کرن پر نظر پڑتے ہی دلکش اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ کرن بغلوں میں بیساکھیاں دبائے اُداس آنکھوں میں حیرانی لیے دلکش کو اپنی جانب بڑھتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
’’کرن… اوہ میری پیاری کرن۔‘‘ دلکش نے بے ساختہ اسے آغوش محبت میں سمیٹ لیا۔
’’آپ کون ہیں آنٹی؟‘‘
کرن کے سوال پر دلکش لمحہ بھر کو سٹپٹائی۔ پھر مسکرا کر بولی۔ ’’مجھے آپ اپنی خالہ یا پھپھو سمجھ سکتی ہیں۔‘‘
’’پھپھو؟‘‘ کرن نے حیرانی سے سوال کیا۔ ’’یہ کون ہوتی ہے؟‘‘
’’پھوپھی۔‘‘ دلکش نے تحفے کا ڈبا کرن کی طرف بڑھایا۔ ’’پاپا کی بہن ہوتی ہے۔‘‘
کرن کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ ’’آپ… آپ کا مطلب ہے۔ آپ میرے پاپا کی بہن ہیں؟‘‘ کرن نے ڈبا تھام لیا تھا مگر اس کی حیران اور پُر اشتیاق نگاہیں اب بھی دلکش کے دلکش چہرے پر جمی تھیں۔ ’’آپ میرے پاپا کی بہن ہیں؟‘‘ اُس نے ایک بار پھر تصدیق چاہی۔ ’’آپ تو بہت اچھی ہیں مگر میرے پاپا… وہ مجھے پسند نہیں کرتے کیونکہ میں اپاہج ہوں… ایک معذور لڑکی۔‘‘
’’تم سے کس نے کہا کہ تم معذور ہو؟‘‘ دلکش نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے حیرانی سے کہا۔ ’’تم تو بہت خاص ہو۔ ایک دم خاص الخاص۔‘‘ دلکش نے اس کی پیشانی پر مہر محبت ثبت کرتے ہوئے پورے یقین سے کہا۔ ’’اور تم دیکھنا بہت جلد تمہارے پاپا بھی تم سے محبت کرنے لگیں گے اور تمہیں بہت خاص ماننے لگیں گے۔‘‘
کچھ دیر بعد جب دلکش واپسی کے لیے اُٹھی تو کرن اُداس ہوگئی تھی تب دلکش نے اسے یقین دلایا کہ بہت جلد وہ پھر آئے گی اور وہ دن دُور نہیں جب اس کے پاپا اسے اپنے ساتھ اپنے گھر لے جائیں گے۔
واپسی میں دلکش بہت افسردہ تھی۔ فضلو بابا کے پوچھنے پر اُس نے سچائی سے بتا دیا تھا کہ وہ مصعب کے بارے میں سوچ رہی ہے کہ جو شخص اپنی سگی بیٹی کا نہ ہوا وہ بھلا ایک انجانی لڑکی کے لیے کیا کرے گا؟ فضلو بابا نے سر گھما کر دلکش کے مایوس چہرے کی طرف دیکھا۔ ’’میں نے تمہیں بتایا تھا نا کہ مصعب صاحب ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے۔‘‘ لمحہ بھر توقف کے بعد وہ پھر بولے۔ ’’اور کل رات کے واقعے کے بعد سے مجھے یقین ہوگیا ہے کہ وہ ہمیشہ ایسے نہیں رہیں گے۔‘‘
دلکش کے چونک کر پوچھنے پر انہوں نے بتایا تھا۔ ’’تمہارے گائوں سے ناکام واپس لوٹنے کے بعد وہ تمہارے نکاح نامے کے لیے بہت فکرمند تھے، انہیں یقین تھا کہ صبح ہوتے ہی وہ نکاح نامہ جلیل شاہ کی خدمت میں پیش کر دیا جائے گا، گویا اسے حاصل کرنے کے لیے بس وہی ایک رات تھی۔‘‘
’’تو؟‘‘ دلکش نے پُرتجسس لہجے میں دریافت کیا۔
’’تو کیا؟‘‘ فضلو بابا بے نیازی سے مسکرائے۔ ’’انہوں نے مجھے سرشام ہی گائوں روانہ کر دیا تھا، گائوں جا کر مولوی کے لڑکے کی مدد سے میں وہ نکاح نامہ اُسی رات وہاں سے نکال لانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔‘‘
’’کیا؟‘‘ دلکش حیرت سے بولی۔ ’’کیا واقعی آپ وہ نکاح نامہ لے آئے؟ مگر یہ کیسے ہوا؟‘‘
’’یہ سب مصعب میاں کی وجہ سے ہوا۔‘‘ فضلو بابا کے لہجے میں مصعب کے لیے پیار چھلکنے لگا۔ ’’اب وہ بدل رہے ہیں اور تم دیکھنا وہ تمہارے لیے اور کرن بٹیا کے لیے ان شاء اللہ بہت کچھ کریں گے اور دیکھنا بہت جلد تمہارے ہر خواب کی تعبیر تمہیں مل جائے گی۔‘‘ فضلو بابا نے پریقین لہجے میں کہا اور شاپنگ سینٹر کے سامنے جیپ روک دی۔
٭…٭…٭
اُونچے نیچے چھوٹے بڑے ٹیلوں کے عقب میں کھنڈر نما گھر کے تہہ خانے میں قید عقیل شاہ ماضی کے کھنڈرات میں بھٹکتے پھر رہے تھے۔ گائوں میں زمینوں اور پھلوں کے باغات کے علاوہ شہر میں بھی کارخانے، کمرشل پلاٹس اور ایک وسیع کاروبار تھا۔ ایک پوش علاقے میں شاندار کوٹھی بھی موجود تھی۔ تعلیم حاصل کرنے کے زمانے میں جلیل شاہ اور عقیل شاہ اُسی کوٹھی میں رہتے تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد عقیل شاہ گائوں لوٹ آئے تھے۔ انہیں گائوں کی کھلی فضا بے حد پسند تھی مگر تعلیم مکمل کرنے کے باوجود جلیل شاہ شہر میں ہی مقیم رہا۔ شہر کی رنگین فضا کا سحر دھیرے دھیرے اُسے اپنی گرفت میں لیتا جا رہا تھا۔ پھر اس کی زندگی میں مرید خان داخل ہوا تھا جو ایک مجرمانہ ذہن کا شخص تھا، اُس نے اُسے اپنے پاس ڈرائیور رکھ لیا۔
مرید خاں جلیل شاہ کا ڈرائیور کیا بنا اُس نے جلیل شاہ کے سوچ کے انداز ہی بدل دیے۔ رفتہ رفتہ وہ جوئے اور شراب کا عادی ہوتا چلا گیا۔ اب آئے دن کوٹھی میں شراب و شباب کی محفلیں سجنے لگیں۔ انہی دنوں رئیس خلیل شاہ کے بچپن کے دوست انوار خان کی بیگم کا انتقال ہوگیا۔ وہ شہر کے ایک بڑے صنعت کار تھے۔ بیگم کی اچانک موت نے انہیں بہت بددل اور مایوس کر دیا۔ وہ اب جلد از جلد اپنی اکلوتی اور چہیتی بیٹی نوشابہ بانو کی شادی کے فرض سے سبکدوش ہو جانا چاہتے تھے۔ نوشابہ ایک حسین، ذہین اور سلیقہ شعار لڑکی تھی۔ رئیس خلیل شاہ جب بھی انوار خان سے ملنے جاتے تو نوشابہ سے مل کر بہت خوش ہوتے۔ البتہ جلیل شاہ اور عقیل شاہ سے اس کا کبھی آمنا سامنا نہیں ہوا تھا۔ اس کی بیوی کے انتقال کی خبر سن کر خلیل شاہ اپنے دونوں بیٹوں کے ہمراہ انوار خان کے گھر پُرسے کے لیے گئے تو پہلی بار اُن دونوں نے نوشابہ کو دیکھا تھا۔
اُس کی بھیگی پلکیں اور معصوم چہرہ دیکھ کر بے اختیار عقیل شاہ کا دل دھڑک اُٹھا تھا۔ رئیس خلیل شاہ اور عقیل شاہ، انوار خان سے تعزیت کے بعد گائوں کے لیے روانہ ہوگئے جبکہ جلیل شاہ مرید خان کے ساتھ اپنی کوٹھی کی طرف چل دیا۔ راستے میں مرید خان نے اُس سے کہا تھا۔ ’’سائیں آپ نے سائیں انوار خان کی چھوکری دیکھی نا؟‘‘
’’ہاں دیکھی۔ اچھی ہے۔‘‘ جلیل شاہ نے جواب دیا۔ ’’پر وہ ایک کروڑ پتی باپ کی بیٹی ہے۔ اسے ہم اپنی محفلوں کا حصہ نہیں بنا سکتے ویسے بھی وہ بابا سائیں کے دوست کی بیٹی ہے۔‘‘
’’تو سائیں میں کب کہہ رہا ہوں کہ آپ اُس سے فلرٹ کریں۔‘‘ مرید خان چمک کر بولا۔ ’’سائیں میں تو شادی کی بات کر رہا ہوں۔‘‘
’’شادی؟‘‘ جلیل شاہ حیران ہوا۔ ’’کس کی شادی؟‘‘
جلیل نے آج تک کبھی شادی کے بارے میں نہیں سوچا تھا نہ وہ اس جھنجھٹ میں پڑنا چاہتا تھا۔ مگر مرید خان نے اسے باور کروایا کہ اسے نوشابہ سے شادی کے بارے میں سوچنا چاہیے کیونکہ نوشابہ انوار خان کی تمام دولت جائداد کی اکلوتی وارث تھی۔ انوار خان دِل کا پرانا مریض تھا، دو اَٹیک اسے پہلے بھی ہو چکے تھے تیسرا اٹیک جان لیوا ثابت ہو سکتا تھا۔ اُدھر انوار خان دُنیا سے گیا اِدھر ساری دولت کی مالک اس کی بیٹی اور باالفاظ دیگر اس کا داماد مالک ہوگا۔
مرید خان کی باتوں نے جلیل شاہ کو سوچنے پر مجبور کر دیا مگر وہ اب بھی شادی کے حق میں نہیں تھا۔ مرید خان نے اسے مزید سمجھایا۔ ’’نوشابہ بی بی کے بارے میں سوچیں، ایک پڑھی لکھی سیدھی سادی بے زبان بیوی کسی مرد کے لیے نعمت سے کم نہیں ہوتی۔ جبکہ وہ اپنے ساتھ کروڑوں کی دولت و جائداد بھی لا رہی ہو تو کہنا ہی کیا۔ آپ بڑے رئیس سے بات کریں۔ اس سے پہلے کہ آپ کا عقل مند بھائی عقیل شاہ اُس سے شادی کی آرزو کر بیٹھے، آپ پہل کر دیں۔‘‘
مرید خان کے سمجھانے پر جلیل شاہ کی سمجھ میں بات آ گئی تھی اور اگلے دن ہی گائوں جا کر اُس نے باپ کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کر دیا۔ خود رئیس خلیل شاہ کو نوشابہ پسند تھی اور وہ اسے اپنے گھر کی زینت بنانا چاہتے تھے… مگر اس سلسلے میں اُن کے ذہن میں عقیل شاہ کا نام تھا۔ ایک تو بڑا بیٹا ہونے کے ناتے شادی کے لیے پہلا نمبر انہی کا تھا۔ دُوسرے نوشابہ جیسی معصوم اور سادہ لوح لڑکی کے لیے سیدھے سادے اور محبت کرنے والے عقیل شاہ ہی مناسب لگتے تھے۔ مگر اب جبکہ جلیل شاہ نے نوشابہ سے شادی کا عندیہ دیا تو خلیل شاہ اگلے ہی دن اپنے دوست کے پاس جا پہنچے۔
اُن کا مدعا سن کر انوار خان سنّاٹے میں آ گئے۔ انہیں توقع تھی کہ بڑا بیٹا ہونے کے ناتے وہ پہلے عقیل شاہ کی شادی کا فیصلہ کریں گے۔ ذاتی طور پر انوار خاں کو عقیل شاہ پسند تھے۔ اپنی بیٹی نوشابہ کی نگاہوں میں بھی انہوں نے عقیل شاہ کے لیے پسندیدگی کے سائے دیکھے تھے مگر اس پل خلیل شاہ اپنے نکمّے اور بدکردار بیٹے جلیل شاہ کے رشتے کی بات کر رہے تھے۔ وہ جلیل شاہ کے کرتوتوں کے بارے میں پوری طرح واقف تو نہ تھے مگر جتنی خبریں اُن تک پہنچی تھیں اُن کے ہوتے وہ بھلا آنکھوں دیکھی مکھی کیسے نگل سکتے تھے اور یہاں تو اُن کی اکلوتی اور چہیتی بیٹی کی زندگی کا سوال تھا۔ سو انہوں نے نہایت سلیقے سے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ نوشابہ گائوں کی زندگی پسند کرتی ہے جبکہ تم نے کہا کہ جلیل شاہ شہر میں رہنا چاہتا ہے… سو میں اپنی بیٹی کی اس خواہش کا احترام کرنا چاہتا ہوں اور اس کے لیے کسی ایسے لڑکے کا انتخاب کرنا چاہتا ہوں، جسے گائوں میں رہنا اور گائوں کی زندگی پسند ہو…
انوار خان نے واضح طور پر عقیل شاہ کی طرف اشارہ کر دیا تھا۔ خود خلیل شاہ کو نوشابہ کا جوڑ عقیل شاہ کے ساتھ ہی مناسب لگتا تھا مگر جب جلیل شاہ نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو وہ دامن پھیلائے انوار خان کے سامنے آ بیٹھے تھے۔ اب انوار خان کے انکار کے بعد عقیل شاہ کا خیال اُن کے ذہن میں آیا۔ انہیں نوشابہ بہت پسند تھی۔ وہ ہر حال میں اسے اپنی بہو بنانا چاہتے تھے سو انہوں نے آن کی آن میں عقیل شاہ کا نام پیش کر دیا۔ انوار خان بھی یہی چاہتے تھے۔ چشم زَدن میں نوشابہ بانو اور عقیل شاہ کا رشتہ طے ہوگیا۔ نوشابہ اور عقیل شاہ کے لیے یہ رشتہ مسرت و شادمانی کا باعث تھا۔ ایک ہی نگاہ میں وہ دونوں کیوپڈ کے تیر کا شکار ہو چکے تھے۔
جہاں تک جلیل شاہ کا تعلق تھا اُسے نوشابہ سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔ مرید خان کے کہنے پر وہ شادی کے لیے آمادہ ہوا تھا انکار ہونے پر اُسے کوئی خاص ملال نہیں ہوا تھا مگر مرید خان نے عقیل شاہ اور رئیس خلیل شاہ کے خلاف جلیل شاہ کے خوب کان بھرے اور کروڑوں کی جائداد کا آسانی سے ہاتھ سے نکل جانے کا کچھ اس طرح نقشہ کھینچا کہ جلیل شاہ غصّے اور حسد سے سُلگ اُٹھا۔ ایک ضد اور حرص اس کے اندر جاگ اُٹھی۔ اب وہ کسی بھی قیمت پر نوشابہ کو حاصل کرنے کا خواہش مند تھا۔ سو وہ سینہ تان کے باپ کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
رئیس خلیل شاہ نے ترچھی نظروں سے اس کی طرف دیکھا اس کے چہرے پر نفرت اور غصّے کے بڑے نمایاں آثار تھے۔
’’تم نے صرف ایک بار نوشابہ کو
دیکھا ہے۔‘‘ خلیل شاہ ضبط بھرے لہجے میں بولے۔ ’’وہ تمھیں اچھی لگی بس اتنی بات تھی نا؟ تمہارا اُس سے کوئی عشق نہیں چل رہا تھا۔‘‘ دھیرے دھیرے خلیل شاہ کی آواز بڑھتی جا رہی تھی۔ ’’پھر کس لیے تم یہ بات کرنے میرے سامنے آ گئے۔ میں نے تمھیں بتایا کہ پہلے میں نے تمہاری ہی بات کی تھی۔ اس کے باپ کے منع کرنے پر میں نے تمہارے بھائی کا رشتہ ڈالا، اس میں تمہارا غصّہ کہاں بنتا ہے۔‘‘
’’وہ… بابا سائیں… وہ۔‘‘ سارا غصّہ اور احتجاج جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور وہ ہکلانے لگا۔
’’بس۔‘‘ رئیس خلیل شاہ دھاڑ کر بولے۔ ’’آئندہ اس موضوع پر میں کوئی بات سننا پسند نہیں کروں گا۔ نوشابہ کا عقیل شاہ سے رشتہ طے ہو چکا اور آئندہ ہفتے وہ بہو بن کر اس حویلی میں آنے والی ہے۔‘‘ رئیس خلیل شاہ نے تیکھی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ ’’ویسے بھی جائداد کے بٹوارے کے بعد تمہارا اب اس حویلی سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ تمہاری دُنیا شہر میں ہے اس لیے تمہیں گائوں، اس حویلی، عقیل شاہ اور اس کی دلہن کی زندگی کی طرف پلٹ کر بھی دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
کہنے کے لیے تو جلیل شاہ کے پاس بہت کچھ تھا۔ بے اَدب، بد لحاظ اور بد تمیز انسان کے پاس ذخیرئہ الفاظ کی کمی نہیں ہوتی مگر باپ کے جلال کے سامنے جلیل شاہ کی بولتی بند ہوگئی تھی۔ دل کا پیچ و تاب دل ہی میں دبا کر وہ خاموشی سے واپس پلٹ گیا۔
ہفتے بھر بعد ہی نوشابہ اپنی تمام تر رعنائیوں، وفائوں اور محبتوں کے ساتھ دُلہن بن کر حویلی میں چلی آئی تھیں۔ حویلی کے خاموش در و دیوار ایک دَم گنگنا اُٹھے تھے، ہر سمت خوشیاں ناچتی محسوس ہو رہی تھیں۔
عقیل شاہ اور نوشابہ بانو ایک دُوسرے کو پا کر بے حد خوش تھے۔ اُن دونوں کو مسرور دیکھ کر رئیس خلیل شاہ بھی بے حد خوش تھے۔
نوشابہ کا پہلے جلیل شاہ نے انتخاب کیا تھا۔ وہ اپنے چھوٹے بیٹے کی اس خواہش کو پوری نہ کر سکے تھے۔ اس بات کا انہیں قلق تھا مگر وہ یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتے تھے کہ نوشابہ دُنیا کی آخری لڑکی تو نہیں ہے۔ وہ اپنے جلیل شاہ کے لیے نوشابہ سے بھی اچھی لڑکی دُلہن بنا کر لائیں گے مگر زندگی نے انہیں اس بات کی مہلت ہی نہ دی۔ حج کے دوران وہ ایک حادثے کا شکار ہو کر اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ اللہ کے گھر جانے والے اس زائر کو اپنے گھر واپس لوٹنا نصیب نہیں ہوگا۔ ایسا لگتا تھا جیسے انہیں اس حادثے کا پہلے سے ہی ادراک ہوگیا تھا تب ہی اپنی زندگی میں ساری دولت اور جائداد دونوں بیٹوں میں برابر تقسیم کر گئے تھے۔
٭…٭…٭
جلیل شاہ شہر کی کوٹھی میں رہائش پذیر تھا۔ شہر کا تمام کاروبار اور کارخانے اس کے حصّے میں آئے تھے۔ اسے نہ کاروبار کی سمجھ تھی، نہ محنت کی عادت۔ باپ کے بعد اب وہ پوری طرح خود مختار تھا۔ تمام دن وہ شراب کے نشے میں دُھت پڑا رہتا اور رات ہوتے ہی اس کی زندگی انگڑائی لے کے جاگ اُٹھتی۔ شراب کے ساتھ پانی کی طرح دولت بہہ رہی تھی دیکھتے ہی دیکھتے سارا بینک بیلنس ختم ہوگیا۔ اب جائداد کی فروخت کا سلسلہ شروع ہوا۔
اُن دنوں نوشابہ کے والد انوار خان کی طبیعت خراب تھی اور وہ اسپتال میں تھے۔ عقیل شاہ کو اطلاع ملی تو نوشابہ کو لے کے اسپتال پہنچے۔ خود نوشابہ پورے دن سے تھیں، اور اُسی رات اُن کی طبیعت خراب ہوگئی۔ شہر سے لیڈی ڈاکٹر بلوائی گئی۔ گائوں کی مشاق دائی خیرالنساء بھی موجود تھی اور صبح دم نوشابہ نے ایک چاند سے بیٹے کو جنم دیا تھا۔
نواسے کی خوش خبری نے انوار خان کو پھر سے زندہ کر دیا تھا۔ انہوں نے بہت چائو سے نواسے کا نام ’’عدیل شاہ‘‘ رکھا۔ عقیل شاہ اصرار کر کے انوار خان کو اپنے ساتھ گائوں ہی لے آئے تھے۔ ننھے نواسے کے ساتھ اُن کا دل لگا رہتا۔ وہ عدیل شاہ کو پا کر بے حد خوش تھے۔ انہوں نے اپنی ساری جائداد اور دولت ننھے عدیل شاہ کے نام منتقل کر دی تھی۔
اُدھر عقیل شاہ کی دولت و جائداد اور خوشیوں میں دن دُگنا رات چوگنا اضافہ ہو رہا تھا، تو دُوسری طرف جلیل شاہ کی جائداد ایک ایک کر کے بکتی جا رہی تھی۔ اور اب اُس کوٹھی کے بکنے کی نوبت آ گئی تھی جس میں وہ رہ رہا تھا۔
’’یہ کوٹھی بک گئی تو ہم کہاں رہیں گے مرید خان؟‘‘ پہلی بار جلیل شاہ کے چہرے پر تشویش کے سائے لرزے۔ ’’نہیں نہیں، ہم یہ کوٹھی نہیں بیچ سکتے۔‘‘
’’سائیں! آپ کوٹھی نہیں بیچیں گے تو قرض خواہ آپ کو جیل بھجوا دیں گے۔ یہ کوٹھی ہر صورت فروخت کرنی پڑے گی۔‘‘ مرید خان نے حالات کی سنگینی کا احساس دلاتے ہوئے کہا۔ ’’اور رہا سوال کہ کوٹھی بکنے کے بعد آپ کہاں رہیں گے تو سائیں سیٹھ انوار خان کی شاندار کوٹھی قریب ہی موجود ہے… وہ خود تو ادھر بیٹی داماد کے ساتھ گائوں میں پڑا ہے اور سنا ہے آج کل سخت بیمار ہے۔ چند دنوں کا ہی مہمان ہے۔‘‘
’’پھر بھی…‘‘ جلیل شاہ نے کہا۔ ’’جس شخص نے مجھے ریجیکٹ کیا تھا، میں اس کی کوٹھی میں…‘‘
’’سائیں اس کی کوٹھی کدھر ہے اب۔‘‘ مرید خان نے وضاحت کی۔ ’’اُس نے یہ کوٹھی آپ کے بھتیجے عدیل شاہ کے نام کر دی ہے… صرف یہی کوٹھی نہیں بلکہ اپنی ساری جائداد اپنے نومولود نواسے کے نام کر دی ہے… عدیل شاہ جب بالغ ہو گا تو ہر چیز کا بلا شرکت غیرے مالک بن جائے گا۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ جلیل شاہ نے آنکھیں پھیلا کر مرید خان کی طرف دیکھا۔ ’’دیکھا تو نے مرید خان، میرا بھتیجا کتنا بھاگوان ہے کہ پیدا ہوتے ہی ارب پتی بن گیا، ایک میں بدبخت…‘‘
’’آپ بدبخت کیسے ہو سکتے ہیں سائیں۔‘‘ مرید خان نے معنی خیز لہجے میں کہا۔ ’’آخر آپ اُس بچّے کے چاچا جی ہیں… اس کے باپ کے چھوٹے بھائی… آپ کو اُن سے ملنا چاہیے۔ اپنی حماقتوں کی معافی مانگنی چاہیے… بات کو ذرا سمجھیں خود آپ کے بھائی عقیل شاہ کی کتنی بڑی جاگیر ہے۔‘‘
’’میرے بوڑھے باپ نے یہاں بھی ڈنڈی ماری۔‘‘ جلیل شاہ کے لہجے سے غصّہ چھلکنے لگا۔ ’’ساری زندگی میرے مقابلے میں وہ عقیل شاہ کو زیادہ چاہتا رہا… وہ سونے کی چڑیا بھی اُس نے اس کے حوالے کر دی۔ جائداد کی تقسیم میں بھی اُس نے بے انصافی کی… گائوں کی حویلی اور ساری جاگیر عقیل شاہ کے نام کر دی۔‘‘
’’اس ناانصافی کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کا حق عقیل شاہ کی جائداد پر بنتا ہے۔‘‘ لوہا گرم دیکھ کر مرید خان نے ضرب لگائی۔ ’’اب یہ دیکھیے اگر بڑے رئیس نے آپ کی شادی نوشابہ بیگم سے کر دی ہوتی تو آج شہر کی کوٹھی، پلازے، پلاٹ سب آپ کے ہوتے… گویا ان سب چیزوں پر پہلا حق تو آپ کا ہی بنتا ہے۔‘‘ مرید خان کی بات نے اُس پر سوچ کی نئی راہیں کھول دی تھیں۔ اس کے سوکھے دھانوں میں گویا کہ پھر سے پانی پڑ گیا تھا۔
’’سائیں! آپ نے اپنا تو سب کچھ ناسمجھی اور ناتجربہ کاری میں گنوا دیا۔‘‘ مرید خان نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا۔ ’’اب عقیل شاہ کا سب کچھ، اپنا بنانے کے لیے بہت سمجھ داری، ہوشیاری کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں کسی کہنہ مشق وکیل کی ضرورت ہوگی۔ اور سائیں خوش بختی سے میں ایک ایسے وکیل کو جانتا ہوں اس کا نام ہے خواجہ نوید۔‘‘
اور اُسی رات وکیل اور جلیل شاہ کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا۔ کوٹھی فروخت کر کے قرض خواہوں میں رقوم تقسیم کر کے بالکل قلاش ہو کر جلیل شاہ، وکیل خواجہ نوید اور مرید خان کے ساتھ گائوں کے لیے روانہ ہوگیا۔ آج وہ پورے پانچ سال بعد اپنے بڑے بھائی عقیل شاہ اور اس کے بیوی بچّے سے ملنے گائوں جا رہا تھا۔ اس کے دل میں بھائی بھتیجے کی محبت نہیں بلکہ ایک زبردست سازش تھی جو اس کے وکیل اور عیار خادم مرید خان نے مل کر تیار کی تھی۔
٭…٭…٭
غفار نے آذر کو فون کیا اور ایک ہی سانس میں ساری کہانی کہہ سنائی۔
آذر کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ ’’کیا کہہ رہے ہو غفار؟‘‘ انہوں نے بے یقینی سے سوال کیا۔
’’ٹھیک کہہ رہا ہوں صاحب!‘‘ دُوسری طرف سے غفار کی گھبرائی ہوئی آواز اُبھری۔ ’’آپ کی شادی کی خبر سنتے ہی کنزہ میم کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا، انہوں نے کہا کہ وہ آپ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتیں اور انہوں نے خودکشی کرلی۔‘‘
’’خودکشی؟‘‘ آذر ایک دَم گھبرا گئے۔ ’’وہ اس وقت کہاں ہے؟‘‘
’’جی! وہ آپ کے کمرے میں آپ کی کرسی پر مردہ حالت میں پڑی ہوئی ہیں۔‘‘ غفار نے جو محسوس کیا تھا وہ بتا دیا۔ اس کا خیال تھا کہ کنزہ مر چکی ہے۔
آذر کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا۔ وہ تیزی سے اپنی کار کی جانب لپکے۔ اب تک کار سے بیگم تیمور، نورجہاں اور فریحہ باہر آ چکی تھیں وہ دروازہ کھول کر عجلت میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے اور آفس کی طرف روانہ ہوگئے۔ اُن کا دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا۔ اس خبر نے انہیں بدحواس کر دیا تھا کہ کنزہ نے اُن کے نام پر اپنی جان دے دی تھی۔ وہ ایک میچور، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ذہین لڑکی تھی۔ وہ بھلا ایسی بے وقوفی کس طرح کر سکتی تھی؟
اُن کی آنکھوں میں کنزہ کی تصویر گھوم رہی تھی۔ اس کا محنت، دیانت داری، ذمے داری اور خوش اسلوبی سے اپنے فرائض کی ادائیگی کے پیچھے محبت کا احساس کارفرما ہوگا یہ انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ ہاں، کبھی کبھی اس کی آنکھوں سے چھلکتے کچھ ان کہے جذبے انہیں چونکا ضرور دیتے تھے مگر ان جذبوں پر غور کرنے کے لیے انہیں کبھی فرصت ہی نہیں ملی تھی، نہ ہی خود کنزہ نے کھل کر کبھی اظہار کیا تھا۔
وہ آفس پہنچے غفار انہیں ہال کے دروازے پر ہی کھڑا ہوا مل گیا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ کنزہ کو ایمبولینس میں ڈالے اسپتال کی طرف جا رہے تھے۔ اسپتال پہنچتے ہی کنزہ کو اسٹریچر پر ڈال کر آپریشن تھیٹر کی طرف لے جایا گیا اور وہ کائونٹر پر ضروری کارروائی سے نمٹنے کے بعد آپریشن تھیٹر کے باہر آ کھڑے ہوئے تھے۔
انہوں نے دیوار پر لگی گھڑی کی طرف دیکھا ساڑھے بارہ ہو چکے تھے۔ وقت چیونٹی کی طرح رینگ رہا تھا۔ وہ دل ہی دل میں کنزہ کی زندہ سلامت بچ جانے کی دُعا مانگ رہے تھے۔ کنزہ کے اس خود ساختہ فیصلے میں اُن کا کوئی قصور نہ تھا لیکن وہ خود کو قصوروار تصور کر رہے تھے۔ انہیں اپنے ہاتھ کنزہ کے خون میں رنگے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔ وہ بھی کتنے بے حس اور بے خبر تھے۔ ایک لڑکی انہیں دل ہی دل میں اتنی شدّت سے چاہ رہی تھی کہ ان کی شادی کی خبر سنتے ہی اُس نے موت کی وادی میں چھلانگ لگا دی تھی اور ایک وہ
وہ اس کی محبت کو محسوس نہ کرسکے تھے۔ وہ حیران و پریشان مسلسل کنزہ کے بارے میں سوچے جارہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں انہیں اطلاع دی گئی کہ کنزہ اب خطرے سے باہر ہے۔
’’خدا کا شکر ہے کہ کنزہ میم زندہ ہیں…‘‘ غفار نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا۔ کچھ ہی دیر میں اسے پرائیویٹ روم میں منتقل کر دیا گیا۔
کنزہ کو ہوش آ گیا تھا اور وہ پژمردہ سی بستر پر لیٹی تھی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ چہرے پر ہلدی کھنڈی ہوئی تھی۔ ایک گہرے اضمحلال نے اس کے وجود کو اپنے احاطے میں لیا ہوا تھا۔ آذر بے آواز چلتے کنزہ کے بستر کے قریب چلے آئے تھے۔ غفار کمرے کے دروازے کے باہر ہی رُک گیا تھا۔
’’کنزہ۔‘‘ آذر نے کنزہ کی سمت جھکتے ہوئے دھیمی آواز میں اسے پکارا۔ اُن کی آواز سنتے ہی اُس نے فوراً آنکھیں کھول دی تھیں۔ چند لمحے وہ کرب بھری نظروں سے انہیں تکتی رہی، چند لمحے انہیں خالی خالی نظروں سے دیکھنے کے بعد اُس نے ایک دَم اُٹھ کر اپنے بازو اُن کے گلے میں حمائل کر دیے اور اُن کے سینے پر سر ٹکا کر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔
آذر کسی ایسی صورت حال کے لیے تیار نہ تھے۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں؟ اپنے سینے پر دھرا کنزہ کا آنسو لٹاتا سر اُن کے وجود میں ایک عجب کیفیت جگا رہا تھا۔
’’مجھے کیوں بچا لیا آذر… کیوں؟‘‘ وہ سسکیوں کے درمیان کہہ رہی تھی۔ ’’مجھے مر جانے دیا ہوتا۔ میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہنا چاہتی۔ مجھے مر جانے دو یا مجھے اپنا بنا لو… پلیز آذر میری محبت کو مت ٹھکرائو… مجھے اپنی محبت کی پناہ دے دو… مجھے اپنی محبت دے دو آذر…‘‘
سچّے جذبوں میں گندھی اس کی سسکتی آواز کانوں کی راہ سے قطرہ قطرہ اُن کے دل پر گر رہی تھی۔ لمحہ بھر کو تو وہ یہ بات بالکل ہی بھول گئے تھے کہ کچھ دیر قبل ہی وہ اپنا آپ اور اپنے تمام حقوق ایک انجانی اَجنبی لڑکی کے نام لکھ چکے ہیں۔ اب وہ کسی کے شوہر ہیں۔ کسی کے شریک حیات ہیں۔ انہوں نے نگاہ اُٹھا کر روتی بلکتی کنزہ کی سمت دیکھا اور ایک مضبوط اور غیر متزلزل عزم کے ساتھ بازو پھیلا کر اسے اپنی محبت کی پناہ میں سمیٹ لیا۔
’’کنزہ بس!‘‘ اب کے اُن کے لہجے میں ایک اپنا پن تھا۔ پیار کا سچا اور بھرپور احساس تھا۔ ’’بس اب یہ آنسو پونچھ ڈالو… اب میں کبھی بھی تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں آنے دوں گا۔‘‘
کنزہ کے آنسو تھم گئے۔ وہ آذر کی بانہوں میں سمٹی ہوئی تھی۔ اس کے آنسو تھمتے ہی جیسے آذر ہوش و خرد کی دُنیا میں واپس آ گئے تھے۔ اسے اپنے اتنے قریب پا کر وہ ایک دَم خجل سے ہوگئے۔ انہوں نے اسے بازوئوں کے حصار سے آزاد کر کے آہستہ سے بستر پر لٹا دیا۔ وہ تکیہ پر سر دھرے ٹکٹکی باندھے اُن کی جانب تکے جا رہی تھی۔
’’اب تم آئندہ کبھی ایسی کوئی حرکت نہیں کرو گی۔‘‘ انہوں نے اس کی کلائی پر بندھی بینڈیج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’تمہیں زندہ رہنا ہے اپنی خاطر اور میری خاطر… میرے لیے۔‘‘
اَدھ کھلے دروازے کی آڑ میں کھڑی بیگم تیمور نے سپاٹ چہرے کے ساتھ ایک بار پھر اندر جھانک کر دیکھا۔ وہ ابھی کچھ ہی دیر پہلے پہنچی تھیں۔ اس اسپتال کے بارے میں انہیں غفار نے فون پر بتایا تھا۔ یہاں پہنچنے کے بعد وہ پہلے غفار سے ہی ملی تھیں پھر آہستگی سے اُس کمرے کی طرف بڑھ گئی تھیں جہاں کنزہ کو رکھا گیا تھا۔ دروازہ پوری طرح بند نہیں تھا، دَبے پائوں چلتی وہ بالکل دروازے کے قریب پہنچ گئی تھیں، اندر جھانک کر دیکھنے پر اندر کے منظر نے انہیں لمحے بھر کو چکرا کر رکھ دیا تھا۔
کنزہ کو آذر کے قریب آنے سے روکنے کی خاطر ہی انہوں نے لپک جھپک ایک انجانی لڑکی کو آذر کی زندگی کا ساتھی بنا دیا تھا۔ وہ معصوم لڑکی آنکھیں بند کیے گھونگھٹ میں چہرہ چھپائے اُن کی خواب گاہ میں اُن کی راہ تک رہی تھی اور اسپتال کے اس روم میں کنزہ موت کا ناٹک رچا کر اُن کے دل میں اپنے لیے جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔
ایک لمحے کو بیگم تیمور کو اپنی ساری تگ و دو رائیگاں جاتی محسوس ہوئی۔ وہ بے حد کوششوں سے آذر اورکنزہ کے درمیان جو دیوار کھڑی کرنے میں کامیاب ہوئی تھیں وہ دیوار کنزہ کے چند آنسوئوں میں لمحوں میں بہہ گئی تھی۔ ناکامی کا شدید احساس غصہ بن کر اُن کے نس نس میں سرایت کرتا جا رہا تھا۔ آج تک انہیں کبھی شکست نہیں ہوئی تھی، انہوں نے جو چاہا تھا کیا تھا، جو چاہا تھا پایا تھا۔ مگر آذر کے ہاتھوں میں دبا کنزہ کا پٹّی زدہ ہاتھ انہیں ان کی شکست کا احساس دِلا رہا تھا۔
انہوں نے تحقیر بھری نظروں سے کنزہ کی طرف دیکھا اور تمام تر وقار اور رکھ رکھائو کے ساتھ واپسی کے لیے مڑ گئیں۔ ’’غفار، آذر اور کنزہ کو پتا نہیں چلنا چاہیے کہ ہم یہاں آئے تھے…‘‘ انہوں نے غفار کو تنبیہ کی اور اُس نے جلدی سے سعادت مندی سے اثبات میں سر ہلا دیا۔
آذر کے ہاتھ میں دبا کنزہ کا ہاتھ، بالکل اچانک بج اُٹھنے والی موبائل ٹون سے لمحہ بھر کو لرز کر رہ گیا۔ انہوں نے ہڑبڑا کر کنزہ کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا اور جیب سے موبائل نکال کر کان سے لگا لیا۔ ’’یس مام…‘‘
’’بیٹا کہاں ہو؟‘‘ صاعقہ تیمور کی فکرمند آواز سنائی دی۔ ’’بنا بتائے یوں چلے گئے… میں کس قدر پریشان ہوں۔‘‘
’’سوری مام۔‘‘ آذر ایک دم شرمندہ ہوگئے۔ ’’وہ بس مام…‘‘
’’غفار سے پتا چلا کہ کسی ورکر کے ساتھ ایمرجنسی ہوگئی تھی… خیر یہ سب باتیں چھوڑو اور فوراً چلے آئو…‘‘ پھر وہ رُک کر بولیں۔ ’’میں جانتی ہوں تم ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر ہو۔ اپنے ورکرز کا بہت خیال رکھتے ہو، مگر اس کے ساتھ تم ایک اچھے انسان اور ایک اچھے بیٹے بھی ہو… اور اب تمہیں یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ تم ایک شوہر بھی بن چکے ہو۔ بس آدھے گھنٹے کے اندر گھر پہنچ جائو۔‘‘ اتنا کہہ کر انہوں نے فون بند کر دیا۔ انہیں یقین تھا کہ اب آذر ہر قیمت پر مقررہ وقت میں گھر پہنچنے کی کوشش کرے گا۔
کنزہ نے گہری نگاہوں سے آذر کے چہرے کا جائزہ لیا۔ فون بند کرتے ہی وہ ایک دم سے کھڑے ہوگئے۔ ’’مام کا فون تھا… مجھے جانا ہوگا۔‘‘
’’وہاں آپ کے بیڈ روم میں نئی نویلی دُلہن آپ کی راہ تک رہی ہوگی۔‘‘ کنزہ نے کرب بھرے لہجے میں کہا۔
آذر کو اچانک ہی اُس اجنبی لڑکی سے جسے اب اُن کی دُلہن ہونے کا اعزاز حاصل ہو چکا تھا ایک عجب سی بیزاری اور نفرت کا احساس ہوا۔ اس سارے فساد کی اصل ذمّے دار وہی لڑکی تھی نہ ان کی شادی اُس لڑکی سے ہوتی نہ کنزہ خودکشی کرتی۔ اُن کا دل چاہا وہ کبھی اس لڑکی کی شکل نہ دیکھیں اور انہوں نے اپنے اس احساس کا اظہار کنزہ کے سامنے بھی کر دیا۔
یہ سن کر کنزہ کا چہرہ ایک دَم روشن ہوگیا تھا۔ ’’آپ مجھ سے وعدہ کیجیے کہ آپ اپنی دُلہن کی طرف دیکھیں گے بھی نہیں…‘‘ کنزہ نے کسی چھوٹے بچّے کی طرح ضدّی لہجے میں کہا۔
’’کنزہ! اگر تم نے پہلے یہ سب کچھ کہہ دیا ہوتا تو اس کی نوبت آتی ہی نہیں، میں مام کے سامنے تمہارا نام لے دیتا اور وہ کسی اجنبی لڑکی کو میرے لیے منتخب کرنے کی بجائے بے حد اہتمام اور پیار سے تمہیں اپنی بہو بنا لیتیں۔‘‘
’’واہ رے خوش فہمی۔‘‘ کنزہ نے جل کر دل میں سوچا۔ ’’تمہاری گھاگ ماں کو میری دلچسپی کا اندازہ ہوگیا تھا تب ہی وہ کسی راہ چلتی لڑکی کو چشم زدن میں تمہاری دُلہن بنا کے لے آئی۔‘‘
’’کیا سوچنے لگیں؟‘‘ آذر نے پیار بھرے لہجے میں پوچھا۔
’’یہی کہ آپ نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔‘‘
’’کون سی بات؟‘‘ آذر انجان بن گئے۔
’’آپ کو وعدہ کرنا ہوگا کہ آپ صرف میرے اور صرف میرے ہی رہیں گے۔‘‘
’’میرے دل کی دُنیا میں اب تمہارے سوا، کوئی اور داخل نہیں ہو سکے گا۔‘‘
آذر نے یقین دلایا اور واپسی کے لیے مڑ گئے۔ دروازے پر غفار مستعد کھڑا تھا۔ اسے ہدایات دیتے وہ پارکنگ کی طرف بڑھ گئے تھے۔
٭…٭…٭
نورجہاں کافی دیر بعد دوبارہ کمرے میں داخل ہوئی تو اُس نے فریحہ کو اُسی پوزیشن میں سر جھکائے محجوب سی بیٹھے دیکھا تو اس کا دل اس کے لیے رحم اور ہمدردی سے بھر گیا۔ ’’دُلہن بیگم آپ ذرا تکیہ پر ٹک جاتیں تو اچھا تھا۔ اللہ جانے آذر میاں کب تک واپس لوٹیں، آدھی سے زیادہ رات تو گزر گئی… آپ کے لیے پانی لائوں؟‘‘ نورجہاں نے اگلے ہی لمحے جگ سے گلاس میں پانی اُنڈیل کر اس کی طرف بڑھایا۔ فریحہ نے شکریہ ادا کر کے گلاس تھام لیا۔
’’میں تو کہہ رہی ہوں، آپ سو جایئے…‘‘ نورجہاں نے اس کے چہرے سے مترشح تھکن کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔ ’’کل ولیمہ ہے آپ کے سب گھر والے آئیں گے… کل آپ کو اپنے گھر والوں کے سامنے کم از کم خوش نظر آنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘
تب ہی دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ نور جہاں نے دروازے کی طرف دیکھ کر مسرت بھرے لہجے میں کہا۔ ’’لیجیے آذر میاں آ گئے۔‘‘
آذر تھکے تھکے قدموں سے اندر داخل ہوئے نور جہاں کو دیکھ کر لحظہ بھر کو ٹھٹکے۔
’’میں دُلہن بیگم کو پانی پلانے آئی تھی۔ انہوں نے آپ کی راہ تکتے ہوئے پوری رات آنکھوں میں کاٹ دی۔‘‘
آذر نے بے ساختہ فریحہ کی طرف دیکھا۔ وہ گھونگھٹ میں چہرہ چھپائے سر جھکائے بیٹھی تھی۔ وہ باتھ روم کی طرف مڑ گئے، کچھ دیر بعد سلیپنگ سوٹ میں ملبوس باتھ روم سے برآمد ہوئے، آہستگی سے چلتے ہوئے فریحہ کے قریب سے گزر کر بیڈ کی داہنی جانب آئے۔ فریحہ دَم سادھے دھڑکنیں روکے اُن کے قدموں کی آہٹیں گن رہی تھی۔ انہوں نے ہاتھ بڑھا کر بیڈ سے تکیہ اُٹھایا اور واپسی کے لیے مڑنے سے پہلے غیرارادی طور پر اُن کی نگاہ فریحہ کی طرف اُٹھ گئی۔
’’آپ اس طرح کیوں بیٹھی ہیں؟‘‘ چاہتے ہوئے بھی وہ اپنی آواز میں سرد مہری پیدا نہ کر سکے۔ ’’لباس تبدیل کرلیجیے اور سوجایئے…‘‘ پھر وہ تکیہ سنبھالے سامنے کی جانب پڑے صوفے کی طرف بڑھ گئے۔
فریحہ کئی لمحوں تک اپنی جگہ ساکت بیٹھی رہی۔ پھر گھونگھٹ سرکا کر آذر کی طرف دیکھا۔ وہ ایک جانب تکیہ رکھ کر صوفے پر لیٹ چکے تھے۔ ایک بازو آنکھوں پر دھرا تھا۔ فریحہ کی آنکھوں میں حیرانی اور پریشانی اُتر آئی۔
وہ آہستگی سے بستر سے نیچے اُتر آئی۔ اچانک ہی اس کے پیروں میں پڑی پازیب زور سے بج اُٹھی تھی۔ آذر نے بے اختیار آنکھوں پر سے بازو ہٹا کر بیڈ کی طرف دیکھا، وہ مجرم کی طرح
سر جھکائے خجل سی کھڑی تھی اس کے معصوم چہرے پر کچھ عجب سی کیفیت تھی۔
وہ لمحہ بھر کو بے خود سے اُسے دیکھے گئے۔ اُس نے گھبرا کے قدم باتھ روم کی طرف بڑھا دیے تھے۔ اس کی پازیبوں میں پڑے گھنگھروئوں کی نقرئی جھنکار ایک تسلسل کے ساتھ گونجتی رہی اور وہ نا چاہتے ہوئے بھی اس مدھر موسیقی کو سنتے رہے۔
کچھ دیر بعد لباس تبدیل کر کے وہ باتھ روم سے باہر نکلی تو پازیب بھی اُتار چکی تھی۔ سارے زیور بھی اُس نے اُتار کر ڈریسنگ ٹیبل کی دراز میں رکھ دیے، کئی لمحوں تک وہ بیڈ پر بیٹھی آذر کی طرف دیکھتی رہی۔ انہوں نے دوبارہ آنکھوں پر بازو رکھ لیا تھا۔
وہ آہستگی سے چلتی آذر کے پاس چلی آئی۔ ’’سنیے۔‘‘ اس کی دھیمی مترنم آواز پر بے ساختہ انہوں نے آنکھوں سے بازو ہٹا کر اس کی طرف دیکھا۔ کچی نیند کے خمار سے بھری آنکھوں میں لمحہ بھر کو حیرت لہرائی ابھی کچھ ہی دیر پہلے انہوں نے اسے ٹیکہ، جھومر، تیز میک اَپ اور سُرخ زرتار لباس میں دیکھا تھا اور اس وقت وہی لڑکی ہلکے گلابی نائٹ گائون میں اُن کے سامنے کھڑی تھی۔ اس کے لمبے سیاہ گھنے بال شانوں سے گزر کر پُشت پر لہرا رہے تھے، ہر طرح کے بنائو سنگھار سے بے نیاز اس کا معصوم چہرہ بے حد دلکش لگ رہا تھا۔ ’’یہ معصوم سی لڑکی سادگی میں کس قدر منفرد اور دلکش نظر آ رہی ہے۔‘‘ آذر سوچے بنا نہ رہ سکے۔ وہ بے ساختہ اُٹھ بیٹھے۔ فریحہ گھبرا کر ایک قدم پیچھے ہٹ گئی۔ اس کے یوں گھبرا کر پیچھے ہٹنے پر آذر کے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ بکھر گئی۔ مسکراتے سمے اُن کے خوبصورت چہرے پر کیسی رعنائی اور دلنوازی بکھر گئی تھی۔ فریحہ نے حیران نظروں سے اُن کے دلکش چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا ۔
’’امی جان بتا رہی تھیں… آپ کے آفس کے کسی ورکر کے ساتھ کوئی… حادثہ پیش آ گیا تھا۔ اب ان کی طبیعت کیسی ہے؟‘‘
’’اب وہ ٹھیک ہے۔‘‘ انہوں نے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔ اس کے ساتھ ہی انہیں کنزہ کا خیال آ گیا تھا، ساتھ ہی اُس سے کیا گیا وعدہ بھی یاد آ گیا۔ اُن کے نرم اور مہربان چہرے پر ایک غیر محسوس سا تنائو پیدا ہوگیا۔
’’آپ صوفے… پر کیوں بیٹھے ہیں؟‘‘ فریحہ نے ہمت مجتمع کر کے اَٹکتے لہجے میں کہا۔ ’’آپ ادھر بستر پر چلے جایئے… میں اِدھر۔‘‘
’’پلیز…‘‘ آذر نے ایک بار پھر اس کی طرف دیکھا لیکن اب اُن کی آنکھوں سے اَجنبیت ٹپک رہی تھی۔ ’’ڈونٹ ڈسٹرب می… میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں۔‘‘ انہوں نے دوبارہ آنکھوں پر بازو رکھ لیا۔
فریحہ نے واپسی کے لیے قدم بڑھا دیے۔ اسے اندازہ ہوگیا کہ ورکر کے ساتھ پیش آنے والے حادثے نے آذر کے دل و دماغ پر گہرا اثر کیا ہے اور وہ ذہنی طور پر اَپ سیٹ ہیں۔ وہ کسی بدگمانی کو دِل میں جگہ دیے بغیر خاموشی سے بیڈ پر آ کر دراز ہوگئی۔
٭…٭…٭
دروازے پر ہلکی سی دستک پر آذر بے ساختہ اُٹھ بیٹھے تھے۔ اگلے ہی لمحے بیگم تیمور اندر داخل ہوئی تھیں، دروازے کے قریب لحظہ بھر کو تھم کے انہوں نے گہری نظروں سے صوفے پر بیٹھے آذر اور بیڈ پر بے خبر سوئی فریحہ کی طرف دیکھا۔ تب ہی نورجہاں چائے کی ٹرالی دھکیلتی اندر داخل ہوئی۔
’’میں نے سوچا آج کا آغاز اپنے پیارے بیٹے اور اس کی نئی نویلی دُلہن کے ساتھ چائے پی کر کیا جائے۔‘‘ بیگم تیمور نے مسکرا کر کہا اور آذر سر ہلا کر رہ گئے۔ نور جہاں فریحہ کو جگا چکی تھی۔ اُس نے خمار آلود نگاہوں سے پہلے نور جہاں پھر بیگم تیمور کو دیکھا اور ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھی۔ چائے کے بعد بیگم تیمور کمرے سے باہر چلی گئی تھیں اور آذر دوبارہ صوفے پر لیٹ کے سو گئے تھے۔ پھر کافی دن چڑھے اُٹھے اور نہا کر تیار ہو کے نیچے چلے گئے تھے۔ اُن کے جاتے ہی نور جہاں کے ساتھ انوشہ اُن کے کمرے میں گھس آئی تھی۔
’’بھابی آج آپ کو میں تیار کروں گی۔‘‘ انوشہ نے فریحہ کو دیکھتے ہوئے پیار بھرے لہجے میں کہا۔ ’’میں کب سے بھیّا کا کمرے سے باہر جانے کا انتظار کر رہی تھی اور ایک بھیّا تھے کہ کمرے سے نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔‘‘ انوشہ کے لہجے میں شرارت بھری شکایت تھی۔
فریحہ سر جھکا کر بے اختیار مسکرا دی۔ نور جہاں بہت غور سے فریحہ کے چہرے کا جائزہ لے رہی تھی مگر اس کے چہرے پر کوئی شکوہ کوئی شکایت، کوئی پریشانی نہ تھی۔
انوشہ نے عنابی رنگ کے ایک خوبصورت سوٹ کا انتخاب کیا تھا۔ عنابی رنگ میں فریحہ کا صندلی رنگ بے حد نمایاں ہو گیا تھا تب ہی بیگم تیمور کمرے میں داخل ہوئی تھیں۔
’’آداب امی جان۔‘‘ فریحہ کے آداب کہنے پر وہ سر ہلاتی اس کے قریب چلی آئی تھیں۔ ’’آذر اور انوشہ مجھے مام کہتے ہیں۔‘‘ انہوں نے نرم اور اپنائیت بھرے لہجے میں کہا۔ ’’میرے لیے تم بھی انوشہ جیسی ہو اس لیے میں چاہوں گی تم بھی مجھے مام کہو۔‘‘
’’جی بہتر…‘‘ فریحہ نے سعادت مندی سے جواب دیا۔
’’یہ دیکھو…‘‘ انہوں نے اپنے ہاتھ میں موجود ڈبّا کھولا۔ ’’یہ نولکھا ہار ہے۔‘‘
فریحہ انوشہ اور نور جہاں دونوں ایک ساتھ ہی متوجہ ہوگئی تھیں۔
’’او مائی گاڈ۔‘‘ انوشہ دیوانہ وار ہار کی جانب لپکی۔ ’’اِٹ اِز سو بیوٹی فل۔‘‘
’’قیمت بھی تو دیکھیے۔‘‘ نور جہاں نے اپنی معلومات کا رُعب جھاڑا۔ ’’اُس زمانے میں پورے نو لاکھ کا بنا تھا۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ انوشہ نے حیرت سے پلکیں جھپکیں۔
بیگم تیمور ہار لیے فریحہ کی طرف متوجہ ہوئیں۔ ’’اب تم اس گھر کی بہو ہو۔‘‘ انہوں نے محبت بھرے لہجے میں کہا۔ ’’اس گھر کی مالکن ہو اس ناتے اب یہ تمہارا ہے… لو اسے پہن لو۔‘‘
’’شکریہ!‘‘ فریحہ نے حیران لہجے میں کہا۔
’’اور ہاں۔‘‘ چلتے چلتے وہ ذراکی ذرا رُکیں۔ ’’نور جہاں اور انّو تم دونوں مل کر دُلہن کو ذرا جلدی سے تیار کر دو ان کے بہن بھائی انہیں لینے کے لیے آنے والے ہیں۔‘‘
’’جی اچھا۔‘‘ نور جہاں نے اثبات میں سر ہلایا۔
٭…٭…٭
ہلکی دستک کے ساتھ کمرے میں اشعر، فاریہ اور فروا داخل ہوئے۔
’’آپا۔‘‘ کہتے ہوئے فروا فوراً ہی فریحہ سے لپٹ گئی۔ انوشہ نے لبوں پر استقبالیہ مسکراہٹ سجا کر سب کی طرف دیکھا تھا۔
’’آپ لوگ بیٹھ کر باتیں کریں۔‘‘ اُس نے فاریہ اور فروا کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’میں آپ کے لیے چائے بھجواتی ہوں۔‘‘
’’آپ بھی بیٹھیں نا۔‘‘ فروا نے کہا۔ مگر وہ ہاتھ ہلاتی باہر چلی گئی تھی۔
اشعر اور فروا حیران نظروں سے چاروں طرف دیکھ رہے تھے۔ ’’واہ، اسے کہتے ہیں بیڈروم۔‘‘ اشعر نے ستائشی لہجے میں کہا۔
’’بس کمرہ ہی دیکھنے آئے ہو یا مجھ سے بات بھی کرو گے؟‘‘ فریحہ نے آگے بڑھ کر اس کا کان پکڑتے ہوئے کہا۔
’’سچ فریحہ آپا، آپ کی تو لاٹری نکل آئی کیا محل نما گھر ہے۔ یہ بڑی بڑی گاڑیاں اور آذر بھائی… بس…‘‘ اُس نے ہاتھ اُٹھا کر آذر کے شاندار ہونے کا اشارہ کیا۔
تب ہی بالکل اچانک آذر کمرے میں داخل ہوئے۔ اُن سب کو دیکھ کر وہ ایک دَم واپسی کے لیے پلٹ گئے۔ اشعر نے بے ساختہ لپک کر اُن کا راستہ روک لیا۔ ’’ارے رے… آپ کہاں چلے؟‘‘
’’نہیں وہ۔‘‘ اشعر کے یوں بے ساختہ راستہ روکنے پر وہ بے اختیار مسکرا دیے۔ ’’دراصل میں نے سوچا کہ آپ لوگ… اپنی بہن سے۔‘‘
’’جناب بہن سے تو برسوں سے مل رہے ہیں۔‘‘ اشعر نے شرارت بھرے لہجے میں کہا۔ ’’آج ہم صرف آپ سے ملنے آئے ہیں۔‘‘
ناچار آذر رُک گئے، اُن سب سے باتیں کرنا انہیں اچھا لگ رہا تھا۔
تب ہی اشعر نے اچانک پوچھا۔ ’’آذر بھائی یہ بتایئے آپ کو ہماری فریحہ آپا کیسی لگیں۔‘‘
آذر نے چونک کر بے ساختہ فریحہ کی طرف دیکھا۔ اُس دم فریحہ بھی انہی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ یکبارگی دونوں کی نگاہیں ٹکرا گئی تھیں اور دونوں ہی کے دل بے اختیار دھڑک اُٹھے۔
آذر نے جلدی سے نظریں چرا لیں جبکہ فریحہ نے شرما کر نگاہیں جھکا لی تھیں۔
آذر کے جانے کے بعد فروا نے کہا۔ ’’سچی آپا، آذر بھائی تو بہت ہی اچھے ہیں۔‘‘
تب فریحہ مسکرا کر گھر والوں کی خیر خیریت معلوم کرنے لگی۔ ’’سب ٹھیک ہیں مگر ڈاکٹر انکل کے گھر کچھ گڑبڑ چل رہی ہے۔‘‘ فروا نے معنی خیز لہجے میں بتایا۔
’’کیسی گڑبڑ؟ ربیعہ آنٹی تو ٹھیک ہیں نا؟‘‘ فریحہ نے جلدی سے پوچھا۔‘
’’ربیعہ آنٹی ٹھیک ہیں اور زویا بھی۔‘‘ فروا نے رازدارانہ انداز میں بتایا۔ ’’اصل میں شہروز بھائی کی طبیعت خراب ہے۔‘‘
’’شہروز بھائی کی؟‘‘ فریحہ نے حیرانی سے فروا کی طرف دیکھا۔ ’’انہیں کیا ہوا؟‘‘
’’انہیں عشق ہوگیا تھا۔‘‘ فروا منہ پر ہاتھ رکھ کر مضحکہ اُڑانے والے انداز میں ہنسی۔ ’’اُس لڑکی کی کہیں شادی ہوگئی تو انہوں نے زہر کھا کر مرنے کی کوشش کی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دوبارہ ہنسنے لگی۔
’’ہیں۔‘‘ فریحہ نے اسے ٹوکا۔ ’’ایسے نہیں کہتے۔ کوئی اور بات ہوگی، وہ اس قسم کے انسان نہیں ہیں خیر اللہ انہیں شفا دے۔‘‘
ٹھیک اسی لمحے نور جہاں چائے اور دیگر لوازمات سے لبریز ٹرالی دھکیلتی کمرے میں داخل ہوئی۔
چائے کے بعد بیگم تیمور نے فریحہ اور اس کے بہن بھائیوں کو اپنی گاڑی میں اپنے ڈرائیور اکبر کے ساتھ فریحہ کے گھر کے لیے روانہ کر دیا۔
٭…٭…٭
جانے کس کام سے زویا گیلری میں آئی تھی۔ گاڑی رُکنے کی آواز پر اُس نے گیٹ سے جھانک کر دیکھا۔ انور ضیا کے گیٹ پر ایک سیاہ مرسیڈیز رُکی تھی۔ جس سے فریحہ اُتر رہی تھی۔ عنابی جوڑے، بیش قیمت زیور اور میک اَپ میں سجی وہ گیٹ کی طرف بڑھ رہی تھی۔
زندگی میں پہلی بار زویا کو اپنے دل میں فریحہ کے لیے شدید نفرت کا احساس ہوا تھا۔ اُس کی وجہ سے اس کا اکلوتا چہیتا بھائی شہروز موت کی کشمکش سے گزر کر دُنیا و مافیہا سے بے خبر بستر پر پڑا تھا۔ اور وہ سجی سنوری خوش باش گھوم رہی تھی۔ اس کے چہرے پر ملال کا کہیں نشان تک نہ تھا۔
زویا کا دل چاہا کہ اس کے بھائی کو برباد کرنے والی کو وہ بددُعا دے… مگر اگلے ہی لمحے اُس نے خود کو سنبھال کر سوچا۔ ’’بھلا اس میں فریحہ آپا کا کیا قصور۔ انہیں تو معلوم ہی نہ تھا کہ شہری بھائی اُن سے محبت کرتے تھے۔‘‘
(جاری ہے)