والدہ اوردونوں بڑی بہنوں کوفلم دیکھنے کا شوق تھا جب کہ والد اتنے غریب تھے کہ ہمارے گھر میں ٹی وی تک نہ تھا۔ ہم ڈرامے دیکھنے پڑوس میں جایا کرتے تھے ۔والد مزدوری کرتے تھے۔ دیہات میں مزدور کو بہت کم اجرت ملتی تھی اور امی جان اچھی زندگی گزارنا چاہتی تھیں وہ اکثر ابا سے کہا کرتی تھیں کہ شہر چل کر رہتے ہیں۔ وہاں کم از کم مزدوری تو مل جاتی ہے اور اچھی اجرت بھی ملتی ہے۔
بڑے شہر میں رہنے کا ٹھکانہ حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ کرایے کا مکان لیں گے تو کھائیں گے کہاں سے۔ یہاں کم ازکم مکان تو اپنا ہے۔کچا سہی ایک بیگھ زمین بھی ہے ،جس پرچارہ اگا کر گائے اور بھیڑ بکریاں پال لیتا ہوں۔ بچوں کو ناشتے میں دودھ، مکھن اور عید بقر عید پر جب ہمارے مویشی فروخت ہو جاتے ہیں تو سال بھر کے لئے گرمی سردی کے دو جوڑے کپڑے بھی آجاتے ہیں۔ امی ان فائدوں کو خسارے جان کر شوہر کی باتوں کا مذاق اڑاتی تھی۔ کہتی کہ تم چھوٹے ذہن کے انسان ہو۔ رہو گے غریب کے غریب۔کبھی اپنی اوربچوںکی ترقی کا نہ سوچنا۔
ابا جب کوئی بکری، یا بکری کا بچہ فروخت کرتے تو ماں کہتی کہ بچوں کے لئے جوتے خریدنے ہیں یا گھر کی کوئی اور شے لانی ہے لیکن وہ ان پیسوں سے اپنی بہن کے ہمراہ شہر جا کر فلم دیکھ آتی۔ والد کو پتا چلتا تو وہ بہت خفا ہوتے۔ کہتے اپنے ساتھ میری بیٹیوںکو بھی خراب کر رہی ہو ۔ کم از کم ان کو توساتھ نہ لے جایا کرو۔ ماں والدکی ایک نہ مانتی ۔ تب کبھی کبھی ان میں لڑائی بھی ہو جاتی تھی یوں گھر کا ماحول خراب ہو جاتا تھا ۔
اس روز کی چخ چخ سے تنگ آکر ابا نے ایک روز میری ماں کو مارا تو وہ روٹھ کر اپنے بھائی کے گھر چلی آئی اور ہم تینوں بہنوں کو بھی ساتھ لے آئی۔ کچھ دن بعد ابا منانے آئے وہ نہ مانی اور طلاق کا مطالبہ کر دیا۔ ماموں نے بہن کا ساتھ دیا اور یوں میری ماں نے شوہر سے طلاق حاصل کر لی۔
ماں تو امیر بننے کے خواب آنکھوں میں سجا کر گھر سے نکلی تھی لیکن کچھ دن ممانی نے برداشت کیا۔ پھر وہ سوچ سمجھ کر باتیں سنانے لگی تو ماموں نے امی کو صلاح دی کہ تمہیں شہر جانے کی بڑی آرزو تھی۔ اگر جانا چاہتی ہو تو میں تمہارا ساتھ دینے کو تیار ہوں میں وہاں رکشہ چلا لوں گا اور تم کوٹھیوں پرکام ڈھونڈ لینا۔ دونوں بڑی لڑکیوں کو ساتھ لگا لو گی تو تینوں مل کر اچھا کھا کما لو گی،تمہارے دن پھر جائیں گے۔ امی کو یہ بات پسند آئی اور وہ ہمیں لے کر ماموں کے ہمراہ شہر آگئی۔
ماموں ایک رکشہ کرایے پر چلانے لگے ان کی اچھی خاصی آمدنی ہو جاتی تھی امی نے بھی نزدیکی بنگلوں میں کام ڈھونڈ لیا۔ یہاں ایک کام کی اجرت ایک ہزار ملتی تھی اس طرح میری ماں کو ہر گھر سے چار پانچ ہزار مل جاتے۔ اس طرح وہ ہر ماہ سولہ ہزار سے اوپر کما لیتی تھیں۔ کیونکہ دونوں میری بہنیں بھی ساتھ کام پر جاتی تھیں۔ وہ خوش تھیں کہ اس دھول بھرے دیہات کو چھوڑ دیا اور یہاں آگئی ہیں۔ بیگمات ہر سیزن نئے کپڑے تبدیل کرتیں تو پرانے جوڑے دے دیتیں اور کھانا بھی مل جاتا ماموں نے مکان کرایہ پر لیا تھا ہم بھی اسی میں ساتھ رہتے تھے وہ امی سے کرایے کی مد میں صرف دو ہزار روپے لیتے ۔ اس طرح مل جل کر گزارہ ہورہا تھا۔
ان دنوںمیر ی عمر چھ برس تھی۔ امی اور بہنیں کام پر چلی جاتیں، میں ممانی کے ساتھ گھر پر ہی رہتی۔ہمارے گھر سے تھوڑی دور بنگلہ تھا جہاں امی کام پر جاتی تھیں۔ جب بیگم صاحبہ کے شوہر اپنے کام کے سلسلے میںدوسرے شہر میں ہوتے تو امی مجھے شام کو ان کے گھر بھیج دیا کرتیں کہ تم نے رات کو ان کے پاس رہنا ہے وہ اکیلی ہیں۔ صبح جب میں آئوں گی تم گھر آجانا۔ یہ معمول ہو گیا ۔جب اس بیگم کے شوہر گھر نہ ہوتے وہ مجھے اپنے کمرے میں بلالیتی تھیں۔ وہ بہت اچھی تھیں ۔مجھ سے پیار سے پیش آتیں کیونکہ میری موجودگی سے انہیں تنہائی میں وحشت نہیں ہوتی تھی۔میں چھوٹی تھی ان کے گھر میں ٹی وی دیکھتے دیکھتے سو جاتی۔
ایک روز ان کے شوہر باہر گئے تو انہوں نے امی سے کہا کہ آج شام شازیہ کو میرے پاس بھیج دینا ۔ امی نے میرا ہاتھ منہ دھلایا، کپڑے تبدیل کرائے اور ان کے گھر جانے کو کہا۔ سردیوں کے دن تھے ،شام ہونے کو تھی۔ میں خودہی دوڑ کر ان کے گھر چلی جاتی تھی لیکن اس روز جب میں گھر سے نکل کر بنگلے کی طرف چلی تو گلی پار کرتے ہی مجھے ڈگڈگی کی آواز سنائی دی۔ ایک بندر والا… بندرکی ڈور تھامے جا رہا تھا۔ اس نے ابھی ابھی تماشہ ختم کیا تھا۔ مجھے دکھ ہوا کہ جلدی گھر سے کیوں نہ نکلی۔تماشہ نہ دیکھ سکی خیال آیا کہ اب یہ ضرور اگلی گلی میں جا کر تماشہ دکھائے گا۔ میں اس کے پیچھے پیچھے چل دی۔ یوں اپنے اور بیگم کے گھروں سے دور نکل گئی احساس نہ ہواکہ کہاں سے کہاں آگئی ہوں۔
بندر والے نے تماشہ نہ دکھایا بلکہ سڑک پار کر لی اور دور نکل گیا۔ اب ہوش آیا کہ میں کتنی دور آگئی ہوں ۔شام گہری ہو چکی تھی۔ آنٹی کا گھر نہ جانے کہاں رہ گیا تھا۔ سر چکرانے لگا ،آگے پیچھے ادھر ادھر دیکھا سب گلیاں اور رستے ایک جیسے نظر آئے۔ بیگم صاحبہ سمجھیں امی نے آج مجھے بھیجا ہی نہیں اور امی نے جانا کہ میں ان کے گھر پہنچ چکی ہوں گی۔ لیکن میں اب ایک چوراہے پر کھڑی تھی ۔ رستوں کی بھول بھلیوں میں گم تھی۔
سردی لگنے گی… اوپر سے اندھیرا چھانے لگا۔ اندازے سے پلٹ کر نجانے کس رستے پر چلتی گئی۔ ایک شخص جو وہاں سے گزر رہا تھا میرے رونے کی آواز سن کر پاس آیا اور پوچھا ۔بچی کدھر جانا ہے۔ کیوں رو رہی ہو… کیا رستہ بھول گئی ہو۔
ہاں۔ میں نے جواب دیا۔ بندر والے کے پیچھے تماشہ دیکھنے جا رہی تھی۔ راستہ بھول گئی۔ کہاں سے آئی ہو۔ کچھ پتا یاد ہوتا تو بتاتی۔ بد حواسی میں ادھر ادھر اشارے کرنے لگی۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور قریبی مسجد لے گیا۔ وہاں مولوی صاحب سے بات کی اور اعلان کرایا ۔میں نے اپنا اور ماں باپ کا نام بتایا تھا۔
اعلان پر بھی مجھے لینے کوئی نہ آیا تو اس آدمی نے امام مسجد کے سپرد کر دیاکہ آج آپ اسے اپنے گھر رکھیں، کل پھر اعلان کر دینا شاید کوئی لینے آجائے۔ کئی بار اعلان ہوا لیکن مجھے لینے کوئی نہ آیا۔ میں امانتا ً امام صاحب کے گھر میں رہ رہی تھی اور وہ مساجد میں اعلان کروا رہے تھے ۔ان کی ایک بیٹی میری ہم عمر تھی۔ میں اس کے پاس سوتی اور امام صاحب کی بیوی مجھے کھانا وغیرہ کھلاتیں۔ وہ بہت اچھی اور رحم دل خاتون تھیں۔
شروع میں روز صبح اٹھ کر روتی۔ وہ تسلیاں دیتیں کہ امام صاحب تمہارے گھر والوں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ ہم جلد تمہیں ان کے پاس پہنچا دیں گے… لیکن جب میرے گھر والوں کو وہ نہ ڈھونڈ پائے تو اپنے پاس ہی رکھ لیا۔ میں ان لوگوں سے مانوس ہو گئی تھی ، خاص طور پر ان کی بیٹی عائشہ بی بی سے میری دوستی ہو گئی۔
امام صاحب ملتان کے تھے۔ ان کے بڑے بھائی کا انتقال ہو گیا تو وہ سب لوگ ملتان آگئے اور مجھے بھی اپنے ساتھ لے آئے۔یہاں آکر دو ماہ بعد ان کا ہارٹ اٹیک کے باعث انتقال ہو گیا۔ اور میں ان کی بیوہ کے پاس رہ گئی۔ کچھ دنوں بعد انہوں نے مجھے اسکول میں داخل کرا دیا۔
وقت گزرتا رہا۔ میں نے آٹھویں تک تعلیم حاصل کر لی ۔ آگے پڑھنا چاہتی تھی، ان کی بیٹی نے میٹرک کر لیا تھا۔ عائشہ کے لئے ایک اچھا رشتہ آگیا تو انہوں نے اس کی شادی کر دی۔ شادی میں ان کے سسرال والوں نے مجھے دیکھا ایک سسرالی رشتے دار عورت نے میرا رشتہ طلب کر لیا۔ خالہ جی بیوہ تھیں ،جلد لڑکیوں کے فرائض سے سبک دوش ہونا چاہتی تھیں۔ بس لڑکا اچھا دیکھ کر ہاں کر دی اور چھ ماہ بعد مجھے سعد
کے ساتھ رخصت کر دیا۔ یہ سب کچھ اس قدر جلد ہوا۔ مجھے سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہ ملا۔ سوچ کر کرتی بھی کیا …اب میرے ورثا یہی لوگ تھے۔ والد ، امی ماموں اور بہنیں سبھی کو کھوچکی تھی۔ پیچھے پلٹ کر دیکھتی تو اندھیرا ہی نظر آتا۔خالہ خود رشتے داروں کی امداد کی رہین منت تھیں… شکر کرتی کہ شریف گھرانے میں عزت کا ٹھکانہ مل گیا ہے یہی بہت تھا۔
سعد اچھے انسان تھے۔ مجھ سے محبت کرتے تھے ۔ساس، نند ،دیور سبھی لوگ عزت سے پیش آتے۔ بہت زیادہ عیش و آرام کی زندگی نہ تھی۔ دو وقت کی روٹی میسر تھی۔ سب آپس میں صلح سے رہتے۔ گھر میں سکون تھا اور میں بھی سکون سے تھی۔
بے شک میں لاوارث تھی۔ میرا کوئی اپنا خاندان نہ رہا تھا لیکن قدرت نے ایک بیٹے اور دوبیٹیوں سے نواز دیا تومیرا اپنا خاندان تخلیق ہو گیا۔ زندگی میں جو خلا تھا پر ہو گیا۔ اب میں زیادہ ماضی اور اپنوں کے بارے میں نہ سوچتی تھی۔ ہاں کبھی کبھی شوہر سے کہہ بیٹھتی تھی ۔کاش کوئی رحیم یار خان جا کر میرے والدین کا کھوج لگا لیتا تو یقینا میں انہیں مل جاتی۔
سعد نے اپنے دل میں یہ تہیہ کر لیا تھا کہ ضرور میرے والدین میں سے کسی کا کھوج لگا لیں گے۔ انہوں نے بتائے بغیر اپنی طرف سے کوشش جاری رکھی۔ وہ جانتے تھے میں نے مجبوراً حالات سے سمجھوتہ کر لیا ہے۔ بچپن میں کسی معصوم کا گھر اور ماں باپ سے بچھڑنے کا صدمہ، میرے دماغ کو تہہ و بالا کر گیا تھا۔ یہ کسک ایسی تھی کہ تاعمر مٹائی نہ جا سکتی تھی۔ آج بھی جب کہ خود بچوں والی تھی خود کو والدین سے بچھڑی ہوئی بچی پاتی تھی۔
ایک روز وہ کسی دوست کے ساتھ رحیم یار خان گئے جہاں ایک دیہات میں زرعی اراضی برائے فروخت تھی۔ ان کا یہ دوست اس اراضی کو خریدنا چاہتا تھا۔ وہاں اچانک ماموں سے میرے شوہر کی ملاقات ہو گئی اور باتوںباتوں میں ماموں کے منہ سے نکل گیا کہ آج سے بیس سال پہلے میری ایک بھانجی کراچی میں کھو گئی تھی جس کا ابھی تک سراغ نہیں ملا۔ سعد کے کان کھڑے ہو گئے ۔انہوں نے پوچھا ۔بچی کا کیا نام تھا اور کتنی عمر تھی۔
شازیہ نام تھا اور چھ سال کی تھی۔ تب جو معلومات سعد کو تھیں بتائیں توماموں نے کہا۔ ہاں وہ میری بھانجی ہے۔ انہوں نے میرے شوہر سے ہمارے گھر کا پتا لیا اور کہا کہ اس کی والدہ کو اطلاع کروں گا۔ ان دنوں شازیہ کی والدہ لاہور میں ہیں،مجھے وہاں جا کر اسے بتانا پڑے گا اور ساتھ لانا ہو گا۔
سعد نے گھر آکر مجھے خوش خبری سنائی تو میری خوش سے مرنے والی کیفیت ہو گئی۔ یقین نہ آتا تھا کہ بیس برس بعد ایسا معجزہ ہو سکتا ہے … دن رات کی سبھی دعائیں رنگ لے آئی تھیں ۔ دنیا کی ہرشے اچھی لگنے لگی۔ اب رات دن ماں اور بہنوں کا خیال رہتا کہ وہ آئیں گی توکیسے ملوں گی ۔ا می کتنی خوش ہوں گی۔
خدا خدا کر کے وہ دن آگیا۔ماموں نے لاہور سے سعد کو فون کیا کہ وہ سب شام کو آرہے ہیں۔ صبح سے شام کرنا بھی اب میرے لئے جوئے شیر لانے کے برابر تھا۔ گیٹ کی گھنٹی بجی، میرا دل دھڑکنے لگا ۔شام کے پانچ بجے تھے۔ سعد گھر پر تھے۔ انہوں نے دروازہ کھولا اور امی اور بہنوں کو گھر میں لے آئے۔ ماموں بھی ہمراہ تھے۔
میں ان کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ والدہ اور دونوں بہنوں کے کپڑے قیمتی زرق برق نئے فیشن کے اور انہوں نے زیورات پہنے ہوئے تھے۔ بال بھی بیوٹی پارلر سے بنوا رکھے تھے او ر ہلکا میک اَپ کیا ہو ا تھا۔ غرض وہ کسی امیر گھرانے کے لگ رہے تھے ۔کیا واقعی یہ میرے اپنے لوگ تھے، جن کو پیٹ بھر کھانا نصیب نہ تھا۔ لوگوں کی اترن پہنتے تھے اور شہر میںرہنے کا ٹھکانہ بھی میسر نہ آتا تھا۔ خدا کی قدرت… میرے قدم جہاں تھے لمحہ بھر کو وہاں ہی رک گئے۔ وہ بھی والہانہ انداز سے آگے نہ بڑھی اور نہ بہنوں نے دوڑ کر گلے سے لگایا۔ اجنبی نظروں سے کچھ دیر تک کبھی مجھے اور کبھی میرے چار مرلے کے چھوٹے سے گھر کو تکتی تھیں۔ جہاں ڈھنگ کا فرنیچر بھی نہ تھا۔ آخر کار سعد نے کہا۔ آنٹی جی کیا آپ اپنی بیٹی کو گلے سے نہ لگائیں گی۔ تب امی آگے بڑھیں اور مجھے گلے سے لگایا اور بہنوں نے بھی پیار کیا۔ ان کے کپڑوں سے اتنی بہترین خوشبو آرہی تھی کہ میرے د ل و جان معطر ہو گئے۔
یہ سب ایک خواب جیسا لگ رہا تھا۔ صبح سے ان کی آمد کی تیاری میں لگی تھی سارا گھر صاف کیا اورکھانا بنایا۔ اس تیاری میں اپنے بچوں کو بھی بھلا بیٹھی تھی۔ امی کو پہلی نظر دیکھ کر لگا تھا کہ میرے بیتے ہوئے بیس برس واپس پلٹ آئے ہیں۔ ان کے گلے دوبارہ جا لگی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی جیسے بیس برس پرانا زخم پھر سے ہرا ہو گیا ہو۔
میں نے کھانا لگا دیا۔ سعد ان سے باتیں کرنے میں مصروف ہو گئے۔ انہوں نے تھوڑا سا کھانا کھایا اور چند گھنٹے آرام کیا۔ میرا خیال تھا کہ وہ کچھ دن ہمارے پاس رہیں گی۔ مجھ پر جو بیتی اس کی داستان سنیں گی اور اپنے پر جو گزری وہ بتائیں گی لیکن رات کو ہی انہوں نے واپس جانے کا عندیہ دے دیا۔میں بہت حیران ہو ئی کہ میری ماں اور بہنیں کتنی بدل گئی تھیں۔ اتنی مدت کی میں ان سے بچھڑی ملی تو یہ اب چند گھنٹوں کے بعد لاہور واپس جانے کا کہہ رہی تھیں۔ میں نے شکوہ کیا کہ آپ لوگوں سے ملنے کی خوشی میں، میں پاگل ہو رہی تھی، آپ ایک رات بھی نہیں ٹھہریں ۔ ایسی کیا مجبوری ہے۔امی نے جواب دیا۔ بیٹی ایک بہت بڑی مجبوری ہے۔ تمہاری دونوں بہنوں نے لاہو میں ملازمت کر لی ہے اور اب کل ان کا وہاں ہونا ضروری ہے کیونکہ انہیں ڈرامہ مکمل کرانا ہے۔ بات میری سمجھ میں نہ آئی۔ خیر وہ وعدہ کر کے اسی رات واپس چلی گئیںکہ فون پر بات کریں گے اور پھر فرصت سے آئیں گی۔ ماموں بھی ہمراہ چلے گئے۔
سعد بھی کچھ بجھے بجھے تھے ۔مجھے کچھ بتانے سے گریز کر رہے تھے ۔ جب افسردہ دیکھا تو بولے۔ شازیہ اداس نہ ہو تمہاری تمنا تھی کہ ماں اور بہنوں سے ملو، اللہ نے ملا دیا۔ وہ بے قراری اور تڑپ ختم ہو گئی، اب سکون کی زندگی اپنے شوہر گھر اور بچوں کی خاطر جیو۔ تمہارے اپنوں کوکبھی ملنا ہو گا تو آجائیں گے۔ واقعی ان کی مجبوری تھی کہ مزید رکنا ممکن نہ تھا۔
آخر ایسی کیا مجبور تھی کہ مجھے نہیں بتایا۔ تمہاری والدہ کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی تھی جس کا تعلق تھیٹر اور اسٹیج سے تھا۔ تمہاری ماں کو اپنی لڑکیوں کو فلموں میں کام کرانے کا شوق ہو گیا ۔اس شخص سے شادی کر لی اور وہ ان کو اپنے ساتھ لاہور لے گیا۔ جہاں تمہاری دونوں بہنوں کو اسٹیج پروگراموں میں چھوٹے موٹے رول ملنے لگے اور پھر وہ اسی شعبے سے وابستہ ہو گئیں۔ وہ بڑی ہیروین بننے کے خواب دیکھتی تھیں لیکن ایکسٹرا گرلز بن کر رہ گئی ہیں ۔ یہ ہے تمہاری ماں کی زندگی اور فلموں کا شوق، جو پیسے کے لالچ میں ان کو نجانے کہاں سے کہاں بہا لے گیا ہے۔ یہ تمام احوال تمہارے ماموں نے مجھے بتا یا ہے۔ انہوں نے تمہیں ایک غریب گھرانے میں آباد دیکھا تو مایوس ہو گئیں۔ یہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ میں کوئی مالدار آدمی ہوں جو ان کی دیہات میں زرعی اراضی خریدنے گیا تھا لیکن اب میں نے حقیقت بتا دی ہے کہ میں غریب آدمی ہوں۔ وہ قیمتی اراضی میں نہیں بلکہ میرا ایک مالدار دوست خرید رہا تھا میں تو ساتھ گیا تھا کیونکہ محکمہ مال میں معمولی ملازمت پر ہوں۔ وہ میری رہنمائی چاہتا تھا۔ یہ سن کر وہ مایوس ہو گئے۔
میرا معمولی گھر دیکھ کر اب میں سمجھی کہ کیوں میری والدہ اور بہنوں کا منہ اتر گیا تھا۔ انہوں نے تومیرے بچوں کو بھی گود میں نہ لیا۔ اور ایک رات بھی میرے گھر نہ گزاری کیونکہ کل ان کی بیٹیوں کی شوٹنگ کا دن تھا۔ مجھے بہت صدمہ ہوا، یہ سب باتیں سن کر۔ دل میں شرمندہ تھی کہ نجانے میرے شوہر کیا سوچیں گے۔ یہ ہر
وقت ان کی یاد میں تڑپتی تھی اور اس کے اپنے کس قسم کے لوگ نکلے۔ امی پھر آنے کا کہہ گئی تھیں۔ کچھ دن بعد فون کیا، میں نے بددلی سے تھوڑی سی بات ضرور کی لیکن ان کو اپنے گھر آنے کا نہ کہا۔ چاہتی نہ تھی کہ سعد کو برا محسوس ہو کیونکہ اب میری زندگی سعد اور میرے بچوں سے وابستہ تھی اور میں اپنے گھر کو بے سکون نہ کرنا چاہتی تھی۔ سوچا جیسی زندگی ماں چاہتی تھی ویسی اسے مل گئی ۔چلو اچھا ہوا ان کے سارے ارمان پورے ہو گئے۔ پہلے میں ابا کو ظالم سمجھتی تھی ان کو دوش دیتی تھی اب سوچتی تھی کہ ابا دوشی نہ تھے ،قصور وار میری ماں تھی جس نے چمکتی دمکتی زندگی کے شوق میں شوہر کو چھوڑ گھر برباد کیا ۔بچیوں کو شہروں شہروں خوار کیا اور ہمیں ہمارے والد کے پیار اور شفقت سے محروم کر دیا۔
مجھے اداس دیکھ کر سعد نے کہا۔ اگر تم ان لوگوں سے ملنا جلنا رکھنا چاہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔کہو تو لاہور جا کر تمہارے پاس لے آئوں۔ نہیں اب انہیں میرے پاس مت لانا۔ بس ایک ملاقات کافی ہے۔ دوبارہ قسمت نے ملانا ہو گا تو مل جائیں گے۔ ماں کو فلمی دنیا نے بالکل بدل دیا تھا۔ شوہر میرے غمگسار تھے۔انہوں نے تسلی دی ۔اگر چاہو تو تمہارے والد سے ملوادوں۔ اب تو گائوں کا پتا چل گیا ہے۔ نہیں ان سے بھی نہیں ملنا چاہتی نجانے وہ کس طرح سے ملیں گے۔ آپ کو خدا سلامت رکھے اب مجھے کسی اپنے سے ملنے کی حسرت نہیں رہی ہے۔
آج اپنے شوہر کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہی ہوں۔ لاکھ بھلا یا بچپن کو نہیں بھلا سکتی۔ اپنوں کی یاد پھربھی آتی ہے۔ اپنے بچوں کی سخت حفاظت کرتی ہوں۔ ایک پل ان کا نظر سے اوجھل ہونا گوارا نہیں ہے۔ مبادا کہیں کھو نہ جائیں۔ جیسے میں اپنے بچپن میں کھو گئی تھی۔ (ش۔ ملتان)