Monday, April 28, 2025

Baat Ka Batanger

ہمارے پڑوس میں خالہ شبو رہا کرتی تھیں۔ شہاب ان کا بیٹا تھا۔ اس کی بازار میں کپڑے کی دکان تھی۔ ایک روز قریبی قصبہ سے کچھ خواتین کپڑا خریدنے آئیں جو تمام برقعوں میں ملبوس تھیں۔ انہی میں ایک لڑکی سائرہ بھی تھی جس نے خود کو چادر سے ڈھانپ رکھا تھا۔ سائرہ جب اپنے لئے جوڑا پسند کر رہی تھی، اس کے چہرے سے چادر سرک گئی اور شہاب نے اس کی ایک جھلک دیکھ لی۔ جھلک دیکھتے ہی وہ اس کا دیوانہ ہو گیا۔ دل میں ٹھان لی کہ شادی اسی سے کروں گا۔ اسے حاصل کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دوں گا۔ عورتیں حسب ضرورت کپڑے خرید کر چلی گئیں مگر شہاب کا چین وسکون ختم ہو گیا۔ اب اسے کسی پل چین نہ تھا۔ بار بار اسی نقاب پوش حسینہ کی جھلک نظروں میں جھلملا جاتی اور اس کا قرار لٹ جاتا تھا۔ کبھی کبھی عمر بھر کا ایک لمحہ، کسی کی کہی ہوئی ایک بات اور کسی مہوش کی ایک جھلک انسان کو مجنوں بنا دیتی ہے۔ اس کی زندگی کا مقصد و محور بدل جاتا ہے، دنیا کچھ کی کچھ ہو جاتی ہے۔ شہاب کا اب کاروبار میں دل نہ لگ رہا تھا، اس کا سارا دھیان اس لڑکی کی طرف تھا۔ دکان پر جو لڑکا ملازم تھا۔ وہ بھانپ گیا کہ مالک کو دل کا مرض لاحق ہو گیا ہے۔ اس نے باتوں باتوں میں چادر والی حسینہ کا ذکر چھیڑا تو شہاب کے کان کھڑے ہو گئے اور وہ اس گفتگو کو دلچسپی سے سنے لگا۔ دوسرے ملازم لڑکے کو ارشد بتا رہا تھا۔ وہ چادر والی لڑکی جس کا نام سائرہ ہے، میری بہن کے پڑوس میں رہتی ہے۔ یہ خالہ شبو کی بیٹی ہے۔ ماں سلائی کرتی ہے تبھی ان کا گزارہ ہے اور کوئی کفیل نہیں ہے۔ سائرہ کا والد فوت ہو چکا ہے۔ ۔ یہ معلومات شہاب کے لئے کسی خزانے سے کم نہ تھیں۔ اسے یہ جان کر بہت سکون ملا کہ جو حسینہ اس کے من کو بھائی تھی ، وہ ایک غریب بیوہ کی بیٹی تھی۔ اگر امیر ہوتی تو اسے حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا مگر غریب کی بیٹی کو اپنانے کے لئے کچھ زیادہ پاپڑ نہیں بیلنے پڑتے۔

کچھ دن سوچ بچار کے بعد موصوف شہاب نے ماں کو اعتماد میں لیا۔ حال دل بیان کر کے درخواست کی کہ جا کر سائرہ کی ماں سے رشتہ طلب کرو ماں نے جواب دیا تم شادی شدہ ہو اور بیوی تمہاری آٹھ برس سے روٹھ کر میکے بیٹھی ہے. دوسری شادی کسی کم سن لڑکی سے کرنے کے بجائے اپنی بیوی کو منا کر لے آؤ، اس میں اللہ کی خوشنودی اور تمہاری بہتری ہے۔ایسے دلائل سننے کو وہ قطعی تیار نہ تھا۔ ماں سے الجھنے لگا تبھی ماں کو اندازہ ہو گیا کہ بیٹا پور پور سائرہ کے حسن کا اسیر ہو گیا ہے۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا ، اسے سمجھانا بے کار ہے۔ ابھی وہ اسی سوچ میں تھی کیا کرے، کس طرح بیٹے کے دل کا قرار ڈھونڈ لائے، بہو کے میکے سے چند بزرگ آئے اور اصرار کیا کہ آپ لوگ بہو کو گھر لاؤ اور اسے بساؤ ورنہ طلاق دے دو تا کہ سمن کے والدین اس کی شادی کسی اور جگہ کر دیں۔ شہاب کی بیوی ماں کی رشتے دار تھی اور یہ شادی اس نے والدہ کی پسند سے کی تھی تاہم بیوی سے پہلے روز سے نہ بنی تھی، وہ اسے بسانا نہ چاہتا تھا، بات بات پر پخ پخ ہوتی اور وہ بیوی پر ہاتھ اٹھاتا تھا، پھر سمن تنگ آ کر میکے چلی گئی۔ کئی برس گزر گئے۔ وہ اسے لینے نہ گیا۔ سمن کے والدین شروع میں صلح کی کوشش کرتے رہے اور اب وہ کہتے تھے، بسانا نہیں ہے تو طلاق دے دو، ہماری بیٹی کی زندگی اس طرح برباد نہ کرو۔ شہاب نے ان پیغامات کا جواب نہ دیا تو وہ لوگ فیصلہ کن بات کرنے آگئے۔ اب شہاب کو ہر صورت فیصلہ کرنا تھا، سو اس نے ٹھان لی کہ اگر سائرہ کا رشتہ مل گیا تو پہلی بیوی کو آزاد کر دے گا۔ ماں نے بیٹے کی ضد مان لی اور ساتھ والے قصبے رشتہ طلب کرنے چلی گئی۔ اس نے لڑکی کے گھر کی غربت دیکھتے ہوئے ان کو پچاس ہزار کی پیش کش کر دی۔

گاؤں میں رواج تھا لڑکا امیر ہواور لڑکی کا تعلق غریب گھرانے سے ہو تو شادی کے اخراجات کے نام پر لڑکے والے لڑکی کے والدین کو معقول رقم ادا کرتے تھے۔ یوں رشتے کے بدلے غریبوں کی مالی معاونت ہو جاتی تھی۔ یہاں بھی یہی رسم کام آگئی۔ سائرہ کی ماں نے رقم کے بدلے بیٹی کا رشتہ دینے پر آمادگی ظاہر کردی اور شہاب کی جھولی مرادوں کے پھولوں سے بھر گئی۔ اس نے پہلی بیوی کو آزاد کر دیا۔ دوسرے گاؤں جا کر سائرہ کو بیاہ لانے کا اہتمام کر لیا۔ وہ اپنی کامیابی پر بہت خوش تھا۔ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ اتنی جلد اور آسانی سے اسے یہ من پسند نئی دلہن حاصل ہو جائے گی۔ اب ویران بے آب و گیاہ زندگی ایک حسین خواب کی مانند گزرنے لگی قیمتی ملبوسات، زیور اور دیگر سامان آرائش سے سائرہ کے سامنے ڈھیر کر دیئے کیونکہ اس کی کپڑے کی بڑی دکان تھی اور مال و دولت کی کمی نہ تھی۔ سائرہ بھی اپنے نصیب کھل جانے پر شاداں تھی۔ سہیلیاں اس کی پرتعیش زندگی پر رشک کرتی تھیں۔ ایک دوسرے سے حسرت سے کہتی تھیں، نصیب ہو تو ایسا ۔ شابی بیوی کو دل و جان سے چاہتا تھا۔ یہ بات سارے گاؤں میں مشہور تھی کہ سائرہ کو مجنوں مل گیا ہے اور شہاب نے جب سے من چاہی دلہن پالی ہے، اس کی خوشیوں کا ٹھکانہ نہیں ہے۔ وہ پہلے سے کہیں زیادہ خوش اخلاق ہو گیا ہے۔ خوش اخلاقی اور کاروبار میں خوشحالی کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ شہاب گاہکوں کے ساتھ حلیمی اور خوش اخلاقی سے پیش آنے لگا۔ کاروبار میں اضافہ ہوا اور جو مندی چل رہی تھی ، وہ نہ رہی۔ کاروبار دن دونی رات چوگنی ترقی کرنے لگا۔ سبھی کے منہ پر ایک ہی بات تھی کہ سائرہ کے آنے سے شہاب کی خوشحالی میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات شہاب نے بھی ذہن نشین کر لی اور وہ بیوی کی چاہت میں ڈوبا ہوا تھا۔ لوگ اس کی پہلی بیوی کو یاد کرتے تو اسے بدنصیب کا لقب دیتے اور دوسری کو خوش نصیب کہتے ۔ ظاہر ہے کہ جس کو پیا چاہے وہی سہاگن۔

سبھی دن ایک سے نہیں ہوتے ، کہتے ہیں کہ کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں کہاوتیں درست ہوتی ہیں۔ ایک روز وہ ہو گیا جس کا وہم گمان بھی نہ تھا۔ ایک معمولی سے واقعے نے چین سکون غارت اور آباد گھر کو تہس نہس کر ڈالا- سائرہ اپنی نند کے کنگھی کر کے بال سنوار رہی تھی اور ساس چارپائی پر بیٹھی چاول چن رہی تھی، اچانک ایک صدا سنائی دی۔ بندے، ہار، چوڑیاں، پراندے لے لو… پازیب اور گرگا بیاں خرید لو۔ یہ چوڑی والا کبھی کبھی ادھر پھیری لگاتا تھا۔ قصبے سے آتا، خاص طور پر جب کسی گھر میں شادی بیاہ کی تقریب نزدیک ہوتی یا عید کا موقع ہوتا، اسے خبر ہوتی کہ اب قصبے والوں کو اس کی ضرورت ہے۔ گھروں میں سہاگنیں، لڑ کیاں بالیاں بھی اس کی صدا کی منتظر رہا کرتی تھیں کیونکہ اس کے پاس جو مال ہوتا وہ یہاں نہیں ملتا تھا، شہر سے خواتین کی دل پسند اشیاء خرید کر لاتا اور گاؤں و قصبے میں فروخت کیا کرتا۔ جہاں سائرہ رہتی تھی۔ اول تو بازار کوئی خاص نہ تھا۔ کچھ دکانیں تھیں جن میں یہ مال مطلوبہ دستیاب نہ ہوتا تھا لہذا چوڑی والے اپنے ٹوکرے میں یہ سامان بھر کر سر پر رکھے گاؤں گاؤں صدا لگاتے اور دروازے پر پردہ نشین خواتین پسند کر کے خرید لیا کرتی تھیں۔ اس روز بھی جب مٹھو کی صدا کانوں سے ٹکرائی۔ بندے ہار چوڑیاں لے لو پراندے لے لو گلابی گرگابی لے لو، تو سائرہ کی نند ریحانہ کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ وہ دوڑتی ہوئی دروازے پر گئی اور مٹھو کو پکارنے لگی۔ وہ ایسی ہی پکار کا منتظر تھا۔ فوراً آکر دروازے پر بیٹھ گیا اور ٹوکرا ڈیوڑھی میں رکھ دیا جہاں گھر کی خواتین اپنی من پسند چیزوں کا انتخاب کر سکتی تھیں۔ دوسری نند بتول نے ٹوکرے پر نظر ڈالی اور پکارنے لگی ۔ بھابی سائرہ ادھر آنا۔ دیکھو و کیسی شاندارچوڑیاں اور گرگابیاں ہیں۔ آؤ مجھے بتاؤ کونسی لوں- سائرہ نے ساس کی طرف دیکھا جیسے اجازت طلب کر رہی ہو۔ وہ بولی ہاں ہاں جاؤ دیکھو اور تم بھی اپنے لئے پسند کرلو۔ یہ چوڑی والا کبھی کبھار ہی پھیری لگاتا ہے۔ جانے پھر کب آئے۔ عید قریب ہے جو پسند آئے لے لو۔ نند، بھاوج ڈیوڑھی میں بیٹھ کر ٹوکرے سے اپنی پسندیدہ چیزیں اٹھا اٹھا کر ایک جانب ڈھیر کرتی جاتی تھیں۔ انہوں نے دو جوڑے گرگا بیاں ، ہار، بندے اور چوڑیاں پسند کر لیں۔ پھر بتول نے کہا لالہ ہم کو چوڑیاں پہنا دو۔ اس نے کانچ کی درجن بھر چوڑیاں دونوں کلائیوں میں پہن لیں۔ پھر وہ اٹھلا کر سائرہ سے پوچھنے لگی۔ بھابی کیسی لگ رہی ہیں- چوڑیاں؟ بہت اچھی ، جواب ملا تب وہ بولی تو آپ بھی پہن لیں بھابی ،ساس نے کہا ہاں ہاں دلہن تمہاری پہلی عید ہے، دونوں کلائیوں میں بھر کر پہنو-

ساس کی اجازت پا کر اس نے خوبصورت لال رنگ کی چوڑیوں کا انتخاب کیا اور مٹھو سے بولی یہ پہنا دو- اس نے کلائیاں آگے کر دیں اور مٹھو نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر چوڑیاں چڑھانا شروع کردیں۔ اتفاق سے شہاب اسی وقت گھر پہنچ گیا۔ اس نے جو بیوی کا ہاتھ غیر مرد کے ہاتھ میں پایا تو اس کو بہت برا لگا مٹھو کو گالیاں دیں اوراس کا ٹوکرا اٹھا کر ڈیوڑھی سے باہر پھینک دیا۔ پھر سائرہ کو درشتی سے کھینچ کر گھر کے اندر لے آیا۔ اس غیر متوقع ردعمل پر وہ گھبرا گئی۔ شہاب دھاڑنے لگا۔ کیا یہ تیرا یار لگتا تھا۔ کیوں تو نے اپنا ہاتھ ایک غیر مرد کے ہاتھ میں دیا؟ اس کے ساتھ ہی ایک زناٹے دار تھپڑر اس کے منہ پر پڑا کہ آنکھوں کے آگے تارے ناچنے لگے۔ بول کیوں تو نے غیر مرد کو اپنے ہاتھ کو چھونے دیا بول وہ کیا بولتی جبکہ یہاں کی کچھ عورتیں چوڑی والے سے چوڑیاں پہن لیتی تھیں ، خود اس کی بہن نے بھی تھوڑی دیر پہلے پہنی تھیں۔ جب بار بار شہاب نے ایک ہی بات غصے میں دہرائی کیا لگتا تھا وہ کیوں ہاتھ پکڑایا اسے؟ یارلگتا تھا؟ تو سائرہ کو بھی غصہ آگیا۔ وہ چلا پڑی ۔ ہاں یار لگتا تھا، ملنے آیا تھا مجھ سے چوڑی والا بن کر۔ یہ سننا تھا کہ شہاب غصے سے پاگل ہو گیا۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، بیوی کو بالوں سے پکڑ لیا اور اس قدر مارا کہ وہ بے ہوش ہوگئی، تب وہ منہ سے جھاگ اڑاتا گھر سے باہر نکل گیا، ماں اور بہن کی بھی ایک نہ سنی۔ دو دن بعد جب سائرہ کی حالت کچھ بہتر ہوئی، ساس نے کہا۔ بیٹی شہاب تجھ سے بہت محبت کرتا ہے تبھی وہ تیرے ہاتھ کو کسی غیر مرد کے ہاتھ میں دیکھ کر برداشت نہ کر سکا اور غیرت میں ایسے کلمات اس کے منہ سے نکلے ہیں تو اس کی باتوں کو دل پر نہ لے، بہتر ہے کہ دو چار روز کے لئے میکے چلی جا جب اس کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا، تجھے لینے آجائے گا۔ یوں ساس کے کہنے پر وہ میکے آگئی۔ دو روز بعد شہاب گھر آیا اور ماں سے بیوی کا پوچھا۔ ماں نے کہا میکے گئی ہے۔ یہ نہ بتایا کہ میں نے بھیجا ہے۔ وہ لال بگولا ہوا کہ میری اجازت کے بغیر کیوں میکے چلی گئی اس نے گھر سے قدم نکالا کیسے؟ میکے جانا ہی تھا میں خود اسے چھوڑ آتا۔ اسی وقت وہ سائرہ کے گاؤں پہنچا۔ سائرہ نے سنا کہ شہاب آیا ہے، غصے میں تو تھی فوراً برابر والے گھر چلی گئی ۔ سائرہ کی ماں کو بھی غصہ تھا۔ تبھی اس نے داماد کو برا بھلا کہا کہ تم نے ناحق میری بیٹی کو اتنا مارا حالانکہ وہ بد چلن نہیں ہے اور نہ کسی سے اس کا واسطہ ہے، پھر کیوں تم نے اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہے؟ جو ہوا سو ہوا. اب سائرہ کو میرے ساتھ بھیجو، میں لینے آیا ہوں۔ ایسے تو ہر گز نہ بھیجوں گی۔ پہلے گاؤں کے چند بزرگوں کو لاؤ، وہ ضمانت دیں کہ آئندہ تم سائرہ پر ہاتھ نہیں اٹھاؤ گے تب بھیجوں گی۔ انکار سن کر وہ آپے سے باہر ہو گیا اور ساس کو برا بھلا کہنے لگا۔ شور سن کر پاس پڑوس کے لوگ آگئے۔ انہوں نے سائرہ کی ماں کی طرفداری کی جس پر داماد نے اپنی سخت سیکی محسوس کی کیونکہ اس محلے میں اس بیوہ عورت کی سبھی عزت کرتے تھے۔ وہ شہاب کے منہ سے بد کلمات سن کر خفا ہونے لگے۔ انہوں نے سمجھانا چاہا مگر اس بندے نے اس امر کو بھی اہانت جانا … محلے والے شہاب کو مجبور کرنے لگے کہ اپنے بزرگوں کو لاؤ پھر سائرہ کو تمہارے حوالے کریں گے۔

شباب تلملا کر رہ گیا۔ وہ خالی ہاتھ لوٹ آیا اور گاؤں آکر اپنے چند دوستوں کے پاس گیا۔ صورت حال بیان کی اور ان سے مشورہ طلب کیا۔ کچھ بدخواہ دوستوں نے جو تماش بین قسم کے تھے، اس کو اکسایا کہ تمہاری ساس اور اس کے محلے داروں نے تمہاری بے عزتی کی ہے، غیرت ہے تو بدلہ لو۔ ایک دوست نے کہا جب کسی عورت سے کسی غیر مرد سے تعلقات ہوں تبھی وہ میکے میں ٹک جاتی ہے اور شوہر لینے آئے تو چھپ جاتی ہے۔ پتہ کرو کہیں تمہاری بیوی کے کسی غیر سے مراسم تو نہیں ہیں؟ غرض ایسے شک و شبہات دل میں جاگزین کیے اور شہاب کا دماغ گھوم گیا۔ دوستوں نے صلاح دی کہ بیوی شوہر کے ساتھ واپس گھر آنے سے انکاری ہو تو اس کا بندوبست کر دینا چاہئے۔ یوں شہاب کو ساتھ لیا اور رات کی تاریکی میں سائرہ کی ماں کے گھر پہنچ گئے۔ وہ ان کے گھر کی دیواریں پھلانگ کر صحن میں آگئے سردیوں کے دن تھے۔ ماں بیٹی اندرسو رہی تھیں۔ آہٹ سے ماں کی نیند ٹوٹ گئی۔ بیٹی کے سرہانے چار مردوں کو پا کر چیخ نکل گئی۔ انہوں نے اگے بڑھ کرماں کا گلا دبا دیا اور ہمیشہ کے لئے اسے خاموش کر دیا۔ یہ منظر دیکھ کر سائرہ بے ہوش ہو گئی۔ انہوں نے اسے بے ہوشی کے عالم میں اٹھا لیا اور کھیتوں سے دور ویرانے میں لے آئے۔ شہاب نے دوستوں سے دریافت کیا۔ اب کیا کرنا ہے۔ وہ کہنے لگے جو غیرت مند کرتے ہیں وہی کرنا ہے۔ یہ بدنام ہوگئی ہے۔ بیوی بنا کر رکھو گے تو لوگ تم کو بے غیرت کہیں گے اور جینے نہ دیں گے یہ کہہ کر وہ جو کدال ساتھ لائے تھے، اس سے گڑھا کھودنے لگے۔ شہاب کا دماغ ماؤف تھا۔ اس کی کچھ سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے صحیح ہو رہا ہے یا غلط؟ اتنے میں اس کے تین ساتھیوں نے گڑھا کھود لیا۔ بے ہوش سائرہ کو اس میں ڈال کر اوپر سے مٹی بھرنے لگے اور منٹوں میں گڑھے کو پُر کر کے وہ شہاب کو ساتھ لے کر واپس تھے میں لوٹ آئے۔ بد نصیب لڑکی بغیر کسی قصور ایک معمولی بات پر زنده در گور کردی گئی اور گاؤں کے جاہلوں کے نزدیک یہ ایک غیرت مندانہ اور قابل فخر کارنامہ تھا جو انہوں نے آنا فانا انجام دیا تھا۔ ادھر جب سائرہ کی ماں کے قتل کی خبر گاؤں والوں کو ہوئی، گھر کے دروازے پر اکٹھے ہو گئے۔ محلے داروں نے کہا ۔ یہ کام صرف اور صرف شہاب کا ہے، فوراً پولیس کو اطلاع کی اور وہ شہاب کو گرفتار کر کے لے گئی۔

جو کچھ ہوا ۔ ماں کے روبرو ہوا لہذا وہ بہت غمزدہ تھی۔ بیٹے سے جیل میں ملاقات کرنے پہنچی اور اسے برا بھلا کہنے لگی کہ یہ تو نے کیا غضب کیا ساس کو ناحق مار ڈالا اور بیوی کو غائب کرا دیا۔ آخر تو نے ایسا ان کے کس جرم پر کیا؟ ماں، میں نے عجلت میں خود بیوی کو بدنام کر ڈالا تھا۔ کسی غیر مرد کے ہاتھوں میں اس نے اپنا ہاتھ دیا تھا۔ میں اس منظر کو برداشت نہ کر سکا۔ سب لوگوں نے یہ بات میرے منہ سے سن لی ہے تو اب میں کیسے ان کی زبانیں بند کر سکتا ہوں یہ لوگ طرح طرح کی غلیظ کہانیاں گھڑ چکے ہیں۔ ہر شخص گاؤں اور قصبے کا برملا کہہ رہا ہے کہ شہاب کی بیوی کا چلن درست نہ تھا، وہ بد کردار عورت تھی اور اس کے چوڑی والے سے تعلقات تھے۔ خود شوہر نے رنگے ہاتھوں پکڑا ہے۔ ایسی عورت کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں، غیرت کا تقاضا یہی ہے کہ اسے ماردیا جائے۔۔ ایسی باتیں سن کر میں اصل قصہ کسی کو نہیں بتا سکا۔ بتاؤں بھی تو لوگ کب یقین کریں گے۔ وہ مجھے ہی جھوٹا اور بے غیرت کہیں گے تبھی مجھے یہ قدم مجبوراً اٹھانا پڑا اور نہ میں ساس کو مارنا چاہتا تھا اور نہ سائرہ کو یہ کام مجھ سے میرے دوستوں نے کرایا ہے۔ کیا تم نے سائرہ کو بھی ماردیا ہے؟ ہاں ہاں میرے دوستوں نے اس کو زندہ قبر میں دفن کر دیا میری آنکھوں کے سامنے اور میں انہیں روک نہ سکا کیونکہ وہ مجھے بے غیرت کہتے اور گاؤں میں، میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتا۔ یہ سن کر ماں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی خوف کے مارے اس نے یہ بھی نہ بتایا کہ تمہاری بہن بتول نے بھی اسی مرد سے چوڑیاں پہنی تھیں۔ ساری حقیقت کا ماں کو پتہ تھا، اس میں بہو کا کوئی دوش نہ تھا مگر وہ گاؤں والوں کی زبانوں کو بند نہ کر سکتی تھی۔ بیٹے کی جان بھی بچانا لازم تھا ، پس اسے بیٹے کی ہاں میں ہاں ملانی پڑی اور ہر ایک کو یہی کہنا پڑا کہ اس کی بہو کے اس شخص سے ناجائز مراسم تھے جو چوڑی والا بن کر ان کے در پر آیا تھا۔ شہاب بیٹے نے دونوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تو غیرت کی وجہ سے سائرہ کا خون کردیا۔

چند سال جیل میں سزا کاٹ کروہ رہا ہو گیا مگر اس کے بعد کسی نے اس شخص کو کبھی مسکراتے نہیں دیکھا۔ اس کو قلق تھا کہ بیوی اور ساس کے ساتھ اس نے ایک اور ہستی کا بھی خون کیا ہے اور وہ ہستی اس کی بیوی کے شکم میں پرورش پا رہی تھی، اپنے بچے کا بھی وہ قاتل تھا۔ یہ خلش اب کسی پہلو اسے چین نہیں لینے دیتی تھی۔ رہائی کے بعد کچھ دن دکان پر بیٹھا. دکان غیر موجودگی میں ملازم چلا رہے تھے۔ انہوں نے کافی خسارہ دیا۔ اس خسارے کو شہاب پورا نہیں کر سکتا تھا۔ اس کا دماغ الجھا رہتا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ دکان بند ہوگئی اور وہ گھر میں بیٹھ گیا۔ سارا دن گھر پڑا رہتا اور سوچتا رہتا، اسے اپنے جاہل دوستوں سے بھی نفرت ہوگئی۔ وہ ملنے آتے تو کہلوا دیتا کہ گھر پر نہیں ہے۔ رفتہ رفتہ انہوں نے آنا چھوڑ دیا۔ تنہائی شہاب کا مقدر بن گئی، اس کو پل پل ڈسنے لگی۔ اس شخص کو خبر تھی کہ یہ المناک واقعہ محض اس کی طبیعت کے ابال سے وقوع پذیر ہوا۔ وہ ایک غصہ ور، جلد باز قسم کا آدمی تھا جس سے محبت کرتا ٹوٹ کر کرتا تھا اور جب بدگمان ہوتا تو پھر حقائق کی پروا کئے بغیر اس پر پل پڑتا تھا۔ شخصیت کی اس خامی نے گھر اجاڑا اور اس کے نام تین خون لکھے گئے۔ اب وہ راتوں کو جاگتا تھا۔ سائرہ کو یاد کر کے روتا اور پچھتاتا تھا مگر گیا وقت ہاتھ آتا نہیں اور پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔

سوچ سوچ کر جاگ جاگ کر وہ دیوانہ ہو رہا۔ لوگ کہتے تھے، اس کا دماغ چل گیا ہے، دنوں نہاتا نہیں ہے، ہفتوں کپڑے نہیں بدلتا ہے۔ کھانا پینا، نیند آرام سب بھلا دیا ہے۔ ایسے میں آنکھیں وحشت سے ابلی پڑتی تھیں، غصہ بے پناہ آتا، بلا وجہ لڑنے اور جھگڑنے لگتا۔ گاؤں والے سب ہی کہتے تھے، تین قتل کئے ہیں تبھی پاگل ہو گیا ہے، اس سے بچو کبھی خون سر چڑھ گیا تو ہم کو ہی نہ ماردے۔ کسی کے بارے ایسے خیالات پختہ ہو جائیں تب لوگ اس سے دور ہی رہتے ہیں۔ وہ شخص معتوب ٹھہرتا ہے تو اور غصیلا اور پاگل ہو جاتا ہے، لوگوں سے گھبراتا ہے، ویرانے میں سکون آتا ہے۔ شہاب نے بھی ویرانوں میں پناہ لینا چاہی۔ وہ مستقل قبرستان میں بیٹھنے لگا۔ جب لڑکے وہاں گزرتے ، ایک میلے کچیلے شخص کو کسی نہ کسی قبر کے پاس بڑبڑاتے دیکھتے تو پاگل پاگل کہہ کر پتھر مارتے اور دوڑ جاتے شہاب ان کو گالیاں دیتا- جواب میں پتھر مارتا یا ان کے پیچھے دوڑنے لگتا۔ وہ پاگل نہ تھا، پچھتاوؤں کا شکار غمزدہ تھا۔ کوئی غمگسار نہ ملا اور احساس جرم نے اس کو نفسیاتی مریض بنا دیا، تب گاؤں کے لوگوں نے اعلان کر دیا کہ شہاب پاگل ہے- کوئی قاتل ہو، وہ معاشرے میں سما جاتا ہے مگر جس کو سب پاگل قرار دے دیں، وہ معاشرے میں نہیں رہ سکتا۔ لوگ اسے معاشرے سے نکال دیتے ہیں۔ شہاب کا انجام یہ ہوا کہ ایک روز رات کے وقت دیوانگی میں نہر میں چھلانگ لگا کر اپنا خاتمہ کر دیا مگر گاؤں والوں پر یہ صداقت واضح ہوگئی کہ کبھی انسان کو بات کا بتنگر نہیں بنانا چاہئے اور نہ کسی معاملے میں کسی کوقتل پر اکسانا چاہئے۔

Latest Posts

Related POSTS