Sunday, April 20, 2025

Aur Kahan Dukhi Nahi | Teen Auratien Teen Kahaniyan

میں نے ایک مشرقی روایات کے پابند گھرانے میں جنم لیا۔ سنتی آئی تھی کہ میری حماد سے شادی ہو گی۔ حماد میری چھوٹی پھوپھی کے بیٹے تھے جن سے والد صاحب بہت محبت کرتے تھے۔ پھپھو سمجھتی تھیں کہ میں ان کی بہو بنوں گی اور میں یقین کرتی تھی کہ وہی میری ساس بنیں گی۔ کبھی خیال نہ آیا کہ وقت کے بے رحم ہاتھوں یہ رشتہ ٹوٹ جائے گا۔
ان دنوں حماد کالج میں پڑھتے تھے جب ہوائی جہاز کے حادثے میں پھوپھا اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ پھوپھا کے جاتے ہی ان کا کاروبار چوپٹ ہو گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہماری لاکھوں میں کھیلنے والی پھوپھی کوڑی کوڑی کو محتاج ہو گئیں۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا جو ابھی کمانے لائق نہ ہوا تھا۔ قارون کا خزانہ بھی ہو تو ختم ہو جاتا ہے، اگر کوئی کمانے والا نہ ہو۔ ابو نے بیوہ بہن کی مدد کرنا چاہی تو امّی نے واویلا مچا دیا کہ اظہار صاحب تمہاری بہن کو اپنے گھر نہ رکھوں گی۔ انہیں ہم سے الگ ہی رہنے دو ورنہ مسائل پیدا ہوں گے۔
پھپھو خوددار تھیں، انہوں نے ہمارے گھر آنا بھی چھوڑ دیا۔ یوں دولت کے فرق نے خون کے رشتوں کو توڑ ڈالا۔ ان دنوں حماد بہت پریشان تھا۔ ایک طرف نامساعد حالات کا مقابلہ تو دوسری طرف مجھ سے جدائی کا جان لیوا خوف۔ وہ بے چارا تعلیم ادھوری چھوڑ کر روزی روٹی کیلئے ہاتھ پائوں مارنے لگا۔ اس پر اماں نے بغیر سوچے سمجھے اسے نالائق طالبعلم کا خطاب دے ڈالا۔ یہ خیال نہ کیا کہ اس نے کالج چھوڑا ہے تو اس وجہ سے کہ فیس بھرنے کی سکت نہیں رہی تھی اور گھر میں فاقوں کی نوبت آ گئی تھی۔
امّی چاہتی تھیں کہ غریب نند ہم سے اتنی مایوس ہو جائے کہ پاس بھی نہ پھٹکے۔ ان کی ایک بھانجی بیاہ کر انگلینڈ چلی گئی تھی اور وہاں دولت سے کھیل رہی تھی۔ والدہ کا خیال تھا اگر بیٹی کی شادی کسی فارن نیشنل لڑکے سے کر دی جائے تو نصیب سنور جائیں گے اور دوسرے بچّوں کیلئے بھی بیرون ملک جانے کا راستہ کھل جائے گا۔ انہوں نے بارہا بھانجی سے فون پر کہا کہ تم میری بیٹی کیلئے وہاں کسی برطانیہ نیشنل لڑکے کا رشتہ ڈھونڈو مگر بھانجی نے خاطرخواہ جواب نہ دیا۔ ظاہر ہے اس قسم کے رشتے جلد تو نہیں مل جاتے لیکن والدہ تو بس ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہتی تھیں۔ انہیں خطرہ تھا کہیں ابو کی اپنی بہن یا بھانجے سے محبت جاگ نہ جائے۔ کسی دن بضد نہ ہو جائیں کہ ماہم تو حماد کی ٹھیکرے کی مانگ ہے، بس اسی سے بیٹی کا رشتہ کرنا ہے۔ لہٰذا وہ ہر کسی سے کہتیں، امریکہ یا انگلینڈ میں کسی پاکستانی فارن نیشنل لڑکے کا رشتہ ہو تو بتائو۔
اللہ نے میری ماں کی سن لی۔ ان ہی دنوں ان کی سہیلی نے ایک رشتہ کرانے والی عورت سے ملاقات کروا دی، جس کا دعویٰ تھا کہ اس کے پاس بیرون ملک مقیم برطانیہ، امریکہ اور یورپ کے کئی ملکوں کے ’’نیشنلٹی ہولڈر‘‘ لڑکوں کے رشتے موجود ہیں۔ والدہ اس عورت کو روز فون کرتیں، خوشامدانہ لہجے میں بات کرتیں، بچھ بچھ جاتیں، اچھی فیس دینے کا لالچ دیتیں۔ اس عورت نے بالآخر دو، تین ایسے رشتے بتائے جو فارن نیشنل تھے۔ ان میں سے ایک لڑکے کا رشتہ میری والدہ کو پسند آ گیا، جس کا نام فاران تھا۔
اب میری ماں رشتہ کرانے والی عورت کے پیچھے پڑ گئیں، کسی طرح فاران کو پاکستان بلوائو۔ چھ ماہ کی التجائوں کے بعد بالآخر ان کی مراد بر آئی۔ رشتہ کرانے والی خالہ کا فون آ گیا کہ لڑکے سے بات ہو گئی ہے، بس ایک دو دن میں آنے والا ہے۔
خدا خدا کر کے وہ دن آیا جب فاران نے پاکستان کی زمین پر قدم رکھے اور ہمارے گھر آنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ رابطہ خاتون نے فوراً امّی کو اطلاع کی اور میری ماں نے سارا گھر صاف کروا کر شیشے کی طرح چمکا دیا۔ مقررہ دن پر شاندار دعوت کا اہتمام کیا۔ والد بے چارے بے بسی سے بیوی کی ان حرکتوں کو دیکھ رہے تھے مگر دم بہ خود تھے گویا زبان پر تالا لگ گیا ہو۔ جانتے تھے میری بیوی ضد کی پکی ہے۔ اپنے خوابوں کے پیچھے جان دے دے گی مگر باز آنے والی نہیں ہے۔ جب ماں نے ان کی بہن اور بھانجے کو قبول نہ کیا تو انہوں نے بھی میرا فیصلہ میرے نصیب پر چھوڑ دیا۔
دعوت والے دن وہ حضرت دو خواتین کے ہمراہ آ گئے۔ ایک کو اپنی اماں اور دوسری کو خالہ بتایا، ساتھ رابطہ خاتون بھی آئیں۔ کھانا سرو کرنے کی ہدایت مجھے کر دی گئی تھی۔ جتنی دیر کمرے میں موجود رہی، موصوف میری طرف دیکھتے رہے۔ ایک منٹ کو بھی نگاہ میرے چہرے سے ہٹتی نہ تھی۔ مجھے سخت الجھن ہونے لگی۔ دعا کرنے لگی جلدی چلے جائیں۔ ان کا یوں ایک ٹک دیکھنا مجھے الجھا رہا تھا۔ بہرحال فاران کی رشتہ دار خواتین سے امی نے کچھ باتیں کیں اور پھر مٹھائی منگوا کر منہ میٹھا کرا دیا۔ دیکھنے میں تو فاران شاندار اور خوبصورت نوجوان تھا، خوش لباس اور مہذب۔ بظاہر تو اس میں کوئی کمی نہ تھی اور دولت کا بھی شمار نہ تھا۔
دوسری بار جب اسے مدعو کیا گیا والد کو بھی فاران کے انٹرویو کیلئے شریک محفل کر لیا گیا۔ اس بار اس کی والدہ کے ساتھ لڑکے کے ماموں بھی آئے تھے۔ انہوں نے ابو کو اپنی لچھے دار گفتگو سے متاثر کر لیا اور وہ رشتے کیلئے والدہ کا ساتھ دینے پر راضی ہو گئے۔
میری شادی فاران سے ہو گئی۔ بہت افسردہ تھی۔ ابو سے کم از کم ایسی امید نہ تھی۔ چاہتے تو اپنی بہن اور بھانجے کو سہارا دے کر ان کی ویران زندگیاں سنوار سکتے تھے مگر انہوں نے یہ کیا کیا کہ دولت کے رعب میں آ کر میری زندگی کو ایک انجانے آدمی سے وابستہ کر دیا، جس کو ہم نے اس سے پہلے کبھی دیکھا تک نہ تھا۔ مجھے پتہ ہے کہ یہ خبر میری پیار کرنے والی پھپھو پر قیامت بن کر ٹوٹی ہو گی۔
شادی ہو گئی اور میں فاران کے ساتھ وطن سے ہزاروں میل دور انگلینڈ آ گئی۔ اصل زندگی کا چہرہ تو اب دیکھا۔ ماں باپ نے ڈھیر ساری نصیحتیں پلّو سے باندھ دی تھیں کہ بیٹی دیکھنا… شوہر کے ساتھ سلوک سے رہنا، اس کا خیال رکھنا اور ہم کو شرمندہ نہ کرنا۔ دل کا جو خون ہوا سہہ لیا۔ آخر ایک مشرقی لڑکی تھی۔ اپنے شوہر کی خوشنودی کے علاوہ کسی بارے میںسوچ بھی نہ سکتی تھی۔ دو ماہ تو آرام و سکون سے گزر گئے۔ فاران سیر و تفریح پر لے جاتے، نیا نیا ملک تھا، میری آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ جاتی تھیں۔ کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع نہ ملا۔ رفتہ رفتہ یہاں کے رنگ ڈھنگ کھلنے لگے۔ فاران کا کاروبار کلبوں اور عورتوں سے متعلق تھا۔ میں نے اپنی بدنصیبی پر سر پیٹ لیا۔
مجھے انہوں نے جب اپنے رنگ میں ڈھالنا چاہا تو بہت دشواری محسوس ہونے لگی۔ شوہر کی فرماں برداری اور  اطاعت گزاری سب دھری رہ گئی۔ وہ کہتے… کس اجڈکو پلّے باندھ لیا ہے جو اعلیٰ سوسائٹی کے آداب بھی نہیں جانتی۔ اچھی صورت پر لٹو ہو گیا۔ خبر ہوتی بی اے پاس ہو کر بھی اجڈ ہو تو کبھی شادی کر کے تم کو ساتھ نہ لاتا۔ حالانکہ میں سلیقہ مند تھی اور ایک اچھی گرہستن کی سب خوبیاں مجھ میں تھیں لیکن میرے شوہر کو عورت کی ان خوبیوں سے کوئی سروکار نہ تھا۔
مجھے تو غیر مردوں کے سامنے سر سے دوپٹہ اتارتے شرم آتی تھی، ایسی ہی میری تربیت ہوئی تھی۔ پہلی بار جب میرے شوہر نے فیشن ایبل چست لباس زیب تن کر کے کلب چلنے کو کہا تو میں نے انکار کر دیا، تب وہ چیخ کر بولے… تم کس جہان میں رہتی ہو اور کس صدی کی باتیں کرتی ہو۔ تم پاکستان میں نہیں ہو یورپ میں رہتی ہو۔ یہاں ایسی ہی زندگی ہے، یوں ہی رہنا سہنا ہو گا ورنہ طلاق لے لو۔ طلاق کا نام سنتے ہی پسینہ آ جاتا تھا۔
وہ مجھے خود ڈریس اَپ کرتے، خود میرا میک اَپ کرتے اور ماڈرن لباس پہنا کر کلب لے جاتے۔ اپنے
جسم کے خدوخال آئینے میں دیکھ کر شرم سے پانی پانی ہو جاتی۔ مجھ سے تو اونچے سینڈلوں پر چلا بھی نہ جاتا تھا۔ وہ مجھے مشروب پینے پر مجبور کرتے، میں آنکھوں میں آنسو بھر کر التجا کرتی… مجھے مجبور نہ کرو، مجھے یہ مشروب نہیں پینا ہے۔ میری پریشانی پر وہاں موجود نوجوان لڑکیاں زیر لب مسکراتیں۔ تب دانت پیس کر کہتے …خود بھی تماشا بن رہی ہو مجھے بھی بنا رہی ہو، جاہل۔
آہ میں کس جہنم میں پھنس گئی تھی۔ وطن سے دور کسی کو اپنا درد بھی نہ بتا سکتی تھی۔ میرے وجود پر ہر وقت عجیب سی بیزاری چھائی رہتی اور فاران ہر دم مجھ سے چڑے رہتے۔ تنگ آ کر بالآخر اس نے مجھے وطن واپس بھجوانے کا فیصلہ کر لیا اور خود کلب کی لڑکیوں سے دل بہلانے لگا۔
تین سال وہاں بڑی مشکل سے گزارے مگر اس مغربی اطوار بھری زندگی کا ایک پل بھی مجھے اپنی طرف راغب نہ کر سکا۔ یہاں عورت کا مقام کچھ اور تھا اور ہمارے یہاں کچھ اور تھا۔ ہم تہذیب کے دائرے میں احترام پاتی تھیں اور وہ کھوکھلی خوشیاں انجوائے کرنے کیلئے نوکریاں کرنے پر مجبور تھیں۔ آخرکار مجھے ایک ایسا پاکستانی شخص مل گیا جس نے میری مدد کی۔ میرے والدین کو فون کر کے میرے روز و شب کے بارے میـں اطلاع دی کیونکہ میں خود ان کو اطلاع نہ کر سکتی تھی۔
اس میں شک نہیں کہ میرے شوہر کے پاس بہت دولت تھی، کسی شے کی ہمیں کمی نہ تھی مگر روحانی سکون عنقا تھا، تب ہی میں نے وہاں کی زندگی کو قبول نہ کیا اور اپنے وطن لوٹ آنے میں ہی عافیت جانی۔
وہاں سے میں بالکل خالی ہاتھ نکلی تھی۔ تن پر ایک جوڑا تھا جو پہن کر آئی تھی اور وہاں کے ملبوسات وہیں پھینک کر آ گئی تھی۔
آج اس واقعہ کو 30سال ہو گئے ہیں۔ اپنے والدین کے در پر ہوں۔ وہ اب پچھتاتے ہیں، کیوں بغیر سوچے سمجھے مجھے ایک اجنبی کے ساتھ پردیس بھیجا۔ جو دولت اس کی تھی وہ تو اسی کی رہی، ہمارے کس کام آئی؟ بس بیٹی کی زندگی برباد ہوگئی۔
سب کچھ لٹا کر بھی اپنے وطن میں خوش ہوں، ایک دن بھی پچھتاوا نہیں ہوا کہ کیوں لندن چھوڑ کر آ گئی،جبکہ دولت کی چکاچوند تھی اور عیش و عشرت بھی۔
والدین کو یہ پچھتاوا ضرور ہے کہ غیرملکی شہریت کی کشش سے مرعوب ہو کر انہوں نے غیر پر بھروسہ کر لیا۔ چھان بین کئے بغیر بیٹی اس کے حوالے کر دی۔ شکر کہ میں زندہ سلامت اور اپنے ایمان کی سلامتی کے ساتھ واپس آگئی۔ لیکن ابّو، امّی آج بھی کہتے ہیں کہ اے کاش، ہم حمیدہ اور اس کے بیٹے کو گلے لگا لیتے تو بیٹی کا بھی گھر بسا ہوتا اور ہم کو بھی سکون مل جاتا۔
(ک…کراچی)

Latest Posts

Related POSTS