فوزیہ بیگم بے ساختہ مسکرا دی تھیں۔ فریحہ کی شادی کے بعد انہیں کوئی فکر نہ تھی بلکہ اب تو انہیں صفیہ کا اصرار اور اضطراب اچھا لگنے لگا تھا مگر اس سے پہلے کہ صفیہ، انور ضیا سے شادی کی بات کرتیں، فاریہ نے انہیں اسکالر شپ کے بارے میں بتایا۔ وہ ایک روشن خیال انسان تھے۔ ایک بڑے سرکاری اسکول کے ہیڈ ماسٹر رہ چکے تھے۔ تعلیم کی اہمیت سے خوب واقف تھے۔ اتنی بڑی آفر کا سن کر ان کا سر فخر سے بلند ہوگیا۔ مگر فاریہ جانتی تھی ان کی خوشی بے معنی ہے۔ صفیہ چچی اور خود اس کی امی اسے دو سال کے لیے ملک سے باہر جانے کی اجازت کبھی نہیں دیں گی۔ مگر انور ضیا نے اس کا بجھا چہرہ اور افسردہ آنکھیں دیکھ کر اسے سمجھایا کہ تم فکر مت کرو، میں کچھ کرتا ہوں۔
وہ بھیگی پلکوں کے ساتھ اپنے کمرے کی طرف چل دی۔
صفیہ بیگم شادی کی تیاریوں میں لگی تھیں۔ یونہی ہفتہ گزر گیا۔ وہ عجب کشمکش کا شکار تھی۔ کل اسے فارم جمع کروانے جانا تھا تب ہی اظفر آگئے اور جب اسے پتا چلا کہ اظفر سے دادا ابا نے بات کی تھی اور انہیں اس کے باہر جاکر پڑھنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے تو وہ حیرت زدہ رہ گئی۔
’’مگ… مگر وہ چچی جان۔‘‘ اس کے حلق سے گھٹی گھٹی آواز نکلی۔
’’میں انہیں راضی کرلوں گا۔‘‘ اظفر دھیمی آواز میں بولے۔ ’’تم کل جاکر فارم جمع کروا دو۔‘‘
تشکر کا احساس نمی کی صورت اس کی گھنی پلکوں پر اتر آیا۔ اس پل وہ اظفر کو اتنی پیاری لگی کہ ان کا دل چاہا اسے آنکھوں میں بٹھا کر ہمیشہ کے لیے پلکیں بند کرلیں۔ اسے خود سے کبھی دور نہ ہونے دیں۔ مگر محبت کا تقاضا تھا کہ اس کی خوشی پر اپنی خوشی قربان کردی جائے اور وہ اس بات کے لیے پوری طرح تیار تھے۔
٭…٭…٭
اس کی نگاہوں کے سامنے اس کے کاندھے پر ہاتھ دھرے سونم کھڑی تھی۔ اس کی آنکھوں سے دوستی کی پرانی اور مانوس روشنی پھوٹ رہی تھی۔ اسے یوں اچانک سامنے پاکر اس کے چہرے پر خوشی کا احساس بکھرا ہوا تھا۔ ’’دلکش! یہ تم ہی ہو نا…؟ کہیں میری نگاہیں دھوکا تو نہیں کھا رہی ہیں؟‘‘ اس کے بے یقین لہجے میں کیے گئے سوال پر دلکش نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’میں آج تک اس شام کے بارے میں سوچ کر پریشان ہوتی رہی ہوں، جب تم مجھ سے ملنے گھر آئی تھیں، تم مجھے کچھ بتانا چاہتی تھیں مگر بتائے بنا اچانک چلی گئی تھیں۔ کیوں دلکش…؟‘‘
دلکش نے ٹٹولتی نظروں سے سونم کی طرف دیکھا مگر اس کے کسی انداز سے یہ اندازہ نہیں ہورہا تھا کہ وہ جلیل شاہ والے حادثے سے واقف ہے۔ دلکش کو تھوڑی حیرت تو ہوئی۔ کیا جلیل شاہ نے ڈی آئی جی اعظم خان کو کچھ نہیں بتایا یا انہوں نے اپنی بیٹی کو کوئی بات نہیں بتائی۔ جو بھی ہوا، یہ بات طے تھی کہ سونم اس واقعے سے بے خبر تھی۔ ورنہ وہ اس سے اتنے پیار بھرے انداز میں ہرگز نہ ملتی۔ وہ اس سے پوچھ رہی تھی کہ وہ کب اس کے گھر آئے گی؟
’’ہاں سونو…! مجھے ایک ضروری کام کے سلسلے میں تم سے ملنا تو ہے۔‘‘ دلکش نے سوچتے ہوئے کہا۔ ’’دیکھو کب آنا ہوتا ہے۔‘‘
فضلو بابا بھی قریب آگئے تو دلکش نے ان کا تعارف کروایا۔ ’’اچھا! یہ ہیں سونم بٹیا…؟‘‘ وہ مسرت بھرے لہجے میں بولے۔
سونیا نے پلٹ کر انہیں دیکھا اور مسکرا کر سر کے اشارے سے سلام کیا اور پھر دلکش کی طرف متوجہ ہوگئی۔ ’’دیکھو جلدی آنا اور ہاں، ایسا کرو نانو کو بھی ساتھ لے آنا۔‘‘
’’نانو کہاں آئیں گی۔‘‘ دلکش نے دل کی ٹیس سینے میں چھپاتے ہوئے کرب بھرے لہجے میں کہا۔ ’’میں ہی آجائوں گی۔‘‘
’’چلو تم ہی آجائو۔‘‘ سونم مسکرا کر بولی۔
نانو کے ذکر نے دلکش کو افسردہ کردیا۔ وہ جیپ میں بیٹھ کر بھی مسلسل اداس اور دکھی دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے ساکت لبوں پر مچلتی سسکیاں اور گھنی پلکوں پر ٹھہری نمی اس کی دلی کیفیت کی غماز تھی۔ فضلو بابا یہ بات محسوس کررہے تھے اسی لیے بات بدلنے کی غرض سے بولے۔ ’’سونم بٹیا کی باتوں سے تو بالکل پتا نہیں چل رہا تھا کہ انہیں اس واقعے کا کچھ علم ہے۔‘‘ لحظہ بھر کو خاموش رہ کر وہ دوبارہ گویا ہوئے۔ ’’اس کا مطلب ہے کہ جلیل شاہ نے اس حادثے کے بارے میں اگر پولیس کو نہیں بتایا تو وہ خود تمہیں تلاش کرکے سزا دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ مگر تم فکر مت کرو۔ مصعب میاں اب تمہارے کیس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ تمہیں شاید اندازہ نہ ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ مصعب میاں ان وکیلوں میں سے تھے جو مجرم کو پھانسی کے پھندے سے بھی اتار لاتے تھے۔ اگر مصعب میاں نے تمہاری مدد کی ٹھان لی تو سمجھو ایک کیا ہزار جلیل شاہ بھی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ پائیں گے۔‘‘
دلکش نے اداس نظروں سے فضلو بابا کی طرف دیکھا۔ ساتھ دینے کے ذکر پر اسے ایک بار پھر نانو یاد آگئی تھیں۔ ہر غم، ہر خوشی، ہر شکست، ہر فتح میں اس کا ساتھ دینے والی نانو کا نام اس کی زندگی کے پنّے سے اچانک حرفِ غلط کی طرح مٹ گیا اور وہ بدنصیب ان کا آخری بار چہرہ بھی نہ دیکھ سکی تھی۔ اس کی پلکیں ایک بار پھر بھیگتی چلی گئیں۔
جیپ گیٹ کے سامنے روک کر ابھی فضلو بابا اتر کر گیٹ کھولنے کا ارادہ ہی کررہے تھے کہ آہستگی سے گیٹ وا ہوگیا۔ مدھم روشنی میں انہوں نے مصعب کو حیرانی سے دیکھا اور پھر تیزی سے جیپ اندر لے آئے۔
پھر وہ تینوں ایک ساتھ اندر کی طرف بڑھے۔ دلکش کا اداس چہرہ اور بھیگی پلکیں مصعب کی آنکھوں سے چھپی نہ رہیں، اسی لیے اس کے کمرے میں چلے جانے کے بعد وہ فضلو بابا کے پاس کچن میں آکر بولے۔ ’’دلکش کو کیا ہوا؟ کچھ اپ سیٹ سی لگ رہی ہے۔‘‘
فضلو بابا تو پہلے ہی ان کے کچن میں آنے پر حیران ہو رہے تھے۔ کوکب کو پکانے کا بہت شوق تھا۔ اس کا زیادہ وقت کچن میں ہی گزرتا تھا۔ مصعب گھر میں ہوتے تو زیادہ تر اس کے ساتھ کچن میں ہی پائے جاتے مگر کوکب کی بے وقت موت کے بعد مصعب کی زندگی بدل گئی تھی۔ کھانے کا ہوش رہا تھا، نہ کبھی کچن کی طرف پلٹ کر دیکھا تھا۔ مگر آج برسوں بعد انہیں کچن میں دیکھ کر فضلو بابا کو حیرت بھری مسرت ہورہی تھی اور ان کے اس خیال کو تقویت ملی تھی کہ مصعب رفتہ رفتہ تبدیل ہو رہے تھے۔ پھر دلکش کے لیے ان کے سوال نے بھی فضلو بابا کو حیران کیا تھا۔ وہ جو اپنے غم کے سوا ہر چیز فراموش کیے بیٹھے تھے، شاید برسوں میں پہلی بار انہوں نے کسی اور کے کرب کا احساس کیا تھا۔ ’’ہم چائے بنا رہے ہیں، آپ برآمدے میں چل کر بیٹھیے۔ ہم دلکش بٹیا کو بھی وہیں بلا لاتے ہیں، پھر آپ کو سب بتائیں گے۔‘‘ فضلو بابا کی بات سن کر وہ خاموشی سے کچن سے نکل کر برآمدے میں دھری بید کی کرسی پر جا بیٹھے تھے۔
کچھ ہی دیر بعد افسردہ، مضحمل سی دلکش نمودار ہوئی۔ اسے دیکھتے ہی اچانک ان کے دل میںسجیلہ کا خیال جاگ اٹھا اور اپنے اس خیال پر انہیں حیرت ہوئی۔ بھلا دلکش اور مسز آغا کے اپاہج خانے کی ورکر سجیلہ میں کیا قدر مشترک تھی کہ انہیں دلکش کو دیکھتے ہی سجیلہ کا خیال آگیا۔ شاید ان دونوں کا دوپٹہ اوڑھنے کا انداز ایک جیسا تھا۔ اس شام سجیلہ نے خود کو دلکش کی طرح سیاہ رنگ کی بڑی سی چادر میں چھپایا ہوا تھا۔ بلاشبہ دلکش، سجیلہ سے کہیں زیادہ حسین تھی۔ اس کے باوجود کوئی چیز ایسی ضرور تھی جو دلکش سے مشابہت رکھتی تھی شاید اسی لیے دلکش کو دیکھتے ہی انہیں بے اختیار سجیلہ یاد آگئی تھی۔
اس کے جانے کے بعد وہ ایک لمحے کے لیے بھی اسے نہ بھول پائے تھے۔ زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ وہ کوکب کی بجائے کسی اور کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ بڑی مشکل سے انہوں نے اپنی سوچوں پر قابو پا کر خود کو کمرے کی قید سے باہر نکالا۔ اس وقت فضلو بابا، دلکش کے ساتھ مارکیٹ گئے ہوئے تھے۔ پورا گھر خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا۔ برسوں بعد انہیں خاموشی اور سکوت کا وحشت ناک احساس ہوا تھا۔ آوازیں بھی بڑی نعمت ہیں۔ یہ آوازیں، یہ آہٹیں، کسی اور کے ہونے کا احساس، انسان کو زندہ رہنے کا حوصلہ دیتی ہیں، اکیلے پن کے خوف کو دور کرتی ہیں۔ اس بات کا ادراک انہیں آج ہی ہوا تھا۔ تب ہی جیپ کے رکنے کی آوازیں سن کر وہ تیزی سے گیٹ کھولنے کے لیے چلے گئے تھے۔
دلکش ایک کرسی پر آبیٹھی تھی۔ فضلو بابا چائے کے مگ اور شامی کباب کی پلیٹ ٹرے میں دھرے آموجود ہوئے تھے۔ ’’لگتا ہے اپنی کلاس فیلو اور پرانی دوست سے مل کر تمہیں کوئی خوشی نہیں ہوئی؟‘‘ مصعب نے اس کی بھیگی پلکوں کی طرف دیکھ کر کہا تو وہ سٹپٹا کر بولی۔ ’’ایسا تو نہیں ہے… بس نانو کے ذکر پر دل بھاری ہوگیا تھا۔‘‘
’’تمہارے درد کو میں محسوس کرسکتا ہوں۔‘‘ مصعب سنجیدہ لہجے میں گویا ہوئے۔ ’’یہ سچ ہے کہ پرانی یادوں کو بھول جانا اتنا آسان نہیں… لیکن زندہ رہنے کے لیے بیتے دنوں کے غموں سے دامن چھڑانا ہی ہوگا۔‘‘
دلکش نے حیرانی سے ان کی طرف دیکھا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا وہ دلکش سے زیادہ خود کو یہ بات باور کروانا چاہ رہے تھے۔ فضلو بابا نے مسرور نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔ وہ بات جو کوئی مصعب کو نہ سمجھا سکا تھا، آج وہی بات وہ دلکش کو سمجھا رہے تھے۔ ’’پہلے میں سمجھتا تھا پرانی یادوں سے دامن بچانا ممکن نہیں لیکن اب میں سوچتا ہوں… شاید ایسا ممکن ہے۔‘‘ اور بے ساختہ ان کی نگاہوں میں سجیلہ کا دمکتا چہرہ گھوم گیا۔
’’ایک اور بات۔‘‘ فضلو بابا نے دھیمی آواز میں گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔ ’’ہم فکرمند تھے کہ کہیں عدیل میاں ملک سے باہر نہ چلے گئے ہوں مگر کل ہم دونوں جب کپڑے لینے مارکیٹ گئے تو وہاں وہ دکھائی دیے تھے… مگر یہ پتا نہیں چلا کہ وہ شہر میں ہیں یا گائوں میں جلیل شاہ کے ساتھ حویلی میں ہیں۔ عدیل شاہ کا کچھ اتا پتا معلوم ہو تو ان تک پہنچنے کی کوشش کی جائے اور انہیں حقیقت حال سے آگاہ کیا جائے ورنہ وہ کسی دن خاموشی سے پردیس سدھار جائیں گے اور سب کہانی دھری کی دھری رہ جائے گی۔‘‘ فضلو بابا کی دلیل میں بڑی سچائی تھی۔ مصعب سوچ میں پڑ گئے۔
’’فضلو بابا! آپ کا یہ احسان… یہ محبت…!‘‘ بے ساختہ اس کی آواز بھرا گئی۔
’’احسان کیسا؟‘‘ فضلو بابا نے آگے بڑھ کر اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا۔ ’’تم ہمارے لیے کوئی غیر تھوڑی ہو… ہم چاہتے ہیں خدا جلد ازجلد تمہارا شوہر تمہیں عطا کردے۔ ہم تمہیں اس گھر سے عدیل میاں کے ساتھ رخصت کریں گے۔‘‘
دلکش کی بھیگی پلکوں میں حیرانی پھیل گئی۔ کیا کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ پھر اس نے پلکیں بند کرکے اللہ سے دعا کی۔
’’مجھ حرماں نصیب اور راہِ گم گشتہ مسافر کو منزل پر پہنچا دینا میرے رب!‘‘
’’ہمارا خیال ہے کہ ہم کل ہی سورج پور جاکر سن گن لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ عدیل میاں کیا وہاں ہیں۔‘‘ فضلو بابا کا اس طرح وہاں جانا خطرناک تو تھا مگر یہ رسک لیے بنا چارہ بھی نہ تھا۔ سو اگلے دن صبح فضلو بابا سورج پور کے لیے روانہ ہوگئے۔
٭…٭…٭
صبح سے ہی جلیل شاہ کا موڈ سخت خراب تھا۔ اس نے جو چاہا تھا، جب چاہا تھا، کسی نہ کسی طرح حاصل کرلیا تھا۔ چاہے وہ عقیل شاہ کی جاگیر تھی یا شہر میں پھیلا نوشابہ کے والد سیٹھ انوار کا وسیع و عریض کاروبار! ایک ذرا سی کوشش سے حاصل کرلیا تھا۔ نوشابہ کو موت کے گھاٹ اتار کر اور عقیل شاہ کو پاگل ثابت کرکے، منظر سے غائب کروا کر عدیل شاہ کی پرورش اپنے نہج پر کی تھی اور کسی کو ذرّہ بھر شبہ نہیں ہونے دیا۔ پہلی شکست کا سامنا اسے دلکش کی طرف سے ہوا تھا۔ وہ اسے لہولہان کرکے نا صرف فرار ہوگئی تھی بلکہ اب تک مفرور تھی اور مسلسل تلاش کے باوجود وہ اب تک ہاتھ نہیں لگی تھی۔ دوسری طرف پلاٹ کے ٹرانسفر کا مسئلہ اٹکا ہوا تھا۔ پلاٹ اس کے نام منتقل ہوجاتا تو وہ فوراً عدیل کو سات سمندر پار بھیج دیتا اور اس طرح دلکش کا عدیل تک پہنچنے کا باب ہی بند ہوجاتا۔
دوسری طرف وہ مرید خان اور اس کے چیلوں سے سخت خفا تھا۔ وہ ابھی کوئی تلخ بات کہنے ہی والا تھا کہ نور خان تیزی سے اندر داخل ہوا۔ ’’سائیں! ادھر ڈاک خانے کے پاس ایک شخص عدیل سائیں کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔‘‘
’’کون تھا وہ…؟‘‘ جلیل شاہ نے جلدی سے پوچھا۔ ’’تم لوگوں نے اس کے ساتھ کیا کیا؟‘‘
’’سائیں! کرنا کیا تھا۔‘‘ نور خان جلدی سے بولا۔ ’’اس کے منہ پر کپڑا ڈال کے آپ کی خدمت میں لے آئے ہیں۔‘‘ اور اگلے ہی لمحے وہ ایک شخص کو دھکیلتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔ اس شخص کے سر اور چہرے پر ایک کپڑا منڈھا ہوا تھا۔ جلیل شاہ نے آگے بڑھ کر اس کے چہرے سے کپڑا کھینچ کر الگ کیا اور اپنے سامنے کھڑے شخص کو حیرت سے دیکھنے لگا۔
’’میں پوچھتا ہوں یہ سب کیا مذاق ہے؟‘‘ سامنے کھڑے شخص نے غصے سے پوچھا۔ ’’مجھے آخر اس طرح اٹھا کر یہاں لانے کا مقصد کیا ہے؟ میں ایک کوریئر سروس کا ملازم ہوں۔‘‘ آنے والے نے اپنے یونیفارم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’میں شہر سے بائیک پر یہاں عدیل شاہ کے لیے امریکا کی یونیورسٹی سے بھیجا گیا لیٹر لے کے آیا تھا۔ پوسٹ آفس کے پاس رک کر میں کسی سے عدیل شاہ کا پتا معلوم کررہا تھا کہ یہ نا معقول لوگ مجھے یہاں لے آئے۔‘‘
جلیل شاہ نے پُرجلال نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ پھر دھیمی آواز میں بولا۔ ’’تم عدیل شاہ کا پتا پوچھ رہے تھے نا…؟ یہ عدیل کا گھر ہی ہے۔ ان لوگوں نے تمہیں صحیح جگہ پہنچایا ہے مگر ان کا پہنچانے کا طریقہ مناسب نہیں تھا اس کے لیے ان کی طرف سے میں معذرت کرتا ہوں۔‘‘ کچھ دیر بعد کوریئر کے نمائندے کو رخصت کرنے کے بعد جلیل شاہ نے خونخوار نظروں سے نور خان اور اس کے ساتھیوں کی طرف دیکھا۔ وہ تینوں سر جھکائے حیران و پریشان کھڑے تھے۔
٭…٭…٭
شادی کو کئی ہفتے گزر گئے تھے مگر فریحہ اور آذر کے مابین فاصلہ اور دوری کی خلیج جوں کی توں موجود تھی۔ یہ خلیج پاٹنے کی فریحہ نے بھی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ اب تک کھل کر ان سے بات بھی نہیں کر پائی تھی۔ ایک عجب سا حجاب مانع تھا۔ باقی ان کے ہر کام کی ہر ذمہ داری نہایت احسن طریقے سے سنبھال لی تھی۔
ابھی کل رات کی بات تھی، وہ ان کے لیے نائٹ سوٹ نکال کر لائی تو وہ بیزاری سے بولے۔ ’’کرمو کہاں ہے؟ تمہارا یہ کام نہیں ہے۔‘‘
’’پھر آپ ہی بتا دیجیے۔‘‘ فریحہ نے نگاہ جھکا کر معصوم لہجے میں کہا۔ ’’میرا آخر کام کیا ہے؟‘‘ لمحہ بھر کو آذر سٹپٹا کر چپ ہوگئے تھے۔ ’’مجھے آپ کا کام کرکے خوشی ہوتی ہے۔‘‘ انہیں جزبز ہوتا دیکھ کر وہ سچے لہجے میں بولی۔ ’’آپ کی بیوی ہونے کے ناتے آپ کا خیال رکھنا، آپ کی خدمت کرنا میرا فرض ہے۔‘‘
آذر خاموشی سے اسے تکے گئے اور وہ سہج سہج قدم دھرتی باہر چلی گئی۔
٭…٭…٭
گھنٹی بجتے ہی انوشہ نے لپک کر فون اٹھایا۔ دوسری طرف حسب توقع حارب تھا۔ وہ اس سے شکایت کررہا تھا کہ کتنے دن ہوگئے ملاقات کو۔
جب سے بیگم تیمور اور آذر کو حارب کے بارے میں پتا چلا تھا، وہ بہت محتاط ہوگئی تھی۔ یہ سوچ کر حجاب آنے لگا تھا کہ سب کو پتا ہے کہ وہ کس سے ملنے جاتی ہے تب ہی اس نے حارب سے ملنا کم کردیا تھا۔
’’او کم اون انّو…!‘‘ حارب زچ ہوکر بولا۔ ’’یہ کیسی بیک ورڈ خواتین جیسی باتیں کرنے لگی ہو… تم جانتی ہو نا دو چار دن تم سے نہ ملوں تو میری دھڑکنیں مدھم پڑنے لگتی ہیں۔ تمہارا یہ دیوانہ لحظہ لحظہ مرنے لگتا ہے۔‘‘
’’او حارب پلیز…!‘‘ انوشہ بے تابانہ بولی۔ ’’مرنے اور بچھڑنے کی بات مت کیا کرو۔ تم جانتے ہو کہ میں تمہارے بغیر زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔‘‘
’’اگر واقعی ایسا ہے تو دس منٹ میں پہنچ جائو۔ میں تمہاری راہ دیکھ رہا ہوں۔‘‘ حارب نے بے قراری سے کہا۔ ’’اور ہاں! دس منٹ سے ایک منٹ بھی اوپر ہوا تو میں اس سامنے والی جھیل میں کود کر جان دے دوں گا۔‘‘ اتنا کہہ کر حارب نے موبائل بند کردیا۔
انوشہ تیزی سے باتھ روم کی طرف بڑھ گئی۔ وہ تیار ہوکر نیچے اتری اور گاڑی کی چابی اٹھاتی تیزی سے باہر نکل گئی۔ صاعقہ تیمور نے سیڑھیاں اترتے ہوئے انوشہ کو جاتے دیکھا تھا مگر وہ بنا کچھ بولے اپنے مخصوص صوفے پر آبیٹھی تھیں۔ انہوں نے موبائل نکال کر سلطان کا نمبر ملایا۔
’’جی! اب وہ بالکل ٹھیک ہے۔‘‘ دوسری طرف سے سلطان کی سپاٹ آواز سنائی دی۔
’’یہ میں بھی جانتی ہوں۔‘‘ بیگم تیمور نے دھیمی آواز اور تلخ لہجے میں کہا۔ ’’میں اس کے آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں جاننا چاہتی ہوں… اپنے پہلے اقدام سے وہ جو چاہتی تھی، حاصل کرچکی ہے۔ آذر پوری طرح اس کی جھوٹی محبت کے جال میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ تم کنزہ پر نظر رکھو… جلد ہی میں تمہیں ایک نیا ٹاسک دینے والی ہوں۔‘‘
’’جی بہتر۔‘‘ سلطان نے جواب دیا اور فون بند کردیا۔
٭…٭…٭
آذر نے نگاہ اٹھا کر فریحہ کی طرف دیکھا۔ وہ ان کی فائلیں اور کتابیں ترتیب سے رکھ رہی تھی۔ وہ خاموشی سے صوفے کی طرف بڑھ گئے۔ اتنے دن گزرنے کے باوجود وہ اب تک فریحہ کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں قائم کرسکے تھے۔ اس کا معصومانہ انداز، بھولی بھالی باتیں، بے ریا آنکھیں انہیں اپنی جانب کھینچتی تھیں تو اس کی بے لوث خدمت، بے غرض محبت اور گھر کے ماحول میں ڈھل جانے کی صلاحیت انہیں کبھی کبھی حیران کردیتی تھی۔
وہ مام، انوشہ اور خود ان سے کس قدر مانوس ہوگئی تھی۔ اس نے سب کے دلوں میں گھر کرلیا تھا۔ مام اسے پیار سے بیٹی اور نور جہاں ’’دلہن بیگم‘‘ کہہ کر مخاطب کرتی تھیں جبکہ انوشہ کا ’’بھابی جانی‘‘ کہتے منہ سوکھتا تھا۔ ایک وہی تھے جو اب تک اس کا نام لبوں تک آنے سے پہلے ہی روک دیتے تھے۔ اپنے دل کے شہر کی طرف پیشرفت کرتے اس کے قدموں کو انہوں نے جانے کس کس جتن سے روکا ہوا تھا۔ کبھی کبھی وہ خود کو بے حد کمزور اور بے بس محسوس کرنے لگتے تھے۔ اب تک انہوں نے کنزہ کو ہی اپنی منزل مانا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ انہیں احساس ہو رہا تھا کہ فریحہ کو نظرانداز کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔
خود صاعقہ تیمور بھی یہ بات جان گئی تھیں کہ وہ اپنی کوشش میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکی تھیں۔ آذر کو فریحہ کے دامن سے باندھ کر بھی وہ انہیں کنزہ کے جال سے نہیں نکال سکی تھیں۔ شاید ایسا ہو بھی جاتا مگر کنزہ نے خودکشی کا سوانگ رچا کر ایک جست میں آذر کو اپنی مٹھی میں لے لیا تھا۔ اب صاعقہ تیمور کو ایسی حکمت عملی تیار کرنی تھی تاکہ وہ آذر کو فریحہ کے قریب لا سکیں۔ سو انہوں نے آج آذر کو فریحہ کے ساتھ اس کے میکے بھیجنے کا ارادہ کیا تھا۔
’’آذر فریحہ کی بہن نے امتیازی نمبروں کے ساتھ ماسٹرز مکمل کیا ہے۔ تمہیں آج شام فریحہ کے ساتھ اس کے گھر جانا ہے۔‘‘ فریحہ نے حیران نظروں سے بیگم تیمور کی طرف دیکھا اور حسب توقع آذر نے سر تسلیم خم کردیا۔ وہ اپنی شادی، کنزہ اور فریحہ کے تکون میں اس طرح الجھ کر رہ گئے تھے کہ حارب کو بالکل بھلا بیٹھے تھے۔ آج انہیں حارب کا خیال آگیا تھا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ آج آفس سے آکر مام سے حارب کے بارے میں بات کریں گے اور انہیں جلد ازجلد حارب سے ملنے کے لیے آمادہ کریں گے۔
٭…٭…٭
اپاہج خانے میں سجیلہ اپنا کام نمٹا کر کمرے میں لوٹ آئی تھی۔ آج کل وہ عجیب سی کیفیت سے دوچار تھی۔ کسی کام میں دل نہیں لگتا تھا۔ ایک عجیب سی بے کلی اسے گھیرے رکھتی۔ کبھی ماضی کی یادیں اسے گھیر لیتیں۔ گائوں کا کچا گھر، آنگن میں مٹی کا چولہا، برآمدے میں لٹکی لالٹین، مونڈھے پر بیٹھا بابا اور چارپائی پر بیٹھی ماں…! دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ خواب ہوگیا تھا اور وہ اس پرسکون گھر سے اس رفاہی ادارے میں پہنچ گئی تھی۔ شروع شروع میں بہت بے کلی تھی پھر رفتہ رفتہ صبر آگیا تھا۔ اس نے اپنے بارے میں مسز آغا کو کچھ زیادہ نہیں بتایا تھا۔ انہوں نے بھی نہیں کریدا تھا۔ دلکش کی یاد کبھی کبھی اسے ایک دم بے قرار کردیتی تھی۔ کرن کی محبت نے اسے بہت سہارا دیا تھا۔ وہ اسے اس کے باپ سے ملوانا چاہتی تھی۔ فائل میں اس نے اس کے باپ مصعب کی تصویر دیکھی اور اس تصویر کو دیکھ کر ایک عجب سے احساس نے اس کے دل میں سر اٹھایا تھا۔ پھر مصعب سے ملنے کے بعد اس کی سوچوں کے دھاروں کا رخ ہی بدل گیا تھا۔ وہ مصعب سے کرن کا حق لینے گئی تھی مگر وہاں جانے کے بعد اپنا کچھ کھو جانے کا احساس ہوا تھا۔ مسز آغا کو اس نے ساری صورتحال سے آگاہ کردیا تھا۔ وہ مایوس نہیں تھی۔ اسے یقین ہوچلا تھا کہ جلد یا بدیر مصعب اپنے خول سے باہر آجائیں گے اور کرن کو اپنا لیں گے۔
’’سچی!‘‘ کرن نے اس کی بات سنی تو اس کی اداس آنکھوں میں امید کے دیے جگمگا اٹھے۔ ’’کیا وہ واقعی مجھ سے محبت کرنے لگیں گے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ سجو نے پُر یقین لہجے میں جواب دیا۔
’’کیا وہ آپ سے بھی اسی طرح محبت کرنے لگیں گے۔‘‘ کرن نے دھیمے لہجے میں کہا۔ ’’جس طرح میں آپ سے محبت کرتی ہوں۔‘‘
سجو کا دل بے اختیار دھڑک اٹھا تھا۔ کرن کے معصومانہ سوال نے اس کے دل و دماغ میں
شمار سوالوں کا واضح جواب دے دیا تھا۔ آج اسے پتا چل گیا تھا کہ جب دل کہیں لگ جاتا ہے تو پھر کہیں اور نہیں لگتا… محبت جب دل میں آتی ہے تو سکون رخصت ہوجاتا ہے۔ اس کی بے سکونی اور بے کلی کا سبب یہی ’’محبت‘‘ تھی۔ وہ شاید اس حقیقت سے آنکھیں ملانا نہیں چاہتی تھی کہ اسے مصعب سے محبت ہوگئی ہے۔ اور آج جب کرن نے اس سے یہ سوال کیا تو وہ چور سی ہوگئی تھی… کرن خاموش نگاہوں سے اس کے چہرے پر بنتے بگڑتے رنگ دیکھ رہی تھی۔ پھر کچھ سوچ کر بولی۔ ’’آپ کے پاس بابا کا فون نمبر ہے نا…؟‘‘ اور سجو کے اثبات میں سر ہلانے پر وہ خوش ہوکر بولی۔ ’’تو چلیے ہم انہیں فون کرتے ہیں۔‘‘
’’فون…؟‘‘ سجو نے چونک کر کرن کی طرف دیکھا۔ یہ خیال اسے پہلے کیوں نہیں آیا۔ یہ سچ تھا کہ چاہتے ہوئے بھی وہ روز ان کے گھر نہیں جاسکتی تھی مگر فون پر تو رابطہ ہوسکتا تھا۔ ان کی آواز سننے اور ان سے بات کرنے کا موقع مل سکتا تھا۔ اس کا دل ایک نئے احساس سے دھڑکنے لگا۔ اس نے ٹیلیفون سیٹ اٹھا کر اپنے قریب رکھ لیا۔ اور کرن پُر اشتیاق انداز میں اس کے سامنے آبیٹھی۔ سجو نے لرزتی انگلیوں اور دھڑکتے دل سے مصعب کے گھر کا نمبر ڈائل کیا۔
لائونج کی خاموشی اور ساکت فضا میں بے ساختہ فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ مصعب اس وقت فون کے قریب ہی بیٹھے تھے۔ کئی دنوں سے وہ اپنے اندر ایک غیر محسوس سی تبدیلی محسوس کررہے تھے۔ دس سال میں پہلی بار وہ اپنی بیٹی کرن کے بارے میں سوچ رہے تھے اور پھر آپ ہی آپ ان کی سوچوں کے دھارے سجیلہ کی طرف بہہ نکلے تھے۔ آج برسوں بعد ان کے دل کے زنگ آلود قفل پر کسی کی یاد کی ضرب پڑی تھی۔ ان کے دل کے بند دروازوں پر پہلی بار کسی نے دستک دی تھی۔ انہیں احساس تھا کہ انہوں نے اپاہج خانے سے آنے والی سجیلہ کے ساتھ کوئی اچھا رویّہ روا نہ رکھا تھا۔ اب انہیں اپنے رویّے پر افسوس ہورہا تھا۔ انہوں نے اس معصوم سی، پیاری سی لڑکی کا دل دکھایا تھا۔ انہیں اس سے اپنے رویّے پر معذرت کرنی چاہیے۔ وہ اس کے لیے خود کو آمادہ کرچکے تھے مگر اس کے لیے وہ اپاہج خانے جانے کی ہمت خود میں نہیں پا رہے تھے۔
اچانک ان کے دل میں خیال آیا تھا کہ کیوں نہ فون کرکے وہ سجو سے معافی مانگ لیں۔ اس خیال کے آتے ہی انہوں نے ڈھونڈ کر وہ لفافہ نکالا جو مسز آغا کے ادارے سے آیا تھا۔ اس پر وہاں کا نمبر لکھا ہوا تھا۔ انہوں نے فون اپنی جانب کھینچ کر نمبر ملایا مگر فون انگیج تھا کیونکہ ٹھیک اسی لمحے سجو نے ان کا نمبر ڈائل کیا تھا۔
دوسری بار سجو نے نمبر ڈائل کیا۔ رابطہ ملنے پر اس نے فوراً ہی لائن ڈس کنیکٹ کردی۔ کچھ حیا اور کچھ خوف کا ملا جلا تاثر تھا۔ بھلا اس کی آواز سن کر مصعب کیا سوچیں گے۔ اس سوچ نے اس کے رخساروں کو گلگوں کردیا تھا اور اس نے گھبرا کر لائن کاٹ دی تھی۔ پھر کچھ کرن کے اصرار اور کچھ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس نے دوبارہ نمبر ملایا۔
فون کی گھنٹی نے ایک دم ہی لائونج کے پرسکون ماحول کو تہس نہس کرکے رکھ دیا تھا۔ مصعب نے بے ساختہ چونک کر فون اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تھا کہ فون کٹ گیا۔
’’اف کیا مصیبت ہے۔‘‘ مصعب جھنجھلا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’کیا ہوا…؟‘‘ دلکش ابھی ابھی لائونج میں داخل ہوئی تھی۔ اس نے حیرانی سے سوال کیا۔
’’کچھ نہیں۔‘‘ مصعب نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ فون پر سجیلہ سے معذرت کے خواہاں تھے مگر بات نہ ہونے کی وجہ سے کچھ بددل سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ تب ہی ایک بار پھر فون بجا اور دلکش نے آگے بڑھ کر فون اٹھا لیا تھا۔ دوسری طرف سجیلہ فون اٹھائے جانے پر قدرے الرٹ ہوگئی تھی۔ اس سے قبل وہ کچھ کہتی، اس کی سماعت سے ایک نسوانی آواز ٹکرائی۔ وہ حیران ہوئی۔ اس نے فوراً ہی فون بند کردیا۔
’’اب کیا ہوا…؟‘‘ کرن نے الجھے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
’’وہاں کسی لڑکی نے فون اٹھایا تھا۔‘‘ سجیلہ نے حیران اور قدرے پریشان لہجے میں بتایا۔ اس لڑکی کی آواز سجیلہ کو عجب الجھن اور مخمصے میں ڈال رہی تھی۔ لب و لہجے سے وہ ملازمہ نہیں لگ رہی تھی تو کیا مصعب نے کسی عورت کو اپنی زندگی میں شامل کرلیا ہے؟ سجو کو اپنا دل بیٹھتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔
’’کرن تم تو کہہ رہی تھیں تمہارے پاپا، فضلو بابا کے ساتھ گھر میں اکیلے رہتے ہیں۔‘‘ وہ اضطراری کیفیت میں کرن سے پوچھ بیٹھی۔ ’’پھر… پھر یہ لڑکی کون تھی؟‘‘
’’لڑکی…؟‘‘ کرن سوچ میں ڈوب گئی۔ پھر بے ساختہ چہک کر بولی۔ ’’وہ… پھوپی ہوں گی۔ پاپا کی بہن! اس دن مجھ سے ملنے وہی تو آئی تھیں۔ میں نے آپ کو بتایا تو تھا۔‘‘
’’او اچھا۔‘‘ سجو کا دل ڈوبتے ڈوبتے ٹھہر گیا۔ اور اس نے پیشانی پر پھوٹ کے آنے والے پسینے کو پونچھ کر ایک بار پھر فون کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔
اب کے فون کی گھنٹی پر فضلو بابا نے فون اٹھایا تھا۔ ’’آپ کون…؟‘‘
ان کے پوچھنے پر سجیلہ نے جھجکتے ہوئے کہا۔ ’’میں سجیلہ! مصعب صاحب سے بات ہوسکتی ہے؟‘‘
’’اوہو سجیلہ بٹیا۔‘‘ حسبِ عادت فضلو بابا نے خوشی کا اظہار کیا۔ سجیلہ کے نام پر مصعب نے بے اختیار چونک کر فضلو بابا کی طرف دیکھا۔ ان کے چہرے کے بدلتے تاثرات نے دلکش کو حیران کردیا تھا۔
’’مصعب میاں۔‘‘ فضلو بابا نے پلٹ کر ان کی طرف دیکھا۔ مصعب کے کرخت چہرے پر نرم سی پرچھائیاں پھیل گئی تھیں۔ دلکش حیرت سے یہ سب دیکھ رہی تھی۔ وہ سجیلہ سے نہیں مل سکی تھی پر اس وقت وہ اسی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ کون ہے یہ لڑکی سجیلہ؟ کرن جس کی محبت کا دم بھرتی ہے۔ جس نے ایک ہی ملاقات میں مصعب کے پتھر دل میں جونک لگا دی تھی۔ کیا مصعب، کوکب کے علاوہ بھی کسی اور لڑکی کے بارے میں سوچ سکتے ہیں؟ دلکش نے بے یقین نگاہوں سے مصعب کی طرف دیکھا۔ وہ ریسیور تھام کر کان سے لگا چکے تھے۔ سجیلہ کی نرم، دلکش اور کسی قدر سہمی ہوئی آواز ان کی سماعت سے ٹکرائی۔ ’’دراصل… میں آپ سے… معذرت کرنا…!‘‘ سجو کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیا بات کرے۔ ان کی سحر خیز آواز سن کر ہی دل شدت سے دھڑکنے لگا تھا۔
’’معذرت تو مجھے کرنی چاہیے۔‘‘ مصعب کا لہجہ صاف اور سادہ تھا۔ ’’اس وقت آپ کی باتیں اچھی نہیں لگ رہی تھیں مگر بعد میں سوچا تو…‘‘
’’آپ نے سوچا تو… کیا… کیا سوچا آپ نے…؟‘‘ سجیلہ نے بے تاب لہجے میں سوال کیا۔
مصعب نے کن انکھیوں سے فضلو بابا اور دلکش کی طرف دیکھا۔ دونوں ہی گہری نظروں سے انہیں دیکھ رہے تھے۔ وہ چوری پکڑے جانے کی وجہ سے نروس ہوگئے۔
’’وہ… آپ سے جب ملاقات ہوگی تو… بتائوں گا۔‘‘ انہوں نے جلدی سے جواب دیا۔
’’کک… کب…؟‘‘ سجیلہ کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ خود سے ملاقات کی بات کریں گے۔ یہ اس نے کب سوچا۔ ’’کہاں ملاقات ہوگی؟ آپ یہاں آجایئے نا کسی دن…؟‘‘ سجیلہ نے تجویز پیش کی۔ ’’کرن سے بھی ملاقات ہوجائے گی۔‘‘
’’نن… نہیں۔‘‘ وہ گھبرا کر بولے۔ ’’میرے لیے وہاں آنا شاید ممکن نہ ہو۔‘‘
’’تو… میں آجائوں؟ آپ کے گھر…‘‘ سجیلہ کے لہجے میں بیک وقت کئی جذبے ہلکورے لے رہے تھے۔ حسرت، حیرت، آرزو، بے یقینی، جستجو اور تڑپ۔
’’جی ضرور۔‘‘ مصعب نے دھیمے لہجے میں کہا۔ ’’آپ جب آنا چاہیں، موسٹ ویلکم…‘‘
فون بند کرکے مصعب نگاہیں چراتے اپنے کمرے میں چلے گئے تھے۔ دلکش اور فضلو بابا نے معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ’’آپ سجیلہ سے تو ملے ہیں؟‘‘ دلکش نے دھیمی آواز میں پوچھا۔ ’’کیسی ہے… کون ہے یہ سجیلہ؟‘‘
جانے کیوں اس نام پر اس کے دل میں ایک کسک سی جاگ اٹھتی تھی۔
اس سے ملنے، اسے دیکھنے کے لیے اس کا دل بے تاب ہوگیا تھا۔ مصعب کے انداز سے بہت کچھ اندازہ ہورہا تھا مگر اللہ جانے سجیلہ بھی اسی انداز میں سوچ رہی ہے یا نہیں۔ ممکن ہے کہ وہ ادارے کی ملازم ہونے کے ناتے کرن کی وجہ سے ایک ذمہ داری نبھا رہی ہو۔ یہ تبسم، یہ تکلم اس کی عادت ہی نہ ہو… دلکش نے سوچا۔ بقول فضلو بابا دس سالوں کی تاریک رات کے بعد مصعب کے رویّوں میں روشنی جھلملاتی دکھائی دے رہی تھی۔ برسوں بعد شاید پہلی بار کسی عورت کی آواز سن کر ان کے چہرے پر ایک خوشگوار تاثر ابھرا تھا۔ ’’اللہ کرے یہ خوشگوار احساس ہمیشہ قائم رہے۔‘‘ دلکش نے دل ہی دل میں دعا کی۔
٭…٭…٭
انور ضیا یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ شادی زندگی کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مگر وہ تعلیم کی اہمیت اور افادیت سے بھی واقف تھے۔ اسی لیے فاریہ کے اسکالر شپ کی خبر نے انہیں مسرور کردیا تھا۔ فاریہ کے شوق اور علم کی پیاس کے جذبے کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ فاریہ اور اظفر کے شادی کے معاملے کو مؤخر کردیا جائے اور فاریہ کو اس موقع سے فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کیا جائے۔
انہوں نے براہِ راست اپنے بیٹے صفدر اور بہو صفیہ سے بات کرنے کی بجائے اپنے پوتے اظفر سے بات کی۔ کیونکہ وہ جانتے تھے نئی نسل زیادہ ذہین، زیادہ معاملہ فہم اور زیادہ قابلِ بھروسہ ہے۔ سو ان کی توقع کے عین مطابق اظفر نے خوشی سے ان کے فیصلے کو قبول کرلیا بلکہ ماں کو راضی کرنے کا بیڑا بھی اٹھا لیا تھا۔ فاریہ کے لیے اس خوشی سے بڑھ کر کوئی اور خوشی نہیں ہوسکتی تھی اور وہ فاریہ کو زندگی کی ہر خوشی دینے کا تہیہ کیے بیٹھے تھے۔
اشعر چھوٹا تھا۔ میٹرک کا طالب علم اس کے باوجود اظفر کے فیصلے سے اسے اختلاف تھا۔ ’’آپ کا کیا خیال ہے پی ایچ ڈی کے بعد وہ واپس آئیں گی؟‘‘ اشعر کے جارحانہ انداز میں کیے گئے سوال کا اظفر کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ ’’اور فرض کرلیں وہ واپس بھی آجاتی ہیں تو کیا یہ ضروری ہے کہ ڈاکٹر فاریہ اپنے معمولی سے پرچون فروش کزن سے شادی کے لیے آمادہ ہوجائیں گی؟‘‘
اظفر کے دل کو ایک دھکا سا لگا۔ یہ بات انہوں نے سوچی بھی نہیں تھی۔ وہ سچائی اور محبت پر ایمان رکھتے تھے اور ان کو یقین تھا محبت زبردستی کا کھیل نہیں۔ محبت ہوتی ہے یا نہیں ہوتی… درمیانی راستہ نہیں ہوتا۔ محبت ایک مکمل خود سپردگی کا نام ہے۔ ان کے چہرے پر پھیلتی اداسی کو دیکھ کر اشعر نے دھیمے لہجے میں کہا۔ ’’میں آپ کو خوش دیکھنا چاہتا ہوں بھائی… اور جانتا ہوں آپ کی خوشی فاریہ آپی کے ساتھ ہی ہے۔‘‘
صفیہ بیگم نے سنا تو بہت خفا ہوئیں۔ وہ فوراً شادی کرنا چاہتی تھیں یا رشتہ ختم کرنے کے درپے تھیں۔ ’’تم
ہو تمہارا بیٹا فاریہ سے کس قدر محبت کرتا ہے۔‘‘ صفدر میاں نے رسان بھرے لہجے میں سمجھایا۔ ’’اگر تم فاریہ سے رشتہ توڑ دو گی تو وہ عمر بھر کسی اور سے رشتہ نہ جوڑ سکے گا۔‘‘
’’اور جو کل خود فاریہ نے رشتہ توڑ دیا تو…؟‘‘ صفیہ بیگم تنک کر بولیں۔
’’ایسا کبھی نہیں ہوگا… تم اللہ پر بھروسہ اور فاریہ پر یقین رکھو…‘‘ صفیہ بیگم خاموش ہوگئی تھیں۔ اظفر کے بے حد سمجھانے پر آخر صفیہ بیگم کو ماننا ہی پڑا تھا۔ فوزیہ بیگم خود بھی فاریہ کے پردیس جانے کے حق میں نہیں تھیں۔ مگر جب صفیہ مان گئیں تو انہیں بھی سرِ تسلیم خم کرنا پڑا تھا۔ فاریہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا۔ تیاریاں شروع ہوگئی تھیں۔ اسے پتا چلا تھا کہ شام کو فریحہ اور آذر بھی آنے والے ہیں۔
٭…٭…٭
کنزہ کی غیر موجودگی میں سرفراز اس کی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔ آذر کو آفس میں داخل ہوتے دیکھ کر وہ مسکراتے ہوئے قریب چلے آئے۔ غفار ان کا بیگ اٹھائے کمرے میں داخل ہوا۔ ’’بیگم صاحبہ نے حکم دیا ہے کہ آج شام کو آپ کا کوئی پروگرام نہ رکھا جائے۔‘‘ وہ دھیمی آواز میں بتا رہے تھے۔ ’’کیونکہ شام کو آپ کو دلہن بیگم کو لے کے ان کے میکے جانا ہے۔‘‘
’’او… ہاں۔‘‘ آذر بے ساختہ بولے۔ غفار نے چونک کر ان کی طرف دیکھا۔ پھر خاموشی سے باہر چلا گیا۔
اس نے کنزہ کو خبر پہنچائی۔ ’’صاب آج دلہن بیگم کو لے کے ان کے میکے جا رہے ہیں۔‘‘
کنزہ کا دل دھک سے رہ گیا۔ ’’اوہ تو بیگم تیمور آج کل دلہن بیگم کو آذر کے قریب لانے کی کوشش کررہی ہیں۔‘‘ اس نے سلگتے دل سے سوچا تھا۔
ادھر سہ پہر سے ہی انوشہ، فریحہ کو سجانے سنوارنے میں لگ گئی تھی۔ ہلکے کام کے رسٹ کلر کے شیفون سوٹ اور سنگ ستارہ کے نازک سے زیور میں وہ بے حد خوبصورت لگ رہی تھی۔ شام سے ہی اس کی حسین آنکھوں میں انتظار کے دیے جل اٹھے تھے۔
ادھر آذر ابھی آفس سے اٹھنے کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ کنزہ کا فون آگیا۔ آنسوئوں میں بھیگی اور سسکیوں میں ڈوبی اس کی آواز نے آذر کو ایک دم بوکھلا کر رکھ دیا۔ ’’کیا ہوا کنزہ… کچھ بولو تو… تم ٹھیک تو ہو…؟‘‘
’’آذر…! بس تم فوراً چلے آئو… میں… میں مر رہی ہوں۔‘‘ کنزہ نے بلکتی آواز میں کہا اور فون بند کردیا۔
آذر سراسیمہ سے اپنی سیٹ سے اٹھے اور بوکھلائے ہوئے جانے کے لیے تیار ہوگئے۔ کنزہ کی روتی، بلکتی آواز نے انہیں ہر بات بھلا دی تھی۔ نہ انہیں جلدی گھر جانا یاد تھا، نہ فریحہ کو اس کی ماں کے گھر لے جانا۔ وہ افراتفری میں اٹھے اور غفار کو اشارہ کیا۔ وہ بیگ اور فائلیں لے کے پیچھے آجائے۔
کنزہ کے گھر پہنچے تو اسے بے حد ٹوٹا ہوا شکستہ سا پایا۔ کتنی ہی دیر وہ اس کی دل جوئی کرتے رہے۔ پھر بے حد پیار سے بولے۔ ’’تم تیار ہوجائو تو ہم کہیں باہر چل کر ڈنر کرتے ہیں۔‘‘
کنزہ کے افسردہ چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ آذر فریش ہونے کو گئے تو غفار کا فون آگیا۔ ’’بولو غفار…!‘‘ غفار، آذر کے موبائل سے کنزہ کی آواز سن کر حیران ہوا۔ ’’میم صاب! آپ…؟ وہ صاب کی مدر کا میرا مطلب ہے بیگم صاب کا فون آیا تھا۔ گھر میں ان کا انتظار ہورہا ہے۔‘‘
’’ان سے کہہ دو صاب، کنزہ میم کے ساتھ ڈنر پر جارہے ہیں۔‘‘ کنزہ کا رعونت بھرا جواب سن کر غفار نے فون بند کردیا اور جب سلطان کا فون آیا تو اس نے اسے یہ بات بتا دی۔ سلطان نے فوری طور پر بیگم تیمور کو فون کیا تھا۔ ’’آذر صاحب اس وقت کنزہ کے اپارٹمنٹ میں موجود ہیں اور وہ اسے ڈنر پر لے جا رہے ہیں۔‘‘
’’اوہ تو کنزہ، آذر کے ساتھ جارہی ہے؟‘‘ بیگم تیمور کی آواز میں نفرت اور جلن کا احساس ہلکورے لے رہا تھا۔ فون بند کرکے وہ جونہی پلٹیں تو فریحہ کو ہاتھ میں کافی کا مگ لیے کھڑے پایا۔
’’مام! یہ کنزہ کون ہے؟‘‘ فریحہ نے دھیمے لہجے میں سوال کیا۔
’’ہوں… کنزہ…؟‘‘ بیگم تیمور نے نفرت بھرے لہجے میں کہا۔ ’’آئو میں تمہیں بتاتی ہوں کہ یہ کون ہے۔‘‘
کئی لمحوں تک گہری سوچ میں ڈوبے رہنے کے بعد انہوں نے بات کا آغاز کیا۔ ’’میں خود سوچ رہی تھی کہ تمہیں کنزہ کے بارے میں بتائوں… اپنے مسائل جب اپنوں سے شیئر کرلیے جاتے ہیں تو دل پر رکھے بوجھ میں قدرے کمی آجاتی ہے…دیکھو فریحہ یہ ساری دولت آذر کی ہے اور جب ایک جوان اور خوبرو، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اتنی بے تحاشا دولت کا مالک ہو تو بہت سی دولت کی پجارن لڑکیاں ان کے پیچھے پڑ جاتی ہیں۔ کنزہ بھی ایسی ہی لڑکیوں میں سے ایک ہے…!‘‘ پھر انہوں نے شروع سے آخر تک ساری کہانی فریحہ کے گوش گزار کردی۔
بہت سی باتیں جو وہ اب تک نہیں سمجھ سکی تھی، اب اس کی سمجھ میں آرہی تھیں۔ شادی کی رات سے اب تک آذر اس سے گریزاں تھے تو اس کی وجہ کنزہ تھی۔ کنزہ نے ان کے دل کے شہر پر شب خون مار کر اس کی طرف آنے والے تمام راستے بند کردیے تھے۔ تب ہی وہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ان تک نہیں پہنچ سکی تھی۔ انہوں نے آج تک اسے کبھی پیار سے دیکھا تھا نہ چاہت سے چھوا تھا۔ کم ازکم فریحہ اتنا ضرور جانتی تھی کہ ایک شوہر جس کے دل میں کوئی اور عورت بسی ہو وہ اپنی بیوی کے لیے ایک بے برگ و ثمر شجر کی طرح ہوتا ہے جو اپنی بیوی کو خوشی کی ٹھنڈی ہوا دے سکتا ہے نہ محبت اور تحفظ کی ٹھنڈی چھائوں…!
مگر آذر تو ایسے نہ تھے۔ اتنے عرصے میں وہ آذر کو جتنا سمجھ سکی تھی، وہ اسے ایک سچے، کھرے اور دیانتدار انسان لگے تھے۔ بیگم تیمور کی باتوں سے اس نے جو نتیجہ اخذ کیا تھا کہ اگر شادی سے پہلے انہیں کنزہ کی محبت کا علم ہوجاتا تو وہ فریحہ کو ہرگز بیاہ کر نہ لاتے۔ اور اگر کنزہ ان کی زندگی میں نہ ہوتی تو وہ دنیا کے سب سے اچھے شوہر ثابت ہوتے مگر بدنصیبی سے کنزہ نے اپنا دائو کامیابی سے کھیلا تھا۔ اور اب وہ اس کی محبت میں گرفتار ہوچکے تھے۔
اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑتے دیکھ کر بیگم تیمور کتنی ہی دیر تک اسے سمجھاتی رہیں۔ ’’دیکھو تم آذر کی بیوی ہو۔ اسے مسائل اور مشکلات سے نکالنا تمہارا فرض ہے۔ تم چاہو گی تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
’’اور اگر ٹھیک نہ ہوا تو…؟‘‘ فریحہ کو اپنے دل میں وحشتیں اترتی محسوس ہوئیں۔ اگر کنزہ جیت گئی تو اس کا انجام کیا ہوگا… اس کی ناکام و نامراد واپسی تو اس کی ماں اور دادا کے لیے تو موت بن جائے گی۔ اس کی ناکام شادی اس کی بہنوں کے مستقبل کے لیے بھی مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔ امی پہلے ہی اس کی شادی کی وجہ سے کس قدر پریشان تھیں۔ رات، دن کی دعائوں کے بعد اس کے نصیب کے بند دروازے کھلے تھے۔ اسے کیا پتا تھا کہ رہزن پہلے سے ہی گھات لگائے بیٹھے ہیں۔
بیگم تیمور نے اسے آرام کرنے کے لیے کمرے میں بھیج دیا تھا۔ وہ خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی آئی ۔ کیا کرے، کیا نہ کرے؟ کچھ نہیںسوجھ رہا تھا۔ نہ آگے بڑھنے کی راہ تھی، نہ پیچھے لوٹ جانے کا یارا…! یہی گھر اب اس کا آخری ٹھکانہ تھا۔ اب اسے یہیں جینا اور مرنا تھا۔ اسے حالات سے سمجھوتہ کرنا تھا اور سمجھوتوں کے سہارے زندگی بتانی تھی۔ اس نے تکیے پر سر رکھ کر آنکھیں بند کرلیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی آنکھوں کے گوشے بھیگتے چلے گئے۔ (جاری ہے)