Monday, April 28, 2025

Apno Say Mile Dukh | Teen Auratien Teen Kahaniyan

میرے ابو سرکاری ملازم تھے ۔جن دنوں میں گیارہ برس کی تھی، وہ بیمار ہو گئے۔ پہلے مقامی طور پر علاج کروایا۔ صحیح نہ ہوئے تو چچا کو اطلاع دی۔ وہ والد صاحب کو ایمبولینس میں لاہور لے گئے۔ ایک ماہ چچا نے علاج کرایا۔ وہ ٹھیک نہ ہوئے تو والدہ کو خط لکھا کہ تمہارا شوہر ابھی ٹھیک نہیں ہے۔ ڈاکٹر نے ایک اور آپریشن بتایا ہے جس پر کافی خرچہ آئے گا۔ میری جس قدر استطاعت تھی اپنے بھائی کے علاج پر رقم خرچ کر چکا ہوں، اب مجبور ہوں۔ اگر کچھ رقم کا انتظام ہو سکے تو آپ لوگ آ جائیں اور آپریشن کرا لیں ورنہ ان کا ٹھیک ہونا مشکل ہے۔
خط پڑھ کر امّی گھبرا گئیں۔ دوڑی ہوئی میرے ماموں کے گھر گئیں جو کرایے کے مکان میں رہتے تھے۔ ان کو خط پڑھوایا۔ بہن کو روتا پا کر انہوں نے تسلّی دی۔ رقم بینک سے نکلوا کر وہ لاہور چلے گئے۔ ماموں نے ان کا آپریشن کروایا اور علاج معالجہ بھی جو مطلوب تھا کرا دیا مگر وہ جاں بر نہ ہو سکے اور دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان دنوں ماموں اور ممانی ہمارے مکان میں رہنے آگئے تھے کیونکہ والدہ اور ہم بہن بھائی غم زدہ تھے۔ کہتے تھے۔ اس حال میں آپ کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا، ان کا جی گھبرائے گا۔
تین ماہ ساتھ رہے بالآخر ایک روز امّی نے کہا۔بھائی اب آپ لوگ اپنے گھر چلے جایئے تاکہ میں اپنے گھر کا ایک حصّہ کرایے پر اٹھا دوں ورنہ ہم لوگ کہاں سے کھائیں گے؟
ماموں کہنے لگے۔ تمہارے شوہر کے آپریشن اور علاج پر اتنا خرچہ کیا ہے جو اس مکان کی قیمت سے زیادہ ہے۔ میں نے یہ سوچ کر خرچ کیا تھا کہ میری بہن کا سہاگ سلامت رہے گا تو تمہارے شوہر میرا قرض بعد میں رفتہ رفتہ اتار دیں گے لیکن وہ نہ رہے، میں بھی کنگال ہو گیا ہوں۔ میرے پلّے اب پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے کہ اپنا گھر لے سکوں، تم ہی کہو کہاں جائوں اور یہ قرضہ کون اتارے گا۔ بہتر ہے تم کرایے کے مکان میں چلی جائو۔ میں تمہیں کوئی سستا مکان ڈھونڈ دیتا ہوں۔ یہ گھر اب اس خرچ کے عوض میرا ہو چکا ہے جو میں نے تمہارے مرحوم شوہر کی بیماری پر کیا تھا۔
اپنے سگے بھائی کے منہ سے ایسی باتیں سن کر میری والدہ بیچاری ٹکر ٹکر ممانی اور ماموں کی طرف دیکھنے لگیں۔ میں اور میرے بہن، بھائی کم عمر تھے، اس معاملے کی سنگینی کو نہیں سمجھتے تھے لیکن والدہ سمجھ گئی تھیں کہ بھائی ان کو مکان سے بے دخل کرنا چاہتا ہے۔ امّی نے کہا کہ میرے بچّے چھوٹے ہیں، کرایے کے گھروں میں نہیں رہ سکتی۔ تب ان لوگوں نے ہمارا سامان کمروں سے نکال کر صحن میں رکھ دیا۔ والدہ کو اپنوں کی اس بے دیدگی پر رونا آتا تھا۔ انہوں نے مصلحت سے کام لیا۔ جھگڑے کی پوزیشن میں نہ تھیں۔ کہنے لگیں کہ بھائی تم نے برے وقت میں ساتھ دیا، اللہ تمہارا بھلا کرے۔ بے شک یہ گھر تم لے لو مگر مجھے گھر سے مت نکالو۔چھت پر جو ایک چھوٹا سا کمرہ ہے، میں اس میں رہ لوں گی۔بے شک میرا سامان صحن میں پڑا رہنے دو کہ اب دنیا میں ایک تم ہی میرا سہارا ہو۔ تم سے جھگڑ کر کیا کروں گی۔
ماموں نے بیوی کو منایا کہ ان لوگوں کو چھت پر رہنے دو۔ اگر انہیں نکالا تو محلّے والے ہمیں اچھی نظروں سے نہ دیکھیں گے۔ پورا مکان ماموں، ممانی کے حوالے کر کے امّی نے اپنا سامان چھت پر بنے اسٹور نما کمرے میں شفٹ کر لیا۔ جو بڑا سامان تھا صحن میں پڑا رہنے دیا۔ ماموں سے کہا ۔خود رکھ لیں یا بیچ دیں، میں اسے اوپر نہیں لے جا سکتی۔ فرش پر چٹائیاں ڈال کر سو لیں گے۔ پلنگ اوپر چڑھانے پر ٹوٹ جائیں گے۔ فرنیچر بھی چھت پر نہیں پہنچ پائے گا، ٹوٹ پھوٹ جائے گا۔
چھت والا کمرہ اتنا بڑا نہ تھا کہ اس میں سامان بھی آ جاتا اور خود بھی سما جاتے، اوپر ایک غسل خانہ تھا۔ ماں نے اس رہائش پر بھی شکر ادا کیا کہ انہوں نے گھر سے باہر نہیں نکالا۔ وہ سمجھ رہی تھیں کہ یہ قربانی دوں گی تو بھائی کچھ مالی مدد کرے گا، میرا کچھ بوجھ اٹھا لے گا مگر انہوں نے مالی مدد دینے سے بھی معذرت ظاہر کر دی۔
ماں باہر قدم نکالنے پر مجبور ہو گئیں اور پاس پڑوس کے گھروں میں کام کرنے لگیں۔ کسی کو نہ بتایا کہ بھائی نے مکان پر قبضہ کر لیا ہے۔ کہتی تھیں کہ اپنے بھائی کو مکان کرایے پر دیا ہے تاکہ گزارہ ہو جائے اور وہ بھی ساتھ رہیں۔ اس پر بھی امّی کے یہ اپنے خوش نہ تھے۔ کہتے تھے کہ دوسروں کے گھروں میں کام کرتی ہو تو ہماری بے عزتی ہوتی ہے۔
تو آخر میں کیا کروں؟ بچّوں کا پیٹ بھی تو پالنا ہے۔ پڑھی لکھی ہوتی تو کہیں اسکول میں نوکری کی کوشش کرتی۔ بچّوں سے تو بھیک نہیں منگوا سکتی۔ غرض کافی لے دے کے بعد میاں، بیوی خاموش ہو رہے۔
وقت گزرتا رہا۔ دونوں بھائیوں کو سرکاری اسکول میں ڈال دیا تھا اور ہم دونوں بہنیں پڑھائی سے محروم ہو گئی تھیں جس کا میری ماں کو دکھ تھا لیکن مجبور تھیں۔ جہاں کھانے کے لالے پڑے ہوں وہاں تعلیم دور کی بات لگتی ہے۔ جب میں 16برس کی ہو ئی، ایک روز ماموں میرا رشتہ لے آئے۔ یہ ان کے اعلیٰ آفیسر ندیم صاحب کا تھا جنہوں نے ایک بار مجھے اس وقت دیکھا تھا جب وہ ماموں کی دعوت پر ہمارے گھر آئے تھے۔
یہ شخص صورت شکل کا ٹھیک تھا لیکن عمر میں مجھ سے بہت بڑا تھا۔ میں 16کی وہ40-45کا تھا۔ والدہ نے اسے دیکھا تو پریشان ہو گئیں۔ ماموں سے کہا۔ یہ مناسب جوڑ نہیں ہے۔ ندیم عمرمیں میری بیٹی سے بڑا ہے۔ میں اتنے عمر رسیدہ کو ہرگز اپنی پھول سی بچّی کا رشتہ نہ دوں گی۔
آپا کیوں بھری تھالی میں ٹھوکر مارتی ہو۔ندیم ایک اچھے عہدے پر فائز ہے۔وہ میرا آفیسر ہے، کچھ تو سوچو۔
تمہارا آفیسر ہے تو میں کیا کروں۔ میری بیٹی سے تو کئی گنا بڑا ہے۔ آپا انکار نہ کرو کیونکہ میں اس کا ماتحت ہوں۔ مجھ سے خفا ہو گیا تو نہ جانے کہاں دور دراز جگہ میرا تبادلہ کر دے۔ ہم سے رشتہ داری ہو گئی تو سب کے مقدّر سنور جائیں گے۔ اس کی اوپر کی آمدنی کا تو کوئی شمار نہیں ہے۔تمہاری چھوٹی لڑکی کی شادی اچھے گھر میں کرا دے گا اور تمہارے بیٹوں کو پڑھا لکھا کر نوکریوں پر لگوا دے گا۔ اس کے علاوہ میرے بھی اس سے کئی کام نکلیں گے، میری ترقی جلد ہو جائے گی۔
ماموں کو اپنا لالچ تھا کہ ان کا مفاد اس سے وابستہ تھا مگر میری ماں لالچی نہ تھیں۔ ان کو صرف میری خوشیاں عزیز تھیں۔ وہ اس رشتے پر راضی نہ ہو رہی تھیں۔ ماموں سے ڈرتی بھی تھیں کہ کہیں گھر سے نکال باہر کریں۔ انہوں نے چچی کو فون پر بتایا۔ وہ بولیں…بھابی تمہارا معاملہ ہے۔ماموں رشتہ لایا ہے، اچھا ہی ہو گا۔
والدہ نے پھرجیٹھ کو خط لکھا کہ آپ فوراً آ جایئے اور اپنی بھتیجی کو لے جایئے۔ ماموں اس کی شادی ایک بڑی عمر کے آدمی سے کرنا چاہتا ہے۔ ان کا جواب آیا کہ یہ تم بہن، بھائی کا معاملہ ہے، میں بیچ میں نہیں پڑنا چاہتا۔ خود انہیں سمجھا لو۔
اس جواب پر وہ سہم گئیں۔ سمجھ میں آ گیا کہ اس دنیا میں کوئی کسی کا نہیں۔ ایسے میں بھائی سے بھی بگاڑ لیا تو مشکلات زیادہ ہو جائیں گی۔ انہوں نے رو دھو کر بھائی کی بات مان لی۔ یوں میری شادی ندیم صاحب سے ہو گئی۔
شادی کے بعد ندیم مجھے اپنے والدین کے پاس لے آئے۔ انہوں نے خوش دلی سے مجھے قبول کیا۔ وہ بہت اچھے اور تعلیم یافتہ لوگ تھے لیکن ندیم ان جیسے نہ تھے۔ سسرال والوں نے پیار سے رکھا۔ اتنا خیال کیا کہ میں ان کو چاہنے لگی۔ ان ہی کے حسن سلوک کی وجہ سے میں نے بڑی عمر کے شوہر کو بھی قبول کر لیا اور ان کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے لگی۔
دو ماہ بعد جب ندیم نے فیملی کیلئے بڑا گھر لے لیا، مجھے ہمراہ لے گئے۔ سال بھر کا عرصہ اچھی طرح گزرا۔ امّی کو جو اندیشے ڈرا رہے تھے وہ نہ رہے۔ وہ
سمجھتی تھیں میں بڑی عمر کے شوہر کے ساتھ خوش نہ رہوں گی، تاہم مجھے خوش اور مطمئن پا کر ان کی تسلّی ہو گئی۔ ماموں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے تھے ۔ انہوں نے ندیم سے کافی فوائد اٹھائے تھے، یہاں تک کہ وہ ان سے بیزار ہونے لگے۔ اس دوران میں ایک بیٹی کی ماں بن گئی۔
اب ندیم کے رویّے میں فرق آنے لگا، زیادہ وقت باہر گزارنے لگے۔ دیر سے گھر آتے۔ بیمار پڑتی تو خیال نہ کرتے۔ بچّی پر بھی توجّہ نہ دیتے۔ میں کچھ پریشان رہنے لگی۔ ایک سال اور گزر گیا۔ مجھے پتا ہی نہ چلا کہ یہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ سمجھتی تھی دفتری مصروفیات کے سبب شاید ایسا رویّہ اختیار کر رکھا ہے۔ صبر سے کام لیتی رہی۔
ایک دن ڈرائیور کے ساتھ بچّی کے کپڑے لینے بازار گئی تو اپنے شوہر کو ایک نوجوان، خوبصورت اور فیشن ایبل لڑکی کے ساتھ شاپنگ مال میں دیکھا۔ بغیر کچھ خریدے واپس آگئی۔ ڈرائیور سے پوچھا۔ اس نے بتایا… بیگم صاحبہ! فکر نہ کیجئے۔ یہ صاحب کی دیرینہ عادت ہے۔ یہ ایسے ہی خوبصورت لڑکیوں کے چکر میں رہتے ہیں اور ان پر خوب خرچہ کرتے ہیں۔ یہ آتی جاتی رہتی ہیں۔
اب سمجھی کہ ندیم عیاش آدمی ہیں۔ بہت دکھ ہوا مگر صبر کئے بغیر چارہ نہ تھا۔ ماں کے مالی حالات سے واقف تھی۔ میکے میں بھی اب میری جگہ نہ تھی۔ رفتہ رفتہ ان کے کرشمے کھلنے لگے۔ دو بار شادیاں کر چکے تھے۔بیویاں طلاق لے کر چلی گئی تھیں۔ اب خاندان میں کوئی ان کو رشتہ دینے پر تیار نہ تھا۔ ان کا خیال تھا کہ تیسری کو بھی طلاق دے دیں گے۔ ان کا خیال صحیح تھا۔
ندیم کی نفسیات کچھ ایسی تھی کہ زیادہ دنوں تک ایک عورت کے ساتھ نہ رہ سکتے تھے۔ شادی کے بعد دو سال وہ بہ مشکل میرے ساتھ رہے پھر ادھر ادھر بھٹکنے لگے۔ رشوت لیتے تھے اور حرام کی آمدنی کو عیاشی میں اڑا دیتے تھے۔
سب کچھ جان کر بھی اپنی بیٹی کی خاطر ان کے ساتھ ہر حال میں نباہ کرنا چاہتی تھی۔ کسی سے ذکر نہ کرتی کہ کہیں جھگڑا ہو جائے، جھگڑے کی میں متحمل نہ ہو سکتی تھی۔
ایک روز ڈرائیور نے بتایا کہ صاحب ایک لڑکی کے ساتھ بری طرح پھنس چکے ہیں۔ اس سے شادی کا ارادہ ہے۔ آپ کو بروقت خبر کر رہا ہوں لیکن میرا نام نہ لیجئے گا ورنہ نوکری سے جائوں گا۔
میں نے سوچا شادی کر لیں تب بھی طلاق نہ لوں گی۔ سوکن کو قبول کر لوں گی مگر ماموں کے در پر نہ جائوں گی۔ میں تو نباہ کرلیتی، مگرجو میرے گھر کی مالک بننے آ رہی تھی اس نے یہ کڑی شرط رکھ دی کہ پہلے موجودہ بیوی کو طلاق دو تب تم سے شادی کروں گی۔
ایک روز سسر صاحب آئے تو ندیم نے کہا کہ ہمیں بڑا سرکاری بنگلہ ملنے والا ہے، آپ اس گھر کا پرانا سامان لے جایئے۔ ہم نئے بنگلے میں نیا سامان ڈالیں گے۔ انہوں نے ٹرک منگوایا اور گھر کا قیمتی سامان اس پر لدوا کر گائوں بھجوا دیا۔ ہفتہ بہ مشکل گزرا ،بولے۔میرا تبادلہ ہو گیا ہے، ایک ماہ بعد اس گھر کو چھوڑنا ہے، تم میکے میں چند دن کیلئے چلی جائو۔ اماں بیمار ہیں، پوتی سے ملنا چاہتی ہیں۔ میں آج گائوں ان کی عیادت کیلئے جا رہا ہوں، پنکی کو تیار کردو اسے بھی ساتھ لے جاتا ہوں۔ دادی سے مل لے گی، ہم کل تک آ جائیں گے۔
کیا میں بھی چلوں، اماں جی کو پوچھ لوں گی۔ انہیں یہاں ڈاکٹر کو دکھانا ہے، اگر وہ راضی ہو گئیں تو ساتھ لیتا آئوں گا۔ فی الحال ایک دوست ہمراہ ہے، اسے بھی گائوں جانا ہے، تمہیں ہمراہ نہیں لے جا سکتا۔ ایک روز کی بات ہے کل واپس آ جائوں گا۔
کیسے نہ مانتی، چاہتے تو زبردستی پنکی کو لے جاتے، تب کیا کرتی۔ دل پر پتھر رکھ کر بیٹی کو تیار کر کے ان کے حوالے کر دیا۔ جب وہ بچی کو لے جا رہے تھے، میرا دل بیٹھا جاتا تھا، روتی جارہی تھی۔ مجھے لگ رہا تھا جیسے بیٹی کو آخری بار دیکھ رہی ہوں پھر نہ دیکھ پائوں گی۔
ندیم میری پنکی لے گئے اور پھر نہ آئے۔ ماموں کو طلاق کے کاغذات تھما دیئے، ماموں بھی منہ دیکھتے رہ گئے۔ اماں کے ساتھ آ کر مجھے گھر لے آئے۔ یہاں ممانی نے آڑے ہاتھوں لیا۔ بجائے اشک شوئی کرنے کے کھانے کو دوڑتیں کہ نباہ نہ کر سکتی تھی، لوٹ کر آ گئی۔ اب اٹھتے بیٹھتے میرا کلیجہ چھلنی کرنے لگیں کہ کم بخت روٹیاں توڑنے کو آ گئی ہے۔ میں تو جیسے ان کی آنکھ کا کانٹا بن گئی تھی۔مجھے زچ کرتی تھیں، اتنا زچ کیا کہ ایک روز بغیر کچھ سوچے میں خاموشی سے گھر سے نکلی اور چچا کے گھر جا پہنچی۔
وہ مجھ اکیلی کو آتی دیکھ کر حیران ہو گئے پھر خود کو سنبھالا۔ پوچھا ۔کیا ہوا؟ خیر تو ہے، ایسے اجڑی سی کیوں آ گئی ہو؟ میں رونے لگی۔سارا حال بتایا۔ اس وقت چچا کے منجھلے بیٹے جو ڈاکٹری کے آخری سال میں تھے، گھر آئے ہوئے تھے۔ ثاقب نے بھی سارا حال سنا اور پھر اپنے باپ کو مجبور کیا کہ میرا نکاح اس کے ساتھ کر دیا جائے۔ چچا نے لاکھ کہا۔ ابھی تم نے اور پڑھنا ہے، تعلیم مکمل ہونے دو۔ تمہارے لئے سہیلہ کا رشتہ مناسب نہیں ہے۔ اس کی اچھی جگہ دیکھ بھال کر شادی کر دوں گا اور تمہاری شادی بھی کسی خوشحال گھرانے کی ایسی لڑکی سے کروں گا جو ڈاکٹر ہو۔
ثاقب نہ مانا…کہا کہ سہیلہ سے ہی شادی کرنی ہے اور ابھی اسی ہفتے، ورنہ آپ کا گھر چھوڑ دوں گا ہمیشہ کیلئے، تعلیم بھی چھوڑ دوں گا۔ چچا بیٹے کو سمجھاتے تھے تو ثاقب اور خفا ہوتے تھے۔کہتے کہ بابا جان… کمال ہے، یہ کون ہے، جو روتی ہوئی آپ کے در پر آئی ہے۔ آپ کی سگی بھتیجی، آپ کا اپنا خون اور آپ نے اسے یتیم ہونے کے بعد ایسے برے حالات کے سپرد کر دیا، جیسے یہ آپ کی کچھ نہیں لگتی۔ میں کم از کم ان لوگوں کو ایسے حالات کے شکنجے میں مرنے نہیں دوں گا۔
ثاقب کی ضد سے مجبور ہو کر چچا نے میرا نکاح ان کے ساتھ کر کے مجھے بہو بنا لیا اور میں ان کے گھر سما گئی۔ انہوں نے ہمارے لئے اپنے گھر کا اوپر والا پورشن خالی کر دیا۔ پھر ثاقب اور چچا جا کر میری والدہ اور بہن، بھائیوں کو بھی لاہور لے آئے۔
رخصتی ثاقب کی تعلیم مکمل ہو جانے کے بعد ہو گئی اور مجھے سکون کی زندگی میسّر آ گئی۔ والدہ کہتی تھیں۔ بھائی صاحب !یہ قدم آپ پہلے ہی اٹھا لیتے تو میری بیٹی کو طلاق کے تکلیف دہ مرحلے سے نہ گزرنا پڑتا۔
اللہ ثاقب کو سلامت رکھے۔ آج وہ بڑے ڈاکٹر ہیں اور ہم خوش و خرم زندگی بسر کر رہے ہیں۔ چچا اور میری والدہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ چھوٹی بہن کی شادی تایا کے بیٹے سے ہو گئی اور میرے دونوں بھائیوں کو ثاقب نے پڑھا لکھا کر ملازمتیں دلوا دیں۔ ہمارا بکھرا ہوا گھر پھر سے اکٹھا ہو گیا۔ اماں مرتے دم سکون سے اس جہاں سے گئیں مگر ماموں ممانی بے اولاد تھے، بے اولاد ہی رہے اور وہ مکان جس پر قبضہ کیا تھا ان کے کسی کام نہ آیا۔
دونوں کی وفات کے بعد ہمارا گھر ہمیں مل گیا۔ ماں کہتی تھی کہ میرے بھائی اور بھابی سے مکان کیلئے جھگڑا نہ کرنا لہٰذا ہم میں سے کسی نے بھی ماموں ممانی کو زند گی میں گھر سے بے دخل کرنے کی کوشش نہ کی۔ قدرت نے ہماری جائیداد لوٹانے کا وقت مقرر کر رکھا تھا سو وہ ایک روز ہمیں مل گئی۔
(ک…لاہور)

Latest Posts

Related POSTS