Monday, April 21, 2025

Azadi Ka Parvana

نرسنگ کا کورس مکمل ہوتے ہی میرامری کے ایک مشہور اسپتال میں تبادلہ کر دیا گیا۔ اس سینی ٹوریم میں ٹی بی کے مریضوں کا علاج ہو تا تھا۔ چیڑ کےدرختوں میں گھری ہوئی یہ عمارت حساس ذہنوں کے لئے عجیب سا احساس پیدا کرتی۔ ان دنوں میں عمر کے اس دور میں تھی جب ایسے نظارے دل کو لبھاتے ہیں اور انسانی روح ساتھی کی تلاش میں سر گرداں رہتی ہے۔ جہاں میری تعیناتی ہوئی، یہ تین منزلہ عمارت تھی۔نچھلی منزل میں دوماہ گزارنے کے بعد میری ڈیوٹی تیسری منزل میں لگ گئی۔ پہلے ہی دن نظر ایک ایسے خاموش مریض پر پڑی جو چہرے سے کسی طرح بھی ٹی بی کا مریض نظر نہ آتا تھا۔ چونک کر رہ گئی، سوچنے لگی شاید دنیاوالوں سے بہانہ کر کے یہ شخص یہاں آلیٹا ہے۔ خوبصورت خدو خال والا یہ لمبا چوڑا نوجوان نہایت اچھی صحت کا مالک نظر آرہا تھا۔ چہرے پر سُرخی اور ہونٹوں پر وہ قدرتی لالی موجود تھی جو ٹی بی کے مریضوں کے نصیب میں نہیں ہوتی۔ اس کے چہرے کا رنگ کشمیری سیب کی طرح سرخ اور شفاف تھا۔ وہاں آنکھوں کی قدرتی چمک اور کشش بھی کہہ رہی تھی کہ شاید محبت کا مریض ہو تو ہو، ٹی بی کا ہر گز نہیں۔ قدرتی طور پر میں اس مریض میں دلچسپی لینے لگی۔ پتا چلا کہ بی ایس سی کا طالب علم ہے، واقعی مریض ہے لیکن مرض ابھی پہلے درجے میں ہے۔ بہت کم بات کرتا، کسی کو کوئی خاص لفٹ نہیں دیتا۔ کوئی از خود لفٹ لینے کی کوشش کرے تو بُرا منا تا ہے بلکہ ڈانٹ دیتا ہے۔ میں نے اس کے مزاج کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس کی پر اسراریت کی وجہ جاننے کا اردہ ختم کر لیا۔ دراصل اس کی بارعب شخصیت، خاموش طبع اور رکھ رکھائو نے مجھے پر جادو سا کر دیا تھا کہ اب چلتے پھرتے سوتے جاگتے اس کے خیالوں میں گم رہنے لگی تھی۔ رفتہ رفتہ میں اس کی ہم مزاج بنتی گئی، ہر روز اس سے کچھ سوالات کرنے کی کوشش کرتی، کبھی نہایت مختصر دو لفظوں کا جواب ملتا اور کبھی وہ ٹال دیتا۔ دوبارہ سوال دہراتی تو منہ پھلا لیتا، کبھی ہنس بھی پڑتا، تبھی میرے لئے وہ ایک دلچسپ کتاب تھا جو کسی دوسری زبان میں تحریر کی گئی تھی کہ میں جس کو باوجود اپنی پوری توجہ اور کوشش کے پڑھ نہیں پائی تھی۔ ایک ماہ بعد میری ڈیوٹی اس کے وارڈ میں لگ گئی۔ خوشی سے نہال ہو گئی ، گھنٹوں اس کے کمرے میں رہتی۔ اکثر وہ جان بوجھ کر میری موجودگی کو نظر انداز کرتا اور کتاب پڑھنے میں محورہتا ، کئی کئی گھنٹے وہ میری جانب نہ دیکھتا، تب مجھے کو سبکی محسوس ہوتی، میری عجیب حالت ہو جاتی ، دل ہی نہیں دماغ بھی تھک جاتا اور بے عزتی محسوس کرتا۔ دماغ کہتا کہ نکلو یہاں سے، دوبارہ یہ بلائے تو بھی نہ آنا۔ دل کہتا، نہیں اس کے حالات جانے کیا ہیں، کیا خبر کس قدر صدمات سے گزرا ہے کہ ٹی بی وارڈ تک آپہنچا ہے۔ کبھی تو یہ کھلے گا، اپنا احوال بتادے گا تو جستجو کے جذبے کو سکون آجائے گا۔ ایک روز اس نے ہنس کر بات کر لی ، دل کھل اٹھا۔ میں نے بے اختیار اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کا بوسہ لے لیا پھر ایک نظر جو اس کی جانب دیکھا، سکتے میں رہ گئی۔ وہ غصے سے سرخ ہو چکا تھا۔ اس نے غصے سے کہا۔ تم نرس ہو کہ بازاری عورت ! کیا نر سنگ جیسے مقدس پیشے سے وابستہ نرسیں ایسی ہوتی ہیں۔ اف، میرے کان کی لو سنگ اٹھیں۔ دوبارہ اس کی جانب دیکھنے کی ہمت نہ ہوئی کہ اس نے مجھے منہ بھر کر بازاری عورت “ کہہ دیا تھا۔ دبے قدموں آنسو پونچھتی لوٹ آئی، دوبارہ کئی گھنٹے اس کے کمرے میں نہ گئی۔ رات ہو گئی ، ڈیوٹی سے مجبور مجھے اس کے کمرے میں جانا ہی تھا۔ میں گئی ، وہ منہ پھلائے بیٹھا تھا، معافی مانگی خاموش رہا۔ میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تو اس کا دل پسیج گیا۔ تبھی میں نے ہمت کی اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا، نیچے لان میں لے آئی۔ ہم نے باتیں شروع کیں۔ زیادہ میں ہی بولتی رہی۔ طرح طرح سے اس کو مناتی رہی۔ آخر وہ ایک طویل خاموشی کے بعد بولا۔ آپ مجھے کیوں بار بار تنگ کرتی ہیں ؟ آپ کیوں اس قدر پر اسرار کہانی بنے ہوئے ہیں، میں اس کی وجہ پوچھنا چاہتی ہوں، یا تو خاموشی کی وجہ بتادیں یا مجھے بھی اپنی خاموش میں شریک کر لیں۔ بہت سوچنے کے بعد اس نے کہا۔ سنو بہت شوق ہے تو ، حالانکہ جانتا ہوں میری رُوداد سے تم کو کچھ حاصل نہ ہو گا مگر تمہارے تجسس کی تسکین ہو جاۓ گی ۔ گھر والوں نے میری منگنی اپنے رشتہ داروں کے یہاں کر دی تھی۔ لڑکی مقبوضہ کشمیر کی رہنے والی تھی، مجھے اپنی منگیتر سے بے حد محبت تھی مگر اس نے بڑی کڑی شرط رکھ دی کہ ہماری شادی جب ہی ہو سکتی ہے جب تم مادر وطن کو آزاد کر لو گے ، چاہے اس کے لئے تم کو تن من دھن کی بازی کیوں نہ لگانی پڑے۔ اپنی ہم عصر نسل کے ساتھ مل کر قربانیاں دینی ہوں گی، پھر اس نے مجھے ایک انگوٹھی دی اور کہا۔ جب تم اپنے مشن میں کامیاب ہو جائو گے یہ انگوٹھی میری انگلی میں پہنا دینا۔ لوگ محبت کے لئے آسمان سے تارے توڑ لاتے ہیں۔ دودھ کی نہر میں نکال لیتے ہیں یا بھینسیں پھرانے لگتے ہیں یا پھر مجنوں بن کر صحرا میں لیلی لیلی پکارتے ہیں، مگر میں ایک باشعور عہد کا باشعور نوجوان ہوں۔ میں نے سوچا، میری محبوبہ ، سچ کہتی ہے ، ہم سے چند نوجوان مل جائیں جن کے دلوں میں آزادی سے محبت کی آگ روشن ہو تو وہ اپنے وطین کو آزاد کرا سکتے ہیں، تعلیم کے ساتھ تبھی آزادی کی جد وجہد میں شامل ہو گیا۔ اس راہ میں جتنی مشکلات تھیں، ان کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت کے مفاد پرست لیڈروں نے ہماری راہ میں ناقابل بیان رکاوٹیں کھڑی کیں اور جیلوں کی صعوبتیں مجھے سُرخ کمبلوں تک لے آئیں۔ میں تو روشنی کی تلاش میں نکلا تھا، اپنی محبوب منگیتر کو حاصل کرنے کے لئے لیکن اندھیروں کی اتھاہ گہرائیوں میں پہنچادیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی گل ریحان کی آنکھیں پر نم ہو چکی تھیں۔ میں نے اس کو تسلی دی کہ مایوس نہ ہو، پہلے اپنی صحت کی فکر کرو۔ باقاعدگی کے علاج سے تمہارا مرض مکمل طور پر ٹھیک ہو سکتا ہے۔ صحت ہو گی تو جو ارادے جو مشن ہے ، اس کے لئے جم کر کام کر سکو گے ورنہ یہ خوبصورت زندگی بنا کسی مقصد کے ختم ہو جائے گی۔ میں نے اتنے خلوص سے بات کی کہ میری آنسوئوں سے بھیگی آواز گل ریحان کے دل کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر گئی۔ اس نے تشکر بھری نگاہوں سے مجھے دیکھا جیسے کہ اسے کوئی سچا غمگسار مل گیا ہو، میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کے کمرے میں لے جانے لگی، اسی وقت سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ہم کو اسپتال کے ایک بااثر ملازم نے دیکھ لیا۔ یہ نصف شب کا وقت تھا۔ اگلے روز اس شخص نے اس بات کا بتنگڑ بنادیا اور ہر طرف بات پھیلادی۔ یہاں سے میری بدنامی کا بد ترین دور شروع ہو گیا۔ دوسری نرسیں جو گل ریحان پر مہربان تھیں اور اس نے ان کو درخور اعتنا نہ جانا تھا، انہوں نے اس بات کو اور ہوادی اور سارے اسپتال میں ، میں بد نام ہو گئی۔ خُدا جانتا ہے کہ ہم میں کسی قسم کا غلط تعلق یا خیال نہیں تھا اور نہ ہمارے درمیان محبت کا روایتی کھیل کھیلا جارہا تھا۔ ہم نے کوئی گناہ بھی نہیں کیا تھا۔ ایک نرس اور ایک ٹی بی کے مریض کے درمیان ہمدردی کے سوا اور کون سارشتہ قائم ہو سکتا تھا۔ مجھے پھر بھی اس معاشرے نے سخت سزادی۔ اب جدھر سے گزرتی، لوگ مجھے دیکھ کر نفرت سے منہ پھیر لیتے، کہتے۔ وہ دیکھو! یہ وہی نرس ہے جو رات ایک مریض کے ساتھ برائی کرتے دیکھی گئی ہے اور میں اپنی بے بسی پر آٹھ آٹھ آنسو رورہی تھی۔ ۔ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ صاحب نے وار تنگ دی، میری ڈیوٹی وہاں سے زنانہ وارڈ میں تبدیل کر دی گئی۔ عملے کی اس سنگدلی نے مجھے گل ریحان سے اور قریب کر دیا۔ پہلے اس سے محبت نہ تھی، ایک تجسس تھا، اس کو جاننے کا اور ہمدردی تھی لیکن لوگوں کی لعن طعن نے اس جذبے کو محبت میں تبدیل کر دیا۔ اس کی چاہت کے نقوش میرے دل میں گہرے ہوتے چلے گئے۔ جانتی تھی کہ وہ اپنی منگیتر سے محبت کرتا ہے۔ وہ مجھ سے محبت کر ہی نہیں سکتا تھا۔ وہ ایسا آدمی نہ تھا، وہ تو کسی اور ٹائپ کا بندہ تھا۔ اس کے پتھروں سے کوئی لڑکی لاکھ سر پھوڑ لیتی تو بھی اس پر اثر نہ ہو تا لیکن میرا دل تو میرا دل تھا اور اب اپنے دل کا میں کیا علاج کرتی۔ وہ دن بھی آگیا جب وہ جانے کو تیار ہو گیا۔ وہ صحت یاب ہو گیا تھا۔ اس کے دوست اسے لینے آئے تھے اور میری آنکھیں اشک بار تھیں۔ جانتی تھی کہ اس کو اب پھر کبھی نہ دیکھ سکوں گی، تبھی دعادی کہ خُدا کرے ہمیشہ صحت یاب رہے، کبھی بیمار ہو کر دوبارہ اس کو کسی اسپتال میں داخل نہ ہو نا پڑے۔ اس کے جانے سے ایک روز قبل میں اس کے کمرے میں گئی ، میری رات کی ڈیوٹی تھی، وہ جانتا تھا کیوں آئی ہو ۔ میں اسے خُدا حافظ کہنے گئی تھی اور دل سے مجبور ہو کر گئی تھی۔ اس نے تب بھی مجھ سے پیار سے بات نہ کی۔ میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ، تب اس نے لب کھولے۔ کیوں رورہی ہو، کیا خوش نہیں ہو کہ میں صحت یاب ہو گیا ہوں اور یہاں سے صحت یاب ہو کر جارہا ہوں۔ دیکھو! میں تم کو نا پسند نہیں کرتا، لیکن تمہیں جھوٹی امید میں نہیں رکھنا چاہتا تھا کیونکہ میری زندگی میری نہیں ہے، یہ میری جد وجہد آزادی کی امانت ہے۔ جانے کب میں وطن کے کام آجائوں، مجھ سے تم محبت کرو گی تو دکھ پائو گی عمر بھر کے آنسوئوں کے سوا کیا ملے گا تمہیں وعدہ کرتا ہوں کہ جہاں رہوں گا تم سے رابطہ رکھوں گا۔ خیریت پوچھوں گا، ہو سکا تو خط بھی لکھوں گا۔ تم اچھی لڑکی ہو اس لئے تم مجھ کو ہمیشہ یادر ہو گی۔ اگر زندگی میں ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ تم سے ملنے آسکوں تو ملنے بھی آئوں گا۔ اب روناد ھونا اور آنسو بہانے بند کر دو اور مجھ کو دعا دے کر رخصت کرو۔ اس کے جانے کے بعد ہی میری نوکری بھی چلی گئی۔ اس رات کی ملاقات کا بھید بھی اسپتال والوں پر کھل گیا تھا۔ بدنامی میں کچھ اور اضافہ ہوا اور میں شکستہ دل ہو کر سعودی عربیہ چلی آئی۔ آنے سے پہلے میری گل ریحان سے فون پر ایک بار ضرور بات ہوئی تھی اور میں نے اس کو سعودیہ جانے کا بتادیا تھا۔ وقت گزرتا گیا۔ اس نے پھر مجھ سے رابطہ نہ کیا۔ جانے وہ کہاں کھو گیا۔ اس نے خط لکھے نہ فون کیا، میں انتظار کرتے کرتے تھک گئی۔ سمجھ لیا کہ اس نے مجھےبھلادیا ہے شاید جس لڑکی کے لئے وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر گیا تھا وہ اسے مل گئی ہے۔ شاید اس کی اسی کے ساتھ شادی ہو گئی ہو کہ جس کے لئے وہ نکلا ہوا تھا۔ میں نے کافی عرصہ سعودی عربیہ کے اسپتال میں فرائض انجام دیئے۔ دولت ، عزت، سکون سب کچھ تھا لیکن گل ریحان کی یاد میرے دل سے نہ جاتی تھی، میں نے شادی نہ کی، بس روز یہی دعا کرتی تھی ، اے اللہ ! ایک بار مجھے اس سے ملادے یا اس کی کوئی خیر خبر ہی مل جائے۔ مدت بعد جب میں پاکستان گئی، وہاں مجھے ایک شخص ملا جس کے پاس میرے پاکستان کے گھر کا پتا تھا، اس نے بتایا کہ وہ کئی بار میری تلاش میں میرے گھر گیا مگر کسی نے اس کو میراپتا نہ دیا۔ یہ آدمی گل ریحان کا ساتھی تھا۔ کہنے لگا۔ باجی فوزیہ دراصل میرے پاس آپ کی ایک امانت ہے، جو مجھے گل ریحان نے دی تھی جب وہ زخمی تھا، اس نے مجھے یہ ڈ بیادی اور آپ کا پتا بھی دیا تھا کہ آپ کو پہنچادوں ، اس کے بعد ، وہ شہید ہو گیا۔ آپ کی امانت میں نے سنبھال کر رکھی تھی۔ آپ کو دینے کا اللہ نے موقع فراہم کر دیا ہے کہ آپ مجھے مل گئی ہیں۔ میں نے ڈبیا لے لی، اس کو کھولا اس میں گل ریحان کا ایک مختصر خط تھا اور انگوٹھی تھی۔ خط میں درج تھا۔ فوزیہ ! جو کہانی میں نے تم کو سنائی وہ صحیح نہ تھی ، در اصل نہ تو میری کوئی منگیتر تھی اور نہ کسی نے مجھے کو انگوٹھی دی تھی اور کوئی شرط لگائی تھی کہ میں وطن عزیز کو آزاد کرائوں گا تو شادی ہو گی لیکن یہ بیچ ہے کہ میں جد و جہد آزادی کی تحریک کارکن تھا اور یہ انگوٹھی میں نے تمہارے لئے رکھی تھی کہ تم مجھ کو پسند تھیں۔ سوچتا تھا زندگی نے موقع دیا تو دوبارہ تمہارے پاس آکر تم کو اپنالوں گا اور یہ انگوٹھی تمہاری ہی انگلی میں پہنائوں گا، تم کو دلہن بنا کر لے جائوں گا لیکن یہ امید بھی کم تھی کہ میں زندہ لوٹوں گا کیوں کہ میں آزادی کا پروانہ تھا اور شہادت میرا مقدر تھی۔ اپنے دوست کو تمہاری امانت دے رہا ہوں چاہو تو میرے بعد میری نشانی کے طور پر اس کو انگلی کی زینت بنالینا کیونکہ جانتا ہوں کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔ دعا ہے کہ خُدا تم کو زندگی کی سبھی خوشیاں دے اور تم بھی میرے لئے دعا کرنا۔ گل ریحان۔ خط پڑھ کر ڈبیا میرے ہاتھ سے گر گئی اور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ یقین آگیا کہ گل ریحان ان مردوں میں سے نہیں تھا جو جھوٹی آس د لا کر دھوکا دیتے ہیں اور پھر ان کو تڑپتا ہوا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ دعا ہے اس کو جنت کے اعلیٰ مقام ملیں ، جب تک جیوں گی اس کی یاد میں عمر گزار دوں گی۔

Latest Posts

Related POSTS