Monday, October 7, 2024

Asteen Ka Saanp

ان دنوں ہم جنوبی پنجاب کے ایک دیہی علاقے میں رہتے تھے۔ وہاں ایک ہی سرکاری اسکول تھا۔ والد صاحب اس کے تعلیمی معیار سے مطمئن نہ تھے ، لہٰذا انہوں نے مجید کو گھر سے کچھ دور شہر کے اسکول میں داخل کرادیا۔ مجید میرا اکلوتا بھائی، ایک ہونہار طالب علم تھا۔ وہ بھولا بھالا اور سیدھا سادای ماں باپ کی آنکھوں کا تارا تھا۔ گھر میں اسے ہر طرح کا آرام ملا ہوا تھا۔ امی جان تو ہمہ وقت اس پر واری صدقے ہوتی تھیں۔ وہ کبھی بلاوجہ چھٹی کر لیتا، تب بھی وہ اسے سرزنش نہ کرتیں۔ اسی لاڈ پیار نے اسے کہیں کا نہ چھوڑا۔ ایک روز اسکول ماسٹر نے کام م ٹھیک ٹھیک سے نہ کرنے پر مجید کو ڈانٹا تو وہ گھر آکر بہت رویا۔ اس کارو نا امی سے برداشت نہ ہو سکا۔ وہ بھی رونے لگیں اور والد سے کہا کہ ماسٹر اس پر سختی کرتا ہے۔ آپ اس کو کسی دوسرے اسکول میں داخل کرادیجئے۔ والد صاحب نے امی کے اصرار پر بیٹے کو گھر کے نزدیک ایک سرکاری اسکول میں داخل کروادیا۔ یہ اسکول اچھا نہ تھا۔ یہاں تمام استاد کام چور اور تدریس میں دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک اچھا اور ہو نہار طالب علم نالائق ہو گیا۔ مجید کے امتحان کے دوران بابا جان کو سعودی عرب میں ملازمت مل گئی اور وہ جدہ چلے گئے۔ ان کے جاتے ہی بھائی نے اسکول کو خیر باد کہہ دیا، کہ اس کا ذہن پڑھائی سے زیادہ کھیل کود میں لگتا تھا۔ وہ گھر سے اسکول جانے کا کہہ کر نکلتا لیکن کھیتوں میں گھوم پھر کر لوٹ آتا۔ باپ سر پر نہ تھا اور کسی سے وہ ڈرتانہ تھا۔ وہ گرچہ تعلیمی ڈگر سے بھٹک گیا تھا مگر برالڑکا نہیں تھا۔ اس نے کوئی غلط کام نہیں کیا تھا، نہ وہ نشہ کرتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے گائوں کا ماحول صاف ستھرا تھا۔ بیٹوں سے دو سال پلک جھپکتے گزر گئے۔ ایک دن چچا جان کے پاس فون آیا کہ بابا جان سعودی عرب سے لوٹ رہے ہیں، ہم سب بہت خوش تھے مگر والد نے آتے ہی پہلا سوال یہ کیا کہ کیا مجید پڑھائی کرتا ہے ؟ سب نے کہا کہ ہاں بہت توجہ سے پڑھتا ہے۔ یہ کسی نے بھی دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی تھی کہ وہ کیا پڑھتا ہے۔ والد صاحب نے میرے چچا کے بھی پوچھا۔ انہوں نے بھی یہی بتایا۔ والد صاحب کی چھٹی ختم ہو گئی اور وہ واپس ملازمت پر چلے گئے۔ وہ وہاں سے روپیہ کما کما کر بھیجتے رہے۔ اس دوران دو بہنوں کی شادیاں ہو گئیں۔ اب صرف میں ، میری چھوٹی بہن اور مجید ہی گھر پر رہ گئے۔ اس اثناء میں ہماری ایک کزن کی شادی تھی، ہم بھی وہاں مدعو تھے ۔ شادی کے ہنگامے میں ایک لڑ کی شبانہ پر میرے بھائی کی نظر پڑی۔ اس کی صورت من موہنی تھی۔ وہ ہمارے والد کے دور کے کزن کی بیٹی تھی۔ شبانہ کو دیکھتے ہی مجید کے دل پر جانے کیا اثر ہوا کہ وہ بے چین سا ہو گیا۔ اس نے اسی وقت ایک بچے کو دوڑایا کہ اس لڑکی سے کہو کہ میں اس سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ وہ ساتھ والے گھر میں آجائے۔ وہ گھر ہماری پھوپھو کا تھا، جو چچا کے گھر سے ملا ہوا تھا اور بیچ کی دیوار میں ایک دروازہ نصب تھا جو دونوں گھروں کے صحن کو ملاتا تھا۔ شادی کی وجہ سے دروازہ کھلا ہوا تھا۔

شبانہ کو پیغام بھجوا کر مجید ساتھ والے گھر میں جاکر بیٹھ گیا، کیونکہ وہاں دو کمرے خالی تھے اور شور و ہنگامے سے قدرے سکون تھا۔ شام تک وہ پھو پھو۔ و کے گھر بیٹھا انتظار کرتا رہا کہ شبانہ ادھر آ۔ ہ شبانہ ادھر آئے گی مگر وہ لڑکی نہ گئی۔ تبھی مجید نے چچا ا کے گھر آکرد. آکر دیکھا تو وہ اپنی ہمجولیوں سے گپ شپ میں لگی ہوئی تھی۔ اس کو یوں خوش و خرم دیکھ کر وہ سلگ گیا کہ میں تو یہاں بیٹھا انتظار کر رہا ہوں اور اس لڑکی کو احساس بھی نہیں ہے۔ ان دنوں وہ نویں کا طالب علم تھا۔ یہ لڑکپن کا زمانہ ہوتا ہے۔ عقل کم اور جوش و خروش زیادہ ہوتا ہے۔ مجید نے جب شبانہ سے گلہ کیا تو وہ بے اعتنائی سے بولی۔ میں آپ کو نہیں جانتی، تم ہو کون ؟ یوں بھی میں آوارہ لڑکوں کو پسند نہیں کرتی۔ یہ سن کر میرے بھائی کے کان سرخ ہو گئے۔ وہ غصے میں آپے سے باہر ہو گیا کیونکہ سب کے سامنے اس کی بے عزتی ہوئی تھی۔ اس نے بھری محفل میں شبانہ کو ذلیل کر دیا۔ اسی وقت ہمارا کزن علی وہاں آگیا اور مجید کو پکڑ کر اپنے گھر لے گیا۔ یوں یہ معاملہ ٹل گیا۔ علی نے اس کو سمجھا کہ یار تم نے ناحق اس بے چاری کو اتنی باتیں سنا دیں۔ آخر تمہارا اس پر حق کیا تھا ؟ اس کے احساس دلانے پر میرے بھائی نے بھی جب ٹھنڈے دل سے غور کیا تو اسے آگہی ہوئی کہ اس نے یہ بہت غلط کیا ہے۔ اس کو کسی اجنبی لڑکی کے ساتھ اتنی بد کلامی نہیں کرنا چاہیے تھی۔ اس نے شبانہ سے معافی مانگنے فیصلہ کیا۔ رات کے وقت جب وہ اکیلی بیٹھی تھی ، وہ چھپ چھپا کر گیا اور کہا کہ میں نے آپ کے ساتھ جو رویہ اس وقت اختیار کیا، وہ غلط تھا۔ مجھ کو احساس ہو گیا ہے کہ مجھے آپ کو یوں برا بھلا کہنے کا کوئی حق نہ تھا۔ مہربانی کر کے مجھے معاف کر دیجئے۔ ایسے بے لگام اور غصیلے لڑکے سے ندامت کیونکر متوقع ہو سکتی تھی۔ وہ حیران ہو کر مجید کی صورت تکنے لگی، پھر بولی۔ اچھا ہوا کہ آپ کو غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہر گز برے نہیں بلکہ ایک اچھے لڑکے ہیں۔ جائے، میں نے آپ کو معاف کیا۔ شبانہ کے ایسا کہنے پر مجید کو بہت شرم محسوس ہوئی۔ اس نے عہد کر لیا کہ وہ کبھی بھی کوئی برا کام نہ کرے گا۔ اس واقعہ کے بعد اس نے دل لگا کر پڑھنا شروع کر دیا۔ ایک سال میں ہی اس نے پہلے پرائیویٹ میٹرک کیا اور پھر انٹر میڈیٹ کا امتحان بہت اچھے نمبروں سے پاس کر لیا اور پھر شہر جا کر کالج میں داخلہ لے لیا۔ جہاں وہ دن میں پڑھتا اور شام کو کسی جگہ پارٹ ٹائم جاب بھی کرتا۔ اس طرح اس نے کمانا بھی سیکھ لیا۔ وہ ہر طرح سے خود کو ایک اچھا انسان ثابت کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ کہنا چاہیے کہ شبانہ کے چند کہے ہوئے جملوں نے اس کے دل پر گہرا اثر کیا کہ اس نے گرتے ہوئے بھی خود کو سنبھال لیا۔ بالآخر مجید نے انجینئر نگ پاس کر لی۔ وہ بہت خوش تھا۔ اب بھی وہ شبانہ کو نہیں بھولا تھا، بلکہ اب تک اس کی اس بات پر غور کرتا تھا۔ خوش قسمتی سے اسے ایک سرکاری محکمہ میں ملازمت مل گئی۔ اب وہ بہت خوش تھا۔ اس نے ماضی پر نظر ڈالی اور سوچا کہ میں کیا تھا اور کیا ہو گیا ، ایک لڑکی نے مجھے کیا سے کیا بنادیا۔ وہ سوچتا تھا کہ اگر وہ شبانہ سے معذرت نہ کرتا تو کیا ہوتا۔ شاید اس میں کام کرنے کی لگن کبھی پیدا نہ ہوتی۔ اگر وہ چند اچھے جملے اس سے نہ کہتی۔ ان معمولی سے چند جملوں نے اس پر تو جادو کا سا اثر کیا تھا۔

اسی کزن کے چھوٹے بھائی کی شادی تھی، چچا کے گھر میں، جہاں پہلی بار ا سے شبانہ ملی تھی۔ ایک بار پھر سب مہمان شادی والے گھر میں جمع ہو گئے۔ اس بار شبانہ نے خود آگے آکر مجید سے کلام کیا، اسے مبارک باد دی اور کہا کہ میں اب خود تم سے ملنا چاہتی تھی، جب لوگ تمہاری تعریفیں کرتے ہیں تو مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے۔ اب سوچتی ہوں کہ تم کتنے اچھے ہو ، میں نے تم کو غلط سمجھا۔ وہ کہہ رہی تھی کہ تم ایک اچھے انسان ہو کہ تم نے محنت کی اور اپنا مقام بنالیا۔ اگر تم محنت نہ کرتے اور بھٹک جاتے تو تمہیں اپنی منزل کبھی نہ ملتی۔ اس پر مجید گویا ہوا۔ منزل ابھی نہیں ملی ، ابھی بہت دور ہے۔ وہ کہنے لگی۔ دور نہیں ہے ، مل جائے گی مگر حوصلے سے کام لینا ہو گا۔ یہ ایک اشارہ تھا۔ جسے مجید نے سمجھا اور انجانی کیفیات میں ڈوب گیا۔ اس نے ارادہ کر لیا کہ وہ اپنے اور شبانہ کے جذبات سے ، گھر والوں کو ضرور آگاہ کرے گا۔ ان ہی دنوں والد صاحب وطن لوٹ آئے۔ انہوں نے گھر کے حالات کا جائزہ لیا اور مجید کی ترقی سے بہت خوش ہوئے۔ اب وہ ایک تعلیم یافتہ اور بر سر روزگار نوجوان تھا۔ والد نے فخر سے اسے گلے لگا لیا۔ اب گھر میں اس کی شادی کے تذکرے ہونے لگے۔ اسی دوران والد صاحب کی چھٹی ختم ہو گئی اور وہ واپس چلے گئے۔ ماں کی یہ خواہش تھی کہ وہ اس کی شادی اپنی بھتیجی سے کرے اور لیلی کو بہو بنا کر لے آئے۔ لیلی بھی اکلوتی تھی اور اپنے والد کی تمام جائیداد کی وہی وارث تھی۔ جلد ہی امی جان نے خاندان بھر میں یہ بات پھیلا دی کہ لیلی میری بہو بنے گی اور مجید سے اس کی منگنی ہو رہی ہے۔ اس بات کا جب شبانہ کو پتا چلا تو وہ سخت پریشان ہوئی۔ ادھر میری بڑی دو بہنوں اور امی نے قسمیں دے کر بھائی کو مجبور کر دیا کہ وہ لیلی سے منگنی کر لیں۔ بھائی کا کہنا تھا کہ بابا جان گھر پر نہیں ہیں، مجھے ان کی رائے لینی ہے۔ ان کے بغیر پوچھے میں کیسے منگنی کرلوں۔ ماں نے اسے باور کرایا کہ یہ منگنی تمہارے والد کی رضا سے ہو گی کیونکہ میں نے ان کی رائے معلوم کرلی ہے۔ یوں والدہ نے بھائی کو جذباتی طور پر بلیک میل کر کے خاوند کی رضا لیے بغیر لیلی سے اس کی منگنی کر دی اور سوچ لیا کہ شوہر کو میں بعد میں منالوں گی۔ بابا جان تو ہزاروں میل دور تھے ، ان کو اس رشتے کے طے ہونے کا کوئی علم نہ تھا۔ جب ان کو اطلاع ملی تو وہ سخت برہم ہوئے اور گھر آگئے۔ امی سے پوچھا کہ تم نے گھر کے اہم معاملات سے مجھ کو کیسے خارج سمجھ لیا؟ بغیر پوچھے تم نے میرے بیٹے کی منگنی اپنی بھتیجی سے کیسے کر دی؟ تمہارا حق ہے تو میرا ابھی حق ہے۔ اب میرا بیٹا یہ شادی نہیں کرے گا۔ میاں بیوی کا یہ تنازع انا کا مسئلہ بن گیا اور امی روٹھ کر اپنے بھائی کے گھر چلی گئیں، ادھر والد صاحب نے خاندان بھر میں اعلان کر دیا کہ مجید کی منگنی ختم ہو گئی ہے۔

جب یہ خبر شبانہ کے کانوں نے سنی اس کے تن مردہ میں جان آگئی۔ اس کے خواب ایک بار پھر اس کی آنکھوں میں چمکنے لگے۔ اسی دوران اس کا ایک اچھار شتہ آیا مگر اس نے انکار کر دیا۔ اس سے مجید کی ہمت بڑھی اور اس نے گھر میں کہہ دیا کہ میں شبانہ کے سوا کسی اور سے شادی نہیں کروں گا۔ تینوں بہنیں ماں کی طرف تھیں، جبکہ والد صاحب بیٹے کی طرف۔ بے شک مجید باپ کی حمایت پا کر خوش تھا لیکن وہ ماں کے گھر سے چلے جانے پر افسردہ بھی بہت تھا۔ ماں پھر ماں ہوتی ہے ، بھلا ماں کو خفا کر کے کون خوش رہ سکتا ہے۔ میں تو مجید کے ساتھ تھی۔ اپنے پریشان بھائی کو تسلی دیتی تھی کہ تم امی کو منا کر لائو ، اور باتیں بعد میں دیکھی جائیں گی کیونکہ بابا جان تو اب ان کو منانے نہیں جائیں گے ، تم ہی جائو گے۔ ہم دونوں بہن بھائی ماموں کے گھر گئے اور انہیں منا کر گھر لے آئے۔ یہ فیصلہ ہوا کہ مجید نہ تو ماں کی پسند سے شادی کرے گا اور نہ باپ کی پسند سے۔ کچھ دن خاموشی رہی، پھر بھائی نے والدین کو اپنی پسند سے آگاہ کرتے ہوئے کہہ دیا کہ شادی وہ شبانہ سے کرے گا، ورنہ گھر سے چلا جائے گا۔ بیٹے کی محبت دیکھ کر والدین راضی ہو گئے۔ یوں اس کی شادی میرے بھائی سے ہو گئی۔ قصہ یہاں ختم ہو جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ اس شادی پر تمام خاندان والے ناخوش تھے ، خاص طور پر تمام ننھیال ناراض تھا۔ وہ امی سے کہتے کہ منگنی کر کے توڑ لی ، اب اس بہو کو چلتا کرو۔ کیا تمہارا ادماغ خراب ہے کہ ایسی بہولے آئی ہو جس کو اس کے والدین نے جہیز تک نہیں دیا۔ ماں ان سے کہتیں، کیا کروں جب میر الڑکا اپنی بیوی کو اس قدر چاہتا ہے تو میں کچھ نہیں کر سکتی۔ اس پر رشتہ دار عورتوں نے ان کو اکسایا کہ تم بہو کے بارے بیٹے کے دل میں برائی ڈالو۔ تا کہ اس کا دل بیوی سے اچاٹ ہو جائے ، یوں تم اس کو طلاق دلوا کر اپنی بھتیجی لا سکتی ہو۔ امی نے ایسا نہ کیا، مگر جب بھابھیوں نے بہت کان کھائے تو رفتہ رفتہ ان بد خواہ عورتوں کا اثر قبول کر لیا اور بیٹے سے بے اعتنائی برتنی شروع کر دی۔ امی نے بہو پر کوئی برا الزام تو نہ لگا یا لیکن میری بڑی بہنوں نے یہ کیا کہ پہلے شبانہ کا دل اپنی مٹھی میں لے لیا، پھر ان کے دل میں بھائی کی طرف سے کچھ ایسی غلط فہمیاں پیدا کر دیں کہ اس سادہ لڑکی نے نندوں کی کہی باتوں پر یقین کرنا شروع کر دیا۔ اب جب بھی مجید گھر آتا، بیوی اسے اکھڑی اکھڑی ملتی۔ وہ سبب پوچھتا تو شبانہ کچھ نہ بتاتی کہ نندوں نے قسم دی تھی کہ ہمارامت بتانا۔ امی کے سامنے یہ سب ہو رہا تھا۔ انہوں نے بھی بھیجی کی منگنی ٹوٹنے کے دکھ کو دل سے فراموش نہ کیا تھا، تب ہی ایک مجرمانہ چپ سادھے ر ے رکھتی تھیں۔ اب شبانہ تو نندوں سے گھلی ملی رہتی مگر اپنے شوہر سے اس کی بے رخی بڑھتی جاتی تھی، جس کی وجہ مجید بھائی سمجھ نہ پائے تھے اور پریشان رہنے لگے ۔ وجہ معلوم ہو تو انسان کچھ نہ کچھ تدارک کر لیتا ہے، لیکن یہاں تو عجیب معاملہ تھا کہ بیوی کچھ بتائی بھی نہیں تھی اور کئی کئی بھی رہتی تھی۔ اس صورت حال سے میرا بھائی تنگ آگیا۔ اس کا اپنی بیوی سے بلاوجہ جھگڑا رہنے لگا۔ بھائی کو احساس ہونے لگا کہ شبانہ اس پر شک کرتی ہے ، وہ بہت حیران تھا کہ آخر اسے کیا ہو گیا ہے۔ شبانہ کبھی بھائی کے کپڑے سونگھتی، کبھی تیکے تھنکے سوال داغنے لگتی۔ بھائی بس اس کا منہ ہی تکتارہ جاتا تھا۔

ایک دن بھائی ان کو بتائے بغیر ہی میکے چلی گئی۔ کچھ دن سے وہ سخت بے زار نظر آتی تھی۔ وہ شبانہ کو منانے گئے ، ہاتھ جوڑے، قسمیں دیں مگر اس بندی نے کوئی جواب نہ دیا۔ بالآخر بلی تھیلے سے باہر آہی گئی۔ ایک دن مجید بھائی کے دوست کی بیوی رخسانہ جو میری بھی سہیلی تھی، ان کے آفس گئی اور ان سے پوچھا۔ مجید بھائی سچ بتائیے کہ آپ کی زندگی میں کون سی دوسری لڑکی آگئی ہے اور شبانہ میں آخر کیا کمی ہے ، اس پر کیوں سو تن لا رہے ہیں ، اس کا قصور کیا ہے ؟ وہ حیران رہ گئے کہ یہ کیا کہہ رہی ہے۔ بھائی نے کہا۔ رخسانہ بھا بھی یہ آپ سے کس نے کہا ؟ میں تو اپنی بیوی کے سوا کسی سے محبت نہیں کرتا۔ یہ کس نے غلط فہمیاں پھیلائی ہیں ؟ اگر شبانہ کو کسی نے بہ کا یا تھا تو مجھ سے تو کچھ پوچھتی۔ وہ کبھی آپ سے کچھ پوچھے گی اور نہ کبھی بتائے گی کیونکہ آپ کی بڑی بہنوں نے اسے قسم دے رکھی ہے اور یہ سب غلط فہمیاں ان کی ہی پھیلائی ہوئی ہیں۔ مجھے بھی ربیعہ نے یہ سب بتا کر آپ کے پاس بھیجا ہے کیونکہ وہ امی سے ڈرتی ہے ، آپ کو کچھ نہیں بتا سکتی اور بڑی بہنوں سے بھی۔ شبانہ کو وہی باور کراتی ہیں کہ کسی ناصرہ نامی لڑکی سے مجید کا تعلق ہے۔ اس کے ساتھ وہ ہوٹل وغیرہ جا کر کھانا کھاتے ہیں۔ آپ کی بہنوں نے یہاں تک شبانہ سے کہا ہے کہ لگتا ہے ہمارا بھائی تمہیں چھوڑ کر ناصرہ سے شادی کرلے گا۔ مجید نے حیران ہو کر یہ ساری باتیں سنیں۔ یقین ہی نہ آتا تھا کہ اس کی بہنیں ایسی ہو سکتی ہیں جو اس کی اچھی بھلی خوش و خرم زندگی کو تباہ کرنے پر تلی تھیں۔ بھائی نے کہا کہ شکریہ ، رخسانہ بھا بھی آپ آفس تک آگئیں اور میر اگھر بچا لیا ہے۔ دراصل رخسانہ کو میں نے ہی مجبور کر کے بھائی کے پاس بھیجا تھا، مگر منع کر دیا تھا کہ میر امت بتانا، ورنہ امی مجھ کو نہ بخشیں گئی۔ مجید نے کہا۔ رخسانہ بھا بھی میں تو اسے آزاد کر دینے کی بات سوچنے لگا تھا سمجھ رہا تھا کہ اس نے جذبات میں آکر مجھ سے شادی کی ہے۔ اگر عورت کو غلط فہمی ہو سکتی ہے تو مرد کو بھی تو ہو سکتی ہے ، جب عورت بغیر وجہ بتائے عرصے تک اپنے شوہر سے بے رخی اختیار کرلے۔ میں تو آفس کے کام کی زیادتی کے سبب ان دنوں دیر سے گھر پہنچتا تھا۔ گھر آکر بہنوں کو بلوایا اور ان سے پوچھا۔ بڑی بہنیں تھیں، مجید سے ڈرتی نہ تھیں مگر آج اس کا انداز ایسا تھا کہ سچ نہ بتاتیں تو وہ ان دونوں کے شوہروں سے جاکر پوچھ لیتا، تاہم مجید نے خود پر قابو رکھا، وہ بہنوئیوں کی طرف نہیں گیا اور سچ بہنوں کے منہ سے ہی اگلوالیا۔ ان کو سچ بولتے ہی بنی۔ مجید کو بہت صدمہ ہوا مگر اس صدمے کو بھی سہ لیا اور بیوی کو جا کر ساری بات سمجھائی۔ تب شبانہ کو اس کے والدین نے بھی سمجھایا بجھایا۔ اس طرح اس کے والدین بیٹی کو خود اس کے شوہر کے گھر چھوڑ گئے۔ شبانہ بھابھی نے ان دنوں بچی کو جنم دیا تو اس بچی نے بھی ماں، باپ کو پھر سے محبت کی شیریں رشتے میں جوڑ دیا اور ان میں صلح ہو گئی۔ صد شکر کہ میرے بھائی اور بھابھی نے ایک بار اور ایک دوسرے کو معاف کیا اور اب پھر سے خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔

Latest Posts

Related POSTS