میری ملاقات ان سے ایک امدادی کیمپ میں ہوئی تھی۔ کچھ عرصے پہلے یہ لوگ خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے، پھر فساد کی آگ ان کے گھروں تک آ گئی۔ اب ان کی بستی کا کوئی گھر محفوظ نہ تھا۔ انکل اخلاق کی بیٹیاں جوان تھیں اور آزادی کے ساتھ ساتھ ان کو ان جوان بیٹیوں کی عصمتوں کی بھی فکر تھی جو ایسے حالات میں عموماً دائو پر لگ جایا کرتی ہے۔ انکل اخلاق کشمیری شالوں کا کاروبار کرتے تھے۔ وہ شریف آدمی تھے۔ ان کی ساکھ بھی بہت اچھی تھی۔ ان کا کاروبار ملک سے باہر پھیلا ہوا تھا۔ اکثر نایاب خوبصورت کشمیری کام کی شالیں لندن امریکہ بھجوایا کرتے تھے۔ یوں یہ لوگ مالی طور پر خوشحال تھے۔ کسی شے کی کمی نہ تھی لیکن پھر ایک آزادی کی شمع کے روشن ہوتے ہی ظلم کی آگ نے پوری وادی کو لپیٹ میں لے لیا۔ غریب کشمیری کاریگر جو گھریلو دستکاری اور کڑھائی میں یکتا تھے۔ وادی کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے بے سروسامان ہو گئے۔ ان کا کاروباری مرکز تباہ ہوگیا۔ وہ بے روزگار ہو گئے کیونکہ کام رک گیا تھا۔ انکل اخلاق کی دو بیٹیاں تھیں۔ ایک کا نام گل صنوبر، دوسری گل لالہ تھی۔ میری دوستی گل لالہ سے تھی، یہ اپنے بھائی علی مراد سے چھوٹی تھی۔
تینوں نے کشمیر کی حسین و جمیل سرزمین پر جنم لیا تھا۔ اس وادی کے سبزہ زاروں میں ان کا آبائی گھر تھا۔ جہاں برسوں سے خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی۔ اور یہ خون خرابا اس وادی کا مقدر بن چکا تھا۔ ان دنوں گل لالہ نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا اور اور خانہ داری میں مصروف ہو گئی تھی جبکہ گل صنوبر ابھی پڑھ رہی تھی۔ جب وادی کے حالات مزید خراب ہو گئے تو اس نے اسکول جانا بند کر دیا کہ آئے دن اسکول بند ہو جاتے تھے، تو لوگ خوف زدہ ہو کر اپنی لڑکیوں کو اسکول نہیں بھیجتے تھے۔ کیونکہ ان کو ڈر ہوتا تھا کہیں تخریب کار عناصر ان کو اٹھا کر نہ لے جائیں اور بے آبرو ہو کر جان سے نہ مار دیں۔ مراد تب بھی کچھ زیاده سمجهدار نہیں تھا۔ وہ لاڈ پیار میں پلا تھا، کافی لا أبالي لڑکا تھا، جن دونوں وادی میں امن تھا وہ اکثر اپنے دوستوں کے ہمراہ فلمیں دیکھنے جاتا تھا۔ اس مشغلے نے اس کے مزاج کو غیر سنجيده بنا دیا تھا۔ وہ فلمیں تفریحی پہلو کو مدنظر رکھ کر نہیں دیکھتا تھا، بلکہ فلموں میں لباس کی عریانی، محبت بھرے سین اور بے باکی و فحاشی اس کے مد نظر ہوتی تھی، جس کی وجہ سے ہمہ وقت رومانی ماحول میں ڈوبا رہتا اور اسی مدہوشی میں اس کو سرور ملتا تها گویا وه ارد گرد کے سنگین حالات اور ماحول سے فرار اختیار کرنے کے لئے فلموں کا سہارا لیتا تھا جبکہ اس کا ماموں زاد بھائی خالد نهایت دلیر، سنجیدہ اور صاحب ادراک نوجوان تھا اس کو اپنی وادی کے حالات کی سنگینی کا خوب احساس تھا۔ خالد جب بھی آتا مراد سے یہ کہتا۔ مراد لالے تم ہوش میں آجائو۔ آگے چل کر ہمارے لئے بہت ہی برا وقت آنے والا ہے۔ ہم آزادی حاصل کئے بنا چین سے نہیں بیٹھ سکتے جبکہ آزادی انمول شے ہے۔ یہ بھاری قیمت ادا کئے بنا حاصل نہیں کی جا سکتی۔ ہم کو حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے خود کو تیار کرنا ہو گا۔ اپنی جانوں کا نذرانہ بھی دینا ہو گا۔ مراد ایک معصوم سا لڑکا تھا۔ اس کی سوچیں کچھ زیادہ گہری نہیں تھیں۔ وہ خالد کی باتوں کو سرسری طور پر لیتا تھا، سمجھ رہا تھا کہ تحریک وادی میں صف آرا ہو چکی ہے۔ اور وادی کے لوگ بے دریغ قربانیاں بھی دیتے رہتے ہیں۔ ان نوجوانوں کو یقین تھا کہ ظلم ہو رہا ہے تو آخر کسی دن ظلم کا اندھیرا چهٹ ہی جائے گا اور امن کا روشن سورج طلوع ہو جائے گا۔ وہ یہ نہیں سوچتا تھا کہ اس کے اپنے گھر میں دو نوجوان بہنیں ہیں۔ اگر جنگی درندوں نے اس کا گھر دیکھ لیا تو ان کے بوٹوں تلے کسی دن یہ پاکیزہ کلیاں بے دردی کے ساتھ کچلی جائیں گی۔ بھلا کون باپ یا بھائی ایسے بھیانک نظارے کو دیکھنے کی تاب رکھتا ہے۔ روز به روز نفرتوں کی آگ بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی گھرانے جل چکے تھے۔ انسانی لاشوں کی بو زندہ اور سہمے ہوئے لوگوں کے دل میں آتش غیرت کو بھڑکا رہی تھی۔ اب اس گھر میں بھی کچھ اس قسم کی باتیں ہونے لگی تھیں۔ اپنے دفاع کے لئے کچھ سوچنا ہی ہو گا۔ اپنے گھر کی چھت کو اور اپنے خاندان کے ناموس کو بچانے کے لئے سینہ سپر ہونا پڑے گا۔ آگ اس طرف بھی آ پہنچے گی۔ اب زندگی کے معمولات میں تبدیلی لانی ہو گی۔ مردوں کو مجاہدین کی صف میں جانا ہو گا۔ عورتوں کو اپنے شیر دل مردوں کی معاونت کرنا ہو گی اور حوصلہ رکھنا ہو گا ورنہ کچھ باقی نہ بچے گا۔ آزادی کی نعمت تو در کنار اپنے گھر بار اور عزت سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ انکل اخلاق کے گھر والے جب مل جل کر بیٹھتے تو مستقبل کے یہی اندیشے موضوع گفتگو ہوتے تھے۔
خالد مجاہدین کی صف میں اسی سبب شامل ہوا اور مراد نے سوچا کہ اس کو بے فکر اور کھلنڈرے دوستوں کی ٹولی کو اب خیر باد کہنا چاہئے اور اپنے فرائض کو پہچان کر اس تحریک میں شامل ہو جانا چاہئے، کیونکہ دن رات ،فائرنگ، گولیوں کی تڑتڑاہٹ، گھروں کی تلاشی آخر یہ سب اس کی نظروں کے سامنے ایک دل دہلا دینے والی حقیقت ہی تھی کہ جس کی زد میں کسی بھی وقت اس کا گھرانہ بھی آ سکتا تھا۔ گل صنوبر کی منگنی اس کے ماموں زاد بھائی خالد سے سے ہو چکی تھی۔ اس کو اپنے منگیتر سے بے حد محبت تھی۔ خالد محبت کے لائق بھی تھا۔ وہ ہر لحاظ سے نیک طنیت تھا۔ انکل اخلاق چاہتے تھے کہ صنوبر جلد از جلد اپنے گھر کی ہو جائے تاکہ ایک بیٹی کے فرض سے تو وہ سبکدوش ہو جائیں۔ وہ اس بارے میں کئی بار خالد کے والد سے اصرار کرچکے تھے۔ چاہتے تو وہ بھی یہی تھے کہ صنوبر جلد بہو بن کر ان کے گھر آجائے لیکن یہ سوچ کر شادی کی تاریخ ابھی تک نہ رکھی گئی کہ خالد کی ہمدردیاں اب ان کشمیری نوجوانوں کے ساتھ تھیں، کہ جو رائے شماری کے حق میں تھے۔ اسی وجہ سے معتوب ہو گئے تھے اور ان کے گھروں کی تلاشی لی جاتی تھی۔ کسی بهی وقت وہ موت کے گھاٹ اتارے جا سکتے تھے۔ جبکہ مراد کا تعلق لا أبالی نوجوان گروپ سے تھا۔ وہ ان کی دلہن بنی بہن کو کسی صورت نقصان تو پہنچا سکتے تھے۔ بھارتی فوجیوں نے ایک دو بار مراد کی انکوائری بھی کی اور ان کو اطمینان ہو گیا کہ یہ نوجوان کسی قسم کی آزادی کی جدوجہد میں یا کسی بھی تحریک کی سرگرمیوں میں شامل نہیں ہے۔ تاہم اب تو پوری وادی کا ماحول ہی ایسا بن گیا تھا کہ ہر وقت ہر گھر پر خطرے کی گھنٹی لٹکتی رہتی تھی۔ اب بر گهر ہی ان کو مشکوک لگتا تھا۔ خواه وه ان کی ہمدردیاں تحریک آزادی والوں سے ہوں یا نہ ہوں۔ ایک دن پھر اس محلے کا بھی محاصرہ ہو گیا جہاں انکل اخلاق کا گھر تھا۔ مراد گھر پر تھا۔ وہ محلے کے دوسرے نوجوان کے ساتھ مراد کو بھی لے گئے۔ کچھ نوجوانوں کو انہوں نے نامعلوم مقام پر پہنچا دیا اور مراد کو مار پیٹ کر سڑک پر پھینک گئے۔ اب انکل کے گھر میں خطرے کا الازم بج گیا تھا۔ ان کی بری حالت تھی۔ فوراً خالد کے والد کو بلوایا اور کہا۔ بھائی صاحب جلد تم میری بیٹی کی رخصتی لو۔ یہ آپ لوگوں کی امانت ہے۔ ایسا نہ ہو کچھ ہو جائے۔ میں تمہاری امانت کی حفاظت سے اب قاصر ہوں۔ یہاں تو ہم سب بی اب مشکوک ٹھہرے، چاہے کسی بات میں شامل ہوں یا نہ ہوں۔ ان کے بوٹوں نے ہمارے گھر کا رستہ ناپ لیا ہے، کسی بھی وقت ہم پر ناگہانی کوئی مصیبت ٹوٹ سکتی ہے۔ بہنوئی کو اس قدر پریشان دیکھ کر ولید صاحب نے شادی کی تاریخ رکھ دی۔ یوں دونوں گھرانوں میں اندر اندر شادی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ اب انتظار تھا تو خالد صاحب کا جب مراد کو ناگہانی بنا قصور مار پیٹ کا نشانہ بنایا گیا تھا تو خالد کے دل میں ایک نئے جذبے اور نئی سوچ نے سر اٹھایا۔ اس نے اپنے جیسے خوف زدہ نوجوانوں کی ایک نئی جماعت بنائی جس کا مشن کشمیری مائوں بہنوں اور بیٹیوں کی عزت پر اپنی جان قربان کر کے ان کی حفاظت کرنا تھا۔ اس معاملے کی اس کے گھر والوں کو بھی خبر نہ تھی۔ ان نوجوانوں نے اپنے گھروں میں اپنے عزم کی ہوا نہ لگنے دی اور کچھ عرصے کے لئے روپوش ہو رہے۔
گھر والے خالد کے لئے پریشان تھے اور اس کے لوٹ آنے کی راہ تک رہے تھے۔ انہوں نے طے کیا کہ سب انتظامات مکمل رکھے جائیں اور جونہی خالد آئے اس کا نکاح صنوبر سے کر دیا جائے۔ خالد کی آمد کی اطلاع اس کے ایک دوست نے گھر والوں کو دی کہ وہ اگلے سوموار شام کو آجائے گا۔ گھر والوں نے اسی دن نکاح کا وقت مقرر کر دیا اور قاضی صاحب کا بھی انتظام کر لیا۔ شادی کے دن سے ایک روز پہلے کچھ باوردی لوگ انکل اخلاق کے گھر آئے اور انہوں نے خالد سے متعلق سوالات کئے کہ وہ کہاں ہے اس کا ٹھکانہ۔ بتائو گھر والوں کو تو علم ہی نہ تھا کہ اس کا کہاں ٹھکانہ ہے۔ تب انہوں نے گھر کی تلاشی لی اور ان کی نظر گھر کی سب سے قیمتی چیزوں پر پڑی۔ یہ گل لالہ اور گل صنوبر تھیں جنہوں نے خود کو چادروں میں چھپایا ہوا تھا۔ انہوں نے انکل اور مراد کو کمرے میں بند کر دیا اور لڑکیوں کے سروں سے چادریں اتار دیں۔ اسی وقت خالد کے کچھ ساتھی ادھر آئے۔ انہوں نے دیکھا۔ وہ سمجھ گئے کہ تلاشی کے بہانے کچھ عناصر اندر موجود ہیں۔ انہوں نے لڑکیوں کی چیخ و پکار بھی سنی تو اپنے قدم روک نہ سکے۔ بھاری بوٹوں والے مرد ان ناتواں اور خوف سے کانپتی لڑکیوں کو گھیرے ہوئے تھے۔ وہ یہ برداشت نہ کر سکے۔ ان نوجوانوں نے لڑکیوں کی طرف بڑھتے ہوئے اپنی ہاتھوں کو روکنے کے لئے پیش قدمی کی اور جب انہوں نے ان کو بندوقوں کے بٹ مارے تو یہ بھی ان سے نہتے ہونے کے باوجود بھڑ گئے۔ لگتا تھا اپنی بہنوں کی عزت بچانے کی خاطر ان کو اپنی جان کی بھی پروا نہ رہی تھی۔ ان نوجوانوں میں سے ایک نے اس کمرے کی کنڈی کھول دی جس میں انکل اخلاق اور مراد بند تھے۔ وہ بھی باہر آگئے۔ شور پر محلے کے کچھ نوجوان بھی باہر نکلے۔ ان میں سے ایک نے کسی کو فون کیا تو کچھ مجاہد نوجوان مدد کو آپہنچے۔ جب ان لوگوں کی تعداد زیادہ ہوگئی تو مسلح باوردی افراد جو تلاشی لینے کے بہانے گھر میں گھس آئے تھے، کشمیری نوجوانوں کو زخمی کرکے باہر نکل گئے اور اپنی جیپوں پر سوار ہو کر چلے گئے۔ اب مراد کو ہوش آ گیا کہ یہی وہ قیامت کی گھڑی تھی، جس کے بارے میں خالد اس کو جتلایا کرتا تھا۔ اب اُسے سنگینی کا احساس ہوا کہ یہ وقت اس کے سر پر آچکا تھا کہ غیر مردوں کے بے رحم ہاتھوں نے اس کی بہنوں کی چادریں اُتار کر ان کی تلاشی کے بہانے بے حرمتی کی تھی۔ آج مراد کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ اس نے قسم کھائی کہ وہ بھی اس گروپ میں شامل بوكر جاں فروشی سے اپنی وادی کی بہنوں اور مائوں کی عزت کی حفاظت کا فریضہ انجام دینے کے لئے سر سے کفن باندھ لے گا۔ اگلے دن صنوبر کی مہندی کی رسم تھی اور خالد کا انتظار تھا۔ ماموں کے گھر سے سندیسہ آیا کہ خالد آگیا ہے۔ مہندی کی رسم کیا ہوتی، روتی دھوتی دلہن کے ہاتھوں میں مہندی لگائی گئی کہ بغیر حنا کے رنگ رچائے دلہن دلہن نہیں لگتی مگر آج صنوبر کے والدین کے دلوں پر خوف کی بجلی کڑک رہی تھی۔ تمام رات گھر کا کوئی فرد بھی سو نہ سکا تھا۔ یا اللہ یہ کیسی شادی تھی اور کیسا شگن تھا۔ جہاں خوشیوں کی کہکشاں کی بجائے خوف کے پراسرار سائے در و دیوار پر رینگتے محسوس ہو رہے تھے۔ یہ شادی والا گھر تھا یا موت کی پرچھائیں سایہ فگن لگتی تھیں۔ خدا خدا کر کے رات گزری اور اگلے دن دلہا کے چند دوستوں کے ہمراہ اس کا والد اپنے بیٹے کی بارات لے کر آگیا۔ صنوبر کو دلہن بنا دیا گیا کہ اس کا دلہا بھی اس کو لینے کو آنے والا تھا۔ وہ بارات کے ساتھ یوں نہ آیا کہ اس طرح ان کو گرفتار کرنا آسان ہو جاتا۔ یہاں تو چار افراد سے زیادہ لوگ اکٹھے چل پهر بهی نہیں سکتے تھے۔ خالد نے شادی کا جوڑا نہ پہنا بلکہ پرانے سے کپڑے پہن لئے۔ سر پر ٹوکری رکھی اور سبزی فروش کا روپ دھار کر دلہن کے گھر کی طرف چل پڑا۔ جانتا تھا کہ اس کے پیچھے جاسوس بھی ہو سکتے ہیں۔ دل دھڑک رہا تھا جیسے اس کو پکڑے جانے کا خوف زیادہ ہو۔ اچانک زور دار دھماکا ہوا اور ایک جانب سے فائرنگ شروع ہو گئی۔ بھاری بھرکم جیپوں نے چشم زدن میں اس کو آلیا اور پکڑ کر ساتھ لے گئے۔ یہ گرفتاری دلہن کے گھر سے چند فرلانگ پر ہوئی تھی۔ دھماکے پر مراد باہر نکلا تھا۔ اس نے خالد کو سپاہیوں کے گھیرے میں دیکھا تو اس کو چھڑانے کو آگے بڑھا۔ تب انہوں نے اس کو بهی زد و کوب کر کے سڑک پر دھکا دے دیا اور رستے میں گرا کر چلے گئے۔
صنوبر کا دل صدمے سے بند ہونے لگا۔ اس کو غم سے سکتہ ہو گیا۔ خالد کے والد… انکل اخلاق اور اس کی بیوی کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ صنوبر اور لالہ کا برا حال تھا رو رو کر حواس کهو چکی تھیں۔ گھر ماتم کدہ بن گیا تھا۔ جہاں شادیانے بجنے چاہئیں تھے وہاں چاروں طرف ہولناک چیخوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ وہ خالد اور اس کے ساتھیوں کو سخت اذیت دے رہے تھے اور کچھ اگلوانے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ ایسی اذیتیں تھیں جن کو سوچنے سے ہی مائوں کا دم نکل جاتا تھا۔ صنوبر سکتے میں اور گل لالہ کو ہوش نہ آ رہا تھا۔ بہنوں کی حالت دیکھ کر مراد کی آنکھوں سے خون کے آنسو بہہ رہے تھے۔ رات گئے گھر کے مرد خالد کی کھوج میں نکلے اور ان کو اس کا زخموں سے چور چور بدن مل گیا۔ کانٹے بھری جھاڑیوں کے نزدیک وہ سخت سردی میں برہنہ پڑا تھا۔ وہ ظالم اس کو اپنی دانست میں مردہ سمجھ کر پھینک گئے تھے مگر خدا نے اس کو ابھی زندہ رکھنا تھا۔ جب مراد اور انکل نے اس کو سیدھا کیا تو پتا چلا کہ اس میں جان باقی ہے۔ انہوں نے اس کو گرم کپڑوں میں لپیٹا اور گھر لے آئے۔ تمام رات تیمار داری کرتے رہے۔ قریب ہی ایک مسلمان ڈاکٹر رہتا تھا۔ اس کو لائے اور طبی امداد کی درخواست کی۔ صبح کہیں خالد کو ہوش آ گیا مگر اس کو تکلیف اس قدر تھی کہ وہ بات کرنے کے قابل نہ تھا۔ ایک ماہ کی دیکھ بھال کے بعد وہ کہیں پائوں پائوں چلنے کے قابل ہوا۔ اچانک ایک روز اس کے ایک دوست نے آکر بتایا کہ تلاشی والے ایک بار پھر اس کے گھر گئے تھے۔ اس بار انہوں نے اس کے بوڑھے والدین کو ہی ٹھکانے لگا دیا۔ خالد کا جسم غصے سے کانپتا رہا لیکن وہ ان سفاک ہاتھوں کو روکنے کے قابل نہ تھا کیونکہ وہ معذور ہو چکا تھا۔ صنوبر کی ماں اپنے بھائی ولید اور ان کی بیوی کی شہادت کا سن کر دیواروں سے سر ٹکرانے لگی۔ خالد نے شکستہ لہجے میں ان کو صبر کی تلقین کی۔ مراد نے کہا۔ خالد بھائی اب میں آپ کی جگہ لوں گا۔ اپنے ماموں اور ممانی کی موت کا بدلہ لوں گا۔ نہیں۔ تم نے کسی کا بدلہ نہیں لینا، تم نے بس اپنی بہنوں کی حفاظت کرنی ہے۔ ایک دن مراد نے کہا۔ امی صنوبر کو دلہن بنا دینا۔ میں آج قاضی صاحب کو لے آئوں گا اور خالد بھائی سے ان کا نکاح کرادوں گا۔ وہ معذور ہوگیا ہے تو کیا ہوا۔ میں اس کا سہارا بنوں گا۔ آگ کے دریا سے گزر کر وہ گھڑی آ ہی گئی جب خالد اور صنوبر کا نکاح ہو گیا اور دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ خالد کا سہرا دیکھنا اس کے امی ابو کے نصیب میں نہ تھا جس کا خالد کو بہت دکھ ہو رہا تھا۔ اس اہم موقع پر اس کو دعائیں دینے والے موجود نہ رہے تھے۔ اب خالد اور مراد رات دن آزادی کے خواب دیکھنے لگے۔ وہ اب مظلوموں کی مدد سے باز نہیں رہ سکتے تھے۔ ان کا مشن جاری تھا۔ ایک روز جب مراد گھر سے باہر گیا تو وہ واپس نہ آیا۔ اور جب اس کو لایا گیا تو وہ بھی چلنے پھرنے سے معذور تھا۔ اس کی دونوں ٹانگیں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ اب گھر میں ایک کی بجائے دو معذور مرد تھے جبکہ کفالت کا سارا بوجھ انکل اخلاق کے بوڑھے کندھوں پر آ گیا تھا۔ ان کا کاروبار تو کب کا ٹھپ ہو چکا تھا۔ وہ اونے پونے اپنی جائیداد بیچ کر سرحد پار پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے کیونکہ دو جوان بیٹیوں کا بوجھ بھی تھا۔ ان کی عزت بچانے کی فکر ان کو دیمک کی طرح چاٹ رہی تھی۔ جب وہ ہجرت کی غرض سے آزاد کشمیر کی سرحد تک پہنچے تو مقبوضہ وادی سے ایک گولی سنسناتی ہوئی ان کے لگی اور وہ وہیں ڈھیر ہو گئے۔ اس کے بعد بھی گولیاں چلیں، یہاں تک کہ دونوں معذور نوجوان مراد اور خالد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ سرحد پر ان شہیدوں کا خون بکھر گیا۔ پناہ کے طالب اس گھرانے سے مردوں کا سایہ اٹھ گیا۔ بس تنہا عورتیں باقی رہ گئیں۔ اسی وقت گولیاں برسانے والے ان کے سروں پر آ پہنچے۔ انہوں نے صنوبر کی ماں کی طرف اشارہ کیا کہ اس بوڑھی کو سرحد پار جانے دو مگر ان دونوں لڑکیوں کو روک لو۔ ان سے مزید تفتیش کرنی ہے۔ اس کے بعد کا واقعہ لکھنے کے قابل نہیں۔ بوڑھی ماں تو اس دکھ کو سہہ نہ سکی مگر دونوں جواں سال لڑکیاں صنوبر اور گل لالہ جب دریده پیربن گرتی پرتی مقبوضہ وادی سے آزاد کشمیر پہنچیں تو امدادی کیمپ میں ان کی حالت قابل دید نہ تھی۔
وہاں موجود نرس اور ڈاکٹر نے ان کی کافی مدد کی مگر ایک مدت تک ان کے حواس بحال نہ ہو سکے تھے۔ عرصہ بعد اس قابل ہوئیں کہ خود پر بیتی کسی کو سناتیں۔ جب انہوں نے اپنے اوپر بیتے ظلم کی داستان سنائی تو سننے والوں کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ خود پر بیتی کسی کو سناتیں۔ جب انہوں نے اپنے اوپر بیتے ظلم کی داستان سنائی تو سننے والوں کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ کس طرح آج بھی وہاں عورتوں پر قیامت بیت رہی ہے۔ دلہنیں اجاڑ دی جاتی ہیں۔ مائوں کے شکم چاک کر کے مستقبل کے حریت پسند ٹکڑے کر ڈالے جاتے ہیں کہ کہیں وہ آزادی کا مطالبہ نہ کر دیں۔ خدا جانے اس وادی کی تقدیر کا کب فیصلہ ہو گا اور وہاں رہنے والوں کو سکھ اور سکون نصیب ہو گا۔