Friday, October 11, 2024

Babu Jee

ہمارا گھرانہ ایک پہاڑی قبیلے سے تعلق رکھتا تھا، جہاں کے رسم ورواج بڑے سخت تھے۔ والد کی وفات کے بعد چچا نے ہمیں میری زندگی کبھی بھی خوشگوار نہیں تھی پہلے باپ مر گیا پھر میری ماں نے ساتھ چھوڑ دیا لیکن جو میرے ساتھ جنگل کے بابو جی نے کیا – اس نے تو میری روح میرے سے چھین لی – اپنی تحویل میں لے لیا کہ اب وہی ہمارے سر پرست تھے ۔ان دنوں میں تیرہ سال کی تھی۔ والدہ میں بیو گی کا دکھ سہنے کی ہمت نہ تھی ۔ وہ اپنے شوہر کی جدائی کا غم بھلا نہیں پاتی تھیں۔ رفتہ رفتہ خود سے غافل رہنے لگیں۔ ہفتوں ہاتھ منہ دھونا اور کپڑے تک بدلنا یاد نہ رہتے تھے۔ کئی کئی دن کھانا کھا ئیں، نہ پانی پیتیں۔اکیلے میں بیٹھ کر خود سے باتیں کرتی رہتی تھیں۔ ایک روز بغیر بتاۓ گھر سے نکل گئیں اور پہاڑی پر چڑھنے لگیں جہاں چشمہ تھا اور وہاں لڑکیاں پانی بھر نے جاتی تھیں۔ چشمے پر امی کا پیر پھسل گیا اور وہ لڑھکتی ہوئی کھائی میں جا گریں۔اس وقت ہمارے محلے کی دولڑ کیاں مشکیزے بھر کر گھر کولوٹ رہی تھیں۔انہوں نے میری ماں کو گرتے دیکھ لیا تھا۔ اپنے مشکیزے وہاں پھینک کر وہ دوڑی ہوئی گھر کو آئیں اور دادی کو اطلاع دی کہ آپ کی بہو کھائی میں گر گئی ہے۔ چچا اور ان کا بیٹا صارم کام کے سلسلے میں گئے ہوۓ تھے۔ دادی نے قریبی رشتے داروں کو خبر کی اور وہ میری ماں کا حال معلوم کرنے کھائی کی طرف نکل گئے۔ دادی رانی در اصل میری دادی کی بہن تھیں۔ وہ بوڑھی او ر بے اولاد تھیں لہذا اب ہمارے پاس رہتی تھیں۔ وہ والدہ کے لئے از حد پریشان تھیں۔ ان دنوں فون عام نہیں تھے اور میرے چچا ہم کو بتاکر بھی نہ جاتے تھے کہ کون سے علاقے کی طرف جارہے ہیں کیو نکہ وہ اپنے کاروباری مسئلوں کو مردوں کا مسئلہ سمجھتے تھے ۔ ہمارا ان سے رابطہ ممکن نہ تھا۔ میں ماں کے سلامت آنے کی دعائیں کر رہی تھی لیکن کھائی ماں کو نگل گئی۔ ان کو اتنی گہرائی میں اتر کر نہ تو کوئی نکال سکا اور نہ میں ان کا آخری دیدار ہی کر سکی۔ جب چچا اور صارم لوٹے ،اس واقعے کو ہوۓ کچھ روز گزر چکے تھے۔ میرا رورو کر برا حال تھا۔ چچانے رسوں کی مدد سے دقتوں سے کچھ لوگوں کو کھائی میں اتار لیکن انہوں نے دور سے ہی دیکھ لیا تھا کہ میری ماں کا جسد خاکی سلامت نہ رہا تھا۔ پہاڑی جانوروں نے ان کے تن مردہ کو کھالیا تھا۔ ماں تو داغ مفارقت دے گئی ،اب میں بوڑھی دادی کی گود میں سر رکھ کر سسکتی رہتی تھی ، وہ مجھ کوماں جیسا پیار کرتی تھیں۔ صارم کو بھی سمجھاتی تھیں کہ ان دنوں مجھ کو بالکل تنگ نہ کرے۔ وہ جب بھی مجھ سے کوئی کام کروانے کی کوشش کرتا، میں تنگ ہو جاتی۔ جی نہ چاہتا کوئی کام کروں۔ وہ مجھے ستانے لگتا۔ تب دادی اس کو مارنے کو لکڑی اٹھالیتی مجھے اپنا یہ چچا زاد بلکل بھی پسند نہیں تھا کیو نکہ اس کو ہر کسی پر حکم چلانے کی عادت تھی۔ اس کی ماں بھی بچپن میں فوت ہو گئی تھی ۔ دادی رانی نے ہی اس کو پالا تھا، وہ اس پر شکرے کی طرح نظر رکھتی تھیں، تبھی وہ زیادہ تر گھر سے باہر ہی رہتا تھا۔ مجھ کو دادی بھی محلے کی لڑکیوں کے ساتھ باہر جانے سے نہیں روکتی تھیں کیو نکہ جہاں ہم رہتے تھے وہاں باہر کے مرد نہیں آتے تھے۔ بکریاں چرانا، پانی لانا اور ایندھن کے لئے لکڑیاں اکٹھی کر نا ہماری ذمہ داری ہوتی تھی۔ جن پہاڑوں پر ہم لکڑیاں اکٹھی کرتی تھیں وہاں کا ایک محافظ ہماری تاک میں رہتا تھا کیو نکہ کچھ لڑکیاں گری ہوئی لکڑیاں اکٹھی کرنے کی بجاۓ جنگل کی جھاڑیاں توڑ کر گٹھے بنالیتیں جبکہ یہاں درختوں کو کاٹ کر لکڑیاں اکٹھی کر نا منع تھا۔ البتہ گری ہوئی ٹہنیوں کو اکٹھا کرنے پر محافظ کچھ نہیں کہتے تھے۔ ایک دن ہماری پڑوسن لڑکی مہر نے کچھ لکڑیاں چن کر گٹھا بنایا اور ایک جگہ رکھ دیا اس کے دل میں لالچ آ گیا۔ عصر کا وقت تھاوہ سمجھی کہ محافظ اب نماز کو چلا گا ہو گا۔ جنگل کا محافظ تو چلا گیا تھا لیکن ان کا افسر اتفاق سے گشت پر نکلا ہوا تھا۔ جب اس نے اوپر والی پہاڑی سے لڑکی کو جھاڑی کا ستیاناس کرتے دیکھا تو جلدی جلدی نیچے اترنے لگا اور اس نے آواز بھی لگائی۔ آواز سن کر مہر کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ وہ لکڑیوں کا گٹھا چھوڑ کر سرپٹ بھاگی اور جنگل میں ایک جانب سے نکل گئی۔ اب اس کو تلاش کر نا مشکل تھالیکن میں قریب ہی لکڑیاں چن رہی تھی ، بھاگ نہ سکی کیونکہ میرے سر پر ۔ لکڑیوں کا گٹھا تھا۔ میں نے شاخیں نہیں توڑی تھیں لہذا میں اپنی چنی ہوئی لکڑیوں کو پھینک کر بھاگنا نہیں چاہتی تھی – ورنہ میری دن بھر کی محنت ضائع ہو جاتی ۔ جب میں نے دیکھا کہ افسر جس کو محافظ بابو جی کہتے تھے۔ تیزی سے میری جانب آرہا ہے تو میں ڈر گئی۔ سب لڑکیاں سر کاری جنگل کی حدود سے بھاگ کر گھروں کی جانب نکل گئی تھیں لیکن میں پیچھے رہ گئی تھی۔ میں نے بھی بھاگنا بہتر جانا تھی میرا پائوں ایک پتھر سے ٹکرا گیا اور میں دھڑام سے گر گئی۔ایک لمحے کے لئے تو مجھے ہوش ہی نہ رہا کہ کیا ہوا ہے ؟ آ نکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور حواس جاتے رہے۔اچانک ہی محسوس ہوا کہ کسی نے مجھے تھام لیا ہے ۔ میں نے حواس مجتمع کر کے دیکھا تو وہ جنگلات کا آفیسربابو تھا۔ بابوجی یہاں پر نیا نیا آیا تھا۔ وہ نوجوان بہت خو بر واور پر کشش انسان تھا۔ اس کو اس قدر خود سے قریب دیکھ کر میرا دل حلق میں آ گیا اور ہاتھ پائوں ٹھنڈے ہو گئے۔ اس نے نرمی سے کہا۔ ڈرومت، تم کو چوٹ تو نہیں گی ؟ اس کا انداز ایسا تھا کہ مجھے یقین ہوا افسر بابو کا مجھ کو سزادینے کا ارادہ نہیں ہے۔ پھر اس نے میرا نام پوچھا۔ میں نے مجھجکتے ہوۓ اس کو اپنانام بتادیا کہ میر انام عنمر ا ہے ، تبھی میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ کیا میں لکڑیاں اٹھالوں ؟ ہاں اٹھالو۔ اس نے کمال شفقت کا مظاہرہ کیا، تب میں نے جلدی سے لکڑیوں کا گٹھا اپنے سر پر رکھ لیا۔ میں چلنے لگی تو وہ بولا۔ دیکھو آئندہ شاخوں سے لکڑیاں مت کاٹنا۔ میں نے نہیں کاٹیں ، وہ دوسری لڑکی تھی۔ ایک قدم ہی چلی تھی کہ اس کی نظر میرے پائوں پر پڑ گئی۔ پیر سے خون نکل رہا تھا لیکن اس دم مجھ کو چوٹ یادرد کا احساس نہیں تھا۔ جب اس نے میرے پائوں کی طرف اشارہ کیا تو خون دیکھ کر میرا براحال ہو گیا۔ آنکھیں پھیل گئیں اور شدت سے درد کا احساس ہوا۔ میں رونے لگی۔ ذرا ٹھہرو بابوجی نے کہا۔ یہاں بیٹھو۔ وہ سامنے جیپ میں سامان ہے ،ابھی پٹی اور دوالا تا ہوں ، تم جانا نہیں۔ میں جاتی ہوں دیر ہو جاۓ گی ، میں گھر پر پٹی کر لوں گی۔ تمہارے پٹی کرنے سے زخم ٹھیک نہ ہو گا۔ اس نے اصرار کیا اور لمبے لمبے ڈگ بھر تا تیزی سے جار ہا تھا جیسے اس کو ڈر ہو کہ میں پلک جھپکتے میں بھاگ جائوں گی۔ایک لمحے کو میں اٹھی۔ بھی کیا کہ بھاگ جائوں لیکن پھر مجھے محنت سے اکٹھی کی ہوئی لکڑیوں کا خیال آ گیا۔ اس نے واپس آنے میں پانچ منٹ لگاۓ ہوں گے ۔ ہاتھ میں دوا کاڈ باتھامے ، تیزی سے بھاگتا مجھ تک آ پہنچا تھا۔ میرا نام سمیع ہے۔اس نے روٹی کو دوائی میں بھگوتے ہوئے بتایا۔ میرا پائوں اس کے ہاتھ میں تھا اور میں مدہوش بیٹھی تھی۔اس کے اجلے اجلے ہاتھ اور میر امٹی سے اٹا ہوا پائوں ، مجھے بر الگ رہا تھا۔ اپنے پیر دیکھ کر شرم آرہی تھی۔ میں دم سادھے بیٹھی تھی۔ زخم صاف کر کے اس نے رول کھولا اور میرے پائوں پر کسی ماہر ڈاکٹر کی طرح پٹی کر دی۔ مجھے کو پہلی بار ماں کے مرنے کے بعد راحت نصیب ہوئی تھی ، جو ماں کے پیار بھرے ہاتھوں کے لمس سے محسوس ہوتی تھی۔ میں اس راحت کی سر شاری سے مسکرادی۔ جب میں جانے لگی تو اس نے کہا۔ پانی میں پائوں نہ ڈالنا اور جب تک زخم ٹھیک نہ ہو جاۓ پٹی کرتی رہنا۔ وہ سامنے میراگھر ہے ، ہر روز شام کو آکر پٹی کر وا جانا۔ میں نے اثبات میں سرہلا دیا اور زخمی پیروں سے چلتی ہوئی گھر آگئی۔ میری روح ہلکی پھلکی ہو چکی تھی اور سب دکھ درد بھول کر آج بات بات پر ہنس رہی تھی۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کسی لڑکی کی ایسی کیفیت کب اور کیوں ہوتی ہے۔ مجھے بابو پسند آگئے تھے۔ وہ ایک حسین آفیسر تھے پھر انہوں نے مجھ سے کمال مہر بانی کا سلوک کیا تھا۔ کیوں نہ خوش ہوتی ، کیوں نہ مسکراتی ؟ دوسرے دن تک سرور کی کیفیت میں ڈوبی رہی۔ پائوں کی دکھن میں بھی ایک مزہ تھا۔ شام ہوئی تو دل بابو کے بنگلے کی طرف کھینچنے لگا۔ حالانکہ خود کو سمجھاتی تھی کہ ان کے بنگلے کی طرف نہیں جانا ہے ۔ ہم غریبوں کو زخم تو لگتے ہی رہتے ہیں ، آپ ہی ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں۔ ہم تو ایسے زخموں کے عادی ہوتے ہیں۔ عصر کے وقت میں خود کو نہ روک سکی اور دادی سے رشنا کے گھر کا کہ کر نکل پڑی۔ جب وہاں پہنچی توبابو جی میرے انتظار میں ٹہل رہے تھے ۔ وہاں دو کرسیاں اور ان کے درمیان ایک چھوٹی سی گول میز رکھی تھی جس پر دوائیوں کا بکس دھراتھا۔ مجھ کو دیکھ کر ان کے چہرے پر خوشی بکھر گئی۔ کرسی کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ بیٹھو میں ہاتھ کو دھو کر آتاہوں اور ابھی پٹی کر دیتا ہوں۔ دراصل وہ ملازم سے چاۓ بنانے کو کہنے گئے تھے۔ دوالگا کر نئی پٹی کر دی۔ میں اٹھ کر جانے لگی تو اس نے ملازم کو آواز دی اور مجھے کہا۔ ابھی ذرادیر بیٹھو۔ ملازم چاۓ کی ٹرے لے کر آ گیا۔ طشتری میں ایک اور کھانے پینے کی اور بھی چیزیں تھیں۔ میں چاۓ نہیں پیتی ۔ بیٹھو۔ اس نے سختی سے حکم دیا۔ میں بیٹھ گئی۔اس کے رعب میں آ کر جلدی جلدی چائے کی پیالی حلق میں انڈیلی اور کل آنے کا وعدہ کر کے بھاگ آئی۔ جس جگہ کانٹے چھے تھے وہاں در در ہتا تھا۔ سوچا کہ ایک دفعہ اور دوالگوالوں اور پٹی بھی کر والوں۔ یہاں ہمارے علاقے میں دور دور تک کوئی ڈسپنسری نہ تھی۔ ایسا نہ ہو کہ پیر پک جاۓ ، تبھی آج بھی عصر کو گھر سے نکلی اور بائوجی کے بنگلے پر پہنچ گئی ۔ وہ کل کی طرح لان میں منتظر تھے۔ مجھ کو دیکھتے ہی بولے ۔ زخم کیسا ہے ؟ کیا بتاتی کہ پیر کا زخم تو ٹھیک ہو رہا ہے لیکن روح کا غم بڑھتا جاتا ہے۔ میں ایک ایسے مرض کے گھیرے میں آچکی تھی کہ جس کا کوئی علاج نہ تھا۔ اب مجھے بابو کو دیکھے بنا چین نہ آتا تھا۔ زخم ٹھیک ہو گیا۔ میں اس طرح لکڑیاں چننے کے بہانے نکلتی پھر سہیلیوں کے ساتھ چند قدم چل کر اپنی راہ لیتی۔ درختوں کے جھنڈ میں کھڑی جیپ میں بیٹھ جاتی اوراس کے ساتھ دور سیر کو نکل جاتی ہے ۔ مجھے گاڑی میں بیٹھ کر سیر کرنا اچھا لگتا تھا، یہ میر اخواب تھا جو پھر ایک اور خواب میں تبدیل ہو گیا کہ میں ہمیشہ کے لئے بابو جی کی بن جائوں۔ دادی پو چھتیں دیر کیوں کر دی؟ کہتی ، پائوں دکھتا ہے ، چلا نہیں جاتا۔ حالانکہ جانتی تھی کہ صارم کی منگیتر ہوں اور یہ منگنی بچپن کی ہے لیکن میں تواونچے محلوں کے خواب دیکھنے لگی تھی۔ ب ڈاک بنگلے کو اپنا گھر سمجھنے لگی تھی۔ اس نے اپنے پیار بھرے رویے سے میرادل جیتا تھا لیکن زبان سے یہ نہیں کہتا تھا کہ میں تم سے شادی کروں گا۔ سکھ کے دن گزرتے دیر نہیں لگتی۔ ایسے ہی ملتے اور پیار کی گھڑیاں ہنس بول کر گزار دیتے۔ چھ ماہ میں ہی ہم ایک دوسرے کے اس قدر قریب آگئے کہ جیسے جنم جنم کے ساتھی ہوں۔ ایک روز میں نے اس سے کہا کہ اب شادی کئے بنا چارہ نہیں ہے ۔ یہ کس طرح ممکن ہے ؟ تمہارے قبیلے والے تمہارا ہاتھ مجھے نہیں دیں گے اور تمہیں لے کر یہاں سے نکل جانا ممکن نہیں۔ میں ایک ذمہ دار سرکاری ملازم ہوں۔ تمہیں آخر میں کہاں چھپاؤں گا۔ اب بتائو ہم کیسے شادی کر سکتے ہیں ؟ تم نے پھر مجھ سے پیار کارشتہ کیوں بڑھایا۔ اب میں کیا کروں ، کیا کسی پہاڑی سے کود کر جان دے دوں ؟ میں تمہارے بغیر مر جائوں گی ۔اس کی نوبت نہیں آۓ گی۔ مجھے سوچنے کا موقع تو دو۔ اس نے کہا۔ جب میں نے دو تین بار اس بارے میں بات کی تو اس نے بھاگ دوڑ کر کے اپنا تبادلہ کر والیا اور مجھ کو بتاۓ بغیر اپنا ڈاک بنگلہ چھوڑ کر چلا گیا۔ بتا نہیں سکتی کہ سمیع کے اس چوری چھپے جانے سے میری کیا حالت ہوئی۔اس کے تبادلے کی خبر مجھ پر بجلی بن کر گری تھی۔ کئی دن چپ چپ کر روتی رہی تھی۔ میری اداسی کو دادی نے بھی محسوس کر لیا۔ انہی دنوں وہ بیمار پڑ گئیں۔ عید آنے والی تھی ، چچا اور صارم اکٹھے گھر آگئے تو دادی نے واویلا مچادیا کہ میرے ہوتے اس کی شادی کر دو، اب کوئی بہانہ نہیں سنوں گی۔ دادی نے اتناد بائو ڈالا کہ بالآخر عید کے بعد میری شادی صارم سے کر دی۔ وہی صارم جو مجھے بر الگتا تھا، جس کی صورت دیکھنا پسند نہیں کرتی تھی مگر مجھ مرتی سسکتی کو آخر گلے لگایا بھی تو اس نے ۔ بابو ا یک غیر آدمی تھا جس کے عہدے اور عمدہ لباس سے مرعوب ہو کر میں نے اپنادل اس کے سپر د کر دیالیکن وہ مجھے بیچ منجدھار میں چھوڑ کر چلا گیا۔ ایک لمحے کے لئے بھی نہ سوچا کہ میرا کیا بنے گا۔ یہ تو قدرت مجھ پر مہربان تھی کہ رسوا ہونے سے پہلے میری شادی ہوگئی ورنہ سارے لوگ مل کر مجھے زندہ گاڑھ دیتے میں نے نادانی میں اس سے سچی محبت کی لیکن وو صرف دل لگی کر کے وہاں سے چلا گیا – اپنے چاہے کتنے ہے بڑے کیوں نہ ہوں مشکل میں وہی پناہ دیتے ہیں-

Latest Posts

Related POSTS