میں نے گھڑی میں وقت دیکھا دو بج کر 40 منٹ ہو چکے تھے- عامر کے انے میں پانچ منٹ ہی باقی تھے پھر میں نے ایک نگاہ کھانے کے میز پر ڈالی ہر چیز تیار اور مکمل تھی- بالکل میری ذات کی طرح ،صاف ستھری خوبصورت میز نفیس اور قیمتی برتن ہر چیز سے کاملیت چھلک رہی تھی- جو میری ذات کا خاصہ بھی ہے -کھانے کی میز کے بعد میں نے ایک نگاہ خود پر ڈالی- میں خود بھی مونگیا رنگ کے لباس میں نہا دھو کے ہلکا میک اپ کر کےبہت خوبصورت لگ رہی ہوں جمعہ کے دن عامر کھانا گھر میں کھاتے ہیں- اس لیے میں نے کھانے پر خاص اہتمام کر رکھا ہے- ایک ایک چیز پر میں توجہ دیتی ہوں- میرا چھوٹا سا گھر میری خوبصورت اور بہت بڑی سی جنت ہے- جس سے مجھے بہت پیار ہے ہر سمجھدار عورت کو اپنے گھر سے محبت ہوتی ہے ،لیکن ان عورتوں کو کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے- جو بہت محنت اور جدوجہد کے بعد اپنا گھر بناتی ہیں اور میرا شمار بھی انہی عورتوں میں ہوتا ہے -عامر میری پھپھی زاد بھی ہیں شادی کے فورا بعد ہی عامر نے میرے مشورے سے اپنے تنخواہ کے ایک بڑے حصے کی کمیٹی ڈال لی تھی – پورا مہینہ کھینچ کر گزارنا پڑتا تھا میں نے تب کپڑے بنوانا تو چھوڑ ہی دیے تھے- ویسے بھی ہر چیز میں بچت کی اور تب جب کمیٹی نکلی میں نے اپنے زیور بیچے اور باقی کمیٹی اور عامر کے بینک بیلنس سے ہمارا خوبصورت سا گھر بنا- تبھی تو مجھے اپنے گھر سے بہت زیادہ محبت ہے- اس گھر کے ایک ایک کونے کو میں نے محبت سے سنوارا ہے- میرا گھر میری جنت ہے- جس کی میں بلا شرکت غیر مالک ہوں – صرف ایک کمی ہے ہماری زندگی میں اور وہ ہے اولاد – جی ہاں شادی کے نو سال گزر جانے کے باوجود ہم اولاد کی نعمت سے محروم ہیں – اور مجھے معلوم ہے کہ میری گود خالی ہی رہے گی کیونکہ کمی عامر میں نہیں، مجھ میں ہے – جب مجھے اپنے وجود کے اس خالی پن کا پتہ چلا تو مجھے بہت دکھ ہوا -لیکن پھر میں نے سوچا کمی مجھ میں ہے تو اس کی سزا عامر کو کیوں ملے- میں چاہتی تھی کہ عامر اولاد کی خاطر دوسری شادی کر لیں لیکن عامر نہیں مانے -انہیں مجھ سے بھی اتنی ہی محبت ہے میں اپنی جنت میں مگن بہت خوش اور مطمئن ہوں- شاید بہت کم عورتیں ہوتی ہیں اپنی خوش اور مطمئن زندگی گزارنے والی- اولاد نہ ہونے کے باوجود میں شک جیسی بیماری سے کوسوں دور ہوں – میں نے عامر کو ازاد چھوڑا ہوا ہے کیونکہ مجھے پتہ ہے وہ میرے ہیں اور میرے ہی رہیں گے – دروازے پر گاڑی کا ہارن ہوا -میں خیالات سے چونکی اور ان کے استقبال کو کھڑی ہو گئی -عامر کمپنی کے کام کے سلسلے میں ہفتہ بھر کے لیے کوئٹہ جا رہے تھے- میں نے اکیلے گھر میں رہنے کی بجائے امی کے گھر جانے کو ترجیح دی – امی کا گھر کوئی دور نہیں بالکل پاس ہے- مجھے امی کے گھر گئے تھوڑی دیر گئی گزری تھی کہ فریدہ چچی ا گئی- مجھے وہاں دیکھ کر انہوں نے ناگواری ظاہر کی اور امی نے بھی اس کو واضح طور پر محسوس کیا -جب سے میری شادی عامر کے ساتھ ہوئی تھی، تب سے چچی نے مجھ سے خدا واسطے کابیر باندھ لیا ہے – نہ ات کرتی ہیں نہ کبھی میرے گھر اتی ہیں -عامر سے بھی خود سے مخاطب نہیں ہوتی- اج شام کو ردا کی منگنی کی رسم ہے- آ جانا تم – انہوں نے مکمل طور پر مجھے نظر انداز کیا اور امی سے بات کرنی شروع کر دی- اس رشتے کے لیے ہاں کر دیا اپ نے؟ وہ تو عمر میں ردا سے بھی بہت بڑا ہے- اور وہ پہلے سے شادی شدہ بھی ہے – امی کو بہت حیرت ہوئی تھی، ظاہر ہے کسی رشتے کے لیے تو ہاں کرنی ہی تھی ہم نے- میری بیٹی کا نصیب کسی اور نے جو چھین کر اپنا مقدر بنا لیا – چچی تو طنزیہ فقرہ اچھال کر چلتی بنی اور میرا چہرہ اتنے واضح طنز پر لال ہو گیا – میری جنت اور خوشگوار زندگی سے جلنے والے بھی کچھ لوگ ہیں- اور ان میں میری یہ چچی فریدہ بھی شامل ہیں- ان کا خیال ہے میں نے عامر کو ردا سے چھینا ہے- کیونکہ عامر ردا کے بچپن سے منگیتر تھے – مگر عامر نے خود ہی میرا انتخاب کیا تھا- کیونکہ ردا جیسی چپ چاپ دبو سی لڑکی عامر کے معیار کی تھی بھی نہیں- جسے نہ کوئی فیشن کا پتہ تھا نہ دنیا داری کا – تعلیم ایف اے تک حاصل کی تھی- اور دوسری طرف میں تھی – ایم اے سی کیمسٹری نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی، اپنے کالج کی بہترین مقررہ، گفتگو میں مقابل کو لاجواب کر دینے والی، فیشن کی دلدادہ اور اسٹائلش ماریہ احمد – ردا تو میرا پاسکو بھی نہیں تھی – جب مجھے اس حقیقت کا پتہ چلا کہ ردا اور عامر کی بچپن سے بات طے ہے- تو میری عجیب سی کیفیت تھی- عامر کی جوڑی میرے ساتھ پرفیکٹ ہوتی- ردا بیچاری کہاں اس کے ساتھ چل سکتی تھی- اور اسی بات کا احساس میں نے عامر کو بھی دلایا کہ اپنی مرضی اور معیار کا جیون ساتھی منتخب کرنا ان کا حق ہے- میں نے کون سا ان سے کہا تھا کہ ردا کو چھوڑ کر مجھے اپنا لیں – وہ تو انہوں نے خود ہی میرا انتخاب کیا اور میں ان کو اپنے معیار کی لگتی تھی- جس طرح عامر شاندار اور مکمل تھے اسی طرح میں بھی- اور ایک طرح سے یہ ردا کے حق میں بہت اچھا ہوا تھا- عامر کا جس طرح کا مزاج اور طبیعت تھی وہ ردا کے ساتھ خوش نہ رہ پاتے – اور نہ ہی اسے رکھ پاتے- پھر ردا کی کیا زندگی ہوتی ؟اور میری تو بات ہی الگ تھی – میرے ساتھ تو عامر کی دوستی تھی- ہم ایک جیسے تھے ایک دوسرے کے ہم مزاج – جب عامر نے ردا کو چھوڑ کر میرا انتخاب کیا تو چچی میری دشمن ہو گئی – ان کو لگتا تھا میں نے ردا کے حق پر ڈاکہ ڈالا ہے – اور اس کا نصیب چھینا ہے کیا نصیب چھیننا اتنا اسان ہوتا ہے ؟اب اگر ان کی بیٹی کے نصیب میں عامر نہیں تھا تو اس میں میرا کیا قصور؟ یہ تو خدا کی دین ہے جسے جو چاہے عطا کرے – حالانکہ جب مجھے اپنی ماں نہ بن سکنے کا علم ہوا تو میں نے بہت نیک نیتی سے کوشش کی تھی کہ عامر دوسری شادی کر لے – اور میرے اس وقت دل میں ردا تھی – میں چاہتی تھی کہ عامر کو شادی کے لیے منا کر میں ردا کا نام لوں گی- وہ تو عامر شادی کے لیے مانے ہی نہیں – اور میری ساری کوششیں بیکار چلی گئی- یہ تو چچی کی جاہلانہ سوچ ہے – جو ردا کی اب تک شادی نہ ہو سکنے کا الزام بھی مجھے ہی دیتی ہیں- اب اگر ان کی بیٹی میں کوئی گن ہی نہیں یا کوئی خوبی نہیں تو اس میں میرا کیا قصور؟ اور اسی لیے عامر نے اسے چھوڑ کر میرا انتخاب کیا – لیکن اپنے گریبان میں کوئی جھانکتا نہیں-
وہ بھی دسمبر کی ایک سرد شام تھی- ردا کی شادی کو تین ماہ گزر چکے تھے میں نے اس کی شادی میں غیروں کی طرح شرکت کی تھی – ظاہر ہے مجھے بلایا بھی تو غیروں کی طرح تھا – عابد اس کا شوہر، عام سی شکل و صورت کا مالک تھا – خود ردا کون سی حور پری تھی؟ اس کے حساب سے تو ٹھیک تھا – ویسے بھی اس کی عمر نکلتی جا رہی تھی- اب ہر کسی کا نصیب میرے جیسے تو نہیں ہوتا نا – کہ شادی بھی وقت پر ہو جائے شوہر بھی خوبصورت اور پڑھا لکھا ہو ،اور ہر لحاظ سے مکمل- اور اچھی جاب پر ہو اور گھر بھی جنت جیسا ہو- ردا کے شوہر کو دیکھ کر میں اپنی زندگی اور اپنی جنت پر کچھ اور زیادہ مطمئن اور مسرور ہو گئی- مجھے خود پر فخر ہوا تھا -عامر اج کل پھر کوئٹہ کے دورے پر تھے – پچھلے چند ماہ سے ان کے کوئٹہ کے چکر کچھ زیادہ ہی بڑھ گئے تھے – اس لیے میں نے اب امی کے گھر جانے کی بجائے خود ہی گھر میں رہنے کو ترجیح دی- لینڈ لائن کی گھنٹی بجی میں نے نمبر دیکھا، عامر کا تھا- شاید اپنے انے کی اطلاع دینا چاہتے ہوں گے- میں نے مسکراتے ہوئے فون اٹھایا- ارے ماریہ کیسی ہو؟ ایک خوشخبری سنو ،میری ہیلو کے جواب میں وہ چہکتی ہوئی اواز میں بولے- تو میری مسکراہٹ گہری ہو گئی – شاید عامر اس بار کو کچھ بہت ہی سپیشل تحفہ لا رہے تھے – جی سنائیں میں سن رہی ہوں، اور میں واقعی ان کی بات سننے کے لیے بہت زیادہ ایکسائٹڈ تھی- میں باپ بننے والا ہوں… ماریہ ،ان کی اواز میں پہلے سے بھی زیادہ خوشی تھی – رسیور پر میرے ہاتھ کی گرفت مضبوط ہو گئی- کیا مطلب؟ میرے منہ سے نکلا- ماریہ میں تمہیں فون پر بتانا نہیں چاہتا، لیکن مجبوری بن گئی ہے – میں نے یہاں تین ماہ پہلے زرمینہ سے نکاح کر لیا تھا – زرمینہ بہت اچھی لڑکی ہے- اس نے مجھے مجبور کیا اور احساس دلایا کہ اولاد زندگی میں کتنی ضروری ہے- میں نے سوچا کہ تم بھی اپنی جگہ خوش اور مطمئن ہو، تو ایسے ہی چلنے دوں- لیکن اب مجھے زرمینہ نے خوشخبری سنا دی ہے – تو میں اسے لے کر آ رہا ہوں- اپنے گھر تم سن رہی ہو ماریہ- جی ہاں اور گھر کو اچھے سے سجانا، ہر چیز بالکل پرفیکٹ ہونی چاہیے- اخر وہ پہلی بار اپنے گھر آ رہی ہے – اور جو پچھلی سالگرہ پر میں نے کنگن دیے تھے وہ پالش کروا لینا – زرمینہ کے لیے اتنی بڑی خوشخبری اور پہلی بار گھر انے پر کوئی گفٹ ہونا چاہیے- ماریہ تم بالکل چپ ہو، کیا تمہیں میرا باپ بننے کا سن کر خوشی نہیں ہوئی؟ تم بھی تو ایسا ہی چاہتی تھی- انہیں میری خاموشی کا اخر احساس ہو ہی گیا- میں نے خاموشی سے ریسیو رکھ دیا- ہاں میں ایسا چاہتی تھی، لیکن ردا کے ساتھ -کیونکہ میں جانتی تھی کہ وہ بے ضرر سی لڑکی میری جنت میں دخل نہیں دے گی- اس انے والی سے مجھے کسی اچھائی کی امید نہیں تھی- انے سے پہلے ہی یہ اس کا اپنا گھر تھا – اور میں کہاں تھی ؟شاید کہیں نہیں- میں جانتی تھی کہ اولاد کی کمی یہ قدم اٹھانے پر مجبور کر دے گی- اسی لیے میں چاہتی تھی کہ عامر ردا سے شادی کریں – تاکہ دوسری عورت انے کے باوجود میری جنت میری ہی رہے- لیکن میری ساری چالیں مجھ پر الٹ گئیں- میری خوبصورت جنت جہنم میں بدل چکی تھی- ایک چال تم چلتے ہو اور ایک چال اللہ چلتا ہے- اور بے شک اللہ بہترین چال چلنے والا ہے- میں نے برسوں پہلے جو کسی کو چھینا تھا – ہاں میں نے تو ردا سے صرف عامر کو چھینا اور اج انے والی مجھ سے عامر کے ساتھ میری محنت اور محبت سے بنا گھر اور میری جنت چھین رہی تھی -خدا واقعی بہت بڑا عادل ہے – سب کچھ چھن جانے کے بعد مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میرے دل میں کھوٹ تھا – اور میری نیت خراب تھی – میں خالی دل خالی ہاتھ کسی کی جنت اور اپنے جہنم سے نکل ائی ،کہ جلد یا بدیر مجھے یہاں سے بے دخل ہونا ہی تھا-