پاکستان ہجرت کے بعد میرے تین بہن، بھائیوں نے جنم لیا۔ ہوش سنبھالا تو کشور باجی اور اکبر بھائی کو بھی اپنے درمیان پایا۔ یہ راز بہت بعد میں کھلا کہ یہ ہمارے سگے بہن، بھائی نہیں ہیں بلکہ ہجرت کرتے وقت راستے میں کچھ مسلمانوں کی لاشوں کے درمیان پڑے ہوئے ملے تھے۔ دادا جان انہیں اپنے ساتھ لے آئے اور اپنے پاس رکھ لیا اور جب بیمار ہوئے تو والد کے سپرد کرکے ہدایت کی کہ یہ لاوارث نہیں ہیں، انہیں اپنی اولاد کی طرح پروان چڑھانا۔ ان دنوں میں تین برس کی تھی۔ باجی کشور اور اکبر ہمارے ساتھ پرورش پانے لگے۔ والد سب سے کہتے کہ یہ بھی میرے بچے ہیں، اپنے دادا دادی کے پاس تھے، اب لے آیا ہوں۔ ہمیں بھی یہی بتایا۔ میری عظیم ماں نے دونوں کو پیار سے پالا کبھی، ان میں اور سگی اولاد میں فرق نہ کیا۔
وقت گزرتا رہا۔ ہم سب جوان ہوگئے۔ میری شادی ہوگئی تو شوہر کے ہمراہ دیہات سے قریبی شہر آگئی۔ سلیم محبت کرنے والے شوہر تھے۔ بہت زیادہ خوشحال نہ تھے۔ ملازمت معمولی تھی، سفید پوشی میں کفایت شعاری سے گزر بسر ہوتی تھی۔ شادی کے بعد چار سالوں میں دو بچوں کی ماں بن گئی۔ تبھی محسوس کیا کہ سلیم کی موجودہ آمدنی کم ہے اور بچوں کے اخراجات کی وجہ سے اب اس میں گزارہ مشکل ہے۔
سلیم نے دوچار دوستوں سے مشورہ کیا۔ انہوں نے صلاح دی کہ آج کل سعودی عربیہ میں آپ جیسے ہنرمندوں کی مانگ ہے، وہاں جانے کی سعی کریں۔ سلیم نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور وطن چھوڑ کر بیرون ملک جانے کی ٹھان لی۔ ایک دوست کے توسط سے وہاں چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد میں گھر میں اکیلی رہ گئی، دو چھوٹے بچے بھی تھے۔ سلیم نے فون پر میرے والد سے استدعا کی کہ روشن اکیلی ہے۔ اس کے کسی بہن، بھائی کو شہر بھجوا دیں تاکہ میرے بچے اکیلے نہ ہوں۔
بہن، بھائی سبھی پڑھ رہے تھے۔ البتہ کشور باجی اور اکبر بھائی جو میٹرک کرچکے تھے، انہیں والد صاحب نے شہر میرے پاس بھجوا دیا۔ باجی کشور مجھ سے محبت کرتی تھیں۔ انہوں نے آتے ہی گھر سنبھال لیا اور اکبر بھائی نے میرے بچوں کو سنبھالنے میں مدد کی۔ مجھے ان کے آنے سے سکون مل گیا، تنہائی کا خوف بھی جاتا رہا۔ دونوں ہی میرے نزدیک سگے بہن، بھائی تھے۔ ابھی تک علم نہ تھا کہ یہ سگے نہیں ہیں اور نہ انہیں اس بات کی خبر تھی۔ پس ہم ہنسی خوشی رہ رہے تھے۔ ادھر سلیم ہر ماہ معقول رقم بھجوا دیتے تھے، ہمیں مالی تنگی نہیں رہی تھی۔
سعودی عربیہ جاکر سلیم نے بہت محنت کی۔ جو کچھ کماتے، ہمیں بھیج دیا کرتے، اپنے اوپر بہت کم خرچ کرتے۔ وقت گزرتا رہا اور ہم خوشحالی کی زندگی کے مزے لیتے رہے۔ اکبر کو شہر میں ملازمت مل گئی۔ وہ صبح جاتے اور شام پانچ بجے تک گھر آجاتے۔ البتہ کشور باجی سارا وقت میرے پاس رہتیں۔ وہ شادی کے قابل تھیں لیکن والدین نے میرے بعد میری چھوٹی بہن صبیحہ کی شادی کردی، کشور باجی کی نہ کی، شاید ان کے لئے مناسب رشتہ نہ ملا یا میری وجہ سے ان کی شادی میں والدین نے تاخیر سے کام لیا کہ میں اکیلی تھی، تاہم وہ اکبر کی دلہن ڈھونڈنے میں لگے ہوئے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اکبر کی شادی ہوجائے گی تو اس کی بیوی ہماری بیٹی کے پاس رہے گی اور ہم کشور کو واپس بلا لیں گے، تب تک اس کے لئے کوئی اچھا رشتہ بھی تلاش کرلیں گے۔
اللہ کی قدرت انہی دنوں کشور باجی کا ایک اچھا رشتہ شہر سے آگیا۔ میں نے امی کو آگاہ کیا کہ ہمارے پڑوسی صفدر کی عزیزہ آئی تھیں، کشور باجی کو پسند کرگئی ہیں۔ آپ کا ارادہ ہو تو بات کروں۔ امی نے کہا۔ ٹھیک ہے۔ مجھے ان لوگوں سے ملوائو، لڑکا دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔ میں نے روحی آنٹی سے ملوا دیا۔ رشتہ طے ہوگیا اور میں کشور باجی کی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہوگئی۔ ان کا ہونے والا جیٹھ ارسلان مجھے بازار لے جانے کے لئے آنے لگا۔
اگلے روز تین بجے کے قریب حسبِ معمول ارسلان آگیا۔ آج کشور باجی کے زیورات ہم نے سنار کے پاس سے اٹھانے تھے۔ بازار کے تمام کام ختم کئے تو واپسی میں اس نے گاڑی ایک ریسٹورنٹ کے سامنے روک لی۔ کہنے لگا۔ آیئے کچھ چائے وغیرہ ہوجائے، آپ تھک گئی ہوں گی۔ میں نے کہا۔ نہیں! بس چلو گھر، مجھے بھوک نہیں ہے۔ آپ کو بھوک نہیں ہے مگر مجھے تو ہے۔ تھوڑا سا کھا پی لیتے ہیں۔ سوچا کہ اس کی خواہش کا احترام ضروری ہے۔ ایک تو میری بہن کا ہونے والا جیٹھ ہے دوسرے میری شاپنگ کی خاطر روز اپنی گاڑی لے آتا ہے، ورنہ میں کسی صورت اکیلی بازاروں میں دھکے کھانے کی متحمل نہ ہوسکتی تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں گاڑی سے اتر گئی اور ہم ریسٹورنٹ کے فیملی روم میں جا بیٹھے۔ اس نے کھانے کا آرڈر دیا۔ ارسلان! اگر کھانا ہی کھانا تھا تو گھر چل کر کھاتے۔ کشور باجی نے تمہارے لئے بریانی بنائی ہوئی ہے۔ آپ کی کشور باجی میری ہونے والی بھابی ہیں، انہیں ابھی سے تکلیف دینا مناسب نہیں۔ یہیں کھا لیتے ہیں۔ یہاں کے کباب بہت عمدہ ہوتے ہیں، کھا کر تو دیکھئے، یاد کریں گی۔ اس نے پلیٹ میری جانب سرکا دی۔
تم کھائو، مجھے بھوک نہیں ہے۔ کیا میرا ساتھ نہ دو گی؟ اس نے گہری نگاہ سے مجھے دیکھ کر کہا تو میں اس کے اس بے تکلفانہ انداز پر حیران رہ گئی۔ اخلاقاً ساتھ دینے کے لئے دھیرے دھیرے کھانے لگی۔ محسوس ہوا کہ وہ نہیں کھا رہا ہے، اسے چونک کر دیکھا۔ وہ بڑی محویت سے میرے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔
کیا ہوا ارسلان…! میں نے جھینپ کر سوال کیا… کیا میری ناک پر مکھی بیٹھ گئی ہے۔ اگر مکھی بیٹھی ہوتی تو اڑا دیتا۔ آپ اپنی ناک پر مکھی بیٹھنے دیں گی تب نا!
مذاق چھوڑو، کھانا کھائو اور زیادہ باتیں مت بنائو، دیر ہورہی ہے۔ بس اب بھوک جاتی رہی ہے۔ یہ کیا ابھی تھوڑی دیر پہلے تمہیں بہت بھوک لگی تھی مگر اب دو لقمے بھی نہیں لئے۔ آپ کے لئے کباب منگوائے تھے۔ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ کھانا نہیں کھانا ہے۔ اب منگوا لیا ہے تو کھائو بھی، چکھتے ہی بھوک ختم ہوگئی ہے۔ مرچیں بہت ہیں۔ بس ایسا ہی ہوتا ہے بازار کا کھانا۔ دیکھنے میں عمدہ مگر… میں نے بات کاٹ کر کہا۔ تو مت کھایا کریں بازار کا کھانا! اسی لئے تو کہا تھا کہ گھر چل کر کھا لیتے ہیں۔
گھر ہے اور نہ گھر والی ہے، گھر کا کھانا کہاں سے کھائیں؟ گھر کیوں نہیں ہے اور گھر والی…! یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ شادی ہوئی تھی، وہ خاتون ہمارے ساتھ سیٹ نہ ہوسکیں اور ہمیں چھوڑ کر چلی گئیں لیکن والدہ نے آپ لوگوں کو یہ بات نہیں بتائی کہ ارمغان کی شادی کرنی تھی۔ بتا دیا تو کہیں آپ لوگ رشتہ دینے سے انکار نہ کردیں۔ یہ سوچ کر کہ جب بڑے بیٹے کا گھر آباد نہیں رہ سکا، بہو کو طلاق دے دی تو چھوٹے کا کیسے ہوگا۔
آپ کی والدہ نے ہمیں اتنا بتایا تھا کہ ابھی ارسلان کی شادی نہیں کی ہے۔ اسے کوئی لڑکی پسند نہیں آتی۔ یہ بھی سچ ہے پہلی شادی والدہ کی مرضی سے کی، راس نہ آئی اور اب دوسری شادی کے لئے کوئی لڑکی پسند نہیں آتی۔ اب جو آئی بھی تو اس سے شادی ناممکن ہے۔ میں نے پوچھا۔ وہ شادی شدہ ہے پھر کیسے شادی ہوسکتی ہے۔ میں سمجھ کر بھی نہ سمجھی اور نہ سمجھ کر بھی کچھ سمجھ گئی۔ موضوع بدل کر کہا۔ کھا لیا ہے تو چلئے صاحب! اس نے بل ادا کیا اور مجھے گھر لے آیا۔ سامان کار سے نکال کر دیا اور کہا۔ اجازت ہے، اب میں جائوں؟
اجازت ہے۔ آج میں نے رکھائی سے کام لیا، چائے تک کا نہ پوچھا۔ جاتے ہوئے وہ خجل سا نظر آیا۔ کشور باجی بولیں۔ یہ کیسی بداخلاقی ہے؟ میں چپ رہی۔ سوچ رہی تھی یہ بداخلاقی سہی لیکن بات آگے بڑھانا نہ چاہتی تھی۔ ارسلان کی والدہ آئیں۔ میں نے کہا۔ آنٹی! بیشتر کام نمٹ گئے ہیں باقی کے میں اکبر کے ساتھ مکمل کرلوں گی۔ اب آپ ارسلان کو مت بھیجئے گا۔ روزانہ آنے سے زحمت ہوتی ہوگی۔ بولیں۔ ارے نہیں بھئی! زحمت کیسی! اس کے چھوٹے بھائی کی شادی ہے۔ وہ تو بہت خوش ہے۔ وہ خوشی سے آتا ہے۔ تم کہاں رکشوں میں خوار ہوتی پھرو گی۔ غرض میرے منع کرنے اور نہ چاہنے کے باوجود وہ آجاتا۔
ایک روز میں نے کہا۔ ارسلان صاحب! اب آپ زحمت نہ کیا کریں، ساری خریداری مکمل ہوگئی ہے۔ کہنے لگا۔ مجھے ارسلان صاحب کیوں کہتی ہو؟ میں آپ کا صاحب کب سے ہوگیا؟ سیدھے سیدھے ارسلان کہا کرو اور خریداری مکمل نہیں ہوئی، جانتا ہوں تم مجھ سے خائف ہوگئی ہو۔ ارے بھئی ڈرو نہیں، میں ایک پڑھا لکھا آدمی ہوں، اخلاقی حدود و قیود جانتا اور سمجھتا ہوں۔ تمہاری باجی کشور کا ہونے والا جیٹھ ہوں، مقدس رشتوں کا احترام کرنا جانتا ہوں۔ غرض اس نے ایسی باتیں کیں کہ میں شرمندہ ہوگئی۔
اگلے دن وہ نہ آیا۔ کچھ پریشانی ہوئی۔ سوچا شاید مجھ سے دل آزاری ہوگئی ہے۔ میں نے خود کو احساس جرم میں مبتلا کرلیا، غرض ہفتے بھر تک ارسلان نے میرے گھر کا رخ نہ کیا۔ میں نے اکبر سے کہا۔ مجھے آنٹی روحی کے گھر لے چلو۔ کشور باجی کی شادی کی تاریخ رکھی جانی ہے۔ وہ کب کا ارادہ رکھتی ہیں، معلوم کرنا ہے۔
یہ اتوار تھا اکبر کی چھٹی کا دن تھا۔ اس نے کہا۔ گیارہ بجے تیار ہوجانا۔ ہم آنٹی روحی کے گھر گئے۔ باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ ارسلان بیمار ہے، وہ ہفتے بھر سے بستر پر پڑا ہے، اسی سبب نہیں آیا۔ میں نے کہا۔ آنٹی! خریداری کا کام تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔ جو تھوڑے بہت باقی ہیں، اکبر بھائی کرا دیں گے۔ اس بارے میں فکر مت کریں۔ میں تو ویسے ہی خیریت معلوم کرنے آئی تھی۔ آپ کو بتانا بھی تھا امی، ابو ایک ہفتے کے بعد شہر آرہے ہیں شادی کی تاریخ رکھنے کا ارادہ ہے۔ کہنے لگیں۔ دعا کرو ارسلان ٹھیک ہوجائے، میں جلد ازجلد تاریخ طے کرلینا چاہتی ہوں۔ اکبر بھائی نے ٹیلیفون لگوانے کے لئے درخواست دے رکھی تھی، فون لگ گیا تو بہت سہولت ہوگئی۔ اب سلیم سے بھی بات ہوجاتی تھی اور آنٹی روحی سے بھی…! ایک روز آنٹی کو فون کیا تو ارسلان نے اٹھا لیا۔ میں نے خیریت پوچھی۔ جواب دیا۔ میری زندگی کے دن گنے جا چکے ہیں۔ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی ہو تو کہا سنا معاف کردینا۔ اللہ نہ کرے۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں…؟
میں سچ کہہ رہا ہوں۔ کہو تو اپنی میڈیکل رپورٹ دکھا دوں؟ یہ راز صرف تم ہی کو بتا رہا ہوں، گھر والوں کو نہیں بتایا کہ ارمغان کی شادی ہونے والی ہے، رنگ میں بھنگ نہ پڑ جائے۔ میرے بھائی کی بخیرو خوبی شادی ہوجائے تو پھر ان کو آگاہ کروں گا۔ اگلے دن وہ آیا۔ مجھے قسم دے کر کہا۔ سچے دوست کی طرح صدق دل سے وعدہ کرو تو رپورٹیں دکھائوں۔ میں پہلے تو ہچکچائی پھر قسم کھائی تب اس نے رپورٹ پڑھ کر سنائی جس میں بلڈ کینسر تشخیص کیا گیا تھا۔ مجھے ایسا دکھ ہوا کہ بے اختیار آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ کہنے لگا۔ پگلی…! روتی کیوں ہو؟ ہم سبھی فانی ہیں، آج نہیں تو کل ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے لیکن جتنے دن زندگی کے باقی ہیں، کیوں نہ رونے دھونے کی بجائے ہنس بول کر گزار لیں؟ سچ ہے دل پر کسی کا اختیار نہیں۔ اس روز مجھے لگا جیسے کسی بہت پیارے دوست کی موت کا پروانہ مجھے دکھا دیا گیا ہو۔ آنکھیں چھلک رہی تھیں اور آنسو رکنے کا نام نہ لیتے تھے۔ دل تھا کہ غم کے اتھاہ سمندر میں ڈوبتا جارہا تھا۔
اس دن کے بعد ارسلان سے بہت نرمی سے کلام کرتی۔ وہ فون کرتا اور میں بہت اخلاق و مروت کے ساتھ بات کرتی۔ اگر کہتا کہ آرہا ہوں، ذرا باہر چلتے ہیں تو شاپنگ کا بہانہ کرکے اس کے ساتھ چلی جاتی۔ وہ گاڑی کسی کم رش والے راستے پر ڈال دیتا اور اپنے دکھ مجھے بتاتا رہتا۔ ہنساتا تو میں ہنستے ہنستے نین چھلکا کر واپس آجاتی۔ اس سے ملاقات میں میری کسی بری نیت کا کوئی دخل تھا اور نہ ارسلان ہی کسی برے ارادے سے ملتا تھا۔ یہ ملاقات میں یہ سوچ کر کرتی تھی کہ یہ انسان زندگی کے آخری دن گزار رہا ہے، نجانے کب موت اس خوبرو نوجوان کو لینے آجائے تو میں کیوں اس کا دل توڑوں۔ مجھ سے چند لمحے کی بات چیت سے اگر اسے خوشی حاصل ہوتی ہے تو اس میں کیا برائی ہے۔
ہم دونوں کے بیچ برائی کا کوئی تصور نہ تھا لیکن دنیا میں تو برُے ذہن والے موجود تھے۔ پڑوسیوں نے محسوس کیا میں اس کے ہمراہ روز جاتی ہوں، کشور باجی تک مجھے مشکوک نظروں سے دیکھنے لگی تھیں حتیٰ کہ اکبر بھائی نے بھی نوٹ کیا کہ میں غیرضروری طور پر ارسلان سے ملنے لگی ہوں۔
اس نے دوچار بار مجھے ٹوکا۔ روشن! تمہیں نہیں چاہئے اس طرح ارسلان کے ساتھ باہر جانا اور وہ بھی آئے دن…! پڑوسی باتیں بنانے لگے ہیں۔ اگر سلیم بھائی کے کان میں کسی نے بھنک ڈال دی تو سوچو پردیس میں انہیں کیسا صدمہ پہنچے گا۔ اب تم ارسلان کے ساتھ جانا بند کردو۔ اگر فون کرے تو مت اٹھائو، کشور باجی بھی کچھ دن سے نوٹ کررہی ہیں کہ روز رات کو تمہیں فون کرتا ہے۔ یہ مناسب بات نہیں ہے۔ یہ سب تمہاری تباہی کا سبب نہ بن جائے۔
میں اکبر کو کیسے بتاتی کہ وہ بلڈ کینسر کا مریض ہے اور چند روز کا مہمان ہے۔ ارسلان نے مجھے کسی کو یہ بات نہ بتانے کی قسم دی ہوئی تھی اور اب میں اس سے ملے بغیر رہ بھی نہ سکتی تھی کہ وہ میرا پسندیدہ شخص بن چکا تھا۔ گرچہ ہمارے درمیان کوئی برائی نہ تھی، ہماری گفتگو ہماری ملاقاتیں پاکیزہ تھیں مگر اس سنگدل دنیا کی نظروں میں ہم پھر بھی مجرم ٹھہر گئے تھے۔
ہمارے ایک پڑوسی نے کسی بہانے سے اکبر بھائی سے سلیم کا نمبر لیا اور انہیں فون کردیا۔ انہیں بتایا کہ تمہاری بیوی ایک نوجوان کے ساتھ گھومتی پھرتی ہے، تم جلد واپس آجائو ورنہ تمہارا گھر برباد ہوجائے گا اور تمہارے بچوں کا مستقبل دائو پر لگ جائے گا۔
مجھے اکبر بھائی کی باتیں ناگوار گزریں۔ میں نے کہا کہ تم کیسے بھائی ہو، بہن پر ناحق شک کررہے ہو۔ پڑوسیوں کو مارو گولی۔ وہ کیا کہتے ہیں، مجھے ان کی پروا نہیں۔ سلیم مجھ پر بھروسہ کرتے ہیں، مجھ پر کبھی شک نہیں کرسکتے۔ میں بھی کبھی ان کے بھروسے کو ٹھیس نہیں پہنچائوں گی۔ تم بس اپنی سوچوں کو درست رکھنا کیونکہ تمہارے آسرے پر سلیم ہمیں یہاں اکیلا چھوڑ گئے ہیں۔
میرے آسرے پر انہوں نے تمہیں اکیلا چھوڑا ہے روشن بہن! اسی لئے کہتا ہوں کہ احتیاط سے کام لو۔ بے شک تم صحیح راستے پر ہو لیکن سماج میں کچھ لوگ اس طرح نہیں سوچتے۔ ہمیں اپنے پاس پڑوس میں رہنے والوں کا بھی پاس رکھنا ہوگا ورنہ غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ اکبر کی نصیحتوں کا میں نے اس قدر برا مانا کہ اسے کہہ دیا تم بہتر ہے دیہات لوٹ جائو۔ اگر نوکری کی مجبوری ہے تو اپنا الگ ٹھکانے کا بندوبست کرلو۔ سلیم کو اس بارے میں خود جواب دوں گی، یہ تمہاری ذمہ داری نہیں ہے۔
وہ اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ اتفاق کہ اس کا تبادلہ ایک دوسرے شہر میں ہوگیا۔ وہ وہاں چلا گیا کیونکہ مجھ سے دلبرداشتہ تھا۔ بہرحال اس نے والدہ کو خبردار کردیا کہ روشن نے جس روش کو اپنا رکھا ہے، وہ ٹھیک نہیں ہے۔ آپ اسے سمجھایئے اور والد سے کہا کہ میرا تبادلہ ہوگیا ہے، روشن اور کشور باجی کو اکیلا نہ چھوڑیئے، آپ خود ان کے پاس رہئے۔ والد اپنا گھربار چھوڑ کر میرے پاس نہیں آسکتے تھے۔
ادھر پڑوسی کے فون پر سلیم اَپ سیٹ ہوگئے لیکن مجھ سے کچھ نہ کہا۔ انہیں گئے ہوئے چار سال ہوچکے تھے، وہ وطن لوٹنے والے تھے۔ سوچا گھر جاکر خود حالات کا جائزہ لوں گا، تبھی کوئی فیصلہ کروں گا۔ وہ اچانک ایک روز گھر پہنچ گئے۔ میں گھر پر نہیں تھی، کشور باجی کی شادی کی تاریخ رکھی جا چکی تھی۔ گھر پہنچی تو انہوں نے مجھ سے پوچھا۔ کہاں گئی تھیں؟ بتایا کہ باجی کی شادی کا کچھ سامان رہتا تھا، وہ لینے گئی تھی۔
سلیم نے صبر سے کام لیا اور شادی کے موقع پر کسی طرح کی بدمزگی سے گریز کیا۔ کشور باجی بیاہ کر اپنے گھر چلی گئیں۔ ان کی رخصتی کے فوراً بعد ارسلان کی طبیعت بگڑ گئی۔ وہ اسپتال میں داخل تھا۔ مجھے پتا چلا تو قدم نہ روک سکی اور بغیر شوہر کو بتائے اسے دیکھنے اسپتال چلی گئی۔ اکبر بھائی آئے ہوئے تھے۔ سلیم نے سوال کیا کہ روشن کہاں گئی ہے؟ وہ اسپتال گئی ہیں۔ کس وجہ سے، مجھے کیوں نہیں بتایا؟ اس سے زیادہ مجھے نہیں معلوم، ان سے پوچھ لیجئے گا۔ جاتے ہوئے اکبر کو میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ اسپتال جارہی ہوں، جلدی آجائوں گی۔ اس وقت سلیم اپنی بہن کے گھر گئے ہوئے تھے، ان کی دعوت تھی لیکن وہ جلد لوٹ آئے۔
میں گھر پہنچی تو ان کے تیور بگڑے ہوئے تھے۔ سوال کیا کہ اسپتال جانے کی کیا ضرورت پڑ گئی۔ کوئی تکلیف تھی تو مجھے بتایا ہوتا میں خود تمہیں لے جاتا؟ ایک سہیلی بیمار تھی، اسے دیکھنے گئی تھی۔ گھبراہٹ میں جھوٹ بولنا پڑا۔ وہ سمجھ گئے جھوٹ بول رہی ہوں۔ کہا کہ سچ کہو ورنہ ابھی طلاق دے دوں گا۔ سچ کیسے کہتی، دونوں صورتوں میں بربادی تھی لہٰذا میں نے اپنے چند جوڑے بیگ میں ڈالے اور گھر سے نکل کھڑی ہوئی۔ اڈے پہنچ کر اس ویگن میں سوار ہوگئی جو دیہات جاتی تھی۔ اکبر روکتا رہ گیا، میں نہ رکی۔ میکے پہنچی، والد صاحب نے پوچھا۔ خیریت تو ہے، اکیلی کیوں آئی ہو؟ خیریت نہیں ہے ابا جان! سلیم کے دل میں کسی نے غلط فہمی ڈال دی ہے۔ وہ میری جان کے درپے ہیں، آنکھوں میں خون اترا دیکھ کر میں ڈر گئی اور اکیلی یہاں آگئی۔
والد صاحب گھبرا گئے۔ انہوں نے شہر جاکر سلیم سے پوچھا۔ کیا معاملہ ہے؟ سلیم نے پڑوسی کو بلا لیا اور پڑوسی نے بلا کم و کاست والد کو حالات سے آگاہ کردیا۔ وہ بھی پریشان ہوگئے۔ سلیم سے کہا۔ جلد بازی مت کرو۔ مجھے بیٹی سے بات کرنے کی مہلت دو۔ دونوں بچے میرے جانے کی وجہ سے بہت پریشان تھے۔ ابا نے استدعا کی کہ سلیم بچوں کو میرے ساتھ کردو، تم انہیں کیونکر سنبھال پائو گے۔ سلیم نے بچے والد صاحب کے حوالے کردیئے۔
سلیم چار سال بعد گھر آئے تھے،وہ بچوں کی جدائی میں تڑپ رہے تھے مگر چار دن بھی ان کے ساتھ رہنا نصیب نہ ہوسکا، وہ میرے اور بچوں کے لئے بہت سا سامان اور تحفے لائے تھے، گھر کے لئے اشیاء لے کر آئے تھے۔ سب کچھ ویسے ہی دھرا تھا۔ کہتے تھے کہ ان بچوں کے لئے خود کو محنت کی چکی میں پیس ڈالا اس امید پر کہ آج جو نخل لگا رہا ہوں، وہ کل مجھے چھائوں اور پھل دے گا۔ خبر نہ تھی کہ جن کے لئے روز و شب محنت کررہا ہوں، وہ مجھ سے وفا نہ کریں گے۔
اکبر بھائی اور ابا جان نے انہیں بہت سمجھایا۔ بولے کہ میرا دل روشن سے خراب ہوگیا ہے، صاف نہیں ہوسکتا۔ مجھ سے ناتا رکھنا ہے تو پہلے بچے لا کردیں۔ والد نے بچوں کو ان کے حوالے کیا لیکن وہ میرے لئے روتے تھے تب اولاد کی محبت سے مجبور ہوکر مجھے دوبارہ گھر آنے کی اجازت دے دی۔ مجھ سے کلام نہیں کرتے تھے، سعودی عربیہ کی ملازمت بھی چھوڑ دی، مجھے طلاق نہیں دی مگر کچھ عرصے بعد ان کی والدہ اور بہن نے سلیم کی دوسری شادی کرا دی۔ باقی زندگی اپنے بچوں کی خاطر میں نے سلیم سے الگ رہ کر ہی کاٹی۔ وہ روزانہ گھر آتے تھے لیکن مجھ سے قطع تعلق کرلیا تھا۔ خاندان کی عزت کی خاطر خاموش زندگی بسر کرتی رہی کیونکہ بچے اچھے اسکولوں میں زیرتعلیم تھے اور وہ گھر اور بچوں کا خرچا دیتے تھے، اخراجات میں بالکل کمی نہیں کرتے تھے۔ ارسلان کا کچھ ماہ بعد انتقال ہوگیا۔ اس کی موت کا دکھ دل چیر گیا۔ اگرچہ اس سے میرا کوئی غلط رشتہ نہ تھا محض ایک انسیت ہی تھی۔ اس کی بیماری کا جان کر میں اس کی دلجوئی کی مجرم ضرور تھی۔ اے کاش! وہ مجھے اپنی بیماری سے آگاہ نہ کرتا۔ اے کاش! مجھ میں ہمت ہوتی کہ اپنے شوہر کو بروقت صحیح صورتحال سے آگاہ کردیتی شاید ان کا دل میری طرف سے صاف ہوجاتا لیکن میں ایسا بھی نہ کرسکی۔
آج سلیم اس دنیا میں نہیں ہیں، بڑھاپے میں اپنے سگے بھائیوں اور بہن نے ساتھ نہیں دیا۔ والد وفات پا گئے۔ ایک کشور باجی ہیں جو میرا دکھ بانٹنے آجاتی ہیں اور ایک اکبر بھائی ہیں جنہوں نے مجھے اپنے گھر میں پناہ دے رکھی ہے۔ سچ ہے اپنوں سے تو بیگانے ہی بھلے۔ (ر… لاہور)