فریحہ نے آنکھوں کے بھیگے گوشوں کو ہاتھ کی پشت سے بے دردی سے مسلسل دیا۔ اس کے لیے اب سب کچھ آذر ہی تھے۔ اب وہ ان کے بغیر زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ جو بھی حالات ہوں، وہ ان کے قدموں میں ہی رہنا چاہتی تھی۔
کنزہ اب ایک دن بھی آفس سے غیر حاضر نہیں رہنا چاہتی تھی۔ وہ ہر لمحہ آذر کے سامنے رہنا چاہتی تھی۔ اسی لیے اس نے اگلے دن سے آفس جوائن کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ ڈنر کے بعد انہوں نے اس کے اپارٹمنٹ پر ڈراپ کیا تو اس نے یاد دلایا۔ ’’کل صبح آفس میں ملاقات ہوگی۔‘‘
’’اوکے!‘‘ آذر مسکرا کر بولے۔
گھر پہنچ کر آذر جونہی لائونج میں داخل ہوئے تو صاعقہ تیمور کو سامنے صوفے پر بیٹھے دیکھ کر اچانک ان کا حکم یاد آگیا۔ انہوں نے آج جلد گھر آکر فریحہ کو اس کی امی کے گھر لے جانے کی ہدایت کی تھی مگر پہلے آفس کی مصروفیات پھر کنزہ کی سنگت میں وہ ماں کے حکم کو بالکل فراموش کر بیٹھے تھے۔ انہیں یکایک شرمندگی نے گھیر لیا۔ انہیں بے ساختہ فریحہ پر غصہ آگیا۔ آخر یہ لڑکی کیوں ان کی زندگی میں در آئی تھی۔ اس کی وجہ سے وہ آج ماں کا دل دکھانے اور ان کے سامنے شرمندہ ہونے پر مجبور ہوگئے تھے۔
ان کی شرمساری دیکھ کر بیگم تیمور نے دھیمے لہجے میں کہا۔ ’’میں جانتی ہوں چاند کہ میں اور میری بات تمہارے لیے دنیا میں سب سے زیادہ اہم ہیں۔‘‘
’’یقینا مام!‘‘ آذر نے سچے لہجے میں کہا۔ ’’اس بار معاف کردیجیے۔ آئندہ کبھی ایسا نہیں ہوگا۔‘‘
ان کے لہجے کا پچھتاوا بیگم تیمور کے لبوں پر مامتا بھرا احساس بن کر بکھر گیا۔ ’’اب جلدی سے اپنے کمرے میں جائو، فریحہ شام سے تمہارا انتظار کررہی ہے۔ سخت کوفت میں مبتلا رہی ہے۔ ناراض ہوگی، جاکر جلدی سے اسے منا لو۔‘‘
’’جی بہتر۔‘‘ آذر نے سعادت مندی سے جواب دیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ دروازے پر ہلکی دستک پر فریحہ ایک دم اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ آذر نے کمرے میں داخل ہوکر لحظہ بھر کو نظر بھر کر اس کی طرف دیکھا۔ رسٹ کلر کے خوبصورت سوٹ اور میچنگ جیولری میں وہ آج ہمیشہ سے زیادہ دلکش لگ رہی تھی۔ آذر یک ٹک بے خود سے اسے تکے گئے۔
’’آپ آگئے؟‘‘ اس کی بجھی ہوئی آواز میں غیر محسوس سی خوشی کی کھنک بھی شامل تھی۔
ابھی کچھ دیر پہلے آذر کو اس کے نام سے کوفت محسوس ہورہی تھی مگر اس وقت اس کا معصومانہ دلکش روپ دیکھ کر وہ کوفت اور کلفت جانے کہاں کھو گئی تھی۔ وہ انہیں کتنی معصوم اور کتنی اپنی سی لگ رہی تھی۔
’’آپ فریش ہولیجیے۔ تب تک میں آپ کے لیے کھانا لگاتی ہوں۔‘‘ وہ نگاہیں جھکا کر بولی۔
’’تم نے کھانا کھا لیا؟‘‘ آج پہلی بار انہوں نے اس سے پوچھا تھا۔
’’نہیں میں آپ کا انتظار کررہی تھی۔‘‘ فریحہ نے دھیمی آواز میں جواب دیا۔
آذر نے حیران نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ مام نے کہا تھا وہ کوفت کا شکار ہورہی ہے، ناراض ہوگی۔ ان کے کہنے پر وہ اسے منانے کے لیے تیار ہوکر آئے تھے مگر یہاں تو معاملہ بالکل برعکس تھا۔
انہیں ایک دم ندامت کا احساس ہوا۔ وہ ایک بے حد فرمانبردار بیٹے، بے حد چاہنے والے بھائی تھے۔ ان کے نزدیک رشتوں کی بے حد اہمیت تھی۔ کچھ بھی تھا، فریحہ سے ان کا ایک خاص رشتہ تھا۔ وہ اسے اپنی بیوی بنا کر لائے تھے۔ اس ناتے اس کے بھی کچھ حقوق تھے اور اس معاملے میں وہ بہت برے ثابت ہوئے تھے۔ آج تک انہوں نے اس کا کوئی حق ادا نہیں کیا تھا۔ اس کے باوجود وہ لبوں پر حرفِ شکایت لائے بغیر ان کی خدمت میں لگی رہتی تھی۔ ہر پل انہیں آرام اور راحت پہنچانے کی تگ و دو میں مصروف دکھائی دیتی تھی۔
آذر بیڈ پر بیٹھ چکے تھے۔ ان کے چہرے پر گہری سوچ کی پرچھائیں تھی۔ ان کے کھانے کا منع کرنے پر وہ ان کے لیے دودھ لے آئی۔ دروازہ بند کرتے سمے اس نے پلٹ کر ان کی طرف دیکھا۔
صبح کنزہ کے ساتھ ان کے افیئر کا سن کر وہ دہل گئی تھی۔ تو کیا وہ کنزہ کی خاطر اسے چھوڑ دیں گے؟ یہ خیال تیر کی طرح اس کے دل میں پیوست ہوگیا تھا۔ اگر ایسا ہوا تو وہ کیا کرے گی؟ کہاں جائے گی؟ امی تو یہ خبر سنتے ہی مر جائیں گی اور دادا ابا…!
وہ متوحش نظروں سے ان کی جانب دیکھے گئی۔ اس کی نظروں کی تپش کو اپنے چہرے پر محسوس کرکے انہوں نے اس کی جانب دیکھا اور اس کا ہراساں چہرہ اور وحشت زدہ آنکھیں دیکھ کر وہ حیران رہ گئے۔
’’کیا ہوا…؟‘‘
ان کے سوال پر وہ بے ساختہ ان کے قدموں میں جھک کر بولی۔ ’’آپ جو چاہے کریں۔ جس کے ساتھ چاہیں رہیں… مگر پلیز مجھے کبھی اپنے قدموں سے جدا مت کیجیے گا… میں مرتے دم تک آپ کے قدموں میں رہنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’فریحہ…!‘‘ آذر اس کی بات سن کر حیران ہوئے تھے۔ اپنے قدموں میں جھکا، اس کا لرزتا وجود بے اختیار تھام کر اوپر اٹھایا۔
اس کے معصوم چہرے پر نارسائی اور ٹھکرائے جانے کا کرب تھا اور جھیل سی آنکھوں میں بے بسی اور مایوسی ہلکورے لے رہی تھی۔ اس دم وہ انہیں اتنی پیاری، اتنی اپنی لگی کہ بے ساختہ انہوں نے اسے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔
لمحے تھم گئے۔ ساکت ساعتیں دو دلوں کی دھڑکنوں کی آہٹیں سن رہی تھیں۔ اس کا نارسا وجود رسائی کی منزلیں طے کررہا تھا۔ اس کی روح انجانے جہانوں کی سیر کررہی تھی اور پورپور ایک نئے احساس اور انوکھی کیفیت میں ڈوبتا جارہا تھا۔
وہ صبح عام دنوں سے بہت مختلف تھی۔ وہ انجانی رات ان دو اجنبیوں کو ایک دوسرے کا شناسا کر گئی تھی۔ فریحہ کے تو پائوں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ خود آذر بھی ایک عجب سی سرشاری اور سرخوشی محسوس کررہے تھے۔ دل پر کوئی بوجھ تھا، نہ ضمیر کے سامنے کوئی شرمندگی تھی… بلکہ ایک عجب سی آسودگی تھی۔ دل پر جو مہینوں سے بوجھ تھا وہ انہوں نے آج اتار دیا تھا… اور تمام تر سچائیوں کے ساتھ اس رشتے کو انہوں نے قبول کرلیا تھا۔
آج انہوں نے آفس جانے کا ارادہ ترک کردیا۔ وہ آج فریحہ کو لے کے شاپنگ کے لیے جا رہے تھے کیونکہ آج وہ اس کی امی کے گھر جانے والے تھے۔ اس کی چھوٹی بہن فاریہ اعلیٰ تعلیم کے لیے ملک سے باہر جارہی تھی۔ وہ اس کے لیے ڈھیر سارے تحفے خریدنا چاہ رہے تھے۔
شام ڈھلے جب وہ تحفوں، کیک، پھل اور مٹھائی سے لدے فوزیہ بیگم کے گھر پہنچے تو پورے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ فوزیہ بیگم کے تو ہاتھ، پائوں پھول گئے۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا داماد کو کہاں بٹھائیں۔ کیا خاطر مدارات کریں۔ صفیہ بیگم نے بھی کھلے دل اور محبت بھرے انداز میں فریحہ اور آذر کا سواگت کیا تھا۔ اظفر اور اشعر بھی آئوبھگت میں لگے تھے اور انور ضیا کی تو خوشی دیدنی تھی۔
فروا تحفے دیکھ کر خوشی سے کھلی پڑ رہی تھی۔ وہ مسلسل فریحہ سے باتیں کیے جارہی تھی۔ ’’جانتی ہیں فریحہ آپا… ڈاکٹر انکل کے بیٹے شہروز بھائی کی شادی ہونے والی ہے۔ آپ کا بھی کارڈ آیا ہے۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ فریحہ حسب عادت مسرور لہجے میں بولی۔ ’’یہ تو بہت خوشی کی بات ہے۔ کہاں ہورہی ہے اس کی شادی۔‘‘
’’لو بتائو… پہلے سنا تھا کہ کسی لڑکی کے عشق میں گرفتار تھے۔‘‘ فروا نے سرگوشی میں بتایا۔ ’’اس لڑکی کی کہیں شادی ہوگئی تو جان دینے کو تیار تھے۔ سخت بیمار رہے… مگر اب ذرا دیکھو کس قدر خوش دکھائی دیتے ہیں۔ رات، دن تارہ حسن کے ساتھ گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔‘‘
’’اچھا! تارہ سے شادی ہورہی ہے۔‘‘ فریحہ مسکرائی۔ ’’یہ بہت اچھی بات ہے۔ تارہ بہت اچھی لڑکی ہے۔‘‘
رات کا کھانا کھا کے رات گئے فریحہ اور آذر گھر سے روانہ ہوئے۔ بیٹی اور داماد کو خوش اور شیر و شکر دیکھ کر فوزیہ بیگم سجدئہ شکر بجا لائی تھیں۔
مگر ادھر کنزہ کی بے کلی دیدنی تھی۔ آج کتنے عرصے بعد وہ آفس آئی تھی اور آج ہی آذر نے چھٹی کرلی تھی اور سارے دن ان کا فون آف رہا تھا۔ ایک عجیب سی تشویش نے کنزہ کے دل و دماغ کو گھیر لیا تھا۔ وہ لاکھ خود کو سمجھاتی مگر دل تھا کہ اندیشوں اور وسوسوں میں ڈوبا جارہا تھا۔ تب ہی ڈور بیل کی آواز پر وہ چونک کر دروازے کی طرف متوجہ ہوگئی۔ دروازے پر حارب کو دیکھ کر اسے حیرت بھری مسرت ہوئی۔ ’’تم اس وقت… یہاں…؟‘‘
’’تمہیں شاید کسی اور کا انتظار ہوگا۔‘‘ حارب کے لہجے میں عجب سا کرب تھا۔ ’’مجھے دیکھ کر مایوسی تو نہیں ہوئی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ وہ مسکرائی۔ ’’اندر آجائو۔‘‘ حارب اس کے پیچھے اندر چلا آیا۔
’’یہاں سے گزر رہا تھا۔ تمہارا خیال آیا۔ سوچا ملتا چلوں… خیر سے اب تو ہماری دوستی بھی ہوچکی ہے۔‘‘ وہ مسکرایا۔
’’خیر دشمنی تو کبھی نہیں تھی۔‘‘ کنزہ نے دھیمے لہجے میں کہا۔ ’’چائے پیو گے؟‘‘
’’تمہاری میٹ تو نظر نہیں آرہی… چائے کیا تم بنائو گی؟‘‘ حارث نے قدرے حیرانی سے پوچھا اور اس کے اثبات پر سر ہلانے پر حسرت بھرے لہجے میں بولا۔ ’’زہے نصیب! تمہارے ہاتھ کی چائے پیے مدتیں بیت گئیں… ایک وہ وقت بھی تھا…!‘‘ حارب خاموش ہوکر ماضی کی یادوں میں ڈوب گیا۔ خود کنزہ کو بھی جانے کیا کیا یاد آرہا تھا۔
حارب کی ماں نے اسے بہو بنانا منظور نہیں کیا تھا کیونکہ وہ ایک غریب لڑکی تھی۔ حارب ماں کے حکم سے سرتابی نہ کرسکا اور ان دونوں کے راستے الگ ہوگئے تھے۔ پھر دونوں ہی دولت کی طمع اور تلاش میں نکل کھڑے ہوئے تھے۔ کنزہ، آذر کے پیچھے چل دی تھی اور اتفاق تھا کہ حارب، آذر کی بہن انوشہ کو اپنے عشق کے جال میں پھنسانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
’’تمہاری بات کہاں تک پہنچی؟‘‘ کنزہ نے اچانک سوال کیا۔ ’’بیگم تیمور سے ملاقات ہوئی؟‘‘
’’ابھی نہیں!‘‘ حارب نے آہ بھری۔ ’’میری بات بھی وہیں اٹکی ہوئی ہے جہاں تمہاری۔ آج میں نے آذر کو اپنی بیوی فریحہ کے ساتھ شاپنگ کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ ایک اعلیٰ درجے کے ریسٹورنٹ میں ان دونوں نے ایک ساتھ لنچ کیا تھا۔ بیگم تیمور سے پتا چلا کہ رات کو وہ بیوی کو لے کے اس کی ماں کے گھر گیا۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ کنزہ کو حیرت ہوئی لیکن یہ باتیں سن کر اسے کوئی خاص صدمہ نہیں ہوا بلکہ اس بات کی خوشی تھی کہ حارب اور انوشہ کی بات آگے نہیں بڑھ پا رہی۔
انوشہ نے فریحہ کو رازدار بنا لیا تھا۔ فریحہ کے کہنے پر آذر نے ماں سے بات کی تھی اور ایک شام وہ حارب سے ملنے کے لیے تیار ہوگئی تھیں۔ مگر یہ ملاقات ان کے لیے کسی دھماکے سے کم نہیں تھی۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان
کے ٹکڑوں پر پلا، ان کے اشاروں پر ہر چھوٹا بڑا جرم کرنے والا سلطان، حارب کے روپ میں ان سے ان کی چہیتی اور اکلوتی بیٹی کا ہاتھ مانگنے ان کے سامنے آکھڑا ہوگا۔
’’تمہیں یہ جرأت کیسے ہوئی…؟‘‘ انہوں نے چراغ پا لہجے میں کہا۔ ’’کیا تم مجھے جانتے نہیں ہو؟‘‘
’’جانتا ہوں۔‘‘ حارب سلطان پُر اعتماد انداز میں مسکرایا۔ ’’تب ہی تو یہ جرأت کرسکا۔ میں آپ کے ماضی کے ایک ایک راز سے واقف ہوں۔ ذرا سوچیے… ان رازوں سے اگر پردہ اٹھ گیا۔ تو آپ کی پرستش کرنے والے بیٹے اور بے حد چاہنے والی بیٹی کے دل پر کیا گزرے گی۔‘‘
’’اوہ… تو اب تم مجھے بلیک میل کرو گے؟‘‘ بیگم تیمور نے تیوریوں پر بل ڈال کر حارب کی طرف دیکھا۔
’’کبھی ایسا سوچیے گا بھی نہیں۔‘‘ حارب نے جلدی سے کہا۔ ’’میں بس اتنا چاہتا ہوں آپ مجھے اپنی غلامی میں لے لیں۔ میں آپ کی اس وسیع و عریض کوٹھی کے کسی کونے میں پڑا رہ کر آپ کی خدمت کرتا رہوں گا۔ اسی رازداری اور وفاداری کے ساتھ…‘‘
مگر بیگم تیمور کو یہ سودا منظور نہ تھا۔ گو کہ حارب ایک خوش شکل، تعلیم یافتہ اور ذہین نوجوان تھا اور انوشہ کی پسند بھی تھا، اس کے باوجود اپنے ٹکڑوں پر پلنے والے اس جرائم پیشہ شخص کو وہ اپنا داماد بنانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔
انہوں نے حارب کو ذلیل کرکے اپنے گھر سے نکال دیا مگر اس کی غصیلی آنکھوں کی خاموش دھمکی نے انہیں مضطرب و خائف کردیا تھا۔ ماضی کی تلخ یادوں نے انہیں گھیر لیا تھا۔ انہوں نے جس طرح سیٹھ تیمور کی پہلی بیوی سے نجات حاصل کرکے تیمور سے شادی کی تھی اور آذر کو یہ باور کروایا تھا کہ وہی اس کی ماں ہیں۔ آذر تو شاید یہ بات بھول چکے تھے کہ انہیں جنم دینے والی ماں، کوئی اور ہے… بیگم تیمور نہیں۔
٭…٭…٭
فریحہ کی بہن فاریہ پی ایچ ڈی کے لیے لندن روانہ ہوچکی تھی۔ اس ٹھٹھرا دینے والی سرد شاموں والے شہر میں جاکر فاریہ کو پہلی بار اس محبت کی حدت کا احساس ہوا تھا جو اظفر کے خاموش رویّے میں تھی۔ اگر اظفر نہ چاہتے، وہ ساتھ نہ دیتے تو وہ کبھی پردیس میں تعلیم حاصل کرنے کا اپنا شوق پورا نہ کرسکتی تھی۔ ان بیکراں فاصلوں نے اس دلپذیر قربت کو اجاگر کیا تھا جو اظفر کے لیے اس کے دل میں تھی۔
پہلی بار اس کا دل ایک نئے انداز سے دھڑکا تھا۔ اس کا دل چاہا وہ اظفر کو فون کرکے ان سے بات کرے۔ مگر شرم و حیا مانع آگئی اور وہ انہیں فون نہیں کرسکی تھی۔ تب ہی فون کی گھنٹی بج اٹھی۔
’’دادا ابا۔‘‘ وہ خوشی سے چیختی ہوئے بولی۔ ’’آپ کی بہت بڑی عمر ہے۔ ابھی میں آپ لوگوں کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ انور ضیا مشفق انداز میں مسکرائے۔ ’’اور سنائو سب کیسا چل رہا ہے؟‘‘
’’سب ٹھیک ہے دادا ابا۔‘‘ فاریہ نے دھیمی آواز میں جواب دیا۔ ’’مگر آپ سب بہت یاد آتے ہیں۔‘‘
’’اچھا لو اپنی امی سے بات کرو۔‘‘ انور ضیا نے یہ کہہ کر فون فوزیہ بیگم کو تھما دیا۔ فروا، پھر صفیہ چچی، اشعر اور آخر میں اظفر کا نمبر آیا تھا اور آج پہلی بار اظفر نے فاریہ کی آواز میں ایک نئی سی بات محسوس کی تھی۔ فرقت کا سلگتا سا احساس، فاصلوں کا روح فرسا سا درد…! ان کا دل امید، خوشی اور یقین کے احساس سے بے ساختہ دھڑک اٹھا تھا۔ اب انہیں شدت سے فرقت کے ختم ہونے، فاصلوں کے سمٹنے اور پھر سے مل جانے کے لمحے کا انتظار تھا۔
٭…٭…٭
دلکش کو جب سے فضلو بابا کے ذریعے پتا چلا تھا کہ عدیل شہر میں ہی کہیں مقیم ہیں۔ اس کے دل میں ان سے مل کر اصل حقائق ان تک پہنچانے کی عجب سی بے کلی جاگ اٹھی تھی۔ مصعب کا مشورہ تھا کہ اسے اپنی دوست سونم سے مل کر عدیل کا فون نمبر حاصل کرنا چاہیے۔ فضلو بابا کا بھی یہی خیال تھا کہ اب وقت آگیا تھا کہ دلکش، سونم سے مل کر تمام کہانی اسے کہہ سنائے اور اس سے مدد کی درخواست کرے اور عدیل کا فون نمبر لینے کے بعد اس تک رسائی زیادہ آسان ہوجائے گی۔
سو اگلے ہی دن فضلو بابا اسے ساتھ لے کے سونم سے ملنے کے لیے چل دیے۔ حفظ ماتقدم کے طور پر کوٹھی سے خاصے فاصلے پر ایک تناور پیڑ کی آڑ میں انہوں نے جیپ روک لی۔ ان کا خیال تھا کہ سونم کے پاس دلکش کو اکیلے ہی جانا چاہیے تاکہ وہ اس سے ساری داستان الم پوری یکسوئی اور توجہ سے سن سکے۔
ابھی وہ کوٹھی کی جانب چند قدم ہی بڑھی تھی کہ سونم کی کوٹھی کا کشادہ گیٹ وا ہوگیا اور ایک نئی مرسیڈیز گیٹ سے باہر نکلی۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے عدیل شاہ کو دیکھ کر دلکش کی آنکھوں میں حیرت اور بے یقینی پھیل گئی۔ وہ بے تابانہ ان کی جانب لپکی تھی مگر فضلو بابا نے اس کا بازو پکڑ کر اسے روک لیا۔ سونم، گاڑی کے آنکھوں سے اوجھل ہوجانے تک گیٹ پر کھڑی عدیل کی گاڑی کی طرف دیکھتی رہی۔ پھر اندر چلی گئی تھی اور دربان نے گیٹ بند کردیا۔
عدیل ایک بار پھر دلکش کے سامنے آکر نظروں سے اوجھل ہوگئے تھے۔ فضلو بابا کا کہنا تھا کہ یہ جانے بغیر کہ جلیل شاہ کے بیان کی روشنی میں عدیل، دلکش کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں، یوں ان کے سامنے جانا خاصا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ مگر اس وقت دلکش انہیں سامنے پا کر نہ مل سکنے پر بے حد مایوس اور اداس ہوگئی تھی۔ سو فضلو بابا نے اسے سمجھا بجھا کر سونم سے ملنے کے لیے اس کی کوٹھی کی طرف روانہ کردیا۔ سونم حسب توقع اسے اپنے سامنے اپنے گھر میں دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ پھر وہ اسے اپنے ساتھ لیے لائونج میں آبیٹھی۔
’’میں تم سے کچھ کہنے آئی ہوں۔‘‘ دلکش نے دھیمے لہجے میں کہا۔ ’’مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔‘‘
’’اس دن بھی تم یہی کہہ رہی تھیں اور بنا کچھ کہے چپکے سے چلی گئی تھیں۔‘‘ سونم نے اس کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’بولو کیا بات ہے؟ مجھے محسوس ہورہا ہے کہ کوئی اہم بات ہے۔ سب ٹھیک تو ہے نا؟ نانو تو ٹھیک ہیں نا…؟‘‘
نانو کے نام پر دلکش کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور پھر آنسوئوں کے ریلے کے ساتھ اس نے تمام کہانی سونم کو کہہ سنائی۔
’’اوہ میرے خدا!‘‘ ساری کہانی سن کر سونم نے حیران و پریشان لہجے میں کہا۔ ’’کون ہے وہ کمینہ جاگیردار، میں پاپا سے کہہ کر اسے آج ہی گرفتار کرواتی ہوں۔ تم ذرا اس کا نام بتائو۔‘‘
’’تم اسے جانتی ہو۔‘‘ دلکش نے دھیمی مگر مضبوط آواز میں کہا۔ ’’وہ تمہارے پاپا کے بچپن کا دوست وڈیرا جلیل شاہ ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ سونم بے یقینی سے اچھل پڑی تھی۔ ’’تمہارا مطلب ہے کہ اس وڈیرے کے جس بھتیجے سے تمہارا نکاح ہوا ہے، وہ عدیل شاہ ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘
اس خوابناک آنکھوں والے عدیل کے خواب جانے کب سے خود سونم کی آنکھوں میں بس رہے تھے۔ وہ خواب میں بھی یہ بات نہیں سوچ سکتی تھی کہ عدیل شاہ کا نکاح دلکش کے ساتھ ہوسکتا ہے۔ دلکش جانتی تھی یہ بات اتنی آسانی سے سونم تسلیم نہیں کرے گی اسی لیے وہ اپنے نکاح نامے کی کاپی ساتھ لے کر آئی تھی جس پر عدیل شاہ کے دستخط موجود تھے۔
وہ عدیل کے دستخط پہچانتی تھی۔ اسے اپنا دل بیٹھتا محسوس ہوا۔ ابھی تو اس کی محبت کی کہانی شروع ہی نہیں ہوئی تھی۔ آج کتنے اصرار سے فون کرکے اس نے عدیل کو بلوایا تھا۔ اس سے مل کر اسے کیسی خوشی اور تسکین ملی تھی مگر اس دلکش نے لمحوں میں اس خوشی کو غارت کردیا تھا۔ اس کا دل چاہا کہ وہ دلکش کا منہ نوچ ڈالے۔ اس کا گلا گھونٹ دے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عدیل کی زندگی سے اس کا نام مٹا دے۔ دلکش سہمی ہوئی نظروں سے سونم کے چہرے کے بدلتے تاثرات کو دیکھ رہی تھی۔
’’سونم! تم ٹھیک تو ہو؟‘‘ اس نے متوحش لہجے میں پوچھا۔ ’’تمہیں میری باتوں پر یقین ہے نا۔‘‘
’’میں حیران ہوں۔‘‘ سونم نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا۔ ’’بہت تھکن محسوس کررہی ہوں… تھوڑا آرام…‘‘
’’ہاں تمہیں آرام کرنا چاہیے۔‘‘ دلکش نے جلدی سے کہا۔ ’’اگر تمہارے لیے ممکن ہو تو مجھے عدیل کا نمبر دے دو۔ میں… ان سے…‘‘ دلکش جملہ پورا کیے بنا ہی چپ ہوگئی۔
’’ٹھیک ہے… ابھی دیتی ہوں۔‘‘ سونم نے اٹھ کر ایک کاغذ پر نمبر لکھا اور کاغذ کا پرزہ اسے تھما دیا۔ دلکش پرزہ لے کر گیٹ کی طرف بڑھ گئی۔
دلکش کے جانے کے بعد سونم کی طبیعت مزید خراب ہوگئی۔ جس عدیل کو وہ اپنا نصیب بنانے کے خواب دیکھ رہی تھی، وہ پہلے ہی کسی اور کا مقدر بن چکا تھا۔ اس کا دل یہ سچائی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا۔ مگر اس کے اندر موجود اچھائی باور کروا رہی تھی کہ دلکش اتنا بڑا جھوٹ نہیں بول سکتی۔ ہوسکتا ہے واقعی وہ کسی بڑی مشکل کا شکار ہو اور اسے میری مدد کی ضرورت ہو… مگرعدیل کا خیال آتے ہی دلکش سے ہمدردی کا ہر جذبہ ایک بے نام سے حسد کے جذبے میں ڈھل جاتا تھا۔
سونم کے ایک دم بدلتے رویوں نے دلکش کو حیران بھی کیا تھا اور قدرے پریشان بھی مگر وہ اپنے تئیں کچھ سمجھ نہ پائی تھی۔ اس کے لیے یہی بہت تھا کہ اس نے اسے اپنے غم میں شریک کرلیا تھا۔ اسے ساری کتھا سنا کر اس کے دل کا بوجھ قدرے کم ہوگیا تھا۔ اور پھر یہ کہ عدیل کا نمبر مل جانے کی وجہ سے وہ خاصی خوش تھی۔ فضلو بابا اسے ساتھ لیے ایک پی سی او پر جا پہنچے۔ عدیل کا نمبر ملاتے ہوئے دلکش کا دل دھڑک رہا تھا۔ لرزتے ہاتھوں سے اس نے ریسیور کان سے لگایا۔ دوسری جانب سے فون اٹھایا گیا تو دلکش نے بے تابی سے کہنا شروع کیا۔ ’’سنئے! آپ عدیل ہیں نا… عدیل میں… دلکش ہوں… دلکش زوار حسین… آپ کی منکوحہ…!‘‘
’’دلکش؟‘‘ دوسری طرف سے جلیل شاہ کی غراتی آواز ابھری۔ ’’تو یہ تم ہو؟ تمہارے حوصلے پر حیران ہوں… تم نے میرے نمبر پر، میری حویلی میں فون کرنے کی ہمت کیسے کی؟‘‘
’’جل … جلیل شاہ۔‘‘ دلکش ایک دم خوف زدہ ہوگئی۔ اس نے گھبرا کر ریسیور کریڈل پر پٹخ دیا۔ اس کی پیشانی عرق آلود ہورہی تھی اور ہاتھ ابھی تک کانپ رہے تھے۔ فضلو بابا کے پوچھنے پر جب اس نے بتایا کہ سونم نے اسے جلیل شاہ کی حویلی کا نمبر دے دیا تھا تو وہ بھی حیران ہوئے۔
’’تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ عدیل شاہ گائوں کی حویلی میں ہیں؟‘‘ فضلو بابا نے سوچتے ہوئے لہجے میں کہا۔ ’’نہیں مگر وہاں سے تو ہمیں یہ پتا چلاتھا کہ عدیل شاہ شہر کے کسی بڑے ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ پھر بھلا سونم بٹیا نے حویلی کا نمبر کیوں دیا اور اتفاق دیکھو فون جلیل شاہ نے ہی اٹھایا۔ خیر زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہوسکتا ہے انہوں نے نمبر غلطی
سے دے دیا ہو اور جلیل شاہ کو بھی فون کرنے سے کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ وہ معلوم نہیں کرسکتا کہ تم کہاں ہو۔ تم فکر مند مت ہو، چلو گھر چلتے ہیں۔ ساری بات مصعب میاں کو بتاتے ہیں، وہ یقیناً کوئی اس کا حل بتائیں گے۔ آج کل وہ ماشاء اللہ تمہارے کیس میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں۔‘‘
فضلو بابا کی باتوں سے دلکش کے دل کو خاصی ڈھارس ملی۔ جب وہ دونوں گھر پہنچے تو دیکھا مصعب ڈیک نکالے اس کی جھاڑ پونچھ میں مصروف ہیں۔
’’ارے یہ آپ کیا کررہے ہیں؟‘‘ فضلو بابا نے ان کے ہاتھ سے جھاڑن لیتے ہوئے کہا۔
’’بس آج دل چاہا اسے صاف کرکے کوئی غزل وغیرہ سنی جائے۔‘‘ مصعب نے قدرے شرمسار سے لہجے میں جواب دیا۔
ایک زمانے میں مصعب کو گیت اور غزل سننے کا بہت شوق تھا۔ یہ بیش قیمت ڈیک انہوں نے باہر سے منگوایا تھا اور سرشام وہ کوئی غزل کا کیسٹ یا سی ڈی لگا کر بیٹھ جاتے۔ کوکب کو غزلیں سننے کا ایسا کوئی خاص شوق نہ تھا مگر مصعب کی خوشی کی خاطر وہ بھی ان کے ساتھ بیٹھ جاتی تھی۔ مصعب کو خاص طور پر یہ غزل بہت پسند تھی۔ ’’تمہاری چاہت کی چاندنی سے ہر ایک شبِ غم سنور گئی ہے‘‘ وہ جب بھی یہ غزل سنتے، کوکب شوخ لہجے میں کہتی۔ ’’دیکھ لیجیے ہماری چاہت کی وجہ سے آپ کی راتیں روشن ہیں۔‘‘
کتنی سچ تھی یہ بات کوکب کے جاتے ہی مصعب کی راتیں کیا زندگی تاریک ہوگئی تھی۔ انہیں ہر چیز سے نفرت ہوگئی تھی۔ فضلو بابا نے تمام کیسٹ اور سی ڈیز کیبنٹ میں بند کرکے رکھ دیے تھے اور ڈیک بھی الماری میں چھپا دیا تھا۔ آج اتنے برسوں بعد مصعب کو ڈیک نکال کے صاف کرتے دیکھ کر انہیں مسرت نے گھیر لیا تھا۔ اب انہیں یقین ہوچکا تھا مصعب زندگی کی طرف لوٹ رہے ہیں۔
’’آپ بیٹھیے ہم ابھی اسے جھاڑ پونچھ کر ایک کیسٹ لگا کر چیک کیے لیتے ہیں کہ یہ کام کررہا ہے کہ نہیں۔‘‘ فضلو بابا کے کہنے پر مصعب صوفے پر جا بیٹھے۔ فضلو بابا نے ذرا ہی دیر میں ڈیک صاف کرکے اس میں کیسٹ لگا دیا۔ ’’تمہاری چاہت کی چاندنی سے ہر اک شبِ غم سنور گئی ہے…‘‘ پہلے یہ غزل سنتے ہی مصعب پر پاگل پن کا دورہ پڑ جاتا تھا۔ ان کی نگاہوں میں کوکب کا چہرہ گھوم جاتا اور وہ دیوانہ وار چیزیں اٹھا کر پھینکنے لگتے تھے مگر آج ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے سر صوفے کی پشت سے لگا کر آنکھیں بند کرلی تھیں اور آنکھوں کے اس پار ایک معصوم سہما ہوا چہرہ مسکرا رہا تھا۔
’’سجیلہ!‘‘ انہوں نے گھبرا کر آنکھیں کھول دی تھیں۔ دروازے کے ساتھ کھڑی دلکش غور سے ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس نے ان کے لبوں پر مچلتا سجیلہ کا نام سنا تھا۔ اس کے لبوں پر مسحور کن مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔ تب ہی فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ مصعب نے ہاتھ بڑھا کر فون اٹھا لیا۔ دوسری طرف سجیلہ کی آواز سن کر انہیں حیرت بھری مسرت ہوئی۔
’’آپ ہیں!‘‘ وہ دھیمے لہجے میں بولے۔ ’’آپ کی بڑی عمر ہے۔ ابھی میں آپ کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ سجیلہ کے لہجے سے حیرت بھری مسرت کا اظہار ہورہا تھا۔ ’’کیا سوچ رہے تھے؟‘‘
’’یہی کہ آپ سے ملاقات ہوئے کافی وقت گزر گیا۔‘‘ مصعب نے جواب دیا۔
’’تو آجایئے نا کسی دن ہمارے فلاہی سینٹر۔‘‘ سجیلہ نے دھڑکتے دل سے تجویز پیش کی۔ ’’بلکہ کل ہی آجایئے۔‘‘
’’کل کیوں؟‘‘ مصعب نے سوال کیا۔
’’بس ایسے ہی ہمیں اچھا لگے گا۔ مسز آغا بھی آپ سے ملنے کا بے حد اشتیاق رکھتی ہیں۔ پلیز آجایئے نا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ مصعب نے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔ ’’مگر یاد رہے میں صرف آپ سے ملنے آئوں گا۔‘‘
دلکش کے دل میں عجب سی خوشی کا احساس پھیلتا محسوس ہورہا تھا۔ برسوں سے بند کواڑ اور زنگ آلود قفل کھلتے محسوس ہورہے تھے۔ ’’فضلو بابا! اِن شاء اللہ بہت جلد ہم دونوں کو آمنہ آپا سے سجیلہ کا ہاتھ مانگنے کے لیے جانا پڑے گا۔‘‘ کچن میں آکر ساری بات فضلو بابا کو بتا کر اس نے مسکراتی آواز میں کہا۔ ’’زیادہ انتظار نہیں، بس چٹ منگنی پٹ بیاہ…‘‘
’’تمہارے منہ میں گھی شکر۔‘‘ فضلو بابا کھل اٹھے۔ ’’مگر یہ سب اتنا آسان نہیں ہے۔‘‘
’’آپ کو شاید اندازہ نہیں۔‘‘ دلکش نے دل میں سوچا۔ ’’وہ اسیرِ عشق ہوچکے ہیں، سجیلہ کی زلفِ گرہ گیر کے قیدی بن چکے ہیں… کیسی ہوگی وہ سجیلہ جس نے اس پتھر میں جونک لگا دی تھی۔‘‘ دلکش کو اچانک اپنی بہن سجو یاد آگئی۔ کیسی معصوم… کیسی چاہنے والی بہن تھی وہ… اللہ جانے وقت کے ظالم ہاتھوں نے اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا۔ جانے کہاں ہوگی… کس حال میں ہوگی؟ ہوگی بھی کہ… بے ساختہ اس کی پلکیں بھیگتی چلی گئی تھیں۔
اگلے دن مصعب وعدے کے مطابق رفاہی سینٹر پہنچ گئے۔ اس سینٹر میں ان کی بیٹی پچھلے دس سالوں سے رہ رہی تھی، مگر وہ یہاں آج پہلی بار آئے تھے اور وہ بھی اپنی بیٹی سے نہیں بلکہ سجیلہ سے ملنے کے لیے!
کتنے عرصے بعد آج سجیلہ کا دل خوشی کے احساس سے معمور تھا۔ شاید زندگی میں پہلی بار سجنے سنورنے کو جی چاہ رہا تھا۔ آنکھوں میں انتظار کی دھنک اور رخساروں پر حیا کی سرخی نے عجب سا نکھار اور دلکشی پیدا کردی تھی۔
مصعب اس کے چہرے کی رعنائی اور تازگی دیکھ کر حیران ہوئے تھے۔ اسے اپنے سامنے دیکھ کر انہیں اپنے دل میں ایک سکون کا احساس اترتا محسوس ہوا تھا۔ تب ہی مسز آغا آگئی تھیں۔ آج وہ پہلی بار کرن کے بابا مسٹر مصعب سے مل رہی تھیں۔ مصعب کو دیکھ کر، مصعب سے مل کر انہیں بھی خوشی ہوئی۔
’’آپ دونوں بیٹھ کر باتیں کریں۔ میں آپ لوگوں کے لیے چائے بھجواتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مسکراتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئی تھیں اور کچھ ہی دیر میں رضیہ چائے اور دیگر لوازمات سے بھری ٹرے لیے آحاضر ہوئی تھی۔ چائے کے دوران وہ دونوں باتیں کرتے رہے تھے… جانے کتنا وقت گزر گیا تھا۔ ’’اوہ! اتنا وقت گزر گیا پتا ہی نہیں چلا۔ اب مجھے چلنا چاہیے۔‘‘ نا چاہتے ہوئے بھی وہ جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے مگر جانے سے پہلے انہوں نے اپنی زندگی کا سب سے اہم اور ناممکن فیصلہ کر لیا تھا۔ سجیلہ کو خداحافظ کہتے وہ برآمدے کی سیڑھیا اترتے بیرونی پیسج کی طرف بڑھ گئے تھے۔ ان کی جیپ بالکل گیٹ کے قریب کھڑی تھی۔ وہ آہستہ روی سے گیٹ کی طرف چل دیے۔
تب ہی ایک باریک سی آواز ان کی سماعت سے ٹکرائی۔ ’’پاپا۔‘‘
انہوں نے غیر ارادی طور پر بے ساختہ پلٹ کر دیکھا۔ ان سے کچھ فاصلے پر ایک ننھی سی بچی بیساکھی کے سہارے کھڑی تھی۔ اس کی پلکیں بھیگی ہوئی، رخسار آنسوئوں سے نم اور لب لرزیدہ تھے۔
مصعب نے فوراً اس اَن دیکھی بچی کو پہچان لیا تھا کیونکہ اس بچی کی تصویر ان کی ٹیبل پر موجود تھی۔ وہ بے خود سے اسے تکے جارہے تھے۔ وہ کرن تھی۔ ان کی اپنی بیٹی، جس سے پچھلے دس سالوں میں وہ ایک بار بھی نہیں ملے تھے۔ وہ اسے اپنی چہیتی بیوی کوکب کی قاتل سمجھتے تھے مگر سجو نے انہیں باور کروایا تھا کہ وہ اپنی ماں کی کس طرح قاتل ہوسکتی ہے۔ وہ ان کی چہیتی بیوی کوکب کی آخری نشانی ہے۔ ان کا اپنا خون ہے۔ ایک نئے احساس نے ان کے درِ دل پر دستک دی تھی۔ محبت کا ایک نیا جذبہ دل کی دھڑکنوں سے ابھرا تھا اور وہ بے اختیار کرن کی طرف بڑھے۔
کرن نے اپنے بازو پھیلا دیے۔ بیساکھی دور جاگری مگر اس سے پہلے کہ وہ گرتی، مصعب نے اسے تھام لیا۔ اپنے بازوئوں میں بھر کر سینے سے لگا لیا۔ کرن بے اختیار روئے جارہی تھی۔ خود مصعب کی آنکھوں سے بھی اشک جاری تھے جو فاصلوں اور کدورتوں کی گرد دھو رہے تھے۔
’’پاپا میرے پاپا۔‘‘ کرن ان کے سینے پر سر رکھے کہے جارہی تھی۔
’’بیٹی میری بیٹی… میری کرن… میری جان…! مجھے معاف کردو… میں تمہارا مجرم ہوں۔‘‘
’’نہیں پاپا۔‘‘ کرن محبت بھرے لہجے میں بولی۔ ’’آپ میرے پیارے پاپا ہیں۔‘‘
اور پیڑ کی آڑ میں کھڑی سجیلہ اور بیگم آغا باپ اور بیٹی کے ملنے کا یہ دلفریب منظر دیکھ رہی تھیں۔ ان دونوں کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے مگر یہ آنسو خوشی کے تھے۔
٭…٭…٭
باہر لان میں سبز مخملی گھاس پر شام کے سرمئی سائے بکھر رہے تھے۔ ہوائوں کے نرم جھونکوں میں ایک تسکین اور سرخوشی کا احساس رچا ہوا تھا۔ مگر سونم کے دل کو کسی طرح سکون نہ تھا۔ کتنی دیر سے وہ دریچے میں کھڑی سرسبز و شاداب لان کی جانب تک رہی تھی مگر تسکین و راحت کی بجائے اس کے دل کی بے کلی میں مزید اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ اس نے عدیل کو اس لیے بلایا تھا تاکہ اس سے بات کرکے سچائی تک پہنچ سکے مگر عدیل کے ساتھ برہان بھی آگیا تھا اور وہ اس کے سامنے بات نہیں کرسکی تھی۔ کئی بار اس کے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ وہ جلیل شاہ کو فون کرکے احوال حال معلوم کرے۔ ایک بار اس نے فون کیا بھی مگر اس سے کچھ کہنے کی ہمت نہ کرسکی تھی۔
لائونج میں فون کی گھنٹی مسلسل بجے جارہی تھی۔ یہ بھاگاں بھی خدا جانے کہاں چھپ کے بیٹھ جاتی ہے۔ وہ بڑبڑاتی ہوئی لائونج کی جانب چل دی مگر اس کے پہنچنے سے پہلے ہی اعظم خان فون اٹھا چکے تھے۔
’’اوہ میرے یار… جلیل شاہ کیسے ہو؟‘‘ وہ ریسیور کانوں سے لگائے نہایت گرم جوشی سے فون کرنے والے سے مخاطب تھے۔ ’’اچھا کوئی مسئلہ ہے… بتائو تمہارے زخمی ہونے سے اس مسئلے کا کوئی تعلق ہے… مگر تم نے تو کہا تھا کہ تمہارا پائوں پھسل گیا تھا اور اب تم کہہ رہے ہو کہ تمہیں کسی لڑکی نے زخمی کیا تھا… اصل میں یہ قاتلانہ حملہ تھا۔‘‘ سونم واپسی کے لیے پلٹ گئی تھی مگر اپنے والد کی زبانی قاتلانہ حملے اور کسی لڑکی کے ذکر پر اس کے قدم ٹھٹھک گئے تھے۔
دوسری جانب سے جلیل شاہ کہہ رہا تھا۔ ’’بہت ہی اہم معاملہ ہے۔ میں آج رات کو خود حاضر ہوکر تمام واقعہ سنائوں گا۔ ساری بات فون پر نہیں ہوسکتی۔‘‘
’’ٹھیک ہے تو جلدی آجانا۔ ہم دونوں ڈنر ساتھ ہی کریں گے۔‘‘ فون بند کرکے اعظم خان بیٹی سے مخاطب ہوئے۔ ’’بٹیا! رات کے کھانے کو ذرا دیکھ لینا۔ تمہارے جلیل انکل بھی کھانے پر ہوں گے۔‘‘
’’جی اچھا!‘‘ سونم نے دل کے اضطراب کو دل ہی میں دبا کر سرسری سے لہجے میں کہا۔ ’’کیا کہہ رہے تھے جلیل انکل…! کسی قاتلانہ حملے کی بات کررہے تھے۔‘‘
’’ہاں تمہیں یاد ہوگا ابھی کچھ عرصہ پہلے وہ زخمی ہوکر اسپتال پہنچ گیا تھا۔ اس وقت تو نہیں مگر اب وہ بتا رہا ہے کہ اس کے کسی مزارع کی بیٹی جو شہر میں اپنی کسی رشتے دار کے گھر رہتی تھی، اپنے کسی
� پروجیکٹ کے لیے گائوں آئی۔ جلیل نے اسے حویلی میں آنے جانے کی اجازت دے دی تھی۔ اس کے کمرے میں موجود تجوری میں کروڑوں کے خاندانی زیورات موجود ہیں۔ ایک دن اس لڑکی نے ان زیورات کو چرانے کی کوشش کی۔ عین وقت پر جلیل شاہ کے پہنچ جانے پر اس نے اس پر جان لیوا حملہ کیا اور اسے زخمی کرکے کافی زیورات لے کے فرار ہوگئی۔ گائوں کے مزارع کی بیٹی کا معاملہ تھا اس لیے جلیل شاہ نے درگزر سے کام لیا مگر اب جبکہ اسے اطلاع ملی کہ وہ لڑکی اس کے خاندانی زیورات فروخت کرتی پھر رہی ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اسے گرفتار کرکے زیورات برآمد کیے جائیں۔‘‘
’’اف میرے خدا!‘‘ سونم کو چکر آگیا تھا۔ دلکش اور جلیل شاہ کی کہانیاں الگ الگ تھیں مگر یہ حقیقت تھی کہ کردار ایک ہی تھے۔ کسی نہ کسی طرح دلکش کا جلیل شاہ سے تعلق بنتا صاف نظر آرہا تھا۔ اب صرف یہ معلوم کرنا باقی تھا کہ کس کی کہانی سچی ہے۔
وہ جلیل شاہ کو بچپن سے جانتی تھی۔ اس نے اسے ہمیشہ ہی ایک مہربان، محبت کرنے والا انسان پایا تھا۔ عدیل سے اس کی محبت، اس کی تعلیم و پرورش پر توجہ اور اس کی خاطر اپنا گھر نہ بسانا، یہ سب باتیں اس کی اچھائی کو اجاگر کرتی تھیں۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ جلیل شاہ اپنے بھتیجے کی بیوی کے ساتھ اتنا گھنائونا فعل کرسکتا ہے۔ دوسری طرف دلکش تھی۔ دلکش کے بارے میں وہ کم ازکم یہ یقین سے کہہ سکتی تھی کہ وہ لالچی اور چور نہیں ہو سکتی تھی۔ اس کے جھوٹی ہونے پر بھی اسے شبہ تھا… دونوں ہی اپنی اپنی جگہ قابل اعتبار تھے تو اب وہ بھلا کس طرح سچائی تک پہنچ سکتی تھی اور اب تو اس کے دل میں دلکش کی سلامتی اور تحفظ کے بارے میں بھی وسوسے سر اٹھا رہے تھے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ اب لے دے کے ایک عدیل رہ گئے تھے جن سے حقیقت حال کا پتا چل سکتا تھا۔ اب وہ جلد ازجلد عدیل سے مل کر سچائی جاننا چاہتی تھی کیونکہ اگر دلکش کی بات سچ تھی تو اس کی زندگی، اس کا مستقبل عدیل سے جڑا ہوا تھا اور اس خیال کے آتے ہی جانے کیوں اس کا دل بوجھل ہوگیا تھا۔ اس نے موبائل اٹھایا اور عدیل کا نمبر ملانے لگی۔
عدیل اس وقت وکیل سے مل کر واپس ہوٹل کی طرف جا رہے تھے۔ برہان بھی ان کے ساتھ تھا۔ ابھی جب جلیل شاہ سے بات ہوئی تو انہیں پتا چلا کہ وہ اعظم انکل سے ملنے سونم کے گھر گئے ہوئے ہیں۔ ’’کیوں نہ ہم بھی اعظم انکل کے گھر چلیں۔‘‘ عدیل نے مشورہ طلب لہجے میں برہان سے پوچھا۔
’’اعظم انکل؟‘‘ برہان نے سوالیہ نظریں اٹھائیں۔ ’’وہی ڈی آئی جی صاحب! نا بھئی مجھے تو معاف رکھو۔ بڑوں سے سنتے آئے ہیں ان پولیس والوں سے دوستی اچھی نہ دشمنی…‘‘
’’ارے نہیں۔‘‘ عدیل بے ساختہ ہنس دیے۔ ’’اعظم انکل ایک بے حد دیانتدار پولیس آفیسر اور اچھے انسان ہیں۔ ان کی بیٹی سونم اور میں دونوں بچپن میں ایک ساتھ کھیلے ہیں۔‘‘
’’ایسا تو نہیں تمہارے انکل کا یہ ارادہ تو نہیں کہ اس بچپن کے ساتھ کو دائمی کردیا جائے۔‘‘ وہ معنی خیز انداز میں ہنسا۔ ’’میرا مطلب ہے سونم سے شادی کا ارادہ تو نہیں۔‘‘
’’شادی۔‘‘ عدیل کے ہاتھ اسٹیئرنگ پر یکایک لرزے۔ شادی کے ذکر پر شادی کا وہ اندوہناک واقعہ ان کی نگاہوں میں گھوم گیا اور پھر وہ معصوم اور دلکش چہرہ… ہزار بار ذہن سے جھٹکنے کے باوجود آج بھی ان کے ذہن میں محفوظ تھا۔
ٹھیک اسی لمحے دلکش نے چونک کر سڑک کی طرف دیکھا۔ وہ ابھی ابھی فضلو بابا کے ساتھ مارکیٹ پہنچی تھی۔ وہ کل بیگم تمنا آغا سے سجیلہ کا ہاتھ مانگنے جانے والی تھی اسی لیے وہ آج یہاں سجیلہ اور کرن کے لیے کچھ تحفے خریدنے آئی تھی۔ گو کہ وہ اب تک سجیلہ سے ملی نہیں تھی مگر اس کے لیے اس کے دل میں ایک خاص مقام اور قدر تھی کیونکہ وہ سجیلہ ہی تھی جس نے مصعب کے پتھر دل کو برما دیا تھا اور اب عنقریب وہ بہار بن کر مصعب کے ویران گھر اور تنہا زندگی میں وارد ہونے والی تھی۔
دلکش اور فضلو بابا اب رات، دن شادی کی تیاریوں، گھر کی آرائش و زیبائش میں مصروف تھے۔ ایک عجب سی گہما گہمی اور رنگارنگی تھی اور اس بیچ کبھی کبھی دلکش کا دل ایک دم بجھ کر رہ جاتا۔ مصعب کی شادی کے بعد اس کا اس گھر میں رہنا کس حد تک ممکن ہوگا۔ وہ ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی تھی مگر سوال یہ تھا کہ وہ اس طرح چھپ کر کب تک اس گھر میں رہ سکتی تھی۔ اب اسے یہ ڈر بھی ستانے لگا تھا کہ کہیں عدیل امریکا کے لیے روانہ نہ ہوجائیں۔ ایسا ہوجاتا تو اس کے لیے ہر راستہ بند ہوجاتا۔
سونم کے گھر سے آنے کے بعد اس نے کئی بار اسے فون کیا تھا مگر اس دن کے بعد سے سونم نے اس کا نمبر کبھی اٹھایا ہی نہیں۔ سونم کے بدلتے رویوں کے بارے میں وہ کوئی رائے قائم نہیں کرسکی تھی۔ اس نے رک کر فضلو بابا کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔ وہ کہیں دکھائی نہیں دیے شاید کچھ خریدنے کی غرض سے کسی دکان کے اندر چلے گئے تھے۔
دلکش نے وہیں رک کر فضلو بابا کی آمد کا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ فٹ پاتھ کے ساتھ کشادہ سڑک پر ٹریفک کا سیلاب رواں دواں تھا۔ غالباً سگنل بند ہوا تھا۔ ٹریفک کا بہائو ایک دم رک گیا۔ دلکش نے چادر کے پلو کو درست کرتے ہوئے یونہی اچٹتی ہوئی نگاہ سامنے کی طرف ڈالی تو اس کی نگاہ سب سے آگے کھڑی گاڑی پر جم کر رہ گئی۔ ڈرائیونگ سیٹ پر عدیل موجود تھے۔ ان کے ساتھ والی سیٹ پر ایک سانولا سا شخص بیٹھا تھا۔ دلکش نے اس شخص سے نگاہیں ہٹا کر دوبارہ عدیل پر مرکوز کردی تھیں۔ یونہی چلتے چلتے عدیل کئی بار اسے نظر آئے تھے مگر وہ ان سے ایک بار بھی نہیں مل سکی تھی۔ وہ ہر بار اپنی جھلک دکھا کر جم غفیر میں گم ہوگئے تھے مگر آج وہ ان تک رسائی حاصل کرنے کی خواہاں تھی۔ سگنل کے کھلتے ہی عدیل کی کار آہستگی سے اس کے سامنے سے پھسلتی آگے نکل رہی تھی۔ دلکش نے متوحش نگاہوں سے چاروں طرف دیکھا۔ تب ہی ایک رکشہ اس کے قریب آ رُکا۔ وہ بنا کچھ سوچے سمجھے رکشے میں بیٹھ گئی اور بولی۔ ’’بابا! اس گاڑی کے پیچھے چلنا ہے۔‘‘
مختلف راستوں سے ہوتی آخر عدیل کی کار ہوٹل کے سامنے آرُکی تھی۔ چابی دربان کے حوالے کرکے وہ برہان کے ساتھ لابی کی طرف بڑھ گئے۔ ان دونوں کے جانے کے بعد دلکش رکشے سے اتری اور لابی میں داخل ہوگئی۔ سامنے ہی ایک ٹیبل پر عدیل کے ساتھ آنے والا شخص موجود تھا مگر عدیل کہیں دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ وہ اس شخص کے قریب پہنچ گئی اور اس نے اس سے عدیل کے بارے میں پوچھا۔
’’عدیل…؟‘‘ برہان اچھل کر سیدھا ہوا۔ ’’آپ کون…؟‘‘
’’جی وہ… میں…!‘‘ دلکش تذبذب سے بولی۔ ’’جی میں ان سے ملنا چاہتی ہوں۔ وہ اس وقت کہاں ہیں؟‘‘
’’وہ اپنے کمرے میں گئے ہیں۔ میں انہیں فون کرکے بلا لیتا ہوں مگر اس سے پہلے آپ کو اپنا نام بتانا ہوگا۔ بھلا میں انہیں کیا بتائوں گا کہ ان سے کون ملنے آئی ہے۔‘‘
’’جی میں… دل… دلکش ہوں۔‘‘ برہان ایک بار پھر اچھل پڑا۔ اس نے غور سے دلکش کو دیکھا مگر وہ سرتاپا چادر میں لپٹی ہوئی تھی۔ چہرہ بھی چادر میں چھپا ہوا تھا صرف آنکھیں دکھائی دے رہی تھیں۔
آج برہان کو جلیل شاہ کی ہوشیاری پر یقین آگیا تھا۔ اس نے اسے عدیل کے ساتھ اسی لیے لگایا تھا کہ اسے یقین تھا جلد یا بدیر دلکش ضرور عدیل سے ملنے کی کوشش کرے گی۔ اب برہان کو اپنا کام کرنا تھا۔
سو وہ دلکش کو عدیل سے ملانے کے بہانے فرسٹ فلور پر اپنے کمرے میں لے آیا۔ اسے کمرے میں چھوڑ کر وہ عدیل کو بلانے کے بہانے باہر نکلا۔ اب اسے جلیل شاہ کو اطلاع دینی تھی مگر جلیل شاہ کا فون بند تھا۔ مجبوراً اس نے مرید خان سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ دلکش کو سب کچھ عجیب سا لگ رہا تھا۔ اس کی چھٹی حس خطرے کا احساس دلا رہی تھی۔ سو برہان کے باہر نکلتے ہی وہ دروازے سے آلگی۔ دروازے میں ہلکی سی درز کرکے اس سے باہر جھانکا۔ برہان سامنے ہی دروازے کی طرف پیٹھ کیے کھڑا موبائل پر نمبر ملا رہا تھا۔ نمبر ملتے ہی اس نے دبی آواز میں کہا۔ ’’مرید خان! وہ لڑکی… میرا مطلب ہے عدیل شاہ کی بیوی یہاں پہنچ گئی ہے۔‘‘
دلکش کو اپنے پورے وجود میں ایک سنسناہٹ سی دوڑتی محسوس ہوئی۔ تو گویا اس کا اندیشہ درست ثابت ہوا تھا۔ برہان بھی جلیل شاہ کا ہی گرگا تھا۔ وہ موبائل پر بات کرتا ہوا سیڑھیوں کی طرف جارہا تھا۔ اس کے نظروں سے اوجھل ہوتے ہی وہ دروازہ کھول کر راہداری میں آگئی۔ راہداری خالی پڑی تھی۔ راہداری میں دونوں جانب دروازے تھے جن پر کمروں کے نمبر پیتل کے موٹے ہندسوں سے جڑے تھے۔ آخری سرے پر زینے اور لفٹ موجود تھی۔ ابھی وہ چند قدم ہی چلی تھی کہ سیڑھیوں پر قدموں کی آواز سنائی دی۔ برہان نیچے مٹھل کو ڈھونڈنے گیا تھا۔ غالباً اسے ساتھ لیے اوپر آرہا تھا۔
دلکش کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ وہ برہان کے کمرے کے بالکل سامنے والے کمرے کے دروازے سے لگی کھڑی تھی۔ زینے پر قدموں کی آواز بڑھتی جارہی تھی پھر اگلے ہی لمحے برہان اور مٹھل زینے کے سرے پر نمودار ہوئے۔ دلکش کو چکر سا آگیا۔ خود کو گرنے سے بچانے کے لیے اس نے دروازے کا سہارا لینا چاہا تو دروازہ اندر کی جانب کھل گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ چکرا کر فرش پر گرتی، اسے دو مضبوط ہاتھوں نے تھام لیا۔ اس نے وحشت زدہ نظروں سے خود پر جھکے چہرے کی طرف دیکھا اور پرجوش لہجے میں بولی۔ ’’آپ… آپ عدیل ہیں نا؟‘‘
اس کے بے ساختہ سوال پر عدیل نے چونک کر اسے دیکھا اور بولا۔ ’’آپ کون ہیں اور اس طرح دروازے سے لگی کیا کررہی تھیں؟‘‘
’’پہلے آپ پلیز دروازہ بند کردیں۔ کوئی آئے تو اسے اندر نہ آنے دیجیے گا۔ میرے دشمن مجھے تلاش کررہے ہیں۔‘‘ دلکش نے التجا بھری آواز میں کہا۔ ’’براہ کرم مجھے چھپنے کے لیے کوئی جگہ بتا دیں۔ ابھی کچھ دیر میں میرا تعاقب کرنے والے یہاں پہنچ جائیں گے۔ پلیز! مجھے تھوڑی دیر کے لیے کہیں چھپا لیجیے۔ وہ لوگ مایوس ہوکر لوٹ جائیں گے تو میں اطمینان سے آپ کو سب کچھ بتا دوں گی۔‘‘
اس کی آواز میں ایسی کوئی بات ضرور تھی جس نے عدیل کو اس کی بات ماننے پر مجبور کردیا۔ انہوں نے وارڈ روب کی طرف اشارہ کردیا اور وہ لپکتی ہوئی وارڈ روب کی طرف بڑھی۔
’’مگر ضروری تو نہیں کہ آپ کا تعاقب کرنے والے اس کمرے تک آئیں؟‘‘
ان کے سوال کے ختم ہوتے ہی دروازے پر دستک ہوئی اور برہان کی آواز سنائی دی۔ ’’دیکھا آپ نے؟‘‘ وارڈ روب کا دروازہ کھولتے
دلکش نے کہا۔ ’’وہ لوگ آگئے۔‘‘
’’مگر یہ تو برہان ہے، میرا دوست!‘‘ عدیل نے حیرانی سے وضاحت کی۔
’’یہی میرا دشمن ہے۔‘‘ دلکش الماری کا دروازہ کھول کے اندر داخل ہوگئی۔ دروازے کے بند ہوتے ہی عدیل نے کمرے کا دروازہ کھول دیا۔ سامنے برہان کے ساتھ مٹھل کھڑا تھا اور دونوں متلاشی نظروں سے اندر کی جانب دیکھ رہے تھے۔
’’کیا بات ہے برہان…! تم کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہو؟‘‘
عدیل کے سوال پر برہان یکدم گڑبڑا گیا۔ (جاری ہے)