ہم نے جس محلے میں نیا گھر لیا وہاں کی عقبی گلی میں نوشین کا گھر تھا۔ میری چھوٹی بہن گل بانو، نوشین کی ہم عمر اور دونوں ساتویں میں پڑھتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ بہت جلد نوشی اور گل بانو کی دوستی ہو گئی۔ اسکول بھی ایک ہی تھا، تبھی یہ ساتھ آنے جانے لگیں۔ اکثر بانو اسکول کا کام کرنے نوشی کے پاس آجاتی اور دونوں مل کر پڑھتیں چونکہ ہم محلے میں نئے نئے آئے تھے محلے والوں کے بارے زیادہ نہیں جانتے تھے۔ ہم کو خبر نہیں تھی کہ نوشی کے ابو کون ہیں- اور کیا کام کرتے ہیں۔ ایک دن میرے بھائی رزاق نے بتایا کہ نوشی کے ابو کوئی کام نہیں کرتے۔ امی نے پوچھا۔ ان کا گزارا کیسے چلتا ہے؟ پتا نہیں امی جان لیکن ان کے گھر کے حالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ غریب لوگ ہیں۔ امی نے بھائی کو بتایا کہ میں نوشی کے ہمراہ بانو کے گھر گئی تھی۔ مجھے تو ان کے حالات ٹھیک لگے ہیں۔ آپ ایک بار گئی ہیں، سرسری نظر سے ان کا گھر دیکھا ہے لیکن میں بانو کے بھائی منور کے ساتھ کئی بار ان کے ہاں جا چکا ہوں ، ان کے پاس تو اکثر کھانے کو نہیں ہوتا۔ منور سے میری دوستی ہو گئی ہے۔ ایک بڑی بہن ہے جو ان کی مدد کرتی ہے۔ ایک دن نوشی ، گل بانو سے ملنے آئی۔ امی اس کی صورت دیکھتی رہ گئیں۔ وہ واقعی چاند کا ٹکڑا تھی۔ باتوں باتوں میں اس نے بتایا کہ اس کی بڑی بہن کی شادی ایک امیر آدمی سے ہوئی ہے، جو لاہور میں رہتی ہے ، ہماری باجی ہماری مدد کرتی ہیں مگر وہ کبھی کبھی آتی ہیں۔ اس کی باتوں سے امی جان کچھ مشکوک ہو گئیں اور گل بانو سے کہا۔ تم روز روز اس کے گھر نہ جایا کرو۔ یہ لڑکی بڑی لاپرواہ لگتی ہے۔ واقعی نوشی لاپرواہ سی تھی ، وہ خود کو سنبھال کر نہیں چلتی تھی۔ کپڑوں کا اسے ذرا بھی ڈھنگ نہ تھا، بغیر دوپٹے کے گلی میں نکل جاتی۔ اپنے سرا پا کا خیال نہ رکھتی تبھی میری ماں نے گل بانو کو اس کے گھر جانے سے منع کر دیا جبکہ رزاق سے منور کی خاصی دوستی بڑھ گئی تھی۔ ایک دن بھائی رزاق ان کے یہاں گیا۔ دیکھا کہ نوشی رو رہی ہے ، بھائی نے رونے کی وجہ دریافت کی تو اس کی ماں بولی۔ بیٹا یہ سہ ماہی پر چوں میں فیل ہو گئی ہے۔ اس کو انگریزی نہیں آتی ، روز استانیاں سزا دیتی ہیں۔ بیٹا تم ہی آکے تھوڑی دیر اسے پڑھا دیا کرو۔ خالہ نے کچھ اس طرح کہا کہ بھائی انکار نہ کر سکا۔ وہ اب روز شام کو نوشی کو پڑھانے جانے لگا۔ وہ واقعی پڑھائی میں بالکل صفر تھی اور اسے ٹیوشن کی شدید ضرورت تھی ورنہ اس کا آٹھویں میں پاس ہونا محال تھا۔ ایک روز رزاق بھائی گھر آئے تو کچھ پریشان سے تھے۔ امی نے وجہ پو تھی، بھائی نے بتایا کہ عجیب بات ہے کہ محلے کے اور بھی لڑکے جب چاہتے ہیں، نوشین کے گھر آجاتے ہیں۔ خالہ کسی کو بلا کر کہتیں، بیٹا سبزی لا دینا اور کسی سے کہتیں، دُودھ لا دو۔ یوں محلے کے لڑکوں نے بے دھڑک خالہ کے گھر آنا جانا شروع کر دیا اور اب وہ میلی نظروں سے نوشی کی جانب دیکھنے لگے تھے ۔ یہ بات رزاق کو اچھی نہ لگی۔ امی رزاق کے کہنے سے نوشین کے گھر گئیں حالانکہ وہ ان کے گھر نہیں جاتی تھیں۔ انہوں نے نوشی کی ماں سے کہا۔ بہن تم تو ہر وقت ادھر ادھر چلی جاتی ہو اور تمہارے میاں بھی زیادہ وقت گھر میں نہیں رہتے۔ پیچھے تمہارے بچے اکیلے ہوتے ہیں۔ ذرا ان کا دھیان رکھا کرو۔ نوشی کو بھی سمجھایا کہ بیٹی تم اب بڑی ہو گئی ہو ، گھر سے مت نکلا کرو۔ دونوں ماں، بیٹی نے امی کی باتیں صبر سے سنیں لیکن کچھ اثر نہیں ہوا۔ ان کے حالات جیسے تھے ویسے ہی رہے پھر کسی نے کبھی ان کی کوئی چوری پکڑی اور نہ کوئی غلط بات دیکھی محلے والے ان کے بارے باتیں ضرور بناتے تھے مگر انہیں کچھ کہتے نہیں تھے ۔ ہر ایک کا یہی خیال تھا کہ یہ بہت بےپر واہ لوگ ہیں۔ اسی نے بھی دراصل دبے لفظوں یہی بات کی تھی تو نوشی کی آمی جن کو ہم خالہ کہتے تھے ، انہوں نے چمک کر جواب دیا تھا کہ مجھے اپنے بچوں پر بھروسہ ہے، یہ شریفوں کی اولاد ہیں اور محلے کے سب لڑکے میرے بچے ہیں۔ منور چھوٹا سا تھا تو یہ بچے اس کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ مجھ کو امی جان اور خالہ جی کہتے تھے۔ اب ذرا بڑے ہو گئے ہیں تو ان کو کیسے گھر آنے سے روک دوں ؟ ہاں کسی دن اگر کوئی ایسی ویسی بات دیکھوں گی تو ان کو گردن سے پکڑلوں گی۔ ابھی کیوں محبت بھرے ماحول کو خراب کروں۔ خالہ کی منطق عجب تھی، تبھی سنا کہ نوشی کی منگنی ہو گئی ہے۔ اس کی سالانہ پرچے شروع ہو گئے تو بھائی نے اس کے گھر جانا چھوڑ دیا۔ اب رزلٹ آنے والا تھا۔ ایک دن وہ اس کے نتیجے کا پتا کرنے گیا۔ دیکھا تو نوشی کے گھر کے حالات مختلف تھے ۔ گھر میں نیا فرنیچر اور سامان آچکا تھا اور گھر ایسے سجا ہوا تھا جیسے دلہن کا کمرہ ہو۔ رزاق تو یہ کمرہ دیکھ کر بھونچکا رہ گیا۔ خالہ سے پوچھا کہ یہ سب کیسے ؟ بولیں۔ نوشی کی شادی ہونے والی ہے نا! یہ سب سامان اس کی باجی نے خرید کر ر کھ دیا ہے اس کے جہیز کے لئے ۔ کہاں اور کس سے شادی ہو رہی ہے؟ بھائی نے پوچھا تو خالہ ہونٹ بھینچ کر چپ ہو گئیں پھر بولیں۔ بعد میں بتادوں گی، ابھی تم جائو میں نوشی کی شادی کے معاملے کو واویلا کی نظر نہیں کرنا چاہتی۔ کچھ دن بعد منور کے اصرار پر رزاق پھر ان کے گھر چلا گیا۔ دیکھا کہ گھر میں محلے کے جنرل اسٹور کا مالک بیٹھا ہوا ہے۔ یہ شادی شدہ آدمی تھا اور اس کا نام واحد تھا اس کی شہرت محلے میں اچھی نہ تھی۔ بھائی نے یہ بات گھر آکر امی کو بتائی۔ آمی نے کہا۔ بیٹا ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں کی آپس میں رشتہ داری ہو۔ کوئی رشتہ داری نہیں ہے ماں۔ مجھے اچھی طرح پتا ہے۔ آپ ذرا پتا تو کریں معاملہ کچھ عجیب سا لگا ہے۔ اگلے دن امی پڑوس میں گئیں۔ باتوں باتوں میں پڑوسن نے بتایا کہ آج کل واحد جنرل اسٹور والا بہت جانے لگا ہے نوشی کے گھر میں۔ ان کی کوئی رشتہ داری نہیں ہے لیکن اب رشتہ داری ہو جائے گی کیونکہ واحد نے اپنے لئے نوشی کا رشتہ اس کی والدہ سے مانگ لیا ہے۔ وہ نوشین سے دوسری شادی کر رہا ہے اور لڑکی کی ماں نے اسے ہاں بھی کر دی ہے۔ دوسری شادی؟ مگر وہ تو شادی شدہ بال بچے دار آدمی ہے۔ لڑکی سے عمر میں بھی پینتیس برس بڑا ہے۔ کیا یہ بات لڑکی کی ماں کو نہیں پتا؟ کیوں نہیں پتا، لیکن پیسے کے لالچ میں شاید اس عورت کی مت ماری گئی ہے۔ جانتے بوجھتے بیٹی کو کنویں میں دھکیل رہی ہے۔ جلد ہی سب نے سُن لیا کہ نوشی کی واحد جنرل اسٹور والے سے شادی ہو گئی ہے۔ شادی کیا ہوئی بس گھر میں بلا کر ان لوگوں نے لڑکی کا نکاح پڑھوا دیا۔ نوشین رخصت ہو کر گھر سے نہ گئی بلکہ واحد ان کے گھر آنے جانے لگا۔ وہ رات کو آتا اور صبح چلا جاتا۔ کبھی دو پہر کو آنا کھانا کھا کر شام کو چلا جاتا۔ اپنے گھر والوں کو اس نے جیسے بھی ٹھنڈا کیا ہو بہر حال اب اس کے دو گھر تھے ، کبھی وہ اپنے گھر ہوتا اور کبھی نوشی کے پاس۔ زیادہ تر وہ آدھی رات کو آتا اور صبح چلا جاتا۔ ہم سب اس سنگم پر حیران تھے اور بے آرام بھی کہ جانے بے چاری نوشی خوش بھی تھی یا نہیں ؟ ماں باپ نے تو اس کلی کو ایک پختہ عمر شخص کے ساتھ بیاہ کر اپنے کنبے کی کفالت کا آسر اڈھونڈ لیا تھا۔ بہت دن مجھے اور گل بانو کو یہ صدمہ کھاتا رہا۔ ایک دن اس معمے سے بھی پردہ اٹھ گیا۔ نوشی اچانک اتفاق سے ہم کو بازار میں مل گئی۔ ہم نے شکوہ کیا کہ تم نے یہ کیسی شادی کی ہے ، ہم کو بلایا بھی نہیں ؟ میرے ماں باپ نے کروائی ہے اور جس سے بھی کروائی ہے بس ٹھیک ہے۔ دو وقت کی روٹی تو سکون سے مل رہی ہے۔ میرا کیا ہے ؟ کسی سے تو ہونی تھی شادی، واحد سے ہو گئی ۔ تمہارے دولہا میاں کیسے ہیں ؟ ہم نے پوچھا۔ اور تم اس کے ساتھ خوش تو ہو؟ ہاں خوش ہوں اور واحد بھی اچھے ہیں، بس ایک مجبوری ہے وہ مجھے اپنے گھر نہیں لے جا سکتے۔ جب نوشین نے اپنے دولہا کو اور اس بے جوڑ شادی کو قبول کر لیا تھا تو پھر اس بات پر کسی اور کو جلنے کڑھنے کی کیا ضرورت تھی پھر وہ خوش بھی نظر آ رہی تھی۔ قیمتی جوڑا پہنا ہوا تھا، زیور بھی پہن رکھے تھے ، ہم نے بھی یہ سوچ کر تسلی کر لی کہ اگر یہ خوش ہے تو ہمیں کیا۔ وقت گزرتا رہا محلے والے اس بات سے نالاں ضرور ہوئے تھے کہ واحد نے دوسری شادی کیوں کی، وہ بھی ایک نو عمر لڑکی سے جبکہ خود عمر رسیدہ اور بال بچے دار ہے مگر سب ایک بات پر پُر سکون ہو گئے تھے کہ اب خالہ کے گھر محلے کے چھوکروں نے آنا اور ان کے مکان کے گرد منڈلا نا ختم کر دیا تھا۔ خالہ بھی اب کام کے بہانے لڑکوں کو نہیں بلاتی تھیں۔ ان کے باہر کے کام واحد کا نوکر آکر کر جایا کرتا تھا۔ اس شادی کے مثبت اثرات یہ بھی ہوئے کہ خالہ کے گھر کے مالی حالات سدھر گئے مگر ایک دن جب نوشی کی گل بانو سے ملاقات ہوئی۔ وہ بہت اداس تھی۔ آمی نے اداسی کا سبب پوچھا تو کہنے لگی۔ خالہ کیا بتائوں ! واحد ویسے تو بہت اچھے ہیں لیکن مجھے ماں نہیں بننے دیتے، طرح طرح کی گولیاں کھلاتے ہیں جن سے میں بیمار ہوتی جارہی ہوں۔ کیا تم ماں بنا چاہتی ہو ؟ ہاں، یہ تو ہر عورت کی خواہش ہوتی ہے۔ اسی دل مسوس کر رہ گئیں کیونکہ یہ تو اس کا ذاتی معاملہ تھا۔ امی نے گھر آکر کہا۔ لگتا ہے اس شخص نے نوشی کو ابھی تک بیوی کے طور پر قبول نہیں کیا ورنہ اولاد سے نہ روکتا۔ ایسا نہ ہو کہ جب اس کا دل بھر جائے اسے طلاق دے دے۔ میں نے کہا۔ امی جان ایسا نہیں ہو گا کیونکہ نوشی بہت ہی خوبصورت ہے اور واحد اس سے محبت کرتا ہے یہ جب اس کی دُکان پر چھوٹی عمر میں سو دے لینے جاتی تھی تبھی سے اس کی نظروں میں آگئی تھی۔ ایک سال گزر گیا۔ ایک روز ایک کالی کلوٹی لڑکی بازار میں ملی۔ اس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں اور وہ میلے کپڑوں، خستہ حالت میں تھی۔ میں پہلی نظر میں تو پہچان نہ سکی مگر گل بانو نے پہچان لیا۔ ارے نوشی تم ! یہ کیا حال بنا رکھا ہے تم نے ؟ وہ روپڑی اور ہمارے ساتھ ہمارے گھر آگئی۔ اس نے بتایا کہ واحد نے اسے طلاق دے دی ہے۔ کیا قصور تھا تمہار ا جو اس نے تم کو طلاق دے دی ؟ وہ تو تم سے بہت محبت کرتا تھا۔ کوئی قصور نہیں تھا۔ اس کے چاروں لڑکے اور تین بیٹیاں سب جوان ہو گئے ہیں اور باپ سے لڑتے تھے کہ وہ مجھ کو طلاق دے دے ورنہ وہ اس کو در بدر کر دیں گے۔ سارا کنبہ ہی اس کے پیچھے پڑ گیا تھا کہ مجھے طلاق دے۔ جب بیٹوں نے گریبان پکڑا اور منہ کو آنے لگے تو کہاں رہ گئی میری محبت ، جوان اولاد کے سامنے وہ بے بس ہو گئے اور انہوں نے مجھ کو طلاق دے دی کیونکہ ان کے بچے اب چھوٹے اور ان کے محتاج نہ رہے تھے بلکہ واحد ان کے محتاج ہو گئے تھے۔ گویا وہی ہوا جس کا ڈر تھا، یہ کاروباری شادی تھی جو واحد نے اپنی عیاشی کی خاطر کی تھی۔ دل بھر گیا تو اسے کھلونا سمجھ کر پھینک دیا اور وہ بے چاری اس دوران اپنے رنگ روپ اور جوانی سے ہاتھ دھو چکی تھی۔ میں سوچتی ہوں ایسے والدین کے گھر کیوں لڑکیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور غربت کے ہاتھوں رحمت کے بجائے زحمت بن جاتی ہیں۔ والدین مفلسی کے ہاتھوں ظالم بن جاتے ہیں اور اپنی ہی اولاد کو ایسے انجام سے دو چار کر دیتے ہیں۔ ایسی لڑکیاں ذہنی روحانی جسمانی ہر طرح سے اجڑ جاتی ہیں۔ نوشی کے والدین نے اپنی بڑی بیٹی کی شادی بھی کچھ اسی طرح کی کہ ایک امیر شخص نے اس کے حسن کی وجہ سے اسے اپنے پاس رکھ لیا اور بدلے میں رقم اس کے والدین کو دیتا تھا، دل بھر گیا تو نا تا ختم کر دیا محلے میں بدنامی کے باعث اب یہ لوگ محلہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔