Sunday, March 16, 2025

Azmaish

کچھ لوگوں کو دیکھ کر تو پہلی ہی نظر میں محسوس ہوتا ہے کہ یہ اللہ کے بڑے ہی پسندیدہ ہیں یعنی ہر لحاظ سے نوازے گئے۔ کھلی حلال کمائی ، بڑے دل والے لوگوں کے کام آنے والے ، خوش اخلاق ، خدا ترس، دیکھنے سننے میں اچھے تعلیم ، خاندان، صحت، شکل و صورت کون سی نعمت ہے جو نہیں ملی ہوئی اور پھر اور پھر…

دوسری بار ان پر غور کریں تو کتنا عجیب لگتا ہے۔ کہ اس قدر ہر طرح سے نوازے گئے اس مرد کو بھری دنیا میں کوئی اللہ کی بندی نہ ملی کہ جس کو وہ نوازی گئی ان نعمتوں میں اپنا حصہ دار بنا سکے۔ یہ نہیں کہ شادی محض ایک ضرورت ہے بلکہ یہ بھی تو ہے کہ ایک اس عمل میں اللہ تعالیٰ نے ایک بہت ہی عمدہ، خوب صورت اور دل گداز سا فلسفہ رکھ چھوڑا ہے۔ ایک مرد کے لیے یہ کتنا اچھا اور دلفریب احساس ہو سکتا ہے کہ وہ کسی جیتے جاگتے ، سانس لیتے ، دل رکھتے انسان کی کفالت اپنے ذمہ لے رہا ہے ۔ نجانے کتنے ہی مدد کے لیے ہاتھ پھیلاتے ہیں ۔ کچھ جو صرف نظروں سے اپنی ضروریات بیان کرتے ہیں ۔ پھر بھی آپ اس قدر تو ان کے لیے نہیں کرتے کہ اپنے ہر مال و دولت میں اس کو حصہ دار ہی بنا ڈالیں ۔ صدقہ خیرات بھی کرتے ہیں تو ایک حد تک صرف وہ ایک عورت ہوتی ہے جس کو آپ اپنے نکاح میں لیتے ہیں اور اس طرح وہ آپ کی زندگی میں شامل ہوتی ہے کہ آپ کے وقت ، دولت ، صحت ، عزت اور گھر تک میں آپ کی با قاعدہ حصہ دار بن جاتی ہے اور آپ اس کی پوری ذمہ داری لیتے ہیں۔ اس کی عزت، اس کا رکھ رکھاؤ، جنسی خوشی سب کچھ آپ سے منسوب ہوتا ہے۔ بہت حیرت ہوتی ہے اس طرح کے مکمل مردوں کو دیکھ کر جو شادی کے نام سے کترانے لگتے ہیں یا اپنے بڑوں کے شادی کرنے کی تلقین کرنے پر طنزیہ قہقہہ لگاتے ہیں آخر اس میں کیا راز ہے؟

آخری جملے پر اس نے نظریں جھکا لی تھیں ۔ گو اب تک اس پورے لیکچر کے دوران اس نے ایک بار بھی میری طرف نہیں دیکھا تھا مگر میں جانتا تھا کہ وہ مخاطب مجھ سے ہی تھی۔ میں مسکرایا۔ یہ جو طنزیہ قہقہہ لگانے والی بات اس نے مجھ پر ہی کی تھی اس کا جواب دینا تو لازمی تھا۔ اس جملے نے ہی تو محفل میں بننے والے اس چھوٹے سے حلقے میں اس کی بات سننے والے ہر ایک کو میری ہی طرف متوجہ کر دیا تھا۔

شاید اس لیے کتراتے ہوں کہ ایک عورت جس کو وہ عزت و احترام کے ساتھ اپنی زندگی میں شامل کریں اور جس کی کفالت بھی اپنے ذمہ لے لیں اور وہی عورت احسان مند ہونے کے بجائے نہ تو شوہر کی عزت کا خیال کرے نہ ہی شوہر کے گھر والوں کا ۔ بلکہ الٹا یہ جتانے میں لگ جائے کہ شادی کر کے اس نے احسان کیا ہے؟

میرے بروقت جواب پر چند ایک شادی شدہ مردوں نے بڑی ہی خوب صورتی سے اپنے ہونٹوں پر بے اختیار آتی مسکراہٹ کو چھپالیا۔ جبکہ ان کے اردگردمنڈلاتی ان کی بیگمات نے بے چینی سے پہلو بدلا – اور اب با قاعدہ محفل کی توجہ اس کی طرف پلٹ گئی تھی، محبت سمیت سب کو اس کے جواب کا انتظار تھا۔

آزمائش صرف پیسے عزت اور صحت کی نہیں ہوتی ۔ میں تو یہ جانتی ہوں کہ ہر نعمت جو ہمیں دی گئی ہے زندگی کے کسی موڑ پر کہیں نہ کہیں اس کی آزمائش بھی لازمی ہوگی اور حسن سلوک کی عادت بھی ایک نعمت ہے۔ جس کی آزمائش یہی ہو گی ناں کہ ہمیں ہر دم کوئی ایسا ٹکرائے جو ہمارے مزاج پر بھاری پڑے۔ جو ہماری برداشت کو آخری حد تک آزمائے ۔ کیا معلوم وہ عورت اپنے شوہر کے حسن سلوک کی آزمائش ہو؟

میں لاجواب تو نہیں ہوا تھا مگر اس سے بحث در بحث کرنے کا ابھی ارادہ بھی نہیں رکھتا تھا کیونکہ میں اس کے منجھلے بھائی کی بیوی کو ہمارے حلقے کی طرف آتے دیکھ چکا تھا اور یہ تو ہم سب ہی جانتے تھے کہ اگر اس کی بھابھی نے اسے اس طرح ہم سب سے بے تکلفی سے باتیں کرتے دیکھ لیا تو اس کے ساتھ محفل میں ہی وہ سب ہو جائے گا جو اکثر اوقات شرارتی بچوں کے محفل میں بد تمیزی کرنے کے بعد گھر جانے کہ ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ میری دونوں بڑی بہنیں بھی اپنے شوہروں کو لیے تیزی سے حلقے سے نکل گئیں-

اس کی بھابھی طنزیہ سی مسکراتی ہم کچھ بچے ہوؤں پر نظریں ڈالتی آگے بڑھ گئی ۔ اس کے سامنے سے گزرنے پر شاید اسے بھی ہوش آیا اور وہ بھی برقی رفتاری سے اٹھ کر ہم سب سے اجازت یا معذرت کیے بغیر اسٹیج کی طرف چلی گئی۔ جس کے اردگرد سجے صوفوں پر اس کے خاندان کے بقایا لوگ بڑے ٹھسے اور رعب سے بیٹھے ہوئے تھے۔
ہم دونوں خاندانوں میں کئی سالوں سے ملنا ملانا تو کیا سلام دعا تک بند تھی۔ وجہ اس کی وہی جو عام رشتہ داری میں ہوتی ہے۔ دونوں طرف لڑکیاں تھیں اور لڑکے بھی اور دونوں طرف صرف لڑکوں کو حاصل کر لینے کی خواہش تھی جبکہ لڑکیوں سے ہر ممکن اجتناب برتا جاتا تھا۔

ایک دو بار بڑی مصیبتوں اور جتن کے ساتھ کسی لڑکے اور لڑکی نے اپنے والدین کی پسند نا پسند کو نظر انداز کر کے اگر رشتے کی بات چلانی بھی چاہی تو اس قدر ہنگامہ، فساد اور جھگڑا ہوا کہ شادی تو دور کی بات ناچاقی دوچند ہو گئی۔ حیرت بھی ہوتی بھی کہ کیا ایک ماں کے دو بچے آپس میں سگے بھائی بہن کے درمیان زندگی میں اس قدر دوریاں بھی آسکتی ہیں کہ ایک دوسرے کی اولادوں سے نفرت محسوس ہونے لگے؟

پھوپھی جان ویسے تو کافی سمجھ دار پڑھی لکھی اور بردبار تھیں مگر نجانے ان کی ساری عقل مندی اور دانائی ایک ہماری امی جان کے سامنے آتے ہی جیسے پاتال میں جا گرتی اس طرف امی جان کا بھی ایسا ہی کچھ حال ہوتا۔ خواتین کی ہاں میں ہاں ملانے کے لیے ان کے جوان ہوتے کچھ بچوں نے بھی اپنا اپنا کردار بھر پور نبھایا۔

ایسا نہیں کہ یہ ناچاقی ہمیشہ سے تھی۔ مجھے یاد ہے جب میں شاید آٹھویں میں پڑھتا تھا تو امی جان مجھے تیار کر کے بہت سے تحفے تحائف اور مٹھائی وغیرہ لے کر پھوپھی جان کے ہاں پہنچی تھیں، جن کے ہاں چار بیٹوں کے بعد ایک بیٹی آئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب دونوں خاندان یک دل دو جان تھے۔

امی جان اپنی نند پر جان چھڑکتی تھیں اور نند بھی بھابھی جان ، بھابھی جان کرتے نہ کھلتی تھیں۔ مجھے سے بڑی دو بہنیں اور پھوپھی جان کے چاروں بیٹے گھل مل کر بیٹھا کرتے تھے اور تب ہی کا وہ چند سالوں کا دور تھا جب میں نے پھوپھی جان کے ہاں اسے دودھ پیتی بچی سے بڑے ہو کر پاؤں پاؤں چلتے دیکھا۔ امی جان مجھے ہمیشہ ساتھ رکھتی تھیں۔ لہذا پھوپھی جان کے ہاں آنے جانے میں بھی میرا ناغہ نہیں ہوا۔

اس کے چند سالوں تک ہمارے درمیان ایسا ہی بھائی چارہ رہا اور پھر پھوپھی جان کے بڑے بیٹے کے سلمان بھائی کی طرف سے جب بڑی باجی کے لیے پہلی بار پسندیدگی کے اشارے ملنے شروع ہوئے تو جیسے پھوپھی جان کی زبان میں بھی کانٹے اگنے لگے۔ مانا سلمان بھائی بڑے ذہین ، صحت مند اور مضبوط مستقبل کے حامل نظر آتے تھے مگر بڑی باجی بھی کچھ کم خوب صورت اور ہنس مکھ نہ تھیں۔ پھر بھی پھوپھی جان کو نجانے اپنے بھائی کی سب سے بڑی بیٹی میں ایسا کوئی گن نظر نہ آیا کہ جس کی بدولت وہ ان کی بہو بن سکتیں ۔ بس پھر یہی وہ دور تھا جب پہلی بار دونوں خاندانوں میں گھمسان کی جنگ چھڑ گئی۔ چند سالوں ایک دوسرے کی شکلوں سے بے زار رہنے کے بعد پھوپھا جان کے انتقال پر امی جان کو پھوپھی جان سے ایک بار پھر محبت ہوگئی ۔

بڑی باجی اور سلمان دونوں کی قسمت کا فیصلہ بھی ان کے والدین کی مرضی سے ہو چکا تھا لہذا میدان بھی صاف تھا مگر کب تک رہتا ایک بار پھر پھوپھی جان کے تیسرے نمبر کے صاحبزادے عیان بھائی کو ہمارے گھر میں اپنا محبوب نظر آنے لگا اور ایک بار پھر پھوپھی جان نے بڑی نخوت سے بیٹے کی خواہش کو رد کر دیا اور نتیجے میں دونوں خاندان ایک بار پھرجدا ہو گئے۔
دوسری بار کی جدائی کا دور میری غیر موجودگی میں آیا تھا۔ اس سے پہلے میں بڑا بن ٹھن کر لندن مجھے پڑھنے کے سلسلے میں جانے کی خوشی میں پھوپھی جان کے ہاں با قاعدہ اپنے خاندان سمیت کھانے پر مدعو بھی کیا گیا تھا۔

لندن میں رہائش کے دوران بھی امی جان نے ایک دن مجھے روتے ہوئے پھوپھی جان کا یوں عیان بھائی کا منجھلی باجی کے لیے رشتے کے ٹھکرانے کا بتایا تھا۔ میں نے امی جان کو سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ جب ان کو معلوم ہے کہ پھوپھی جان اس ایک بات پر خوش نہیں ہوتیں تو آخرامی جان ہی اس ایک بات کو بار بار کیوں چھیڑتی ہیں؟ امی جان کا خیال تھا کہ دونوں خاندانوں میں اتفاق کی ایک ہی صورت ہے جبکہ ہمیشہ اسی ایک صورت کے پیدا کرنے کی کوشش میں دونوں خاندانوں کے درمیان اتفاق کو بری طرح نقصان پہنچا تھا۔

میرے لندن سے پڑھائی مکمل کر کے واپس آنے پر امی جان اور پھوپھی جان میں پرانی دوستی جیسا تو کچھ نہ بچا تھا مگر ایسی دشمنی بھی نہیں تھی کہ ملنا ملانا ہی بند ہو۔ کسی مشترکہ رشتہ دار کی محفل میں ملاقات ہوتی تو دونوں اچھے سے بات چیت کر لیتیں۔

میرے آنے کے بعد پھوپھی جان نے بقول امی جان کئی سالوں بعد ہمیں اپنے گھر مدعو کیا تھا۔ میں میری دونوں بڑی بہنیں جواب شادی شدہ تھیں اور مجھ سے چھوٹے دو بھائی سب ہی تو خوشی خوشی پھوپھی جان کے گھر جا پہنچے تھے۔ وہاں بھی بے حد والہانہ پن سے ہماری خاطر داری ہوئی اور تب مجھے محسوس ہوا کہ اب کی بار بھی ہمارے خاندان میں جدائی قریب ہے کیونکہ پھوپھی جان مجھ پر واری صدقے جا رہی تھیں-

میں اس بات پر کافی حیرت زدہ ہوا تھا جب امی جان کو پھوپھی جان کے اس والہانہ پن پر بے حد خوشی ہوئی تھی۔ انہوں نے تو واپسی پر باقاعدہ زینت کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر بہت تقدس سے چوما بھی تھا۔ مگرکیا کرتے کہ زندگی کے اس ڈراے میں ولن بھی کہیں نہ کہیں سے کسی نہ کسی صورت ٹپک ہی پڑتے ہیں۔

بڑی باجی بے حد خفا تھیں اور ان کی ہی بار بار کی تلقین اور یاد دہانی کے سبب زینت ہمارے گھر کی زینت نہ بن سکی۔ میں چند سالوں کے لیے ایک اچھی نوکری کے سلسلے میں آسٹریلیا آیا ہی تھا کہ امی جان نے مجھے زینت کی شادی کا بتایا، ان کو ڈر تھا کہ میں پردیس میں اکیلا اس کی شادی کی خبرسن کر کچھ کر نہ بیٹھوں-

مجھے اپنی ماں کی معصومیت پر ہنسی آئی اور ایک دو بار اپنے دل کو ٹٹولا۔ ایسا کیوں تھا کہ میں تو کچھ بھی محسوس نہیں کر رہا تھا مگر مسلسل میرے ارد گرد موجود ہر کسی کو میری بے حد پروا ہو رہی تھی۔ خیر دن گزرنے تھے گزر گئے۔

امی جان کے انتقال پر میں کئی سالوں بعد پاکستان لوٹا ۔ اس خاندان میں بھی اب ایسا کوئی نہیں بچا تھا کہ جو دشمنی ہونے پر بھی کبھی کبھار ہی سہی شکل دکھا جائے۔ اب جو کدورت پھوپھی جان کے بچوں نے اپنے دل میں ہمارے لیے پالی تھی اس سے زیادہ میرے بھائی بہنوں کے دل میں ان کے لیے تھی مگر ہاں یہ بات بھی تھی کہ بڑی باجی سمیت اب ہم سب میں مشترکہ طور پر یہ بات تسلیم کی جاتی تھی کہ پھوپھی جان کے خاندان میں ایک شخصیت ایسی ضرور ہے جس کے دل میں ہمارے والدین اور ہم سب کے لیے ابھی بھی ویسی ہی محبت اور عزت ہے جیسی امی جان اور پھوپھی جان کے درمیان تھی-

اس کی باقاعدہ کئی ٹھوس وجوہات تھیں ۔ پہلی تو یہ کہ اکثر ہم لوگ اپنے مشترکہ رشتہ داروں سے سنتے کہ زینت اپنی ممانی جان یا ماموں جان یعنی میرے والدین کو یاد کرتے رو پڑتی ہے۔ کبھی یوں بھی ہوتا کہ امی جان یا بابا جانی کی برسی کے موقع پر اس کا فون آجاتا یا پھر دعا کا کوئی اہتمام جس میں باقاعدہ امی جان اور بابا جانی کے لیے خصوصی دعا کروائی جاتی ۔ زینت کی شخصیت ہمیشہ سے ہی ایسی تھی یا سخت گیر شوہر کی بدولت وہ نرم پڑ گئی تھی ، اس کا تو مجھے اندازہ نہیں کیونکہ سچ بات تو یہ ہے کہ میں نے بھی اسے ایک انسان ایک عورت یا لڑکی کے روپ میں جانچنے کی کوشش ہی نہیں کی وہ تو بس امی جان کی پسندیدہ بچی تھی ۔ بہت نازک اور حساس دل والی ، فورا نرم پڑ جانے والی۔

عموماً ایسے لوگوں کے دل صاف شفاف ہوتے ہیں۔ بہت زیادہ کٹھن اور ٹیرھے مزاج کے بھی نہیں ہوتے اور شاید اس نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ آزمائش تو دیے گئے ہر جذبے ہر نعمت کی ہوگی تو پھر اس جیسی نازک دل کی لڑکی کو اگر بد مزاج ، بددماغ اور اکھر شوہر مل گیا تھا تو یقینا یہ اس کے صاف شفاف دل کی آزمائش ہی تو تھی-

پاکستان آنے کے بعد میں اس کے شوہر کی آئے دن کی بد تمیزیوں کے بارے میں سن کر خاموش رہتا تھا اکثر ہی رشتہ داروں میں اس کے شوہر کی حالیہ کسی بد تمیزی کا ذکر چھڑ جاتا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ اپنی ان حرکتوں کا پرچار بھی وہ خود ہی تمام رشتہ داروں کو فون کر کے کرتا تھا۔ اس نے چند ایسے رشتہ داروں کو خاص طور سے فون کرنا ہوتا جو اس کی نظر میں اس کی بیوی زینت یا اس کی بیوی کے خاندان سے خار رکھتے ہوں۔ یوں بڑی باجی اس کے لیے بہت اہم تھیں ہر دو چار دن بعد بڑی باجی کو فون کر کے کسی کم ذات گھرانے کی لڑا کا عورت کی طرح زینت کے ساتھ کی گئی اپنی حالیہ بدتمیزی کا مزے سے تذکرہ کرنا نہ بھولتا۔

وہ سمجھتا تھا کہ شاید یہ سب باتیں ہمیں مسرور کریں گی اور ہم سب زینت کی ایسی درگت پر دل سے خوش ہوتے ہوں گے۔ بڑی باجی بھی پریشان تھیں۔ کئی بار منع کرنے کے باوجود وہ فون کرنے سے باز نہ آیا۔ ایک روز اتفاق سے میں بھی بڑی باجی کے گھر پر موجود تھا۔ بڑی باجی کے پاس فون آیا تو انہوں نے چند لمحے سن کر بے دلی سے فون مجھے پکڑا دیا۔ مقصد یہ تھا کہ شاید کسی مرد کو بات کرتا سن کر وہ شرمندہ ہو کر فون جلدی سے بند کر دے گا۔ مگر میرا نام سنتے ہی اس کو تو جیسے پتنگے لگ گئے۔ یعنی وہ میرے اور زینت بارے میں جانتا تھا۔

اب تو اس نے ایسی ایسی اندرونی باتیں کرنا شروع کر دیں کہ زینت کا کزن ہونے کے ناتے تو کیا ایک مرد ہونے کے ناتے بھی مجھے بڑی غیرت آنے لگی۔ میں نے اسے بری طرح جھڑک دیا اور یہ کہہ کر فون بند کر دیا کہ اس کا ساتھ زینت کے بد قسمت ہونے کی دلیل ہے۔ اس دن تو ہم سب بھائی بہن بڑی باجی کے ہاں کھانے پر مدعو تھے اور ہمیشہ کی طرح میری دونوں بھاوجیں اور بڑی بہنیں مجھ سے شادی کر لینے جیسے ہنسی مذاق میں مصروف تھیں مگر دوسرے ہی دن صبح ہی صبح مجھے بڑی باجی کا فون آ گیا اور انہوں نے گھمبیر آواز میں مجھ سے باز پرس شروع کردی۔

ہوا یوں کہ میری بات سن کر زینت کے شوہر نے اسے گھر سے نکال باہر کیا اور اب اس کی ضد تھی کہ جب تک میں اس سے ہاتھ جوڑ کر معافی نہ مانگوں ، وہ زینت کو واپس نہیں بلائے گا۔ ادھر زینت کے گھر والے ایک بار پھر ہم سب بھائی بہنوں پر بگڑ رہے تھے۔ معاملات کی سنگینی کا احساس ہم سب کو تھا مگر میں کسی بھی طرح ایسے شخص سے ملنا نہیں چاہتا تھا جو فون پر اس قدر کھلے الفاظ میں زینت کے بارے میں ایسی مغلظات بک سکتا ہو، وہ میرے سامنے کیا کیا نہ کہے گا اور پھر میں کہاں تک خود کو روک سکوں گا۔ مجھے خود پر پہلی بار حیرت ہوئی تھی ، ویسے میں اب تک خود کو بہت ٹھنڈے مزاج کا شخص سمجھتا تھا مگر یہ عجیب بات ہوئی تھی کہ زینت کے بارے میں ایسی ویسی بات کے شروع ہوتے ہی میرا مزاج گرم ہوا تھا۔

بہرحال میں نے بڑی باجی ، بھائیوں ، بہنوں اور دیگر رشتہ داروں کے اصرار پر بھی ملنے سے صاف انکار کر دیا اور یوں زینت بقول اس کے گھر والوں کے اب تک میکے میں براجمان تھی مگر یہ بات اب بہت حد تک وثوق سے بھی گردش کر رہی تھی کہ زینت کو اس کے شوہر نے اس دن طلاق دے کر بھیجا تھا اور میری معافی اور شوہر سے ملنے والی بات محض اس کے شوہر کی ایک شرارت تھی۔ زینت نے چند دنوں گم صم رہنے کے بعد اپنے بھائی بہنوں کو خود پر گزر چکے سانحے کے بارے میں بتا دیا تھا اور اس کے گھر والے کسی نہ کسی پر زینت کی تباہی کی ذمہ داری ڈالنے پر تلے ہوئے تھے اور مجھ سے بڑھ کر اچھا ہدف ان کو کوئی ملا نہیں تھا۔

اس بات کو آج محفل میں ایک بار پھر اس طرح باور کرایا گیا کہ جیسے ہی ہمارا خاندان ہال میں داخل ہوا، زینت کے خاندان والے ہم سب سے کترا کہ اسٹیج کے پاس سجے صوفوں پر جا بیٹھے تھے۔ زینت کے اٹھ کر جانے پر میں سوچ میں ڈوب گیا تھا۔ اس نے آج باقاعدہ آ کر مجھے یہ کیوں سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ مجھے شادی کر لینی چاہیے۔ کیا وہ خائف تھی؟ مجھے اتنا تو اندازہ تھا کہ چار بھائیوں کے درمیان ایک طلاق یافتہ بہن کو کیا کی سہنا پڑتا ہوگا جبکہ اس کے ماں باپ بھی نہ ہوں۔ ایسے میں چھوٹے سے چھوٹا اسکینڈل بھی اس کے خاندان میں اس کے کمزور اور نازک مقام کو بہت نقصان پہنچا سکتا تھا مگر وہ مجھ سے ہی کیوں ڈر رہی تھی ؟ میں نے تو اب تک کی رشتہ دار کے سامنے اس کے بارے میں پوچھ گچھ نہ کی تھی- اسے جب میں نے پہلے کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچایا تو اب کیسے پہنچا سکتا تھا-

ہاں یہ الگ بات کہ بڑی باجی کو آج کل اس پر کچھ زیادہ رحم آنے لگا اور وہ ہر دم اس کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتی رہتی تھی اور انہوں نے ہی تو مجھے اس کی علیحدگی کے بارے میں بھی بتایا تھا۔ کھانے کا وقت ہو چکا تھا اور لوگ چند لمحوں میں ہی کھانا کھانے میں مگن ہو چکے تھے۔ زینت ایک خالی میز کے پاس اکیلی نظر آئی تو مجھے موقعہ مل گیا۔ میں اس کے پہلو میں پہنچا ہی تھا کہ میرے منہ سے نکل گیا۔ میں شاید چند دنوں بعد واپس آسٹریلیا نکل جاؤں۔

اس نے بے اختیار پلٹ کر میری طرف دیکھا اور اس کی آنکھوں میں نمی آئی تھی یا مجھے دھوکا ہوا تھا بہرحال اس نے فورا ہی مجھ سے نظریں پھیر لی تھیں۔ چاند گرہن بہت چھوٹے سے وقفے کے لیے ہی ظہور پذیر ہوتا ہے مگر بس وہی لمحہ ہوتا ہے چاند سے سورج کے ملاپ کا اور دونوں کے اتنے کم سے وقت کے ملاپ پر بھی زمین والوں میں کھلبلی مچی رہتی ہے کچھ سراسیمہ اور کچھ بے چین رہتے ہیں۔ کون جانے دونوں کا ملاپ زمین والوں کے لیے کیسی ہی آزمائش لے آئے ؟

میں اپنی ہی بات پر حیران ہو گیا تھا۔ یہ میں کیا اور کیوں کہہ رہا تھا اور وہ بھی اس سے جس سے شاید کبھی اس طرح کی کوئی بے تکلفی نہیں تھی۔ وہ زیر لب مسکرادی تھی۔ بہت شکریہ، دو لفظ کہتی ہوئی وہ آگے بڑھ گئی تھی اور مجھے بہت بے چین کرگئی تھی۔ جدائی پر کوئی کسی کو شکر یہ کیسے کر سکتا ہے؟ ہاں صرف اس وقت جب کہ جدا ہونے والا کوئی بہت ہی نامناسب اور نا پسندیدہ بھی ہو جس کے جدا ہونے سے ہی ہمیں سکون ملنے کی امید ہو۔

مجھے پہلی بار اپنی قسمت کے اچھے ہونے پر شک سا ہوا تھا۔ چند دنوں بعد میرے واپس جانے کی بات پر بڑی باجی بلا تامل بپھر گئیں۔ یہ کیسے اور کیوں کرو گے تم ؟ اتنی بزدلی دکھاؤ گے اب؟” بڑی باجی کے اس سوال پر میں حیران ہو گیا۔ آسٹریلیا جانا بزدلی ہے؟ میں نے پوچھنا چاہا مگر خاموش رہا ، آج کل ہر کوئی مجھ سے نجانے پہیلیوں میں کیوں بات کرنے لگا تھا۔ آخر بڑی باجی نے ہی بات بڑھائی۔ چند دنوں بعد جانا ہے تم کو میرے ساتھ پھوپھی جان کے گھر زینت کا باقاعدہ رشتہ مانگنے ، میں نے گھبرا کر پہلو بدلا۔

پہلے کی بات اور تھی ۔ ہم اپنے والدین کی خواہشات کے آگے مجبور ہوئے۔ کبھی اپنی ہی خود غرضی میں اپنا نقصان کر بیٹھے مگر اب وقت بدل گیا ہے ۔ تم دونوں نے ہی اپنی اپنی جگہ بہت کچھ آزمائشیں سہہ لی ہیں۔ بہت مشکل حالات سے گزر چکے ہو۔ میرے خیال میں اب تم دونوں کے اوپر خاندان یا رشتہ داروں کی بلاوجہ کی زور زبردستی کوئی اثر نہیں کر سکتی۔ ان دونوں خاندان کے ملاپ کے لیے تم دونوں کا ایسا ہی مضبوط ، ایسا ہی سخت جان ہونا ضروری تھا۔ میں زینت کو جانتی ہوں۔ وہ اس وقت بھی لڑنے کی طاقت رکھتی تھی اگر تمہاری طرف سے اسے مثبت اشارہ ملتا۔ مگر اب تم کو ہی ہمت دکھانی ہے۔ اب وہ وقت آن پہنچا ہے۔

پھر وہ مجھے بہت ہی تفصیل اور سہولت سے ایک ایک بات سمجھانے لگیں اور میں یہ بات سوچ کر حیران ہو رہا تھا کہ کس قدر مشکل لگتا ہے مگر اتنا ہی آسان ہے انسان کے لیے پرانی رنجشیں بھلا کر نئے سرے سے رشتوں کو جوڑنا۔

Latest Posts

Related POSTS