امجد خاصا خوش شکل اور وجیہ شخص تھا۔ وہ سافٹ ویئر انجینئر تھا۔ گویا اس میں وہ تمام خوبیاں بدرجۂ اتم موجود تھیں جو فی زمانہ کسی بھی لڑکی کے ایک آئیڈیل جیون ساتھی بننے کا خواب ہوسکتا تھا۔
جبکہ ثمینہ کا معاملہ اور تھا، وہ ایک یتیم لڑکی تھی اور گھر کا خرچ چلانے کے لئے ملازمت کرتی تھی۔ مکان ان کا اپنا تھا۔ بھائی بہن کوئی نہیں تھا۔ صرف بیوہ ماں تھی اس لئے گزر بسر آسانی سے ہو جاتی تھی۔
ثمینہ کی ماں ریحانہ بیگم نے امجد کے بارے میں مختصر چھان بین کے بعد بیٹی کی منگنی کردی۔ ثمینہ بہت خوش تھی۔ وہ اپنی دوستوں کے ساتھ امجد کا ذکر کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتی تھی۔ اس کی جو بھی دوست امجد کو دیکھتی، اس کے دل میں حسد و رشک کے جذبات پیدا ہو جاتے۔
امجد ایسا ہی پروقار شخص تھا۔ وہ پہلی نظر اور پہلی ملاقات میں بڑا اچھا اثر ڈالتا تھا۔ لوگ اسے دیکھ کر متاثر ہوئے بنا نہ رہتے تھے۔
منگنی کے بعد اس نے ہر دوسرے، تیسرے روز ثمینہ کے گھر آنا شروع کردیا۔ اس کے پاس اپنی گاڑی تھی، اس لئے آنے جانے کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ وہ ہر ملاقات پر ثمینہ کے لئے کچھ لانا نہیں بھولتا تھا۔ جس روز وہ ملنے نہ آتا اس روز فون پر بات کرلیتا۔
ثمینہ کی بے تکلف سہیلیاں اس سے پوچھتیں۔ ’’ثمینہ، تم نے ایسے شاندار بندے کو کس طرح زیر کیا؟ ایمان سے آج کل تو کھاتے پیتے گھرانوں کی لڑکیاں، رشتوں کے انتظار میں اوورایج ہو رہی ہیں۔ او یار ہمیں بھی کوئی گُر بتا دو۔‘‘
اور ثمینہ کے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ بکھر جاتی۔
جہاں تک امجد کا تعلق تھا، وہ ثمینہ کو والہانہ انداز میں چاہتا تھا اور اس بات کا وہ بار بار اظہار بھی کرتا رہتا تھا۔ اکثر کہتا۔ ’’ثمینہ! جس روز تم سے ملاقات نہیں ہوتی وہ دن میں سخت بے کلی میں گزارتا ہوں۔‘‘
ثمینہ بھی شرما کے کہتی۔ ’’دل تو میرا بھی نہیں لگتا۔‘‘
اب تو امجد نے اسے دفتر میں بھی فون کرنا شروع کردیا تھا۔ ثمینہ نے ایک دو مرتبہ اسے ٹوکا بھی کہ اس کا باس پرائیویٹ کالیں پسند نہیں کرتا۔
امجد نے کہا کہ وہ صرف اس کی آواز سننے کے لئے فون کرتا ہے۔
چند ہفتوں کے بعد ثمینہ نے یہ محسوس کرنا شروع کردیا کہ امجد محبت کے معاملے میں خاصا حساس ہے۔ وہ اپنی محبت پر کسی کا سایہ بھی برداشت نہیں کرسکتا تھا۔
ایک روز دفتر میں کام کی زیادتی کی وجہ سے ثمینہ کو دیر ہوگئی۔ اس وقت آفس وین جا چکی تھی ازراہ ہمدردی ثمینہ کے باس نے اسے گھر پر ڈراپ کردیا۔
کار سے اترنے کے بعد ثمینہ نے دیکھا کہ امجد کی کار ان کے دروازے کے سامنے موجود ہے اور امجد کار سے ٹیک لگائے کھڑا ہے۔ اس وقت شام کا دھندلکا پھیل چکا تھا، تاہم ثمینہ نے دیکھا کہ امجد کے چہرے پر سخت تنائو موجود تھا۔
’’تم، اس وقت کہاں سے آ رہی ہو؟‘‘ اس نے پوچھا۔
ثمینہ کو اس کا لہجہ بالکل اجنبی لگا۔ اس نے نرمی سے جواب دیا۔ ’’میں دفتر سے آ رہی ہوں۔‘‘
امجد اپنی دستی گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے بولا۔ ’’میں تمہاری بات پر یقین نہیںکرسکتا۔ تمام دنیا کے دفتر پانچ بجے بند ہوجاتے ہیں اور اس وقت سات بجے ہیں۔‘‘
ثمینہ خاصی تھکی ہوئی تھی اور کوئی بدمزگی نہیں چاہتی تھی۔ وہ بولی۔ ’’آئیں، اندر چلیں۔ گلی میں ایسی گفتگو مناسب نہیں ہوتی۔‘‘
’’ٹھہرو، پہلے میری بات کا جواب دو۔‘‘ امجد نے کہا۔ اس کی آواز دھیمی تھی، مگر لہجہ تلخی سے بھرا ہوا تھا۔ ’’جب تک میری تسلی نہیں ہوگی، میں اندر نہیں جائوں گا۔‘‘
ثمینہ نے بے بسی سے اِدھر اُدھر دیکھا اور بولی۔ ’’آج دفتر میں کام زیادہ تھا۔ کل ایک کنسائمنٹ جانے والی ہے۔ اس کے ڈاکیومنٹس تیار کرنے تھے۔‘‘
’’تم جھوٹ بول رہی ہو۔‘‘ امجد نے بہ ظاہر پرسکون لہجے میں کہا، لیکن اس کی باتیں ثمینہ کا دل چھلنی کر رہی تھیں۔
’’یہ کار والا کون تھا؟‘‘ امجد نے سوال کیا۔
’’میرے باس تھے۔‘‘
’’ہوں… تو یہ باس اور سیکرٹری والا چکر ہے۔‘‘
’’امجد پلیز…‘‘ ثمینہ نے احتجاج کیا۔ ’’جمیل صاحب کی عمر میرے باپ کے برابر ہے۔ وہ نانا بن چکے ہیں۔‘‘
’’لیکن یہ شخص تمہارا باپ نہیں ہے۔‘‘ امجد کا لہجہ تلخ مگر آواز دھیمی تھی۔ دور سے دیکھنے پر یہی محسوس ہوتا تھا کہ دونوں کسی عمومی معاملے پر بات کر رہے ہیں۔
’’امجد آپ مجھ پر شک کر رہے ہیں۔ میں ان لڑکیوں میں سے نہیں ہوں جو…‘‘
امجد نے اس کی بات کاٹی اور اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ’’تم مجھے بے وقوف نہیں بنا سکتیں، عمر سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بڈھا خواہ تمہارے باپ کے برابر ہو اور خواہ تمہارے دادا کے برابر۔ وہ ہر حال میں تمہارے لئے نامحرم ہے۔‘‘
’’امجد، میں آپ کو اتنا تنگ نظر نہیں سمجھتی تھی۔‘‘
’’آزاد خیالی اور بے حیائی دو مختلف چیزیں ہیں۔‘‘ امجد نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ’’یہ تنگ نظری نہیں، زندگی کی حقیقت کا ایک اظہار ہے۔‘‘
’’امجد…!‘‘ ثمینہ کا جی چاہا کہ رو پڑے۔
’’کیا تم اس کے ساتھ پچھلی سیٹ پر نہیں بیٹھی ہوئی تھیں۔‘‘
’’تو کیا اگلی سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھتی؟‘‘
’’وہ تمہارا بڈھا باپ تو بیٹھ سکتا تھا ڈرائیور کے ساتھ۔‘‘
ثمینہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ بولی۔ ’’مم… مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ کی سوچ اتنی پست ہے۔‘‘
’’اگر تم اپنی غلطی کا اعتراف کرلو تو میں اس بات کو بھول جائوں گا۔‘‘
’’کون سی غلطی؟‘‘
’’انجان بننے کی کوشش مت کرو۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ باس تمہیں کافی پلانے کسی ریستوران میں لے گیا تھا؟‘‘
ثمینہ کی قوتِ برداشت جواب دے گئی۔ وہ تیزی سے گھر میں داخل ہوئی اور اندر سے دروازہ بند کر لیا۔ لمحہ بھر کے بعد اس نے انجن اسٹارٹ ہونے اور گاڑی کے روانہ ہونے کی آواز سنی۔ وہ بے اختیار پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔
وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اوپر سے فراخ دل اور ترقی پسند دکھائی دینے والا شخص اندر سے اتنا تنگ نظر اور پست نکلے گا۔
اس کے رونے کی آواز سن کر اس کی بوڑھی ماں ریحانہ بیگم گھبرائی ہوئی دروازے پر پہنچی۔
’’کیا ہوا ثومی بیٹی، کیا ہوا؟‘‘ اس نے بیٹی کو اپنے بازوئوں میں سمیٹتے ہوئے پوچھا۔ ’’یااللہ تو رحم کر…‘‘ اس کے دل میں بے شمار وسوسے سے پیدا ہونے لگے۔
ماں کی آغوش میں آتے ہی ثمینہ نے اطمینان اور تحفظ محسوس کیا۔ اس کے دکھ کو سمجھنے والی ہستی ابھی موجود تھی۔
’’کوئی بات نہیں ہے امی۔‘‘ اس نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ ’’سب ٹھیک ہے۔ میں بھی کتنی پاگل ہوں، مجھے تو خوش ہونا چاہئے کہ اللہ نے مجھے پیشگی اطلاع دے دی۔ اگر شادی کے بعد اس بات کا پتا چلتا تو میری زندگی عذاب بن جاتی۔‘‘
’’ہوا کیا ہے آخر؟ کس خطرے کی بات کر رہی ہو؟‘‘ ماں نے پریشانی سے پوچھا۔ ’’کیا امجد نے کچھ کردیا ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں، بہت کچھ۔‘‘ ثمینہ نے جواب دیا۔ ’’آج اس نے اپنی اصلیت ظاہر کردی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ابھی نکاح نہیں ہوا تھا۔ میں امجد سے شادی نہیں کروں گی۔‘‘
’’اے بیٹی! ایسی بات منہ سے مت نکالو، امجد بہت اچھا لڑکا ہے، خوش شکل ہے، برسر روزگار ہے اور اچھی تنخواہ پاتا ہے۔ لوگ تو ایسے رشتوں کو ترستے ہیں۔ باقی تھوڑی بہت کمزوریاں تو ہر شخص میں ہوتی ہی ہیں۔‘‘
’’یہ خوش شکل اور برسر روزگار شخص بہت شکی مزاج ہے۔‘‘
ثمینہ نے تھوڑی دیر پہلے ہونے والی گفتگو کی تفصیل ماں کو بتائی پھر کہا۔ ’’میں مر جائوں گی، مگر ایسے شخص کے ساتھ شادی نہیں کروں گی۔ اب اگر یہ آئے تو اس کی چیزیں واپس کردیں اور صاف لفظوں میں بتا دیں کہ ہم نے منگنی توڑ دی ہے۔‘‘
ریحانہ بیگم ایک جہاندیدہ عورت تھی۔ امجد کی باتیں سننے کے بعد اس نے اپنی بیٹی کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ جس شخص نے منگنی کے دوران اس کی بیٹی پر الزام لگا دیا تھا وہ شادی کے بعد بہت کچھ کرسکتا تھا۔
وہ رات ثمینہ نے سخت الجھن میں گزاری۔ سوچ بچار اور بے خوابی کی وجہ سے اس کی طبیعت خراب ہوگئی اور وہ دفتر نہ جا سکی۔
ساڑھے نو بجے امجد کا فون آگیا۔ اس وقت ثمینہ دفتر فون کرنے کا ارادہ کر رہی تھی۔ امجد کی آواز سن کر وہ ایک دم غصے سے بھر گئی۔
’’ثومی! میں نے تمہارے آفس فون کیا تھا۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’ایک دفعہ نہیں کم از کم بارہ تیرہ مرتبہ، یہی جواب ملا کہ مس ثمینہ ریاض سیٹ پر موجود نہیں۔‘‘
ثمینہ کچھ نہیں بولی۔ ’ہوں ہاں‘ بھی نہیں کیا۔
قدرے توقف کے بعد امجد بولا۔ ’’میں نے تم سے معافی مانگنے کے لئے فون کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ کل شام مجھ سے کچھ زیادتی ہوگئی تھی۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ ایسی بات نہیں ہوگی۔ پتا نہیں مجھے اچانک کیا ہوگیا تھا… ثومی، کیا بات ہے، تم بولتی کیوں نہیں؟‘‘
’’میرا نام ثمینہ ریاض ہے۔‘‘ ثمینہ نے تلخی سے کہا۔
’’مجھے معلوم ہے کہ تم سخت غصے میں ہو۔‘‘امجد بولا۔ ’’اسی لئے میں معافی مانگ رہا ہوں۔ پلیز… ثمینہ غصہ تھوک دو، کل والی بات بھول جائو۔‘‘
’’میں وہ باتیں قیامت تک نہیں بھول سکتی، میں نے تمہاری منگنی کی انگوٹھی اور جوڑے وغیرہ پیک کر دیئے ہیں۔ یہ تمام چیزیں کسی وقت آ کر لے جانا۔‘‘
’’کک… کیا تم منگنی توڑنے کی بات کر رہی ہو؟‘‘
’’منگنی کل شام کو ہی ٹوٹ گئی تھی۔‘‘
’’نہیں، تم ایسا نہیں کرسکتیں۔‘‘
’’عورت مرد کو طلاق نہیں دے سکتی، نکاح نہیں توڑ سکتی، لیکن منگنی توڑ سکتی ہے۔ اسے منگنی توڑنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘ یہ کہہ کر ثمینہ نے فون بند کردیا۔
اگلے روز امجد نے اسے دفتر فون کیا، لیکن اس نے بات کرنے سے انکار کردیا۔
شام کو امجد پھولوں کا گجرا لئے اس کے دروازے پر پہنچ گیا۔ ثمینہ نے گاڑی رکنے کی آواز سنی تو منگنی کے تحائف کا پیکٹ لے کر دروازے پر پہنچ گئی اور اوٹ میں رہتے ہوئے پیکٹ امجد کی طرف بڑھا دیا۔
’’یہ تمہاری امانت۔‘‘ اس نے تلخی سے کہا۔
’’کیا تم مجھے وضاحت کا موقع نہیں دو گی؟‘‘
’’جو بات انسان اپنی آنکھوں سے دیکھ لے یا کانوں سے سن لے، اس کے لئے پھر کسی وضاحت کی ضرورت نہیں رہتی۔ ویسے تم جو کہنا چاہتے ہو وہ کہہ دو میں سن رہی ہوں۔‘‘
’’میرے خیال میں اندر بیٹھ کر بات کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔‘‘
’’گلی میں کھڑے ہو کر بات کرنے کا فیصلہ تمہارا تھا۔‘‘ ثمینہ نے
اسے یاد دلایا۔ ’’تم نے کہا تھا کہ جب تک تمہاری تسلی نہیں ہو جاتی، تم ہمارے گھر میں داخل نہیں ہوگے۔‘‘
’’وہ… وہ میری حماقت تھی۔‘‘
’’انسان کو اپنی حماقت کا خمیازہ ضرور بھگتنا پڑتا ہے۔‘‘
’’میں سزا بھگتنے کے لئے تیار ہوں۔‘‘
’’میں فیصلہ کرچکی ہوں، تم اسے سزا یا جو چاہے سمجھو۔ میرا اب تم سے کوئی تعلق نہیں رہا۔‘‘ اس نے پیکٹ زمین پر پھینک کر دروازہ بند کرلیا۔
اس کا خیال تھا کہ امجد بات سمجھ جائے گا اور اس سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش نہیں کرے گا لیکن اس کا خیال غلط ثابت ہوا۔
امجد آسانی سے پیچھا چھوڑنے والا شخص نہیں تھا۔ وہ روزانہ دو بار فون ضرور کرتا۔ ایک مرتبہ دفتر میں اور ایک بار گھر پر… ثمینہ نے آپریٹر سے کہہ دیا کہ وہ امجد کی کوئی کال نہ ملائے۔ گھر میں اسے مجبوراً فون اٹھانا پڑتا تھا۔
امجد کبھی نرمی کبھی منت کے انداز میں اور کبھی چیخ کر بات کرتا۔
ثمینہ مختصر جواب دیتی اور فون رکھ دیتی۔ اس کا ردعمل یہ ہوتا کہ وہ بار بار فون کرنے لگتا۔ ثمینہ تنگ آ کر ریسیور اٹھا کر رکھ دیتی، لیکن وہ ہمیشہ ایسا نہیں کرسکتی تھی۔
چند روز بعد اس نے ایک نیا طریقہ اختیار کیا۔ امجد کی آواز سن کر وہ خاموشی سے اس کی باتیں سنتی رہتی، منہ سے کچھ نہیں بولتی۔
جب وہ بولتے بولتے تھک جاتا تو کہتی۔ ’’میں یہ ساری باتیں پہلے بھی سن چکی ہوں اور میرا جواب وہی ہے جو میں تمہیں بتا چکی ہوں۔‘‘
ایک شام وہ دفتر سے گھر روانہ ہوئی تو اس نے دیکھا کہ امجد کی کار آفس کی وین کے پیچھے آ رہی تھی۔ گھر پہنچ کر اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو امجد کی کار گلی میں کھڑی دکھائی دی۔ وہ ان کے مکان سے ذرا ہٹ کر کھڑی تھی۔ امجد ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا۔
ثمینہ نے ماں سے کہا۔ ’’امی! یہ آدمی تو کسی پرانی بیماری کی طرح میرے پیچھے پڑگیا ہے۔ دفتر سے میرا پیچھا کرتا ہوا آیا ہے اور اب اس کی کار گلی میں کھڑی ہے۔‘‘
ریحانہ بیگم نے چشمہ لگا کر کھڑکی سے باہر دیکھا۔ امجد کی کار دیکھ کر اس کے چہرے پر فکرمندی نظر آنے لگی۔
’’اس طرح تو ہم بدنام ہو جائیں گے۔‘‘ ماں نے کہا۔ ’’تم کہو تو میں اسے بلا کر سمجھائوں؟‘‘
’’وہ یہی چاہتا ہے کہ ہم اسے گھر میں بلائیں لیکن اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا بلکہ الٹا نقصان ہوگا، آپ اسے فون پر بہت سمجھا چکی ہیں اور میں خود بھی سمجھا چکی ہوں۔ اگر اس کے اندر شرافت ہوتی تو خاموشی سے پیچھے ہٹ جاتا، مگر وہ ہمیں نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ اس کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک منتقم مزاج شخص ہے۔‘‘
’’لیکن یہ ڈرامہ کب تک چلے گا؟‘‘ ریحانہ بیگم نے کہا۔
’’ہمیں اس کا علاج کرنا چاہئے۔‘‘
’’خدا کرے اسے خود ہی شرم آ جائے، ورنہ بالآخر ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔‘‘
اگلی صبح ثمینہ آفس وین میں دفتر روانہ ہوئی تو امجد کی کار بھی وین کے پیچھے تھی۔
پھر یہ روز کا معمول بن گیا۔ وہ کہیں بھی جاتی، امجد ہر جگہ موجود ہوتا، اگر وہ ٹیکسی یا رکشہ میں ہوتی تو وہ کار میں تعاقب کرتا، اگر وہ شاپنگ کر رہی ہوتی تو پیدل پیچھا کرتا لیکن خاصا فاصلہ چھوڑ کر۔ وہ نہایت رازداری سے اس کا پیچھا کرتا۔ تاہم اس بات کا اہتمام ضرور کرتاکہ ثمینہ اس کی نظروں میں رہے۔
اس کی اس حرکت سے ثمینہ کے اعصاب بری طرح متاثر ہونا شروع ہوگئے تھے۔ تعاقب کے دوران اس کے قریب آتا تھا اور نہ ہی اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا تھا۔
بالآخر تنگ آ کر ثمینہ نے پولیس کو فون کیا اور کہا کہ ایک بدمعاش مستقل اس کے پیچھے لگا ہوا ہے اور اس کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ ڈیوٹی آفیسر نے ثمینہ کا پتا نوٹ کرلیا اور کہا کہ وہ فی الفور دو آدمی بھیج رہا ہے۔
پندرہ منٹ کے بعد ایک اے ایس آئی اور ایک سپاہی موٹر سائیکل پر ان کے گھر پہنچ گئے۔ انہوں نے ریحانہ بیگم سے مختصر بات کی اور امجد کی کار کے سامنے پہنچ گئے۔
اے ایس آئی نے کہا۔ ’’بھائی صاحب! ذرا باہر تشریف لے آئیں۔‘‘
امجد دروازہ کھول کر باہر آگیا اور سوالیہ نظروں سے اے ایس آئی کی طرف دیکھنے لگا۔
اے ایس آئی اس کی وجیہ شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا، وہ کسی اعتبار سے آوارہ یا بدمعاش نہیں لگ رہا تھا۔
اے ایس آئی نے کہا۔ ’’وہ سامنے مکان میں جو خاتون رہتی ہیں، اس نے آپ کے متعلق رپورٹ درج کروائی ہے کہ آپ اسے اور اس کی بیٹی کو ہراساں کر رہے ہیں۔‘‘
’’انہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔‘‘ امجد نے پراعتماد لہجے میں کہا۔ ’’میں ایک معزز اور امن پسند شہری ہوں۔‘‘
’’آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟‘‘ اے ایس آئی نے پوچھا۔
’’یہ بڑی ذاتی قسم کی بات ہے، میرا خیال ہے کہ آپ کو نہیں بتایا گیا ہوگا کہ ثمینہ ریاض میری منگیتر ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ اے ایس آئی نے حیرانی سے کہا۔ ’’آپ کا مطلب ہے کہ بیگم ریحانہ کی بیٹی آپ کی منگیتر ہے؟‘‘
’’جی ہاں! میں نے یہی کہا ہے، یہ دیکھیں، منگنی کی انگوٹھی۔‘‘ اس نے اپنا ہاتھ اے ایس آئی کے سامنے پھیلا دیا۔ ’’آپ یہ انگوٹھی لے جائیں اور مس ثمینہ کو دکھا کر پوچھیں کہ کیا یہ انگوٹھی اس نے مجھے نہیں دی تھی۔‘‘
’’کیا آپ لوگوں میں کوئی جھگڑا ہوگیا ہے؟‘‘
’’جھگڑا تو کوئی خاص نہیں ہوا، بس ثمینہ مجھ سے ناراض ہوگئی ہے اور میں اسے راضی کرنے کے لئے مجنوں بنا ہوا ہوں۔‘‘
’’یہ تو بڑی دلچسپ کہانی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ اے ایس آئی نے گویا اس ’’معاملے‘‘ سے حظ اٹھاتے ہوئے کہا اور بہ دستور اس کی طرف تکتے ہوئے آگے مستفسر ہوا۔ ’’آپ کام کیا کرتے ہیں؟‘‘
’’میں ایک کمپنی میں سوفٹ ویئر انجینئر ہوں۔‘‘ امجد نے جیب سے اپنا وزیٹنگ کارڈ نکال کر اے ایس آئی کو دیا۔ ’’یہ میرا کارڈ ہے، اس پر میری کمپنی کا نام اور فون نمبر موجود ہے۔ آپ میرے باس کو فون کر کے میرے بارے میں پوچھ سکتے ہیں۔‘‘
اے ایس آئی نے کارڈ پر نظر ڈالی اور مزید متاثر ہوتے ہوئے بولا۔ ’’امجد صاحب! آپ اچھے خاصے پوزیشن والے آدمی ہیں، آپ کو اچھے سے اچھا رشتہ مل سکتا ہے۔ اگر یہ لوگ راضی نہیں ہیں تو آپ چھوڑ دیں انہیں۔‘‘
امجد نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’انسپکٹر صاحب! آپ فلمیں دیکھتے ہیں؟‘‘
اے ایس آئی نے اس عجیب سوال پر اپنی آنکھیں جھپکائیں اور بولا۔ ’’دیکھتا ہوں۔‘‘
امجد نے کہا۔ ’’آپ نے شیریں فرہاد، لیلیٰ مجنوں اور ہیر رانجھا نامی فلمیں دیکھی ہوں گی؟‘‘
’’یہ فلمیں تو ہم بچپن سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔‘‘
’’آپ نے بالکل صحیح فرمایا۔‘‘ امجد نے کہا۔ ’’ہر آٹھ دس سال بعد ان عشقیہ کہانیوں پر ایک نئی فلم بن جاتی ہے، اور لوگ پورے ذوق و شوق سے انہیں دیکھتے ہیں۔‘‘
’’لیکن آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟‘‘
امجد بولا۔ ’’میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ہیر نے رانجھے کی، لیلیٰ نے مجنوں کی اور شیریں نے فرہاد کی ایف آئی آر کٹوائی تھی؟ کیا پولیس نے کبھی ان رانجھوں، فرہادوں اور مجنوئوں کو گرفتار کیا ہے؟‘‘
اے ایس آئی نے امجد کا کندھا تھپتھپایا اور بولا۔ ’’امجد صاحب! اللہ آپ کے حال پر رحم کرے، جس راستے پر آپ چل رہے ہیں، وہ اچھا راستہ نہیں ہے۔‘‘
امجد نے کہا۔ ’’مجھے معلوم ہے۔ اگر یہ راستہ اتنا سہل ہوتا تو ہر شخص عاشق بن جاتا۔‘‘
اے ایس آئی نے قہقہہ لگایا پھر بولا۔ ’’آپ سمجھدار آدمی ہیں، ہمیں آپ کے مجنوں بننے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن فاصلہ برقرار رہنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کا معاملہ دست اندازی پولیس کیس کے زمرے میں آجائے۔‘‘
’’آپ مطمئن رہیں، دوطرفہ رضامندی کے بغیر کام نہیں ہوگا۔ آپ سے میری ایک درخواست ہے، اپنی طرف سے ثمینہ کی ماں کو سمجھائیں۔ ان سے کہیں کہ میں اپنی غلطی پر معافی مانگنے اور سزا بھگتنے کے لئے تیار ہوں، اور یہ…‘‘ اس نے جیب سے چند نوٹ نکال کر اے ایس آئی کی مٹھی میں دبائے۔ ’’… ایڈوانس فیس رکھ لیں۔‘‘
اے ایس آئی نوٹ جیب میں ٹھونستے ہوئے بولا۔ ’’آپ خوشی سے دے رہے ہیں تو رکھ لیتا ہوں، ورنہ اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی۔‘‘
٭ … ٭ … ٭
ثمینہ کھڑکی سے یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ فاصلے کی وجہ سے وہ گفتگو نہیں سن سکی تھی۔ تاہم اے ایس آئی کے انداز گفتگو سے اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ امجد اپنی چرب زبانی کی وجہ سے پولیس کی ہمدردی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
اے ایس آئی نے واپس آ کر کہا۔ ’’بیگم صاحبہ! اس شخص میں ہمیں تو کوئی خرابی نظر نہیں آئی۔ وہ ایک انجینئر ہے اور امن پسند شہری نظر آتا ہے، اس کا کہنا ہے کہ وہ آپ کا ہونے والا داماد ہے۔‘‘
’’جھوٹ بولتا ہے وہ؟‘‘ ثمینہ نے کہا۔ ’’ہم منگنی توڑ چکے ہیں لیکن وہ اس رشتے کو دوبارہ جوڑنے کے لئے ہمیں ہراساں کر رہا ہے۔ صبح و شام میرا تعاقب کرتا ہے۔‘‘
اے ایس آئی نے پوچھا۔ ’’کیا آپ نے انگوٹھی واپس لے لی ہے؟‘‘
’’ہم اس انگوٹھی پر فاتح پڑھ چکے ہیں۔‘‘
’’بی بی، یہ بتائیں کہ تعاقب کے دوران امجد نے آپ سے بات کرنے یا کسی اور طریقے سے آپ کو تنگ کرنے کی کوشش کی ہے؟‘‘
’’یہ آپ عجیب بات کر رہے ہیں۔‘‘ ریحانہ بیگم نے کہا۔ ’’کسی شریف لڑکی کا تعاقب کرنا کہاں کی شرافت ہے؟‘‘
’’بی بی صاحبہ! بات یہ ہے کہ ہم کسی قانونی جواز کے بغیر کسی پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے۔ امجد کی کار آپ کے گھر سے پچیس قدم دور کھڑی ہے۔ میں نے خود قدم ناپے ہیں، اس کے علاوہ اس کا کہنا ہے کہ ناراضی کے بعد وہ ثمینہ بی بی کے قریب بھی نہیں گیا۔ اگر کبھی آمنا سامنا ہو جائے تو وہ کم از پندرہ قدم کا فاصلہ رکھ کر چلتا ہے۔ ظاہر ہے یہ فاصلہ قابل دست اندازی پولیس نہیں ہے۔ کسی کو گلی میں کار کھڑی کرنے سے روک سکتے ہیں اور نہ ہی بازار میں چلنے پھرنے سے منع کرسکتے ہیں، ہاں، اگر اس نے کوئی غلط حرکت کی تو ہم اس کے خلاف ضرور کارروائی کریں گے۔‘‘
’’یہ تو عجیب قانون ہے آپ کا۔‘‘ ریحانہ بیگم نے کہا۔
’’امی! ان سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘ ثمینہ نے کہا۔ ’’امجد نے ان کی مٹھی گرم کردی ہے۔‘‘
اے ایس آئی جاتے جاتے رکا اور بولا۔ ’’بیگم صاحبہ! امجد اچھا آدمی ہے، میرا مشورہ یہی ہے کہ اس سے صلح کرلیں۔ وہ آپ سے معافی مانگنے کے لئے تیار ہے۔‘‘
’’آپ اس
شخص کو نہیں جانتے!‘‘
اے ایس آئی نے افسردگی سے اپنا سر ہلایا اور سپاہی سے بولا۔ ’’آئو چلیں، ہم ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔‘‘
دونوں موٹر سائیکل پر بیٹھ کر رخصت ہوگئے۔
ثمینہ سر پکڑ کر صوفے پر گر گئی اور بولی۔ ’’یہ پولیس والے تو الٹا ہمیں ہی غلطی پر سمجھ رہے ہیں۔‘‘
’’میرا خیال ہے کہ ہمیں محلے کے کسی بزرگ کے ذریعے اسے سمجھانا چاہئے۔‘‘ ریحانہ بیگم نے خیال ظاہر کیا۔
’’ہرگز نہیں۔‘‘ ثمینہ نے سختی سے نفی میں اپنا سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’اس طرح ہم بدنام ہو جائیں گے۔‘‘
’’تو پھر تم ایسا کرو، اسے اندر بلا لو، میں اسے آخری بار سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں۔‘‘
’’وہ اس طرح نہیں مانے گا۔‘‘
’’ہمیں ایک دفعہ کوشش کر لینی چاہئے، دراصل وہ ضد میں آگیا ہے۔ اسے غصہ اسی بات پر ہے کہ تم نے اسے دروازے سے لوٹا دیا تھا۔‘‘
ثمینہ اس مصیبت سے چھٹکارا پانے کے لئے کچھ بھی کرسکتی تھی۔ اس نے ماں کی بات سے اتفاق کیا اور اپنا حلیہ ٹھیک کرکے گلی میں پہنچ گئی۔
اس وقت شام ہوچکی تھی اور گلی میں تاریکی پھیل رہی تھی۔
امجد ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا۔ اس نے ثمینہ کو اپنی طرف آتے دیکھ کر کھڑکی کا شیشہ چڑھا لیا۔
ثمینہ نے انگلیوں کی پوروں سے شیشے پر دستک دی لیکن امجد نے شیشہ نیچے کیا اور نہ ہی ثمینہ کی طرف دیکھا۔ وہ کسی بت کی طرح سیٹ پر بے حرکت بیٹھا تھا۔ اس کی نظریں سامنے کسی نامعلوم شے پر مرکوز تھیں اور ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ ابھر آئی تھی۔
ثمینہ نے دو تین مرتبہ شیشے پر دستک دی، مگر امجد نے اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ شاید وہ اب صلح کا خواہشمند نہیں رہا تھا اور اپنی حرکتوں سے ثمینہ کو اذیت پہنچانا چاہتا تھا۔
’’امجد! پلیز، میری بات تو سنو!‘‘ ثمینہ نے کہا۔ ’’امی تم سے بات کرنا چاہتی ہیں۔‘‘
وہ اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے منگنی کی انگوٹھی کو دو انگلیوں میں پکڑ کر دائیں بائیں گھمانے لگا۔ اس کے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ بدستور رقصاں تھی۔ بالآخر اس نے کار کا انجن اسٹارٹ کیا اور ثمینہ کی طرف دیکھے بغیر کار آگے بڑھا دی۔
اگلے دن جب ثمینہ دفتر جانے کے لئے آفس وین میں بیٹھی تو امجد کی کار گلی کے کونے پر موجود تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اس کے پاس اب تعاقب کے سوا کوئی کام نہیں تھا۔ وہ سائے کی طرح اس کے پیچھے لگا رہتا تھا۔
ایک شام طارق روڈ پر شاپنگ کے دوران ثمینہ بری طرح جھنجھلا اٹھی، امجد کبھی آگے نظر آتا تو کبھی پیچھے۔ کوئی شخص اسے دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ ایک معصوم لڑکی کا تعاقب کر رہا تھا۔ کیوں کہ وہ خاصا فاصلہ رکھ کر تعاقب کر رہا تھا۔
ثمینہ کو اپنے اعصاب چٹختے محسوس ہوئے۔ آخر یہ شخص چاہتا کیا تھا؟ اس نے سوچا کہ آج اس بات کا فیصلہ ہو جانا چاہئے، وہ پیچھے مڑی اور تیزی سے چلتی ہوئی امجد کے قریب جا پہنچی۔
’’امجد! تمہارے اندر ذرا بھی انسانیت باقی نہیں رہی؟‘‘ اس نے غصے سے پوچھا۔ ’’کک… کیا تم میرا مستقبل برباد کرنا…‘‘
امجد ذرا سا رکا، دو قدم پیچھے ہٹا اور ٹریفک کے درمیان سے راستہ بناتا ہوا دوسری طرف پہنچ گیا۔ اس کا انداز ایسا ہی تھا جیسے ثمینہ کوئی چڑیل ہو، جو اچانک ہی اس پر حملہ آور ہوگئی تھی اور وہ اس سے بچ کر بھاگ کھڑا ہوا تھا۔ اس کی اس اچانک حرکت سے دو تین کاروں کو ہنگامی بریک لگانے پڑے تھے۔ آس پاس چلنے والے اکثر لوگ اس کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔
سڑک کے دوسری طرف ایگل اسکواڈ کی گاڑی کھڑی تھی۔ ثمینہ نے حیرت سے دیکھا کہ امجد سیدھا ایگل اسکواڈ کے پاس گیا اور الزامی انداز میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہیں کچھ بتانے لگا۔ صورت حال ہر اعتبار سے اس کے حق میں تھی۔ دیکھنے والوں نے صرف اتنا دیکھا تھا کہ ایک لڑکی نے غصے میں اسے کچھ کہنا چاہا تھا اور وہ جان بچا کر وہاں سے بھاگا تھا۔
ثمینہ نے جلدی سے رکشا پکڑا اور شاپنگ کئے بغیر واپس روانہ ہوگئی۔ اسے اپنی حماقت اور بے بسی پر سخت غصہ آ رہا تھا۔ دیکھا جائے تو قانون شکنی کا ارتکاب اس کی طرف سے ہوا تھا۔ اے ایس آئی نے ٹھیک ہی کہا تھا، کسی کو بازار میں چلنے پھرنے سے روکا نہیں جا سکتا تھا۔ کچھ دور جانے کے بعد اس نے پیچھے نظر ڈالی۔ امجد کی کار اس کے پیچھے آ رہی تھی لیکن درمیان میں بیس پچیس قدموں کا فاصلہ تھا۔
’’یااللہ! یہ کیا مصیبت میرے پیچھے لگ گئی۔‘‘ اس نے مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا۔ ’’مم… میں… میں کسی دن پاگل ہو جائوں گی۔‘‘
رکشا ڈرائیور نے عقب نما آئینے میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’بیگ صیب، آپ نے ام کو کچھ بولا؟‘‘
’’نن… نہیں… نہیں… کوئی بات نہیں ہے۔‘‘ ثمینہ نے جواب دیا اور خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کرنے لگی۔
اسی روز رات کے گیارہ بجے ثمینہ کو یوں لگا جیسے کوئی ان کے عقبی دروازے پر دستک دے رہا ہو۔
اس نے ٹی وی کی آواز بند کردی اور ماں سے بولی۔ ’’امی! شاید کوئی پچھلے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔‘‘
آواز اتنی مدھم تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی پنسل سے دروازے پر ٹک ٹک کر رہا ہو۔
دونوں ماں بیٹھی عقبی صحن میں پہنچ گئیں۔ اتنی رات گئے کبھی کوئی مہمان بھی پچھلے دروازے سے نہیں آیا تھا۔
’’کون…؟‘‘ ثمینہ نے آواز لگائی۔
اس کے ساتھ ہی ایک جلتا ہوا گولا دیوار کے اوپر نمودار ہوا اور دھب سے ریحانہ بیگم کے قدموں میں گرا۔ دونوں عورتوں کی چیخیں نکل گئیں۔ ثمینہ جلدی سے پانی لینے کے لئے باتھ روم کی طرف بھاگی۔
جلتی ہوئی شے کپڑوں کی پوٹلی تھی۔ ثمینہ نے جلدی جلدی پانی ڈال کر آگ بجھا دی۔ تاہم اس وقت تک کپڑوں کا بیشتر حصہ جل چکا تھا۔
ثمینہ نے پوٹلی کھول کر دیکھا۔ اس کے اندر منگنی کے وہ کپڑے تھے جو اس نے امجد کو لوٹا دیئے تھے۔ کپڑوں کے اندر پھولوں کا گجرا اور منگنی کی انگوٹھی بھی تھی۔
’’اب تو یہ کھلا کھلا پولیس کیس ہے۔‘‘ ثمینہ نے چیخ کر کہا۔ ’’ان چیزوں کو ایسے ہی رہنے دیں۔ میں پولیس کو فون کرتی ہوں۔‘‘
’’ٹھہرو، پولیس کو فون کرنے کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔‘‘ ریحانہ بیگم بولی۔ ’’ہمارے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ حرکت امجد کی ہے بلکہ وہ الٹا ہم پر الزام لگا دے گا کہ ان چیزوں کو ہم نے خود آگ لگائی ہے۔‘‘
ثمینہ کے اٹھے ہوئے قدم رک گئے۔ ماں کی بات ٹھیک معلوم ہوتی تھی۔ ان کے پاس تو یہ ثبوت بھی نہیں تھا کہ انہوں نے امجد کی چیزیں واپس کردی تھیں، جبکہ ان کی دی ہوئی انگوٹھی ہنوز امجد کے پاس تھی… اس لئے وہ کہہ سکتا تھا کہ ابھی منگنی کے سامان کا تبادلہ نہیں ہوا۔
پھر اسی شام اس نے امجد کو ایگل اسکواڈ والوں سے بات چیت کرتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ پتا نہیں اس نے ان لوگوں سے کیا کچھ کہا تھا؟
’’آپ ٹھیک کہتی ہیں امی!‘‘ ثمینہ نے کہا۔ ’’اس مکار شخص نے اپنی پوزیشن محفوظ کرنے کا انتظام کر لیا ہوگا۔‘‘
اس رات دونوں ماں بیٹی اس مصیبت سے چھٹکارا پانے کی تدبیریں سوچتی رہیں۔
اگلی صبح ثمینہ نے اپنے دفتر سے پندرہ دن کی چھٹی لی اور نہایت رازداری کے ساتھ ناظم آباد میں اپنی ایک کزن کے ہاں منتقل ہوگئی۔ اس کا خیال تھا کہ پندرہ دن جھک مارنے کے بعد بالآخر امجد مایوس ہوجائے گا اور اس کا پیچھا چھوڑ دے گا۔
لیکن اس کا اندازہ غلط ثابت ہوا۔ چھٹے روز اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا، تو گلی میں امجد کی کار کھڑی دکھائی دی۔ اس کا رنگ پیلا پڑگیا۔ امجد بڑے آرام سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا۔
ثمینہ کی کزن صائمہ، جو اس کے قریب ہی موجود تھی، وہ اس کے چہرے کا بدلتا رنگ دیکھ کر بولی۔ ’’کیا بات ہے ثمینہ؟ تم نے گلی میں کوئی بھوت دیکھ لیا کیا؟‘‘
صائمہ شادی شدہ تھی۔ دو بچوں کی ماں تھی اور نفسیات میں ایم اے تھی۔
تب ثمینہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی اور رونا شروع کردیا۔
’’ارے… ارے…!‘‘ صائمہ نے اس کا شانہ تھپتھپایا اور شفقت سے کہا۔ ’’ایک دم اتنے موٹے موٹے آنسو…! کیا بات ہے، کون ہے گلی میں؟‘‘
اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا، وہاں اسے کوئی خطرناک شخص نظر نہیں آیا۔ سوائے ایک مہذب شخص کے، جو اپنی کار کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا سگریٹ کے کش لے رہا تھا۔ اس کا دھیان بھی دوسری طرف تھا۔
بالآخر صائمہ کے اصرار پر ثمینہ نے اسے ساری بات بتا دی۔ پوری بات سننے کے بعد صائمہ نے ایک گہرا سانس لیا اور کچھ دیر کے لئے گہری سوچ میں مستغرق ہوگئی۔
’’جلدی سے تیار ہو جائو۔‘‘ ایک طویل اور پُرسوچ توقف کے بعد صائمہ نے کہا۔ ’’میں تھوڑی سی شاپنگ کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ ثمینہ نے حیرانی سے پوچھا۔ ’’یہ سب سننے کے باوجود آپ مجھے شاپنگ کے لئے لے جانا چاہتی ہیں؟‘‘
’’ہاں! میں ذرا اس ماڈرن مجنوں کو قریب سے دیکھنا چاہتی ہوں، فوراً تیار ہو جائو۔‘‘
’’صائمہ باجی! میں تو اس شخص سے چھپتی پھر رہی ہوں اور آپ مجھے اس کے سامنے لے جانا چاہتی ہیں؟‘‘ ثمینہ پریشان ہوگئی۔
صائمہ نے کہا۔ ’’اسٹڈی آف ہیومن نیچر میرا پسندیدہ سبجیکٹ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ میری ایک چھوٹی سی کوشش سے تمہارا مسئلہ حل ہوجائے، جہاں تک چھپنے والی بات ہے، اس کا اب کوئی فائدہ نہیں رہا، کیوں کہ امجد کو تمہارا ٹھکانہ معلوم ہوچکا ہے۔‘‘
ثمینہ مجبوراً تیار ہوگئی۔ دونوں قریبی مارکیٹ چلی گئیں۔ امجد ان کے پیچھے تھا… لیکن درمیانی فاصلہ خاصا تھا۔ اس پر گرفت نہیں کی جا سکتی تھی۔ البتہ صائمہ اس دوران امجد کی حرکات و سکنات کا جائزہ لیتی رہی۔
اگلے روز اس نے امجد کے دفتر فون کیا اس کے ساتھ کام کرنے والوں سے اس کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔ اس نے ان لوگوں کو بتایا کہ اسے رشتے کے سلسلے میں امجد رضا کے بارے میں معلومات درکار ہیں۔
دفتر والوں سے اسے امجد کے چند قریبی دوستوں کے فون نمبر بھی مل گئے۔
اگلے دو روز تک وہ ان دوستوں سے معلومات حاصل کرتی رہی۔
’’یہ شخص انتہائی حساس اور خودپسند ہے۔‘‘ بالآخر صائمہ نے امجد کا تجزیہ کیا۔ ’’یہ ان لوگوں میں سے ہے جو اپنی ذات اور صفات کے بارے میں پریقین ہوتے ہیں۔‘‘
’’حساس آدمی ایسی حرکت نہیں کرسکتا۔‘‘ ثمینہ نے کہا۔ ’’یہ شخص انتہائی سنگ دل اور بے رحم ہے۔‘‘
’’حساس لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اپنے علاوہ دوسروں کے لئے بھی حساس ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ، جو صرف اپنی
کے لئے حساس ہوتے ہیں۔ اپنی معمولی سے معمولی تکلیف کو بھی بے پناہ اہمیت دیتے ہیں، غیر اگر قتل بھی ہو جائے تو یہ اسے ایک خبر سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ یہ لوگ اپنے اصولوں کے معاملے میں سخت انتہا پسند ہوتے ہیں، یہ اپنے زیر اثر اور ماتحت افراد کے معاملے میں انتہائی سنگ دل ہوتے ہیں۔ اصولوں کی خلاف ورزی کو یہ لوگ نا قابل معافی گناہ سمجھتے ہیں اور اگر ان کا بس چلے تو یہ اصول کی خلاف ورزی کرنے والوں کو تہس نہس کر ڈالیں۔‘‘
’’میرے ساتھ وہ یہی کچھ کر رہا ہے۔‘‘ ثمینہ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’یہ شخص مجھے توڑ پھوڑ دینا چاہتا ہے۔‘‘
صائمہ نے اس کا کندھا تھپتھپایا، پھر بولی۔ ’’فکر نہ کرو اس کا کھیل اب ختم ہو جائے گا۔‘‘
٭ … ٭ … ٭
امجد اپنی کامیابیوں پر بہت خوش تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس نے اپنی ذلت کا خوب انتقام لیا ہے۔ یہاں تک کہ ثمینہ کو گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔ اب اسے اس دن کا انتظار تھا، جب وہ اس کے قدموں میں آن گرے گی۔ پھر یہ فیصلہ کرنا اس کے ہاتھ میں ہوگا کہ اسے قبول کرے یا ٹھکرا دے۔
اس روز بھی دفتر سے چھٹی پر وہ سیدھا صائمہ کے گھر کے سامنے پہنچ گیا۔ اس نے مناسب فاصلے پر کار روک دی تھی۔ انجن بند کیا۔ ایک سگریٹ سلگایا اور دھیرے دھیرے کش لینے لگا۔
اس کی نظر دو لڑکوں پر پڑی، جو گلی میں اشتہار چسپاں کر رہے تھے۔
وہ گلی میں کھڑی کاروں میں بھی اشتہار پھینکتے جا رہے تھے۔ اس کے قریب سے گزرتے ہوئے ایک لڑکے نے بھی چند اشتہار اس کی طرف بڑھا دیئے۔
اشتہار پر نظر پڑتے ہی امجد بری طرح چونک گیا۔
اس اشتہار پر اس کی تصویر چھپی ہوئی تھی۔ ایک نہیں، تین تصویریں، تین مختلف پوز…!
وہ جلدی جلدی اشتہار کا مضمون پڑھنے لگا۔ لکھا تھا۔
ہوشیار… خبردار!
یہ شخص جس کی تین تصویریں اوپر دی گئی ہیں، ایک خطرناک شخص ہے، اس کا نام امجد رضا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی مریض ہے۔ یہ اپنی کار کسی پرسکون گلی میں کھڑی کر کے اپنے شکار کا انتظار کرتا ہے، ایک دن… دو دن… تین دن… اور بعض اوقات کئی کئی دن…
آج کل یہ اس گلی میں دیکھا جا رہا ہے، اپنے بچوں کو اس کی تصویر دکھا دیں اور انہیں اچھی طرح سمجھا دیں کہ اس شخص کے قریب نہ جائیں، نہ اس کے ہاتھ سے کوئی چیز لیں، نہ کھانے کی، نہ کھیلنے کی…!
دیکھنے میں یہ شخص مہذب اور شریف نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ آپ خود بھی چاروں طرف نظر رکھیں۔ اس کے پاس بلیو کلر کی کار ہے، جس کا نمبر یہ ہے۔
امجد نے اشتہار پڑھ کر ایک طرف پھینکا، انجن اسٹارٹ کیا ، گیئر لگایا اور کسی توپ سے نکلے گولے کی طرح گاڑی کو اڑا کر لے گیا۔
وہ اب ثمینہ کے بارے میں سب کچھ بھول چکا تھا۔
(ختم شد)