چھ ماہ کی تھی جب مجھے پرورش کرنے والا کوئی نہ رہا۔ دادا نے ایک رشتے دار عورت کے حوالے کر دیا جو گائوں میں رہتی تھی، اُس نے میری پرورش کی۔ سات سال کی ہوگئی تو دادا واپس لے آئے اور چچی کے سپرد کر دیا۔ وہ شفیق عورت تھیں ،مجھے پیار سے رکھا۔ چچا بھی پیار کرتے تھے۔ میں ان کے گھر میں بہت خوش تھی۔ دادا تو جان سے بڑھ کر چاہتے تھے۔ کہتے تھے۔ یہ میرے مرحوم بیٹے اور بہو کی نشانی ہے۔
لڑکیاں آکاش بیل کی طرح بڑھتی ہیں۔ دیکھتے دیکھتے میں نے بھی قد کاٹھ اور رنگ رُوپ نکال لیا، تبھی دادا کو میرے بیاہ کی فکر لاحق ہوگئی۔ ان کی نظر میں میرا چچازاد کمال تھا جو ایک پڑھا لکھا نوجوان تھا مگر کچھ غلط قسم کے دوستوں میں پھنس گیا تھا، تبھی دادا سوچ میں ڈُوبے رہتے۔ چاہتے تھے کہ ہم دونوں کا نکاح کر دیں لیکن کمال کی غلط روش سے ڈرتے تھے کہ نجانے میری یتیم پوتی کا یہ کیا حشر کرے۔ اِدھر کمال تھا کہ اُسے اپنی دولت اور وقت کے زیاں کا احساس نہ تھا۔
لوگ دادا کو ان کے پوتے کے بارے میں طرح طرح کی باتیں بتاتے تو وہ بے حد فکرمند ہوجاتے۔ جس قدر بن پڑتا، نصیحت کرتے کہ بُرے دوستوں سے بچو اور فضول خرچی سے ہاتھ روکو مگر کمال ان کی نصیحتوں کو ایک کان سے سُنتا اور دُوسرے سے اُڑا دیتا۔
ان دنوں وہ اپنے ماموں کے پاس رہا کرتا تھا۔ یونی ورسٹی میں پڑھ رہا تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب وہ ایک روز دادا کے گھر آیا تو میں اُسے دیکھ کر حیران رہ گئی۔ بچپن میں دیکھا تھا، تب وہ معمولی شکل و صورت کا دُبلا پتلا سا لڑکا تھا، مگر اب ایک وجیہ نوجوان کا رُوپ دھار چکا تھا۔ اس نے مجھے دیکھا تو وہ بھی ٹھٹھک کر رہ گیا۔ دادا جان سے کہا۔ میں آپ کا تابعدار اور فرمانبردار رہوں گا، میری شادی نازنین سے کرا دیجئے۔ دادا تو پہلے ہی ایسا چاہتے تھے، پس ہمارا جھٹ پٹ بیاہ ہوگیا۔
شروع دنوں میں وہ دادا کے گھر میرے ساتھ ہی رہا۔ ہم بے حد خوش تھے۔ جلد ہی کمال زندگی کی یکسانیت سے اُکتانے لگا۔ اس کا دل مجھ سے اُچاٹ ہوگیا تو اس نے کہا کہ تم فی الحال دادا جان کے گھر رہو۔ مجھے پشاور جانا ہے، میں آتا جاتا رہوں گا۔
شروع میں ہر ہفتے آ جاتا۔ پھر اُس کا رویہ بدلنے لگا۔ جب آتا بیگانہ سا لگتا۔ اُسے میرا زیادہ بولنا پسند نہ آتا، میرے ہاتھ کا پکا کھانا بھی اچھا نہ لگتا۔ اب وہ کئی کئی ماہ گھر نہ لوٹتا۔ شکایت کرتی اور زیادہ دن غائب ہو جاتا۔ میں نے سوچا تھا ہماری شادی ہوجائے گی تو کمال کو اتنی محبت دوں گی کہ وہ بُری صحبت سے دُور ہو جائے گا، میرا ہو کر رہے گا۔ یہ میری خام خیالی تھی۔ وہ اب میرے نزدیک رہ کر بھی مجھ سے دُور تھا۔ بالآخر میں نے صبر کر لیا شاید عیش پسندی اُس کی نس نس میں سرایت کر چکی تھی۔
بدقسمتی سے دادا جان کی وفات کے کچھ ہی عرصے بعد کمال کے والد بھی انتقال کرگئے اور وہ آزاد پنچھی کی طرح ہوگیا۔ اب اُسے قید کرنے اور روک ٹوک کرنے والا کوئی نہ رہا۔
اس کی اور میری جائداد مشترکہ تھی جسے کمال نے رفتہ رفتہ اونے پونے فروخت کرنا شروع کر دیا۔ وہ مسلسل وراثت کی دولت کو ختم کرتا رہا اور عیاش دوستوں کو خوش کرتا رہا۔
آخر کار یہ جائداد کب تک ساتھ دیتی۔ جب ہر شے نیلام ہوگئی تو نتیجے میں وہ تہی دست ہوگیا۔ تب وہ لوگ جو اُس کی دوستی اور وفا کا دَم بھرتے تھے، اس سے آنکھیں چُرانے لگے۔ دُنیا کی بے وفائی سے دل برداشتہ ہو کر ایک روز وہ غائب ہوگیا۔ کسی رشتے دار کو اپنا پتا تک نہ بتایا۔
جب وہ چلا گیا تو مجھے رونے سے کام تھا۔ میری حالت پر چچی اور دیگر عزیز رشتے دار کڑھتے تھے لیکن وہ کچھ نہ کر سکتے تھے۔ اُسے ڈھونڈ کر نہیں لا سکتے تھے۔ اللہ جانے کمال کہاں جا چھپا تھا۔ بالآخر ایک روز اس کے ایک دوست کے توسط سے پتا ملا تو چچی اُس کو منا کر لے آئیں۔
جب کمال کو علم ہوا کہ کچھ زمین، دادا جان الگ سے میرے نام کر گئے ہیں تو وہ میرے سر ہوگیا کہ یہ زمین مجھے دے دو مگر چچی نے ایسا نہ ہونے دیا۔ جانتی تھیں کہ وہ اس جائداد کو بھی فروخت کر دے گا۔ اس بات سے کمال مزید مجھ سے ناراض ہوگیا اور ہمیشہ کے لیے ناتا توڑ کر چلا گیا۔ اس طرح جیسے کبھی میری زندگی میں آیا ہی نہ تھا۔ اس نے مجھے طلاق نامہ بھجوا دیا کہ مجھے بھلا دو اور زمین کو عزیز رکھو، تمہیں میری نہیں، زمین کی ضرورت ہے۔
اس امر کا صدمہ سارے خاندان کو ہوا۔ خصوصاً کمال کی والدہ کو اَزحد غم تھا۔ روتی تھیں اور کہتی تھیں۔ اے کاش میں تیری زمین نہ بچاتی، طلاق کا دھبّا تو نہ لگتا۔
اب مجھے رونا بھی نہ آتا تھا کہ پیدائش کے دن سے ایسی بدقسمتی ساتھ لگی تھی۔ والدین رہے نہ دادا، شوہر نے بھی مطلقہ کردیا۔ زندگی میں خوشیوں کی آس کمال سے بندھی تھی۔ اس نے بھی پھونک مار کر محبت کا ٹمٹماتا چراغ بجھا دیا۔ میری زندگی میں اندھیرے بھر کر چلتا بنا۔ اس سے اچھا تھا اس سے میری شادی نہ ہوتی اور عمر بھر کنواری رہ جاتی۔
جب تک چچی زندہ رہیں، میری دل جوئی کرتی رہیں۔ ان کی وفات کے بعد کوئی میرا نہ رہا۔ کمال کو یاد کرتی تھی اور روتی تھی۔ دل میں کہتی تھی کہ کمال زمین لے لو مگر تم لوٹ آئو۔
دُعا قبول ہوگئی۔ کمال ایک بار پھر آ گیا مگر میری خاطر نہیں، زمین کی خاطر۔ اُس نے کہا۔ یہ میری والدہ کی زمین ہے، اسے مجھے دے دو کیونکہ مجھے اس کی سخت ضرورت ہے۔ ان دنوں میں بہت خستہ حال ہوں، خوددار ہوں کسی سے مانگ کر نہیں کھا سکتا اور نہ مزدوری کر سکتا ہوں۔ اب یہ زمین ہی میرے جینے کا سہارا بن سکتی ہے۔ وعدہ کرتا ہوں کہ اسے نہیں بیچوں گا بلکہ اس کے سہارے عزت کی زندگی جیوں گا۔
وہ مجھے طلاق دے چکا تھا۔ پھر بھی میں اُس کو تکلیف میں نہ دیکھ سکی۔ رشتے داروں کے منع کرنے کے باوجود میں نے وہ زمین جو ساس نے میرے نام کی تھی اسے دے دی۔ اس کے بعد کمال نے مجھ سے کوئی رابطہ نہ رکھا۔
اُسی زمین کی پیداوار سے میرا گزارہ چلتا تھا۔ جب زمین نہ رہی تو میں دانے دانے کو محتاج ہوگئی۔ رشتے داروں نے مجھ پر دبائو ڈالا کہ تمہارا کوئی کفیل اب نہیں رہا ہے، بہتر ہے کہ دُوسری شادی کر لو۔
دُوسری شادی میں نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ کمال کی یاد میں شمع کی مانند پگھلتی تھی لیکن بھوک بھی ایک ایسی عفریت ہے جو محبت کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
ماموں نے مجبور کر کے ایک روز میرا نکاح اپنے بیٹے سے کرا دیا۔ یہ نکاح ایک مجبوری تھی ورنہ میری رُوح زخموں سے چور تھی۔ پھر بھی مجھے زندہ رہنا تھا۔ زندگی اللہ کا عطیہ جو تھی۔
ماموں زاد میرے دُکھ کا خیال کرتا تھا۔ وہ میرے دُکھوں کا سانجھی بن گیا۔ اس نے مجھے ہر خوشی دینے کی کوشش کی لیکن جب ماضی کے بیتے دن یاد آتے تو دل تڑپ اُٹھتا۔
وقت گزرتا گیا۔ اللہ نے مجھے چار بچوں سے نوازا۔ دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہوگئے تو میرا گھر مکمل ہوگیا لیکن زندگی ابھی تک اَدھوری تھی۔ کمال میرے خاندان کا اکلوتا نام لیوا اور چشم و چراغ تھا۔ وہ میرا کزن بھی تھا۔ اس کی برباد زندگی کا دُکھ دل سے جانے کا نام نہ لیتا تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دادا کے خاندان کے افراد و رشتے دار ایک ایک کر کے اللہ کو پیارے ہوتے گئے۔ میں نے بھی بچوں میں کھو کر ہر غم کو بھلا دیا۔ پھر وہ وقت آگیا جب میں نے اپنے سے پیار کرنے والا غمگسار جیون ساتھی اپنے بچوں کے باپ کو بھی کھو دیا اور ایک بار پھر کفالت کرنے والے سےمحروم ہو کر بدحالی کا شکار ہوگئی۔
ان دنوں بے حد پریشان تھی۔ دونوں بیٹے تعلیم حاصل کر رہے تھے اور ان کی تعلیم مکمل ہونے میں ابھی دو سال باقی تھے، جوان تھے لیکن ابھی کمانے کے لائق نہ تھے۔ بچیاں چھوٹی تھیں۔ ان کے اسکول کی فیس دینے کے قابل نہیں رہی تھی جب گھر میں کھانے کو نہ ہو تو بچوں کو تعلیم کیونکر دلوائی جائے۔اسی بدحالی میں ایک روز اسکول ٹیچر کی نوکری ڈھونڈنے نکلی تو کمزوری سے چکر آ گیا اور سڑک کے کنارے گر پڑی۔ ایک شخص نے مجھے گرتے دیکھ کر کار روک لی، اُتر کر میری جانب آیا۔ میں بے سُدھ تھی، اُسے نہ پہچان سکی۔ اُس نے مجھے پہچان لیا، یہ کمال تھا۔ فوراً مجھے اپنی گاڑی میں ڈال کر قریبی کلینک لے گیا۔
ہوش آیا تو اس کو دیکھ کر حیران ہوگئی۔ ڈاکٹر نے کہا کہ یہ کمزوری کی وجہ سے بےہوش ہوگئی تھیں۔ اس نے کچھ طاقت کی دوائیں لکھ کر دیں۔
اس روز کمال کو پتا چلا کہ میں کن بُرے حالات سے گزر رہی ہوں۔ اب وہ میری خیریت دریافت کرنے کے لیے روز فون کرنے لگا۔ اس نے مجھے بتایا کہ حسب وعدہ وہ زمین اُس نے نہیں بیچی بلکہ اس کی خود دیکھ بھال کی۔ زمین زرخیز تھی جس کی وجہ سے وہ معاشی طور پر مضبوط ہوگیا۔ میرا شکرگزار تھا کہ بہت زیادہ تنگ دستی کے دنوں میں، میں نے اس کی والدہ کی طرف سے تحفتاً دی ہوئی زمین واپس کرکے اس پر احسان کیا اور اس کو معاشرے میں ذلت کی زندگی گزارنے سے بچالیا تھا۔
اب وہ میری مدد کرنا چاہتا تھا، دوبارہ شادی کی پیش کش کی مگر میں نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا کیونکہ میرے دونوں بیٹے جوان تھے۔ وہ یہ برداشت نہ کرسکتے تھے کہ ان کی ماں دوبارہ شادی کرے۔ اپنے بچوں کو میں کھونا نہ چاہتی تھی۔ اب یہی میرا سرمایۂ حیات تھے، بڑی مشکلات سہہ کر ان کو پروان چڑھایا تھا۔
انکار سُن کر کمال افسردہ ہو کر چلا گیا۔ میں بہت روئی۔ اس نے پھر فون کیا کہ شادی منظور نہیں، نہ سہی لیکن یہ زمین جو تم نے مجھے واپس کی ہے، دراصل تمہاری ہو چکی تھی اور جو جائداد پہلے میں فروخت کرتا رہا ہوں، اس میں بھی تمہارا حصہ تھا۔ ہماری وراثت مشترکہ تھی جو مجھ اکیلے نے اُڑا دی۔ اب تمہارا حق بنتا ہے کہ اس زمین کی پیداوار سے مجھ سے اپنے بچوں کے لیے خرچہ لو تا کہ یہ پڑھ لکھ کر اپنی اپنی منزلوں تک پہنچ جائیں۔
اس نے بہت اصرار کر کے مجھے قائل کر لیا اور مجبوراً میں نے ہامی بھرلی۔ یوں ہر ماہ وہ مجھے معقول رقم بھجواتا رہا جس سے گھر کے اخراجات پورے کرتی۔ کمال کو ٹھوکر لگ چکی تھی۔
جدائی کے ساتھ تنگ دستی کا دُکھ بھی اس نے جھیلا تبھی اُسے ہوش آیا۔ میرے بڑے بیٹے کی تعلیم مکمل ہو گئی مگر ملازمت کے حصول کے لئے ابھی ٹھوکریں باقی تھیں اور دَر دَر کے پاپڑ بیلنے تھے۔ وہ اسی تگ و دو میں تھا کہ بیٹی کا رشتہ آ گیا۔ رشتہ بہت اچھے گھرانے سے آیا تھا لہٰذا میں نے سوچ کر ہاں کہہ دی کہ بار بار اتنے اچھے رشتے نہیں آتے۔ انہوں نے منگنی کے دو ماہ بعد شادی کی تاریخ مانگ لی کیونکہ لڑکے کو بیرون ملک جانا تھا۔ کیا بتائوں ان دنوں کتنی پریشان تھی۔ تاریخ مقرر ہوگئی مگر رقم کا بندوبست دُشوار تھا۔ آخر کمال کو بتانا پڑا کہ بچی کی شادی کی تاریخ رکھ دی ہے مگر اُسے دینے کو میرے پاس کچھ نہیں ہے۔
فکر مت کرو۔ اس نے کہا۔ میں آ کر تمہیں زیورات اور رقم جتنی درکار ہے، دے جاتا ہوں۔ جگہ بتائو کہ کہاں آ کر دوں۔
میرا گھر ہی سب سے محفوظ جگہ ہے۔ گھر پر آ جائو مگر بچوں کو معلوم نہ ہو ورنہ وہ مجھ سے برگشتہ ہو جائیں گے۔ تم رات کو ایسے وقت آ جانا جب وہ سو جائیں۔
چار دن بعد کمال نے فون کیا کہ میں آنے سے پہلے فون کروں گا۔ بتا دینا کہ کتنے بجے آئوں۔
میرے بچّے جلد سونے کے عادی تھے۔ رات گیارہ کا وقت تھا جب میں نے فون پر کہا کہ اب آ کر زیور اور رقم دے جائو۔ بچّے سو گئے ہیں۔
زندگی میں پہلی بار وہ میرے گھر آ رہا تھا جو میرے مرحوم شوہر کا گھر تھا۔ میں نے دروازہ کھلا رکھا تھا۔ میرے دونوں بیٹے اُوپر کی منزل پر تھے۔ میں نے اُس سے برآمدے میں بات کی۔ کمرے میں نہ بلایا کہ رات کا وقت تھا اور بچیاں بھی سو رہی تھیں۔ بیدار ہو جاتیں تو مجھے غلط خیال کرتیں۔
مجھے یہ خیال نہ رہا کہ اُوپر کی منزل سے میرے بیٹے نیچے دیکھ سکتے ہیں جبکہ میں یہی سمجھی تھی، وہ سو گئے ہیں لیکن گرمی کی وجہ سے شاید بڑے بیٹے کی آنکھ کھلی تو وہ اُوپر کی منزل سے نیچے صحن میں جھانکنے لگا۔ اس نے مجھے برآمدے میں کسی شخص کے ساتھ آہستہ آہستہ گفتگو کرتے اور کچھ سامان لیتے دیکھا۔ گرچہ یہ کوئی قابل اعتراض بات نہ تھی کیونکہ کمال میرا چچازاد تھا۔ میرا اس سے رشتہ تھا مگر قابل اعتراض بات یہ تھی کہ رات کے گیارہ بجے تھے اور میں نے اپنے بیٹوں کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔
ابھی ہم محو گفتگو تھے کہ بڑا بیٹا فہیم نیچے آ گیا۔ وہ دبے قدموں زینہ اُتر کر آیا تھا۔ مجھے خبر نہ ہوئی۔ اس نے کہا۔ امی اس وقت یہ کون شخص آیا ہے اور آپ نے اس سے کیا لیا۔ میں نے کہا۔ کوئی غیر نہیں ہے بلکہ میرا چچازاد کمال ہے اور یہ سامان ریحانہ بیٹی کے لیے اس کی شادی کے موقع پر دینے کو لایا ہے۔ کمال کا نام سُن کر فہیم بپھر گیا۔ کہنے لگا۔ یہ وہی کمال ہیں نا جنہوں نے آپ کو طلاق دے دی تھی اور پھر ہمارے ابو نے آپ سے شادی کی۔ مجھے دادی نے یہ بات بتائی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اب بھی اپنے سابق شوہر سے میل جول رکھتی ہیں۔ شاید پہلے بھی چوری چھپے ملتی رہی ہوں گی جب ابو زندہ تھے۔ کون جانے۔ اب بہتر یہ ہے کہ ہمیں دھوکا دینے کی بجائے آپ ہمارے والد کا گھر چھوڑ کر اس شخص کے ساتھ چلی جائیں۔ پھر آپ کو اس سے ہمارے باپ کے گھر میں خفیہ ملاقاتیں کرنے اور تحفے لینے کی ضرورت نہ رہے گی۔
بیٹے کے منہ سے ایسی باتیں سُن کر میں پریشان ہوگئی۔ اُسے کس طرح یقین دلاتی کہ میری زندگی ان کے والد کے نکاح میں انہی کے لئے وقف رہی تھی اور اب ان کی وفات کے بعد بھی زندگی پاکیزہ ہے مگر بچوں میں برداشت کہاں ہوتی ہے۔ خاص طور پر جواں سال بیٹوں میں۔ فہیم کا اس وقت جو ردعمل ہوا، میں سوچ بھی نہ سکتی تھی۔ اس نے مجھے یہ کہہ کر گھر سے باہر نکال دیا کہ یہ میرے باپ کا گھر ہے، آپ کے سابق شوہر سے ملاقاتوں کا مقام نہیں۔ ان سے کہیں اور جا کر ملیں بلکہ اُنہی کے ساتھ رہیں۔ یہاں لوٹ کر آنے کی ضرورت نہیں ورنہ ہماری بدنامی ہوگی تو ہم جیتے جی مر جائیں گے۔
مجھے فہیم سے ایسی اُمید نہ تھی جسے اتنے دُکھ اُٹھا کر پالا تھا کہ وہ مجھے بازو پکڑ کر گھر کی دہلیز سے باہر کر دے گا۔ خاموشی کے سوا کیا چارہ تھا، شور ہوتا تو باقی بچّے جاگ جاتے۔ دُوسرا بیٹا بھی آ جاتا، بچیاں بیدار ہو جاتیں، ان پرکیا اثر ہوتا۔ فہیم نے میری التجا کو ٹھکرا دیا۔ اس نے دروازہ بند کر دیا اور میں کمال کے ساتھ گلی میں کھڑی رہ گئی۔
رات کا وقت تھا۔ کمال نے کہا۔ اب تکرار مت کرو۔ اس کا جوان خون ہے، اس وقت میرے ساتھ چلو، صبح دیکھیں گے۔ گائوں کے کسی بزرگ کو ساتھ لائیں گے اور اسے سمجھائیں گے۔ اس وقت اس کے منہ لگنا ٹھیک نہیں ہے ورنہ یہ شور کرے گا، بپھرا ہوا ہے اور اس کے دل میں نفرت کا طوفان اُمڈ رہا ہے۔ محلے والے اس شور شرابے پر جاگ گئے تو تمہاری بے عزتی ہوگی، تم بچیوں والی ہو۔ اس دم تحمل سے کام لو۔
بچیوں کی خاطر ہی تو میں دہلیز سے باہر نہ ہونا چاہتی تھی مگر سنگ دل فہیم نے میری کوئی بات نہ سنی۔ میں روتی ہوئی کمال کے ساتھ آ گئی، جانے میری بچیوں پر کیا گزری ہوگی۔
فہیم نے اسی پر بس نہیں کیا مجھے بدچلن، بدکردار کہہ کر میری باقی اولاد کو بھی بدظن کر دیا۔ وہ بھی نفرت کرنے لگے۔ بیٹیاں بچاری ماں کے ہوتے بن ماں کی ہوگئیں۔ بعد میں بھابھیوں کے ظلم سہنے پر مجبور ہوئیں مگر میرے بیٹوں نے انہیں مجھ سے دُور رکھا، مجھ سے نہ ملنے دیا۔ جب میرا گھر نہ رہا، چھت کی خاطر آخر کمال سے شادی کرنا پڑی اور حالات نے وہ بات سچ کر دکھائی جو فہیم نے کہی تھی۔ کمال کی مراد بَر آئی مگر میں نے بچوں کی قربانی دے کر بڑھاپے کی پناہ حاصل کی۔ اللہ اولاد کو سمجھ دے اور ماں باپ کو غلط ثابت کرنے سے پہلے ان کی قربانیوں کے بارے سوچ لیا کریں۔
(ص… لاہور)