ہمارے بھائی مںیب کو زریں پسند آگئی تھی، جسے انہوں نے ایک بار کسی شادی میں دیکھا تھا۔ وہ امی کی دور کی ایک کزن کی بیٹی تھی اور اس شادی میں یہ لوگ بھی مدعو تھے۔ کافی عرصے سے امی، بیٹے کے پیچھے پڑی ہوئی تھیں کہ تمہاری عمر پینتیس سال ہوگئی ہے، شادی کر لو، کیا بوڑھے ہوکر کرو گے ؟ جب کوئی لڑکی پسند آئے گی، کرلوں گا۔ ان کا ہمیشہ یہی جواب ہوا تھا۔ والدہ جنید کے لئے عرصہ پانچ سال سے تندہی سے لڑکیاں دیکھ رہی تھیں۔ خاندان اور خاندان سے باہر لیکن میرے بھائی کو کوئی لڑکی پسند نہ آتی تھی۔ اب امی نے بھائی جان کی شادی کا عندیہ یا تو سب نے منع کیا کہ کیوں ایسی آرام طلب ہو گھر لانا چاہتی ہیں جو آپ کو ناکوں چنے چبوا دے گی تمام خاندان میں مشہور تھا کہ اتنی سست اور کامل ہے مل کر پانی نہیں دیتی ان بھر سوتی رہتی ہے یا پھر ٹی وی دیکھتی رہتی ہے۔ گھر کے کام کو ہاتھ لگانا تو ہین جانتی ہے۔ تنک مزاج اور بد زبان الگ ہے۔ میری ماں نے خاندان والوں کی باتوں پر کان نہ دھرے کیونکہ انہیں بیٹے کی خوشی عزیز تھی۔ بھائی جان سے شادی ہوگئی۔ پتا چلا کہ ان خصوصیات کے علاوہ بھی بہت سی اور خصوصیات ہیں جو گھر والوں کی نیندیں اجاڑنے کے لئے کافی ہیں۔ مثلا دن میں بھی انہیں بھوت نظر آتے تھے۔ ہر وقت یہ اندیشہ کووہ کہیں بیمار نہ ہو جائیں ۔ ساس پر شک ، جادو ٹونا کرنے کا شبہہ ببھی بھابھی صاحبہ کو ہے – دوسری طرف پڑوسیوں سے اس قدر اپنائیت کہ گھر کی وہ باتیں بھی جو کسی کو نہیں بتائی جاتیں، پڑوسنوں سے جا کر کہنا لازمی ہے اور جواز یہ کہ ان سے نہ کہوں تو کس سے کیوں ؟ امی سر پکڑ کر بیٹھ گئیں کہ لوگ سہی کہتے تھے کہ زریں کو بہو بنا کر لا رہی ہو اچھی ترہان سوچ سمجھ لو. امی کا بھی کیا قصور ۔ یہ کیا دھرا تو سب ہمارے بھائی صاحب کا تھا کہ انہیں ایک نظر میں عشق ہو گیا تھا۔ کہتے ہیں شرفا غلطی کرتے نہیں۔ اگر کرتے ہیں تو نبھاتے ہیں۔ ہمیں بھی نباہ کرنا تھا سو لب سی لئے ۔ امی نے گھر سنبھال رکھا تھا اور میں ان کا دست و بازو تھی ۔ خیال تھا کہ بہو آئے گی تو گھر سنبھال لے گی، میں پڑھائی پر زیادہ توجہ دے سکوں گی اور ماں کو آرام ملے گا پر الٹا دن رات کی بے سکونی ہو گئی۔ بھابھی صاحبہ دن بھر سوتی تھیں اور رات کو ٹی وی دیکھتی رہتیں – جھوٹے برتن ان کے کمرے میں جمع رہتے۔ بھائی جان توجہ دلاتے تو رونے بیٹھ جاتیں خدا کے لئے مجھے سکون سے جینے دو ۔ امی کبھی کہ ڈالتیں ۔ بیٹا تک سوتے رہنا ٹھیک نہیں ہے رشتے دار عورتیں تمہیں دیکھنے اور تم سے ملنے آ تی ہیں۔ بھابھی رونے لگیں کہ آپ مجھے ہروقت ٹینشن دیتی ہیں، میرا جی چاہے گا، اٹھوں گی۔ جب تک دل چاہے گا، سوتی رہوں گی۔ زندگی اسی کا نام ہے۔ اپنی مرضی سے سونا، اپنی مرضی سے جاگنا اور جو جی چاہےکروں گی کیونکہ میں انسان ہوں یوں وہ تمام گھر کی ذمہداریوں سے بری ہو گئیں- میری امی سادہ لوح تھیں ایسا تھا کہ جیسے منہ میں زبان نہیں ہے بڑے سے بڑا صدمہ سہہ کر بھی اف نہیں کرتیں تھیں ۔ بہو عیش کرتی گئی، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے ایک بیٹی سے نواز دیا۔ زمانے بعد اس گھر میں خوشی آئی تھی۔ ہم سب خوشی سے دیوانے ہو رہے تھے وہ گھر بھر کی جان تھی۔ بھائی جنید تو اسے دیکھ دیکھ کر جیتے تھے اور امی پیار سے میری گڑیا پکارتی تھیں اور بھابی کہتیں۔ چاند ہے میری زندگی کا وقت تیزی سے گزرنے لگا۔ گویا بڑی ہونے گئی ۔ وہ زیادہ تر اسی کے پاس رہتی پرشکایت کرتیںیہ مجھے سکون سے سونے بھی نہیں دیتی پر وہ یہ نہیں سمجھتی تھیں کہ بچی کو سکون صرف ماں کی گود میں ہے آتا ہے – یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب گڑیا چار برس کی تھی کہ ہمارے پڑوس میں نئے کرائے دار آگئے۔ برابر والا مکان دو سال سے خالی پڑا تھا۔ پڑوس آباد ہوگیا تو ہم نے سکھ کا سانس لیا کہ ویران گھر بھی کھٹکتا تھا۔ آنے والا یہ کنبہ میاں، بیوی پر مشتمل تھا۔ مرد کا نام رضا اور عورت نے اپنا نام خدیجہ بتایا تھا۔ بے اولاد ہونے کی وجہ سے بجھی بجھی رہتی۔ والدہ سے پہلی بار ملی تو ان کو اس عورت کی تنہائی کا احساس ہو گیا۔ اس کا کوئی بچہ نہیں ہے، شوہر صبح کا گیا شام ڈھلے لوٹتا ہے، سارا دن گھر میں اکیلی ہوتی ہے۔ محلے دار خواتین سے تذکرہ کیا تو سب اس کے پاس جانے لگیں۔ خدیجہ خالہ جلد ہم سے گھل مل گئیں ۔ جو پکاتیں ہمارے گھر دی جاتیں کہ بتائیں کیسا پکایا ہے ۔ مجھے تو ہمیشہ بھرے گھر میں رہنے کی عادت تھی۔ اب اکیلا پن کاٹتا ہے کیا کروں؟ والدہ جواب دیتیں۔ ہمیں اپنے پاس سجھو، ایک دیوار ہی تو گھر کے درمیان ہے ۔ جب چاہو آجایا کرو۔ یہاں اگر آپ لوگوں کا آسرا نہ ہوتا تو میرا تو دل نہ لگتا ۔ اللہ جانے وہ یہ کیوں کہتی تھی ۔ ہم نے کبھی اس بات پر غور نہ کیا، البتہ جب بھی وہ ہماری گڑیا کو دیکھتی تھی آنکھوں میںحسرت اور نمی تیرنے لگتی ۔ یہ بات امی جان اور بھائی نے بھی نوٹ کی تھی۔ ایک روز وہ آئی تو گڑیا کے لئے خوبصورت سی گڑیا اور چاکلیٹ لائی۔ گڑیا خوشی سے کھل گئی، تبھی بھابی نے کہا۔ زبیدہ خالہ آپ کو ہماری بیٹی اچھی لگتی ہے تو بے شک اسے اپنے گھر لے جایا کریں۔ میں جان گئی کہ بھائی چاہتی ہیں کچھ وقت گڑیا ان کے پا س رہے اور وہ سو سکیں۔ میں نے ایم اے میں داخلہ لے لیا تھا اور امی جان کی طبیعت کچھ ناساز ہو گئی تھی گڑیا کے سب کم بھابھی چاہتیں کوئی اور کر دے گڑیا پانچ سال کی ہو گئی تھی امی کو فکر تھی اس کو اسکول داخل کروا دو پر بھابھی یہ کم بھی خود کرنے کو تیار نہ تھیں اس وقت بھی خالہ خدیجہ ہی کام آئیں- گڑیااسکول میں داخل ہوگئی۔ وہ اسے اسکول لینے جاتیں۔ کہتیں کہ میرا جی بہل جاتا ہے۔ کہیں آتی جاتی نہیں یوں روز واک ” ہوجاتی ہے ۔ گڑیا کو اسکول پہنچانا اور لانا اچھا لگتا ہے۔ گڑیا بھی خالہ سے ہل گئی تھی۔ ان کے بغیر نہ رہتی تھی۔ اسکول سے گھر آکر بمشکل کھانا کھاتی اور یونیفارم تبدیل کر کے دوڑتی ہوئی برابر کے گھر میں چلی جاتی۔ امی گڑیا کو روکتیں کہ کبھی کچھ دیر تو اپنے گھر میں بھی رہو، تبھی بھابی انہیں ٹوک دیتیں۔ جانے دیجئے خالہ خدیجہ بچاری بے اولاد ہیں۔ ان کی پیاسی ممتا کو ہماری گڑیا سے سکون ملتا ہے۔ یہ جاتی ہے تو ان کا جی بہل جاتا ہے۔ وہ پردیسی ہیں، کیوں گڑیا کو روکتی ہیں آپ ان کے گھر جانے سے! امی کو بھی خالہ سے ہمدردی تھی کہتی تھیں کہ لڑکی ہے اسے اپنے گھر سے باہر رہنے کی عادت پڑ جائے گی۔ دن میں ایک بار ایک آدھ گھنٹے کو چلی جایا کرے لیکن صبح سے شام تک کسی کے گھر رہنا اچھی بات نہیں ہے۔
والدہ کے روکنے پر بھابھی بہت برا مانیں۔ پڑوسن کو بتا دیا تاکہ اس کا دل بھی ساس سے برا ہوجائے۔ مجھے بھائی کی یہ روش ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ اپنی آسانی کی وجہ سے اپنا بوجھ دوسرے پر ڈال کرمزے سے آزاد ہو جانا۔ بھابھی سارا دن ٹی وی دیکھتیں یا سہیلیوں کے گھر چلی جاتیں ۔ گڑیا ان پر ایک بوجھ تھی۔ وہ روز اول سے ہی کسی قسم کی ذمہداری گڑیا کی قبول کرنے پر تیار نہیں تھیں۔ میرا دل کڑھتا تھا لیکن چپ رہتی۔ اپنی تعلیم مکمل کرنی تھی۔ گڑیا کی پوری ذمے داری نہیں سنبھال سکتی تھی۔ بھائی جان صبح دفتر جاتے، شام کو آتے تھے ۔ امی چلنے سے معذور تھیں۔ لے دے کر خالہ خدیجہ رہ جاتی تھیں جو ہماری خیر خبر لینے آجاتیں۔ وہ اب ہم میں اس قدر گھل مل گئی تھیں کہ گھر کا فرد لگتی تھیں۔ صبح سویرے گڑیا کو ناشتہ کرانا پھر تیار کرا کے اسکول لے جانا، اسکول سے واپس لے آنا۔ امی کے لئے کچن میں کھانا بنا دینا۔ امی سخت بیمار پڑگئیں۔ میرے سالانہ پیپر ہورہے تھے، تب بھی ہماری بے حس سنگدل بھابی ٹس سے مس نہ ہوئیں۔ گرمیوں کی چھٹیاں آ گئیں گڑیا چاہتی تھی کہ ماں توجہ دے مگر بھابھی کو کوئی لگاؤ نہ تھا تب وہ بھاگ بھاگ کر خدیجہ خالہ کے گھر چلی جاتی اورکہتی کہ مجھے گھر نہیں جانا رات کو میں نے خالہ کے پاس رہنا ہے ! وہ کہتیں۔ کیوں اسے رلاتی ہو، فکر مت کرو، میں کھانا کھلا دوں گی، تھوڑی دیر بعد لے آئوں گی ۔ غرض ایسا روز ہونے لگا۔ ہم نے ذہنی طور پر قبول کر لیا کہ ہماری گڑیا خالہ جی کے پاس زیادہ خوش رہتی ہے اور ان کا دل بھی گڑیا سے بہلا رہتا ہے، پھر کیوں زبردستی گڑیا کو لائیں۔ رات کو ان کا شوہر گھر آتا تو وہ بچی کو خود چھوڑ جاتیں۔ خالہ بہت ملنسار تھیں ان کا شوہر اسی اور خاموش اور سنجیدہ تھا۔ وہ کاروباری آدمی تھا ۔ اپنے کام سے کام رکھتا تھا۔ ان لوگوں کو آئے دو برس ہونے والے تھے مگر اس شخص نے محلے کے لوگوں سے راہ و رسم نہ بڑھائی تھی۔ دور سے سلام کرتا۔ سب اسے بد مزاج اور آدم بیزار سمجھتے جبکہ خدیجہ کی خوش اخلاقی کے چرچے تھے۔ ایک دن انہوں نے امی کو بتایا کہ آج میرے شوہر دوسرے شہر جارہے ہیں کسی ضروری کام کے سلسلے میں، رات کو مجھے ڈر لگے گا۔ اکیلی کیسے رہ پائوں گی۔ امی نے کہا۔ تم ہمارے گھر اگر سو جانا۔ بولی۔ مجھے آپ کے گھر نیند نہیں آئے گی۔ چاہتی ہوں گڑیا کو اپنے پاس سلا لوں۔ تم کہتی ہو تو میں تمہارے گھر آکر سو جاتی ہوں۔ والدہ نے دوسری آفر دی ۔ آپ کو تکلیف ہوگی، رات بھر آپ کی کھانسی کی آواز سنائی دیتی ہے۔ وہ تو ہے، کھانسی رات بھر مجھے خود کو سونے نہیں دیتی، آپ کیونکر سو سکیں گی۔ ٹھیک ہے کل اس کے اسکول کی چھٹی ہے، آپ گڑیا کو لے جانا۔ یوں بھی اس کی فرمائش ہوتی ہے کہ خالہ کے گھر میں رہنا ہے۔ خالہ خوش ہو گئیں اور گڑیا کو لے کر اپنے گھر چلی گئیں۔ میں نے نوٹ کیا خالہ زبیدہ سے زیادہ ہماری بچی اس کے ساتھ جانے پر خوشی تھی۔وہ اسے کھلاتی پلاتی اور ساتھ کھیلتی تھیں، اس پر جان چھڑکتی تھیں۔ دن کو بھائی اور بھابی زریں میکے گئے۔ گڑیا جانے پر راضی نہ تھی۔ اس کو بھی نے زبردستی گاڑی میں ڈالا کہ تمہاری نانی تم کو یاد کرتی ہے پر جیسے ہی بھی رات کو گھر لوٹے تو گڑیا دوڑ کر خالہ جی کے گھر پہنچ گئی جیسے اس پر انہوں نے جادو کر دیا ہو۔ سچ ہے پیار بچوں کے لئے جادو کا اثر رکھتا ہے۔ جو زیادہ پیار دے، بچے اسی کے ہورہتے ہیں۔ سبھی سمجھ رہے تھے کہ بے اولاد ہونے کی وجہ سے سرور کی بیوی گڑیا پر جان چھڑکتی ہے۔ پیاسی ممتا کی تسکین کو واری صدقے ہوتی ہے۔ کیا خبر تھی کہ آنے والا وقت ہمیں کیا دکھانے والا ہے۔ دوسرے دن بھی گڑیا کھلا ہے کے گھر رہی امی نے بھابھی سے کہا اسے گھر لے لو، اسے نہ دیکھوں تودل گھبراتا ہے …. آپ کسی کو خوش نہیں دیکھ سکتی ہیں گڑیا، خالہ کے پاس خوش رہتی ہے اور آپ کو پریشانی ہو جاتی ہے۔ آپ نے، اپنا اور دوسروں کا سکون برباد کیا ہوا ہے۔ میں یونیورسٹی گئی ہوئی تھی اور بھائی جان دفتر … بھابھی نے بے د لی سے میری ماں کو چائے اور توس لا کر دیئے ۔ خود ناشتہ کیا اور جاکر اپنے کمرے میں سو گئیں ۔ خالہ ابھی تک کل سے گڑیا کو ہمارے گھر نہ لائیں۔ امی جان کو فکر ہو گئی ۔ انہوں نے مجھے فون کیا کہ کب تک آئو گی ؟ میرا جی گھبرا رہا ہے۔ بھابی کہاں ہیں… وہ صبح کی اپنے کمرے میں گھسی ہے ۔ نکلی نہیں ہے ابھی تک…؟ ہاں! سو رہی ہے اٹھے تو جا کر گڑیا کو لے کر آ ئے میں سمجھ گئی کہ امی گڑیا کی وجہ سے پریشان ہیں۔ میں نے بتایا۔ راستے میں ہوں امی! اس پہنچنے والی ہوں ۔ گڑیا کی آپ فکر نہ کریں۔ میں آتے ہوے گڑیا کو لے آؤں گی – ان کے گھر کا دروازہ کھلا تھا مگر گھر میں کوئی نہ تھا۔ گڑیا تھی اور نہ خالہ… سمجھی کہ ہمارے گھر چھوڑنے گئی ہیں۔ ایسا نہ تھا خالہ آئی تھیں نہ گڑیا- امی مجھے دیکھ کر اٹھیں اوربولیں کیوں میرے پر کو ساتھ نہیں لائی۔ اچھا! حوصلہ رکھے، آتی ہو گی شاید دکان تک گئی ہوں۔ دکان تک گئی ہوں گی ! کیا مطلب …؟ میں خالہ کے گھر سے ہوتی ہوئی آئی ہوں وہاں کوئی نہیں ہے۔ امی نے سر پکڑ لیا۔ جگائو، اسے بتائو کہ گڑیا نہیں ہے۔ امی ! کیا ہوگیا ہے آپ کو … زبیدہ خالہ قریبی اسٹور ضرورت کی اشیاء لینے جاتی ہیں، ضد کر کے گڑیا بھی ان کے ہمراہ گئی ہوگی۔ آجائیں گی۔ مجھے سانس لینے دیں پھر جاتی ہوں ان کے گھر میںنے ہاتھ منہ دھویا لیکن کھانا نہیں کھایا حالانکہ سخت بھوک لگی تھی۔ والدہ کی بے چین طبیعت کو جانتی تھی۔ دوبارہ ان کے گھر گئی گھر اسی طرح بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ دیکھا تو محسوس ہوا کہ سامان غائب ہے آخر بچی کولے کرخالہ کہاں چلی گئیں میں نے انجانے خدشے کے پیش نظر بھائی کو فون کر دیا انہوں نہیں ڈیڑھ گھنٹے میں پہنچنے کا بتایا – بھابھی مسلے پر بیٹھ گئیں – بھائی آ کر پریشن ہو گئے سارا سامان جو خالہ کے گھر پڑا تھا وہ صرف مالک مکان کا تھا محلے کے دکان دار نے صاف کہا کہ آج تو خالہ میرے پاس نہیں آئیں خالہ اور سرور کا کوئی بھی مستقل ٹھکانہ ہمیں معلوم نہ تھا- بھائی تھانے چلے گئے وہاں ہے بیٹھے تھے کہ خدیجہ خالہ کے شوہر کا فون آ گیا اور بتایا کہ ہم مشکل میں پھنس گئے ہیں صبح گڑیا آپ کے پاس ہو گی رات بھر ہم میں سے کوئی سونہ سکا تھا۔ خدا خدا کر کے صبح طلوع ہوئی، سرور کا فون آگیا۔ بھائی! میں راستے میں ہوں، بس چار چھ گھنٹوں بعد ہم پہنچ جائیں گے۔ فکر نہ کریں ، گڑیا خیریت سے ہے۔ دوپہر بارہ بجے دروازے پر دستک ہوئی۔ دل دھک دھک کرنے لگا۔ دوڑ کر بھائی نےدروازہ کھولا۔ سرور کے ساتھ گڑیا آگئی تھی لیکن خالہ موجود نہ تھیں ۔ اللہ کا شکر ادا کیا۔ سرور کو گھر کے اندر بٹھایا۔ گڑیا کو لپک کر بھائی جان نے بانہوں میں اٹھا لیا اور گلے سے لگا لیا۔ بھائی کو بتایا کہ میری بیوی عجب احمق عورت ہے ۔ میرا تبادلہ ہو گیا تو میں نے اسے بتا دیا کہ اب ہم نے واپس جانا ہے ۔ وہ کہتی تھی کہ مجھے نہیں جانا کیونکہ اسے گڑیا سے پیار ہوگیا تھا ۔ آپ کی بچی بھی اس قدر میری بیوی سے پیار کرنے لگی تھی کہ وہ سوچتی کیسے اسے چھوڑ کر جائوں، اسے صدمہ ہوگا، بیمار پڑ جائے گی۔ پھر اس نے عجب بات سوچ لی کہ گڑیا کو ساتھ لے کر نکل جائوں۔ اس روز صبح چھ بجے گھر سے نکل کر لاری اڈے آگئی۔ میرے پاس پہنچی۔ میں اس کے ساتھ آپ کی بچی کو دیکھ کر حیران ہو گیا۔ پوچھا۔ کیوں لائی ہو؟ کیا اس کے والدین کو بتا کر آئی ہو ؟ بولی۔ نہیں کیونکہ میں اس کی محبت میں گرفتار ہوں اور یہ بھی میرے ساتھ مل گئی ہے۔ اگر بتاتی تو کیا اس کے والدین آنے دیتے؟ اب میں اسے نہیں دوں گی، ہمیشہ اپنے پاس رکھوں گی۔ تم بھی کسی کو مت بنانا۔ تم پاگل ہوگئی ہو؟ جانتی ہو کیا کہہ رہی ہو؟ اور ان لوگوں کے بارے میں سوچا ہے جن کی یہ بچی ہے، ان پر قیامت گزر رہی ہوگی۔ تم نے محبت میں اندھی ہو کر اسے ساتھ لے لیا مگر معلوم نہیں ہے کہ کسی کا بچہ بغیر اطلاع کے لے جانا کتنا بڑا جرم ہے۔ ابھی اور اسی وقت اسے واپس کرنا ہوگا ورنہ پولیس تک بات پہنچی تو انجام اچھا نہ ہوگا ۔ بس صاحب! وہ روتی پیٹتی رہ گئی اور میں بچی کو اس سے چھین کر لے آیا۔ آپ لوگوں کے حوالے کرنے کے لئے آپ میری بیوی کو خدا کے لئے معاف کر دیں۔ سرور نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔ وہ نادان ہے بے عقل ہے، قانون کو بالکل نہیں جانتی ۔ اس کی کی محبت میں اندھی ہو گئی ہے۔ بھائی نے کہا ۔ ٹھیک ہے تم نےمیری بیٹی کو صحیح سلامت پہنچادیا ہے، یہی بہت ہے، ورنہ ہم مرجاتے، یہ صدمہ کیسے سہتے۔ آپ کی بڑی مہربانی! میں پولیس میں رپورٹ لکھوانے گیا ہوا تھا کہ آپ کا فون آگیا ہم جسے بد اخلاق انسان سمجھتے تھے، وہ ہمارے لئے فرشتہ ثابت ہوا اور خالہ جسے اپنا سمجھا، اس نے دھوکا دیا۔ انسان کی پہچان بہت مشکل ہے۔ بھابھی کہتی ہیں کہ اب کبھی حما قت سے کام نہیں لوں گی ۔ میرا سارا آرام اور سو سال کی نیندیں گڑیا پر قربان …!