ہماری اقربا کالونی کافی بڑی تھی، جس کو ہم ویڑا کہتے تھے کیونکہ اس ویڑے میں صرف قریبی رشتہ دار ہی رہتے تھے سب کے مکان الگ الگ مگر صحن ایک تھا۔ یہ ویڑا تقریباً چار بیگھے زمین کے گرد چاردیواری بنا کر آباد کیاگیا تھا، جس کے اندر پانچ گھرانے آباد تھے، جس میں ایک گھر بمارا تھا باقی تین گھروں میں میرے تینوں چچا اور چوتھا گھر پھوپھو کا تھا۔ محبت اس ویڑے کی روح تھی۔ میں اسی محبت بھرے سسٹم میں پلی بڑھی، ہم سب بچوں کی تعداد بیس پچیس کے قریب ہوگی۔ ہم سب اکٹھے کھیلے، بچپن بہت خوش رنگ تھا۔ لگتا تھا ، وقت تھما ہوا ہے۔ مرضی سے سونا، مرضی سے جاگنا، یہ دن خواب ایسے گزر گئے۔ بچپن گزر گیا ، یادیں چھوڑ گیا۔ وقت پر کس کا بس چلتا ہے ۔ یہ وہ پنچھی ہے جس پر آج تک کوئی گرفت نہیں کر سکا۔ وقت نے ہمارے خاندان کو بھی تازیانہ لگایا۔ اور بسا بسایا اکٹھ تتر بتر ہو گیا اور ہم جو محبت کے دھاگے میں لپٹے ہوئے تھے، دانہ دانہ ہو کر بکھر گئے۔ دادا جان کے فوت ہوتے ہی وہ دھاگہ ٹوٹ گیا جس نے سارے خاندان کو ایک لڑی میں پرو رکھا تھا۔ اب سبھی کو اپنی اپنی پڑ گئی۔ چھوٹے چچا امی اور پھوپھو یہ تینوں گائوں کی زندگی سے تنگ تھے اور شہر منتقل ہونا چاہتے تھے جبکہ گائوں میں سکون تھا۔ آزادی نہ تھی لیکن محبت تھی۔ اچھے تعلیمی ادارے عنقا تھے مگر شہر میں سکونت اختیار کرنے کے لئے کافی سرمایہ درکار تھا۔ ہمارے خاندان میں سرمایہ صرف ہماری زمین تهی اور زمین سے ہی علاقے میں عزت تھی ۔ دو بھائی مصر تھے زمین بیچ کر شہر جابسیں اور دو بھائی راضی نہ تھے کہ زمین کا بٹوارہ ہو۔ اسی پر بھائیوں میں تلخی بڑھی، جھگڑا ہوا اور دلوں میں دوریاں ہو گئیں۔ رشتوں کی شیرینی میں کڑاوهٹ گھل گئی۔ آخر کار بٹوارہ ہوگیا۔ چچا اور پھوپھو نے اپنے حصے کی زمین فروخت کردی اور سرمایہ لے کر شہر چلے گئے۔ شہر میں انہوں نے ایک ہی کالونی میں قریب قریب گھر خرید لئے۔ شہر میں ہم بچوں کو اچھےا سکولوں میں داخل کروا دیا گیا۔ یہاں آبسنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں پر بھی تعلیم کے دروازے کھل گئے۔ گرچہ خاندان کا شیرازہ بکھر گیا۔
وقت پر لگا کر اُڑتا رہا میں تیسری جماعت سے اب ساتویں میں آ آگئی۔ ایک دن اسکول سے گھر آئی تو پتا چلا کہ چچا جان کاخط آیا ہوا ہے۔ لکھا تھا۔ آپ لوگوں نے صحیح فیصلہ کیا تھا، بچوں کے مستقبل کی خاطر اور ہم نے بھی درست فیصلہ کیا تھا، اپنے بڑوں کے نام و نمود کی خاطر۔ اب سوچتا ہوں کہ جھگڑا ناحق کیا تھا۔ تاہم گوشت سے ناخن جدا نہیں ہو سکتا۔ اب بہاول کا مسئلہ ہےاور یہاں اسکول مڈل تک ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کو آپ کی طرف بھیج دوں تا کہ آپ کے گھر رہ کر یہ شہر کے کسی اچھے اسکول میں تعلیم حاصل کر سکے۔ خط ملتے ہی امی ابو سوچ میں پڑ گئے کہ بہاول کو اپنے پاس رکھیں یا نہ رکھیں!گائوں میں رہتے ہوئے تو ایسے فیصلوں کے وقت ایک لمحے بھی سوچنا نہیں پڑتا تھا مگر شہر میں رہ کر شہریوں جیسی خُوبُو سے آشنا ہو گئے تھے۔ کوئی قدم اٹھانے سے پہلے کئی بار سوچنا پڑتا تھا۔ گائوں میں بھائیوں کے سپوت بھی اپنے ہی جگر گوشے ہوتے ہیں مگر شہر میں اپنے پرائے ہو جاتے ہیں۔ ایک ہفتہ کی سوچ بچار کے بعد والد صاحب نے اس کشمکش سے چھٹکارا حاصل کرلیا۔ بھائی کی محبت نے جوش مارا اور انہوں نے خط کا جواب لکھ دیا کہ آپ بہاول کو روانہ کردیں۔ آپ کا بیٹا، میرا بھی بیٹا ہے۔ چچا کا گھر اپنا گھر ہوتا ہے۔ میں اسے شہر کے بہترین اسکول میں داخل کروا دوں گا ۔ آج سے آپ اس کی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہیں۔ اب بہاول میری ذمہ سے داری ہے۔ خط ملتے ہی بہاول نے روانگی پکڑ لی اور ہمارے گھر پہنچ گیا ۔ والد صاحب نے اسے ایک اچھے اسکول میں داخل کروا دیا۔ بہاول کے آنے کی سب سے زیادہ خوشی مجھ کو ہوئی کیونکہ وہ ہمارا بچپن کا ساتھی تھا۔ میری سب سے زیادہ اسی کے ساتھ بنتی تھی۔ سب بچوں میں وہی مجھ سے زیادہ قریب تھا، میرا خیال رکھتا تھا۔ کسی بچے سے لڑائی ہو جاتی تووہ ہمیشہ میری حمایت کرتا ۔ یہ ذہنی ہم آہنگی کا تعلق اب بھی قائم تھاجو ایک سنہری یاد بن کر میرے اندر آباد تھا۔ اس کے آنے سے میری تنہائی دور ہو گئی تھی۔ ہم شام کو لان میں اکٹھے بیٹھ کر چائے پیتے اور اکٹھے اسکول کا کام کرتے۔ ہمارے مل بیٹھ کر باتیں کرنے پر، گھر والوں کو اعتراض نہ تھا۔ میرے والدین کا خیال تھا کہ وہ جب پڑھ لکھ کر کسی لائق ہو جائے گا تو میری اس کے ساتھ شادی کر دیں گے۔ میں نے میٹرک پاس کرکے کالج میں داخلہ لے لیا اور اس نے کالج میں سائنس لے لی کیونکہ انجینئر بننا چاہتا تھا۔ اس کو انجینئر بننے کا بے حد شوق تها، تبھی وہ خوب محنت کر رہا تھا۔ امی نے باتوں باتوں میں اس کو جتلا دیا تھا کہ تم کچھ بن کر دکھائو۔ تبھی تم کو تمہاری مراد مل سکتی ہے۔بہاول خوب سمجھتا تھا کہ تائی کیا کہنا چاہتی ہیں۔ دن رات محنت کرکے اس نے اچھے نمبر لئے تو انجینئرنگ میں داخلہ مل گیا ۔ وہ لاہور چلا گیا۔ اس کے جانے سے مین ہی نہیں، سارا گھر اُداس ہو گیا۔ وہ یہاں تھا تو لگتا تھا کہ موسم خزاں میں بھی بہاروں کا راج ہے۔ اب تو بہار بھی خزاں جیسی ہو گئی تھی۔ بارہویں کے بعد میرا تعلیمی سلسلہ ختم ہو گیا۔ کیونکہ انہی دنوں میرے ماموں اپنی فیملی کے ہمراہ کراچی سے ہمارے گھر آئے۔انہوں نے امی سے کہا۔ لڑکیوں کو زیادہ کیا پڑھانا، انہوں نے تو گھر بسانا ہوتا ہے۔ زیادہ تعلیم یافتہ لڑکیاں عمدگی سے گھر نہیں بسا سکتیں۔ وہ گھریلو کام کاج کو اپنے شایان شان نہیں سمجھتیں۔ بہتر ہے کہ تم لڑکی کو کالج اور یونی ورسٹی کے چکر سے نکال کرگھر بٹھا لو گھر داری اور کوئی بہتر ہنر سکھائو۔ امی ماموں سے بہت پیار کرتی تھیں۔ انہوں نے فوراً ان کا مشورہ مان لیا گرچہ ابو مجھے مزید تعلیم دلوانا چاہتے تھے مگر والدہ نے اپنی مرضی کرلی مجھے کالج چھوڑنے کا بہت غم ہوا۔ سوچتی تھی کہ تعلیم کی خاطر ہی تو ہم گائوں چھوڑ کر شہر آئے تھے۔ اپنا سندر، پیارا ویڑا چھوڑا ، جہاں سب کے ساتھ رہنے کا ایک اپنا بی مزه تھا۔ عزیزوں میں جدائی پڑی۔ تب بھی امی کو اعلیٰ تعلیم اپنے بچوں کو دلانے کا خبط سوار تھا اور اب انہوں نے اپنے بھائی و بهابهی کے کہنے پر خود اپنے پائوں پہ کلہاڑی مارلی۔ کلہاڑی دراصل ماموں ممانی نے میری خوشیوں پرماری تھی۔ ان لوگوں نے امی کے ساتھ مل کر چپکے چپکے ایک پلان بنایا۔ وہ مجھ کو اپنی بہو بنانے آئے تھے۔ ان کا ایک بیٹا تھا اور بیٹی ۔ بیٹے کا نام زیرک تھا اور بیٹی تہمینہ تھی۔ دونوں ساتھ آئے تھے۔ تہمینہ کچھ مغرور سی تھی، میری اس کے ساتھ نہ بنی ۔ اس سے واجبی سی بات چیت ہو جاتی تھی البتہ زیرک نے مجھ کو دیکھتے ہی پسند کر لیا اور ماں سے کہا کہ میں شادی اسی لڑکی سے کروں گا، ورنہ عمر بھر کنوارا رہوں گا۔ وہ ماں باپ کا اکلوتا تھا۔ وہ اس کی بات نہیں ٹا لتے تھے۔ انہوں نے امی کو گھیرا اور کہا کہ ہم تو بے مراد نہ جائیں گے۔ تمہاری بیٹی کا رشتہ لے کر جائیں گے۔ امی کو محبت تو اپنے بھانجے سے تھی، لیکن ابو کی وجہ سے رشتہ ادھر دینے سے ہچکچا رہی تھیں۔ جانتی تھیں کہ شوہر کا خیال اپنے بھتیجے کو داماد بنانے کا ہے اور یہ خیال اس وقت سے ہے جب میں پیدا ہوئی تھی۔ امی یہ بھی جانتی تھیں کہ ابو آسانی سے ان کی بات ماننے والے نہیں مگر ان کو منانا لازمی تھا، ورنہ ماموں ممانی روٹھ جاتے اور میکے میں امی کا بس یہی ایک رشتہ تھا، جس کا انہیں مان تھا۔ والده بھی دل کی ٹھنڈک ہوتی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں عورت مجبور ہوتی ہے اور وہ میکے کے سہارے کو عمر کے کسی دور میں بھی کھونا نہیں چاہتی۔
میکے کا سہارا عورت کے لئے کڑی دھوپ میں چھائوں جیسی حیثیت رکھتا ہے۔ خدا جانے کب ، کس، وقت، کس بات پر اور کس عمر میں خاوند ناراض ہو جائے۔ گھر سے نکال دے طلاق پکڑا دے ، تب عورت کہاں جائے۔ میکے کا در کھلا ہو تو سسرال والے بھی گھر سے نکال باہر کرنے کی دھمکی دینے سے ڈرتے ہیں۔یہ بھی ایک وجہ تھی لیکن یہ بات بھی اٹل تھی کہ ماں اور ماموں میں محبت بھی انتہا درجے کی تھی۔ اولاد کی خوشی تو کیا، امی اپنے بھائی پر جان بھی قربان کر سکتی تھیں۔ میرے دل کی کیفیت کو وہ سمجھتی نہ تھیں، شاید تبھی انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ میری شادی ہر حال میں زیرک سے کریں گی، تبھی تو مجھ سے پوچھنا بھی گوارا نہ کیا۔ جب کالج جاتی تھی تو زندگی کی ایک روٹین سی بن گئی تھی۔ اب کالج بند ہوا تودل بہت گھبرایا۔ امی نے ماموں کو مجبور کیا کہ تم بھی کراچی چھوڑ کر بہاولپور میں گھر لے لو ، تب ہی میں تم کو بیٹی کا رشتہ دوں گی۔ ماموں نے ایسا ہی کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ زیرک دن رات اب ہمارے ہی گھر پر رہنے لگا ۔ سچ بات تو یہ ہے کہ زیرک ایسا برا نہ تھا۔ وہ خوبرو تھا۔ ہونہار طالب علم تھا اور سی ایس ایس کی تیاری کر رہا تھا۔ اس کا مستقبل روشن تھا۔ ماموں کی کافی جائیداد اور زرعی زمین بھی تھی ، وہ بہت خوشحال تھے۔ ماموں نے امی سے کہا کہ میں اپنی آدھی جائیداد ، ابھی اور اسی وقت تمہاری بیٹی کے نام لکھ کر دینے کو تیار ہوں۔ تم رشتے سے انکار مت کرنا۔ امی نے آہستہ آہستہ ابو کو منا لیا۔ ان کی لاکھوں کی جائیداد میرے نام ہو رہی تھی۔ تب امی نے میرا رشتہ زیرک کو دینے کی ہامی بھرلی۔ یوں میری امید کا آخری چراغ بھی بجھ گیا۔ بہاول کو خبر نہ تھی کہ کیا ہونے جارہا ہے، میری انگلی میں زیرک کے نام کی انگوٹھی پڑ چکی تھی۔ منگنی کے بارے میں امی نے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ مبادا ، پھوپھو ، تایا، چچا، سب ایک ہو کر مخالفت پر اتر آئیں یوں بنا بنایا کام بگڑ جائے گا۔ بہاول نے جب سے انجینئرنگ میں داخلہ لیا تھا، چھٹیوں میں اپنے والدین کے پاس گائوں چلاجاتا تھا۔ وہ ادھر کم ہی آتا تھا کیونکہ امی اب اس کو زیادہ لفٹ نہیں کراتی تھیں۔ مجھ پر بھی پابندی لگا دی کہ میں اپنے چچا زاد سے زیادہ بات چیت نہ کروں۔ ایک دن بہاول آیا، امی گھر پر نہ تھیں۔ اسے مجھ سے بات کرنے کا موقعہ مل گیا۔ میں نے سوچا وقت ہے کہ اس کو حقیقت سے آگاہ کردوں۔ خدا جانے یہ کیا سوچ رہا ہے اور جب عین وقت پر اصل معاملے کی خبر ہوگی تو اس کو دکھ ہو گا۔ میں جانتی تھی کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ میں بھی اس سے ہی شادی کی خواہش مند تھی۔ اب میری ہمت نہ پڑتی تھی کہ اس کو کیسے بتائوں، میری منگنی زیرک سے ہو چکی ہے۔ سوچ رہی تھی، کس طرح بات شروع کروں کہ اس نے خود مجھ سے پوچھ لیا۔ تمہاری انگلی میں یہ کیسی انگوٹھی ہے؟ کہیں تم نے منگنی تو نہیں کروالی، پھر خود ہی ہنس پڑا۔ بولا۔ میں مذاق میں پوچھ رہا تھا اور تمہارا منہ اُتر گیا۔ اچھا بھئی، شوق میں پہنی ہے تو لاکھ دفعہ پہنو لیکن یاد رکھنا، سگائی کسی اور سے نہ کروا لینا ۔ تمہیں سے میرا جیون ہے۔ میرا مستقبل میری زندگی تم سے ہی ہے۔ اگر تم نے اس موڑ پر مجھ سے منہ موڑ لیا تو میں ایک منٹ میں انجینئرنگ کو لات مار کر آجائوں گا اور کسی مزار پر فقیر بن کر بیٹھ جائوں گا۔ میں یہ ساری محنت تمہاری خاطر اور چچی کی شرط پوری کرنے کے لئے کر رہا ہوں۔ وہ اس قدر سنجیدہ تھا کہ میں سن رہ گئی۔ جو بات کہنا چاہتی تھی، وہ حلق میں پھنس کر رہ گئی۔ میری ہمت ہی نہ ہوئی کہ ایک لفظ آگے کہوں۔ بس اسی قدر بول پائی کہ فرض کرو ، میری انگلی میں یہ انگوٹھی منگنی کی ہے تو ؟ کلام اللہ کی قسم ایک منٹ کی دیر کئے بغیر کالج چھوڑ کر کسی مزار کا فقیر بن جائوں گا یا پھر دن رات مسجد میں بیٹھ کر اللہ اللہ کروں گا۔ میں سہم کر چپ ہو گئی، سوچا ، ابھی اس کو کچھ بتانے کا وقت نہیں ہے۔
یہ واقعی انجینئرنگ کالج کو چھوڑ آئے گا جبکہ وہ تین سال پڑھ چکا تھا اور اب آخری سال رہتا تھا۔ ایک سال تک میری شادی کا بھی امکان نہ تھا، کیونکہ میں نے امی سے منوالیا تھا کہ میں گھر پر پرائیویٹ طور پر تیاری کروں گی اور جب تک گریجویشن مکمل نہ کرلوں آپ میری شادی نہ کریں گی۔ ایک سال تک پانچ وقت نماز میں یہی دعا کرتی رہی کہ خدایا! کوئی معجزہ ہو جائے اور میری شادی زیرک سے نہ ہو۔ یہ منگنی ٹوٹ جائے اور میری شادی بہاول سے ہو جائے کیونکہ مجھ میں بغاوت کی ہمت نہ تھی ۔ ہمارے گھر کا ماحول ایسا نہ تھا کہ میں اپنی مرضی چلا سکتی یا بغاوت کرتی۔ مجھ کو ہرحال اپنے والدین کے آگے سر کو جھکانا تھا۔ میری دعائوں میں کوئی کمی تھی کہ اللہ نے میری ایک نہ سنی۔ میں نے گریجویشن مکمل کرلی تو ماں میری شادی کی تیاریوں میں لگ گئیں۔ انہی دنوں بہاول بھی انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کر کے گھر آ گیا۔ چچا چچی بہت شادمان تھے کہ ان کا بیٹا گائوں کا پہلا انجینئر بن چکا ہے۔ وہ خوش خوش میرا رشتہ مانگنے ہمارے گھر آ گئے۔وہ پہلی بار شہر آئے تھے اور اس یقین کے ساتھ کہ ان کا دامن مراد پھولوں سے بھر جائے گا۔ ان کو گمان بھی نہ تھا کہ ابو بدل چکے ہیں اور وہ بیٹی کا رشتہ دینے سے انکار کردیں گے۔ جب ابو نے بتایاکہ میں تو بیٹی کی منگنی زیرک سے کرچکا ہوں، چچی چچا سکتے میں رہ گئے بہاول کو تو اپنے کانوں پر یقین ہی نہ آیا۔یہ نہیں ہو سکتا۔ اختیار اس کے منہ سے نکل گیا کیوں نہیں ہو سکتا؟ ہم نے اپنی بیٹی کی منگنی تو تم سے نہیں کی تھی۔ جیسے تم ہم کو عزیز ہو، ویسے ہی زیرک مجھ کو عزیز ہے۔ امی نے بہاول کو کہا۔ اس پر تایا اور چچا بولے بھابھی لیکن پہلا حق شمیرا پر ہمارا ہے۔ امی رونے لگیں، بولیں۔ کیا ننھیال والے حق دار نہیں ہوتے ، کیا سارا حق ددھیال والے ہی سمیٹنے کے لئے ہوتے ہیں ۔ امی کے لہجہ میں تیزی تھی۔ ہمارا بیٹا انجینئر بن گیا ہے۔ اس نے بڑی محنت سے اپنا مستقبل بنایاہے۔ گائوں کا لڑکا ہو کر اس نے ہمت نہیں باری ۔ اگر بہاول انجینئر بن گیا ہے تو کیا میرا زیرک کچھ کم پڑھا لکھا ہے۔ ان شاء الله ! وہ کمشنر لگے گا۔ میں نے بھی غیروں میں یا ہلکے خاندان میں شمیرا کارشتہ نہیں کیا ،جو کوئی اعتراض کرے ۔ غرض اسی کے آگے وہ لوگ نہ ٹھہر سکے اور نہایت دلگرفتہ ، روتے دھوتے گائوں چلے گئے۔ ان کے ساتھ بہاول بھی چلا گیا۔ زیرک امتحان دے چکا تھا۔ نتیجے کا انتظار تھا۔ نتیجہ بھی آ گیا ۔ وہ مقابلے کے امتحان میں اچھی پوزیشن لے کر کامیاب ہو گیاتھا۔ بس پھر کیا تھا ،ماموں ممانی سرخرو ہو گئے اور ابو کو جو تھوڑا بہت قلق بھتیجے کارشتہ چھوڑنے پرتها ،وہ بھی جاتا رہا۔ میری شادی دھوم دھام سے زیرک سے ہو گئی۔ روتی دھوتی ، رخصت ہو کر میں ماموں کے گھر چلی گئی۔ کچھ دن بہت آزرده رہی، پھر رفتہ رفتہ شوہر سے مانوس ہو گئی۔ انہوں نے بھی میرا بہت خیال رکها کیونکہ مجھے پسند کرکے شادی کی تھی۔ وہ ضلع کے حاکم تھے اور میں ان کے دل کی حاکم تھی۔ دو سال بعد میں ایک بیٹے کی ماں بنی ،اگلے سال خدا نے ایک اور بیٹا دے دیا۔ میں بچوں کی پرورش میں کھو گئی۔ دل کا زخم دل میں دبا دیا۔ بظاہر میں خوش نظر آتی تھی اور خوش نہ رہنے کی کوئی بھی وجہ نہ تھی۔ سب کچھ مجھ کو حاصل تھا۔ بس ایک خلش تھی یہ کہ بہاول کی نہ بن سکی تھی لیکن میں نے خود کو سمجھا بجھا کر اس محرومی سے سمجھوتہ کرلیا تھا۔بعض لوگ سمجھوتے کرکے جی لیتے ہیں مگر بعض سمجھوتے نہیں کر پاتے تو خودکشی کرتے ہیں یا جیتے جی مر جاتے ہیں۔ بہاول نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ خودکشی نہ کرسکا لیکن جیتے جی مرگیا۔ اس نے اپنی قسم کو پورا کیا۔ وہ میری خاطر انجینئر بنا تھا ۔ اپنی قابلیت کو بروئے کار لانے کی بجائے میری خاطر مٹی میں مل گیا۔ وہ اپنے بوش سے بیگانہ ہو گیا۔ اس کو دنیا کی رنگینیوں سے دلچسپی نہ رہی اور کھانا پینا ، ہنسنا ، بولنا، سنورنا ، اوڑھنا سب چھوڑ کر گائوں کے ایک مزار پر جابیٹھا، جس کو لوگ وہاں پیر جی کامزار کہتے تھے۔ اس کے پڑھے لکھے دوستوں کو پتا چلا تو وہ اسے سمجھانے آئے اور سمجھا بجھا کر اپنے ساتھ لے گئے۔ کچھ دن دوستوں کے ساتھ رہا، پھر جب لوٹا تو مسجد میں جا بیٹھا۔ دن رات یاد الہی میں مصروف رہتا اور رات کو بھی وہاں ہی مسجد کے صحن میں پڑا سو رہتا۔ بہاول کے والدین اس کی حالت سے سخت پریشان تھے ۔ انہوں نے اس کو سمجھانے اور زندگی کی جانب لانے کی بہت کوشش کی لیکن اس پر کسی کے سمجھانے کا اثر نہ ہوا۔ بس وہ یہی کہتا تھا کہ میں زندہ ہوں، شکر کیجئے۔ تایا،تائی نے سوچا وقتی دکھ ہے، آپ ہی زندگی کی طرف لوٹ آئے گا۔ انہوں نے بہاول کو اس کے حال پر چھوڑ دیا لیکن وہ اپنی گم صم دنیا سے نہ نکل سکا۔ سچ ہے ہزاروں لاکھوں میں چند انسان ایسے ہوتے ہیں جو دل کے ہاتھوں پوری طرح خانماں برباد ہو جاتے ہیں ، پھر ان کو کسی خوشی، کسی ساتهی کسی گھر کی ضرورت نہیں رہتی۔ وہ اپنے آپ میں مست رہ کر دنیا کی ریاکاری سے نجات پا لیتے ہیں بہاول بھی ان ہی میں سے ایک تھا،جو جھوٹی زندگی کی جھوٹی خوشیوں سے سمجھوتہ نہ کرسکا۔ کچھ عرصہ بعد بالآخر امام مسجد صاحب کے سمجھانے پر وہاں سے گھر آگیا۔ جب کسی طور سکون نہ ملا تو سکون کی تلاش میں خدا جانے کس جانب نکل گیا۔ تب سے اب تک اٹھائیس برس ہونے کو آئے ہیں ،بہاول خدا جانے کہاں ہے؟