شہروز نے اپنی زبان یا اپنے کسی انداز سے اپنی محبت کا اظہار نہ کیا تھا۔ جب وہ جانتی ہی نہیں تھی کہ کوئی اسے اس قدر چاہتا ہے کہ اس کی خاطر موت کی وادی میں چھلانگ لگا دینے کا حوصلہ رکھتا ہے تو وہ اگر اپنے بڑوں کے فیصلے پر سر جھکا کرکسی اور کی بن گئی تو اس میں اس کا کیا قصور؟ زویا کو اپنی چند لمحوں پہلے والی سوچ پر تعجب ہوا اور افسوس بھی، یہ محبت بھی انسان کو کبھی کبھی جانبدار اور بے انصاف بنا دیتی ہے۔ اپنے بھائی کی محبت میں وہ فریحہ سے کس قدر نفرت محسوس کر رہی تھی۔ اس کا دل چاہا کہ وہ فریحہ کے گھر جا کر اُس سے ملے۔ کاش فریحہ کو پتا چل سکتا کہ ایک شخص اُس کی خاطر دُنیا سے منہ موڑ کر بستر پر پڑا ہے… اُس نے ایک بار پھر باہر دیکھا۔ فریحہ گھر کے اندر جا چکی تھی۔ تب وہ بھی گہری سانس لے کے اندر چلی گئی۔
٭…٭…٭
فضلو بابا دلکش کو ساتھ لیے شاپنگ سینٹر میں داخل ہوگئے تھے۔ اس سینٹر کے ٹاپ فلور پر کچھ دفاتر تھے جو زیادہ تر وکلاء کے تھے۔ انہی میں مصعب کے علاوہ جلیل شاہ کے وکیل کا بھی آفس تھا اور اس وقت عدیل وکیل سے ملنے آئے ہوئے تھے۔ وہ پلاٹ کے ٹرانسفر کے معاملے سے اب تنگ آ چکے تھے۔ شادی کے حادثے نے بھی انہیں بددل اور مایوس کیا تھا گو کہ اپنے پیارے چچا کی خواہش کے مطابق اس سارے معاملے کو ایک ڈرائونے خواب کی طرح ذہن سے جھٹک دیا تھا، مگر پھر بھی کبھی کبھی خمار آلود آنکھیں اور وہ معصوم چہرہ انہیں ڈسٹرب کرتا تھا۔ ہر بات کو سچ ماننے کے باوجود کبھی کبھی اُن کا دل منکر ہونے لگتا تھا۔ اب وہ اس کشمکش سے عاجز آ چکے تھے اور جلد از جلد واپس لوٹ جانا چاہتے تھے۔ مگر چاہتے تھے کہ جانے سے پہلے یہ کام مکمل ہو جائے۔ اسی لیے آج وہ خود وکیل سے ملنے چلے آئے تھے۔ وکیل نے انہیں یقین دلایا تھا کہ وہ کوشش کر کے ہفتے بھر میں یہ کام نمٹا دے گا۔ وہ مطمئن ہو کر لفٹ سے نکل کر جونہی بیرونی ٹیرس کی طرف بڑھے تب اچانک ہی دلکش کی نظر اُن پر پڑی۔
’’عدیل۔‘‘ اُس نے حیران اور بے یقین لہجے میں دُہرایا۔ وہ اکیلے تھے اور ٹیرس کی طرف جا رہے تھے۔ دلکش نے پلٹ کر فضلو بابا کی طرف دیکھا، وہ دُکان کے اندر کہیں اسے دکھائی نہیں دیے، ایک لمحے کو رُک کر اُس نے کچھ سوچا پھر وہ تیزی سے عدیل کی طرف لپکی۔ وہ اُن سے مل کر اُن سے بات کر کے جلیل شاہ کی حقیقت اُن تک پہنچانا چاہتی تھی اور اپنی بے بسی اور بربادی کی داستان انہیں سنانا چاہتی تھی۔ آج قسمت سے وہ شخص اس کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا اور وہ اس لمحے کو کھونا نہیں چاہتی تھی۔ وہ بہت تیزی سے لپکی تھی مگر اس کے اور عدیل کے مابین کافی فاصلہ تھا۔ اب وہ ٹیرس کی سیڑھیوں کی طرف بڑھ رہے تھے۔
’’عدیل۔‘‘ انہیں خود سے دُور جاتے دیکھ کر وہ بے اختیار انہیں پکار بیٹھی تھی، اور اس کی پکار عدیل کی سماعت تک پہنچ بھی گئی تھی۔ وہ چلتے چلتے اچانک رُک گئے تھے۔ انہوں نے پلٹ کر دیکھا تھا۔ مگر دلکش اُن سے خاصے فاصلے پر تھی اس لیے وہ اسے نہیں دیکھ سکے تھے اور اُس آواز کو اپنی سماعت کا وہم سمجھ کر وہ دوبارہ سیڑھیاں اُترنے لگے تھے۔
دلکش اُونچے ستونوں کے درمیان راستہ بناتی تیزی سے اُن کی جانب لپکی جا رہی تھی۔ تب ہی کسی نے اس کا بازو تھام کر اسے ایک ستون کے پیچھے گھسیٹ لیا۔ اُس نے گھبرا کر پلٹ کر دیکھا۔ فضلو بابا حیران اور غصیلی نظروں سے اُسے گھور رہے تھے۔
’’بابا… وہ عدیل… عدیل شاہ…‘‘ دلکش نے سامنے اشارہ کیا۔
’’دیکھ رہا ہوں میں انہیں… ذرا تم بھی ستون کی آڑ لے کر دیکھ لو، اُن کے ساتھ کون ہے؟‘‘
فضلو بابا کے کہنے پر اُس نے ستون کی آڑ سے دیکھا۔ ٹیرس کے نیچے سیڑھیوں کے ساتھ جلیل شاہ کی جیپ کھڑی تھی اور وہ جیپ کے باہر بازو پھیلائے عدیل شاہ کا سواگت کرنے کے لیے منتظر کھڑا تھا۔
’’اُف۔‘‘ دلکش نے سر تھام لیا۔ اگر فضلو بابا اس کا بازو پکڑ کر اسے ستون کے پیچھے کھینچ نہ لیتے تو وہ ٹیرس پر نکل گئی ہوتی اور نیچے کھڑے جلیل شاہ اور مرید خان نے اُسے ایک ہی نظر میں دیکھ لیا ہوتا بلکہ اگلے ہی لمحے اُسے گرفت میں بھی لے لیا ہوتا۔
عدیل شاہ، جلیل شاہ کے پاس پہنچ چکے تھے۔ اس کے ساتھ ایک خوش شکل اور خوش لباس شخص بھی کھڑا تھا۔ عدیل شاہ کو اپنی جانب بڑھتے دیکھ کر اس کے لبوں پر مشفقانہ مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔
’’یہ برہان ہیں۔‘‘ جلیل شاہ نے اپنے قریب کھڑے شخص کی طرف اشارہ کیا۔ ’’میرے دوست ارسلان کے صاحب زادے۔ آج کل یہاں آئے ہوئے ہیں۔ ویسے یہ رہتے اسلام آباد میں ہیں۔‘‘
’’آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔‘‘ عدیل نے برہان کی طرف مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔
جلیل شاہ نے انہیں بتایا تھا کہ برہان آج کل کسی کام سے کراچی آیا ہوا تھا اور اتفاق سے عدیل کے ہوٹل میں اُسی فلور پر مقیم تھا جس فلور پر عدیل کا کمرہ تھا۔ جلیل شاہ نے مزید بتایا۔ ’’میں تم سے ملنے تمہارے ہوٹل گیا تو پتا چلا تم ایڈووکیٹ تمثیل سے ملنے اس کے آفس گئے ہوئے ہو۔ میں واپس جانے والا تھا کہ برہان مل گیا۔ جب اسے پتا چلا کہ تم آج کل پاکستان آئے ہوئے ہو اور میں تمہیں پک کرنے وکیل کے آفس جا رہا ہوں تو یہ بھی ساتھ چلے آئے۔ مجھے یہ سوچ کر خوشی ہو رہی ہے کہ برہان کا کمرہ بھی تمہارے کمرے کے پاس ہے اس لیے اب تمہیں اکیلے رہ کر بور نہیں ہونا پڑے گا، برہان تمہیں کمپنی دے گا۔‘‘
’’جی انکل۔‘‘ عدیل کے چہرے پر تسکین آمیز مسکراہٹ بکھر گئی۔
’’اب چلو تم دونوں جیپ میں بیٹھو۔‘‘ جلیل شاہ نے بزرگانہ شان سے کہا اور ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔ عدیل کو یہ اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ اس کے پیارے چچا نے بلاوجہ اسے پک کرنے کے لیے اتنی زحمت کی تھی۔ دراصل عدیل کی گاڑی ڈرائیور ورکشاپ لے گیا تھا۔ پرانی گاڑی تھی کوئی نہ کوئی کام نکلتا ہی رہتا تھا۔ اس لیے جلیل شاہ نے اُن کے لیے ایک نئی گاڑی بک کروا دی تھی۔ ’’کل شام تک تمہارے پاس تمہاری نئی گاڑی پہنچ جائے گی۔‘‘ جلیل شاہ نے بتایا۔
’’لیکن انکل اب شاید اس کی ضرورت نہ پڑے۔‘‘ عدیل نے ہچکچاتے لہجے میں کہا۔ ’’آج وکیل سے جو بات ہوئی ہے اُس سے یہی اندازہ ہوا کہ پلاٹ کے ٹرانسفر کا مسئلہ دوچار دن میں حل ہو جائے گا۔‘‘
’’ویری گڈ۔‘‘ جلیل شاہ نے مسرت بھرے لہجے میں کہا۔ ’’یہ تو بہت اچھا ہوگا، ورنہ میں نے سوچا تھا یہ معاملہ جانے کب نمٹے، تمہیں واپس بھیج دیا جائے، بلاوجہ تمہاری پڑھائی کا حرج ہو رہا ہے۔‘‘
دراصل جلیل شاہ، عدیل کو امریکہ سے بلا کر ہی پچھتا رہا تھا۔ اگر کروڑوں کی مالیت کے پلاٹ کا مسئلہ نہ ہوتا تو وہ کب کا اسے روانہ کر چکا ہوتا۔ آج کل اس کے ستارے ترچھی چال چل رہے تھے جو وہ سوچتا تھا کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہو جاتی تھی۔ دلکش کو دیکھ کر اُس نے جو منصوبہ بنایا تھا وہ اُلٹا پڑ گیا تھا۔ وہ لڑکی اس کے گلے کی ہڈی بن گئی تھی۔ جب سے عدیل شاہ اور دلکش کا نکاح نامہ غائب ہوا تھا جلیل شاہ خاصا فکرمند ہوگیا تھا۔ شاید وہ نکاح نامہ اُس لڑکی کے ہاتھ لگ گیا تھا۔ وہ اس کی شادی کا ثبوت تھا اور اس کے حق کو ثابت کرنے کا بھرپور گواہ… اب وہ بے حد محتاط ہوگیا تھا۔ کبھی جلیل شاہ کا دل چاہتا کہ پلاٹ پر لعنت بھیج کر عدیل کو فوری طور پر واپس بھیج دے۔ مبادا وہ لڑکی عدیل تک پہنچ کر سچائی سے پردہ نہ اُٹھا دے۔ کبھی خیال آتا جہاں اتنا وقت گزر گیا دو چار دن اور سہی، شاید پلاٹ کا مسئلہ حل ہی ہو جائے۔ اب اُس نے سوچ لیا تھا کہ دلکش کو عدیل تک رسائی حاصل نہیں کرنے دے گا۔ سو اُس نے عدیل کی نگرانی کے لیے ایک پرائیویٹ جاسوس برہان کی خدمات حاصل کی تھیں اور اسے عدیل کے سامنے ایک دیرینہ دوست ارسلان کا بیٹا بنا کر پیش کیا تھا۔ جلیل شاہ نے برہان کے لیے عدیل کے فلور پر ہی کمرہ بک کروا دیا تھا اور اسے سائے کی طرح عدیل کے ساتھ رہنے کی ہدایت کر دی تھی۔
جیپ ہوٹل کے سامنے آ ٹھہری تھی۔ برہان اور عدیل کو ہوٹل کے سامنے اُتار کر جلیل شاہ گائوں کے لیے روانہ ہوگیا۔
٭…٭…٭
کھنڈر نما مکان کے شکستہ تہہ خانے میں لالٹین کی مدھم روشنی میں عقیل شاہ ماضی کی دردناک یادوں میں کھوئے ہوئے تھے۔ پورے پانچ سال بعد جلیل شاہ، وکیل خواجہ نوید اور اپنے ڈرائیور مرید خان کے ساتھ بھائی کے گھر پہنچا تھا۔ عقیل خان اور نوشابہ بانو نے پرانی باتیں بھلا کر اپنے گھر اور اپنے دل کے دروازے جلیل شاہ کے لیے کھول دیے تھے۔ جہاں دیدہ اور زمانے کے سرد و گرم چشیدہ انوار خان نے جلیل شاہ کے دل و دماغ میں پنپتی سازشوں کو پہلی ہی نگاہ میں بھانپ لیا تھا، جلد ہی اُسے بھی اس بات کا اندازہ ہو گیا۔ ’’یہ بڈھا ہماری راہ کی رُکاوٹ بن سکتا ہے۔‘‘ ایک شام اُس نے خواجہ سے کہا۔ ’’اس کا کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔‘‘
’’ہوں۔‘‘ خواجہ نے پُر سوچ انداز میں سر ہلا کر اسے مشورہ دیا۔ ’’آج تم اس کے کمرے میں جائو گے اور اُس منحوس بڈھے کو ہمیشہ کی نیند سلا دو گے۔‘‘
’’میں؟ نہیں… میں یہ کام نہیں کر سکتا۔‘‘ جلیل شاہ کے لہجے سے خوف جھلک رہا تھا۔’’ یہ کام کسی اور سے بھی تو لے سکتے ہیں۔‘‘
’’ہاں مگر…‘‘ خواجہ نے سر ہلایا۔ ’’مگر ذرا سوچو ابھی ہمارے کام کا آغاز ہے۔ ہم کسی پر اعتبار نہیں کر سکتے۔ اگر اُس نے عقیل شاہ یا نوشابہ کے سامنے بھانڈا پھوڑ دیا تو سوچو ہمارا کیا حشر ہوگا۔‘‘ لمحہ بھر کو رُک کر وہ دوبارہ گویا ہوا۔ ’’ہم یہ رسک نہیں لے سکتے یہ کام تم کو ہی کرنا ہوگا۔‘‘
اور اُسی رات جلیل شاہ نے اپنی مجرمانہ زندگی میں پہلا قدم رکھا تھا اور اپنی زندگی کا پہلا قتل کیا تھا۔
ڈاکٹروں کے نزدیک یہ سیدھا سادا ہارٹ فیل ہونے کا کیس تھا۔ کسی نے گمان تک نہ کیا کہ انوار خان جلیل شاہ کی بربریت کا شکار ہوگئے۔
پانچ سالہ عدیل اپنے نانا انوار خان سے بہت مانوس تھا۔ اسکول سے آنے کے بعد سارا وقت انہی کے ساتھ گزارتا تھا۔ نانا کی موت کا اُس پر بے حد اثر ہوا تھا اور ایسے میں جلیل شاہ نے آگے بڑھ کر محبت و شفقت کا جال پھینکا تھا اور معصوم عدیل چچا کے جال میں نہایت آسانی سے آ پھنسے تھے۔ اب وہ ہر وقت جلیل شاہ کے ساتھ ہی نظر آتے۔ جلیل شاہ کو بھتیجے پر واری صدقے ہوتے دیکھ کر عقیل شاہ اور خود نوشابہ بھی مطمئن اور خوش تھے، وقت کا ریلا بہتا چلا جا رہا تھا۔ اب جلیل شاہ نے مزید ہاتھ پائوں نکالنے شروع کیے۔ عقیل شاہ کی اجازت لے کے دھیرے دھیرے اُس نے
اندر باہر کے کاموں میں ہاتھ ڈالنا شروع کیا۔ پھر رفتہ رفتہ اپنا کنٹرول مضبوط کرنے لگا۔ خواجہ جیسے عیار شاطر کی رہنمائی اسے حاصل تھی اورمرید خان، حمید اور مٹھل جیسے گرگے بھی اُس نے پال لیے تھے۔ ان تمام مجرمانہ ذہنیت کے حامل لوگوں کی صحبت میں دیکھتے ہی دیکھتے جلیل شاہ ان سے آگے نکل گیا۔ اب وہ خود خواجہ کو لیڈ کرنے لگا تھا اور مرید خان تو اب اس کا ایک معمولی خادم بن کے رہ گیا تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے چار سال بیت گئے اب عدیل نو برس کے ہوگئے تھے۔ جلیل شاہ کی محبت اور چاہت اُن سے بدستور قائم تھی اور خود عدیل بھی چچا کے بغیر ایک منٹ نہیںرہ سکتے تھے۔ گائوں کی زمینوں، جاگیروں، باغات اور شہر کی تمام جائداد کا حساب کتاب جلیل شاہ کے پاس تھا۔ اب وہ اپنے فن میں پختہ ہو چکا تھا جسے چاہتا تگنی کا ناچ نچا دیتا جو ناچنے سے انکار کرتا اُسے وہ ملک عدم کو روانہ کر دیتا۔
’’تم وقت سے پہلے حد سے بڑھ رہے ہو جلیل شاہ۔‘‘ اب اکثر اس کا گرو خواجہ نوید اسے ٹوکنے لگا۔ ’’عقیل شاہ اور نوشابہ بیگم کے ہوتے تمہارا اس قدر آپے سے باہر ہونا ہم سب کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔‘‘
خواجہ کی روک ٹوک اور تنقید اب جلیل شاہ کو گراں گزرنے لگی تھی۔ اب وہ کسی خواجہ نوید کی ہدایت اور کسی مرید خان کی مشاورت قبول کرنے کو تیار نہ تھا۔ بالآخر ایک رات اُس نے خواجہ نوید کو ہمیشہ کے لیے اپنے راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا۔
’’تم پاگل تو نہیں ہوگئے جلیل شاہ؟‘‘ خواجہ نوید نے اس کے ارادے بھانپ کر گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔ ’’مت بھولو کہ انوار خان کو تم نے قتل کیا ہے اور اُس قتل کا ثبوت میرے پاس محفوظ ہے۔‘‘ اس راز سے پردہ اُٹھا کر خواجہ نے خود ہی اپنے تابوت میں آخری کیل ٹھونک لی تھی۔ جلیل شاہ نے یکایک پستول نکال لیا۔
’’جلیل! ذرا سوچو میں تمہارا بہی خواہ ہوں۔‘‘ خواجہ گھگھیا کر بولا۔ ’’آج تم اپنے بھائی کی ہر چیز پر جتنی آسانی سے قابض ہوگئے ہو یہ سب میرے مشوروں اور رہنمائی کی وجہ سے ہوا ہے، میرے احسان کا یہ بدلہ چکا رہے ہو۔‘‘
خواجہ، جلیل شاہ کو باتوں میں لگا کر دروازے تک آ گیا تھا، اس سے پہلے کہ وہ دروازہ کھول کر باہر نکلتا اچانک نوشابہ بیگم اندر داخل ہوئی تھیں۔ اندر آ کر انہوں نے جو منظر دیکھا تو اُن کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں۔ عقیل شاہ معاملات نمٹانے شہر گئے ہوئے تھے۔
’’بھابی جی… بھابی جی… مجھے بچایئے…‘‘ انہیں دیکھتے ہی خواجہ اُن کی طرف لپکا اور جلیل شاہ پستول لیے اپنی جگہ کھڑا رہ گیا۔ ’’یہ شخص مجھے اسی طرح مار دینا چاہتا ہے جس طرح اس نے آپ کے والد انوار خان کو مارا تھا، یہ آپ کو اور آپ کے خاندان کو برباد کر کے ساری دولت اور جاگیر پر قبضہ کر لینا چاہتا ہے۔‘‘
سائلنسر لگے پستول کی ہلکی سی کلک کے ساتھ ایک شعلہ سا لپکا اور خواجہ نوید کے سینے میں اُتر گیا۔ اور اس کی تیزی سے چلتی زبان ایک دَم رُک گئی اور وہ کسی ٹوٹے ہوئے شہتیر کی طرح تیورا کر زمین پر ڈھیر ہوگیا۔
نوشابہ بیگم اپنی جگہ پتھر کی ہوگئی تھیں۔ جلیل شاہ کے اس اقدام نے خواجہ کی ہر بات پر مہر تصدیق لگا دی تھی۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے جلیل شاہ کو دیکھ رہی تھیں جسے وہ اپنے شوہر، اپنا اور اپنے بیٹے کا سب سے بڑا بہی خواہ سمجھتی تھیں۔ سب سے بڑا دُشمن نکلا تھا۔ اپنی آستین میں خنجر چھپائے اُن کی ہنستی بستی دُنیا کو اُجاڑنے کے لیے گھات لگائے بیٹھا تھا۔
’’جلیل شاہ۔‘‘ کئی لمحوں تک ہکا بکا رہنے کے بعد آخر نوشابہ بیگم کے حلق سے گھٹی گھٹی آواز نکلی۔ ’’یہ سب… یہ سب کیا ہے؟‘‘
’’مکافاتِ عمل۔‘‘ جلیل شاہ مطمئن انداز میں سفاکی سے مسکرایا۔ ’’ہر شخص جو بوتا ہے ایک نہ ایک دن ضرور کاٹتا ہے۔‘‘
’’میں سب جان گئی ہوں۔‘‘ نوشابہ بیگم نے کہا۔ ’’اس کے باوجود یہ سب کر رہے ہو۔ تمہیں ذرا خوف نہیں ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ جلیل شاہ بے خوفی سے بولا۔ ’’خوفزدہ تمہیں ہونا چاہیے کیونکہ تمہارا اکلوتا اور چہیتا بیٹا عدیل میرے آدمیوں کے قبضے میں ہے… لیکن یقین رکھو وہ مجھے بھی عزیز ہے… اور پھر وہ تمہارے مرحوم باپ کی کروڑوں کی جائداد کا بھی وارث ہے… ذرا سوچو تم نے مجھ سے شادی سے انکار کر دیا تھا۔‘‘ جلیل شاہ نے زہرخند لہجے میں کہا۔ ’’تمہارا باپ میری بجائے عقیل شاہ کو اپنا داماد بنانا چاہتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ تم اسے پسند کرتی تھیں اسی لیے تم نے میرا رشتہ ٹھکرایا۔ تمہارے انکار نے مجھے کتنی تکلیف دی تھی… اور مجھے یہ تکلیف اُس دولت کی وجہ سے ہوئی تھی جو تمہارے ساتھ ہی عقیل شاہ کی دسترس میں چلی گئی تھی۔ وہ دولت اور جائداد آج بھی کانٹا بن کے میرے دل میں چبھ رہی ہے…‘‘ یہ کہہ کر وہ نوشابہ کی طرف بڑھا۔
وہ گھبرا کر دو قدم پیچھے ہٹ کر بولیں۔ ’’جلیل شاہ تمہیں جو چاہیے مل جائے گا… مگر خدا کے لیے… میرے شوہر اور میرے بیٹے کو کچھ نہ کہنا۔‘‘
’’اگر تم اُن دونوں کو زندہ دیکھنا چاہتی ہو… تو تمہیں مرنا ہوگا۔‘‘ جلیل شاہ سفاکی سے بولا۔ ’’کیونکہ تم بہت کچھ جان چکی ہو اس لیے اب تمہارا زندہ رہنا میرے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘
تب ہی دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی اور مرید خان دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ لمحہ بھر میں اسے ساری صورتِ حال سمجھ میں آ گئی تھی۔ اُس نے لپک کر دروازہ اندر سے لاک کر دیا اور بولا۔ ’’سائیں غضب کرتے ہو۔ دروازہ بھی بند نہیں کیا۔‘‘ مرید خان کے لہجے میں خوف کے ساتھ ہلکی سی سرزنش بھی تھی۔
’’یہ میری حویلی ہے مرید خان۔‘‘ جلیل شاہ نے سینہ تان کر کہا۔ ’’یہاں میں کچھ بھی کرسکتا ہوں… تو ایک کام کر جا کر منٹھار کو بلالا۔‘‘
’’وہ سائیں نیچے موجود ہے۔‘‘ مرید خان نے اطلاع دی۔ ’’اسے میں نے ساری سچویشن سمجھا دی ہے۔‘‘ مرید خان نیچے جا کر لمحوں میں ایک مریل سے آدمی منٹھار کو لے کر اُوپر آ گیا۔
’’تم یہ سب کیا کرنے جا رہے ہو جلیل شاہ؟‘‘ نوشابہ بیگم نے وحشت زدہ آواز میں کہا۔ ’’تم نے آخر سوچا کیا ہے۔‘‘
’’میں نے یہ سب بہت پہلے سوچ لیا تھا۔‘‘ جلیل شاہ مکروہ انداز میں ہنسا۔ ’’یہ ساری دولت، جائداد یہ سب جو کچھ تمہارے باپ کا تھا… اور وہ سب کچھ جو میرے باپ کا تھا… آخر کار اسے میرے پاس آنا تھا۔ آج فیصلے کی مبارک گھڑی آ پہنچی ہے۔ آج حق دار کو اس کا حق مل جائے گا۔ ‘‘
’’تم جانتے ہو تم اپنا حق بہت پہلے وصول کر چکے ہو۔‘‘ نوشابہ بیگم نے غصیلے لہجے میں کہا۔ ’’اپنے حصے کی ساری دولت تم اپنی عیاشیوں کی نظر کر چکے ہو۔ اب تمہارا اس جائداد پر کوئی حق نہیں ہے۔ یہ سب تمہارے بھائی عقیل شاہ کا ہے۔ اس کے بعد ان سب چیزوں کا وارث ہمارا اکلوتا بیٹا عدیل شاہ ہے۔‘‘
’’راہِ طلب میں کون کسی کا؟‘‘ جلیل شاہ کمینگی سے مسکرایا۔ ’’اپنے ہی بیگانے ہیں… دولت کسی کی بھی ہو اب میری ہے۔‘‘ پھر وہ منٹھار کی طرف مڑا۔ ’’منٹھار تجھے معلوم ہے نا تجھے کیا کرنا ہے؟ کرنے کو تو یہ کام میں خود بھی کر سکتا تھا مگر میں چاہتا ہوں یہ کام تیرے مشّاق ہاتھوں سے ہو۔‘‘
’’سائیں۔‘‘ مرید خان تعریفی لہجے میں بولا۔ ’’کلہاڑی چلانے میں منٹھار کا کوئی ثانی نہیں ہے۔‘‘
’’جلیل شاہ۔‘‘ منٹھار کو کلہاڑی تانے اپنی جانب بڑھتے دیکھ کر نوشابہ بیگم نے لرزیدہ لہجے میں کہا۔ ’’تمہیں جو کچھ چاہیے لے لو مگر ہم تینوں کی جان بخش دو… میرے بچّے کو ابھی میری ضرورت ہے۔ اُس بچّے کی خاطر میری جان بخش دو… میں تم سے وعدہ کرتی ہوں کبھی کسی کے سامنے زبان نہیں کھولوں گی۔‘‘
’’او … اچھا۔‘‘ جلیل شاہ نے جنون بھرے انداز میں قہقہہ لگا کر منٹھار کو اشارہ کیا۔
اگلے ہی لمحے منٹھار نے پیچھے کھسکتی نوشابہ پر کلہاڑی سے وار کیا۔ پہلا ہی وار اتنا کاری تھا کہ وہ فرش پر ڈھیر ہوگئی تھیں۔ کلہاڑی کا تیز دھار پھل اُن کے کاندھے سے ہوتا گردن میں اُتر گیا تھا۔ خون کا ایک فوارہ سا اُبلا تھا اور دُور تک فرش کو رنگتا چلا گیا تھا۔ چند ہی لمحوں میں جیتی جاگتی نوشابہ بیگم بے جان نعش میں تبدیل ہو چکی تھیں۔
’’بابا! اب تو بھاگ…‘‘ نوشابہ بیگم کی موت کی طرف سے پوری طرح مطمئن ہونے کے بعد جلیل شاہ نے منٹھار کو مخاطب کر کے کہا۔ ’’تو کلہاڑی لہراتا ہوا سیڑھیوں سے یوں بھاگ جیسے کوئی واردات کر کے بھاگ رہا ہے۔‘‘
’’مگر سائیں! یہ بات منصوبے میں تو نہیں تھی…‘‘ منٹھار نے حیرانی سے سوال کیا۔
’’بابا اب میں نے منصوبہ بدل لیا ہے۔‘‘ جلیل شاہ نے جلدی سے کہا۔ ’’تیرا ادھر رُکنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ اس لیے تو اپنی کلہاڑی لے کے ادھر سے فرار ہو جا۔‘‘
فاقہ زدہ اور مفلوک الحال منٹھار تو انعام کا منتظر تھا مگر وڈیرے کے حکم پر وہ کمرے سے نکل کر سیڑھیوں کی طرف بھاگا۔
’’بھاگ بابا بھاگ۔‘‘ اسے اپنے پیچھے جلیل شاہ کی گھٹی گھٹی آواز سنائی دی۔ اُس نے ایک دَم سے اپنی رفتار بڑھا دی۔ تب جلیل شاہ کے ہاتھ میں دبے پستول سے ایک شعلہ لپکا تھا اور منٹھار کی پیٹھ میں عین دل کے مقام پر پیوست ہوگیا۔
’’مٹھل، حمید… مرید خان کدھر مرگئے تم سب…‘‘ جلیل شاہ شور مچاتا اس کے پیچھے لپکا۔ منٹھار نے آن کی آن میں پلٹ کر جلیل شاہ کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں حیرت کے ساتھ شکایت بھی تھی، اور اگلے ہی لمحے وہ دھڑ سے زینے پر گر گیا تھا اور لڑھکتا ہوا نیچے جا پہنچا تھا۔
’’مرید خان! پولیس کو فون کرو…‘‘ جلیل شاہ نے پریشان آواز میں کہا اور اگلے ہی لمحے وہ ٹیلی فون کی طرف دوڑ پڑا تھا۔
عقیل شاہ کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے ہی پولیس پہنچ چکی تھی۔ پولیس نے بیگم نوشابہ کی لاش تحویل میں لے کے اُن کے قاتل منٹھار کی لاش ضروری کارروائی کے بعد پوسٹ مارٹم کے لیے روانہ کر دی تھی۔ آج عقیل شاہ اپنے مشیر قانون ایڈووکیٹ ظفر بھٹی سے ملنے گئے تھے۔ تمام معاملات احسن طریقے سے طے پا گئے تھے۔ پھر وہ اپنی چہیتی بیوی کے لیے ایک ڈائمنڈ نیکلس لیتے ہوئے گھر آ گئے تھے، جونہی وہ حویلی کے قریب پہنچے ٹھٹھک کر رُک گئے۔
حویلی کا بڑا گیٹ چوپٹ کھلا ہوا تھا۔ حویلی کے احاطے میں پولیس وین اور ایک ایمبولینس کھڑی ہوئی تھی۔ انہیں گاڑی سے اُترتے دیکھ کر انسپکٹر اُن کی طرف بڑھا تھا۔ وہ عقیل شاہ کے نوشابہ بیگم کے کمرے تک پہنچنے سے پہلے انہیں اس
اندوہناک حادثے کے لیے ذہنی طور پر تیار کرلینا چاہتا تھا۔
’’ایک مفلوک الحال چور حویلی میں گھس آیا تھا۔‘‘ انسپکٹر نے تمہید باندھی۔ ’’وہ بیگم صاحبہ کے زیورات کی تجوری صاف کرنا چاہتا تھا، پر وہ تجوری تک نہیں پہنچ سکا اس سے پہلے ہی بیگم صاحبہ اُس تک پہنچ گئیں۔‘‘
’’اوہ… پھر کیا ہوا؟‘‘ عقیل شاہ نے بے تابی سے سوال کیا۔ انسپکٹر نے کمرے کا دروازہ کھول دیا۔ سامنے دُور تک فرش خون سے سرخ ہو رہا تھا۔ کونے میں دیوار کے ساتھ سفید چادر سے ڈھکا ایک وجود بے حس و حرکت پڑا تھا۔
’’کیا وہ چور مارا گیا؟‘‘ عقیل شاہ نے پوچھا۔
’’ہاں، وہ تو جہنم واصل ہوگیا۔‘‘ انسپکٹر نے دھیمے لہجے میں کہا۔ ’’مگر مرنے سے پہلے… بیگم صاحبہ کو…‘‘ انسپکٹر نے آگے بڑھ کر وجود سے چادر ہٹا دی۔
عقیل شاہ پھٹی پھٹی بے یقین آنکھوں سے نوشابہ بیگم کے بے جان وجود کو تکے جا رہے تھے… چند لمحوں بعد ہی بے ہوش ہو کر زمین پر گر گئے۔
اگلی صبح انہیں ہوش تو آ گیا مگر وہ خود ہوش و خرد کی دُنیا میں واپس نہ لوٹ سکے، اس اچانک حادثے نے اُن کے ذہن پر اثر کیا تھا اور ڈاکٹر بخشی کا خیال تھا کہ چند دنوں میں حادثے کے اثر کے زائل ہوتے ہی وہ دوبارہ ہوش و خرد کی دُنیا میں لوٹ آئیں گے۔
’’مرید خان!‘‘ جلیل شاہ نے مرید خان کو مخاطب کیا۔ ’’بابا تو ڈاکٹر بخشی سے معاملہ طے کر… اب ادا عقیل شاہ کوہوش میں نہیں آنا چاہیے… میرا مطلب ہے کہ اس کا دماغ متاثر ہوا ہے نا… تو اب اسے ٹھیک نہیں ہونا چاہیے۔ اُس سے کہو، وہ عقیل شاہ کے لیے ایسی دوائوں کا انتخاب کرے جن کے زیراثر وہ کبھی ہوش مند نہ ہو سکے۔‘‘
نوشابہ بیگم کے والد انوار خان کی تمام دولت اور جائداد تو پہلے ہی عدیل شاہ کے نام تھی، اُس دوپہر عقیل شاہ بھی اپنے قانونی مشیر سے مل کر اپنی تمام جائداد اور دولت عدیل شاہ کے نام لگاکر آئے تھے… یہ تمام دولت عدیل شاہ کے بالغ ہونے تک وکیل کی نگرانی میں رہتی اور تب تک تمام دولت و جائداد کا نگراں جلیل شاہ قرار پایا تھا۔ ایسے حادثوں میں جسے سب سے زیادہ فائدہ پہنچنے والا ہوتا ہے پولیس کا اُس پر سب سے زیادہ شک ہوتا ہے۔ جلیل شاہ جانتا تھا اُس پر الزام آ سکتا ہے اس لیے اُس نے شہر کے سب سے بڑے وکیل مصعب احمد کو اس کیس کے لیے منتخب کیا تھا۔ کیس کی تفتیش کرنے والا ایس ایس پی، اعظم خان کیونکہ اُن کے بچپن کا دوست تھا، اس لیے معاملات زیادہ نہیں بگڑے، دُوسرے تمام پراپرٹی اور دیگر دولت و کاروبار کا مالک کیونکہ پہلے ہی عدیل شاہ کو بنا دیا گیا تھا اور جلیل شاہ کے پاس نگرانی کے سوا کوئی اختیارات نہ تھے، اس لیے وہ آسانی سے بچ گیا تھا۔ عقیل شاہ کے اس عمل سے اسے شدید صدمہ پہنچا تھا۔ سب کچھ کر کے بھی وہ بے نیل و مرام رہ گیا تھا مگر وہ مایوس نہیں تھا۔ سو اُس نے ننھے عدیل کو سینے سے لگا لیا اور اپنی محبتیں اور نوازشیں پہلے سے زیادہ اُن پر لُٹانے لگا تھا۔ اب اُن کے جوان ہونے تک اسے انہیں اسی طرح پرورش کرنا تھا کہ وہ اس کی کسی بات پر شک نہ کر سکیں اور ’’نا‘‘ نہ کہہ سکیں۔
تمام بستی میں یہ خبر پھیل گئی تھی کہ عقیل شاہ چہیتی بیوی کے غم میں پاگل ہو چکے ہیں۔ پھر جلیل شاہ نے پرانے خادم دین محمد کو مجبور کر کے ایک رات انہیں حویلی سے نکال کر ٹیلوں کے اُس پار کھنڈر نما گھر کے تہہ خانے میں قید کروا دیا تھا اور یہ مشہور کروا دیا تھا کہ بیوی کے غم میں وہ پاگل ہو کر کہیں نکل گئے، تلاش کروانے کے باوجود اُن کا کوئی پتا نہ چل سکا۔
تب سے عقیل شاہ اس بوسیدہ گھر میں قید تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ دین محمد کے اندر بیدار ہوتے احساس نے کئی بار انہیں باور کروایا کہ وہ زنجیر کھول دے، عقیل شاہ اس قید و بند کی زندگی سے آزاد ہو جائیں۔ مگر وہ سوچتے تھے آزادی اور زندگی کی اب ضرورت ہی کیا ہے۔ بیوی مر چکی تھی اور بیٹے کے لیے بھی اُن تک یہی خبر پہنچائی گئی تھی کہ عدیل شاہ کو قتل کروا کر جلیل شاہ نے تمام دولت جائداد پر قبضہ کر لیا ہے… اس کے بعد اُن کے اندر جینے کی اُمنگ بھی باقی نہ رہی تھی… مگر آج برسوں بعد اُس دلکش سی لڑکی کو دیکھ کر، اُس سے مل کر وہ دوبارہ زندہ ہوگئے تھے۔ اُن کا عدیل زندہ تھا اور وہ بہادر لڑکی اس کی دُلہن تھی… اس خبر نے اُن کے بے جان وجود میں ایک نئی رُوح پھونک دی تھی اور انہیں پورا یقین تھا کہ اُن کی پیاری بہو اُن کے لیے ضرور کچھ کرے گی… اب وہ زندہ رہنا چاہتے تھے، اپنے بیٹے عدیل سے ملنا چاہتے تھے۔
٭…٭…٭
بر وقت طبی امداد نے شہروز کو موت کے منہ سے تو نکال لیا تھا۔ مگر تین روز گزرنے کے باوجود وہ اب تک زندگی کی طرف واپس نہ لوٹ سکا تھا… اس کی خالی خالی آنکھیں ہر احساس سے عاری محسوس ہوتی تھیں۔ اس کے سپاٹ چہرے پر ایک سکون سا چھایا ہوا تھا۔ گو کہ اسے آئی سی یو سے اسپیشل کمرے میں شفٹ کردیا گیا تھا مگر اس کے چہرے پر اب تک پژمردگی چھائی ہوئی تھی۔ اس مشکل وقت میں ہر ہر قدم پر تارہ حسن نے اس پریشان حال خاندان کا ساتھ دیا تھا۔ تب سے اب تک وہ شہروز کی پٹی سے لگی بیٹھی تھی۔
’’شہری اتنا اندھا کیوں ہے؟ اسے تارہ کی بے لوث محبت کیوں نظر نہیں آتی؟‘‘ ربیعہ بیگم اب تک کتنی بار یہ بات سوچ چکی تھیں۔ انہیں اور ڈاکٹر بہروز کو تو پہلے ہی اندازہ تھا کہ تارہ شہروز کو پسند کرتی ہے مگر اس مشکل وقت میں جس طرح اُس نے ساتھ دیا تھا اس سے یہ بات کھل کر سب کے سامنے آگئی تھی کہ وہ شہروز سے سچی محبت کرتی ہے… اور یہ سچی محبت ہی تھی کہ وہ شہری کو بے پناہ چاہنے کے باوجود اس کے اور فریحہ کے ملاپ کے لیے دُعاگو تھی۔ وہ شہروز کو خوش دیکھنا چاہتی اور جانتی تھی وہ فریحہ سے شدید محبت کرتا ہے، اُسی کے ساتھ خوش رہ سکتا ہے… اُس نے اپنی پوری کوشش کی تھی۔ صفیہ کے منع کرنے کے بعد بھی ڈاکٹر بہروز کو فریحہ کے دادا کے پاس بھیجنے کا مشورہ تارہ نے ہی دیا تھا۔ مگر شاید تقدیر کو یہ منظور نہ تھا۔ فریحہ شہروز کی محبت کے بارے میں جانے بنا ہی ایک انجانے شخص کے ساتھ پیا گھر سدھار گئی تھی۔
خاصا دن چڑھ آیا تھا، موسم سرما کی ٹھٹھری ہوئی دُھوپ منڈیروں پر پھیلی ہوئی تھی۔ آج ہفتہ تھا اور صفدر میاں کی چھٹی تھی۔ اس لیے وہ اطمینان سے بستر پر پائوں پھیلائے اخبار پڑھنے میں مصروف تھے۔ تب ہی اُن کی بیگم صفیہ چائے کا مگ لیے آ موجود ہوئی تھیں۔
’’تم نے بنائی ہے؟‘‘ انہوں نے مگ تھامتے ہوئے کسی قدر حیرت بھری مسرت سے پوچھا۔
’’ظاہر ہے۔‘‘ صفیہ بیگم دھپ سے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے ناخوشگوار لہجے میں بولیں۔ ’’فریحہ بیاہ کر اپنے گھر چلی گئی، فروا اسکول گئی ہوئی ہے… اور وہ… ہماری ہونے والی بہو بیگم… انہیں یونی ورسٹی سے ہی فرصت نہیں۔ امتحان کب کے ختم ہو چکے، آج کل میں رزلٹ بھی آ جائے گا۔ مگر یونی ورسٹی سے اُن کا ناتا نہیں ٹوٹا، آج بھی یونی ورسٹی گئی ہوئی ہیں۔‘‘
اچانک صفدر میاں کو یاد آیا۔ ’’بھئی آج تو ڈین نے فون کر کے خاص طور پر بلایا تھا۔‘‘
’’آپ کو یہ بات پتا تھی تو آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟‘‘ صفیہ نے تڑختے لہجے میں پوچھا۔
’’ارے بھئی میرے ذہن سے نکل گیا۔‘‘ صفدر میاں جلدی سے بولے۔ ’’ابھی تم نے یونی ورسٹی کا نام لیا تو مجھے یاد آیا۔‘‘
’’یوں کیوں نہیں کہتے کہ اس گھر میں سارے کام مجھ سے چھپا کر کیے جاتے ہیں۔‘‘ صفیہ بیگم نے غصے سے کہا۔
’’ارے ایسا کیسے ممکن ہے۔‘‘ صفدر میاں نے چائے کا مگ ہونٹوں سے لگاتے ہوئے مسکرا کر کہا۔ ’’تم سے کوئی بات کس طرح چھپائی جا سکتی ہے۔ دیواروں کے کان ہوں نہ ہوں، مگر تمہارے کان… اُف۔‘‘
میاں کا مذاق انہیں پسند نہیں آیا۔ بگڑ کر بولیں۔ ’’میں سب سے بُری ہوں اس گھر میں۔‘‘ ابھی صفدر میاں اُن کی بات کا جواب بھی نہ دے پائے تھے کہ اشعر گنگناتا ہوا اندر داخل ہوا۔
’’امتحان سر پر کھڑے ہیں اور تم گانے گنگناتے پھر رہے ہو۔‘‘ اُن کے غصّے کا رُخ اشعر کی طرف ہوگیا۔ ’’یا پھر اُن اُوباش سے لڑکوں کے ساتھ گھومتے دکھائی دیتے ہو۔‘‘
’’کون اُوباش لڑکے؟‘‘ صفدر میاں کے کان کھڑے ہوئے۔
’’انہی سے پوچھیے کون ہیں؟‘‘ صفیہ بیگم نے طنزیہ انداز میں اشعر کی طرف اشارہ کیا۔ ’’جب دیکھو انہیں بلانے کے لیے دروازے پر کھڑے رہتے ہیں۔‘‘
’’یہ میں کیا سن رہا ہوں اشعر؟‘‘ صفدر میاں نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔ ’’اس گھر میں تمہاری بہنیں ہیں اور بہنوں والے گھروں کے دروازے پر اگر بھائیوں کے دوست روز آ کر ڈیرے جمانے لگیں تو یہ بات اکثر بہنوں کی بدنامی کا باعث بن جاتی ہے۔‘‘
’’نہیں ابو ایسی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘ اشعر نے پُرزور انداز میں احتجاج کیا۔ ’’روز کہاں صرف ایک بار آئے تھے دادا ابا سے ملاقات بھی ہوئی تھی اس کے بعد تو…‘‘
’’انہیں منع کر دو۔‘‘ صفدر میاں نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ ’’بلکہ تم بھی اب گھومنے پھرنے کے بجائے پڑھائی پر توجہ دو۔‘‘
اشعر خاموشی سے سر ہلا کر واپسی کے لیے مڑ گیا۔ اس کے جانے کے بعد بھی کئی لمحوں تک کمرے میں خاموشی چھائی رہی۔ پھر صفیہ بیگم نے دھیمی آواز میں بات کا آغاز کیا۔ ’’میں چاہتی ہوں آپ اشعر پر کچھ توجہ دیں، خدا جانے کس قسم کے لڑکوں کے ساتھ سارا دن مارا مارا پھرتا ہے… اور دُوسرے میری شدید خواہش ہے کہ جلدی سے اظفر کے سر پر سہرا سج جائے۔‘‘
’’ہاں ٹھیک ہے، اب تاخیر کی گنجائش ہے ہی کہاں؟‘‘ صفدر میاں کھل کے مسکرائے۔
’’فاریہ کا ایم ایس سی مکمل ہو چکا ہے اور اظفر کی دُکان بھی چل نکلی ہے۔‘‘
’’میں فاریہ کے ایم ایس سی سے خوش ہوں۔‘‘ صفیہ بیگم بیزار لہجے میں بولیں۔ ’’اور نہ عدیل کی دکان سے، بھلا بتائو ایم اے پاس کر کے پرچون کی دُکان کھول کے بیٹھ گئے۔ بس آپ ابا جی سے بات کر لیجیے۔ اگلے ہفتے فاریہ اور اظفر کی شادی ہو جانی چاہیے… اب میں بالکل انتظار نہیں کرسکتی۔‘‘
’’ٹھیک ہے میں ابا جی سے بات کر لوں گا۔‘‘ صفدر میاں نے ٹالنے والے انداز میں کہا اور صفیہ بیگم منہ بنا کر اُٹھ کھڑی ہوئیں۔
٭…٭…٭
شام کے سرمئی سائے رات کی سیاہیوں میں گھل گئے تھے مگر دلکش ماحول سے بے خبر برآمدے کی سیڑھی پر بیٹھی جانے کن سوچوں میں گم تھی… فضلو بابا کچن سے باہر نکلے تو اسے یوں گم صم بیٹھے دیکھ کر حیرانی سے بولے۔ ’’کیا سوچ رہی ہو بیٹی؟‘‘
’’فضلو
اُس نے چونک کر سر اُٹھایا۔ ’’کسی بھی بات کا سرا نہیں ملتا۔ ہر بات بند گلی میں جا کر گم ہو جاتی ہے۔‘‘
دلکش کل شام کو عدیل شاہ کو دیکھنے کے بعد بے حد اُلجھی ہوئی تھی۔ عدیل کو دیکھ کر اس کے کسی انداز سے پتا نہیں چلتا تھا کہ اتنے بڑے حادثے کا اُس پر کوئی اثر ہوا ہے۔ جلیل شاہ سے ہنس ہنس کر محبت بھرے انداز میں بات کرنے سے یہ اظہار ہوتا تھا کہ جلیل شاہ نے اپنے تئیں کوئی کہانی سُنا کر انہیں مطمئن کر دیا تھا۔ ’’اگر عدیل، جلیل شاہ کے اسی قدر زیراثر ہیں تو انہیں سچائی باور کروانا کس قدر دُشوار ہوگا۔‘‘ دلکش نے مایوس انداز میں سوچا۔ خدا جانے جلیل شاہ نے اُس رات کے اندوہناک واقعے کو کس طرح اُن کے سامنے پیش کیا ہوگا… خدا جانے انہوں نے اس کے بارے میں کیا سوچا ہوگا، کیا رائے قائم کی ہوگی؟
دلکش کا ننھا سا دل خدشوں سے بھر گیا تھا۔ اب اس کی زندگی کا دارومدار صرف عدیل کے ملن پر تھا۔ اُس آس پر بھی وہ زندہ تھی ورنہ زندہ رہنے کے لیے اس کے پاس کوئی اور جواز نہ تھا۔ اُس نے نگاہ گھما کر مصعب کے کمرے کی طرف دیکھا۔
وہ کل شام ادارے کی ایک ورکر سجیلہ سے ملاقات کے بعد ایک بار پھر اپنے کمرے میں بند ہو کر رہ گئے تھے۔ وہ کل شام سے اب تک اپنے کمرے سے نکلے ہی نہیں تھے۔ دلکش کو اُن کی فکر ہونے لگی تھی۔
اس کے پوچھنے پر فضلو بابا نے بتایا تھا ماضی کی یادیں جب ایک دم حملہ کرتی ہیں یا کوئی ایسی بات ہو جائے جس سے انہیں اپنی بربادی یاد آ جائے تو وہ اسی طرح اپنے کمرے میں بند ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو سنیاس لینے کا یہ وقفہ کئی کئی ہفتوں پر محیط ہوتا ہے۔
برآمدے کی سیڑھی پر موجود فضلو بابا اور دلکش کی آوازیں سن کر مصعب اُٹھ بیٹھے تھے۔ کمرے میں ملگجا اندھیرا بھرا ہوا تھا۔ اُن کی چہیتی بیوی کوکب کی موت کے بعد ان اندھیروں نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ یہ اندھیرے کوکب کو کھو کر انہیں ملے تھے اس لیے انہیں بہت عزیز تھے۔ مگر کل شام کے بعد سے اُس اَجنبی اور انجانی لڑکی سے ملنے کے بعد کچھ عجیب سی کیفیت ہوگئی تھی۔ وہ شروع سے ہی کرن کو کوکب کا قاتل مانتے آئے تھے مگر کل سجیلہ کے احساس دلانے پر ایک نیا بالکل انوکھا جذبہ سر اُٹھا رہا تھا۔ وہ اس جذبے سے خوفزدہ ہو رہے تھے۔ اسے دبا دینا اور کچل دینا چاہتے تھے مگر وہ بے بس ہوگئے تھے۔ وہ غیر محسوس طور پر اپنے خول سے نکل رہے تھے۔ پہلی بار وہ اپنی اس سوچ پر حیران رہ گئے تھے کیا کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اپنی عزیز از جان بیوی کا غم بھول کر وہ زندگی کی رونقوں کی طرف لوٹ آئیں۔
انہیں اپنی وفا پر شبہ ہو رہا تھا… بھلا وہ یہ سب کس طرح کر سکتے تھے… وہ دلکش کو پناہ کس طرح دے سکتے تھے؟ وہ بیگم تمنا آغا کے اپاہج خانے سے آنے والی لڑکی سے کس طرح ملاقات کر سکتے تھے؟ اور ملاقات کے بعد اس کی ہر بات کا کس طرح اثر لے سکتے تھے؟ مگر یہ سب کچھ ہوا تھا اور ہو رہا تھا… مصعب نہ چاہتے ہوئے بھی سجیلہ کے حوالے سے اُس اَن دیکھی بچی کے بارے میں سوچ رہے تھے جس کا نام کرن تھا اور جو اُن کی بیٹی تھی۔ انہوں نے بے بسی سے کرسی کی پشت سے سر ٹکاتے ہوئے بے اختیار سوچا۔ ’’تم کون ہو؟ جس نے یوں لمحوں میں برسوں سے کھڑی دیواروں میں دراڑیں ڈال دی ہیں؟‘‘ کرسی کی پشت سے سر ٹکا کر انہوں نے آنکھیں بند کرلی تھیں اور آنکھیں بند کرتے ہی سجیلہ کا مسکراتا چہرہ سامنے آ گیا تھا۔
’’اوہ یہ مجھے کیا ہو رہا ہے؟‘‘ انہوں نے گھبرا کر آنکھیں کھول دی تھیں۔
’’کرن، کوکب کی آخری نشانی ہے۔ وہ لمحہ لمحہ آپ کی محبت اور توجہ کے لیے تڑپ رہی ہے، ترس رہی ہے۔‘‘ سجو کی جذبوں میں ڈوبی آواز اُن کے کانوں میں گونجی وہ آہستگی سے کرن کی تصویر کی طرف بڑھے اور بالکل بے خیالی میں انہوں نے وہ تصویر اٹھا لی، آج پہلی بار وہ اس کی تصویر کو توجہ سے دیکھ رہے تھے۔
’’پاپا… پاپا…‘‘ انہیں بے ساختہ اپنے کانوں میں کسی بچی کی آواز سنائی دی تھی۔ انہوں نے گھبرا کر دروازے کی طرف دیکھا۔ مگر دروازے پر کوئی موجود نہ تھا۔
٭…٭…٭
فضلو بابا کچن کا کچھ سودا سلف لینے قریبی مارکیٹ جا رہے تھے۔ دلکش نے گھر میں بیٹھ کر پریشان سوچوں کا سامنا کرنے کی بجائے فضلو بابا کے ساتھ جانے کا ارادہ کر لیا۔ ’’ہاں چلو نا۔‘‘ فضلو بابا مسکرا کر بولے۔
’’کچھ زیادہ دُور جانا نہیں ہے، دو بلاک آگے ایک بہت اچھی مارکیٹ ہے۔ جلد لوٹ آئیں گے۔‘‘
’’آپ مصعب صاحب کو تو بتا دیجیے۔‘‘ دلکش نے انہیں یاد دلایا۔
’’ارے وہ روکیں گے تھوڑی۔‘‘ فضلو بابا پورے اعتماد سے مسکرائے۔ ’’تم چادر لے آئو پھر چلتے ہیں۔‘‘
چند لمحوں بعد اُن کی جیپ ہموار راستے پر دوڑی چلی جا رہی تھی۔ کچھ دیر بعد وہ گروسری مارکیٹ کے سامنے پہنچ گئے۔ گو کہ شام ڈھل کر رات کی آغوش میں سمٹ گئی تھی۔ اس کے باوجود مارکیٹ کی چہل پہل میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ فضلو بابا بیگ لٹکائے تیزی سے آگے جارہے تھے۔ دلکش اپنی چادر کا بکل مارے اُن کے پیچھے چل جا رہی تھی۔ تب ہی کوئی اسے دیکھتے ہی ایک دَم رُک گیا تھا۔ ایک ہاتھ بڑھا تھا اور کسی نے آہستگی سے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ اس کے آگے کی جانب بڑھتے قدم ایک دم رُک گئے، اُس نے گھبرا کر پلٹ کر دیکھا۔
٭…٭…٭
ڈین نے فون کیا تھا۔ فاریہ حیران بھی تھی اور پریشان بھی۔ ادھر صفیہ چچی کی تگ و دو اس کی نظروں سے کچھ پوشیدہ نہ تھی۔ وہ رزلٹ آنے کے انتظار کے حق میں بھی نہ تھیں۔ گھڑی کی چوتھائی میں اس کی اور اظفر کی شادی کر دینا چاہتی تھیں۔ اظفر کی آنکھوں میں بھی اب تو دھنک رنگ سپنے سجنے لگے تھے۔ ہوش سنبھالنے کے بعد سے اب تک انہوں نے صرف ایک ہی لڑکی کے بارے میں سوچا تھا… اور اپنی سوچ پر وہ کبھی پشیمان نہیں ہوئے تھے کیونکہ وہ لڑکی بچپن میں ہی اُن کے نام سے وابستہ کر دی گئی تھی۔
فاریہ انہیں بے حد عزیز تھی۔ اُن کا ہر تصور فاریہ کے نام سے تابندہ تھا۔ ہر خیال فاریہ سے شروع ہو کر اُسی پر ختم ہوتا تھا اور یہ بات کتنی عجیب تھی کہ فاریہ اس بات سے واقف نہ تھی، وہ بس اتنا جانتی تھی کہ صفیہ چچی جلد از جلد اسے، اپنی اور اپنے بیٹے کی غلامی میں دیکھنے کی متمنی تھیں مگر اب اس سے کسی طور مفر ہی نہ تھا۔
صفیہ چچی تو بی ایس سی کے بعد ہی شادی کی خواہش مند تھیں۔ دادا ابا کے سمجھانے پر وہ بہ مشکل تمام ایم ایس سی تک رُکنے پر آمادہ ہوئی تھیں اور اب جبکہ امتحان ہو چکے تھے اور کسی پل بھی رزلٹ متوقع تھا۔ اُن کا شادی کی تاریخ لینے کے لیے مضطرب ہونا ایسا کچھ غلط بھی نہ تھا۔
فاریہ نے بھی خود کو اس امر کے لیے ذہنی طور پر تیار کرلیا تھا۔ رزلٹ کا کیا تھا شادی کی تاریخ طے ہونے کے بعد بھی آسکتا تھا۔ مگر رزلٹ سے پہلے اس کے ڈین کا فون آ گیا اور انور ضیا کے کہنے پر وہ ڈین سے ملنے یونی ورسٹی جا پہنچی۔
تب اسے پتا چلا تھا کہ رزلٹ آ گیا تھا اور حسب سابق اُس نے ٹاپ کیا تھا۔ اب اس کی سمجھ میں آیا کہ ڈین نے فون کر کے بطور خاص اسے کیوں بلوایا تھا۔
ڈاکٹر اشرف نقوی کے کمرے میں داخل ہوئی تو انہوں نے کھڑے ہو کر اس کا استقبال کیا تھا۔ فرسٹ پوزیشن اور گولڈ میڈل لینے پر اسے مبارک دی تھی، اور ساتھ ہی مسرور لہجے میں اسے خوش خبری دی تھی۔ ’’آپ کے لیے ایک اسکالر شپ ہے۔ لندن یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کے لیے… دو ہفتوں میں آپ کو لندن کے لیے روانہ ہونا ہے… دو سال کے لیے…‘‘
’’دو سال کے لیے لندن یونی ورسٹی میں…‘‘ فاریہ کے خشک ہوتے حلق سے گھٹی گھٹی آواز نکلی۔
’’یس۔‘‘ ڈاکٹر نقوی فخریہ ہاتھ اُٹھا کر بولے۔ ’’تم اس اسکالر شپ کی حقدار ہو۔ مجھے یقین ہے تم آئندہ بھی اسی طرح شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرو گی۔‘‘
’’سر بے شک یہ ایک بڑی آفر ہے…‘‘ فاریہ نے دھیمی آواز میں جواب دیا۔ ’’مگر… مگر شاید میں اسے قبول نہ کر سکوں… آئی ایم سوری سر…‘‘ وہ جانے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی۔
’’مس فاریہ۔‘‘ ڈاکٹر نقوی نے حیرت اور افسوس سے اس کی طرف دیکھا۔ ’’اتنی جلدی فیصلہ مت کیجیے۔ گھر جا کر اپنے بڑوں سے مشورہ کیجیے۔ ایسے مواقع بار بار نہیں ملتے۔‘‘
اب وہ ڈین کو کیا سمجھاتی کہ اس کی ہونے والی ساس صفیہ چچی کل کی بجائے آج ہی اس کی شادی کا منصوبہ بنائے بیٹھی ہیں۔ بھلا وہ اسے دو سال تک پردیس میں جاکر پڑھنے کی اجازت کس طرح دے سکتی تھیں؟ اور وہ خود کس منہ سے اپنے گھر جا کر اپنے بڑوں سے یہ بات کرسکتی تھی؟ اسی لیے اُس نے فوراً ہی منع کر دیا تھا۔
’’میرا مشورہ ہے… آپ اپنے دادا سے مشورہ کرلیں۔‘‘ ڈاکٹر نقوی جانتے تھے اس کے والد حیات نہیں ہیں اور اس کے سر پرست اس کے دادا ہیں۔ ’’یہ داخلہ فارم اپنے ساتھ لے جائیں اسے جمع کروانے کے لیے آپ کے پاس پورا ہفتہ ہے… مجھے اُمید ہے کہ ایک ہفتے میں آپ ضرور اس آفر کو قبول کرنے کے قابل ہو جائیں گی۔‘‘
نا چاہتے ہوئے بھی فاریہ نے فارم تھام لیا اور آہستگی سے کمرے سے باہر نکل آئی۔ کتنی بڑی خوش خبری تھی۔ کتنا بڑا اعزاز تھا مگر اس کا دل بجھ سا گیا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وہ اس اعزاز کو حاصل نہیں کر سکتی۔ وہ تھکے تھکے قدموں سے گھر جانے کے لیے بس اسٹینڈ کی طرف مڑ گئی۔
فاریہ گھر پہنچی تو سب سے پہلے اس کا سامنا انور ضیا سے ہوا۔ اُن کے پوچھنے پر اُس نے رزلٹ کے باے میں بتا دیا۔ فروا کے کانوں تک بھی اس کی پوزیشن کی خبر پہنچ گئی۔ ’’او میرے خدا‘‘ وہ ایک دم فاریہ سے لپٹ گئی۔ ’’اتنی بڑی خوش خبری اور کتنی آہستگی سے سُنا رہی ہیں، امی ذرا سنیے تو…‘‘
’’کیا بات ہے کیوں شور مچا رہی ہو؟‘‘ فوزیہ بیگم آنچل سے ہاتھ پونچھتی اندر داخل ہوئیں اور جب اصل بات پتا چلی تو اُن کا چہرہ بھی فرطِ مسرت سے دمکنے لگا۔ انہوں نے آگے بڑھ کر فاریہ کو گلے سے لگا لیا۔
فروا، فریحہ کو فون کرنے کے لیے اندر کی طرف دوڑ گئی۔ فوزیہ بیگم یہ خوش خبری صفدر میاں اور صفیہ کو سنانے کے لیے سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی تھیں۔ جانتی تھیں کہ صفیہ کو فاریہ کی تعلیم سے دلچسپی ہے نا رزلٹ سے۔ وہ تو لڑکیوں کے زیادہ پڑھنے کے حق میں ہی نہیں تھیں۔ اُن کا خیال تھا کہ زیادہ پڑھ لکھ کر لڑکیوں کا دماغ خراب ہو جاتا ہے اور وہ ساس اور میاں کو گھاس نہیں ڈالتیں۔
فوزیہ بیگم کی زبانی فاریہ کی اوّل پوزیشن کی خبر سن کر اُن کے لبوں
پر پھیکی سی مسکراہٹ بکھری اور اگلے ہی لمحے مطمئن انداز میں وہ سانس لے کے بولیں۔ ’’شکر ہے رزلٹ تو آیا… بس آج ہی میں ابا جی سے کہہ کر شادی کی تاریخ لے لوں گی… اب میں ایک دن بھی انتظار نہیں کر سکتی۔‘‘ (جاری ہے)