میں نے ایک غریب گھرانے میں جنم لیا۔ والد صاحب نے محنت مزدوری کرکے ہم کو پالا پوسا اور پروان چڑھایا۔ انہوں نے مٹی ڈھوئی، سیمنٹ بھری تغاریاں سر پر اٹھا کر لوگوں کی رہائشگاہیں تعمیر کرائیں لیکن ہم بچوں کو محنت کی چکی میں نہ پسنے دیا بلکہ اسکول داخل کرا دیا۔
بے شک ہم سرکاری اسکولوں میں پڑھتے تھے مگر والد ہم پر کڑی نظر رکھتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ پڑھ لکھ کر کچھ بن جائیں اور بڑے ہوکر ہم کو وہ مشقت نہ کرنی پڑے جو ہمارے والدین نے کی تھی۔
میری ماں سلائی میں طاق تھیں۔ سارا دن مشین پر لوگوں کے کپڑے سیتی تھیں اور والد تمام دن مکانوں کی تعمیر میں پتھر اور مٹی گارے کی تغاریاں ڈھوتے تھے۔ ہمارا گھر اپنا نہ تھا، دیہات میں رہتے تھے اور زمیندار کی عنایت سے ایک چھوٹا سا کچا گھر بنایا ہوا تھا۔ زمیندار کی مرضی کہ جب چاہتا ہم کو بے دخل کردیتا۔ ہر وقت اسی بات کا دھڑکا لگا رہتا تھا اس لئے جب بھی زمیندارنی اپنے گھریلو کام کاج کی خاطر امی کو بلواتی، وہ انکار نہ کرتیں بلکہ دوڑی جاتی تھیں کہ انکار کی گنجائش نہ تھی۔ ایسا ہی حال ابا کا تھا۔ جب مالک کا بلاوا آتا، وہ سارے کام کاج چھوڑ کر ان کی خدمت میں حاضر ہوجاتے۔
ہم دو ہی بہن، بھائی تھے۔ عاصم مجھ سے تین سال بڑا تھا۔ وہ زمیندار کے لڑکوں کے ٹھاٹھ باٹ دیکھ کر حسرت بھری نگاہوں سے ان کو تکتا رہ جاتا۔ گھر آکر امی سے کہتا۔ ماں! کاش ہم بھی زمیندار ہوتے۔ کاش! ہمارے پاس بھی دولت ہوتی۔ تب امی جان اس کو سمجھاتیں۔ بیٹے! اگر ہمارے پاس زمین نہیں ہے، عقل تو ہے۔ ہاتھ، پیر بھی سلامت ہیں۔ اگر تم ہمت سے کام لو اور دل لگا کر پڑھو تو علم ہی ایک ایسی دولت ہے جس کے ذریعے غربت کو شکست دے سکتے ہو۔
ماں آٹھ جماعت پاس تھیں کیونکہ آج بھی دیہاتوں میں سرکاری اسکول مڈل تک ہی ہوتے ہیں۔ غریبوں کے بچے اسی وجہ سے اعلیٰ تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں کہ وہ شہر جاکر تعلیم حاصل نہیں کرسکتے۔
والد صاحب کو گائوں میں مزدوری نہ ملتی تو وہ شہر چلے جاتے تھے۔ ان کے پاس ایک پرانی سائیکل تھی اور وہ سائیکل پر گائوں سے شہر کا فاصلہ طے کرکے راج مزدوری کرتے تھے۔ وہ پانچ وقت نماز پڑھتے تھے اور ہر نماز کے بعد دعا کرتے تھے کہ اے اللہ! میرے بچوں کو علم کی دولت نصیب کرنا اور ان کو توفیق دے کہ یہ علم حاصل کرسکیں کیونکہ ان کے خیال میں تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ تھا جس کی بدولت انسان غربت سے نجات پا سکتا تھا۔ یہ تو میرے والدین کا خیال تھا تبھی انہوں نے ہمارے ذہنوں میں بچپن سے ہی یہ بات راسخ کردی تھی کہ تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے۔ …… ورنہ تمام عمر مٹی چاٹنے والے کیڑے بن کر رہ جائو گے۔ امی اور ابو کے انہی بولوں کی وجہ سے دل لگا کر پڑھتی رہی۔ یہاں تک کہ میں نے آٹھویں جماعت پاس کرلی۔ بھائی نے بھی مڈل کے بعد شہر میں داخلہ لے لیا اور میٹرک تک تعلیم حاصل کرلی تب ابا جان نے گائوں کی رہائش ترک کی اور شہر میں ایک سستا مکان کرائے پر تلاش کیا۔ وہ ہم کو گائوں سے شہر اسی وجہ سے لے آئے کہ ہم آگے تعلیم حاصل کرسکیں۔
میں نے ایف اے تک پڑھا اور بھائی نے بی اے کیا تبھی ابو کا انتقال ہوگیا۔ جب کمانے والا نہ رہا، دال روٹی کے ہی لالے پڑ گئے۔ تب امی نے بھائی سے کہا کہ کرائے کا مکان ہے اور آمدنی کا بھی کوئی ذریعہ نہیں۔ تم گریجویٹ ہو، کہیں ملازمت تلاش کرلو۔ چھوٹی موٹی جیسی بھی نوکری ملے، فوراً کرلو۔ ہمارے پاس سفارش تو تھی نہیں پھر اچھی نوکری کے خواب کیسے دیکھتے۔
میں نے امی کی مجبوریوں کا احساس کرتے ہوئے گھر کے نزدیک ایک پرائیویٹ اسکول میں بطور ٹیچر جاب کرلی۔ گرچہ تنخواہ معمولی تھی مگر کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر تھا۔ میرا بھائی اعلیٰ پوزیشن کا متلاشی تھا۔ وہ نوکری بھی کوئی اعلیٰ حاصل کرنا چاہتا تھا مگر اس کیلئے زبردست سفارش یا پھر رشوت درکار تھی۔ وہ کچھ دنوں اچھی نوکری کی تگ و دو میں مارا مارا پھرتا رہا آخرکار عقل ٹھکانے آگئی۔ اپنی ذمہ داری کا احساس ہوگیا۔ مزید تعلیم حاصل کرنے کے وسائل بھی نہ تھے تبھی ایک شاپنگ مال میں بطور سیلزمین نوکری قبول کرلی۔ عاصم بھائی کی چونکہ شائننگ پرسنلیٹی تھی، صورت شکل بھی اچھی تھی لہٰذا انٹرویو دیا تو شاپنگ سینٹر کے مالک نے معقول تنخواہ پر تقررنامہ دے دیا۔
عاصم بھائی نے گرچہ یہ نوکری کچھ بے دلی سے قبول کی تھی پھر رفتہ رفتہ دل لگ گیا کیونکہ شاپنگ پلازہ معیاری تھا اور شہر کی بہترین لوکیشن پر واقع تھا۔ ساتھی سیلزمین بھی پڑھے لکھے تھے جن کی کمپنی سے عاصم کا وقت اچھا گزرتا تھا۔ گرچہ ترقی کے یہاں مواقع نہ تھے لیکن ترقی کے بارے میں سوچا تو جا سکتا تھا۔
عاصم بھائی جہاں خوبصورت تھے، وہاں ان میں گاہک کو مائل اور قائل کرنے کی بھی خداداد صلاحیت تھی۔ اس وجہ سے زیادہ سیل وہی کرتے تھے۔ جو شعبہ ان کے سپرد ہوا تھا، وہ کاسمیٹک کارنر تھا۔ یہاں زیادہ تر خواتین آکر خریداری کرتی تھیں۔ اکثر امیر اور خوبصورت لڑکیوں سے ہی واسطہ پڑتا تھا۔ جلد ہی میں نے محسوس کرلیا کہ بھائی کے طوراطوار میں تبدیلی آتی جارہی ہے۔ ہمارا گھرانہ مذہبی تھا، ہم سب پانچ وقت نماز پڑھتے اور سادہ زندگی بسر کرنے کے عادی تھے مگر عاصم بھائی نے ان دنوں پابندی سے نہ صرف نماز پڑھنا ترک کردی بلکہ وہ شوخ اور فیشن ایبل لباس پہننے لگے۔ خیر لباس میں تبدیلی تو ممکن ہے کہ ملازمت کی مجبوری ہو مگر یکدم مذہبی رجحان سے آزاد ہوجانا سمجھ میں آنے والی بات نہ تھی۔
اب اس کے رنگ ڈھنگ امیروں جیسے ہوگئے حالانکہ ہم ابھی تک غریب ہی تھے۔ دال، روٹی مشکل سے پوری ہورہی تھی مگر بھائی نے بظاہر امیرانہ اطوار اپنا لئے تھے غالباً ان کا واسطہ ہر وقت امیر گھرانے کے افراد سے رہتا تھا اور یہ تبدیلی اسی سبب تھی۔ بھائی نے پہلے کبھی کبھی ایسی باتیں نہ کی تھیں کہ وہ راتوں رات کسی طرح امیر ہوجائے مگر اب وہ بہت زیادہ اونچے خواب دیکھنے لگا تھا۔ ہر دم کہتا تھا کہ میں چاہتا ہوں کوئی ایسا چھکا لگے کہ دنوں میں لکھ پتی ہوجائوں مگر کیسے…؟ بس یہی سوچ سوچ کر تھکتا رہتا ہوں۔ ایک روز اسے سوچ میں ڈوبا دیکھ کر میں نے پوچھ ہی لیا کہ بھائی! بتائو تو سہی آخر کیا مسئلہ ہے، ہر وقت سوچوں میں غرق نظر آتے ہو؟ کہنے لگا۔ آپی…! سچ کہوں تو میں دن رات دولت مند ہونے کے خواب دیکھتا ہوں، رگوں میں شریف ماں، باپ کا خون ہے اسی لئے برائی سے دولت حاصل کرنے کا حوصلہ بھی نہیں ہے۔ ہاں ایک طریقہ ہے کسی امیر لڑکی کو اپنی طرف راغب کرلوں اور وہ مجھ سے محبت کرنے لگے تو اس کے ساتھ شادی کرکے میں امیر کبیر بن سکتا ہوں۔
میں نے کہا۔ میرے بھائی! ایسی سوچوں کو خداحافظ کہو اور اپنی کھال میں رہو، دولت اس طرح نہیں ملتی، وہ محنت سے ملتی ہے۔ محنت کئے جائو آخر کبھی نہ کبھی مایہ دیوی تم پر مہربان ہو ہی جائے گی۔ بھائی جہاں ملازم تھے، اس شاپنگ سینٹر پر زیادہ تر امیر طبقے کی لڑکیاں آیا کرتی تھیں۔ بھائی نے جانے کب کی پلاننگ کی ہوئی تھی۔ آخر ایک روز ایک معمولی صورت لڑکی پر ان کی نگاہ ٹھہر گئی۔ وہ اکثر آتی، مہنگی پرفیومز اور بیرون ملک کی قیمتی مصنوعات خریدتی۔ اس کے انداز خریداری نے واضح کردیا کہ بہت مالدار ہے، بڑی سی گاڑی میں آتی تھی اور ہر بار نہایت قیمتی عمدہ لباس زیب تن ہوتا تھا۔ لگتا تھا کہ کروڑ پتی باپ کی اکلوتی بیٹی ہے جس کو روپے پیسے کی کوئی پروا نہیں ہے۔
باتوں باتوں میں اس نے بتا دیا کہ شاپنگ کرنا اس کا محبوب مشغلہ ہے اور والدین کی اکلوتی ہے۔ باپ ایک بڑا بزنس مین ہے۔ بھائی نے طریقے سے اس کے ساتھ دوستانہ ماحول بنا لیا۔ وہ شاپنگ کے ساتھ ساتھ اب عاصم سے کچھ دیر ادھر ادھر کی گفتگو بھی کرلیتی تھی لیکن اس کی گفتگو نہایت بے اثر ہوتی۔ دولت مند ہونے کے سوا اس لڑکی میں دوسری کوئی کشش والی خوبی تھی ہی نہیں۔ گئی گزری صورت کے ساتھ ساتھ عجب انوکھے ڈیزائن کے لباس اسے پسند آتے جو قیمتی ضرور ہوتے مگر اس کے سراپا پر بدنما ہی لگتے تھے۔ عاصم نے اس کو غیر معمولی توجہ دینی شروع کردی۔ جلد ہی یہ لڑکی بھائی کی جانب ملتفت ہوگئی۔ اب وہ خاص عاصم کی خاطر وہاں آتی۔ عاصم کی پلاننگ رنگ لے آئی ۔بات بڑھتے بڑھتے محبت کے موڑ تک آگئی۔
عاصم کو اس سے محبت وغیرہ خاک نہ تھی لیکن اپنے مشن میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے اسے جھوٹی محبت کا یقین تو دلانا ہی تھا۔ اس کا نام روبینہ تھا، روبی نک نیم تھا۔ وہ ایک بہت بڑے صنعتکار کی بیٹی تھی۔ بس پھر کیا تھا عاصم نے اپنی آرزو کو عملی جامہ پہنانا شروع کردیا۔ یہ لڑکی قطعی اس کا آئیڈیل نہ تھی۔ لیکن اس کو اپنی منزل قریب نظر آنے لگی۔ وہ میرے بھائی سے اس قدر مانوس ہوگئی کہ ایک لمحہ اس کے بغیر رہنا دوبھر ہوگیا۔ دکانداری کے اوقات سارا دن رہتے ہیں لیکن جس مال پر بھائی کی ملازمت تھی، وہاں آدھے دن کے بعد ڈیوٹی بدل جاتی تھی۔ بھائی صبح نو سے چار بجے تک ڈیوٹی کرتے تھے پھر ان کی جگہ دوسرا سیلزمین آجاتا تھا اور وہ روبی کے ساتھ محبت کی دنیا کی سیاحت کو آزاد ہوجاتے تھے۔
روبی ان کی منتظر ہوتی پھر وہ بھائی کو اپنی قیمتی گاڑی میں بٹھائے اڑی اڑی پھرتی۔ ہم لوگ اتنے ماڈرن نہ تھے کہ لڑکے یوں آزادانہ گھومتے پھرتے مگر عاصم پر تو دولت مند ہونے کا بھوت سوار تھا۔ روبی اسے کلب لے جاتی، اسے ڈانس کرنا سکھاتی اور بتاتی تھی کہ تمبولا کیسے کھیلتے ہیں۔ وہ جب ملنے آتی، منع کرنے کے باوجود کچھ نہ کچھ رقم یا کوئی تحفہ بھائی کو زبردستی دے جاتی۔ اس نے کبھی احساس نہ ہونے دیا کہ عاصم کم حیثیت ہے اور وہ امیر ہے۔ کبھی کبھی رومانی ماحول بن جاتا تو وہ اس قدر جذبات میں کھو جاتی کہ اپنے بس میں نہ رہتی لیکن بھائی نے کبھی شرافت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ ہمیشہ اس کی نسوانیت کی عزت و توقیر کی جس سے اسے یقین ہوگیا کہ عاصم ایک اعلیٰ کردار کا مرد ہے۔
اس کو شادی کیلئے راضی کرنا چاہتا تھا تبھی محتاط رویہ رکھا۔ کسی غلط حرکت کے سرزد نہ ہونے کی وجہ سے اس کے دل میں بھی عاصم کی قدرو منزلت دوچند ہوگئی۔ وہ صدق دل سے میرے بھائی سے محبت کرنے لگی۔ اس نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ وہ عاصم کی جیون ساتھی بننا چاہتی ہے اور جلد ازجلد…!
روبی نے اپنے گھر والوں کے سامنے عاصم کے اس قدر قصیدے پڑھے کہ وہ لوگ میرے بھائی سے ملنے کو راضی ہوگئے۔ بالآخر وہ دن بھی آگیا کہ بیٹی کے اصرار پر اس کے والد نے عاصم کو گھر بلایا اور کافی آئوبھگت کی۔ عاصم سے سیٹھ صاحب نے ہر بات پوچھی جو ضروری تھی پھر گرم جوشی سے رخصت کیا۔ ایک ہفتہ بعد دوبارہ روبی کے والد نے عاصم کو بلایا اور اس بار واضح الفاظ میں کہا کہ ہم تو راضی ہیں مگر یہ بتائو کہ کیا تم ہماری بیٹی کو ایسا ہی سکھ اور سکون اور ایسی ہی آسائش بھری زندگی دے سکو گے جیسی کہ وہ اب بسر کررہی ہے کیونکہ بچپن سے ہی وہ اس آرام و آسائش کی عادی ہے۔ کیا تمہارا گھر بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ ہمارا ہے؟
یہ تمام باتیں سن کر میرا بھائی سکتے میں آگیا۔ ایک بڑا بزنس مین ہونے کی وجہ سے روبی کے باپ نے شاید عاصم کا ذہن پرکھ لیا تھا تبھی بھائی کی ذہنیت کو اس کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔ یہ سوالات ایک غریب لڑکے کی غیرت پر طمانچہ تھے۔ ان کی کھری کھری باتوں نے عاصم کی آنکھیں کھول دی تھیں اور دولت حاصل کرنے کا نشہ ہرن ہوگیا۔ عاصم کو سچ بولنا پڑا۔ اس نے کہا۔ انکل! یہ تمام آسائشیں آپ کی بیٹی کو مہیا کرنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ میں تو ایک شاپنگ مال پر معمولی ملازمت کرتا ہوں، میری پورے ماہ کی تنخواہ آپ کی بیٹی کیلئے ایک دن کے پیٹرول کا خرچا ہے۔ میں آپ کی بیٹی کو کچھ بھی نہیں دے سکتا۔ نہ کوٹھی، نہ کار اور نہ ہی نوکرچاکر…! حتیٰ کہ بنائو سنگھار کے سامان کیلئے چند روپے بھی نہیں ہیں میرے پاس کیونکہ میری تنخواہ سے مکان کے کرایہ کٹنے کے بعد ہماری دال، روٹی پوری ہوجاتی ہے۔
تو پھر کیا سوچ کر تم یہاں آئے تھے؟ میں خود نہیں آیا، آپ کی بیٹی نے مجھ سے شادی کیلئے اصرار کیا ہے ورنہ میری کیا جرات، یہ بات آپ اپنی بیٹی سے پوچھ لیں۔
اس گھاگ بزنس مین نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد کہا۔ ٹھیک ہے اونچے خواب دیکھنے میں کچھ حرج نہیں، یہ انسان میں ترقی کی امنگ پیدا کرتے ہیں مگر زیادہ کا لالچ برا ہوا کرتا ہے اور لالچی انسان کو کوئی بھی اپنی بیٹی کا رشتہ دینا پسند نہیں کرتا۔
میں تم جیسے کو داماد بنانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا مگر میری بیٹی نے تم کو پسند کیا ہے جو کہ مجھے اس دنیا میں سب سے زیادہ عزیز ہے۔ میں اسی وجہ سے بے بس اور مجبور ہوں اور تم ٹھکرا کر اس کی نظروں میں مجرم نہیں بننا چاہتا البتہ میں اسے ایک سبق ضرور دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ میں اس کو اپنی جائداد سے محروم کردوں گا۔ اس کو ایک جوڑے میں رخصت کروں گا اور پھوٹی کوڑی بھی نہ دوں گا۔ اب بھی اگر تم اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتے ہو تو اپنی والدہ کو بھیج دو اور روبی کو عمر بھر کیلئے زندگی کی تلخ حقیقتوں سے ٹکرانے دو ایسی عاقبت نااندیش اور سرکش لڑکیوں کا یہی علاج ہے اور یہ محض بات برائے بات نہیں ہے۔ جو میں کہتا ہوں، وہی کرتا ہوں، اب والدہ کو بھیجو تاکہ رشتہ طے کریں اور اگر تم ایسا نہیں چاہتے تو خبردار آئندہ میری بیٹی سے نہ ملنا ورنہ مجھ میں اتنی طاقت ہے کہ تم کو ہمیشہ کیلئے گم کرا دوں۔ میں اپنی عزت کی حفاظت خوب جانتا ہوں۔
خبر نہیں کہ روبی اس غربت میں بھی بھائی کا ساتھ دیتی شاید اس کی محبت میں اتنی طاقت ہو کہ وہ اس کو مفلسی کے اس پل صراط کو پار کرانے میں مدد دیتی اور وہ ہر حال میں میرے بھائی کا ساتھ پا کر خوش رہتی مگر عاصم کا مقصد محض روبی کو حاصل کرنا نہیں تھا۔ اس کا مقصد تو اس کے ذریعے دولت کو حاصل کرنا تھا۔
سیٹھ کی کھری کھری باتیں سن کر وہ بہت مایوس ہوا۔ اسے پہلی بار احساس ہوا کہ سیٹھ میں اتنی فراست تھی کہ وہ اسے دیکھتے ہی جان گیا تھا کہ عاصم لالچی ہے اور وہ روبی سے محبت نہیں کرتا بلکہ اس کی دولت پر نظر رکھتا ہے۔ پہلی بار اسے احساس ہوا کہ واقعی وہ ایک لالچی انسان ہے کیونکہ بغیر دولت روبی اب اسے کاغذ کا ایک ایسا پھول نظر آرہی تھی کہ جس میں خوشبو نہیں تھی۔
دو دن بعد اس نے روبی کو فون کیا کہ میرا انتظار مت کرنا، میں ملک سے باہر جارہا ہوں اور لوٹ کر نہیں آئوں گا۔ وہ فون سن کر رونے لگی مگر عاصم نے اس کے ر ونے کی پروا کئے بغیر فون بند کردیا اور ایک دوست کے توسط سے واقعی دبئی چلا گیا۔ وہ بارہ سال وہاں رہا، محنت مزدوری کرتا رہا۔ ماں سے ملنے اس دوران تین بار آیا مگر جس خاموشی سے آیا تھا، اسی رازداری سے واپس چلا گیا۔ آج عاصم کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے وہ خوشحال ہے اور اتنی دولت ہے کہ عزت سے زندگی بسر ہورہی ہے آسائش کی ہر چیز ہے۔ اگر نہیں ہے تو روبی نہیں ہے جس نے اس کی غربت کے باوجود اس سے سچی محبت کی تھی مگر میرے بھائی نے اس سے محبت نہیں کی۔ وہ واقعی اس کا مجرم ہے۔
(الف … ملتان)