بڑی منتوں، مرادوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمارے گھر بیٹا دیا تھا۔ شادی کے بعد سات سال تک میں اللہ کی طرف سے رحمت کو ترستی رہی جس کو اولاد کہا جاتا ہے۔ کس کس در پہ نہ بھٹکی، حکیم ، ڈاکٹر ، پیر فقیر کسی کو بھی چھوڑا۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر آخر یاد اللہ کو اپنا شعار بنایا۔ پانچ وقت نماز پڑھتی تھی اور دعا مانگا کرتی تھی۔ خدا کی ذات سے مایوسی کفر ہے۔ جب تک سانس ہے تب تک آس ہے۔ میں بھی دعا مانگتی ہی رہی۔ ہر سجدے میں آنکھ سے آنسو ضرور ٹپک جاتے تھے۔ جو دعا دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے اور جو کہتے ہیں کہ اللہ کے گھر دیر ہے ، اندھیر نہیں تو یہ بھی میرے مولا نے سچ کر دکھایا، یوں کہ شادی کے آٹھویں سال اچانک ایک روز چکر آیا اور ایسی طبیعت متلائی کہ میں باورچی خانے کے دروازے کے بیچ گر کر بے ہوش ہو گئی۔ شکر ہے، میرے میاں اس وقت گھر پر موجود تھے ، انہوں نے فوراً مجھے گاڑی میں ڈالا اور اسپتال لے گئے۔ خود ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے کہ نجانے میری بیوی کو کیا ہو گیا ہے ؟ ہو سکتا ہے کہ مرگی کا دورہ پڑا ہو ، لیکن جب لیڈی ڈاکٹر نے یہ خوش خبری سنائی کہ آپ کی بیوی امید سے ہیں تو میرے میاں شادی مرگ سے دوچار ہوتے ہوتے بچے۔ پھر کیا تھا اجڑے چمن میں بہار آ گئی۔ دن گنے جانے لگے کہ کب وہ ساعت آئے جب گھر میں بچے کے رونے کی پہلی آواز سنائی دے اور ماں باپ، دادا دادی کے دل پھولوں کی طرح کھل اٹھیں۔ مہینوں پہلے سے نام تجویز ہونے لگے۔ میرے میاں ماں باپ کے اکلوتے بیٹے تھے۔ اس گھر کا نام لیوا اب آنے والا تھا۔ ہم تو یہ بھی نہ سوچتے تھے کہ لڑکا ہی ہو۔ لڑکی بھی سر آنکھوں پر کہ اولاد لڑکا ہو یا لڑ کی، اللہ کی نعمت ہوتی ہے۔ کوئی تو ہو جو ماں کے دل کی ٹھنڈک اور باپ کی آنکھوں کا نور بنے۔ جب کاشف پیدا ہوا، جانو ہمارے گھر میں چاند اتر آیا۔ گل گو تھنا، گورا گلابی مکھڑا، ایسا پیارا لگتا کہ یہاں اس مٹھاس اور ممتا کی لذت کو الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں- جیسے چاند میں گہن ہوتا ہے یا پھول کو مٹی لگ جاتی ہے۔ ایسے ہی میرے چاند کو بھی کسی روگ نے جکڑ لیا۔ جب اس کی عمر دو سال ہونے کو آئی، تو اس کو وقتاً فوقتا دورے پڑنے لگے ۔ کسی نے کہا، آسیب ہے ، کوئی کہتا جن کا سایہ ہے۔ کسی نے مرگی بتائی، غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ ہم تو علاج کروا کر وا تھک گئے۔ کسی دوا نے اثر نہ کیا۔ جھاڑ پھونک والے، وید، سبھی آزما لیے ، مگر بچے کو ٹھیک نہ ہونا تھا اور نہ وہ ٹھیک ہوا۔ اب تو میں خدا سے فریاد کرتی کہ الہی تو نے دعا سنی بھی تو کیسی ادھوری، بیٹا دیا تو رو گی۔ جب کاشف کو دورہ پڑتا، اچانک اس کا سارا بدن اکڑ جاتا اور آنکھیں چڑھ جاتیں۔ معصوم مکھڑے پر ایسا کرب ہوتا کہ دیکھانہ جاتا۔ میرا اور اس کی دادی کا تو کلیجہ منہ کو آنے لگتا۔ ایک دن میرے بیٹے کو اچانک دورہ پڑا تو اس کی حالت غیر ہو گئی۔ اس روز میراجی ایسا کٹا کہ بلک بلک روئی اور دعا کی، خدایا! تو کاشف کو تندرست کر دے یا اس کے بدلے میں ہم میں سے کسی کو اٹھا لے مگر اس کو اچھا کر دے۔ جانے کیسی قبولیت کی گھڑی تھی، کاش دعا کرنے سے پہلے ذرا تو سوچ لیا ہوتا، مگر مجھ نادان نے ذرا بھی نہ سوچا کہ اس کا کیا نتیجہ ہو گا۔ ابھی کاشف کو پالنے میں لٹا کر اور آنسو پونچھ کر اٹھی ہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ در کھولنے سے قبل میں نے پوچھا۔ کون ہے ؟ صدا آئی، گدا گرنی ہوں بی بی ! مجھ ملنگی کے کشکول میں تھوڑا سا آٹا ڈالے۔ اللہ تمہاری پریشانی دور کر دے گا۔
میں اس وقت بڑی دکھیاری ہو رہی تھی۔ دل میں تو بس ایک ہی مراد تھی کہ میرا بیمار بچہ صحت یاب ہو جائے۔ میں نے در کھولا اور اس فقیرنی کے کٹورے کو آٹے سے بھر دیا۔ اس نے میرا اترا ہوا چہرہ دیکھا تو بولی۔ کیا تم کو کوئی بڑی پریشانی ہے مجھے بتاؤ۔ تیری بامرادی کے لئے خاص دعا کروں گی۔ میں نے اسے بتایا کہ میرا بیٹا بیمار ہے، دعا کرو کہ وہ ٹھیک ہو جائے۔ کیا علاج کرایا ہے ؟ ہاں ، کئی ڈاکٹروں کو دکھایا ہے مگر کوئی دوا اثر نہیں کرتی۔ ذرا ایک جھلک تم مجھے اپنے بچے کو دکھاؤ گی۔ سامنے جھولے میں کاشف لیٹا تھا۔ اس نے میرے بچے کے چہرے کو غور سے دیکھا، پھر کہنے لگی۔ یہ ایک ایسی بیماری ہوتی ہے جو ہزار میں کسی ایک بچے کو ہوتی ہے۔ اس کا کان چھدوا کر بالا ڈلوا دو اور میرے پاس ایک دوا ہے۔ ذراسی ، بس تنکے پر رکھ کر دن میں ایک بار اپنے دودھ میں حل کر کے پلا دیا کرو۔ سات دن میں تمہارا بچہ ٹھیک ہو جائے گا، مگر یادرکھنا دوا بس اتنی ہی تھوڑی لینی ہے جو مقدار میں نے بتائی ہے اس سے زیادہ ہرگزمت دینا۔ میں ساتویں روز آؤں گی، تمہارابچہ بھلا چنگا ہو جائے گا۔ میں ٹوٹے دل کی ممتا ماری، اس ملنگی کے آسرا دینے سے خوش ہو گئی اور اس سے دوا کی پڑیا لے لی، جس میں کوئی سفوف تھا اور اسے کچھ رقم بھی دی۔ کہا کہ اگر بچہ تندرست ہو گیا تو انعام بھی دوں گی۔ میں سمجھی کہ میرے گھر اس وقت فقیر نی نہیں کوئی رحمت کا فرشتہ آگیا ہے۔ بس پھر کیا تھا ، جاتے ہوئے گدا گرنی کو کھانا بھی دے دیا کہ گھر جا کر کھا لینا۔ کاشف کو جب دورہ پڑتا وہ نڈھال ہو جاتا تھا۔ دورے کے بعد وہ غنودگی میں چلا جاتا اور کئی گھنٹے تک سوتارہتا۔ دورے سے اس قدر لاغر ہو جاتا جیسے کسی نے اس کے بدن کی ساری قوت چھین لی ہو۔ میں نے ملنگی کی دی ہوئی پڑیا دراز میں رکھ دی کہ جب بچہ جاگ جائے گا تو دوا دے دوں گی، مگر کاشف کے اٹھنے سے پہلے ہی میرے میاں آگئے اور پیار کرنے کو بیٹے کے پالنے کی طرف بڑھے۔ میں نے منع کر دیا کہ اسے ابھی نہ جگائے دورہ پڑنے سے نڈھال ہو گیا ہے۔ نیند پوری کرنے دیں، پھر میں نے خوشی خوشی ان کو آج کی بات بتائی کہ ایک فقیر نی آئی تھی، اک پڑ یا دے گئی ہے۔ کہتی تھی اس کو تنکے پر رکھ کر ذرا سی کھلا کر اپنا دودھ پلادینا یہ ٹھیک ہو جائے گا۔ وہ بولے۔ تم نے دوا کھلا تو نہیں دی؟ نہیں، ابھی نہیں کھلائی۔ وہ کہنے لگے ، ایسی جعلی ملنگیاں بہت پھرتی ہیں تم عورتوں کو بے وقوف بنانے کو۔ ادھر لاؤ وہ پڑیا، میں دیکھوں تو۔ میں نے ان کو پڑ ی دراز سے نکال کر دے دی۔ انہوں نے اسے کھول کر دیکھا تو ہنسنے لگے اور بولے۔ یہ تو راکھ ہے چولہے کی ۔ یہ ملنگیاں، فقیر نیاں فراڈ ہوتی ہیں ، تم جیسی سادہ عورتوں کو بے وقوف بناتی ہیں۔ ٹھک کر لے لے گی گئی ہو گی تم سے موٹی رقم ۔ ہاں لے تو گئی ہے کچھ روپے۔ روپے۔ ٹھیک ہے۔ اب دیکھو، میں اسے چکھتا ہوں، پھر تم بھی چکھ کر دیکھ لینا۔ یہ چولہے کی راکھ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ کہہ کر انہوں نے اس پڑیا کو منہ میں ڈال کر پور اسفوف نگل لبه لیا اور اوپر سے پانی پی لیا۔ میں نے پڑیا کو ہتھیلی میلی پر پر جھاڑا اور جو تھوڑا تھوڑا سا سا سفوف اس میں لگا لگا تھا، تھا، چٹکی بھرزبان پر رکھ کر چکھا تو واقعی راکھ جیسا ہی ذائقہ تھا۔
اکرم سفوف نگل کر لیٹ گئے۔ کہنے لگے کہ تھک گیا ہوں۔ ذرا آرام کر لوں تو کھانا کھاؤں گا۔ چند منٹ لیٹے رہے ، پھر غنودگی میں چلے گئے، میں سمجھی دفتر سے تھک کر آئے ہیں، نیند آگئی ہوگی۔ کاشف اٹھ گیا تھا۔ میں نے اس کو دودھ پلا کر ساس کو تھمادیا اور کھانا گرم کرنے لگی۔ کھانا لگایا اور میاں جی کے پاس گئی۔ انہیں آواز دی کہ اکرم ! اٹھ جائے کھانا کھا لیں۔ دو گھنٹے سے سورہے ہیں اب تو مغرب ہونے لگی ہے مگر وہ نہ اٹھے تو مجھے عجیب سا لگا۔ میں نے ان کو ہلایا جلا یا تو جسم بے جان اور روح پرواز کر گئی تھی۔ روح بدن میں ہوتی تو جواب دیتے۔ ان کا منہ بند تھا، آنکھیں بھی بند تھیں بس تھوڑا سا خون، ناک سے نکلا تھا۔ جسم تو برف کی سل کی طرح ٹھنڈا پڑ چکا تھا اور ہونٹ نیلے پڑتے جارہے تھے۔ یا اللہ کیا ماجرا ہے ؟ میں کلیجہ تھام کر رہ گئی۔ ساس کو آواز دی۔ اتنے میں سسر صاحب بھی دکان سے آ گئے۔ انہوں نے بیٹے کی نبض دیکھی۔ آنکھوں کے پپوٹے پلٹ کر دیکھے اور بولے۔ انا للہ واناالہ راجعون۔ سسر کی زبانی یہ کلمات سن کر میں نے بین شروع کر دیئے اور کلائیوں کی چوڑیاں ان کے پلنگ کی پٹی سے توڑ ڈالیں۔ اپنی کلائیاں خون کر ڈالیں۔ آہ و بکا سن کر میرے دیور بھی دوڑے آئے۔ ساس نے اپنے لخت جگر کو بے جان پڑا دیکھا تو دل تھام کر بے ہوش ہو گئیں۔ وہ فقیر نی نہ تھی شاید اجل کا فرشتہ تھی، جو گدا گرنی کے روپ میں آئی تھی۔ وہ موت کو پڑیا میں باندھ کر لے آئی تھی اور میر اسہاگ لوٹ کر لے گئی۔ وقت کو گزرنے سے کون روک سکتا ہے دن مہینوں اور مہینے سالوں میں بدلتے گئے۔ میں نے بیوگی کی چادر اوڑھ کر عمر کاٹ دی۔ آج کاشف ماشااللہ جو ان ہے اور دو بچوں کا باپ ہے۔ ہے۔ ہوبہو اپنے باپ کی شکل پر ہے۔ میں تو اس کی صورت دیکھ کر جیتی ہوں۔ کتنے طویل برس بیت گئے مگر میں آج بھی یہ واقعہ بھولی نہیں۔ کبھی نہیں بھول سکتی کہ میں نے کیوں ایسی دعا مانگی تھی کہ اے خدا ! ہم میں سے کسی کو بھی بے شک اٹھا لے مگر کاشف کو ٹھیک کر دے۔ باپ کو بیٹے سے پیار تھا۔ اجل نے قربانی کے لئے انہیں ہی منتخب کر لیا۔ وہ بیٹے پر قربان ہو گئے۔ کہتے ہیں کہ موت کا کوئی بدلہ نہیں بن سکتا مگر وہ تو بیٹے کی زندگی کا بدلہ بن کر چلے گئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس دن میرے میاں فوت ہوئے اس دن کے بعد سے بھی پھر کاشف کو دورہ نہیں پڑا۔