Monday, March 17, 2025

Azadi Ki Awaz

یہ چند ماہ پہلے کی بات ہے جب میں نئی نئی انگلینڈ گئی تھی۔ موسم بہت سرد تھا۔ یارک شائر کی یخ بستہ ہوائیں شائیں شائیں کر رہی تھیں۔ ان آوازوں کے بیچ رات بہت ڈراؤنی لگ رہی تھی، لگتا تھا جیسے ابھی کچھ ہونے والا ہے۔ باتوں باتوں میں پتا ہی نہ چلا کہ پونے دو بج چکے ہیں۔ ابھی ہم اپنے اپنے کمروں میں جانے کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ کسی قریبی گھر سے رونے کی آواز سنائی دی۔ گھبرا کر ہم سب دروازہ کھول کر سڑک پر آگئے۔ تب اندازہ ہوا کہ گلی کے آخری مکان سے یہ آوازیں آ رہی ہیں۔ غالباً میاں بیوی کا کوئی گھریلو مسئلہ تھا۔ بہرحال، میں نے بڑے بھانجے سے کہا کہ فوراً پولیس کو فون کرو، کسی لڑکی کی جان خطرے میں ہے۔ وہ کہنے لگا، خالہ چھوڑیے، یہاں روز تماشا ہوتا ہے۔ جب سے یہ لڑکی، نعیمہ، پاکستان سے آئی ہے، ہر وقت روتی ہی رہتی ہے۔میں نے پوچھا، کیوں؟کہا، ابھی سو جائیے، صبح بتاؤں گا۔

غضب کی سردی ہے اور آپ باہر سڑک پر کھڑی ہیں۔اس کے کہنے پر میں اندر تو آ گئی، مگر پھر کس کافر کو نیند آتی! میں اپنے بستر میں گھس تو گئی، لیکن چین کسی کروٹ نہ تھا۔ اس مظلوم کی آہ و زاری کانوں میں گونج رہی تھی اور ذہن ادھر ہی اٹکا ہوا تھا۔رات اپنے سفر پر دھیرے دھیرے رواں دواں تھی، صبح ہونے کا پیغام دے رہی تھی، مگر مجھے کسی پل چین نہ تھا۔ میں بہت حساس تھی، دوسروں کے دکھ درد پر تڑپ جانے والی، بھلا چین کی نیند کیسے سوتی؟سویرے میری باجی نے اپنی کزن نائلہ سے جا کر پوچھا، جو نعیمہ کے پڑوس میں رہتی تھی، کہ رات نعیمہ کو کیا ہوا تھا؟ نائلہ کے گھر اور نعیمہ کے لان کی دیوار ایک ہی تھی۔ کبھی کبھی صحن میں کپڑے پھیلانے کے بہانے وہ دو چار دکھ سکھ کی باتیں میری کزن کو بھی بتا دیتی تھی۔ نائلہ نے بتایا کہ رات نعیمہ کو کسی بات پر اس کی ساس اور نندوں نے ذلیل کیا، اور شوہر نے بھی مارا تھا، اسی لیے وہ رات بھر کراہتی رہی۔ اس کے دکھ کی وجہ سے ہمیں بھی نیند نہیں آئی۔ اس محلے میں تمام گھر پاکستانیوں کے ہیں اور سب جانتے ہیں کہ جب سے نعیمہ بیاہ کر آئی ہے، خوش نہیں ہے۔اگلے دن نعیمہ کو اپنا حال بتانے کا موقع ملا اور اس نے سب کچھ نائلہ آپا کو بتا دیا، پھر تیسرے دن پتا چلا کہ اسے پاکستان بھیج دیا گیا ہے۔ وہ کہاں سے آئی تھی اور اس کے ساتھ اس کے گھر والے ایسا سلوک کیوں کرتے تھے؟ وہ بھی انگلینڈ جیسے ملک میں، جہاں انسانی حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ہم سنتے ہیں کہ یہاں شوہر بیوی پر اور ماں باپ اولاد پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتے۔نعیمہ کی داستانِ غم بھی عام پاکستانی لڑکیوں کی طرح ہے، جو دیارِ غیر میں آ کر اپنوں کے ستم کا نشانہ بنتی ہیں۔ نائلہ آپا نے بتایا کہ ہماری پڑوسن سنجیدہ بیگم، نعیمہ کی سگی پھوپھی ہیں۔ سنجیدہ بیگم نے اسے اپنے بیٹے عرفان سے بیاہ کر بڑے چاؤ سے پاکستان سے لایا تھا۔ ہم حیران تھے کہ ماموں نے اپنی بیٹی اسے کیسے دے دی؟ کیونکہ عرفان تو یارک شائر کا ایک انتہائی بگڑا ہوا نوجوان تھا، جس کے طور طریقے اچھے پاکستانی گھرانے پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ ہر قسم کا نشہ کرتا تھا، شراب پینا، کلب جانا، اور معصوم لڑکیوں کی عزت سے کھیلنا اس کے محبوب مشاغل تھے۔ایسے عیاش لڑکے کو انگلینڈ میں مقیم اپنی برادری سے رشتہ ملنا مشکل تھا، کیونکہ یہاں سب اس کے کرتوتوں سے واقف تھے۔ تب ہی سنجیدہ بیگم بیٹے کا رشتہ کرنے خاص طور پر بچوں سمیت پاکستان گئی تھی، جہاں سے بھائی کی بیٹی نعیمہ پسند آ گئی۔ وہ سارا دن گھر کے کام میں مصروف رہتی تھی، اور سنجیدہ بیگم کو بھی ایسی ہی کسی لڑکی کی ضرورت تھی، جو منہ میں زبان نہ رکھتی ہو اور سارا دن گھر کے کام میں جتی رہتی ہو۔

انگلینڈ میں گھریلو کام کاج کے لیے نوکر ملنا ایک دشوار مرحلہ ہے، اور اسے بہو سے زیادہ ایک نوکرانی کی ضرورت تھی، جو ظاہر ہے کہ پاکستان سے ہی لائی جا سکتی تھی۔وہ جانتی تھی کہ اس کے بھائی مجید کو عرفان کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا، اور انگلینڈ کا نام سنتے ہی وہ کب رشتے سے انکار کرتا؟ ہوا بھی یہی، بس رشتہ مانگنے کی دیر تھی، وہ تو جیسے پہلے ہی تیار بیٹھے تھے۔ ماموں نے یہ جاننے کی زحمت بھی نہ کی کہ بھانجا وہاں کیا کاروبار کرتا ہے؟ اس کا حال چال اور چال چلن کیسا ہے؟ وہ اتنا مغرور تو نہیں کہ لڑکی کو حقیر جانے؟نعیمہ پاکستان سے آنے والی سیدھی سادی لڑکی تھی، جو واجبی انگریزی میڈیم اسکول سے پڑھی تھی، جبکہ عرفان اتنا فیشن ایبل تھا کہ اس کے کانوں میں بالیاں اور کلائیوں میں کڑے تھے۔ ماموں نے جب عرفان کی تصویر دیکھی تو لمحے بھر کے لیے دم بخود رہ گیا، لیکن اگلے ہی لمحے بیٹی کو انگلینڈ پرواز کرتے ہوئے تصور کر کے خود بھی ہواؤں میں اڑنے لگا۔ سوچا کہ شاید مجھ غریب پر اللہ کو ترس آ گیا ہے، جو میری بیٹی انگلینڈ جا رہی ہے۔ اب تو نعیمہ غریب باپ کی پونڈوں میں مدد کر سکے گی۔یہ بھی نہ سوچا کہ لڑکے کے منہ سے بدبو کس چیز کی آتی ہے؟ وہ بہکی بہکی باتیں کیوں کرتا ہے؟ بس دولت کی چمک دمک اور انگلینڈ کی کشش نے اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں چھین لیں، اور لڑکی نے بھی پرائے دیس جانے کے ہزاروں سپنے سجا لیے۔سولہ سترہ سالہ نعیمہ، پھوپھی کی خوشی کی خاطر عرفان کی زندگی میں داخل کر دی گئی۔سنجیدہ مال دار تھی، روپے پیسے کی کمی نہ تھی ، لہذا اس کی اولاد مغرور تھی مگر عرفان مغرور ہونے کے ساتھ ساتھ بد تمیز اور بد لحاظ بھی تھا۔ یہ زبردستی کی شادی تھی۔ عرفان نے ماں کو منع کیا تھا کہ کیوں اس کے ساتھ ایک دیہاتی قسم کی لڑکی جوڑ رہی ہو ، مگر سنجیدہ نے دلائل دے کر اسے وقتی طور پر قائل کر لیا کہ تم باہر جیسی زندگی چاہو بر کرنا، یہ یہ گھر میں ہماری خدمت کرے گی۔ اس میں گھر کا کام کرنے اور گھر سنبھالنے کی صلاحیت موجود ہے۔ کوئی دوسری آئے گی تو وہ ہم کو تگنی کا ناچ نچادے گی۔ عرفان ماں کی باتیں سن کر خاموش ہو گیا کیونکہ اسے گاؤں کی یہ اُجڑ سادی لڑکی پسند نہ آئی تھی، جو چوبیس گھنٹے بڑے سے دوپٹے سے اپنا جسم ڈھانچے رکھتی اور ہر وقت کام میں مصروف نظر آتی تھی۔ اسے تو کوئی فیشن ایبل ، آزاد خیال، سگریٹ پینے والی لڑکی سوٹ کرتی تھی، جو سوسائٹی کے سارے تقاضے پورے کر سکے۔ مجبوری یہ تھی کہ اس کی ماں کسی انگریز بہو کو قبول کرنے پر تیار نہ تھی اور انگلینڈ میں ہم وطن رشتے دار اسے خوب جانتے تھے، اس لیے رشتہ دینے سے کتراتے تھے ، لہذا اس نے وقتی طور پر ماں کی باتوں میں آکر نعیمہ کو قبول کر لیا۔ شادی کے فوراً بعد یہ لوگ واپس انگلینڈ آگئے اور تین ماہ بعد نعیمہ بھی آنکھوں میں حسین خواب بھرے وہاں آپہنچی۔ شوہر صاحب اسے ریسیو کرنے ایئر پورٹ آئے اور کار میں بٹھا کر گھر لے آئے۔ اسے سخت حیرت ہوئی جب گھر میں کسی نے بھی اُس نئی نویلی دلہن کا خوشی سے استقبال نے کیا۔ یہ اس کے اپنے تھے ، جو پاکستان میں اس کے صدقے واری جارہے تھے اور یہاں یکدم بیگانہ ہو گئے۔ ساس نے اشارے سے اسے اس کا کمرہ دکھا دیا۔ یہاں سردی سخت تھی اور وہ ٹھٹھر رہی تھی۔ نہ رہن سہن کا اسے پتا تھا اور نہ زبان سے واقفیت تھی۔ سسرال والے سب آپس میں انگریزی میں بات کرتے اور وہ ہونقوں کی طرح ان کا چہرے تکے جاتی تھی۔ بہت مجبوری یا ضرورت پر جب اس سے کچھ کہنا ہوتا، تب وہ اردو بولتے، ورنہ گھر میں انگریزی ہی چلتی تھی۔ نعیمہ کو یہاں آکر اجنبیت کا بھر پور احساس ہوا۔ سنجیدہ بیگم نے یکر اپنا رویہ بدل لیا تھا۔ یہ وہ پھو پھی ہی نہ رہی تھی، جیسی پاکستان میں تھی۔ دوسرے دن سنجیدہ نے اسے کچن میں کھڑا کر کے ناشتے اور رات کے کھانے کے اوقات بتا کر ، کون سی چیز کیسے پکانی ہے ، سب کچھ سمجھاتے ہوئے جتلا دیا کہ یہی تیری زندگی ہے۔ تو نے یہی کچھ کرنا ہے ، ہم سے زیادہ کی توقع نہ کرنا۔ وہ بیچاری صبح سے رات تک کام کرتی۔

سردی میں برتن دھونا، کپڑوں کی دھلائی، کمروں کی صفائی ستھرائی، کھانا بنانا، اکیلی جان اور اتنا ڈھیر سارے کام ، وہ تڑپ کر رہ جاتی۔ واقعی وہ بہو نہیں تھی۔ اس کی پھوپھی نوکرانی ہی بنا کر لائی تھی۔ یہاں آئے ہفتہ ہو گیا، مگر عرفان نے دوبارہ شکل نہ دکھائی۔ آٹھویں روز رات بارہ بجے موصوف ڈگمگاتے قدموں سے بیڈ روم میں داخل ہوئے۔ صاف لگتا تھا نشے میں چور ہے۔ بدبو کے بھبھکے دور سے آ رہے تھے۔ وہ حیرت سے اُسے ڈگمگاتے اور بستر پر گرتے دیکھ رہی تھی۔ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے ؟ وہ وفا شعاری بیوی کی طرح آگے بڑھی۔ یہ بدبو کیسی ہے اور آپ اتنے دن بعد آئے ہیں۔ یہ سب پوچھنے کی وہ حق دار تھی، آخر بیوی تھی اس کی۔ وہ سب سمجھ گئی تھی۔ اب اتنی بھی جاہل نہ تھی۔ سوالوں کا جواب دینے کی بجائے اُس نے دو چار تھپڑا سے لگائے اور خوب گالیاں دیں کہ خبردار جو آج کے بعد مجھ سے کوئی سوال کیا۔ میں جہاں بھی جاؤں، جو مرضی آئے کروں، تمہیں اس سے کیا؟ میں نے تم سے اپنی مرضی سے شادی نہیں کی۔ یہ میری ماں کی منش تھی، سو تم آگئی ہو۔ اب تم اُن کے ساتھ رہو۔ پاکستانی لڑکیوں کو نجانے انگلینڈ آنے کا اتنا شوق کیوں ہوتا ہے۔ شوہر کا ایسا ترش رویہ دیکھ کر اس کے خوابوں کا محل زمین بوس ہو گیا۔ کیا کیا ارمان دل میں رکھے تھے ، کیا کیا تصور سجا کر آئی تھی اور یہاں کیا ملا ؟ وہ روتی سسکتی رہ گئی اور وہ منہ پھیر کر ایسا بستر پر لیٹا کر بے ہوش ہو گیا۔یہ سلسلہ دن بہ دن بڑھتا چلا گیا۔ نعیمہ کی زندگی ایک بھیانک خواب بن چکی تھی۔ عرفان کا رویہ دن بدن بگڑتا جا رہا تھا۔ وہ کبھی کبھار گھر آتا، اور جب آتا تو یا تو نشے میں دھت ہوتا یا غصے سے بھرا ہوا۔ ساس اور نندوں نے بھی اس کی زندگی اجیرن بنا دی تھی۔ دن بھر کام کرنا، بے عزتی سہنا، اور شوہر کی بے اعتنائی سہنا اس کی روزمرہ کی حقیقت بن چکی تھی۔وہ کئی بار سوچتی کہ والدین کو فون کرے، سب کچھ بتائے، مگر پھر سوچتی کہ اس کے والدین نے کتنے خواب دیکھے تھے، کتنی خوشی محسوس کی تھی جب وہ انگلینڈ آئی تھی۔ اگر وہ سچ بتا دیتی تو ان کے خواب بھی چکنا چور ہو جاتے۔ وہ خاموشی سے سب کچھ سہتی رہی۔ لیکن اس خاموشی کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ایک رات عرفان نشے میں دھت گھر آیا اور اس پر وحشیانہ تشدد کیا۔ نعیمہ بے ہوش ہو گئی۔ نائلہ، جو سب کچھ جانتی تھی، اس رات دیوار کے پار اس کی کراہیں سن کر خاموش نہ رہ سکی۔ اس نے فوراً پولیس کو اطلاع دے دی۔ پولیس آئی، عرفان کو گرفتار کیا، اور نعیمہ کو اسپتال منتقل کر دیا گیا۔یہاں آ کر پہلی بار اس نے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند کی۔ اسپتال میں اس سے جب پولیس نے پوچھا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ واپس جانا چاہتی ہے یا نہیں، تو اس نے ہمت جٹائی اور پہلی بار اپنے لیے فیصلہ کیا—”نہیں!”سماجی ادارے آگے بڑھے اور اسے تحفظ فراہم کیا گیا۔ عدالت میں کیس چلا اور عرفان کو سزا سنائی گئی۔ نعیمہ کو برطانیہ میں رہنے کی قانونی اجازت بھی مل گئی، کیونکہ وہ گھریلو تشدد کی شکار تھی۔چند مہینے بعد وہ ایک فلاحی تنظیم کے ساتھ منسلک ہو گئی، جہاں وہ ان لڑکیوں کی مدد کرنے لگی جو دیارِ غیر میں اپنوں کے ستم کا نشانہ بنتی تھیں۔ وہ کمزور اور مجبور تو تھی، مگر اب مظلوم بن کر جینا نہیں چاہتی تھی۔اس دن جب وہ ایک نئی زندگی کی شروعات کر رہی تھی، اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور آنکھیں بند کر کے خود سے کہا،میں اب کبھی نہیں جھکوں گی۔ میں اب اپنی زندگی خود جیوں گی-

Latest Posts

Related POSTS