ آج اسکول نہ آئی۔ ہماری چھٹی جمعہ کے دن جلد ہو جاتی تھی۔ اس نے خالہ سےکہا۔ امی مجھے سائرہ کے پاس جانا ہے۔ اسکول کا کام پوچھنا ہے۔ وہ جانتی تھیں کہ یہ لڑکی رکنے والی ہےنہیں۔ انہوں نے کہا، ٹھیک ہے، دھیان سے جانا۔ تمہارا یہ روز روز اکیلے جانا مجھے ڈرائے رکھتا ہے، اللہ تمہاری حفاظت کرے۔
اس سہ پہر ہم سب چائے پی رہے تھے کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ والد صاحب گھر پر تھے۔ وہ جمعہ کی نماز پڑھ کر ابھی گھر آئے تھے۔ انہوں نے فون اٹھالیا۔ چچا جان کہہ رہے تھے کہ میں دکان سے روانہ ہوگیا ہوں۔ کسی نے فون کیا ہے کہ کوئی سانحہ ہوا ہے۔ گھر جلدی پہنچو۔ بھائی صاحب آپ بھی فوراً میرے گھر آجائیں۔ فون سن کر والد صاحب سکتے میں آگئے۔ انہوں نےفوراً گاڑی نکالی اور مجھے ساتھ بٹھایا اور چچا کے گھر آئے۔
دروازے پر لوگ جمع تھے۔ پولیس بھی موجود تھی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہوا ہے۔ کس نے ہجوم میں رستہ بنایا۔ امی اور مجھے گھر کے اندر لے گئے۔ خالہ بیہوش پڑی تھیں۔ ان کے پاس کچھ پڑوسی عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں جو ان کے ہاتھ پائوں سہلا رہی تھیں۔ والد صاحب باہر ہی رک گئے تھے۔ نماز جمعہ کے وقت ضد کرکے مائرہ گھر سے نکلی تھی۔ اس وقت میدان بالکل سنسان تھا۔ علاقے کے مکین جمعہ کی نماز کی خاطر مسجد میں مصروف عبادت تھے۔ جب وہ میدان میں موجود خود رو جھاڑیوں کے پاس سے گزر کر سڑک کی سمت جارہی تھی تو جھاڑیوں کی آڑ میں کسی نے اس کے ساتھ دست درازی کی کوشش کی۔ جب اس نے مزاحمت کی تو اس کا گلا دبا دیا۔
جب وہ اسے گھسیٹ رہے تھے تو مائرہ کا دوپٹہ باہر والی جھاڑی میں الجھ کر وہاں رہ گیا تھا۔ شام سے ذرا پہلے کسی کا ادھر سے گزر ہوا ۔ اس نے دوپٹہ دیکھا تو نزدیک جاکر جھاڑی میں جھانکا۔ اسے وہاں مائرہ اوندھے منہ گری نظر آئی جس کا لباس پھٹ گیا تھا۔ اس شخص نے پولیس کو اطلاع کی۔ یوں پولیس وہاں پہنچ گئی۔ اسی شخص نے رہنمائی کی کہ یہ لڑکی اکثر اسٹیشنری کی دکان کے سامنے سے گزرتی تھی۔ کبھی کبھی دکان سے خریداری بھی کرتی تھی اور یہ فلاں صاحب کی بیٹی ہے۔
اطلاع دینے والے شخص کا نام واجد تھا جس کی چچا سے دعا سلام تھی۔ یہ کتابوں کی دکان میں سیلزمین کے طور پر ملازم تھا اور چچا کا پڑوسی بھی تھا۔ اسی نے ان کا نمبر پولیس کو دیا۔ یوں انہوں نے فون کرکے اطلاع کردی۔
خالہ کا یہ حال کہ ہوش آیا تو پتھر کی مورت بن گئیں۔ ہم بھی کافی دنوں تک صدمے سے نڈھال رہے تھے۔ ہم خالہ کو گھر لے آئے کہ اب وہ اکیلے وہاں رہنے کے قابل نہ رہی تھیں۔ ڈیڑھ ماہ بعد جب اپنے گھر جانے لگیں، امی نے مجھے یہ کہہ کر ساتھ کردیا کہ کچھ دن تم ان کے پاس رہوگی۔ ورنہ وہ مائرہ کے لیے رو رو کر جان دے دیں گی۔ تبھی مجھے مائرہ کا کہا یاد آیا وعدہ کرو اگر مجھے کچھ ہوگیا تو تم امی کے پاس رہوگی۔ گویا کوئی اس کے پیچھے لگا ہوا تھا۔ اسے خدشہ تھا کہ کچھ ہونے والا ہے۔ تاہم نادان نے مزید کچھ نہ بتایا کہیں اس کا ہمارے یہاں آنا روک دیا جائے۔
مائرہ کو شروع سے ہی خود پر اعتماد تھا۔ وہ ایک نڈر لڑکی تھی مگر تھی تو لڑکی، جو معاشرے میں ایک کمزور ہستی گردانی جاتی ہے۔ وہ اپنی ہر بات مجھے بتادیا کرتی تھی۔ صد افسوس کہ اپنے اس خوف سے آگاہ نہ کیا جو آخری وقت اس کے دل میں تھا۔ ورنہ وہ یہ کیوں کہتی کہ ’’اگر مجھے کچھ ہو جائے۔‘‘ یہ بات آج تک میں سوچتی ہوں تو افسوس کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب جاتی ہوں۔ بہرحال وہ سفاک انسان گرفتار نہ ہوسکا کہ جس نے مائرہ پر ایسا ظلم ڈھایا تھا… کہ ایک پھول جیسی کم سن لڑکی کو ہلاک کردیا تھا۔ پولیس باوجود کوشش کے قاتل کا سراغ نہ لگاسکی۔ یہاں تک کہ دو ماہ گزر گئے۔
میں ابھی تک خالہ کے پاس تھی۔ مجھے مائرہ کے اس دنیا سے چلے جانے کا اس قدر ملال تھا جیسے میری روح نکل گئی ہو۔ جانتی تھی کہ وہ خالہ کی لے پالک مگر میری سگی بہن ہے۔ میری ہم شکل اور ہم اس دنیا میں اکٹھی آئی تھیں۔ اے کاش اکٹھی ہی اس دنیا سے جاتیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی مرضی اور مصلحت کہ وہ چلی گئی لیکن میں ابھی زندہ تھی۔
وقت ہر زخم مندمل کردیتا ہے، لیکن دکھ کے دنوں میں وقت بھی دھیرے دھیرے انسان کے وجود پر اپنے بھاری قدموں سے چلتا ہوا گزرتا ہے۔ خالہ کی لے پالک ضرور تھی مگر مائرہ کو انہوں نے اس کے جنم دن سے گود لیا تھا۔ وہ اسے سگی اولاد جیسا ہی سمجھتی تھیں۔ اس کی ہر فرمائش پوری کرتی تھیں۔ تبھی تو وہ اتنی لاڈلی اور ضدی ہوگئی تھی۔ جب تک اپنی بات نہ منوالیتی آرام سے نہیں بیٹھتی تھی۔
پولیس کسی حال میں میرے چچا اور ان کی بیوی کے دکھ کا مداوانہ کرسکی۔ یہ دکھ اس وقت سوا ہوجاتا ہے جب قاتل گرفتار نہ ہو، اس کا سراغ بھی نہ ملے۔
ایک دن میں نے اخبار میں ایک مضمون پڑھا، جس میں جرم کا سراغ اور پولیس کے کردار کے بارے میں لکھا گیا تھا۔ لکھا تھا کہ ’’ہمارے یہاں برسوں سے پولیس کا یہی طریقۂ کار چلا آرہا ہے کہ مشتبہ لوگوں کو پکڑا، مارپیٹ کی۔ اس طرح اصل مجرم ہاتھ آگیا تو ٹھیک ورنہ کسی بے گناہ کو پھنسادیا۔ بیرون ملک دیگر طریقے بھی مجرم تک پہنچنے کے لیے بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ وہاں ایک بہت پرانا خیال یہ بھی ہے کہ قاتل جائے واردات کے آس پاس بھٹکتا رہتاہے۔‘‘ یہ پڑھ کر میرے ذہن میں آیا ہوسکتا ہے کہ مائرہ کا قاتل بھی آس پاس موجود ہو۔
میری صورت مائرہ سے ہوبہو ملتی تھی۔ اگر اس کے کپڑے پہن کر اس راستے سے گزروں جس سے گزر کر وہ روز ہمارے گھر آتی تھی تو یقیناً قاتل مجھے دیکھ کر ضرور چونک جائے گا۔ ایسے میں وہ یقیناً خود پرقابو نہ رکھ سکے گا۔ اپنا یہ خیال میں کسی سے شیئر بھی نہیں کرسکتی تھی لیکن جب رات کو مائرہ کے پلنگ پر سونے کے لیے لیٹتی تو یہ خیال تنگ کرنے لگتا کہ اگر اس کا قاتل اسی علاقے میں ہے تو ایک دن مجھے دیکھ کر ضرور بے اختیار میری جانب آئے گا، تبھی وہ پکڑا جائے گا۔
ایک دن میں نے یہ خیال اپنے ابو پر ظاہر کردیا اور وہ مضمون بھی انہیں پڑھوا دیا۔ وہ سوچ میں پڑگئے اور پھر پولیس انسپکٹر پر اس خیال کو ظاہر کیا تو وہ متفق ہوکر بولا۔ یہ ممکن ہے، ایسا ہوسکتا ہے۔ اگر آپ ساتھ دیں تو ہم یہ آخری کوشش کرتے ہیں۔ آپ کی ہم شکل بچی مائرہ کے روپ میں وہاں سے گزرے گی، ہم اس کی نگرانی کریں گے اور آپ کو یقین دلاتے ہیں اسے کوئی نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ ابو نے علیحدگی میں مجھے پولیس آفیسر کے خیال سے آگاہ کیا اور پوچھا کیا تم بہن کے قاتل کو پکڑوانے میں تعاون کرسکتی ہو۔ کیوں نہیں، میں نے سوچے بغیر جواب دیا۔ مائرہ میری بہن ہی نہیں میری روح تھی اور اپنی روح کے لیے میں سب کچھ کرسکتی ہوں۔
ابھی مائرہ کو دنیا سے رخصت ہوئے چھٹا ہفتہ تھا۔ میں نے اس مشن کا بیڑا اٹھایا۔ چچا اس بات کے حق میں نہ تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہاں مجرم اس انداز کےنہیں ہوتے، جرم کرنے والا اتنے دنوں میں نجانے کہاں چلا گیا ہوگا۔ ہم یہ غلطی کرکے خدانخواستہ دوسری بچی کو بھی کہیں نہ گنوادیں۔
اس رات جب میں مائرہ کے کمرے میں سوئی۔ مجھے لگا جیسے اس کی روح میرے آس پاس بھٹک رہی ہو۔ اس کی یادیں ،اس کے وجود کی خوشبو، اس کے بستر میں بسی ہوئی تھی۔ اس رات بہت دیر بعد مجھے نیند آئی حالانکہ خالہ میرے قریب سو رہی تھیں۔
اگلی صبح جمعہ تھا۔ ٹھیک اسی وقت مائرہ کا لباس پہن کر میں گھر سے نکلی۔ مجھے لگا جیسے میں خود مائرہ ہوں اور اس کی روح مجھ میں سما گئی ہے۔ میں نے خود کو آئینے میں دیکھا اس کی طرح بال بنا کر بالکل مائرہ کا پرتو لگ رہی تھی۔ کوئی نہیں پہچان سکتا تھا کہ میں سائرہ ہوں، مائرہ نہیں۔
گھر سے نکلتے ہی محسوس ہوا جیسے میرا ذہن میرے قابو میں نہیں ہے۔ قدم بے اختیار ادھر اٹھ رہے تھے جدھر سے گزر کر وہ گئی تھی اور جھاڑیوں تک پہنچ کر اس کا دوپٹہ الجھ گیا تھا۔ آج میں نے وہی دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا۔
پہلے میں نے کتابوں کی دکان پر رک کر ایک رسالہ خریدا۔ پھر اس رستے پر ہولی، جہاں میری بہن کو گھسیٹ کر جھاڑیوں کے اندر ڈالا گیا تھا، مگر اس جگہ ایک لمحے کو ہی رک پائی اور قدم آگے بڑھا دیے۔ سڑک تک کوئی سامنے آیا اور نہ پیچھے اور نہ ہی دائیں بائیں نظر آیا۔ گھر میں سلامتی سے آتے دیکھ کر امی نے اللہ کا شکرادا کیا۔ ان کے خیال میں، میں چچا کے ساتھ آئی تھی لیکن میں اکیلی آئی تھی۔ میری نگرانی کرنے والے مجھ پر کہاں سے نظر رکھے ہوئے تھے، یہ بھی معلوم تھا۔ تین دن اسی طرح میں امی سے خالہ اور خالہ سے امی کے گھر آئی۔ چوتھے روز انسپکٹر نے ابوکو بتایا کہ قاتل گرفتار کرلیا گیا ہے۔ قاتل کون تھا اور کیسے پکڑا گیا یہ بھی عجیب روداد ہے۔
وہ اسی دکان کا ایک ملازم تھا۔ جہاں سے مائرہ گزرتی تھی۔ وہ اسے دیکھتا، اس کے دل میں مائرہ کے لیے جانے کیسے جذبات پیدا ہوگئے کہ وہ اس سے تنہائی میں بات کرنے کا خواہش مند ہوا۔ شاید مائرہ نے اس کی میلی نگاہوں کو پہچان لیا تھا۔ تبھی اپنے تیور کڑے رکھے۔
دکان پر بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی تو اس جنونی نے سنسان میدان میں روک کر بات کرنا چاہی، مگر مائرہ نے اسے ڈانٹ دیا۔ غالباً اسی روز میری بہن نے مجھ سے یہ وعدہ لیا تھا کہ اگر مجھے کچھ ہو جائے تو تم میری امی کے پاس رہنا۔
مائرہ کے قتل ہو جانے کے بعد مجھے دکان سے گزرتے ہوئے دیکھ کر وہ شخص حیرت زدہ رہ گیا کہ مائرہ تو مرچکی ہے۔ یہ دوسری مائرہ کہاں سے آگئی۔ بے شک وہ چونک گیا تھا لیکن مجھ سے کلام کرنے کی ہمت اس میں نہ تھی۔
چوتھے روز جب میں نے دکان میں جاکر رسالہ خریدا، تب اس سے نہ رہا گیا، کیونکہ میری آواز بالکل میری جڑواں بہن جیسی تھی۔ اس دن وہ تیزی سے دکان سے باہر نکل گیا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا جھاڑی کی اوٹ میں جاکر ٹھہر گیا۔
اسے باہر جاتے دیکھ کر میں سمجھ گئی کہ یہ مجھ سے بات کرنے کے ارادے سے باہر نکلا ہے۔ جب میں جھاڑی کے قریب پہنچی وہ باہر نکلا ہی تھا کہ اسی لمحے پولیس والوں نے اسے دبوچ لیا۔ یہ پولیس اہل کار قریبی جھاڑی میں چھپے ہوئے تین دن سے نگرانی کر رہے تھے۔ وہ اسے اپنے ساتھ لے گئے، ایک پولیس اہلکار نے مجھے بحفاظت گھر چھوڑ دیا۔
دوران تفتیش اس شخص نے سب کچھ اگل دیا کہ مقتولہ کو اکثر میں دکان کے سامنے سے گزرتے دیکھتا تھا۔ ایک روز لڑکی سے بات کرنے کے لیے اس کے پیچھے میدان میں گیا تو اس نےشور مچادیا۔ اس دن تو ڈر کر میں واپس لوٹ آیا۔ البتہ کچھ روز بعد اپنے ایک دوست کے ہمراہ دوبارہ اس جھاڑی میں چھپ کر بیٹھ گیا۔ جونہی وہ وہاں سے گزری ہم نے اسے جھاڑی میں گھسیٹ لیا۔ اس پر لڑکی نے شدید مزاحمت کی تو طیش میں آکر اس نازک سی ہستی کا ہم نے گلا دبا دیا۔
اتنا کچھ کرکے بھی تم دکان سے ملازمت چھوڑ کر نہیں گئے اور دوبارہ بھی وہاں چلے گئے جہاں تم نے اس بے گناہ کا خون کیا تھا۔ آخر ایسا کیوں کیا… کیا تم کو پکڑے جانے کا خوف نہیں تھا۔ مرنے والی کو دوبارہ زندہ سلامت دیکھ کر میں حیرت زدہ رہ گیا تھا۔ سوچتا تھا کہ اتنی مشابہت کسی سے نہیں ہوسکتی۔ وہ اسی گھر سے نکلتی، وہی کپڑے پہنے ہوتی ہے، اسی طرح راستے سے گزرتی ہے۔ میری تو آنکھیں پھٹی رہ گئی تھیں، جیسے مرنے والی کی روح آسمان سے اتر آئی ہو۔ اسی حیرت میں تین روز تک پریشان رہا۔ چوتھے دن جب وہ دکان کے اندر آئی تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں اس راز کو جاننے کی نیت سے جھاڑی کی اوٹ میں جا کر ٹھہر گیا… کہ وہ دکان سے نکل کر ادھر آئے گی تو حقیقت جان پائوں گا۔
قاتل پکڑے گئے لیکن زخم پھر سے تازہ ہوگیا۔ کئی دن تک ہم غم سے نڈھال رہے۔ آج بھی جب مائرہ بہن کی یاد آتی ہے تو آنسو تھمنے کا نام نہیں لیتے، حالانکہ اس واقعے کو گزرے چالیس برس ہوچکے ہیں۔
(س … نواب شاہ)