Monday, October 7, 2024

Armanon Ka Khoon

ہمارے مالی حالات کچھ زیادہ ٹھیک نہ تھے، تبھی والدین چاہتے تھے کہ میرے دونوں بھائی پڑھ لیں اور میں میٹرک کے بعد گھر بیٹھ جائوں۔ ایک اور وجہ ابا کے انکار کی یہ بھی تھی کہ ہمارے علاقے میں کوئی گرلز کالج نہ تھا۔ ایک بوائز کالج ضرور تھا جس میں لاہور سے تبادلہ ہو کر آئے افسران کی لڑکیاں داخلہ لے لیتی تھیں لیکن سخت ماحول ہونے کے سبب مقامی لڑکیاں میٹرک کے بعد کالج جانے کا نام بھی لینے کی ہمت نہ کرتی تھیں۔ ایسے میں والد کی طرف سے مجھے اجازت مل جانا ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ میں نے جب کالج میں داخلے کی ضد کی سب سے پہلے دونوں بھائیوں نے میرے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔انہوں نے کہا۔ اگر کشمالہ نے کالج میں داخلہ لیا تو ہم پڑھائی چھوڑ دیں گے ۔ ہم کو یہ ہر گز گوارہ نہیں کہ وہ لڑکوں کے ساتھ پڑھے۔

والد صاحب اسکول ماسٹر تھے اور ان کو ان کے ہیڈ ماسٹر صاحب نے قائل کیا کہ بیٹی کو ضرور کالج بھیجنا۔ آج نہ کل ہمارے علاقے میں لڑکیوں کا کالج ضرور بنایا جائے گا تو اس میں پڑھانے والی اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کہاں سے آئیں گی۔ یہ تو وہ بچیاں ہوں گی جو آج پڑھیں گی تو کل کو لیکچرار بنیں گی، ڈاکٹر بن کر علاقے کی خدمت کریں گی۔ والد صاحب کی سمجھ میں بات آگئی کہ آگے وقت بہت تیز رفتار ہو جائے گا۔ ہمارے بچے زمانے سے قدم ملا کر نہ چل سکے تو پیچھے رہ جائیں گے۔ انہوں نے بیٹوں کو سمجھایا۔ تم کو بہن کے کالج میں داخلہ لینے سے ایسی ہی غیرت آرہی ہے تو بے شک کالج چھوڑ دو لیکن میری کشمالہ ذہین ہے اور پڑھ لکھ کر دیکھ لینا ہمارے خاندان کا نام روشن کرے گی۔ بھائیوں نے دیکھا کہ ابا کسی اور نہج سے سوچنے لگے ہیں۔ انہوں نے بوریا بستر باندھا اور نزدیکی شہر پڑھنے چلے گئے کیونکہ وہاں ہمارے نانا ، ماموں اور خالائوں کے گھر تھے لہذا شہر ملتان بھی اجنبی نہ تھا اور ہمارے علاقے سے صرف ساٹھ ستر میل دور تھا۔ والد صاحب نے انہیں جانے دیا لیکن مجھے کالج میں داخلہ لینے کی اجازت دے دی۔ میں جانتی تھی کہ یہ سب کلثوم کی وجہ سے ہوا ہے جو ہیڈ ماسٹر صاحب کی بیٹی تھی اور میرے ساتھ پڑھتی تھی۔ وہی تو ایک سب سے قریبی اور پیاری دوست تھی اور ہم اپنا ہر دکھ سکھ ایک دوسرے سے بلا جھجک کہہ دیا کرتے تھے۔ جب والد صاحب کی طرف سے انکار ہوا اور میں مایوس ہو گئی تو میں نے کلثوم سے کہا کہ اب میں آگے نہ پڑھ سکوں گی۔ ابا نے منع کر دیا ہے اور دونوں بھائی تو دھمکی دے رہے ہیں اگر میں نے داخلہ لیا، وہ گھر چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ انہیں کسی طور یہ گوارہ نہیں کہ ہم اور وہ ایک کالج میں ہوں۔ تم ضرور کالج میں داخلہ لو گی ۔ اگر تم نے داخلہ نہ لیا، میں بھی نہ جائوں گی۔ آج ہی بابا سے کہتی ہوں، وہ تمہارے ابا سے بات کریں گے۔ کلثوم نے صحیح کہا تھا۔ اس نے میرا کیس لڑا، اپنے والد کو وکیل بنایا، یوں ہماری جیت ہو گئی کیونکہ ہیڈ ماسٹر صاحب، والد کے محسن تھے۔ انہی کی کوششوں سے میرے باپ کو نوکری ملی تھی اور دونوں بچپن کے ساتھی تھے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کی بات وہ کبھی نہیں ٹال سکتے تھے۔ میں بہت خوش تھی۔ پہلے روز ہی سے میں اور کلثوم اکٹھے کالج جانے لگے۔ کالج گھر سے کچھ فاصلے پر تھا لیکن ہم پیدل ہی جاتے تھے۔ یہ ہمارا کالج کا چوتھا دن جب ایک نوجوان کو اپنے پیچھے آتے دیکھا۔اُف میرے خدا سوچا کہ یہ اچانک کیا مصیبت نازل ہو گئی۔ اتنی مشکل سے تو اجازت ملی تھی، شاید اسی لئے ابا منع کر رہے تھے، بھائی مخالفت کرتے تھے۔ انہیں معلوم تھا اس علاقے میں کالج جانے والی لڑکیاں ایسے لڑکوں کیلئے عجوبہ ہوتی ہیں کہ جن لڑکوں کو کوئی اور کام نہیں ہوتا، وہ طالبات کا تعاقب کرنے لگتے ہیں۔ اس میں لڑکیوں کا کیا قصور ، لیکن سزا انہی کو ملتی ہے اور ان کو گھر بٹھا دیا جاتا ہے۔ شاید شہری لڑکیوں کو ایسے مسائل در پیش نہ ہوں لیکن ہم دیہات کی باسی لڑکیاں تو پرانی روایات کے ہاتھوں بس مر مر کر جیتی ہیں۔ ہمارا علاقہ تو ایک بستی جیسا تھا۔ سبھی ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ نجانے یہ کون شخص تھا جو ہمارا پیچھا کر رہا تھا یا کہ ہم کو گمان ہوا تھا کہ ہمارا وہ تعاقب کر رہا ہے۔ کچھ دیر برداشت کیا۔ سوچا اگر آج پہلے دن اسے نہ روکاٹوکا تو روزہی یہی و تیرہ اپنائے گا۔ ہماری بد نامی مفت میں ہو گی۔ تعلیم سے تو جائیں گے ہی، کہیں کے نہ رہیں گے ، تب ابا اور بھائیوں کو کیا جواب دیں گے۔ چلتے چلتے ٹھہر گئی اور اپنے پیچھے چلتے آنے والے نوجوان کو خوب سنادیں کہ تم کو حیا نہیں آتی آوارہ انسان، لڑکیوں کا پیچھا کرتے ہو۔ اس نے خاموشی سے ہماری لعن طعن سن لی اور بغیر کچھ کہے چلا گیا اور پھر کبھی نظر نہ آیا۔ میں نے بھی شکر کیا کہ جان چھوٹی۔

کچھ دنوں بعد اچانک ایک روز یہ خیال آیا کہ ہو سکتا ہے وہ ویسے ہی اپنی راہ آرہا ہو اور ہمارا پیچھا کرنے کی غرض نہ ہو۔ کچھ اپنے آپ میں مگن بھی ہوتے ہیں۔ ہمیں گمان ہو گیا کہ تعاقب کر رہا ہے۔ اگر شریف آدمی نہ ہوتا تو تنگ کرنے کو دوبارہ آتا، تب کیا کر لیتے مگر وہ کبھی دوبارہ کالج کے راستے میں ہم کو نظر نہ آیا۔ کلثوم سے کہا کہ اس دن جانے مجھے کیا ہوا جو اس شریف آدمی پر برس پڑی اور بھرے بازار میں اسے ذلیل کر کے رکھ دیا۔ شریف آدمی تھا؟ تم کو یہ کیسے معلوم کہ وہ واقعی شریف آدمی تھا؟ ہاں بھئی ! اگر شریف نہ ہوتا اور ہم کو تنگ کرنا ہی مقصود ہوتا تو شاید ہمارا کالج جانا بھی دو بھر ہو جاتا۔ وہ بار بار ہمارا تعاقب کرتا اور ہم زچ آکر تعلیم چھوڑ دیتے۔ میری تاویل سن کر اس نے سر پکڑ لیا۔ کہنے لگی۔ افسانوں، کہانیوں میں ایسی باتیں پڑھتے تھے کہ پہلے ہیروئن، ہیرو سے ٹکرائی۔ لڑکی نے اس معصوم کو ڈانٹ ڈپٹ سے نوازا، بعد میں اس کے تصورات میں کھو کر آہیں بھرتی۔ ارے بابا… ایک بار تمہارے ساتھ بھی کچھ ایسا واقعہ ہو گیا تو بھول جائو ، اسے ذہن سے محو کر دو۔ پیچھے آیا تو آیا، چلا گیا تو چلا گیا۔ اب دھڑ کا کس بات کا؟ اس روز پہلی بار اپنی یہ بچپن کی سہیلی مجھے بہت بری لگی۔ کس قدر نامعقول ہے۔ میں نے سوچا۔ ہر بات کو مذاق سمجھ لیتی ہے۔ خیر وقت گزرتا گیا۔ ہم نے بخیر و عافیت ایف اے پاس کر لیا اور اب تھر ڈایئر میں آگئے۔ ایک روز میں اور کلثوم کچھ کتابیں خریدنے گئے۔ بک شاپ قریب ہی تھی۔ واپسی پر ایک موٹر بائیک والا اس قدر تیزی کے ساتھ گزرا کہ کلثوم گر گئی اور سڑک سے لڑھکتی ڈھلوان پر جاپڑی۔ اسے کافی چوٹ آئی کہ اٹھنے سے قاصر تھی، تبھی پیچھے آتی کار ہمارے قریب آکرر کی اور اس میں بیٹھا آدمی اتر کر میرے پاس آیا۔… آپ اجازت دیں تو آپ کی سہیلی کو سہارا دے کر ڈھلوان سے اوپر لے آئوں ۔ لگتا ہے کاری چوٹ لگی ہے ، وہ بے سدھ پڑی ہیں۔۔۔ میں چونکہ کافی پریشان کھڑی سوچ رہی تھی کہ اب کیا کروں، ڈھلان کے نشیب میں پھسلن تھا۔ خود اتر کر اس کی مدد کرنے سے قاصر تھی۔ مجبور ہو کر اس کی مدد قبول کرنی پڑی اور وہ نشیب میں اتر گیا۔ بڑی دقت سے کلثوم کو سہارا دے کر اوپر سڑک تک لایا۔ کلثوم کی بری حالت تھی، شاید پائوں میں موچ آگئی تھی۔ ایک قدم نہیں چل سکتی تھی، درد سے کراہ رہی تھی۔ کشمالہ ! پلیز مجھے پکڑو ورنہ گر پڑوں گی۔ دونوں پیروں میں چوٹ آئی ہے، کھڑی نہیں ہو سکتی، ٹانگ میں بھی درد ہے۔ تبھی وہ شخص گویا ہوا۔ گڑھے میں گرنے سے آپ کو شاید کوئی اور بھی گہری چوٹ لگی ہے۔ آپ میری کار میں بیٹھ جائے۔ میں اسپتال تک چھوڑ دیتا ہوں۔ ہو سکتا ہے ٹانگ میں فریکچر ہو گیا ہو۔ مجھے بھی اپنی دوست کی حالت ٹھیک نہ لگ رہی تھی۔ اس کے سر سے خون رس رہا تھا۔ جس گڑھے میں وہ پیچھے ہوتے ہوئے لڑھک کر گری تھی، اس کی گہرائی کافی تھی۔ اس نوجوان نے تسلی دی اور میں نے ہمت کی۔ کلثوم کو اس کی کار میں سوار کرایا، خود ساتھ بیٹھ گئی اور وہ ہم کو اسپتال لے آیا جو نزدیکی شہر میں میں تھا۔ طبی امداد ملنے سے میری سہیلی کی حالت سنبھل گئی۔ پین کلر انجکشن لگا، ٹانگ اور پائوں کے ایکسرے ہوئے، تب تک وہ ہمارے ساتھ رہا کیونکہ ڈاکٹر اس کا دوست تھا۔ ہم کو اسپتال میں بڑی سہولت ہو گئی۔اسپتال سے بوائز اسکول میں، میں نے چاچا فیض کو فون کر کے صورتحال بتائی۔ وہ بولے۔ بیٹی ابھی آتا ہوں، تم لوگ وہیں ٹھہروہ کلثوم کے ابو آدھ گھنٹے بعد آگئے۔ اسپتال ہمارے علاقے سے دور تھا۔ وہ اپنے ایک شاگرد کے گھر سے ان کی کار مانگ کر لائے تھے۔ جب ہم چلنے لگے تو میں نے کہا۔ انکل! ان کا شکریہ ادا کریں، انہوں نے ہماری مدد کی۔ انکل فیض نے اجنبی لڑکے سے ہاتھ ملایا تو پہچان لیا۔ بولے تم زمیندار اللہ یار صاحب کے بیٹے ہونا ؟ اب گائوں میں کبھی نظر نہیں آتے؟ جی میں لاہور کالج میں پڑھ رہا ہوں اور وہاں ہاسٹل میں رہتا ہوں، چھٹیوں میں گھر آتا ہوں۔ بہت شکریہ بیٹے تمہارے ابو سے سلام دعا ہے۔ میں کبھی آئوں گا شکریہ ادا کرنے۔ ضرور آئے گا، ان کو خوشی ہو گی ۔ وہ چلا گیا۔ تبھی اچانک جیسے ذہن میں گزری یاد کا کوندا لپکا۔ یہ شکل جانی پہچانی لگی۔ پہلے بھی کہیں دیکھا ہے مگر کہاں ذہن پر زور دیا۔ یہ وہی تھا جو ایک روز ہمارے پیچھے چل رہا تھا اور میں نے بھرے بازار میں اسے ذلیل کیا تھا، ہمارے تعاقب میں آنے والا …!

دوسرے روز کلثوم کی عیادت کو اس کے گھر گئی تو بتایا کہ کل جس نے ہماری مدد کی تھی، جانتی ہو وہ کون تھا؟ وہی تعاقب والا… ارے نہیں ! وہ تو کب کا غائب ہو گیا، کبھی دوبارہ نظر نہیں آیا۔ ہاں بھئی ! وہی تھا، بالکل وہی… میں نے ذہن کے پردے پر خوب زور دیا ہے اور وہ دوبارہ نظر بھی کیسے آتا، وہ تو لاہور میں پڑھتا ہے، انجینئرنگ کر رہا ہے۔ جانتی ہو کس کا بیٹا ہے ؟ گائوں کے پاس جو صاحب داد صاحب نے اپنی اراضی فروخت کی تھی، وہ ان کے والد اللہ یار صاحب نے خریدی۔ اس وقت والد صاحب بھی اس خرید و فروخت میں گواہ تھے۔ بابا جان مراد کے والد کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ تو ان کا نام مراد ہے ۔ ہاں ابو نے بتایا ہے ۔ دل میں اس کا نام دہرا کر مسرت کی ایک لہر محسوس کی۔ کشمالہ ! کتنا خوبصورت ہے وہ، اے کاش! اور اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ میں نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی۔ یہ موضوع مزید چھیڑنا نہ چاہتی تھی۔ جانے کیوں میرا دل کلثوم سے آج پہلی بار راز داری برت رہا تھا۔ وہی ہوا جس کا دھڑکا ہر نوجوان دل کو ہوتا ہے۔ میں مراد کے خیالوں میں گم ہو چکی تھی۔ کتاب کھولتی تو اس کا چہرہ نظرآتا، کتاب بند کرتی تو اس کا چہرہ نظر آتا۔ یا اللہ ! یہ کیسی بیماری تھی۔ کیا میں ایک پرچھائیں کی شیدائی ہو گئی تھی، ایک سائے کے تعاقب میں جارہی تھی۔ یہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔ دن رات کسی کے خیال میں کھوئے رہنا۔ انسان پھر تو دنیا کے کسی کام کو کرنے کے لائق نہیں رہتا، بیکار ہو جاتا ہے ۔ اب تو امتحان کی تیاری ایک مشکل امر ہو گیا۔ کتاب پر لکھے حروف کو گھورتی رہتی اور گھنٹوں مفہوم ہی سمجھ میں نہ آتا۔ گزشتہ کا پڑھا بھی بھول جاتی تھی۔ خدا جانے یہ کیسی بیماری لاحق ہو گئی تھی کہ جس کے لئے کوئی طبیب ملتا تھا اور نہ علاج تھا کوئی اس مرض کا۔ سالانہ پیپرز ہو گئے۔ رزلٹ نکلا۔ کلثوم پاس اور میں فیل ہو گئی تھی۔ ابا نے بہت ڈانٹا اور میرا کالج جانا بند کرادیا۔ بھائیوں نے شور مچادیا کہ خواہ مخواہ پڑھانے سے فائدہ جب محترمہ کا دل ہی پڑھائی میں نہیں لگتا۔ میرا کس قدر نقصان ہوا، بتا نہیں سکتی لیکن مجھے اس خسارے کا بھی احساس نہ تھا کہ کسی اور دنیا میں رہنے بسنے لگی تھی اور وہ تھی مراد کے ساتھ تصورات کی دنیا۔ ایک دن کلثوم آئی۔ بہت افسردہ تھی۔ کہنے لگی۔ ابو میری شادی کر رہے ہیں، دیکھو تو کشمالہ ! ان کو کیا ہو گیا ہے ۔ وہ جو زمانے بھر کو سمجھاتے ہیں کہ اپنی لڑکیوں کو پڑھائو، گریجویشن بھی مکمل نہیں کرنے دے رہے اور شادی کی تاریخ رکھ دی ہے۔ کہتے ہیں لڑکا بہت اچھا ہے ، اس کی تعلیم مکمل ہو گئی ہے اور بیرون ملک جارہا ہے، اس لئے شادی کر کے جانا چاہتا ہے تاکہ بیوی کو لے جانے میں آسانی ہو۔ پڑھائی کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ بعد میں ہو جائے گی، پہلے شادی ضروری ہے۔ بہت اچھا رشتہ ملا ہے ،ایسے رشتے نہیں ملتے۔ کس سے کر رہے ہیں تمہاری شادی؟

اس سوال پر جھنجھلا کر بولی۔ مجھے نہیں خبر ! کسی نے نہیں بتایا کس سے کر رہے ہیں اور جس سے بھی کر رہے ہیں، میں نے اسے دیکھا تھوڑی ہے ۔ یا اللہ ! یہ کیا معمہ ہے ؟ کیا چچا کا دماغ پلٹ گیا ہے یا پھر ان پر کسی نے جادو کر دیا ہے۔ ہاں ! واقعی جادو کر دیا تھا ان پر … زمیندار اللہ یار نے جن کو بیٹے کی خوشی ہر حال میں عزیز تھی اور وہ اپنے صاحبزادے مراد کا رشتہ مانگ لیا تھا۔ سر میں گھی پڑ جانے سے سر نہیں جلتا، کڑوے تیل کی مالش سے جلتا ہے اور یہ رشتہ تو گھی شکر جیسا تھا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب اتنے اچھے رشتے کو کیوں گنواتے بھلا جبکہ ان کی بیٹی شادی کے بعد کینیڈا جار ہی تھی اور وہ بھی اتنے امیر کبیر گھرانے کی بہو بن کر… مراد نے اسی روز اس کو پسند کر لیا تھا جب اسے افتادہ گڑھے سے نکالا تھا۔ واقعی کلثوم تھی بھی خوبصورت نرم و نازک، حور شمائل … وہ کیوں نہ اسے پسند کرتا۔ والدین پر دبائوڈالا کہ ہیڈ ماسٹر کی لڑکی سے شادی کرنی ہے۔ اللہ یار صاحب نے مان لیا کیونکہ کلثوم کے والد کی نیک نامی اور اچھی شہرت تو سارے علاقے میں مشہور تھی۔ ان کو سمدھی بنانے میں انہیں عار نہ تھا۔ بے شک مالی اعتبار سے ان کے ہم پلہ نہ تھے لیکن زمانے میں عزت دار اور ایماندار تو تھے ۔ دیانتداری کی دھوم تھی ان کی۔ جس روز کلثوم دلہن بنی بیٹھی تھی، میں سج سنور کر اچھے کپڑے تن زیب کر کے اس کی رخصتی میں گئی۔ کیوں نہ جاتی آخر تو وہ میری بچپن کی دوست ، میری سب سے پیاری سہیلی تھی۔ وہ سرخ جوڑا پہنے ، زیورات میں لدی مسکرارہی تھی۔ اس کے دل کی خوشی مدھم مسکراہٹ کے پس پردہ جھلک رہی تھی لیکن میرا ادل رورہا تھا۔ مسکراہٹ لبوں پر آتی اور پھر لوٹ جاتی تھی۔ بڑی مشکل سے خود پر قابو پایا تھا۔ اچانک ہی اس نے میری جانب گہری نظروں سے دیکھا۔ حیرت سے بولی۔ کشمالہ ! تم اداس ہو، کیا میری شادی سے تم کو خوشی نہیں ہوئی؟ خوشی تو ہے مگر صدمہ بھی ہے۔ کیوں نہ ہو جائوں میں اداس، تیری جدائی کا دکھ بھی تو سہنا ہے۔ جانتی ہو کہ تمہارے سوامیری کوئی ساتھی، کوئی اور دوست ، کوئی سہیلی نہیں۔ تیرے بعد کس قدر تنہا ہو جائوں گی، کیسے گزرے گی تیرے بغیر … یہ کہہ کر اس کے گلے لگ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر روئی۔ اس قدر شدت سے جیسے اس کے بعد رونے کی گھڑی پھر نہ آئے گی۔ وہ تسلی دے رہی تھی، مجھے پیار کر رہی تھی لیکن میرے آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہ لیتے تھے۔ دل آج کیوں اداس تھا؟ کیا کلثوم سے بچھڑ جانے کی وجہ سے۔ نہیں ۔۔۔ سہیلیوں نے تو بچھڑ جانا ہوتا ہے۔ ایسے میں دلہن ضرور روتی ہے مگر سہیلی تو اسے تسلی دیتی ہے۔ یہاں معاملہ یہ ہر گز نہ تھا۔ مجھے کلثوم سے بچھڑنے کا دکھ نہ تھا۔ میرے رونے کی وجہ تو کچھ اور تھی۔ میرے خوابوں کا شہزادہ مراد … آج کسی اور کا ہونے جارہا تھا۔ وہ جو دن رات، صبح شام ، ہر لمحہ ، ہر پل میرے ساتھ رہتا تھا۔ میرے خیالوں میں مہکتے پھولوں کی طرح، میرے خوابوں میں چمکتے چاند کی مانند… وہ میری روح کی تازگی اور میرے دل کا سنگھار ، میری تو زندگی تھا۔ دن رات جس کیلئے دعا کیا کرتی تھی، ایک بار اسے مجھ سے ملادے۔اے میرے رب ! بس ایک بار رو برو ہو کر اسے دیکھ لوں، اس سے بات کرلوں۔ دعا کس روپ میں قبول ہوئی، وہ رو برو آیا بھی تو دولہا کے روپ میں . لیکن یہ میرا نہیں کسی اور کا دولہا بن کر آیا تھا۔ میری جان سے پیاری دوست کلثوم کا اور میں شادی کی رسومات دیکھنے سے پہلے ہی طبیعت کی خرابی کا بہانہ کر کے گھر آگئی۔ آہ کیسے دیکھ سکتی تھی وہ منظر جس نے تلوار بن کر میرے خوابوں کی سر زمین کو، میرے ارمانوں کے خون…. لہو لہو کر دیا تھا۔

Latest Posts

Related POSTS