شیدو پڑوسن خالہ کا بیٹا تھا، ان کی بیوگی کا واحد سہارا ! خالہ کو اس سے بڑی امیدیں تھیں۔ یہ بچپن میں مسکین سا بیبا بچہ تھا، سانولا سلونا۔ سبھی اسے رحم بھری نظروں سے دیکھتے اور یتیم جان کر کچھ نہ کچھ دے دیا کرتے تھے۔ وہ ماں کے ہمراہ جہاں جاتا، پر امن اور بے ضرر سا ایک جگہ بیٹھارہتا۔ شرارت کرتا اور نہ کسی سے کچھ کہتا۔ اپنے ہم عمر بچوں سے بھی کنارا کئے رہتا تھا۔ ماں جہاں بٹھا دیتی ایک طرف کونے میں بیٹھ جاتا اور اس جگہ سے اس وقت تک نہ ہلتا جب تک خالہ کہہ نہ دیں کہ شیدو ! اب اٹھو، گھر چلنا ہے۔ خالہ ہاجرہ اکثر ہمارے گھر آیا کرتی تھیں۔ والدہ کا کوئی نہ کوئی کام رکا ہوتا تو خالہ کو دیکھتے ہی ان کی آنکھیں چمک اٹھتیں۔ ارے او د یکھو یہ آگئی نا ! ہاں بھئی ہاجرہ ! ہم تو بس تمہارا ہی انتظار کر رہے تھے۔ سردیاں سر پر آگئی ہیں اور رضائیاں نکالی نہیں ابھی تک ، آج ذرا ان کو بیٹی سے نکالو تو جو دھلنے والی ہیں۔ آنگن میں پھیلا کر سب کے دھاگے نکال لو اور غلاف اتار کر دھونے کو رکھ جائو۔ کل صبح آجانا، ان کو دھونا بھی ہے۔ خالہ بنا چوں و چرا اسٹور میں پیٹی کا ڈھکن دیوار سے لگا کر رضائیاں نکال لاتیں اور والدہ کے حکم کی تعمیل کرنے لگتیں۔ وہ دوپہر کے کھانے تک کام ختم کر کے اٹھ کھڑی ہو تیں۔ اچھا بی بی ! اب میں چلوں۔ ارے نہیں بھئی ابھی سے ، کھانا کھاتی جائو۔ دیر ہو رہی ہے بی بی ! گھر جا کر کھانا پکانا ہے۔ بس رہنے دوبی … ! کیا باتیں کرنی آگئی ہیں، کھانا کھا لو ، اچھا نہیں تو پھر گھر لے جائو، گھر جا کر کھا لینا۔ امی جانتی تھیں اس کے گھر کچھ نہیں ہے۔ شیدو کا سوکھا منہ بھی گواہی دے رہا ہوتا کہ جانے کب کا بھوکا ہے ، جیسے کئی روز سے مٹی بھی اڑ کر منہ میں نہ گئی ہو۔ امی سالن کا کٹورا اور اس پر چار پانچ روٹیاں رکھ دیتیں۔ یہ لو گھر جا کر اطمینان سے کھا لینا اور ہاں ! کل صبح سویرے آجانا، یہ غلاف اب دھونے تو تمہی نے ہیں۔ کھانا لے کے وہ یہ جا کر بیٹے کو پکارتی ۔ چلو شیدو ! آئو گھر چلیں اور وہ دوڑا ہوا کسی روبوٹ کی مانند اس کے ساتھ ہو لیتا۔ خالہ کا گھر نزدیک ہی تھا، تبھی ہم کو اس کے ہر حال کی خبر رہتی تھی۔ وہ بھی دکھ سکھ میں ہمارے ہی در کی طرف لپکتیں کیونکہ میری ماں ان کی دلجوئی کرتیں اور مدد کرنے کی ہر ممکن سعی بھی کیا کرتی تھیں۔ شیدو سات آٹھ برس کی عمر تک بالکل تابعدار اور فرمانبردار بچہ تھا لیکن بعد میں اس کی ذہنی کیفیات بدلنے لگیں۔ اب وہ ماں کو بتائے بغیر میدان کی طرف نکل جاتا جہاں کبوتر باز جمع ہوتے اکثر تو اس میدان میں بھی مرغ لڑانے کی بھی بازیاں لگتیں اور یہ کھیل شیدو بڑے شوق سے دیکھتا۔ ماں کو پتا چلا کہ شیدو میدان میں جانکلتا ہے اور شرطیوں کے کھیل دیکھتا ہے۔ وہ پریشان ہو گئیں۔ اس کو روکنے ٹوکنے لگیں۔ تم اس طرف مت جایا کرو جہاں گائوں بھر کے چرسی اور لفنگے اکٹھے ہوتے ہیں اور شرطیں لگا کر مرغ لڑاتے ہیں۔ شیدو اس وقت تو یہی کہتا کہ اب نہیں جائوں گا لیکن پھر وہ وہاں جانکلتا، شاید کہ اس کا دل اور کہیں نہیں لگتا تھا۔ خالہ نے بیٹے کو اسکول داخل کرایا تھا۔ بد قسمتی سے کچھ تیز طرار لڑکوں سے اس کی مڈ بھیڑ ہو گئی۔ لڑکے شرارتی تھے ، انہوں نے اسے بدھو کہہ کر چھیڑ چھاڑ شروع کر دی اور ایک دن جب شیدو نے ان کو بدھو کہنے سے روکا تو انہوں نے اس کی پٹائی کر دی۔ یہ روتا گھر آگیا اور ماں کو بتایا کہ لڑکے اس کو دھمکیاں دیتے ہیں کہ گدھے کی آواز نہ نکالی تو ماریں گے۔
ماں بے چاری مفلس ، غریب۔ وہ ڈر گئیں، دوبارہ بیٹے کو اسکول نہ بھیجا۔ گائوں میں یہ اکلوتا اسکول تھا، پس وہ تعلیم حاصل کرنے سے رہ گیا۔ تبھی میدان شیدو کی سب سے پسندیدہ جگہ ٹھہر گئی۔ اب اس نے قد نکال لیا تھا۔ ماں کے ہمراہ دوسروں کے گھروں میں نہیں جا سکتا تھا، پردے کا مسئلہ بھی گائوں میں ہوتا ہے۔ وہ گھر میں تنہا بور ہوتا تو میدان چلا جاتا۔ خالہ پریشان رہنے لگیں۔ محنت مزدوری بھی کرنی تھی، اپنا اور بچے کا پیٹ پالنا تھا۔ بیٹے کی نگرانی کیسے کرتیں۔ شیدو کی بن آئی۔ اسے لگا کہ نافرمانی میں مزے زیادہ ہیں۔ ماں تو صبح ہی گھر سے چلی جاتی ہے، کیوں نہ میں یہ مزے لوٹوں۔ وہاں کچھ کبوتر باز اپنے کبوتر بھی لاتے اور مقابلے میں اڑاتے ۔ لشکر کے لشکر کبوتر دیکھ کر شید و کو عجیب احساس ہوتا اور وہ سوچتا۔ کاش! ان میں سے کچھ تو میرے پاس بھی ہوتے۔ ان سفید، خاکستری اور چتکبرے پرندوں کو فضا میں اڑتے دیکھ کر اس کو مسرت ملتی۔ وہ بھولا سامنہ بنا کر انہیں اپنے سر پر سے اڑتے دیکھتا۔ محلے میں رہنے والے ایک لفنگے کبوتر باز نے اس کے شوق کو نوٹ کیا۔ اس کا نام شاکر تھا۔ وہ ایک روز شیدو کے قریب آیا اور کہنے لگا۔ کیا تم کو پرندے اچھے لگتے ہیں ؟ ہاں بہت …! تو پھر مجھ سے خرید لو، میرے پاس بہت ہیں۔ میں خرید نہیں سکتا، میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اچھا تو پھر ایسا کرو کہ روز صبح آکر میرے کبوتروں والے پنجرے کی صفائی کر دیا کرو۔ ایک مہینہ کام کرو گے تو کبوتروں کی ایک جوڑی مفت تم کو دے دوں گا۔ وہ اب روز شاکر کے گھر جانے لگا۔ اس کے کبوتروں کے کابک صاف کرتا اور کٹوریوں کو دھو کر پانی بھرتا، ان کو دانا ڈالتا۔ یوں اسے ان خوبصورت پرندوں کا قرب حاصل ہو جاتا۔ پرندوں کے خیال کو دل میں بسائے وہ بڑا ہو گیا۔ شاکر نے اس کو ایک نہیں دو جوڑی کبوتر دیئے تھے جن سے وہ والہانہ محبت کرنے لگا۔ وقت پر دانا، پانی ڈالتا اور جب وہ صبح سویرے غٹرغوں کرتے تو اس کا دل مسحور کر لیتے۔ اسے کوئی ہنر نہ آتا تھا۔ پڑھا لکھا بھی نہ تھا۔ محنت مزدوری کبھی لگتی اور کبھی نہ لگتی۔ زیادہ وقت وہ اپنے پالتو پرندوں کی دیکھ بھال پر صرف کرنے لگا۔
اب اس کے کبوتروں کی تعداد دو سے دس جوڑی ہو گئی تھی۔ روز شام کو چھت پر ان کو اڑانا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ جب ٹکڑیوں میں اڑتے اور پھر اس کی مخصوص آواز پر واپس لوٹ آتے تو شیدو کی خوشی دیدنی ہوتی تھی۔ ماں نے بھی اس مشغلے سے منع نہ کیا کہ چلو تنہائی سے تو اس کی جان چھوٹ گئی ، زیادہ گھر میں رہنے لگا ہے۔ ایک بار جانے کیا جی میں آئی کہ کبوتر بیچ کر اس نے ایک اصیل مرغ خرید لیا، شاید کہ اس کا جی کبوتروں سے بھر گیا تھا۔ جانتا تھا کہ اصیل مرغ پر شرط لگاتے ہیں اور جو جیت جاتا ہے اس کو کافی رقم مل جاتی ہے۔ اس نے اپنے مرغ پر توجہ دینی شروع کر دی اور اسے مرغوں کے دنگل کے لئے تیار کرنے لگا۔ ہاجرہ خالہ نے کافی سمجھایا کہ ان چکروں میں مت پڑو، شرط کی علت بری ہے ، شرطی ہو گئے تو پھر کہیں کے نہ رہو گے کہ یہ بھی جوئے کی طرح کا معاملہ ہے، جیسے جواری عمر بھر کے لئے بیکار ہو جاتے ہیں اور جوئے کے بنا ان کو چین نہیں آتا، ایسے ہی شرطی بھی اس علت میں پڑ کر کسی کام کے نہیں رہتے۔ ماں کی بات صحیح تھی۔ جب سے شیدو نے مرغے لڑانے شروع کئے تھے ، اس کا دل کسی اور کام میں نہیں لگتا تھا۔ کوئی کام کاج مل بھی جاتا تو د لجمعی سے نہ کرتا اور جلد کام چھوڑ دیتا۔ اس کا سارا دھیان اپنے اصیل مرنے کی طرف رہتا تھا۔ کچھ کماتا تو اپنے اس پالتو پہلوان شیرے کے لئے بادام، پستے خرید لاتا اور اس کو چوری کھلانے کے چکر میں رہتا۔ ماں کی خون پسینے کی کمائی بھی پہلوان مرغے کے پیٹ میں طاقتور خوراک کی صورت اترنے لگی۔ خالہ کو یقین ہو گیا کہ ان کی امیدوں کا مرکز ان کا اکلوتا بیٹا شرطی ہو گیا ہے ، ان چکروں نے اس کو ناکارہ کر دیا ہے۔ اب اس کے سدھرنے کی امیدیں بھی ختم ہوتی جارہی تھیں، کیونکہ وہ ماں کی تکلیف کا احساس نہ کرتا تھا اور نہ کوئی ذمہ داری پوری کرتا تھا۔ سوچا کہ اس کی شادی کر دوں شاید آنے والی ہی اسے سدھارے اور یہ مرغ بازی سے باز آجائے۔ اپنے جیسی ایک مفلس بیوہ سے اس کی بیٹی کا ہاتھ مانگا تو رشتے سے انکار نہ ہوا۔ شاید کہ وہ بیچاری بھی جواں سال بیٹی کا جنجال اپنے گلے سے نکالنا چاہتی تھی۔ شیدو کی شادی بیوہ عابدہ کی لڑکی سلطانہ سے ہو گئی۔ سلطانہ غربت کی ماری بے زبان سی لڑکی تھی۔ اپنے ہی جیسے گھر میں بہو بن کر آگئی۔ شیدو نے چند روز اس کے ساتھ خوشی کے منائے اور پھر سے اپنی دنیا میں لوٹ گیا۔ اسے سلطانہ سے زیادہ اپنے شیرو کا خیال تھا جس پر وہ جان چھڑکتا تھا اور اس کی پرورش میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتا تھا۔ یہ شیر وہی تھا جو دو مرتبہ دنگل جیت چکا تھا۔ رقم کے ساتھ ساتھ اس نے شیدو کا سر بھی فخر سے اونچا کر دیا تھا۔ اب وہ جو کماتا، اپنے اصیل مرغ پر خرچ کر ڈالتا۔ جلد ہی سلطانہ کو احساس ہو گیا کہ شیدو کبھی کما کر اس کو نہ کھلائے گا، اسے بھی ہر حال میں اپنی ساس کی مانند خود محنت مزدوری کر کے گھر کا خرچا چلانا ہو گا۔ وقت گزرتا گیا۔ سلطانہ کھجور کے پتوں سے پنکھے اور چٹائیاں بنانے کا کام کرنے لگی۔ اس دوران اس کے یہاں دو بیٹے ہو گئے۔ بچوں کی پرورش اور ان کا خرچا پورا کرنے کو وہ بیچاری سارا دن محنت کرتی۔ اس کی صحت خراب رہنے لگی۔ بچے بڑے ہوئے تو اسکول جانے کی بجائے وہ بھی کھیتوں میں محنت مزدوری کرنے لگے۔ خالہ ہاجرہ بوڑھی ہو گئی تھی، پھر بھی لوگوں کے گھروں میں جا کر کام کرتی لیکن شیدو ایسا بے حس کہ اس کو ماں کے بڑھاپے کا خیال تھا اور نہ معصوم بچوں کا … ! وہ مزے میں تھا۔ مفت کی کھاتا اور میدان میں جا کر مرغے لڑاتا۔ جب موڈ خراب ہوتا، مرغے بازی ہار جاتا تو بیوی کو روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیتا۔ سلطانہ تو چپ چاپ ظلم سہ رہی تھی لیکن بچوں کو باپ سے شدید نفرت ہو گئی۔ جب وہ باپ کو ایک عذاب کی صورت میں اپنے سروں پر سوار پاتے تو ان کا جی چاہتا کہ اس اضافی بوجھ کو ایک جھٹکے سے اتار کر پھینک دیں۔ بغاوت کی دبی دبی چنگاری شیدو کے لئے ان کے دلوں میں سلگتی رہتی تھی۔
بڑا بیٹا دلاور نفرت کا اظہار اکثر زبان چلا کر کرتا ، تب باپ اسے بہت پیٹتا اور چھوٹا لڑکا سہم کر ماں کے پیچھے چھپ جاتا۔ محلے والے شیدو کو سمجھاتے لیکن اس کے دل میں تو بس لڑاکے مرغے یا پھر کابک بسے ہوئے تھے جن میں کبوتر رہتے تھے ، وہاں کوئی اور احساس نہیں جاگتا تھا۔ دلاور کو جوں جوں شعور آتا گیا ، اس کے دل کی گھٹن بڑھتی گئی۔ باپ کے ہاتھوں پٹتے پلتے دل پتھر ہو گیا۔ اب وہ گھر سے غائب رہنے لگا۔ مزاروں پر پھٹے حالوں میں پھرتا اور لنگر سے کھانا کھاتا۔ ماں چادر لپیٹ کر اسے ڈھونڈنے جاتی۔ جہاں کہیں مل جاتا، پکڑ لاتی تب بھی شیدو آگ بگولا ہو جاتا کہ اس پاگل نامراد کو پھر لے آئی ہو ، اس کا کیا فائدہ ہے ؟ مفت کی روٹیاں توڑے گا۔ چھوٹے لڑکے خاور کو حالات کا احساس ہو گیا تھا۔ وہ ماں کا دکھ بانٹنے کو محنت مزدوری کرنے جاتا تھا، تبھی ایک روز ایک دوست کی منت کر کے مزدوری کرنے شہر کو نکل گیا۔ شہر میں مزدوری ملتی تھی اور اجرت بھی اچھی مل جاتی تھی۔ خاور مہینے بھر کی کمائی ماں کو بھجوا دیتا۔ شیدو کے اور مزے ہو گئے ۔ وہ چرس پینے لگا۔ آدھے سے زیادہ رقم بیوی سے بٹور جاتا۔ سال بعد خاور عید پر گھر لوٹا۔ سوچا کہ اب تو گھر کے حالات سدھر گئے ہوں گے لیکن دہلیز پار کرتے ہی اس کا دل بیٹھ گیا۔ ماں بستر سے لگی تھی اور شدید بیمار تھی۔ اس کی دوا دارو کسی نے نہ کی تو مرض بڑھ گیا۔ دادی تو پہلے ہی اللہ کو پیاری ہوگئی تھی۔ ایک روز دلاور بھی گھر سے ایسا گیا کہ دوبارہ نہ لوٹا۔ اس کے غم نے سلطانہ کا کلیجہ چاٹ لیا۔ ماں کی حالت دیکھ کر خاور کا دل خون ہو گیا۔ رات کو باپ گھر آیا تو آتے ہی کھانا مانگا، بیمار بیوی کھانا تیار نہ کر سکی تھی۔ اس نے سلطانہ کی بیمار ہڈیوں کا بھی خیال نہ کیا اور گھر کے برتن اٹھا اٹھا کر اسے مارنے لگا۔ وہ بیچاری کراہتی تھی اور کہتی تھی۔ !
شیدو بس کرو، بس کرو، نہیں تو میں مر جائوں گی۔ تھوڑی دیر تک خاور نے یہ تماشا دیکھا، پھر وہ چیتے ایسی پھرتی سے اٹھا اور چولہے کے پاس پڑی چھری کو اٹھا لایا، پھر ایک لمحہ توقف کے بغیر وہ دوڑتا ہوا صحن میں گیا اور کونے میں مٹی کے بنے دڑبے کی چوبی کھڑکی کو لات مار کر کھول دیا۔ اس اچانک حملے سے ”شیرو“ کڑکڑا اٹھا۔ اسے رات کو شیدو اسی مٹی سے بنے چھوٹے سے گھروندے میں بند کر دیا کرتا تھا۔ خاور نے ہاتھ بڑھا کر شیرے کی گردن کو اپنے ہاتھ کی مضبوط گرفت میں جکڑا اور باہر کھینچ لیا، پھر اس کے جسم پر لات رکھ کر اسے ذبح کر ڈالا۔ باپ نے جب دیکھا کہ بیٹا اس کے محبوب مرنے کو ذبح کر رہا ہے تو کلہاڑی لے کر اس کے سر پر پہنچا۔ چلانے لگا۔ خاور ! شیرو کو چھوڑ ورنہ اس کلہاڑی سے تیرے ٹکڑے کر ڈالوں گا۔ لیکن جوان خون تو جوش میں آچکا تھا۔ مرغا ذبح ہو گیا تھا۔ سرخ سرخ خون اچھل کر اس کی گردن سے فوارے کی طرح بہہ رہا تھا۔ شیدو یہ منظر برداشت نہ کر سکا۔ وہ بیٹے پر پل پڑا اور کلہاڑی کے وار کر کے اس کا کام تمام کر دیا، جیسے کہ اس کی سدھ بدھ جاتی رہی ہو یا کہ فاتر العقل ہو گیا ہو۔ سلطانہ کے شور و غوغا پر محلے والے آگئے اور پھر پولیس بھی آ پہنچی۔ شیدو گرفتار ہوا۔ تھانے میں انسپکٹر نے کہا۔ یار تم کیسے شقی القلب باپ ہو ، ایک معمولی مرغے کی خاطر تم نے اپنے ہی جوان بیٹے کا خون کر ڈالا۔ شیدو نے اس کی بات پر افسوس سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔ صاحب ! زیادتی میرے بیٹے نے کی تھی۔ اس نے ناحق شیرے کا خون بہایا، جبکہ میرا مرغ معمولی نہ تھا، وہ تو اصیل مرغ تھا…!