یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو میرے بھائی کی شادی میں گانے بجانے آئی تھی۔ یہ لوگ کھلے میدانوں میں کپڑے کے ٹکڑوں سے جھونپڑیاں بنا کر رہتے ہیں اور مقامی زبان میں ان کو کڑی وانس“ کہا جاتا ہے – لڑکی کا نام پیشم تھا جس کو عرف عام میں ریشم کہا جاتا ہے۔ اب پشم کی کہانی اس کی زبانی سنئے۔ سارا دن شدید ٹھنڈ اور انتظار کی کیفیت میں گزر گیا۔ بارات کہیں شام کو آئی۔ پنڈال میں مجھ سے خواجہ غلام فرید کا کلام سنانے کی فرمائش کی گئی کیونکہ میں عارفانہ کلام زیادہ سناتی تھی۔ میں نے ایک کافی چھیڑ دی جس میں پیا گھر آنے کی خوشی کا ذکر تھا۔ یہ کلام سوز بھرا تھا جس کے بول تھے ۔ ” کیا حال سناواں دل دا۔“ میں نے جب یہ کلام درد بھری آواز میں گڑوی بجا کر سنانا شروع کیا تو سارا پنڈال وجد میں آ گیا۔ حاضرین پر ایک سحر سا طاری ہو گیا۔ ہر طرف سے واہ واہ کی آوازیں آنے لگیں اور پھر نقدی کی صورت میں لوگوں نے مجھ پر نوٹوں کی بارش کردی۔ کافی دیر یہی سلسلہ چلا اور پھر میں اپنا نصیب سمیٹ کر ایک طرف بیٹھ گئی۔
موسیقی کا دور ختم ہوا تو کھانا شروع ہو گیا۔ ویٹرز وغیرہ بڑے لوگوں کی طرف متوجہ تھے۔ میں ایک طرف سمٹی بیٹھی تھی۔ کچھ دیر بعد بچے کھچے چاولوں کے انتظار کی بجائے میں نے گھر جانے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ جھونپڑی میں میرے بابا اکیلے تھے۔ راستے میں کریمو چاچا کا ہوٹل پڑتا تھا جہاں سے میں نے میٹھے چاول لئے اور جلدی جلدی اپنی منزل کی جانب رواں ہو گئی۔ گھر دور تھا اور ٹھنڈ بڑھتی جارہی تھی۔ لمحہ لمحہ ہوا میں تیزی آرہی تھی۔ راستہ مدھم ہو چکا تھا۔ ہوا کی سائیں سائیں کے ساتھ شور بڑھتا جارہا تھا۔ مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو سے بوجھل ہوا اب جھکڑوں میں بدل رہی تھی ساتھ ہی مٹی بھی آنکھوں میں پڑ رہی تھی۔ اندھیرے کی وجہ سے اب آگے بڑھنا مشکل ہو گیا تھا۔ تبھی بارش شروع ہو گئی۔ بارش کی وجہ سے ہوا اور زیادہ تیز ہو گئی۔ میں اپنے ننھے سے دل کو مٹھی میں لیے خوف کے مارے لرزتے قدموں آگے بڑھتی جارہی تھی۔ کپڑے بارش میں بھیگ گئے تھے۔ اب مجھے سردی لگنے لگی تھی۔ بالآخر بڑی جد وجہد کے بعد میں اپنی بستی میں داخل ہوئی۔ چند دوسری جھونپڑیوں سے کچھ دور پھٹے ہوئے کپڑوں میں لیٹے بانسوں کی چھتری کے اندر میرا بابا اکیلا لیٹا ہوا تھا۔ اماں کی وفات دو ماہ قبل ہوئی تھی، تب سے ہم اکیلے رہتے تھے۔ جو نہی جھونپڑی میں قدم رکھا، بابا کی کراہ نے میرا استقبال کیا۔ جلدی سے آگے بڑھ کر میں نے انہیں سنبھالا۔ اس طوفانی بارش نے میرے بابا کو بھگو دیا تھا۔ وہ سردی میں ٹھٹھر رہے تھے۔ پرانے کپڑوں سے بنی چھت سے پانی تیزی سے ٹپک رہا تھا۔ اب طوفانی بارش شروع ہو گئی تھی۔ پانی نے گھر کی ہر شے کو اپنے ہاتھوں پر اٹھا لیا۔ ہر چیز بھیگ گئی تھی۔ کھانے پینے کے خالی برتن تیر رہے تھے اور کافی کچھ پانی میں بہہ گیا تھا۔ ان جاتی چیزوں کو سنبھالے بغیر میں جلدی سے اپنے بابا کی سمت آ گئی اور ان کے سامنے میٹھے چاولوں کا شاپر رکھ دیا۔ ان کو سہارا دے کر بٹھایا۔ وہ صبح سے بھوکے تھے۔ شاپر میں ہاتھ ڈال ڈال کر وہ مٹھی سے میٹھے چاول منہ میں بھر نے لگے۔ ایک کونے میں ترپال ڈال رکھا تھا، وہاں پانی نہیں آرہا تھا۔ بابا کو میں نے سہارا دے کر تر پال کے نیچے چار پائی پر لٹا دیا۔
بابا کے زخمی پائوں پر صبح سے چیونٹیوں اور مکھیوں نے تباہی مچائی ہوئی تھی۔ اب زخم سے خون رس رہا تھا۔ یہ حالت دیکھ کر میرا دل لرزاٹھا اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، تبھی سوچا کاش میری کوئی بہن ہوتی۔ میں روزی کی تلاش میں نکلتی تو وہ میرے پیچھے بابا کا خیال رکھتی۔ اگر آج میری کوئی بہن ہوتی تو شاید بابا کی یہ حالت نہ ہوتی۔ وہ میرے دکھ سکھ کی ساتھی بنتی لیکن کہتے ہیں کہ اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے۔ بابا نے پکارا تو میں سوچوں کی گہری جھیل سے باہر نکل آئی۔ وہ کہہ رہے تھے۔ بیٹی ! آج اتنی دیر کیوں کر دی ؟ کیا سیاں تیرے ساتھ نہ تھی، تو اکیلی گئی تھی ؟ ہاں بابا ! وہ ایک اور شادی میں چلی گئی تھی۔ سیاں میرے بابا کی رشتے کی بہن کی بیٹی تھی۔ اکثر ہم دونوں ایک ساتھ گڑوی بجانے نکلتی تھیں کیونکہ ایک سے دو بھلے ہوتے ہیں۔ بستی والوں کے خون سفید ہو گئے ہیں، اب تو کوئی کسی کو نہیں پوچھتا۔ ہر پل کا دکھ آج پھر ان کی زبان پر آ گیا۔ آج کا دور بڑا ظالم ہے ، ہر طرف افرا تفری ہے ، کوئی کسی کا نہیں ہے۔ خون سفید ہو گئے ہیں۔ آج تو سگے بچے بھی اپنے ماں باپ کو نہیں پوچھتے مگر تو کتنی اچھی ہے۔ میری سگی بیٹی نہ ہونے کے باوجود میرا کس قدر خیال رکھتی ہے۔ میرا اپنا بیٹا، بیٹی ہوتے تو شاید وہ بھی میرا اس قدر خیال نہ کرتے جتنا تو رکھتی ہے۔ میں نے ان کو سہارا دے کر بھیگے ہوئے تکیے کی ٹیک لگا دی۔ تھوڑے تھوڑے چاول ان کے منہ میں اپنے ہاتھ سے ڈالنے لگی۔ گھونٹ گھونٹ کر کے پانی پلایا۔ وہ صبح سے بھوکے تھے۔ وہ سارے چاول کھا گئے۔ میں نے نہیں بتایا کہ میں بھی بھوکی ہوں۔ جب وہ کھا چکے تو میں نے نائیلون کا پرت تکیے پر رکھ کر ان کو لٹا دیا اور پلاسٹک کے کور میں لپٹا ہوا کمبل کھول کر ان کو اوڑھا دیا۔ وہ مجھے اچھے نصیب کی دعائیں دینے لگے۔ سارے دن کی بھوکی، خالی پیٹ لیٹی تو نیند نہ آرہی تھی۔ بارش تھم گئی تھی۔ ٹرنک کھول کر میٹھے چنے نکالے اور مٹکے کے پانی سے پھانک لیے ، پھر میں بھی بابا کے قریب پڑی دوسری چار پائی پر لیٹ گئی۔ جانے کس پہر نیند نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا۔ بستی والے اکثر بابا کو یاد دلاتے رہتے تھے کہ ریشماں تیری اولاد نہیں ہے، اسے تو کسی میلے سے اٹھا لایا تھا۔ یہ وہاں کھو گئی تھی، روتی پھر رہی تھی۔ اس کا کوئی والی وارث نہ آیا تو وارث بن گیا اور اگلے روز ان کے قافلے نے کسی دوسری منزل کی طرف کوچ کر دیا، پھر انہوں نے لاہور کے پاس آکر پڑائو ڈالا۔ مجھے بابا کے ساتھ رہتے ہوئے پندرہ سال کا عرصہ ہو گیا تھا۔ انہوں نے مجھے اتنا پیار دیا کہ میں اپنوں کو بھول گئی۔ وقت گزرتا گیا، میں جوان ہو گئی۔ بابا کی بیوی اماں ہاجرہ نے مجھے گڑوی بجانا اور کافیاں گانا سکھا دیا کہ کوئی ہنر تو ہو جس کے ذریعے کچھ کما کر پیٹ بھرسکوں –
میں چودھویں کا چڑھتا چاند تیکھے ، آنکھیں سیاہ اور چہرے پر معصومیت تھی جبکہ بستی کی ساری لڑکیاں سانولے رنگ کی تھیں۔ میں ان میں شہزادی لگتی تھی۔ بستی والے میرے کانوں میں زہر بھری یادیں انڈیلتے مگر مجھے اپنا بچپن بالکل یاد نہ آتا۔ہوش سنبھالتے ہی بابا اور اماں کو ہی اپنا ماں باپ پایا تھا۔بابا مداری تھے۔ وہ بندر اور بکرے کو لیے بستی بستی گھومتے تھے۔ یہی ان کی روزی کا ذریعہ تھے۔ اماں مٹی سے کھلونے بناتی۔ گڑیا اور گڑیا کا گھر تعمیر کرتی جو بچوں کے علاوہ بڑی عورتوں کو بھی پسند آتے تھے۔ ایک دن اماں کو ایسا بخار چڑھا کہ پھر اس نے اترنے کا نام ہی نہ لیا۔ وہ کمزور ہوتی جاتی تھیں۔ سوکھ کر کانٹا ہو گئیں اور رنگت توے کی طرح سیاہ ہونے لگی۔ بالآخر وہ اپنی آخری منزل تک جا پہنچیں۔ ایک صبح سو کر اٹھے تھے تو خاموش لیٹی تھیں مگر اس جہاں میں نہیں تھیں۔ وہ بڑی اچھی عورت تھیں۔ مجھے ماں جیسا پیار دیا۔ پالا پوسا۔ اکثر رات کو سوتی تو اماں کو یاد کر کے بہت روتی تھی۔ نیند میں ”اماں اماں “ پکارتی تھی۔ بعض اوقات یوں لگتا جیسے ماں اپنی نرم انگلیاں میرے بالوں میں پھیر رہی ہو۔ اماں کو فوت ہوئے ایک ماہ ہو گیا تو ایک دن میں نے گڑوی پکڑی اور باراتوں میں گانے لگی۔ جب گا رہی ہوتی۔ لگتا دل اندر سے جل رہا ہوتا تھا۔ اصل میں گڑوی والیوں کو لوگ عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ عورت خواہ کسی قبیلے کی ہو یا ہائی سوسائٹی کی، وہ اپنے گھر میں ہی سجتی ہے۔ میری آواز میں جو سوز تھا، اس نے مجھ کو بہت جلد مقبول کیا اور شہرت ملنے لگی مگر میں چادر لپیٹ کر ہر تقریب میں جاتی تھی اور گڑوی والیوں کی مانند بن سنور کر نہ جاتی تھی۔ میں بڑے درد کے ساتھ عارفانہ کلام سناتی تھی۔ مجھ کو لوگ شروع میں دوسری گانے والیوں سے کم پیسے دیتے تھے کیونکہ میں اپنے جسم کی شیشے کی مانند نمائش نہیں کرتی تھی۔ اپنے آپ کو امیروں کی دست درازی سے محفوظ رکھتی تھی۔ میں دوسری سب لڑکیوں سے مختلف تھی۔
کئی بار میں نے اس گانے بجانے کے ہنر کو چھوڑنے کا ارادہ کر لیا۔ کئی بار باعزت ذریعہ روزگار کی خاطر معاشرے کے ٹھیکیداروں اور اصلاح پسندوں کی مدد چاہی لیکن ہر کوئی میری عزت اور جوانی کے پیچھے تھا۔ کئی دولت مند جوانوں نے ایک رات کے بدلے اتنی دولت کی پیشکش کی جو مجھے ساری زندگی کے لیے کافی ہوتی۔ کئی بار میری پاکدامنی پر ہاتھ ڈالا گیا مگر میں نے خود کو بچا لیا اور دولت کی خاطر یہ سستا سودا نہیں کیا۔ پھر بھی میرے پاس نیک چلن کا کوئی ثبوت نہ تھا کیونکہ میں ایک گڑوی والی تھی۔ ایک صبح آئی ، سب کچھ بدل گیا۔ ہماری جھونپڑی میں سورج کی کرنوں نے ابھی اندر جھانکنے کی ہمت نہیں کی تھی کہ انقلاب آ گیا۔ ہر طرف بستی میں شور مچ گیا۔ کوئی بہت بڑی تبدیلی دروازے پر دستک دے رہی تھی اور یہ دستک دینے والا خوبصورت، گورا چٹا، بڑی بڑی مونچھوں والا پولیس آفیسر تھا۔ اس کے ساتھ کافی پولیس والے آئے تھے جنہوں نے ہماری غریب بستی میں ہلچل مچادی۔ تمام تر فوکس با با پر تھا اور وہ پولیس والے کو ٹھیک طرح جواب دینے سے قاصر تھے۔ کسی نے مخبری کی تھی کہ اس مداری نے ایک بچی کئی سال پہلے میلے سے اغوا کی تھی۔ میں نے دیکھا کہ بابا کو پولیس نے گھیر لیا ہے، ساتھ میں سوالوں کی بوچھاڑ کر دی ہے۔ میں جلدی سے دوڑی گئی۔ وہاں جا کر پتا چلا کہ وہ میرے بارے میں سوالات کر رہے ہیں۔ میں ان کو دیکھ کر سہم گئی۔ پولیس آفیسر کے بال کنپٹیوں کے پاس سے سفید ہو رہے تھے۔ لباس اس کی شخصیت کی طرح اجلا تھا۔ وہ بہت با رعب تھا۔ مجھے اچھا لگا مگر مسلسل وہ میرے باپ کو ڈانٹ رہا تھا، اسی لیے مجھے برا لگ رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا۔ سچ بتا تو اس بچی کے بارے میں ورنہ تم کو پھانسی پر لٹکادوں گا۔ بتائو یہ کس کی لخت جگر ہے جسے تم نے اغوا کیا تھا۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ میرے بابا کو کچا چبا جائے۔ ہمارے ہمسایہ رکھی نے بھی گواہی دی کہ ہاں میرے بابا سانول نے دس بارہ برس قبل اس لڑکی کو میلے سے اٹھایا تھا۔ اچانک پولیس افسر میری طرف بڑھا۔ اس نے میری کلائی پکڑی تو چوڑیاں ٹوٹ گئیں اور کلائی پر کالا نشان واضح ہو گیا۔ یہ چاند گرہن کا نشان کہلاتا تھا جو میری کلائی پر پیدائشی تھا۔ نشان دیکھتے ہی پولیس افسر کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس نے میری بہنا کہہ کر مجھ کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ میں اس کی وہ کھوئی ہوئی بہن تھی جس کی برسوں سے اسے تلاش تھی۔ یہ میرا بڑا بھائی اظفر تھا اور میں اس سے پندرہ برس چھوٹی تھی۔ نوشابہ میں نے تم کو بستی بستی ، شہر شہر ڈھونڈا ہے۔ جب سے پولیس میں ملازم ہوا ہوں، میں تمہاری تلاش میں بھٹک رہا ہوں۔ امی ابو تمہارے لیے رورو کر بینائی کھو بیٹھے ہیں۔ اس مداری نے ہمارے اوپر بہت ظلم کیا ہے۔ اس نے ہم کو انگاروں پر لٹایا ہے ، پل پل تڑپایا ہے۔ ہر قسم کی آسائشیں اور سہولتیں ہوتے ہوئے تم اس گندے ماحول میں جینے پر مجبور ہوئیں۔ بہن ، اب جلدی کرو اور میرے ساتھ گھر چلو۔
اس کی بات میری سمجھ سے باہر تھی۔ میں اجنبی اور حیران نظروں سے کبھی پولیس آفیسر اور کبھی بابا کو دیکھ رہی تھی جن کی آنکھیں بھر آئیں تھیں ۔ میں بھی روتی آنکھوں سے ان کو دیکھ رہی تھی۔ پولیس آفیسر نے کئی سوال کیے لیکن مجھے اپنے ماضی کے بارے میں کچھ یاد نہ تھا۔ پچھلی زندگی کا اگر کوئی دھندلا سا خاکہ بھی میرے ذہن میں ہوتا تو میں فوراً اس میں رنگ بھر دیتی۔ بستی والوں نے بابا کے بے اولاد ہونے اور مجھے میلے سے اغوا کرنے کی تصدیق کر دی تھی۔ اب پولیس آفیسر اپنی گاڑی کا دروازہ کھولے منتظر کھڑا تھا۔ وہ مجھے ساتھ لے کر چلے۔ میں نے مڑ کر دیکھا۔ بابا غمگیں نظروں سے مجھے جاتا دیکھ رہا تھا، تبھی میرے قدم واپس پلٹے اور میں بھاگ کر ان کی طرف گئی۔ ان کے گلے سے لگ کر سک سک کر رونے لگی۔ ایک طرف روشن مستقبل کا خواب تھا اور دوسری طرف میرا ماضی تھا جہاں میں ابھی تک کھڑی تھی۔ اماں کے کہے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے تھے۔ ریشماں پیاری بیٹی میرے سانول ( بابا) کا خیال رکھنا۔ اپنے بابا کو دکھ مت دینا۔ ایک سوچ جاگی۔ میں نے مدعی کی طرف دیکھا اور پھر کہا۔ بھیا، بابا نے مجھ پر ظلم نہیں کیا۔ اس نے آپ لوگوں کو ڈھونڈا تھا جب کوئی نہ ملا تو بیٹی بنا کر پاس رکھ لیا۔ شکر ہے کہ انہوں نے سنبھالا۔ اگر میں گندے لوگوں کے ہاتھ لگ جاتی تو سوچو پھر کیا ہوتا؟ میری تقدیر میں یہی لکھا تھا۔ ان پر ناراض مت ہوں بلکہ ان کو بھی ساتھ لے چلو، تبھی میں آپ کے ساتھ جائوں گی، اکیلی نہیں جاسکتی کیونکہ یہی اب میرے بابا ہیں۔ساری بستی کو سانپ سونگھ گیا۔ وہ خاموش تھے ۔ مکمل سناٹا تھا۔ بابا کی سسکیاں تھم گئیں۔ انہوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر کہا۔ میری بچی ! جب تو نا سمجھ تھی میں نے تیری حفاظت کی، اب تیرے اصل وارث آ گئے ہیں۔ اب تم جائو۔ یہ کہتے کہتے وہ گرنے لگے اور پھر ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی کیونکہ وہ میری جدائی نہ سہہ سکے تھے۔ آج میں خوشیوں میں گھری ہوں مگر اپنے بابا کو کبھی نہیں بھول سکتی کہ وہ ایسے باپ تھے جو خوش نصیب لڑکیوں کو ملتے ہیں –