بھائی راحت نہایت خوش مزاج اور لوگوں میں گھل مل جانے والے تھے۔ وہ نام کے ہی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں سب کے دلوں کی راحت تھے۔ غیروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا دوستوں کے ساتھ بہترین برتائو، حتی کہ وہ دوسروں کی مدد بھی کرتے تھے۔ جہاں ان میں اچھائیاں تھیں، وہاں کچھ خامیاں بھی تھیں۔ وہ جب خرچ کرتے تو کل کی نہ سوچتے، کھلے ہاتھ سے خرچہ کرتے تھے ، ضدی اور اپنی من مانی کرنے والے بھی تھے۔ اپنے چھوٹے بھائیوں پر ان کا بہت رُعب اور دبدبہ تھا۔ چونکہ وہ سب سے بڑے تھے۔ والد صاحب کے بعد گھر کے سرپرست بھی تھے۔ والد صاحب مالدار آدمی تھے اور اس دُنیا سے جانے سے وہ ہمارے لئے بہت کچھ چھوڑ گئے تھے۔ دُنیا کی تمام آسائشیں ہمارے پاس موجود تھے۔ زمین، جائیداد ، گاڑیاں، نوکر چاکر ، بنگلہ ، گھر ، دوکانیں، غرض ہمارے پاس کیا کچھ نہیں تھا۔ ہر نعمت ہمارے پیارے آباجان، اولاد کے لئے چھوڑ گئے۔ وہ بہت دُور اندیش تھے ، جبکہ بڑے بھائی، بہت لاپروا قسم کے انسان تھے۔ والد کی وفات کے بعد شروع میں سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ بھائی نے دو بہنوں کی منگنیوں پر بہت پیسہ خرچ کیا۔ امی انہیں بہت سمجھاتیں کہ پیسہ اس طرح برباد مت کرو مگر بھائی کو فضول خرچی اور آئے دن کی سیر و تفریح نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا، تبھی بہنوں کی شادیاں سر پر آپہنچیں۔ اب بھائی کو فکر ہوئی کہ اتنے پیسے کہاں سے آئیں گے ؟ بھائی نے والد صاحب کا سابقہ مکان بیچ کر ایک بہن کی شادی کی اور اس کے بعد رفتہ رفتہ دکانیں اور گھر کی ایک ایک چیز مثلاً موٹر بائیک ، گاڑیاں، وغیرہ بکنا شروع ہو گئیں۔ انہی دنوں بھائی راحت کسی لڑکی کے عشق میں مبتلا ہو گئے۔ وہ لڑکی آئے دن سیر و تفریح کے مقامات، شاپنگ مالز اور ریستورانوں میں راحت بھائی کے ہمراہ، جاننے والوں کو نظر آتی۔ وہ آکر امی کو بتاتے کہ آپ کا بیٹا جس لڑکی کے ساتھ نظر آرہا ہے وہ ٹھیک نہیں ، نہ اس کا خاندان ٹھیک ہے۔ امی فکر مند ہو کر راحت بھائی سے پوچھتیں، وہ کوئی بہانہ بنا لیتے لیکن عشق بھلا کب چھپتا ہے۔ گھر کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے۔ دو چھوٹے بھائی پڑھائی چھوڑ کر مجبور کسی کے پاس نوکری پر لگ گئے۔ ان کی تنخواہ سے گھر کا خرچہ چلتا تھا۔ بھائی کو عشق نے اندھا کر رکھا تھا۔ وہ آئے دن امی سے جھگڑتے کہ آپ مجھے کام پر جانے کے لئے مت کہا کریں۔ اگر کام کروں گا تو اپنا کاروبار ہی کروں گا۔ میں کسی کی ملازمت نہیں کر سکتا۔ اب روز اس بات پر آمی اور بھائی کی بحث ہوتی ، تب بھائی غصے میں آکر کبھی برتن توڑتے اور کبھی کچھ کرتے ، تب ماں نے ان سے اس موضوع پر بات کرنا بند کر دی۔ ان کو اپنے بڑے بیٹے سے بہت محبت تھی، ہم کل گیارہ بن بھائی تھے اور انہیں اپنی چھ بیٹیوں اور پانچ بیٹوں میں سے سب سے زیادہ راحت بھائی سے پیار تھا۔ وہ ان کی ممتا کی کمزوری تھے۔ شاید سب مائوں کو اپنی پہلی اولاد سب سے زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ ایک دن راحت بھائی نے امی سے کہا کہ فلاں جگہ میرے لئے رشتہ دیکھنے جائیے۔ اس دن بھائی بہت خوش تھے۔ امی باجی کے ساتھ لڑکی دیکھنے گئیں۔ وہ لڑکی ایسی بے باک، تیز طرار اور فیشن ایبل تھی کہ میری ماں تو اسے دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ امی نے گھر آکر بھائی سے کہا کہ ہم ان لوگوں میں رشتہ ہرگز نہ کریں گے ، لڑکی اور اس کے گھر والوں کا طور طریقہ مجھے پسند نہیں۔ بھائی یہ سُن کر بھرک گئے۔ بولے۔ آپ دقیانوسی باتیں مت کریں۔ آپ تو پہلے زمانے کی ہیں ،اب زمانہ بدل گیا ہے۔ ان باتوں سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ بس میری خوشی اور پسند کو اہمیت دیں۔ میں نے آپ کو ماں جان کر مان دیا ہے ، ورنہ لڑکے اپنی مرضی سے بھی شادی کر لیتے ہیں۔ مجبور ہو کر گھر والوں نے ان کے آگے گٹھنے ٹیک دیئے۔ یوں شبنم ہمارے گھر میں بہو بن کر آگئی۔ شبنم کی تین بہنیں اور دو بھائی تھے۔ بڑی بہنوں نے اپنی پسند سے شادیاں کیں مگر تینوں نے طلاق لی اور بعد میں دوسری شادی بھی اپنی پسند سے کی۔ ان کی یہ ہسٹری دیکھ کر امی کا دل سہم گیا کیونکہ ہمارے گھرانے کی لڑکیاں حتی الا مکان اپنے شوہروں سے نباہ کی کوشش کرتی تھیں۔ خیر ہم لڑکی رُخصت کرانے گئے تو رخصتی کے وقت ہم سے ان کی دو بہنیں لڑنے لگیں ۔ یہ شروعات تھی، مگر ہم عزت دار تھے۔ سب کچھ نظر انداز کر کے امی نے عاجزانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے بہو کی رخصتی کی۔ شروع میں شبنم ٹھیک رہی مگر پھر کچھ انداز بدلنے لگے۔ وہ جتنے دن ہمارے پاس رہتی ، ٹھیک رہتی جب اپنے میکے سے واپس آتی تو مزاج بدلا ہوتا۔ دراصل شبنم نے بھائی کی ظاہری ٹپ ٹاپ دیکھ کر یہ سمجھا کہ دولت مند گھرانہ ہے، کو ٹھی کار سب کچھ ہے۔ جب گھر آگئی اور پتا چلا کہ میاں تو کچھ نہیں کماتا، گھر کا خرچہ ان کے چھوٹے بھائیوں کی کمائی سے چلتا ہے تو وہ ہاتھ ملنے لگی کہ آگے تو کچھ بھی نہیں۔ اب آئے دن بھائی سے جھگڑتی اور میکے چلی جاتی، کھانے پینے پر جھگڑا کرتی۔ تنگ آکر امی نے کچن علیحدہ کر دیا۔ ہمارے گھر میں دو کچن تھے ۔ نچلی منزل پر مین کچن جو بڑا تھا اور اوپر کی منزل پر چھوٹا تھا۔ بھائی کوئی کام تو کرتے نہیں تھے ، اس لئے وہ علیحدہ ہو کر خوش نہ تھے مگر بیوی عجب سوچ کی مالک تھی۔ جو بات ذہن میں آتی ، ضد کرتی کہ ابھی پوری کرو۔ اب انہوں نے فرمائش کر دی کہ اس کچن کو اسٹور بنا دو اور دوسرا بڑا کچن تعمیر کرا دو، اس میں مجھے گرمی لگتی ہے۔ راحت بھائی نے کھچ کھچ سے بچنے کے لئے کسی سے رقم ادھار لی اور اوپر کی منزل پر کھلی جگہ پر خود ہی کچن تعمیر کیا۔ انہیں ہر قسم کا ہنر آتا تھا مگر وہ کسی کے ہاں ملازمت نہیں کرنا چاہتے تھے۔ بیوی کی روز روز کی فرمائشوں سے تنگ آکر وہ دوستوں سے قرض لیتے اور شبنم بھابھی کی فرمائشیں پوری کرتے۔ بھابھی کو بھائی کی مجبوریوں سے کوئی غرض نہ تھی ، ان کو بس اپنی خواہشات سے پیار تھا۔ روز کے جھگڑوں کی وجہ سے پاس پڑوس کے لوگوں نے ہم سے دوری اختیار کر لی، یہی نہیں میری بہنوں نے میکے آنا بند کر دیا کیونکہ بھابھی ان کے بچوں کو بھی برداشت نہیں کرتی تھیں۔ اب ہم اپنے ہی گھر میں غیروں کی طرح رہتے اور غیر اپنی من مانی کرتے۔ آئے دن بھابھی کے میکے سے کبھی ان کی کوئی بہن، کبھی ماں آتی اور کئی دن بیٹی کے گھر ٹکی رہتیں۔ بھابھی خصوصی کھانے ان کے لئے بنوا تیں، ہمارے ریفریجریٹر میں جتنا چکن اور مٹن ہوتا، لے جاتیں۔ پھل فروٹ سب اُوپر چلے جاتے۔ وہ کسی سے اجازت لینا یا پوچھنا بھی گوارا نہ کرتیں۔ امی منہ تکتی رہ جاتیں۔ یہ روز کا معمول تھا۔ والدہ اب روزانہ کا سودا منگوانے لگیں مگر اس میں بھی دقت تھی کہ روزانہ چکن یا مٹن اور بیف کا گوشت لینے کون جاتا؟ دونوں بھائی کام پر چلے جاتے اور چھوٹے کالج ۔ جو کھانا بھابھی اوپر کچن میں بناتیں وہ تھوڑا سا بھی پلیٹ میں ڈال کر نہ لاتیں کہ امی آپ چکھ لیں، لیکن ان کے میکے سے مہمان آتے تو ہمارے کچن میں جو کھانا پکا ہوتا، بے تکلف جس قدر ضرورت ہو ، لے جاتیں اور ہمیں اپنے لئے فوری طور پر انڈوں وغیرہ کا سالن بنانا پڑتا مگر اپنے بھائی کی عزت اور خوشی کی خاطر شبنم کو کچھ نہ کہتے۔ امی جو خرچہ بھائیوں سے لیتیں تھیں، وہ تمام شبنم بھابھی کے اللوں تللوں پر خرچ ہونے لگا اور امی کو گھر کا بجٹ پورا کرنے کے لئے کبھی اپنی بہنوں کبھی بھائیوں سے ادھار مانگنا پڑتا۔ میری امی جھگڑا کرتی تھیں اور نہ جھگڑا چاہتی تھیں۔ برداشت کرتے کرتے وہ بیمار پڑ گئیں۔ وہ اب اکثر بیمار رہنے لگیں، غرض سال کے اندر اندر اس عورت نے گھر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ راحت بھائی پریشان تھے ہی دوسرے بھائی گھر کی بے سکونی اور آماں کی حالت دیکھ دیکھ پریشان ہو رہے تھے۔ بھابھی نے کان بھر بھر کر بھائیوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا، گھر میں اب بٹوارے کی باتیں شروع ہو گئیں۔ بڑے بھائی بھی بیوی کے اس رویے سے خوش نہیں تھے مگر برداشت کر رہے تھے۔ آخر کار انہوں نے یہ باتیں دل کو لگانا شروع کر دیں۔ وہ بھی امی کی پریشانی کو نہیں دیکھ سکتے تھے۔ انہوں نے کاروبار کے لئے ہاتھ پیر مارنے شروع کر دیئے۔ اتنے عرصے میں اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک فرزند اور بعد میں ایک بیٹی سے نوازا۔ فیضان کے آنے سے گھر میں رونق آگئی لیکن بھابھی نے اپنی والدہ اور بڑی بہنوں کے کہنے پر پھر سے بٹوارے کی باتیں شروع کر دیں۔ بھائی اپنی بیوی کو چھوڑ بھی نہیں سکتے تھے۔ ایک تو دو چھوٹے بچے ہو گئے تھے پھر ان لالچی لوگوں نے حق مہر میں اتنا کچھ لکھوا لیا کہ بھائی وہ ادا ہی نہیں کر سکتے تھے۔ اب ماں اور چھوٹے بھائیوں پر سارا بوجھ تھا کہ وہ اس عورت کی ہر ڈیمانڈ کو پورا کریں۔ اس بار انہوں نے نئی فرمائش کر دی کہ اگر علیحدہ گھر نہیں لے سکتے تو مجھے نچلی منزل میں شفٹ کر دو اور باقی سب اوپر کی منزل لے لیں۔ راحت بھائی نے بیوی کو سمجھایا کہ میری ماں بوڑھی ہیں، سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتیں اور میرے بہن بھائی گھر کے اتنے افراد اوپر کی منزل میں نہیں سما سکتے کیونکہ اوپر کا پورشن آدھے رقبے پر بنا ہوا تھا اور باقی آدھی چھت کھلی تھی جس پر ٹیرس بنا ہوا تھا اور پھر ڈرائنگ روم بھی چھوٹا تھا اور ٹی وی لائونج دو بیڈ روم تھے۔ بھائی اور بھابھی کے لئے فی الحال اتنا گھر کافی تھا مگر شبنم بھا بھی کے دماغ میں تو ہم کو تنگ کرنے کی باتیں ہی آتی تھیں۔ شوہر کے سمجھانے پر بھی نہ مانیں اور کھلی جنگ کرنے لگیں۔ اتنا جھگڑا ہوا کہ امی رونے لگیں ، امی کو دکھی دیکھ کر اس ہنگامے کے دوران راحت بھائی کے سینے میں درد ہوا۔ درد کی شکایت زیادہ تھی۔ فورا چھوٹے بھائی ان کو ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹر نے دل کا پہلا دورہ بتایا، جس کی وجہ سے گھر والے سب پریشان ہو گئے مگر ان کی بیوی کی وہی ایک رٹ تھی۔ بھائی نے کسی کی گاڑی چلانا شروع کر دی کہ بچوں کے اخراجات خود اٹھا سکیں اور امی پر کچھ بوجھ ہلکا ہو۔ وہ نازوں پلے تھے ، اب کئی کئی دن ان کو گھر سے باہر رہنا پڑتا۔ جب واپس آتے ان کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی۔ میں سوچتی کیا یہ میرے وہی بھائی ہیں جو بہت صحت مند تھے۔ چار سال کے اندر انہیں کیا ہو گیا ہے۔ ڈاکٹروں کے پاس گئے تو انہوں نے راحت بھائی کو سفر اور ڈرائیونگ سے منع کر دیا مگر بیوی کے اصرار پر انہوں نے پھر سے ڈرائیونگ شروع کر دی۔ امی اور دوسرے بہن بھائیوں نے منع کیا۔ بھابھی سے بھی کہا کہ بھائی کو سفر مت کرنے دیں تو وہ بولی۔ اگر آپ کا بھائی کام پر جانے ہی لگا ہے تو اب آپ ان کا دل کام سے مت ہٹایئے۔ اس مرتبہ بھائی کو ٹور پر جانے کے لئے سب نے بہت روکا۔ راحت بھائی کا دل بھی جانے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ ان کی اُداس اور حسرت بھری آنکھیں امی کو دیکھتیں کیونکہ امی سے بات کئے ہوئے ان کو دو ماہ ہو چکے تھے۔ وہ ماں کو بلانا چاہتے تھے مگر اس دن سب پریشان تھے۔ بھائی کے جانے کے بعد امی نے بہت دُعائیں کیں کہ یا اللہ میرا بیٹا صحیح سلامت واپس آجائے۔ وہ رات کو بہت رویا کرتی تھیں مگر یہ رونا ایک دن کا نہیں رہا بلکہ ہم سب کے لئے زندگی بھر کا بن گیا۔ انہیں گئے دو دن ہوئے تھے کہ فون آگیا کہ راحت بھائی کا ہارٹ فیل ہو گیا ہے اور وہ ساہیوال کے کسی گائوں میں ہیں۔ یہ دسمبر کی سخت سردیوں کی قیامت خیز رات تھی۔ بھائی کی وفات کی خبر ہم کو تین بجے رات کو ملی۔ گھر میں کہرام برپا ہو گیا۔ کوئی کہتا یہ نہیں ہو سکتا کسی نے مذاق کیا ہو گا مگر ایسا نہ تھا۔ بھا بھی میکے گئی ہوئی تھیں۔ جہاں راحت بھائی کام کرتے تھے ، میرے چھوٹے بھائی نے وہاں معلوم کیا۔ تفصیل دریافت کی تو پتا چلا کہ خبر درست ہے۔ راحت بھائی کا جسد خاکی اگلی رات بارہ بجے لایا گیا۔ بہنوں کے سر سے بڑے بھائی کا شفقت بھرا ہاتھ اٹھ گیا۔ ہم بہنیں پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھیں۔ ماں کا بار بار یہ کہنا کہ ہائے میرے بیٹے تو اپنی ماں سے کچھ دن روٹھتا، مگر یہ کیا .. تونے تو عمر بھر کے لئے مجھے رونے کو چھوڑ دیا ہے۔ شبنم بھابھی نے تو عدت بھی پوری نہ کی اور اپنا ساز و سامان اٹھا کر میکے چلی گئیں۔ بھائی کی وفات کے بعد اس نے ہمارے گھر صرف آٹھ دن گزارے اور بولی۔ اب میرا آپ لوگوں سے کیا لینا دینا۔ ہم سب نے بڑی منت کی کہ راحت بھائی کے بچے ہم کو بھی پیارے ہیں، آپ یہیں رہ جائیں۔ ہم ان کا خرچہ پورا کریں گے۔ آپ کو کوئی شکایت نہ ہو گی۔ میرے بھائیوں نے بھی منت کی مگر وہ نہ مانیں۔ میری ماں بچوں کو گلے سے لگانے کو تڑپتی رہ گئیں۔ تقریباً دو سال بعد وہ ایک دن ہمارے گھر آئی اور امی کے پیر پکڑ کر رونے لگی۔ کہا کہ آپ جیسی ماں اور ساس تو چراغ لے کر ڈھونڈے سے بھی کسی کو نہ ملے گی۔ مجھے معاف کر دیں۔ میں نے آپ لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا مجھے اپنے گھر میں جگہ دے دیں مگر امی نے کہا۔ نہیں بیٹا! تم اپن قیمتی رشتہ ضائع کر چکی ہو۔ جب سب سمجھاتے تھے تم ان کو دشمن سمجھ رہی تھیں۔ اب جو ہو گیا سو ہو گیا۔ یہ بربادیاں تم نے خود اپنے مقدر میں لکھی ہیں۔ اب میں کچھ نہیں کر سکتی۔ میری دوسری بہویں آ گئی ہیں، اب تمہاری جگہ نہیں ہے۔ اتنا کر سکتی ہوں کہ جب تک زندہ ہوں ، اپنے پوتے پوتی کا خرچہ حسب توفیق بھجواتی رہوں گی مگر تم کو نہیں رکھ سکتی۔ مجھے اپنے جوان بیٹے کی بے بسی اور موت یاد آ جاتی ہے۔ بھابھی کو دراصل ان کے بھائیوں نے گھر سے نکال دیا تھا اور بہنوں نے بھی رکھنے سے انکار کر دیا تھا تبھی ان کو ہم یاد آ گئے۔ امی نے چھوٹے بھائیوں سے کہا کہ ساری جائیداد تو بک گئی ہے ، ایک پلاٹ ہے۔ میری پوتی اور پوتا یتیم ہو گئے ہیں۔ اس پر دو کمرے ڈلوا دو تو میں شبنم کو بچوں کی خاطر رہنے کی وہ جگہ دے دوں گی تاکہ میرے بیٹے کے بچے در بدر نہ ہوں۔ بھائیوں نے ماں کا کہا مانا اور خالی پلاٹ پر دو کمرے بچن اور غسل خانہ بنوا کر رہنے کو مکان شبنم بھابھی کو دے دیا اور شرط رکھ دی کہ جب تک آپ دوسری شادی نہ کریں گی یہ مکان آپ کے پاس رہے گا، جب ہمارے بھائی کے بچے بڑے ہوں گے۔ ہم ان کے نام کر دیں گے مگر بنگلے میں سے حصہ نہیں دیں گے۔ یہ مکان تمہارے بچوں کا ہے کیونکہ یہ ہمارے بچے ہیں اور یہ رشتے ٹوٹتے نہیں ہیں۔ وہ جو در بدر ہو رہی تھی، اس کے لئے اتنا کافی تھا۔ اب ہر ایک سے کہتی، میرے سُسرال والے خاندانی اور اچھے لوگ تھے ، اے کاش ! مجھے ان کی پہلے قدر آجاتی۔