یخ بستہ ہواؤں نے ایسے بری طرح ٹھٹھرا ڈالا تھا۔ اتنا کہ دانت بجنے لگے، جسم پر کپکپی طاری ہوگئی۔بائیک پوری رفتار سے تارکول کی سڑک پر دوڑ رہی بھی۔ حسین جامد چپ لبوں پہ سجائے ہوئے تھا۔ کتنی دور رہ گیا ہے گھر ؟ نمرہ نے لرزتی آواز میں پوچھا تھا۔ بس دس منٹ میں پہنچتے ہیں ۔ جوابا اس نے بھی کا نپتی آواز میں بتایا۔ دس منٹ تو بہت زیادہ ہیں۔ میں اکڑ جاؤںگی سردی سے۔ نمرہ نے منمنا کر کہا۔ پھر ایسا کرتے ہیں، ادھر ہی آس پاس کسی گھر میں گھس جاتے ہیں ۔ صبح جب دھوپ نکل آئے گی تو گھر چلے جائیں گے ۔ سنجیدہ آواز میں کہا گیا تھا۔ وہ اس کی جیکٹ کو گھور کے رہ گئی۔ ساتھ ہی دل سے آہ نکلی تھی۔ ناول، ناولٹ میں کیسے ہیرو اپنی جیکٹ اتار کر ہیروئن کو دے دیتے ہیں، اپنی پروا کیے بغیر اور ایک یہ شخص ہے جسے میں ٹھٹھرتی نظر ہی نہیں آرہی ۔ کتنا انکار کرتی ہیں ہیروئنیں۔ پھر بھی ہیرو زبردستی اپنی جیکٹ دے دیتے ہیں۔ اس کا شدت سے دل چاہا تھا کہ حسن اسے اپنی جیکٹ اتار کر دے دے مگر وہاں ایسے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ سنو اس نے آواز میں مزید کپکپاہٹ طاری کی تھی۔ سناؤ سنجیدگی سے کہا گیا تھا۔ بہت زیادہ سردی لگ رہی ہے۔ میری قلفی بن جائے گی مجھے پتا ہے، سردی بہت زیادہ ہے۔ میں بائیک چلا رہا ہوں۔ ہوا کے تھپیڑے ڈائریکٹ میر ہے منہ پر پڑ رہے ہیں ۔ تم تو میرے پیچھے چھپگئی ہو تمہیں کم از کم مجھ سے تو کم ہی لگ رہی ہے اور میکے سے سرال تک کے اس تھوڑے سے سفر کی عادی ہو جاؤ ۔ نمرہ کو رونا آیا تھا یہ سب سن کر۔ اس نے ایک بار پھر اس کی جیکٹ کو گھورا تھا۔ کتنا بے حس تھا یہ شخص۔ ایک وہ نایاب جیلانی کی اسٹوری کا ہیرو تھا فرید کیسے اس نے اپنی پروا کیے بغیر اسماء کو اپنی جیکٹ دیے دی تھی۔ بہت دن پہلے پڑھی گئی اسٹوری اسے یاد آئی تھی۔ اور قلفی جمتی ہے، بنتی نہیں ہے۔ حسن نے اس کے دوسرے جملے کا جواب دیا تھا۔ دو منٹ کی کا خاموشی کے بعد وہ کلس کے رہ گئی۔ اس نے حسن کے کندھے پر ہاتھ رکھنے کے بہانے جیکٹ کو مٹھی میں مسل دیا۔ دھیان سے یار۔ گراؤ گی کیا۔ سردی کی وجہ سے پہلے ہی بائیک چلانا مشکل ہو رہا ہے ۔ وہ بے زار لہجے میں بولا تھا۔ نمرہ نے اپنے آنسوؤں کا گلا بڑی مشکل گھونٹا تھا۔ اگر تم با تیک چلا رہی ہو تیں ناں ، تب تمہیں پتا چلتا، سردی کیا ہے ۔ وہ اس کی خاموشی سے کوئی نتیجہ اخذ کر کے بولا تھا۔ یہ کیا تم مجھے بار بار طعنہ دیے رہے ہو اس بات کا۔ وہ اس دفعہ بری طرح چڑی تھی۔ دو کس بات کا ؟ وہ حیران ہوا تھا۔یہی کہ تم بائیک چلا رہے ہو اور میں تمہارے پیچھے بیٹھی ہوں۔ کیا میں بائیک چلاتی اور تم میرے پیچھے بیٹھے اچھے لگو گے؟ حسن نے جھٹکے سے گھر کے سامنے بائیک روکی اور نیچے اتر کر گھورا۔ وہ پھرتی سے نیچے اتر کے کھڑی تھی۔ طعنہ نہیں بے وقوف ، احساس دلا رہا ہوں ۔ کس بات کا احساس؟ اب کے وہ حیران ہوئی تھی۔ یہی کہ تمہیں میری بالکل فکر نہیں ہے۔ ایک علینہ بھا بھی ہیں۔ اتنا احساس کرتی ہیں عمیر بھائی کا ، ہر معاملے میں عمیر بھائی کے گھر آنے سے پہلے گرما گرم چائے تیار، ہیٹر آن ، کمبل دیتی ہیں۔ پاؤں دباتی ہیں۔ وہ ایک ایک کام گنوار ہا تھا۔ نمرہ اسے دیکھ کے رہ گئی۔
☆☆☆
اگلے دن بھی وہ حسن کی بے حسی کے متعلق ہی سوچتی رہی تھی ( جیکٹ نہیں دی تھی ناں ) ۔ پھر ایک خیال اس کے ذہن میں آ ہی گیا۔ حسن کی بے حسی ختم کرنے کے لیے اس نے وہ سارے رسالے نکالے جن میں وہ کہانیاں تھیں جن میں ہیرو ہیروئن کو اپنی جیکٹ اتار کے دیتے ہیں۔ اس نے وہ کہانیاں نکالیں اور صبح فولڈ کر دیے۔ شام میں حسن آفس سے آیا تو اس نے مسکرا کر استقبال کیا۔ پھر چکن میں چلی گئی۔ حسن چینج کر کے ٹی وی آن کر کے بیٹھ گیا۔ نمرہ گرما گرم کھانا نکالتے وقت یہ ہی سوچ رہی تھی، پتا نہیں حسن رسالے پڑھے گا بھی یا نہیں۔ خیر کھانا کھانے کے بعد ابھی حسن بستر میں بیٹھا ہی تھا کہ نمرہ جھٹ سے رسالے نکال لائی۔ اب تم یہ پڑھو گی۔ یار ٹائم ہوتا ہے ہر کام کرنے کا ۔ وہ جھنجلایا تھا۔ نمرہ مسکرائی تھی۔ ارے نہیں حسن میں یہ نہیں پڑھ رہی۔ میں تو چائے بنانے جارہی ہوں۔ تم پڑھو یہ قسم سے بہت اچھی کہانیاں ہوتی ہیں ان میں ۔ مجھے ساس بہو اور نند بھاوجوں کی لڑائیاں پڑھنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ اس نے بے زاری سے کہا اور موبائل اٹھا لیا۔ نمرہ مایوسی سے اسے دیکھتی رہ گئی مگر اگلے ہی لمحے اس نے مایوسی کو مار بھگایا۔ اد ہو۔ ایک تو تم ہر وقت موبائل میں ہی مصروف رہتے ہو۔ بزرگ ٹھیک ہی کہتے ہیں ، موبائل نے نئی نسل کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ مطالعے سے دوری کی وجہ سے ہی آج کی نئی نسل اتنی بے تکی ہے۔ فرصت کے لمحات کی بہترین دوست کتاب ہوتی ہے ۔ نمرہ نے بڑے مدبرانہ لہجے میں کہتے ہوئے اس کے ہاتھ سے فون لیا تھا۔ حسن اسے گھور رہا تھا۔ میری بربادی کے کون سے قصے سن لیے ہیں تم نے اور کون سابے تکا پن دیکھا ہے تم نے میرا ۔ آٹھ ماہ ہماری شادی کو ہوئے ہیں اور تم سب کچھ جان گئیں میرے متعلق ۔ میری بات کا یہ مطلب تھوڑی تھا۔ آہ.. وہ دل ہی دل میں کراہ اٹھی۔ ایک وہ لڑکیاں ہوتی ہیں، جنہیں بغیر کچھ کہے شوہر کی جیکٹ مل جاتی ہے اور ایک میں … اور میں کون سا اس کی جیکٹ پہننے کے لیے ترس رہی ہوں۔ ایک چاہ ہے، کتنا اچھا لگتا ہے شوہر کا یوں خیال کرنا تم تو براہی مان گئے حسن ! میں نے تو ویسے ہی بس سنا سنایا تبصرہ کیا۔ وہ مسکرا کر بولی۔ا چھایا را چائے بنالاؤ۔ مجھے بہت سردی لگ رہی ہے۔ تم تو سارا دن گھر میں رہتی ہو۔ تمہیں کیا پتا باہر کی سردی کیا ہوتی ہے۔ بائیک پر ٹھٹھر کے رہ گیا۔وہ اپنے ہی دکھڑے رو رہا تھا۔ نمبرہ کلس کے رہ گئی مگر ایک آخری کوشش سمجھ کے وہ کہہ اٹھی -کیوں نہیں حسن ! مجھے احساس ہے۔ اچھا میں ابھی چائے بنا کر لاتی ہوں ۔ تم یہ کہانی پڑھو۔ بور بھی نہیں ہو گے۔اس نے ایک رسالہ کھول کے اسے پکڑایا اور باقی تین میز پر رکھ دیے۔ حسن نے بادل ناخواستہ رسالہ پکڑا اور یوں ہی نظر دوڑانے لگا۔ نمرہ اس کا موبائل قبضے میں لیے کچن میں آ گئی۔ عجیب سی خوشی ہورہی تھی اسے، جو کہانی وہ اسے دے کر آئی تھی پڑھنے کے لیے، اس کے دوسرے صفحے پر ہی ہیرو ہیروئن کو اپنی جیکٹ اتار کے دیتا ہے۔ حسن کو پڑھتے ہی خیال آجائے گا کہ میں نے کل کتنی زیادتی کی نمرہ کے ساتھ۔ اسے اپنی جیکٹ نہ دے کر ، وہ مسکراتی سوچ رہی تھی۔ اس نے جان بوجھ کر چائے بنانے میں دیر لگائی۔ نمرہ چائے بنا رہی ہو یا پائے گلا رہی ہو۔ حسن اونچی آواز میں اس سے پوچھ رہا تھا۔ اس نے دانت کچکچائے تھے۔دو منٹ سکون سے پڑھا نہیں جا رہا اس سے ۔ وہ بڑبڑاتی ہوئی کچن سے باہر نکلی تو اسے سردی کا احساس ہوا تھا۔ وہ سوٹ کے ساتھ کا باریک دوپٹہ لیے ہوئے تھی۔ شال بیڈ پر پڑی تھی کمرے میں۔ وہ ٹرے لیے کمرے میں داخل ہوئی تو دھک سے رہ گئی۔ حسن اس کی شال لپیٹے رسالے اپنے سامنے پھیلائے ماڈلز کو غور سے دیکھنے میں مگن تھا۔ وہ کراہ کے رہ گئی اور تیزی سے ماڈلز کے چہرے غائب کرنے کے لیے آگے بڑھی اور اس کے سامنے سے رسالے اٹھا لیے۔
☆☆☆