ایک مرتبہ جب کہ جون کا مہینہ تھا، سخت گرمی پڑ رہی تھی۔ ابو کام پر گئے تو لو لگ گئی اور بیمار ہو گئے۔ اتنے بیمار پڑے کہ نوکری کو ہی خیر باد کہنا پڑ گیا۔
جب ٹھیک ہوئے تو پھر نوکری نہ ملی۔ دو چار عارضی قسم کی نوکریاں کیں اور چھوڑ کر گھر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد کوئی ڈھنگ کی ملازمت نہ پا سکے۔ اکثر بے روز گار رہنے لگے۔ ان دنوں ہم کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ چھ ماہ کا کرایہ چڑھ گیا اور مالک مکان گھر خالی کرانے کے در پہ ہو گیا۔ والد روزانہ روزگار کی تلاش میں صبح گھر سے نکل جاتے اور شام کو بے نیل و مرام لوٹ آتے۔
اس روز بھی وہ گھر پر نہ تھے جب صادق نے کنڈی کھٹکھٹائی۔ والدہ نے آواز پہچان کر دروازہ کھول دیا اورکہا کہ…ظفر گھر پر نہیں ہیں۔
مجھے معلوم ہے، صبح جب وہ گھر سے جا رہے تھے، میں اوپر سے ان کو جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ میں تو آپ ہی کو کہنے آیا ہوں کہ بہن جی کہ یہ آخری تنبیہ ہے، اسی ماہ کی دس تاریخ کو پورے چھ ماہ کا کرایہ ادا کر دینا ورنہ… مکان خالی میں خود کرالوں گا اور آپ کا سامان گلی میں رکھ دوں گا پھر بے شک جہاں مرضی سر چھپانا مگر مجھ کو دوش مت دینا۔ میں نے تو اسی سبب سے اتنی مہلت دے دی ہے کہ تمہارے گھر بیٹی جوان ہے، اس کو لے کر کہاں مارے مارے پھرو گے۔ یہ سن کر میں ذرا سا اس کے سامنے آگئی اور امی کے بدلے جواب دیا۔
چچا آپ کی بہت مہربانی ہے جو ہمارا اتنا خیال کیا ہے، جہاں اتنے دن صبر کیا ہے تھوڑا سا اور کر لیں۔ ہم جلدی آپ کو کرایہ دے دیں گے۔ میں روز دعائیں کرتی ہوں کہ ابا جان کی نوکری ہو جائے۔ مجھے دیکھ کر اس کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا، بولا۔ اچھا چند دن اور انتظار کر لیتا ہوں لیکن اب کی کرایہ نہ دیا تو یاد رکھنا کہ مکان خالی کرنا ہو گا۔ اللہ کی کرنی کہ انہی دنوں صادق کی بیوی بیمار پڑ گئی اور وہ کام کاج سے رہ گئی۔ مالک مکان گھر کی بالائی منزل پر رہتے تھے اور ہم کو نچلی منزل کرائے پر دے رکھی تھی۔
جب والدہ کو علم ہوا کہ بوا تمیزن بیمار پڑی ہیں وہ عیادت کو اوپر کی منزل چلی گئیں۔ صادق کی بیوی کا نام تمیز بی بی تھا اور ہم ان کو بوا تمیزن کہا کرتے تھے۔
واقعی وہ بہت بیمار تھیں، نحیف و نزار ہو گئی تھیں اور ان سے ہلا بھی نہیں جاتا تھا۔ والدہ کو بہت افسوس ہواکہ چھ ماہ قبل تو اچھی خاصی تھیں۔ یہ انہیں کیا ہوا کہ گھل گھل کر ایسی ہو گئیں۔ جوں دیمک لکڑی کو کھا لیتی ہے۔ انہوں نے صادق کی بیگم سے کہا۔ تمیزن، تم نے یہ کیا حالت بنا رکھی ہے، میں آج دوپہر کو آکر پانی گرم کروں گی اور تمہیں نہلا جائوں گی۔ غسل سے بھی آدھی بیماری کم ہو جاتی ہے۔ کنگھا لگتا ہے عرصے سے نہیں کیا ہے۔ بال بھی سلجھا جایا کروں گی۔ وہ بیچاری لاچاری سے کہنے لگیں۔ بہن کوئی میکے میں ہے نہ سسرال میں جو آکر میری دیکھ بھال کرے۔ صادق میاں صبح شام ہوٹل سے کھانا کھا رہے ہیں۔ مجھے بھی پرہیزی کھانا بنا کر دینے والا کوئی نہیں ہے، کیسے بھلی چنگی ہو جائوں ۔
ارے تو کیا ہم مر گئے ہیں، ہم کو بھائی صادق نے پہلے کیوں نہیں بتایا؟ میں روز آکر تمہارا کھانا بنا دیا کروں گی نہیں تو یہ آجائے گی منزہ، آخر یہ کس لئے ہے۔ بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔
اس دن سے میں اور امی روز ہی مالک مکان کے گھر جانے لگے۔ جونہی وہ اپنے گھر سے نکل کر کام کو چلے جاتے ہم ماں بیٹیاں ان کے گھر پہنچ جاتے۔ امی کھانا بناتی تھیں اور میں ان کے گھر کی صفائی و دیگر کام کر دیتی۔ اب صادق صاحب کچھ ہم سے راضی نظر آنے لگے۔ وہ مکان کے کرائے کا تقاضا کرنے بھی نہیں آئے۔ چند دن گزرے کہ ان کی بیگم اسپتال چلی گئیں۔ انہیں ڈاکٹروں نے داخل کر لیا کہ ان کا علاج گھر پر ممکن نہ تھا۔
کچھ دن ہم اسی انتظار میں رہے کہ بوا تمیزن آجائیں تو ان کے گھر عیادت کو جائیں گے۔ ایک ماہ گزر گیا وہ نہیں آئیں لیکن ان کے مرنے کی خبر آگئی۔ بے حد افسوس ہوا… اللہ کی مرضی موت و حیات کے معاملے میں کوئی کیا کر سکتا ہے۔ صادق سے میرے والدین نے تعزیت اور ہمدردی کی تو وہ روہانسا ہو کر بولے۔ مرحومہ کے بعد گھر خالی خالی ہو گیا ہے۔ سب جمع پونجی ان کی بیماری پر لگا دی مگر وہ ہسپتال سے ہی قبرستان چلی گئیں۔
والدہ نے کہا۔ بھائی صاحب آپ ہم کو اپنا سمجھیں، روز کا کھانا ہم آپ کا بنا دیا کریں گے اور گھر کی صفائی وغیرہ منزہ کر دیا کرے گی۔
صادق نے چابی میری والدہ کو دے دی کہ بہن آپ کو کچھ دن تکلیف دوں گا پھر کوئی نہ کوئی بندوبست کرلوں گا۔ کہنا تو نہیں چاہیے کہ موت، زندگی کے ساتھ ہے لیکن تمیزن بوا کا مرنا گویابلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹنا تھا۔
کچھ عرصہ صادق میاں، بیوی کے غم سے اس قدر نڈھال رہے کہ ہم سے مکان کے کرائے کے لئے تقاضا کرنا بھی بھول گئے۔ شومئی قسمت کہ والد صاحب کو باوجود تلاش بسیار کوئی معقول ملازمت نہ ملی اور ہمارے گھر کی مالی حالت اور زیادہ دگرگوں ہوتی چلی گئی۔ تھوڑی سی مدد میرے ابو کے ایک چچا زاد بھائی ندیم کر دیا کرتے تھے لیکن وہ کاروباری شخص تھے۔ انہیں اپنے کاروبار سے فرصت نہ ملتی تھی کہ ہمارے گھر آئیں۔ والد ہی ان کے پاس جایا کرتے تھے کہ ندیم بھیا کہیں کام پر لگوا دو لیکن روزی تو قسمت سے ملتی ہے، جب قسمت ساتھ نہ دے رہی ہو تو موقعے بھی نہیں ملتے۔
ابو کے کزن کی مالی امداد سے بس ایک وقت کی روٹی ہی مشکل سے میسر آجاتی تھی۔ میں محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی، اماں پاس پڑوس کی لڑکیوں کو سپارہ پڑھانے لگیں تاکہ ان کے چھوٹے تینوں بچے اسکول جا سکیں۔ جب حالات مسلسل ایسےچل رہے ہوں تو کوئی کیوں نہ اپنی زندگی سے عاجز آنے لگے۔ والد بھی ناامیدی سے بیمار پڑ گئے اور انہوں نے نوکری کی جستجو میں گھر سے نکلنا ترک کر دیا کہ اپنی انا کو روز ٹھیس پہنچا کر بھی ان کو گوہر مقصود ہاتھ نہ آسکا۔
دوست، عزیز، رشتہ دار اب کوئی بھی منہ نہ لگاتا بلکہ دیکھ کر منہ پھیر لیتے تھے کہ کہیں قرض مانگنے کو تو نہیں آگئے۔ میں بدستور صادق صاحب کے گھر جاتی، ان کا کھانا پکاتی، کچن صاف کرتی۔ ان کے گھر کی صفائی کرتی حتیٰ کہ ان کے میلے کپڑے بھی دھو آتی کہ ہم ان کے قرض دار تھے۔ ڈر تھا کرایہ ابھی تک نہیں ادا کر سکے۔ کسی دن نکال باہر نہ کریں۔
ایک روز میں ان کے گھر کے کام کاج میں مصروف تھی کہ وہ آگئے۔ میں نے ان کو دیکھا تو سہم گئی، بولے۔منزہ بی بی پریشان مت ہو- میں کچھ ضروری کاغذات لینے آیا تھا ورنہ مجھے معلوم ہے تم اس وقت میرے گھر میں آکر کام کاج کر رہی ہوتی ہو… میں نہیں آیا کرتا۔ بہرحال اس بات کا اپنی امی سے ذکر مت کرنا ورنہ انہیں برا لگے گا۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے کمرے کی الماری سے کچھ کاغذات نکالے اور چلے گئے۔
دو چار دن بعد وہ پھر اسی طرح آگئے کہاکہ منزہ تم سے ایک ضروری بات کہنی ہے- میرے گھر کو تمہارے جیسی ایک سلیقہ مند کی ضرورت ہے، اگر میں تمہارے والدین سے تمہارا ہاتھ مانگ لوں، تم کو برا تو نہ لگے گا؟ تمہاری رضا کو ضروری سمجھتا ہوں اسی وجہ سے پہلے تم سے بات کرنا مناسب لگا۔ میں خاموش رہی کیا کہتی… جانتی تھی کہ ہم مجبور ہیں، ان کا سات ماہ سے زیادہ کا کرایہ دینا ہے۔ پہلے کرایےکے لئے تنگ کرتے تھے اب جب کہ بیوی فوت ہو گئی تو کرائے کا تقاضا بھی چھوڑ دیا تھا۔ اگر چاہتے تو ایک منٹ میں ہم کو نکال کر باہر کر سکتے تھے۔
ان دنوں میں سولہ برس کی تھی اور غربت میں فاقے آگئے تھے تبھی طرح طرح کے خوف دل میں جنم لینے لگے تھے۔ اس کو ٹکا سا جواب دے کر ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی، جواب کے اصرار پر کہا کہ آپ مجھ سے نہیں میرے
والدین سے بات کیجیے۔ اس بات کا جواب میں نہیں دے سکتی وہ ہی دیں گے۔
ادھر ماں تھی کہ اس امر پر خوش تھی کہ ہم صادق کے گھر کا کام کاج کر آتے ہیں تبھی وہ کرایے کا تقاضا نہیں کررہا۔ وہ مجھے روز تاکید کرتیں ۔بیٹی اس کا اچھے سے کام کر آیا کرو تاکہ ہم سے خوش رہیں اور کرایہ کی وصولی کے لئے تنگ نہ کرے۔ ورنہ ہم کہاں جائیں گے جو اس نے مکان خالی کرا لیا تو …!
ایک روز اس نے دبے لفظوں میرے والد سے کہا۔ بھائی صاحب، میری بیوی وفات پا چکی ہے اور اب میرے گھر میں ایک عورت کی ضرورت ہے، اگر آپ برا نہ مانئے تو ایک بات کہوں۔
کہیے… والد صاحب نے جواب دیا۔
اگر آپ اپنی بیٹی منزہ کا رشتہ مجھے دے دیں اور مجھ کو اپنی غلامی میں قبول کر لیں تو آپ کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے-آپ کو اپنے کاروبار کا انچارج بنا دوں گا اور آپ کے بچے بھی بے گھر نہ ہوں گے۔ آپ کو کہیں روزگار تلاش کرنے کی ضرورت نہ رہے گی۔ والد صاحب کو یقیناً برا لگا ہو گا کہ صادق ان سےعمر میں چند برس بڑا ہی ہو گا لیکن وہ ایک مجبور انسان تھے۔ انہوں نے تحمل سے کہا کہ مہلت دیں اپنی بیوی سے مشورہ کرلوں۔
والدہ کو بتایا تو وہ رونے لگیں کہ کیسا خبیث انسان ہے۔ اس عمر رسیدہ کو کیا میری پھول جیسی بچی ہی اپنے لئے مناسب لگی ہے۔ کیا مکان کے کرائے کی خاطر ہم اپنی معصوم کو اس کے ہاتھ بیچ دیں۔
تو پھر کیا کریں۔ ابا نے کہا- اب تو ناامیدی نےمیری ایسی کمر توڑی ہے کہ میں مستقل بیمار رہنے لگا ہوں، سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں۔
واقعی عجیب صورت حال تھی- ہمارے پاس رہنے کو مکان نہیں تھا اور صادق کرائےکے بدلے بیٹی کا رشتہ مانگ رہا تھا۔ ابا جان دیوار سے ٹیک لگائے بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔ مجھ سے ان کی بے بسی دیکھی نہ جا رہی تھی- جی چاہا کہوں کہ ابا جان میری فکر مت کیجئے … آپ اپنے کنبے کی فکر کیجیے۔ اس گھر سے نکالے گئے تو ان کو لے کر کہاں جائیں گے۔ عزت اسی میں ہے کہ عمر کا فرق نہ دیکھئے… چاہے زمین ، آسمان کا فرق ہی کیوں نہ ہو…!
ابو اس روز اسی فکر میں غلطاں تھے کہ اچانک چچا ندیم آگئے۔ بولے۔ تمہارے گھر ایسا سناٹا کیوں پڑا ہوا ہے، خیر تو ہے۔ والد ان کی آواز سن کر ایسے جی اٹھے جیسے مردے میں جان پڑ گئی ہو۔ یار تم بالکل صحیح وقت پر آئے ہو، اس وقت مجھے تمہاری اشد ضرورت تھی۔
کیوں کیا ہوا ہے، کیا رقم درکار ہے۔ وہ تو ہر وقت ہی درکار ہوتی ہے۔ اس وقت تو تمہارا مشورہ درکار ہے۔
کہو… حاضر ہوں…!
والد نے معاملہ بتا دیا تو انہوں نہ کہا… فوراً گھر بدل لو اور اس کو ہر گز بیٹی کا رشتہ نہ دو… محض کرائے کی خاطر؟
گھر تو بدل لیں… لیکن جائیں کہاں ؟
میرے گھر کا ایک حصہ خالی پڑا ہے۔ اس میں چل کر رہو۔ صادق کا کرایہ کتنا دینا ہے بتا دو میں دیئے دیتا ہوں۔ والد نے کرایہ کی رقم بتائی اور انہوں نے کہا کہ کل رقم آکر دے جائوں گا۔ منی ٹرک بھی لے آئوں گا، میرا اپنا ہی ہے باربرداری کے لئے ہے۔ سامان باندھ کر تیار رکھنا… کل ہی یہ مکان چھوڑ دینا۔ بے غیرت کیا سمجھتا ہے… اس کے ساتھ حساب چکتا کر دیں گے۔
والد صاحب نے ندیم انکل کی بات مان لی اور امی سے کہا کہ آج سے سامان سمیٹنا شروع کر دو… کل ہم یہ مکان چھوڑ رہے ہیں۔ دیکھا آخر اپنے ہی کام آتے ہیں۔
دوسرے روز دوپہر کو انکل ندیم آگئے ۔ ساتھ دو مزدور بھی تھے، سارا سامان ٹرک پر رکھوا دیا۔ اتنے میں مالک مکان بھی آگیا والد صاحب نے صادق کو آواز دی۔میاں ہماری بات سن کر اوپر جانا۔ وہ تو ٹرک پر سامان لدا دیکھ ہی چکا تھا۔ فوراً بیٹھک کی طرف آیا۔ چچا ندیم نے اس کو کرایے کی تمام رقم تھما کر کہا۔ میاں کہا سنا معاف کرنا، ہم ان کو آج اور ابھی لئے جا رہے ہیں۔ مکان کا بندوبست ہو گیا ہے۔ ان کا اکھڑ لہجہ سن کر صادق کو چپ لگ گئی مزید ایک لفظ منہ سےنہ نکلا… خاموشی سے رقم لے لی اور ہم ندیم چچا کی گاڑی میں لد کر ان کے گھر آگئے۔
وہ اتنے بڑے گھر میں عرصے سے اکیلے رہ رہے تھے۔ ان کی بیوی بمعہ دو بچوں کے میکے ملنے گئیں تو وہاں سے طلاق منگوالی اور واپس لوٹ کر نہ آئیں تب سے بیچارے تنہائی کا عذاب کاٹ رہے تھے۔
ہمارے آنے سے گھر میں رونق ہو گئی۔ ان کا دل بہل گیا اور ہم کو بھی سکون مل گیا کہ کرایے کے لئے کوئی تنگ کرنے نہیں آتا تھا۔
ان کو کھانے کی تکلیف تھی، امی سے کہتے۔ بھابی میں تو مسلسل بازار کا کھانا کھا کھا کر بیمار پڑ گیا ہوں۔ جب سے آپ آئی ہیں اور گھر کا پکوان مل رہا ہے معدے کی تکلیف بھی کم ہو رہی ہے۔ خدا کرے آپ عمر بھر میرے ساتھ رہیں ۔ نجانے پہلے مجھے کیوں یہ خیال نہ آیا کہ آپ لوگوں کو یہاں لے آئوں۔ اس صادق منحوس نے تو کرایے کے لئے آپ کا جینا حرام کر رکھا تھا۔
میں تو بہت خوش تھی کہ بیالیس برس کے صادق سے شادی کو اپنے والدین کی مجبوریوں کا حل سمجھ کر خود اپنی خوشیوں کا گلا گھونٹنے کا سوچ رہی تھی۔ چچا ندیم ہمارے لئے فرشتہ رحمت ثابت ہوئے۔
کچھ دن گزرے انہوں نے امی سے کہا۔بھابی، آپ کب تک میرے لئے کھانے بناتی رہیں گی بہتر ہے کہ میری شادی کرا دیں۔
کس سے ؟ میری معصوم ماں نے سوال کیا۔
کسی سے بھی، خود ہی کوئی مناسب رشتہ ڈھونڈ لیں۔ جس سے شادی کرائیں گی، میں کر لوں گا۔
والدہ بے خبر ان کے لئے رشتہ ڈھونڈنے لگی تھیں، بھلا اس نئی جگہ ایک پچاس برس کے شخص کے لئے رشتہ کہاں سے ملتا۔ اگر میرے ماں باپ کو خبر ہوتی کہ ندیم میاں کی نظریں بھی مجھ پرہیں تو وہ کبھی رہنے یہاں نہ آتے۔ اس پچاس پچپن سال کے بوڑھے سے وہ چالیس بیالس سال کا صادق کیا برا تھا۔ اگر رہائش کے بدلے اپنے قریبی رشتہ دار نے بھی وہی کہانی دہرانی تھی تو اس کے سائبان تلے کیوں آگئے۔
میرے والدین از حد پریشان تھے کہ کیا کریں لیکن میں سمجھدار ہو چکی تھی۔ صاف امی جان سے کہہ دیا کہ اگر غربت دور نہیں ہو سکتی تو عزت کی زندگی گزارنے والا رستہ ہی چن لو۔ اور وہ یہی رستہ ہے، میرا نکاح صادق سے نہیں کیا تو اب ندیم صاحب سے کر دو !… ابا کا دور کا کزن ہے نا… اس سے نکاح تو جائز ہے لیکن ویسے ہی اس کے آسرے پر جینا جائز نہیں ہے۔ کب تک وہ ہم کو خرچہ دیں گے اور ہم بس ان کا کھاتے ہی جائیں گے۔ ایک دو نہیں ہم چھ افراد ہیں… جب انہوں نے نکال باہر کیا تب یہ دھرتی پناہ نہیں دے گی۔ کسی اور کے در پر پناہ لی تو اور زیادہ ذلت کی زندگی گزارنی پڑے گی۔ بوڑھے جوان کو نہ دیکھو بس آپ لوگ میری اور اپنی عزت کو دیکھو۔ لوگ باتیں ہی بنائیں گے، باتیں بنا کر چپ ہو جائیں گے۔ بس مجھے عزت سے جینا ہے۔
والدین نے ندیم سےکہا… یہ کیسے ہوسکتا ہے، تمہاری اور ہماری لڑکی کی عمر میں تو زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس نے جواب دیا کہ اس میں برا کیا ہے لیکن برا تو تب ہے کہ جب آپ لوگ یہاں سے نکل کر کسی تیسرے شخص کے گھر جا کر پناہ لیں۔
والدہ تو اب بھی رو پیٹ رہی تھیں مگر والد نے فیصلہ کر لیا کہ اب تیسرے گھر نہیں جانا، ندیم ہی ٹھیک ہے۔ بہت بڑا کاروبار ہے ان کا اور دولت بھی کافی ہے۔ اکیلا آدمی آخر یہ سب دولت، کاروبار، گھر بار، مال و متاع کہاں جائے گا؟
میں نے جگہ جگہ بھٹکنے پر ایک عمر رسیدہ شخص کو ترجیح دی ۔ ندیم صاحب نے ایک مکان میرے نام لکھ دیا جو میں نے رہنے کے لئے اپنے والدین اور چھوٹے بہن بھائیوں کے حوالے کیا ۔ میرا نکاح ندیم صاحب کےساتھ ہو گیا۔
مرد بھی تو سودا کرتے ہیں تو میں نے بھی اپنے گھر والوں کی خاطر اپنی زندگی اور اپنی خوشیوں کا سودا کر لیا تو کچھ غلط نہیں کیا ۔ کوئی برائی نہیں کی بلکہ نکاح کو قبول کیا… باعزت زندگی کی خاطر۔
آج مجھے جیسی زندگی ملی ہے اسی بوڑھے شخص کی بدولت ملی ہے۔ صد شکر کرتی ہوں کہ میرے بہن بھائی پڑھ لکھ گئے
ان کی بھی شادیاں ہو گئیں۔
والدہ میرے ساتھ ہیں کیونکہ وہ بیوہ ہو چکی ہیں اور میں بھی۔ لیکن ہم در بدر نہیں ہیں۔ مجھ سے نکاح کے بعد ندیم 20 سال جیتے رہے اور سب کچھ میرے ہی نام کر گئے۔
میرے بھائی نے ان کے کاروبار کو سنبھال لیا۔ ہم کسی کے محتاج نہیں ۔ لوگ کہتے تھے بیچاری کو بوڑھا جیون ساتھی ملا مگر مجھے میرے شوہر کے دم سے ہی عزت کے ساتھ ساتھ محفوظ چھت بھی ملی ہے۔ سکون کی زندگی ملی ہے۔
(مسز قریشی… کراچی)