ایک جنگل میں ایک خونخوار شیر نے تمام صحرائی جانوروں کا ناک میں دم کر رکھا تھا، ہر وقت ان کی گھات میں رہتا تھا اور کوئی دن نہ جاتا تھا جب وہ کسی نہ کسی جانور کو اپنا لقمہ نہ بنا لے۔ غرض کوئی جانور اس جنگل میں اپنی جان کو محفوظ نہیں سمجھتا تھا۔ آخر سب جانوروں نے مل کر ایک تجویز سوچی اور شیر کے پاس جا کر کہا کہ اے جنگل کے بادشاہ! ہم روزانہ تیرے پیٹ بھر کھانے کے لیے راتب مقرر کر دیتے ہیں۔ یہ مقررہ خوراک تجھے گھر بیٹھے بلاناغہ پہنچ جایا کرے گی۔ ہماری صرف اتنی التجا ہے کہ تم ہمارا شکار نہ کیا کرو تاکہ ہم جنگل میں بے کھٹکے گھوم پھر سکیں۔ شیر نے پہلے تو ان کی پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ لیکن کافی بحث و تکرار کے بعد مان گیا۔ اس معاہدے کے قرار پاجانے کے بعد تمام جانور روزانہ ایک جگہ جمع ہوتے اور قرعہ ڈالتے جس کا نام قرعہ میں آجاتا وہ بلا حیل و حجت شیر کی خوراک بننے کے لیے روانہ ہوجاتا۔ اسی طرح ہوتے ہوتے ایک دن قرعہ خرگوش پر جا پڑا۔ اس نے پکار کر کہا: اے دوستو! یہ ظلم اورستم کب تک جاری رہے گا ؟ اس طرح ہماری قربانیوں کا سلسلہ ختم بھی ہو گا یا نہیں ؟ دوسرے جانوروں نے خرگوش کے تیور دیکھے تو انہوں نے ایک زبان ہو کر اس سے کہا کہ ہم نے اتنے دن تک اپنا وعدہ پورا کیا ہے۔ اب تو ہم کو رسوا نہ کر اور جلد شیر کے پاس جا۔ ایسا نہ ہو کہ وہ ہم سے ناراض ہو جائے۔ خرگوش نے کہا کہ دوستو! خدا نے شیر کے پنجہ ستم سے تم کو چھڑانے کے لیے مجھے ایک چال سوجھا دی ہے۔ مجھے اتنی مہلت دو کہ میں اس پر عمل کر سکوں۔ جانوروں نے اس سے پوچھا کہ ذرا ہم کو بھی بتاؤ کہ تم کو کون سی تجویز سوجھی ہے۔ خرگوش نے کہا کہ راز کا برسرعام کھولنا دانائی سے بعید ہے۔ کیا تم نے داناؤں کا قول نہیں سنا کہ بات ہونٹوں سے نکلی اور کوٹھوں پر چڑھی۔ ذرا صبر سے کام لو اور دیکھو کہ پردہ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔ جانور اب خاموش ہو گئے اور دم بخود ہو کر انتظار کرنے لگے کہ دیکھیں خرگوش کیا قدم اٹھاتا ہے۔
اب خرگوش کی سنئیے۔ وہ مزے سے اپنے گھر بیٹھا رہا۔ جب شیر کو مقررہ وقت پر خوراک نہ پہنچی تو اس کے غیظ و غضب کی انتہا نہ رہی۔ بار بار زمین پر پنجے مارتا تھا اور کہتا تھا کہ ہائے افسوس! میں اِن کمینوں کی چکنی چپڑی باتوں میں آگیا۔ بھلا یہ رزیل اپنا عہد کیوں پورا کریں گے ؟ وہ اسی طرح غصہ میں دھاڑ رہا تھا کہ دور سے خرگوش کو تیزی سے اپنی طرف آتے دیکھا۔ جب وہ قریب آیا تو شیر نے غرا کر کہا: کیوں بے نابکار ! تو نے اتنی دیر کیوں لگائی ؟ خرگوش نے دست بستہ عرض کی کہ اے بادشاہ! اگر تھوڑی دیر کے لیے جان کی امان پاؤں تو اپنے دیر سے آنے کی وجہ بیان کروں۔ شیر نے کہا: بک تو کیا کہتا ہے ؟ خرگوش نے کہا: میں تو صبح سویرے حضور کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے چلا تھا اور میرے ساتھ ایک اور خرگوش بھی حضور کے دسترخوان کی زینت بننے کے لئے روانہ ہوا تھا لیکن بد قسمتی سے راستے میں ایک اور شیر نے ہم کو روک لیا۔ میں نے اس سے کہا کہ ہم اپنے شہنشاہ کے غلام ہیں اور اسی کی درگاہ کے خادم ہیں۔ تو ہمارے راستے میں حائل نہ ہو۔ اس ظالم نے کہا کہ میں کسی شہنشاہ وغیرہ کو نہیں جانتا۔ اگر تم نے بھاگنے کی کوشش کی تو میں تم کو بھی اور تمہارے نام نہاد شہنشاہ کو بھی پھاڑ ڈالوں گا۔ یہ کہہ کر اس نے میرے ساتھی کو پکڑ لیا اور میں بصد مشکل جان بچا کر حضور کی خدمت میں پہنچا۔ اے بادشاہ! میرا ساتھی جسامت میں مجھ سے زیادہ تھا۔ اگر اس ظالم شیر کے یہی لچھن رہے تو آئندہ حضور کے پاس بلاناغہ راتب پہنچنا ممکن نہ رہے گا۔ خرگوش کی باتیں سن کر شیر کا خون کھول اٹھا اور اس نے بھر کر کہا کہ چل تو سہی، میں دیکھوں وہ موذی کہاں ہے؟ میں اس کو ابھی مزہ چکھاتا ہوں۔ خرگوش بڑے حوصلے اور خود اعتمادی کے ساتھ شیر کے آگے چل پڑا۔ یہاں تک کہ ایک شکستہ کنوئیں کے قریب ٹھٹھک کر کھڑا ہوگیا۔ شیر نے للکار کر کہا کہ آگے بڑھ ، پیچھے قدم کیوں ہٹاتا ہے ؟
خرگوش نے کانپتے ہوئے کہا کہ وہ شیر اسی کنوئیں میں رہتا ہے اور میرے ساتھی کو پکڑ کر اسی کنوئیں میں لے گیا ہے۔ اس کے خوف سے مجھے آگے بڑھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ اگر حضور مجھے اپنی بغل میں اٹھا کر اس کنوئیں کے اندر جھانکیں تو میری باتوں کی تصدیق ہو جائے گی۔ شیر نے خرگوش کو بغل میں لے کر کنوئیں کے اندر جھانکا تو دیکھا کہ ایک شیر خرگوش کو بغل میں دبائے کھڑا ہے۔ قضا آتی ہے تو عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ شیر کو یہ نہ سوجھی کہ پانی میں یہ اس کا اپنا ہی عکس ہے۔ اس نے غصے میں بے تاب ہو کر خرگوش کو پرے پھینکا اور خود کنوئیں میں چھلانگ لگا دی۔ خرگوش نے جب دیکھا کہ ظالم کی جان نکل گئی ہے تو فرط مسرت سے قلابازیاں کھاتا ہوا جنگل کو بھاگا اور اپنی قوم کو اس ظالم کی ہلاکت کی خوش خبری سنائی۔ سب جانوروں نے خرگوش کو شاباشی دی اور ایک عظیم جشن مسرت منعقد کر کے اس کا شکریہ ادا کیا۔ خرگوش نے کہا کہ یہ سب کچھ اللہ تعالی کے فضل و کرم کی بدولت ہوا ہے۔اے دوستو ! میری کیا بساط تھی کہ اس ظالم سے عہدہ برآ ہوتا۔ تعریف اور شکر کے لائق وہی ذات پاک ہے جس نے مجھ کو عقل اور حوصلہ عطا کیا اور جس نے مجھ کو اس ظالم سے اپنی قوم کو نجات دلانے کی ترکیب سجھائی۔ اے بھائیو! ہم نے ظاہری دشمن کو تو مار لیا لیکن اس سے بدترین دشمن ہمارے اندر چھپا بیٹھا ہے اور وہ ہے نفس امارہ۔ اس دشمن کو مارنا عقل و ہوش کے بس کی بات نہیں ہے۔ بھلا نفس امارہ کا شیر عقل و ہوش کے خرگوش سے کیا دبے گا۔
شیر کے لیے یہ آسان ہے کہ وہ صفوں کو توڑ ڈالے (در ہم برہم کر دے) لیکن حقیقی شیر تو وہ ہے جو اپنے آپ کو توڑ ڈالے ( فنا کر دے)۔