Sunday, April 20, 2025

Apnon Ne Mar Dala | اپنوں نے مار ڈالا

وقت کا دھارا بہتا چلا جاتا ہے سال گذرتے ہیں ،موسم بدلتے ہیں لیکن ہمارے دلوں کے موسم کھبی کھبا ر ٹہر سے جاتے ہیں – میری زندگی بھی ایک مسلسل مشقت کے سوا کچھ نہیں – زندگی میں جتنی محنت اور کوشش سے رشتے سمیٹے سب میرے ہاتھوں سے ریت کی مانند رستے چلے گئے- میری زندگی کی کہانی بھی عجیب سی ہے۔ کیا ایسی کسی اور پر بیتی ہو گی؟ پہلے جب زخم ہرے تھے ، لکھ بھی نہ سکتی تھی۔ اب کچھ نہ کچھ لکھنے لائق ہو گئی ہوں۔ مجھے لکھنا ہمیشہ اچھا لگتا تھا۔ اسپتال میں آپ اپنے روز و شب کے بارے میں تحریر کرنے کے سوا اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ تو ہی ایک ڈائری منگوا کر میں نے لکھنا شروع کر دیا۔ میں نے جب ڈائری لکھنے کی ابتدا کی تو کورے صفحات پر چند سطروں میں گزرے وقت کا حال لکھ دیا اور عنوان لکھا’ اسپتال کا ایک دن۔ جیسے ہی ڈاکٹرزوارڈ کا آخری راؤنڈ ختم کر کے چلے جاتے ہیں ، مکمل خاموشی ہو جاتی ہے ،تب میں چھت سے آتی مدھم روشنی میں قلم اور ڈائری اٹھا کر پلنگ کے سرہانے ٹیک لگا کر لکھنا شروع کر دیتی ہوں۔ بستر پر اس طرح بیٹھ کر لکھنا،ہے تو دقت طلب مگر بیماری کا کچھ آدھار ہو جاتا ہے۔ جب مریضوں کے لواحقین اور چاہنے والے والہانہ انداز سے آتے ہیں ،اس وقت میری جلتی ہوئی آنکھیں دروازے پر جم جاتی ہیں کہ شاید میرا جیون ساتھی مجھ سے ملنے آجاۓ، جس کا بھی دعوی تھا کہ وہ میرے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا مگر جب برے دن آۓ ، اس نے میری بیماری سے ڈر کر مجھے بھلا ہی دیا۔ ہاں ایک میری ماں اپنے نحیف جسم کو کھینچتے ہوۓ ملنے آجاتی ہیں ، ان سے ہی دو چار باتیں ہو جاتی ہیں ورنہ میں خاموش لیٹی رہتی ہوں اور صحت یاب ہونے والے مریضوں کے رشتے داروں کی باتیں سنتی رہتی ہوں۔ مجھے یاد ہے جب میں نے میٹرک پاس کیا اور ہنستی مسکراتی جوانی کی حدود میں قدم رکھا، اس زمانے میں میری رنگت سفید گلابی اور آنکھیں شر بتی ہوا کرتی تھیں، جن کی سہیلیاں تشبیہ سوچا کرتی تھیں۔اس خوشیوں اور بے فکری سے بھر پور دور میں مجھے کسی کی نظر لگ گئی اور اچانک کسی بیماری کا حملہ ہواجو شروع میں بالکل معمولی نوعیت کا تھا مگر بعد میں کس مشکل سے گزری، لکھ نہ پاؤں گی۔ بات تو ذراسی لگی تھی کہ میری ایک انگلی پر چھوٹا سا دانہ نکلا تھا جو معمولی نوعیت کا تھا مگر یہ رفتہ رفتہ زخم بن کر مجھے دنوں تکلیف پہنچاتارہا۔ میں نے عام دانہ سمجھ کر اس پر کوئی توجہ نہ دی کہ آخر یہ زخم خود بخود بھر گیا۔ اسی دوران خالو  جان اپنے اکلوتے بیٹے کے لئے میرا رشتہ مانگنے آگئے اور والدین نے سراج  کے لئے ہاں کہہ دی۔ ان دنوں میرے دل میں اچھوتے جذبات تھے ، میں نے گھریلو کاموں میں دلچسپی لینی شروع کر دی۔ خانہ داری سیکھی کہ اپنی آئندہ زندگی کو کامیاب اور شاندار بنانے کے خواب دیکھ رہی تھی ، اپنے سپنوں کے محل سجارہی تھی۔ اس وقت رات کا ایک بج رہا ہے۔ وارڈ میں سبھی مریض سو چکے ہیں لیکن میں اس وقت اپنی زخمی انگلیوں سے بہ دقت تمام اپنی زندگی کی کہانی لکھ رہی ہوں۔ شاید اس طرح میرے دکھ کا مداوا ہو جاۓ کہ جس کا علاج کسی کے پاس نہیں ہے ۔ مجھے آج فضا میں حد سے زیادہ بے چینی کھلی محسوس ہور ہی ہے ۔میرے آس پاس اس وقت کوئی شے خوش آئند اور پر کشش نہیں ہے ، صرف ان پھولوں کے سواجو مجھے ایک مایوس مریضہ سمجھ کر کوئی تحفتاً دے گیا- مجھے وہ دن شدت سے یاد آرہے ہیں جب میری شادی کی تیاریوں میں گھر بھر مصروف نظر آتا تھا اور چھوٹا بھائی جدائی کے خیال سے افسردہ ہو کر مجھ سے بار بار لپٹ جاتا تھا تو میں اس کو گلے سے لگا کر رو پڑتی تھی۔ دن پر لگا کر اڑ گئے لیکن آج بھی میرے کانوں میں کبھی کبھی شہنائی کی آواز اور سہاگ کے گیت گونجتے ہیں۔ ہم سفر کے ہمراہ سیج کے خوشبودار پھولوں کے ساۓ میں میں نے ایک دل نشیں سفر کے خواب سجاۓ تھے ۔ مجھے اپناوہ چھوٹاسا خوبصورت گھر یاد آتا ہے جس کی دیواروں پر پھولوں سے لدی بیلیں آرام کرتی تھیں۔ میرے جیون ساتھی سراج  کو میرے ہاتھ کے پکوان پسند تھے۔ وہ ہر وقت سب کے سامنے میری تعریفیں کرتے رہتے تھے۔ پر ہیز گار خالو  بھی میرے مشرقی اطوار سے بہت خوش تھے ۔ ہمار اگھر تو جنت نظیر تھالیکن تقدیر کے ناگ نے بہت جلد میری خوشیوں کو ڈس لیا۔ اور یہ زہر آہستہ آہستہ میری زندگی میں سرایت کر نے لگا۔ شادی کے بعد میں نے سوچا بھی نہ تھا کہ میرے جسم کے اندر کوئی بیماری جڑ میں مضبوط کر رہی ہے ۔اس دوران مجھ پر اس بیماری کا کوئی حملہ بھی نہیں ہوا تھا۔ میرے دائیں ہاتھ پر صرف ایک دیرینہ زخم کا نشان تھا جس کو میں نے اپنے ان مسکراتے دنوں میں کبھی غور سے نہیں دیکھا تھالیکن اب پھر سے میری سفید مخروطی انگلیوں کے جوڑوں پر زخم بننے لگے اور آخر یہ زخم گھریلو ذمہداریوں میں مخل ہونے لگے۔ ان زخموں کی وجہ سے میں اپنے شوہر کو وقت پر کھانانہ دے سکتی تھی ، کبھی ان کے کپڑے دھو کر استری کرنے میں تاخیر ہو جاتی۔ وہ میری بیماری کے متعلق جانتے تھے لیکن اپنی کار و باری مصروفیات کی وجہ سے ڈاکٹر کے پاس نہیں لے جا سکتے تھے۔ میں بھی اصرار نہیں کرتی تھی۔البتہ خود علاج کراتی رہی۔ چھپ کر پیروں فقیروں کے پاس جاتی ، سوچتی کہ کہیں ایسانہ ہو میرے ہاتھوں کے یہ زخم دل کے زخم بن جائیں۔ وقت گزرتا گیا لیکن زخم نہ بھرے۔ان کو دیکھ کر خالو  جان مصلحت زبان سے کچھ نہ کہتے لیکن ان کی نگاہوں سے ٹپکتی کراہت میری روح کو زخمی کر دیتی تھی۔ یہ وہی خالو  جان تھے جو میرے کھانوں کی بے حد تعریف کرتے تھے ، اب نقص نکال کر اٹھ جاتے تھے۔ انہی دنوں مجھ پر بیماری کا پھر حملہ ہوا۔ شروع میں معمولی نوعیت تھی مگر انجام کار سراج  بھی مجھ سے دور ر ہنے لگے ۔ ان کی چاہت کار نگ پھیکا پڑنے لگا۔ وہ خواب جو میں نے زندگی کے دلنشیں سفر کے بارے میں سجاۓ تھے- بکھرنے لگے۔ گھر کاماحول گھٹن آمیز ہوتا جاتا تھا۔ دیواروں سے لپٹی پھولوں کی بیلیں بر ہنہ ہو چکی تھی۔ دھوپ اتر آئی تھی کہ ان پر خزاں چار ہی تھی۔ اس کے بعد کے دنوں میں مایوسی در آنے لگی۔ یوں معلوم ہوتا کہ میری دعائیں بے اثر ہوتی جاتی ہیں مگر قبولیت کے در کھلنے کی میں منتظر تھی۔اس گھٹن زدہ ماحول میں بھی گزرا کر لیتی لیکن سراج  جیسے نفاست پسند شوہر کو زخمی انگلیوں والی عورت کے ساتھ زندگی گزار نا پسند نہ تھا۔ میرے خیال میں ایک عورت تو اپنی خوشیاں قربان کر کے معذور شخص کے ساتھ رہ سکتی ہے لیکن ایک مرد بیمار اور انگلشت فگار بیوی کی وفا کے بدلے اپنے عیش و آرام کو قربان نہیں کر سکتا۔ اب یہ ہونے لگا کہ میں اگر ان کی کسی چیز کو چھو لیتی تو وہ آنکھ بچا کر اسے کباڑ خانے میں پھینک آتے اور میں خاموشی سے اس تحقیر کو سہنے پر مجبور تھی۔ میں تنہائی میں رورو کر خدا سے دعامانگی… اللہ میرے ہاتھوں کے زخموں کو ٹھیک کر دے تا کہ میری ازدواجی زندگی تباہ ہونے سے بچ جاۓ مگر یہ دعاخدا کی بارگاہ میں باریاب نہ ہو سکی۔ آخر کار سراج  نے میری بیماری کو لا علاج سمجھ کر پہلے کنارہ کیا اور پھر طلاق دے دی۔ میں مجبور و بے بس اسی دہلیز پر لوٹ آئی جہاں سے میری ڈولی نکلی تھی۔ جنہوں نے جنم دیا تھا، انہوں نے پھر سے گلے لگالیا۔ ماں نے مجھے ایسے اپنی بانہوں میں بھر لیا جیسے میں ننھی بچی ہوں۔ والد صاحب نے بھی سر پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا۔ بیٹی جب تک زندہ ہوں ، تجھ کو ملال کرنے کی ضرورت نہیں۔ ابو نے مجھ کو لخت جگر جانا، سراج  کی طرح امر بیل نہیں سمجھا۔ حالانکہ وہ بھی میر امحافظ تھا اور ابو بھی لیکن شوہر اور باپ کی محبت میں فرق ہو تا ہے ۔ ماں باپ اولاد کے لئے مال وزر تو کیا، جان بھی قربان کر دیتے ہیں۔ علاج کے لئے ابو مجھے لے کر نگر نگر گھومتے رہے ۔ پیر فقیر ، طبیب، سنیاسی ، ڈاکٹر، حکیم، غرض کس کے پاس لے کر نہیں گئے۔ کچھ عرصہ کسی دوا سے افاقہ ہوا بھی تو ہفتہ بعد بیماری پھر سے عود کر آئی۔کئی بار پرائیویٹ ڈاکٹروں کے کلینک میں بھی زیر علاج رہی۔ افاقہ عارضی ہوتا، پھر سے سوکھے زخم ہرے ہو جاتے تھے۔ آخر کار وقت نے مجھے سول اسپتال پہنچادیا۔ یہاں کے ڈاکٹر قابل تھے۔ وہ میری بیماری سے مایوس نہیں تھے۔ وہ مجھے لا علاج نہیں کہتے تھے۔ خدا جانے کیسی بیماری تھی ، دوا اثر کرتی تھی لیکن مستقل شفا یابی نہ ہوتی تھی۔ اسپتال کے بستر پر میں اچھے ہونے کے انتظار میں لمحہ لمحہ مرتی رہی۔ یہاں اسپتال کا ماحول ایسا تھا کہ رات گئے سناٹا ہو جاتا تھا۔ سب سو جاتے ،اک مجھے نیند نہ آتی ، نیند کس طرح آسکتی تھی ، زخمی بدن پر ماضی کی تلخ یادوں کے ناگ بھی تو پھن پھیلاۓ بیٹھے تھے۔ سوچتے سوچتے رات گزر جاتی کہ خدا تو اپنے بندوں پر مہر بان ہے ، پھر میری تقدیر میں اتنی مختصر خوشیاں کیوں لکھی گئیں؟ باباجان کے گھر میں اکثر خاموش رہتی تھی۔ ان پر یہ ظاہر نہ کرتی کہ اپنوں کے خنجر سے اپنی روح کو زخمی ہو تا دیکھ کر میری کتنی راتیں آنسو بہانے اور خدا سے فریاد کرتے گزرتی ہیں۔ مجھے اپنے والدین سے بہت پیار تھا، ان کو بالکل بھی دکھی نہ کر نا چاہتی تھی۔ آخر تک بابا جان مایوس نہ تھے۔ وہ بڑے بڑے ڈاکٹروں سے علاج کے لئے رجوع کرتے رہتے تھے۔ شاید ان کا خیال ہو گا کہ میں ایک بار مکمل شفایاب ہو جاؤں تو وہ پھر سے میراگھر بسانے کا اہتمام کر دیں۔ جن دنوں سراج  نے مجھے طلاق دی، میرے اند ر ایک نئی زندگی نمو پارہی تھی۔ میں اب یہی سوچ سوچ تھک جاتی تھی کہ اس نئی زندگی کی پرورش اور مستقبل کا کیا ہو گا۔ ان دنوں میرے پاس ماضی کے تلخ تجربے تھے مگر کوئی امید کی کرن نہ تھی ،اگر امید کی کرن تھی تو میرے لئے آنے والی اولاد تھی جس کے لئے ارادے باندھتی تھی۔ کیسے اپنے بچے کو اپنے ہاتھوں سے پروان چڑھاؤں گی ۔ آو! یہ ارادے میری بد نصیبی کے اند ھیروں میں ڈوب گئے۔ میرے ایک بچی ہوئی لیکن وہ بھی میرے مرض کی زد سے نہ بچ سکی اور اپنے خالق کے پاس پہنچ گئی۔امید کے اس چراغ کے بجھتے ہی میرے دن رات ہمیشہ کے لئے ویران ہو گئے۔ اب زندگی کا کوئی مقصد نہ تھا۔ پے در پے محرمیوں کے بعد اپنی خود اعتمادی کے بل بوتے پر میں اباجان کے گھر خود کو ایڈ جسٹ کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ زخمی انگلیوں کے باوجود امی کا ہاتھ بٹانے کی کوشش کرتی۔ اگر زخم بدلتے موسم کے ساتھ خشک ہو جاتے تو باباجان کی پسند کا کھانابناتی ، بھیا کا کوئی کام ہوتا تو کر دیتی۔ یہ سب لوگ میرا بہت خیال رکھتے تھے۔ کوشش کرتے تھے کسی طرح بھی میری دلآزاری نہ ہو ۔ کچھ عرصہ یو نہی بیت گیا۔ میں بظاہر پر سکون تھی لیکن اکثر راتیں حال اور مستقبل کی تکلیف دہ سوچوں سے آنسو بہاتے گزرتی تھیں۔ میری صحت یابی کے لئے امی جان و ظائف کا ورد کرتی رہتی تھیں مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ میری بیماری بڑھتی جاتی تھی۔ زخموں نے ہاتھوں کے بعد کف پا میں بھی جگہ بنالی۔ وہ چال جس کو کھبی سہیلیاں ہر نی کی قلانچیں کہتی تھیں ، اب قدم پھونک پھونک کر بھی زمین پر رکھتی تو بھی تکلیف ہوتی، ہر قدم پرٹیس اٹھتی۔ میرار نگ بیماری سے سیاہ ہو تا جار ہا تھا اور سنہرے بال جڑ چھوڑتے جاتے تھے۔ آنکھیں اندر کو دھنس گئی تھیں۔ عرصے بعد کوئی مجھ دیکھ کر پہچان ہی نہ پاتا تھا کہ میں وہی گل ناز ہوں۔ ماں باپ کے زیر سایہ اس گلشن شفقت میں جیسے تیسے خزاں کا جھو نکا بن کر گزار ہ ہور ہا تھا۔ دل اور جسم ضرور جلتے رہتے تھے۔ لیکن بابا جان اور امی جان کی محبت ٹھنڈی چھاؤں نے مجھے خاکستر ہونے سے بچاۓ رکھا۔ بھائی کی شادی ہو گئی ، تب اس خاتون کی نگاہوں نے مجھے شدت سے احساس دلایا کہ میری انگلیوں کے زخم سے ان کو کس قدر کراہت آتی ہے۔ بھابھی کے تحقیرانہ جملے میری روح کو آبلہ دار بناتے جاتے تھے۔ ان کے آنے سے پہلے بھی میری زندگی اگرچہ بے مقصد تھی مگر میں نے اپنی زندگی ماں باپ اور گھریلو مصرو فیات کے لئے وقف کر دی تھی۔ یہ صرف میری قوت ارادی اور والدین کی محبت کا کرشمہ تھا جس نے مجھے اس حال میں بھی طاقت بخشی ہوئی تھی۔ اب گھر میں ایک ہی فردایسا تھا جس کی چھبتی نگاہیں مجھے جینے نہیں دیتی تھیں ، اور یہ بھا بھی تھی جو میرے ہاتھوں ہی سے نہیں، میرے تمام وجود سے کراہت محسوس کرتی تھی۔ وہ میرے پاس بیٹھنے سے ، مجھ سے کلام تک کرنے سے ڈرتی تھی۔ میں جس شے کو چھولیتی ، وہ اس سے دور بھاگ جاتی۔ می دن بہت کٹھن تھے۔ میں اپنے والدین کے گھر میں بھی اچھوت ہو گئی تھی۔ بابا جان کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ میں اپنی بیماری کے باوجود ان کی خدمت کرتی۔ بالآخر بابا جان کا سائبان بھی جاتارہا۔ ان کی وفات کے بعد تو مجھے لگا جیسے دو پہر کی تپتی دھوپ میں ننگے پاؤں نکل آئی ہوں۔ بابا جان کی وفات کے بعد امی کی بجاۓ بھابھی کی گھر پر حکمرانی ہو گئی۔ حالات کی حدت بڑھنے لگی۔ گھریلو کام کاج سے میرا واسطہ مکمل طور پر ختم کر دیا گیا۔ اب مجھے اپنے کمرے سے باہر آنے کا حکم نہ تھا۔ ، آج بھی مجھے وہ تپتے دن ، جلتی را تیں یاد ہیں جب میں تنہا اپنے کمرے میں محدود کر دی گئی تھی اور ملازم مجھے دور سے کھانا دے دیا کرتے تھے ۔ امی جان بھیچھپ کر میرے کمرے میں آتی تھیں کیونکہ دلہن بھابھی ماہم کا خیال تھا کہ امی جان کی وجہ سے میری بیاری کے جراثیم گھر کے دوسرے افراد میں منتقل ہو جائیں گے۔ رفتہ رفتہ بیماری اس نہج پر پہنچی کہ اعصاب جواب دے گئے۔ جسم کے عضلات سکڑ نے لگے۔ اس تنہائی اور اند ھیرے میں روح کے تمام زخم بھی رسنے لگے۔ بھابھی کو میرا زخم زخم وجود اب گھر میں بوجھ نظر آنے لگا۔ کیو نکہ سب کو یقین تھا یہ زخم اب جسم پر بھی ابھریں گے ۔ یوں مجھے اسپتال پہنچادیا گیا۔ ایک ڈاکٹر صاحب نے آس دلائی کہ اس بیماری سے شفا ہو گی ، وہ ضر ور علاج کریں گے۔ یہاں کا ماحول گھر کے ماحول سے مختلف تھا۔ یہاں مریض یا ان کے رشتے دار میرے زخموں کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ وہ مجھ سے ہمدردی کرتے تھے اور میری نامراد جوانی پر افسوس کرتے تھے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ غیر تو ہمدردی کے دو بول بول جاتے مگر بھائی اور رشتے دار الفاظ کے نشتر چلاتے ، پھر تو غیر بھلے تھے جو دکھتے دل پر تسلی کے جملوں سے ٹھنڈی شبنم تو بر ساجاتے تھے۔ ایک امی تھیں کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر میری صحت یابی کی دعا کرتی تھیں۔ حالانکہ اب تو میں اس زخم زخم زندگی کی خو گر ہو چکی تھی۔ اک وہ مایوس نہ تھیں خدا کی رحمتوں سے اور اک وہ ڈاکٹر صاحب – بالآخر ماں کی دعائیں اور ڈاکٹر صاحب کی محنت رنگ لائی اور میری انگلیوں کے زخم بہتری کی طرف جانے لگے ۔ رفتہ رفتہ میں روبہ صحت ہوتی جارہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے مزید چھ ماہ اور میر اعلاج ہو گا تو مکمل صحت یابی مجھے نصیب ہو جاۓ گی۔ تبھی میں بھی اس امید پر اور زندگی جی رہی ہوں۔ تمام نرسیں ، ڈاکٹر زاور وارڈ کا عملہ مجھ سے خاص مہر بانی سے پیش آتا ہے تو اور زیادہ جینے کو جی چاہتا ہے کہ ابھی دنیا میں نیک لوگ باقی ہیں جو دوسروں کو جینے کا آسرا دیتے ہیں۔ آج ڈائری لکھتے لکھتے صبح ہو گئی ہے ، عملہ بستروں کی چادر میں وغیرہ بدلنے کو آنے والا ہے ، وارڈ بواۓ میز پر پڑے گلدان سے پھول نکالے گا اور ان کی جگہ تازہ پھولوں کا گلدستہ سجادے گا۔ یہ یہاں کا معمول ہے ، مریض آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ میں مگر چھ ماہ اور یہاں رہوں گی ، وودن ضر ور آۓ گا جب میں بھی صحت یاب ہو کر اپنے گھر چلی جاؤں گی مگر میں بھول رہی ہوں میراگھر ہے کہاں…؟ ماں نے البتہ وعدہ کیا ہے کہ وہ کراۓ کا مکانلے لیں گی اور تاحیات میرے پاس رہیں گی۔ بھلے سے کرائے کا گھر ہو گا لیکن وہاں مجھے کوئی حقارت سے تو نہ دیکھے گا۔ لیکن زندگی کو کچھ اورہی  منظور تھاشاید قدرت کو مجھ پرابھی بھی  رحم نہیں آیا تھا جوں جوں میری  بیماری کم ہو رہی تھی ساتھ ساتھ میری ماں کی صحت بھی دم توڑ رہی تھی جس دن میری ماں نے مجھے ڈسچارج کروا کر اس کراۓ کے مکان میں لے جانا تھا جو میرا مسکن تھا ، میری ماں ہی اس دنیا سے منہ موڑ گئی – بھابی اور بھی تو پہلے بھی منہ نہ  لگاتے تھے اب تو وہ مجھے منحوس بھی قرار دینے لگے تھے – تبھی ہسپتال کی آیا جی جو مجھے اس کسمپرسی کے عالم میں دیکھتی آئی تھیں اپنے گھر لے گئیں – ان کا بھی اس دنیا میں کوئی اپنا نہ تھا – وو عزت بھی دیتی ہیں احترام اور پیار بھی کرتی ہیں پرمیرے  اپنوں نے مجھے مار ڈالا – آج بھی سوچتی ہوں کہ یہ ماں جی نہ رہیں تو میرا کیا ہو گا ؟

Latest Posts

Related POSTS